پہلی قسط

66 9 32
                                    

میں مغرور سا لڑکا ہوں،اوروں سے کہتے سنا ہے۔

مجھے لوگوں کے معاملات میں دلچسپی لینا پسند نہیں،
میں لوگوں کی زندگی میں دخل دینا پسند نہیں کرتا
،میں اپنے مفاد کی خاطر لوگوں سے دوستیاں نہیں رکھتا،
نا ہی میں کسی کے سامنے اچھا بننے کی کوشش کرتا ہوں،
جیسا ہوں ویسا ہی سامنے نظر آتا ہوں،
اگر اسی کو کہتے ہیں مغرور ہونا،
تو میں اعتراف کرتا ہوں
"میں مغرور ہوں"

ڈھلتی شام کا وقت جب ،سورج گھر کو لوٹتا  ہے… درخت و پیڑ سبز چادر اتار کر کالی چادر اوڑھتے ہیں …. وہ بالکونی میں اس منظر پر نظریں جمائے کھڑا تھا اور ایک ہاتھ میں سگریٹ دبائے دور افق کو دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں غرق تھا ، وقتاً فوقتاًوہ سگریٹ کے چھوٹے چھوٹے کش بھی لے رہا تھا کہ ہوا کا سرد جھونکا اس کے جسم کو چھو کر گزرا مگر وہ بے نیاز رہا کیونکہ یہ تقریبا اس کا روز کامعمول تھا۔   روز شام کے وقت بالکونی میں آجانا اور ڈوبتے سورج کو دیکھ کرماضی کے حسین لمحوں کو یاد کرنا۔ ۔۔۔۔۔
"ہر دن ڈھلتے سورج نے مجھے اُداس کیا اور اس حقیقت کے روبرو کیا کہ ہر آغاز کا اک اختتام ہے ہر کہانی کا انجام اور ہر  عروج کا اک زوال ہے مجھے یہ منظر دیکھ کر احساس ہوتا ہے  کہ تبدیلی کائنات کا اصول ہے سدا بہار کچھ نہیں ہوتا  نہ غم نہ خوشی اور نہ ہم."

وہ سورج کی طرف دیکھتے ہوے آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔۔۔اس کی آنکھوں میں عجيب سی چمک تھی۔
"بھئی اورہان کبھی کبھی تو بہت گہری باتیں کرجاتا ہے۔"

اس کے سگریٹ کے دھوئیں میں یہ منظر بھی ہوا میں تحلیل ہوگیا۔
اس کی یادیں ،باتیں کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔۔۔۔۔کبھی کبھی تومیں خود بے بس ہوجاتا ہوں ان کے سامنے۔ زندگی نے عجیب موڑ پر لا کر پھینک دیا ہے۔ نہ ادھر کا رہا ہوں نہ ادھر کا۔

سورج ڈھل چکا تھا وہ اپنی بھوری چادر لپیٹتے ہوے اندر کی طرف بڑھا۔۔۔
اس کا کام یہیں تک تھا۔ 

