قسط 10 سنگِ مرمر

784 56 18
                                    

رومائزہ حلیمہ بی کی تلاش میں کچن تک چلی آئی۔وہ ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں اسے کچن میں آتا دیکھا تو گھور کے باہر رہنے کو کہا۔کاؤنٹر کے دوسری پار رکھی چئیر اس نے کھینچی اور منہ بسور کے بیٹھ گئی۔
"چھوٹے سائیں کو دیکھ آؤں کہ اٹھے یا نہیں۔"تولیے سے انھوں نے ہاتھ خشک کیے۔رومائزہ کاؤنٹر پہ بائیں ہاتھ کی موری کو گھما کے خود سے کچھ بجانے کی کوشش کر رہی تھی۔اور پٹی والا ہاتھ اس نے کلائی کی طرف سے تھوڑی کے نیچے ٹکایا ہوا تھا۔
"مت جائیں وہ چلا گیا ہے۔"اس نے جیسے بے زاری سے کہا حلیمہ بی نے حیرت سے اسکی بجھی سرخ شکل دیکھی۔
"بغیر ناشتے کے ہی چلے گئے تھوڑی دیر ٹھہر ہی جاتے۔"
"جانے والے کو حلیمہ بی کون روک سکتا ہے۔"اس کے دھیان کاؤنٹر بجانے میں لگا تھا۔
"لڑکی..."انھوں نے جما کر کہا تو رومائزہ کو اپنے کہے جملے کا احساس ہوا۔ہاں تو کچھ غلط کہہ دیا تھا کیا!
"آپ بلاوجہ اسکے ناشتے کی فکر رہی ہیں۔کھالے گا کچھ بھوکا تھوڑی رہے گا،کسی ڈھابے پر بھی بیٹھ جائیگا نا تو لوگ اسکی مہمان نوازی میں دسترخوان سجا دیں گے۔"بال پیچھے اڑستے اس نے بے نیازی سے کہا اور اسکی نقل اتارتے ہوئے ناک رگڑی۔
"لگتا ہے صبح ہی دونوں کی تکرار ہوگئی ہے۔"انھوں نے خدشہ ظاہر کیا وہ لب بھینچ کے رسمی مسکرائی۔پلکوں کا جھالر بچھادیا۔
"تکرار میں تھوڑی سی گفتگو ہوئی ہے۔"جملے کی تصیح کی۔
"اتنی تکرار کیوں کرتی ہو تھکتی نہیں ہو کیا؟"انھوں نے دلچسپی سے پوچھا۔
"اس وقت میری حالت ایسی ہے کوئی گونگا بھی میرے سامنے آکے بیٹھ جائے تو اسکا بھی بولنا شروع کروادوں.."وہ ہنستے ہوئے قبول کر گئی تھی۔
"بہت مزے کی باتیں کرتی ہو تمھارے گھر میں رونق لگی رہتی ہوگی۔"حلیمہ نے انڈا جو پیالی میں پھینٹ رکھا تھا اب اسکے مکسچر کو گرم نان اسٹک پین میں الٹا۔کام کے دوران وہ رومائزہ کو وقفے وقفے سے دیکھ رہی تھی۔
"ہاں ایسا ہی ہے۔اور اب میں نے سوچ لیا ہے خوش رہونگی۔وہ سنا ہے نا آپ نے ہنس ہنس کے اگلے کو جلا کے راکھ کردو۔"اپنی طرف سے اس نے بہت سمجھداری کا مظاہرہ کیا تھا اور چیتی کی مانند اپنا حتمی فیصلہ سنادیا۔حلیمہ بی مسکراتے ہوئے سر ہلاتی رہیں۔جیسے وہ محظوظ ہورہی ہوں۔
