Episode 1

1.7K 116 83
                                    

واشنگٹن کی سڑکوں پر پھرتے ہوئے اس کا زہن مسلسل ایک ہی انسان کے بارے میں سوچ رہا تھا جسے وہ بالکل سوچنا نہیں چاہتی تھی مگر لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ اس انسان کا خیال اپنے زہن سے نہیں نکال پا رہی تھی۔
اس انسان نے اسے ہمیشہ دکھ دیے تھے کبھی بھی اس کی خوشی کا خیال نہیں کیا تھا وہ بس کسی محافظ کی طرح بغیر کسی جزبے کے صرف اس کی حفاظت کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ اس سے محبت کرتی ہے اور وہ اس کا کئی بار اظہار بھی کر چکی تھی مگر پھر بھی وہ سب جان کر بھی انجان بنتا تھا۔ اس نے کبھی اس کی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیا تھا۔ وہ جتنا اس کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتی تھی اس نے اتنا ہی اسے خود سے دور کردیا تھا۔۔ اتنا دور کہ شاید وہ چاہتا ہی نہیں تھا کہ وہ اسے کبھی مڑ کر بھی دیکھے۔ وہ اسے کبھی چاہتا ہی نہیں تھا وہ ہی بلاوجہ کی خوش فہمیوں میں مبتلا تھی۔ وہ تو ہمیشہ سے کسی اور کا تھا۔۔ وہ کب سے اسے اپنا بنانے کی کوشش کر رہی تھی مگر جب یہ بات اس پر آشکار ہوئی کے وہ کسی اور کا ہے تو وہ وہیں ٹوٹ گئی تھی۔۔ بکھر گئی تھی اور اس کی زندگی سے بہت دور نکل آئی تھی۔
وہ اپنی سوچوں میں گم سیاہ رنگ کا لانگ کوٹ اور جینز پہنے، جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سر جھکائے برف سے ڈھکی سڑک پر چل رہی تھی کہ اسے اپنے پیچھے کسی کی آواز سنائی دی۔۔ وہ آواز کافی شناسا تھی۔۔ فاریہ کو وہ اپنا وہم لگا اور وہ بغیر پیچھے دیکھے دوبارا آگے چل پڑی مگر پھر پیچھے سے کسی نے اس کا دوبارہ نام پکارا اور اس کا بازو کھینچ کر اسے اپنی طرف موڑا۔۔ فاریہ جو اس افتاد کے لیے تیار نہیں تھی لڑھک کر برف پر گرنے ہی والی تھی کے اس انسان نے اسے گرنے سے بچایا اور اپنی بازوؤں کے حصار میں لیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج موسم کافی خوشگوار تھا اور وہ اس سے بھی زیادہ خوشگوار موڈ میں گھر داخل ہوئی۔۔ گھر داخل ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے اپنی سب سے پسندیدہ شخصیت کے کمرے کا رخ کیا۔۔
"السلام علیکم پیاری دادو۔۔۔ "وہ ان سے گلے ملتے ہوئے بولی جو صوفے پر بیٹھ کر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔۔
"وعلیکم السلام۔۔۔ خیر ہو بھئی آج تو جرنلسٹ فاریہ محمود غیر معمولی طور پر بڑے خوشگوار موڈ میں ہیں۔۔۔"دادو کے طنز پر وہ ہنس دی۔۔
"آج ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے آپ کی پوتی نے۔۔ بہت عرصے سے میں اس کام میں لگی ہوئی تھی اور آج فائنلی وہ کام مکمل ہوا۔۔ "
اپنے کالے سیاہ بالوں کی ایک لٹ اپنی انگلی پر لپیٹتی وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔  چہرے پر ایک عجب سی چمک تھیں۔۔ آنکھیں بھی فخر سے مسکرا رہی تھیں۔۔
