Urdu Novel ISHQ HA TUM SE

151 9 2
                                    

Novel
ISHQ HA TUM SE
Writer Rubab faizan
Episode one (01)
اسے اپنے ساتھ ہونے والا وہ واقعہ یاد آ گیا جسیے وہ یاد نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اپنے کسی جان سے زیادہ پیارے شخص کو اتنی تکلیف میں دیکھنا،  اس نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا وہ کیسے بھول سکتا تھا ....
سردی کی اس ٹھنڈی اور تاریک رات میں جب کہ لوگ سو چکے تھے ہر طرف خاموشی اور تاریکی چھائی ہوئی تھی وہ بھی خاموشی سے اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا جہاں اسے کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا نہ ہی کوئی سن سکتا تھا وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا، اپنے آپ کو مخاطب کرکے بولا ۔۔۔۔ تمہاری سسکیاں کوئی نہیں سن سکتا اور نہ ہی کوئی دیکھ سکتا ہے تمہارے سینے پر کیے گئے وار جس نے تمہیں اس فانی دنیا سے بے نیاز کر دیا ہے ۔۔۔۔سوچا ہے تم نے کبھی ۔۔۔؟ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اندر ہی اندر بغیر مرہم کے اپنے آپ کو ایک بار پھر سے دنیا کے قابل بنانا ، ایک بار پھر اس بے رنگ سے چہرے پر مسکراہٹ سجانا اور لوگوں کا سامنا کرنا ۔۔۔۔
اس کے چہرے پر تکلیف سے کرب کے آثار نمایاں تھے ۔۔۔ایسا محسوس ہوتا تھا کسی نے اس کی ذات کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے تھے غصے اور طیش سے اس کی آنکھیں لال انگارہ بنی ہوئی تھی ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگاتا وہ شاید اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہ رہا تھا جوکہ مزید بھڑک رہی تھی ۔۔۔۔!
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اس نے کوئی جواب نہیں دیا ایک اور دستک دینے کے بعد ملازم نے دروازے کے باہر سے ہی مخاطب کیا۔۔۔۔؟"  چھوٹے صاحب بڑے صاحب آپ کو کھانے کے لیے بلا رہے ہیں اس نےاپنے آنسوؤں کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنی آواز پر قابو کرکے کہا بابا سے بولیں  میں پانچ منٹ میں آتا ہوں۔۔۔۔" 
*********
یار مصطفی۔۔۔؟ مصطفیٰ بات تو سن ۔۔۔زیان بھاگتا ہوا آیا_ ہاں بول کیا بات ہے ....؟ مصطفی نے  آئی برو اٹھا کر سوال کیا ... یار وہ انگلش کے سر  بہت غصہ ہو رہے تھے تو اتنے دنوں سے چھٹیوں پر  ہے اور آج بھی انگلش کی کلاس بنک کی ،زیان بہت گھبرایا ہوا لگ رہا تھا . چل تو فکر نہ کر میں ان کو خود دیکھ لوں گا ابھی فی الحال میرے ساتھ کیفے چل مصطفیٰ نے بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا اور دونوں کیفے کی طرف چل دیئے       ***
حیا اگر تم  نے نوٹس کمپلیٹ کر لیے ہیں تو مجھے بھی دے دو میں بھی کرلوں ، فاطمہ نے حیا اسے کہا ... حیا نے ناک چڑھا کر فاطمہ کی طرف دیکھا اور ماتھے پر پڑی ہوئی سلکی لٹوں کو ہاتھوں کی مدد سے پیچھے کیا ۔۔حیا جو کہ سفید کلر کی جینز اور ڈارک بلو کلر  کی شرٹ میں انتہا کی خوبصورت لگ رہی تھی ، لمبے ، سیدھے سیاہ  اور گھنے بال پیچھے کمر پر پڑے ہوئے تھے کسی آبشار کی صورت  ،اس کی بڑی اور بھوری آنکھوں پر سیاہ اور گھنی پلکوں کا سایہ تھا مغرور سے اونچی ناک ،  اس کی آنکھوں میں چاندنی سی چمک تھی اور چہرہ ملائی کے جیسا لگتا تھا سفید ،ملائم اور چمکدار۔
اس کی دودھ جیسی سفید رنگت پر ہلکا سا میک اپ وہ کسی شہزادی کی جیسے لگ رہی تھی جس کے لئے کوئی بھی شہزادہ آسانی سے مل سکتا ہے .....