"کچھ دن بعد میرا برتھ ڈے ہے..."اس نے جیسے پرجوشی سے بتایا حلیمہ بی نے انڈا دوسری طرف پلٹا اور اسے دیکھا۔
"کیسے سلیبریٹ کروگی؟کوئی خاص ارادہ؟"
"ہاں سوچ لیا ہے..."اتنا ہی کہہ کر وہ خاموش ہوگئی اور کچھ سوچنے لگی ہونٹوں کے نزدیک عجیب سی مسکراہٹ نے جگہ بنانے کی کوشش کی۔
ناشتہ جیسے ہی تیار ہوا حلیمہ بی نے رومائزہ کے اصرار پہ کاؤنٹر پہ رکھ دیا تھا اور خود بھی دوسری کرسی کھینچ کر ناشتہ کرنے لگیں۔
                           ★ ★ ★
  اگلا دن اتوار کا تھا نیمل کو آفس سے چھٹی ملی تھی البتہ مراد ڈیوٹی پر ہی تھا۔ہاں نیمل کو بزنس اکاونٹنٹ کے طور پہ ہائر کرلیا گیا تھا جاتے ہوئے تین دن گزر گئے تھے اور آج ویک اینڈ کا آف تھا۔
محمل والی بات عائشے نے اپنے گھر میں سب سے چھپا رکھی تھی پہلے کونسا وہ کچھ بتاتی تھی پر یہ بات تو اس نے انوش تک کو بھی نہیں بتائی تھی۔وہ اسے پریشان کرنا ہر گز نہیں چاہتی تھی۔
اب بھی وہ انوش سے کال پہ بات کرنے میں محو تھی۔
"اور وہ تمھاری چپکو نند کہاں ہے؟"دوسری پار انوش نے آنکھیں مٹکاتے ناخن چبا کر پوچھا۔
"تمیز سے بات کرو۔صرف ایک وہی ہے یہاں جو مجھے سمجھتی ہے،مجھے تو یقین نہیں آتا وہ اسی گھر کی فرد ہے۔اتنی نرم دل،سمجھدار اور خوش اخلاق..."اس سے پہلے عائشے کی ٹرین چھوٹتی انوش نے جل کر بات کاٹی۔
"عائش زیادہ تعریفیں مت کرو!میں دیکھ رہی ہوں نند کے ملنے پہ تم اپنی بہن جیسی دوست کو بھول رہی ہو۔"
"کیا ہوگیا یار تمھاری اور روما کی جگہ بھلا کوئی لے سکتا ہے...پر ایک بات ضرور بولونگی وہ ہمارے جیسی ہی ہے،مجھے تو تمھاری بچھڑی ہوئی بہن لگتی ہے جو نند کے روپ میں مجھے مل گئی۔"
"ہنہہ...میکے میں بہن اور سسرال میں نند۔"بڑبڑائی۔
"میں گھر آرہی ہوں تم کو ملنے آنا ہے تو آجاؤ۔"اس نے جس مقصد کے لیے فون کھڑکایا تھا اس سے آگاہ کردیا۔
"ہاں اسائمنٹ بنا کے دماغ خراب ہوگیا ہے،آتی ہوں میں۔"اور پھر پانچ منٹ مزید دونوں نے بات کی اور کال منقطع....