                     **************
چھوٹے ایک حلوہ پوڑی لگا دے ، اور ساتھ ایک چائے زرا جلدی لے آ" وہ کرسی کھینچ کر بیٹھتے  ہوئے اپنا آرڈر لکھوا رہا تھا۔ 
"آج صبح صبح اٹھ کے پتہ نہیں کس کو دیکھ لیا ہےمیں نے جو میرے دن کا آغاز ہی اتنا بُرا ہوا ہے، واقعی آج کا تو دن ہےمنحوس ہے،" یار لایا نہیں ابھی تک میرا آرڈر۔  "
اپنے آپ سے بڑبڑاتے ہوے آخری والا جملہ زرا اونچی آواز میں بولا گیا تھا۔
"جی صاحب،یہ آگیا آپکا آرڈر"وہ چھوٹی عمر کا  بچہ تھا جو ٹیبل پر کھانا لگا رہا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد جب بل  آیا تو اس نے اپنی جیب میں  والٹ  نکالنے کیلئے  ہاتھ ڈالا اور یہ کیا جیب خالی اب وہ یکے بعد دیگر اپنی ساری جیبیں  چیک کرچکا تھا یعنی وہ غصے میں والٹ گھر ہی بھول آیا ہے۔ویل ڈن اورہان مجھے یہی امید تھی تیرے سے .وہ بس اپنا۔ سر پیٹنے کو تھا
"اوہ نو! اچھا رکو میں ابھی گھر سے پیسے لا کر دیتا ہوں دراصل میرا والٹ گھر رہ گیا ہے"
نہیں صاب ہم جانتا ہے تم جیسے لوگوں کو کھانا کھانے کے بعد کہتا ہے ارے والٹ نہیں ہے اور خود بھاگ جاتا ہے پھر واپس ہے نہیں آتا"
وہ صحیح پیشہ وارانہ انداز میں بول رہا تھا ۔
"ارے میں کہہ رہا ہوں نہ کہ میں ابھی آتا ہوں یہ پاس ہی گھر ہے میرا میں غصے میں والٹ گھر چھوڑ آیا ہوں " اب کے وہ معصوموں والی شکل بنا کر کھڑا تھا۔
نہ بھئ نہ روز  تم جیسا ہزاروں لوگ آتا ہے اور جو بھی پیسے لینے گھر گیا ہے آج تک واپس نہیں آیا ہمارے پاس،ہمیں نہیں پتہ ہمیں ہمارے پیسے دو تو ہی ہم تم کو جانے دیگا "وہ غصے سے کہہ رہا تھا
"میں بس پانچ منٹ میں والٹ لے کر آتا ہوں"
ہاں تم جیسے بہت دیکھے ہیں پہلےمفت کی روٹیاں کھاتے ہیں اور پھر انکو یاد آتا ہے انکا والٹ گھر رہ گیا ہے ،شکل سے تو تم اچھے گھر کے لگتے ہو اور۔۔" ابھی اسکی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک نوجوان ہاتھ میں برتن  تھامے  کاؤنٹر کی طرف آیا۔ پلیٹیں کاؤنٹر پر رکھنے کے بعد اپنی جیبیں ٹٹولیں اور پرس نکالا ،اورہان کی نظر دفعتا پرس پر پڑی جس میں بہت سے کارڈز تھے اور ان کارڈز میں صرف ایک ہی پانچ سو کا نوٹ دبا ہوا تھا 
اس نوجوان نے وہ نوٹ نکال کر چھوٹے کو دیتے ہوئے کہا
"یہ ہم دونوں کا بل کاٹ لو"  اردگرد سے بے نیاز ہو کر پر سکون لہجے میں کہا گیا
"جی جی صاحب" دکاندار جلدی سے پیسے رکھنے لگا اور بقایا رقم نکا لنے لگا
"سر یہ باقی پیسے تو لیتے جائیں " اس کے  کہنے سے پہلے ہی وہ نوجوان ہوٹل سے نکل گیا ۔
ڈھابے سے نکل کر فٹ پاتھ پر پیدل چلتے ہوئے وہ کافی آگے آگیا تھا جب اورہان نے اپنی گاڑی اس کے پیچھے لگا ئی مگر وہ اپنے آپ میں اس قدر مگن تھا کے اس کو پتہ ہی نا چلا کہ کوئی اسکا پیچھا کررہا ہے۔۔۔اورہان نے کافی دیر تک اس کا پیچھا کیا کافی آگے جا کر  اورہان نے اس کے آگے گاڑی روکی اور کہا:
"آیئےمیں آپکو چھوڑ دوں"
اس نوجوان نے اورہان کی طرف دیکھا  اور مسکرا دیا اورہان نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور وہ آکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
"کہاں جانا ہے آپ نے ؟" اس نے جگہ کا نام بتایا  :
"اگر میں نہ ہوتا تو آپ اتنی دور پیدل جاتے؟"اورہان نے حیران ہوتے ہوے پوچھا
"اگر آپ نا ہوتے تو کوئی اور آجاتا" کیا یقین تھا ،وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا "مائی سیلف اورھان"اس نے مسکراتے ہوئے  ہاتھ بڑھایا
"عریش" عریش نے ہاتھ تھام لیا
"اوہ عریش نائس نیم "
اور اسی طرح سارا راستہ کٹ گیا
وہ دو منزلہ معمولی سا گھر تھا جو باہر سے دیکھنے سے ہی اندازہ ہورہا تھا  _ اورہان نے گاڑی کا لاک کھولا عریش باہر نکلا اور کھڑی سے اندر جھانک کر اورہان سے مخاطب ہوا
"آجاو اندر"
"نہیں میں چلتا ہوں" اورہان نے انگیشن میں چابی گھماتے ہوئے کہا