  فاریہ محمود نے میس کمیونیکیشن کرنے کے بعد ایک نیوز رپورٹر کے طور پر اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا اور اب وہ چھبیس سال کی عمر میں ہی بہت نام ور جرنلسٹ بن چکی تھی۔۔ وہ خود ٹی وی پر نہیں آتی تھی لیکن خبروں میں اس کے لکھے جانے والے کانٹنٹ بہت مقبول ہوتے تھے۔۔ اخباروں میں اس کے کالم سب سے پہلے سیلیکٹ ہوتے تھے۔۔  اور وہ اپنے اس کام پر کافی فخر بھی کرتی تھی۔۔
فاریہ محمود ایک خوبصورت مگر بہت ہی پریکٹیکل لڑکی تھی جس نے بچپن سے ہی اپنا کیریر بنانے کی ٹھان لی تھی۔۔ وہ عام لڑکیوں کی طرح محبت کی کہانیاں نہیں پڑھتی تھی نا ہی اسے ایسی باتوں پر یقین تھا۔۔ وہ دن رات بس اپنے کیرئر کے لیے محنت کرتی اور اسی میں مصروف رہتی۔۔
اس دنیا میں فاریہ محمود کا بس ایک ہی رشتہ تھا اور وہ تھیں اس کی دادو۔۔ کیونکہ جب فاریہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور جب وہ میٹرک میں تھی تو ایک کار ایکسیڈینٹ میں اس کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔۔ اس وقت فاریہ بالکل ٹوٹ گئی تھی۔۔ ان کے زیادہ رشتہ دار نہیں تھے۔۔ اس کی والدہ بھی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں۔۔ اس لیے اس کے ننھیال میں کوئی نا تھا جبکہ ددھیال میں بھی اس کے ایک ہی چاچو تھے جو امریکہ میں مقیم تھے ۔۔۔ وہ اسی وقت آئے تھے جب اس کے والدین کی وفات ہوئی تھی۔۔ اس کے بعد وہ کبھی فون کر لیتے یا سال میں ایک دو بار ان سے ملنے آ جاتے۔۔
فاریہ کو کبھی پیسے کی کمی نہیں رہی تھی۔۔ گھر میں نوکر چاکر سے لے کر گاڑی ڈرائیور ہر چیز موجود تھی۔۔ اس کے والد صاحب ہائی پوسٹ گورنمنٹ آفیسر تھے جس کی وجہ سے ان کو پینشن آ جاتی اور ان دونوں دادی پوتا کا گزارا ہو جاتا۔۔ گھر نوکر چاکر سب انہیں گورنمنٹ کی طرف سے ہی دیا گیا تھا جس کی انہیں فکر نہیں تھی۔۔
وقت گزرتا گیا اور فاریہ نے خود کو اور مضبوط بنا لیا۔۔ بن ماں باپ کے اکیلی لڑکی کا اس معاشرے میں گزارا بہت مشکل تھا مگر وہ با ہمت لڑکی تھی۔۔ اس نے خود کو اچھے سے سنبھال رکھا تھا اور ساتھ ہی اپنی دادو کی بھی ہمت تھی وہ۔۔
ان کا حوصلہ تھی۔۔ ان کے جینے کی وجہ تھی۔۔
فاریہ نے اپنا دل اپنے خوابوں میں لگا لیا تھا۔۔ وہ عام لڑکیوں کی طرح محبت اور شادی کے خواب نہیں دیکھتی تھی۔۔ بلکہ وہ اپنے کیرئر کو مضبوط بنانے کے منصوبے سوچتی رہتی۔۔
اپنے شوق کی بناہ پر اس نے جرنلسٹ کا پروفیشن چوز کیا تھا اور وہ اس سے خاصی مطمئن بھی تھی۔۔۔
"فاری بچے اب شادی کب تک کرنے کا ارادہ ہے تمہارا۔۔ دو ماہ بعد ستائس سال کی ہو جاؤ گی۔۔ اب کر بھی لو شادی۔۔۔"
دادو نے اس کا سب سے ناپسندیدہ موضوع چھیڑ دیا تھا۔۔

YAAR E MAN❤ (On Hold)Where stories live. Discover now