"کہیں جا رہی ہیں؟"نیمل کمرے میں آئی اسے تیار ہوتے دیکھا تو پوچھ لیا۔
"ہاں گھر جارہی ہوں انھوں نے کہا تھا ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا۔"وہ اکثر مراد کا نام لینے میں جھجھک جاتی تھی۔
"اوہ۔کیا میں بھی چل سکتی ہوں؟آپکی مام سے بھی مل لونگی۔"انعم کے لیے امی کی جگہ مام لفظ سن کر عائشے کو ہنسی آئی۔
"کیوں نہیں میری امی سب کا پوچھتی ہیں،تم سے مل کر بہت خوش ہونگی۔"نیمل نے خوشی سے سر ہلایا اور خود بھی تیار ہونے کے لیے کمرے میں بھاگ گئی۔
                             ★ ★ ★
مراد کے ذمے ایک نیا کیس لگ گیا تھا۔وہ اسکی انوسٹیگیشن میں مصروف تھا۔دوپہر تک ساری معلومات جما کرکے واپس پولیس اسٹیشن آگیا۔اپنے روم میں ہی تھا خورشید دروازہ کھٹکا کے سلوٹ مارتا اندر آیا۔
دونوں کے درمیان کیس کے متعلق گفتگو جاری تھی۔وہ ختم ہوئی تو ایک جوان پٹھان چائے کے دو کپ میز پہ رکھ کے چلا گیا۔
"سر ان کلرز کا کیا ہوگا؟"
"وہ اندر ہی رہیں گے،نہ انکو زولفقار جاہ نے باہر نکلنے دینا ہے نہ ہی اجمل خان باہر نکالیں گے۔"چائے کا گھونٹ بھرتے اس نے آرام سے کہا۔
"زولفقار جاہ کے خلاف بھی کارروائی کرنی ہے.."خورشید نے اسے دیکھتے یاد دلایا۔
"مجھے اچھے سے یاد ہے..جب تک سکون کے دن لکھیں ہیں وہ پورے ہی کاٹیں گے۔یہ کیس سولوو ہوجائے پھر ہم اپنا کام شروع کردینگے۔اور اس بار کوئی کوتاہی برداشت نہیں ہوگی۔"کرختگی سے مراد نے باور کردیا خورشید نے سر ہلایا۔
"کچھ سوچا ہے آپ نے؟"
"ہاں...انکے خلاف ثبوت اب میران جاہ دے گا۔بہت غرور ہے بڑے جاہ کو اپنے بیٹے پہ وہی توڑیں گے۔"وہ تنفر سے بولا اسکا ارادہ غلط تھوڑی تھا،خورشید ساری بات سمجھ گیا تھا۔
  "پر اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہیں گے۔اصل کام ہمارا ہے وہ ایسے ہی ہماری مدد نہیں کرے گا۔اور اٹھو فوراً چیف نے بلایا تھا۔"گرم چائے خود نے تو پی لی اور کپ میز پہ رکھ کر سر پہ کالا کیپ جما کے ہشاش بشاش کھڑا ہوگیا۔
خورشید نے جلدی جلدی گھونٹ بھرے چائے کے گرم ہونے سے اسکی زبان بھی جل گئی تھی پر سردی کے موسم میں چائے چھوڑنا گوارا بھی نہیں تھا۔
مراد نے اسے گھورا تو کپ رکھ کے ہاتھ کی پشت سے لب صاف کرکے کھڑا ہوگیا مراد اسکی حرکت پہ سر جھٹک کے باہر نکل گیا۔کام کے دوران مراد دمیر سے کسی قسم کی نرمی کی توقع رکھنا ہی غلط تھا۔
اور کبھی مراد خورشید کو کسی جلاد سے کم لگتا تھا بھی نہیں...
                           ★ ★ ★
وہ دونوں ایک گھنٹے تک گھر پہنچ گئیں۔انعم نے خوش اسلوبی سے نیمل کا استقبال کیا تھا۔وہ بھی ان سے مل کر بہت خوش ہوئی تھی۔دونوں نے ہنستے مسکراتے کچھ دیر گفتگو بھی کی اور پھر انوش آگئی۔
اوّل تو انوش کو اندازہ نہیں تھا وہ لڑکی نیمل ہے،وہ حسبِ عادت بہت اچھے سے ملی۔
"بھابھی یہ؟"نیمل نے سوالیہ نظروں سے عائشے کو دیکھا۔اور انوش نے بھی۔
"دوست ہوں میں عائش کی۔بہن ہی سمجھ لو۔"نیمل کی طرف ہاتھ بڑھاتی وہ مسکرا کر بولی۔عائشے نے نفی میں سر ہلایا۔
انعم ان تینوں کو باتیں کرتا چھوڑ کچن میں چلی آئیں۔
پیچھے انوش کے نیمل سے سوالات شروع ہوگئے تھے۔اور نیمل کے انوش سے۔