اس میں کوئی شک نہیں تھا وہ بلا کی خوبصورت اور حسین لڑکی تھی دیکھنے والے اسے دیکھتے ہی رہ جاتے تھے . . . .
***
وہ بڑی خاموشی سے راہداری سے چلتا ہوا اندر آیا ۔۔۔ مصطفی ...؟ بڑی دیر کر دی بیٹا  گھر آنے میں ...؟ کمال صاحب نے اخبار سے نظریں  ہٹا کر مصطفی کو اندر آتا دیکھ کر  کہا . مصطفی نے شرارت سے کان پکڑتے ہوئے کہا کچھ نہیں بابا بس ٹریفک میں ذرا پھنس گیا تھا ۔۔۔ کمال صاحب بیٹے کی اس حرکت پر ہنس دیے ، مصطفی بھی باپ کو دیکھ کر مسکرانے لگا ۔۔۔۔ بابا ۔۔۔؟ ماما کہاں ہیں ؟
نرگس جلدی سے کھانا لگاؤ فرحت بیگم نے زینے اترتے ہوئے  سامنے کھڑے مصطفی کو دیکھ  کر ملازمہ کو مخاطب کیا ،جی بیگم صاحبہ ابھی لگاتی ہوں وہ یہ کہتے ہوئے باورچی خانے میں چلی گئی ۔۔۔۔
ماما ...؟ ماما آپ لوگوں نے آج پھر ابھی تک کھانا نہیں کھایا ؟ اس کی آواز میں پریشانی صاف ظاہر تھی ، آپ لوگوں سے کتنی بار کہا ہے اگر میں لیٹ ہو جاؤں تو آپ لوگ کھانا کھا لیا کریں بابا نے میڈیسن بھی لینی ہوتی ہیں ،کمال صاحب بلڈ پریشر کے مریض تھے  فرحت بیگم مصطفی کو دیکھ کر مسکرانے لگیں جو ناراضگی سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا  ... کمال صاحب نے کہا برخوردار جب تک آپ گھر نہیں آتے آپ کی ماما کے حلق سے ایک نوالہ بھی نیچے نہیں اترتا اور جب تک آپ کی ماما نہ کھانا کھا لیں ہم کیسے کھا سکتے ہیں ، اب کی بار انہوں نے شرارت سے فرحت بیگم کو چھیڑتے ہوئے کہا ، فرحت بیگم نروٹھے سے انداز میں اپنے مزاجی خدا کو دیکھ کر مسکرانے لگیں ، پھر وہ تینوں ہنسنے لگے اور کھانے کی ٹیبل پر چلے گئے...
***
حیا جانتی تھی کہ بابا اس وقت غصے میں ہیں اس لیے اس نے اپنے مخصوص انداز میں ان کو پیچھے سے آ کر گلے لگایا اور پھر آگے بڑھ کر ماتھے پر بوسہ دیا . ہاشم صاحب نے ناراضگی سے حیا کو دیکھا جو کہ اپنی انگلی دانتوں میں دیے ان کے سامنے مجرم سے بنی کھڑی تھی ، آپ کا موبائل کیوں آف تھا حیا کب سے آپ کے نمبر پر ٹرائے کر رہے ہیں مسلسل بند جا رہا ہے،  آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں جب تک آپ واپس گھر لوٹ کر نہیں آتی ہم دونوں کو سکون نہیں ملتا ...ہاشم صاحب نے پھر صائمہ بیگم کی طرف دیکھا جو کہ ناراضگی سے دوسری طرف منہ موڑ کر بیٹھی ہوئیں تھیں . حیا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی بچپن میں ہی اس کی بڑی بہن کا انتقال ہو گیا تھا تب سے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھی  ۔ہاشم صاحب مغل ہونے کے باعث نسل در نسل خاندانی بہت رئیس تھے ۔ ان کے ہاں دولت کی ریل پیل تھی کوئی بھی ایسی خواہش نہیں تھی حیا کی جو بچپن سے لے کر آج تک پوری نہ ہوئی ہو ...