"ایک کپ چائے تو پیتے جاؤ" عریش نے گاڑی کی کھڑکی سے جھانکا،انداز اتنا اٹل تھا کہ وہ منع نا کرسکا
"اچھا چلو"
اورہان نے اب اسکا بغور جائزہ لیا تھا  وجیہہ شخصیت کا مالک ،ہلکے بھورے رنگ کی سنجیدہ آنکھیں، عمر تقریبا 22 سال  شلوار قمیض  پر سردی کے باعث شال اوڑھ رکھی تھی،وہ دیکھنے سے پٹھان لگتا تھا اس کے نقوش کھڑے کھڑے تھے۔ اورہان نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اپنے ڈرائیور کو فون کیا
"علی بخش !! میرا والٹ لے کر اس جگہ پہنچ جاؤ لوکیشن سینڈ کرتا۔ ہوں جلدی  ہمم اللہ حافظ"
اور گاڑی کو لاک کرتے ہوئے وہ عریش کے پیچھے گھر میں داخل ہوا۔
عریش اس کو لاونج میں بٹھا کر کچن کی طرف چلا گیا تو اس کی نظر پڑی،وہ درمیانہ سا ہی کمرہ تھا جس میں صوفوں کے ساتھ بک شیلف پڑی تھی
اور ان میں موجود اردو ادب کے مشہور شعرا کے اصلی شاعری مجموعے عریش کے ادبی ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھیں ، کتابوں کا شیلف اتنا صاف تھا اور ان کی ترتیب اتنی درست تھی کہ کوئی دس مرتبہ سوچتا ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے۔ اور اِس کو دیکھ کر  اورہان کو جب اپنے کمرے کا حشر یاد آیا تو وہ بس ایک جھرجھری سی لے کر رہ گیا۔
ابھی اس کی نظر کتابوں پر ہی تھی کہ عریش کچن سے دو کپ لے کر نمودار ہوا۔
"ہاں تو کیسی لگی تمہیں میری کلیکشن" عریش نے اورہان کو چائے کا کپ پکڑا  کے سامنے والے صوفے پر براجمان ہوتے ہوئے پوچھا۔
"ہمم اچھی ہے لیکن یہ کتابیں تو بہت قیمتی ہیں,لگتا ہے خاصہ شوق ہے تمہیں کتابوں کا"
"بس کچھ ایسا ہی ہے  کتابیں تنہائی کی بہترین ساتھی ہوتی ہیں ۔ بس اسی لیے"
"اچھا تو عریش میاں آپ اکیلے رہتے ہیں اس گھر میں؟"اورہان نے تشوتش سے پوچھا۔
" اکیلا کب ہوں یہ ہیں نہ میری کتابیں ، میرا قلم اور میری ڈائیریز بھی"عریش نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
"ایک بات تو طے ہے یہ بندہ اپنی ذاتیات کے بارے میں نہیں بتائے گا" اورہان بس سوچ ہی سکا
"بائے دا وے !چائے تم اچھی بنا لیتے ہو" جب بولا تو صرف اتنا سا۔
"نوازش " عریش نے داد لینے والے انداز میں کہا۔
ابھی وہ دونوں ہلکی پھلکی باتوں میں ہی مصروف تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔ عریش ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے گھر کون آسکتا ہے کہ اورہان اٹھ کھڑا ہوا امم میرا خیال ہے میں دیکھتا ہوں میرا ڈرائیور آیا ہوگا۔
علی بخش نے اسے اس کا والٹ دیا اور اورہان اس کو انتظار کرنے کا کہہ کر اندر چلا آیا۔
اس نے والٹ سے ایک پانچ سو کا نوٹ نکال کر دیا تو  عریش کا رد عمل دیکھنے والا تھا وہ ایک دم بلکل سنجیدہ ہوگیا۔
"میں نے اس لیے تمہاری مدد  نہیں کی تھی کہ تم احسان سمجھ کر اسکا  بدلہ دو۔، اور یہ کیا بات ہوئی تم نے مجھے اتنا  گیا گزرا سمجھ لیا ہے کہ میں تمہارے سے پیسے لینے کیلئے کھڑا ہوں؟بہت برا لگا ہے مجھے۔"اورہان کو بولنے کا۔موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔وہ سانس لینے کو رکا تو اورہان بوکھلا یا ہوا بولا
"ارے نہیں نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا میں نے تو بس۔۔۔ویسے ہی اچھا چلو پھر۔میری ایک شرط ہے"اورہان کے اس طرح کہنے پر  عریش نے اسے سوالیہ انداز میں دیکھا
"دوست بنو گے میرے؟" مسکرا کر کہتے ہوئے اس نے ہاتھ آگے کیا،عریش نے بجائے ہاتھ اس سے بغلگیر ہوگیا۔
زندگی میں رشتے ملا ہی کرتے ہیں۔ مگر ایک انسانی رشتہ ایسا ہے جس میں ”زندگی“ ملاکرتی ہے اور وہ رشتہ ہے ”دوستی کا رشتہ“
اور یہاں سے آغاز ہوا عریش اور اورہان کی لازوال دوستی کا۔۔۔

                       ***********

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Mar 22, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

 زرد پتےWhere stories live. Discover now