"یعنی آپ تین دوستوں کا بیک بینچر گروپ ہے۔قابلِ تعریف ہے آپکی دوستی۔"وہ متاثر ہوئی تھی۔
"ہاں بلکل..ماشاءاللہ بولو!"انوش نے پلکیں جھپکا کر کہا۔نیمل مسکرادی۔
"میں آپ لوگوں کی دوست بن سکتی ہوں کیا؟"
"سوری سوری....نا اس گروپ میں کوئی آسکتا ہے نا جاسکتا ہے۔ہماری ویسے ہی دوستی ہوسکتی ہے جیسے یونی کے دوسرے فیلوز سے ہے۔"عائشے بس انوش کا اترانا برداشت کر رہی تھی...کسی ملکہ کی طرح وہ صوفے پہ پسر کے بیٹھی تھی اور انداز وللہ کیا شاہانہ تھا۔
"انوش بس کرو تم نے سوالوں کی بارش کردی ہے،ایک کام کرتے ہیں ساتھ کوئی مووی دیکھ لیتے ہیں۔"عائشے نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
"ویسے آج سنڈے ہے اور میرے پاس انجوائے کرنے کا ایک بہترین اوپشن ہے۔"نیمل نے ٹی وی آن کرتی عائشے کو دیکھے کہا۔
"ہاں بتاؤ۔"انوش صوفے پہ ٹانگیں چڑھا کے بیٹھی۔
"کیوں نا شاپنگ پہ چلیں بہت مزا آئیگا۔"اسکی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
"اس میں کیا مزا آئیگا؟مجھے ابھی کچھ نہیں خریدنا اور میں ساری پاکٹ منی کھانے پینے اور ناولز پہ اڑا چکی ہوں۔ممی سے لونگی تو غصہ کرینگی۔"انوش نے برا سا منہ بنایا عائشے چینل بدلنے لگی۔
"اونہہ,,ہم مال میں ونڈو شاپنگ کرنے جائیں گے۔گھوم پھر کے واپس گھر۔بھابھی بتائیں آئیڈیا اچھا ہے نا۔"نیمل نے عائشے پہ ملبہ ڈالا وہ شانے اچکاتے بولی۔
"میں کیا بتاؤں۔کہیں تمھارے بھائی غصہ نا کریں۔"اس نے خدشہ ظاہر کردیا نیمل نے بات ہوا میں اڑائی۔
"کچھ نہیں کہیں گے۔ڈرائیور ہمارے ساتھ ہے کوئی مسئلہ نہیں بس ایک بار آپ خود انکو انفارم کردیں۔"وہ فیصلہ سناتی کھڑی ہوگئی۔بے زار انوش بھی تھی فوراً دوپٹہ درست کرکے کھڑی ہوئی۔عائشے نے دونوں کو دیکھا جو چلنے کے لیے تیار تھیں۔
"اچھا میں ان سے پوچھ لیتی ہوں..."عائشے منمناتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
"بھابھی کو بولو ان ان نا بولیں نام لیا کریں مراد۔"نیمل نے شال اٹھا کے شانوں پہ پھیلاتے ہوئے کہا۔
"شادی کے بعد تمھاری بھابھی پگلا گئی ہے خود ہی سمجھا دینا۔ویسے ایک بتاؤ تم سنگل ہو؟"انوش کی شاکی نظروں پہ نیمل ہنس دی۔اسکے خوبصورت روپ کو دیکھ کر انوش پوچھے بنا رہ نا سکی تھی۔
"دو بچے ہیں جیب میں چھپا کے رکھتی ہوں... حد ہوگئی کہاں ہم بوائے فرینڈز رکھیں گے۔سچی بتاؤں تو مجھے یہ سب پسند نہیں۔مجھے پتا ہے تم نے یہ سوال کیوں کیا پر میرا ایسا سوچنا نہیں۔روز دل لگاؤ دل توڑو دیوداس بن جاؤ،بلاوجہ حسین سی زندگی برباد کردو۔سب بھول بھال کر کونے میں بیٹھ کے من جھوم جھوم تن جھوم جھوم کرو۔"اس نے چٹخارے لیتے سب سے پہلے آپ والا تکلف ختم کیا اور پھر ساری بھڑاس جی جیسے نکال دی۔
    انوش نے اسکو دیکھا یہ اسکی جیسی باتیں کیوں کر رہی تھی؟اسے غصہ آیا تھا۔انوش گلزار کیوں کہ صرف ایک ہی تھی اور ہونی بھی ایک ہی چاہیے تھی۔
"اور تمھارا کوئی سین؟"
"کوئی سین شین نہیں۔کبھی محبت ہوئی تو ڈنکے کی چوٹ پہ کرونگی اور اسی سے شادی بھی کرونگی۔"انداز میں بے نیازی گویا غرور سب کچھ تھا۔
نیمل مسکرائی۔
"انشاء اللہ..."