بیگم اب منہ موڑ کر کیوں  بیٹھی ہیں آپ یہ سب آپ کے لاڈ پیار کا ہی نتیجہ ہے ، ہاشم صاحب نے اپنی بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اب تک دوسری طرف ہیں منہ موڑ کر بیٹھی ہوئیں تھیں .. ہاں۔۔۔ ہاں اب آپ سارا الزام مجھ پر لگا دیں آپ تو جیسے کچھ کرتے ہی نہیں ہیں مجھ سے زیادہ یہ سب آپ کی اپنی شہ ہے ۔۔۔۔۔ حیا پیار سے اپنے ماں باپ کو لڑتے ہوئے دیکھ رہی تھی ، اچھا میرے پیارے ماما بابا آئی پرامس  ( I promise ) آئندہ کبھی بھی آپ لوگوں کو میرا نمبر آف نہیں ملے گا ، فل چارج کرکے رکھوں گی ، آپ دونوں لڑنا تو بند کریں ، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے آئیں چلیں کھانا کھاتے ہیں .
******
سہ پہر کی ٹھنڈی سی چھایا ہر سو چھائی ہوئی تھی اس وقت وہ اپنے کمرے میں کتابوں میں گھسی ہوئی پڑھنے میں سخت مصروف تھی ۔۔۔ اون نیو میسج( One New Message ) حیا کے موبائل کی سکرین جگمگا رہی تھی ۔اففففففف یار ایک تو اس فاطمہ کو بھی چین نہیں ہے سکون سے پڑھنے بھی نہیں دیتی بعد  میں بات کرتی ہوں اس سے پہلے اسائنمنٹ کمپلیٹ کر لوں ، حیا نے اپنے سلکی بالوں کی موٹی سی لٹ ہاتھوں سے پیچھے کرتے ہوئے کہا ، دوبارہ موبائل کی رینگ ٹون بجی
(  Two New Messages )ٹو نیو میسجز
اوفو..!  فاطمہ کی بچی آج میں نہیں چھوڑوں گی تمہیں ، حیا نے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا ...
Hello..?                                       ہیلو۔۔۔۔۔؟
Asalam o Alaikum ...? اسلام وعلیکم۔۔۔۔؟
یہ کس کا نمبر ہے حیا سوچنے لگ گی لیکن میسج کا کوئی جواب نہیں دیا اور دوبارہ پڑھنے میں مصروف ہو گی تھوڑی دیر بعد پھر موبائل کی رینگ بجی ۔۔۔۔
دوسری جانب بیٹھا ہوا شخص شاید بہت بے چین تھا  ۔۔۔۔? Haya I want to Talk you
اگر آپ کو کوئی تکلف نہ ہو اور مصروف نہ ہوں تو ضرور جواب دیجئے گا .
حیا کو تجسّس ہوا کہ یہ کون ہو سکتا ہے اور اسے میرا نام کیسے پتہ ...؟
اس نے سیل فون سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور میسج بھیجنے والے کے بارے میں سوچنے لگی اسی کشمکش میں  تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی..... کمینگ ، ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی ، حیا بی بی صاحب نیچے چائے کے لیے بلا رہے ہیں حیا نے اس پر نظر ڈالے بغیر اثبات میں سر ہلایا ۔ جو کوئی بھی ہے میں کیا کروں خود ہی میسج کرکے تنگ آ جائے گا تو نہیں کرے گا ۔ وہ عادتاً سیاہ بالوں کی موٹی لیٹ انگلی میں لپٹتے خود سے ہمکلام تھی ۔"
*********
بابا جیکی( Jackey) کہاں ہے ...؟ مصطفی نے اپنے پالتو کتے کے بارے میں کمال صاحب سے پوچھا جو کہ باہر لان میں ہی بیٹھے دھوپ سیک رہے تھے ، بیٹا۔۔ سلیم شاید اسے باہر گھمانے لے کر گیا ہے آتا ہی ہوگا . مصطفی کو اپنی فیملی کے بعد شاید جس سے بے حد محبت تھی وہ جیکی تھا اور جیکی بھی مصطفی کے ساتھ بے حد اٹیچ تھا ۔