"تم ناولز پڑھتی ہو؟"
"نہیں مجھے شوق نہیں ہے۔میرے گھر میں لائیبریری ہے مام ڈیڈ اور بھائی نے کتابوں کا ڈھیر لگایا ہوا ان میں سے ایک آج تک کھول کے دیکھی نہیں ناولزکیا خاک پڑھونگی۔ٹائم ویسٹ کرنا ہے تو اور بھی طریقے ہیں۔"گردن پہ پھیلی شال کے نیچے سے نیمل نے کالے ریشمی بال نکالے انوش کو لفظوں سے تذلیل سی محسوس ہوئی جب کہ نیمل کا ایسا ارادہ نہیں تھا وہ بس تیزی میں بول گئی تھی انوش نے چہرہ پھیر کے ناک چڑھائی تھی۔
وہ ناولز نہیں پڑھتی تھی تو انوش جیسی ہو بھی نہیں سکتی عائشے کچھ بھی بولتی ہے...انوش نے سوچا۔
"کیا تم بتا سکتی ہو استنبول کو کس کا شہر کہا جاتا ہے؟"انوش دوپٹہ گلے میں ڈالے واپس اسکی طرف مڑی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
"کس کا؟"نیمل سوچنے لگی۔
"بگلوں کا شہر!تم نے جنت کے پتے نہیں پڑھا اس لیے نہیں معلوم۔ویسے تو یہ جنرل نالج ہے تم کو معلوم ہونا چاہیے تھا۔پر خیر جب مجھے ہی ناول پڑھ کے پتا چلا تو تم تو پھر...."مسکراہٹ کے ساتھ ابرو اچکاتے اس نے نیمل کی بات کا پورا پورا حساب برابر کر لیا تھا۔
"سمجھ رہی ہوں تم کیا کہنا چاہ رہی ہو...ڈیڈ کہتے ہیں کتابیں استاد ہوتی ہیں ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہوں وہ جو ہم نے اپنی کورس کی کتابوں میں کبھی نہیں پڑھا ہوتا۔"
"اور ایسے ہی اچھے ناولز!"انوش نے اضافہ کرتے کہا نیمل نے سر ہلادیا۔اپنی اپنی رائے تھی لڑنا کس بات کا۔ایک کو پسند تھے ایک کو نہیں!
   عائشے کمرے میں آئی ٹہلتے ہوئے سوچنے لگی مراد کو کیا بولے پھر خیالات جھٹکے اور کال ملادی۔فون کان سے لگا تھا بلاوجہ وہ گھبرا رہی تھی۔
"سنیں.."کال ریسیو ہوتے ہی وہ بولی۔
"ہنہہہ بولو..."وہ جیپ میں سوار تھا باہر سڑک پہ نظر جمائے کہا۔عائشے نے گہری سانس لی اور سب بتادیا۔
"ٹھیک ہے چلی جاؤ،کچھ بھی خریدنا ہو تو نیمل کا کریڈٹ کارڈ یوز کرلینا تمھارا بھی میں بنوا دونگا۔اور ڈرائیور کے ساتھ ہی جانا!"مراد نے سانس لیتے ہوئے کہا عائشے نے سر ہلایا۔
"تھینک یو..."اس نے کہہ کر کال کاٹ دی تھی اور کمرے سے خوش ہوتی باہر نکل گئی۔مراد مسکراہٹ روک کر سانس بھرتا رہ گیا۔
                             ★ ★ ★
   رومائزہ کمرے میں انگلیاں چٹخاتے ہوئے ٹہلے جا رہی تھی۔گھڑی میں وقت دیکھا۔رات آٹھ بجے تھے۔اسکا دل تیزی سے دھڑکا۔کیا اس نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا؟اپنے فیصلے پر ایک بار پھر نظرِ ثانی کیا۔دل و دماغ دونوں لبیک کہہ اٹھے۔
سرد ہوا میں گرم سانس سپرد کی چہرے پہ ماسک لگایا اور کمرے سے باہر نکلی۔
وہ حلیمہ بی کے کمرے کے دروازے پہ کھڑی تھی۔آہستہ سے دروازہ دھکیلتے اندر قدم رکھا۔
یہ کمرہ نسبتاً دوسرے کمروں سے چھوٹا تھا سارا فرنیچر لکڑی کا تھا پر خوبصورت!
کمبل اوڑھے ایک وجود بستر پہ سو رہا تھا۔رومائزہ قدم اٹھاتی مسہری کے سرہانے تک پہنچی۔وہ دروازے کی جانب کروٹ لیے سو رہی تھیں کمبل گردن تک تھا۔
کئی پل خاموشی کے نام ہوئے اور پھر رومائزہ کی سسکی نکلی جسے فوراً اس نے دبا دیا۔آہستہ سے پنجوں کے بل بیٹھی حلیمہ بی کا چہرہ دیکھا۔گول سفید چہرہ چاندنی بال،
چہرے پہ نرمی۔
وہ نیند کی کچی تھیں اور اتنے دن انکے ساتھ رہ کر رومائزہ کو علم ہوچکا تھا۔ہلکی سی سوئے وجود میں حرکت ہوئی انھوں نے دائیاں بازو کمبل سے باہر نکال لیا۔
روما نے چہرے سے ماسک پیچھے کیا۔انکے جھریوں بھرے ہاتھ پہ اپنا مخملی ہاتھ رکھ دیا اور انھیں محسوس کرنے لگی۔ہاتھ ہٹا کے اس نے انکے ہاتھ پہ بوسا دیا اور ہلکے ہاتھ سے سر کے بالوں کو چہرے سے پیچھے کرتی کھڑی ہوئی۔
"مجھے معاف کردیے گا حلیمہ بی،جانے انجانے میں میں نے کئی بار آپکا دل بھی دکھایا ہے اور شاید آج بھی یہی کرنے جا رہی ہوں۔آپ میری زندگی کے سب سے برے وقت کی بہترین ساتھی ہیں۔ہمیشہ میرے دل میں آپکی یادیں رہیں گی۔دعاؤں میں یاد رکھیے گا بی....بس اتنا ہی ساتھ تھا ہمارا۔میں جا رہی ہوں بہت دور..اور اپنے چھوٹے سائیں کو سنبھال لیے گا۔میرے پیچھے وہ نا آئے اب کبھی بھی..."وہ کھوئی کھوئی سی دل میں مخاطب تھی۔بائیں ہتھیلی میں تہہ شدہ کاغذ اس نے بھاری دل کے ساتھ انکی سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا۔اور بنا آواز کیے کمرے سے نکل گئی۔جانے سے پہلے ایک خط اور اپنا لمس حلیمہ بی کے ہاتھ پہ چھوڑ دیا تھا۔ڈھیر ساری اچھی یادیں،باتیں...
اپنے کمرے میں واپس آکے اس نے شال شانوں پہ ڈال کے سر پہ اوڑھی۔ایک نظر ان تمام پینٹنگز پہ ڈالی جو ان کچھ دنوں میں وہ بنا چکی تھی۔پرندے،،باغات،جھولے پہ بیٹھی لڑکی،،خون سے لیس ہاتھ میں رکھا دل!