*****
ماما بس یہ سمسٹر ختم ہو جائے تو ایک باہر کا ٹور کرتے ہیں تقریبا چھ مہینے ہو گئے ہیں آپی بھی نہیں آئی اور ہم بھی نہیں گئے،
مصطفیٰ نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا . فرحت بیگم اور کمال صاحب جانتے تھے کہ دونوں بہن بھائیوں میں بے انتہا پیار ہے ،بچپن میں  بھی لڑتے جھگڑتے تھے اور ایک دوسرے کے بغیر رہتے بھی نہیں تھے ۔۔۔تقریبا ہر سمسٹر کے بعد مصطفی ایک باہر یو۔کے کا ٹور  لازمی لگاتا تھا علیشہ اور بچوں سے ملنے کے لیے ۔۔۔ارے ہاں ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے علیشہ کی کال آئی تھی اور وہ تمہارا ہی پوچھ  رہی تھی فرحت بیگم کو اچانک یاد آیا ، یہ بات سن کر مصطفی کی ہلکی سی مسکان مزید گہری ہو گئی ۔۔۔علیشہ مصطفی کی بڑی بہن تھی جو کہ تقریبا چھ سال بڑی تھی مصطفی سے،  کمال صاحب کے معزز دوست احمد صاحب کے صاحبزادے حیدر جو کہ شروع سے یو۔کے میں سیٹل تھے وہ علیشہ  کے شریک حیات تھے احمد صاحب نے بچپن سے ہی علیشہ کا رشتہ اپنے بیٹے حیدر سے طے کیا ہوا تھا حیدر بھی دل ہی دل میں علشیہ کی محبت کا اسیر تھا . آج سے تقریبا پانچ سال پہلے دونوں کی بہت دھوم دھام سے شادی ہوئی تھی اب دونوں کے دو بچے تھے بڑا بیٹا یوسف چار سال کا تھا اور بیٹی عنائیہ ڈیڈھ سال کی  تھی ۔مصطفی کو اپنی بہن کے بچوں سے بے انتہا محبت تھی اور دونوں بچے مصطفی کے ساتھ بہت ایٹیج تھے خاص طور پر یوسف ...
******
وہ پرس کندھے سے لٹکائے ،باریک ہیل سے  چلتی پورچ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف آئی , بابا ڈرائیور کہاں ہے۔۔۔۔؟  مجھے لیٹ ہو رہا ہے آج فرسٹ پیریڈ  میں سر فرقان کا  بہت امپورٹنٹ لیکچر ہے وہ میں مس  نہیں کر سکتی حیا نے روانی میں سب کچھ بولا ... ریڈ کلر کی ٹاپ اور وائٹ جینز میں ہلکا سا میک اپ اور بالوں کی اونچی سی سی ہائی پونی بنائی ہوئی تھی وہ ہمیشہ کی طرح خوبصورت لگ رہی تھی .
بابا۔۔۔۔کہاں رہ گئے ہیں رفیق انکل حیا نے جھنجلاہٹ سے پوچھا ، سامنے کھڑے ہاشم صاحب نے ایک بار پھر  رفیق کو آواز دی ۔۔ اتنے میں سامنے سے آتے ہوئے رفیق نے فورا آواز دی جی بی بی آگیا بس ۔۔۔جلدی کریں مجھے لیٹ ہو رہا ہے ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا حیا بابا کو اللہ حافظ کہتے ہوئے  گاڑی میں  بیٹھ گئی اور یونیورسٹی کی طرف نکل گئی ...
*********
یونیورسٹی کی راہداری میں پہنچتے ہی حیا کو سامنے سے فاطمہ مل گی ،  جلدی جلدی چلو یار فاطمہ سر آنے والے ہوں گے حیا نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا ، یار میں نے تو کل کا لیکچر بھی نوٹ نہیں کیا... فاطمہ نے پریشانی سے حیا کو کہا وہ دونوں تیز تیز قدموں کے ساتھ کلاس کی طرف جا رہے تھے.
تھینک گاڈ سر نہیں آئے ابھی تک !  حیا نے کلاس میں پہنچتے ہی سکون کا سانس لیا .
یہ پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی جو کہ  National University of science and technology  کے نام سے جانی جاتی تھیں تھی ہر روز کی طرح آج بھی طلباء و طالبات سے بھری پڑی تھی .... کوئی اپنی کلاس میں مصروف تھے کوئی ٹہلنے میں کوئی کیفے میں تھا تو کوئی کھیلنے میں مصروف تھا ، یونیورسٹی کی کچھ طلبہ کھیلنے میں مصروف ہوتے  ہیں اور کچھ پڑھائی میں مصروف ہوتے ہیں جو کہ ابھی بھی رٹا لگا رہے تھے .
بی- ایس- سی کے طلباء جن کی انگلش کی کلاس ہونے والی تھی سر فرقان کے انتظار میں تھے .
سب لوگوں کے پاس لیکچر کو ٹالنے کے لیے ایک ہی امید تھی اور اس بار بھی مصطفیٰ ان کی امید پر پورا اترا تھا .
پرفیسر نے کلاس میں داخل ہوتے ہی رول کال کی اس دوران ان کی نظر ایک نام پر پڑی اور وہ تھا مصطفی کمال  ، اب مصطفی کی اور پرفیسر کی بحث ہونے والی تھی سب ہی جانتے تھے ، مصطفی پوری تیاری کے ساتھ مطمئن ہوا بیٹھا تھا اور سر کی طرف پوری توجہ سے دیکھ رہا تھا .
حیا نے منہ چڑھا کر بولا یار یہ انتہائی ڈھیٹ لڑکا ہے خود تو اچھے نمبرز سے ٹاپ کر لیتا ہے اور باقی سب کا ٹائم ضائع کرتا ہے۔۔۔۔
ہاں تو مصطفیٰ پچھلے تین دنوں سے کہاں غائب تھے آپ ۔۔۔؟ پرفیسر نے اپنے مخصوص انداز میں چشمے  کے نیچے سے دیکھتے ہوئے سوال کیا ، سر جیکی کی طبیعت خراب تھی تھی اس نے بغیر اثر لیے جواب دیا ۔۔۔۔
آدھے طلباء ہنسنے لگے اور باقی حیران کن نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے سب جانتے تھے سر فرقان کے غصے کو ،لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مصطفی سر کا پسندیدہ طلبہ تھا ،وہ بے شک تھوڑا لاپرواہ تھا لیکن اس کی لیاقت کی کوئی مثال نہیں ۔ کلاس میں آئے یا نہ آئے  اس کی تمام اسیمنیٹ کمپلیٹ اور سب لیکچرز اس کو کلیر ہوتے تھے . تھوڑا سا شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بلا کا مغرور تھا ، سٹوڈنٹس  اور سب ٹیچرز کا لاڈلا بھی تھا . جیکی کون ...؟who is jacky  سر فرقان نے ذرا سختی سے اپنے انگلش ایکسنٹ میں ہی سوال کیا۔۔۔
سر وہ میرا  ڈوگ ہے میرے پالتو جانور ہے اس کے بعد تو مصطفیٰ  نے جیکی کی شان میں جو قصیدے پڑھنے شروع کئے پورے پانچ منٹ گزر گئے  اور سر فرقان کا چہرہ دیکھنے والا تھا جو کہ غصے سے لال سرخ ہو رہا  تھا, زیان نے مصطفی کو اپنی کہنی ماری تو مصطفی کو ذرا ہوش آیا اور وہ سنبھل کر بیٹھا ،ساری کلاس مصطفی کی باتوں سے لطف اندوز ھو رھی تھی اور حیا غصے میں بیٹھی مصطفی کی بورنگ باتیں سن رہی تھی جس میں اس کو زرا بھی دلچسپی نہیں تھی .
سر نے اپنے غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے مزید بحث سے اجتناب کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مصطفیٰ کمال سے کوئی بھی نہیں جیت سکتا انہوں نے رول کے بعد لیکچر دینا شروع کیا جبکہ کلاس اؤور ( over )ہونے میں کچھ ہی وقت رہ گیا تھا .
*******
جاری ہے۔۔۔❤️
Apka interest show krwaye ga next episode post krni chye ya Nai.. 😊
Feedback zrur dijaye ga .. 😊

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Feb 04, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

ISHQ HA TUM SEWhere stories live. Discover now