اور وہ مصافحہ والا ہاتھ۔اس نے مطلوبہ شیٹ نکالی۔اسکو پلٹ کر دیکھا تھا۔ایک بار نہیں دو بار نہیں کئی بار جب تک نظریں نا بھریں۔
اس نے پوروں سے لفظ چھوا۔وہ لفظ 'روم' جس خوبصورتی سے لکھا تھا اسے بہت پسند آیا تھا۔پر جس نے لکھا تھا اسکے بارے میں رائے شاید مختلف تھی۔دل نے بیٹ مس کی۔
ایک بھرپور نگاہ اس نے کمرے پہ ڈالی اور دل پتھر کیے باہر نکل گئی۔
                            ★ ★ ★
  اسلام آباد سے کام نپٹا کے میران فوراً ہی لاہور واپس آگیا تھا۔زخم بھی کافی حد تک ٹھیک ہوچکے تھے وہ با آسانی سفر کر رہا تھا۔
    فل وقت میران اور دائم کی بزنس کے سلسلے میں دوسرے بزنس مینز سے ہوٹل میں ملاقات تھی۔کوئی بزنس ڈیل کے لیے نہیں کاروبار کے اوپر چرچہ اور اچھا ٹائم ساتھ گزارنے کے لیے سب کی سہولت کے حساب سے یہ دن طے ہوا تھا۔اور اس میں تمام جوان کاروباری لوگ شامل تھے۔
دائم کے مطابق بحیثیت میران چیف گیسٹ کے طور پہ مدعو تھا۔اور جس پہ میران کا چہرہ ہنسی میں تبدیل ہوا تھا۔
لاہور کے مہنگے ترین ہوٹل میں دوپہر کا کھانا ان سب نے ساتھ ہی کھایا سب کے درمیان مختلف اشوز پہ بات چیت ہوئی۔ان میں سے کئی کو میران بخوبی جانتا تھا اور پچھلے وقتوں میں ان سے اچھی طرح مکالمہ بازی بھی ہوئی۔
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں فارغ ہوگئے تو گھر جانے کا فیصلہ کیا۔دائم کا گولف کھیلنے کا پلان تھا تو دونوں جاہ بنگلا ہی روانہ ہوئے۔
                            ★ ★ ★
نیمل کے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد انوش اور عائشے ساتھ بیٹھیں۔
"تمھاری نند مجھ سے بہت مختلف ہے خبردار آئیندہ اسکے ساتھ مجھے ملایا۔"بیٹھنے سے پہلے انوش نے عائشے کا بازو کھینچ کے کان کے قریب سرگوشی کردی۔تف ہے..وہ اس بات کو لے کر بہت ہی سنجیدہ ہوگئی تھی۔عائشے نے چکراتے سر کو تھامے اسے دیکھا اور سر نفی میں ہلاتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
نیمل ان دونوں کو گلبرگ لے آئی۔یہ مال تھا یا محل؟عائشے کو بڑا تعجب ہوا۔اب ایسا بھی نہیں تھا کہ اس نے کبھی مال نا دیکھا ہو پر یہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اندر ہر چیز چمچماتی ہوئی تھی۔لینا تو تینوں کو کچھ تھا نہیں بس اچھا وقت گزارنا تھا۔عائشے کو بڑی کوفت ہورہی تھی۔اتنے مہنگے کپڑے تھے وہ مڈل کلاس لڑکی صرف خریدنے کے لیے سوچ سکتی تھی۔جب کہ انوش اور نیمل ساتھ مل کر سارے بوتیکس کھنگال چکی تھیں اور دونوں کو بے حد مزا آیا تھا۔اسی دوران دونوں میں کافی بات چیت ہوئی اور تھوڑی بہت جو جھجھک تھی وہ ہوا میں غائب۔
عائشے کو فوڈ کورٹ میں چھوڑ چھاڑ وہ دونوں مزے سے گھوم رہی تھیں۔
وہ سموتھی اسٹرا سے لگا کر پی رہی تھی دونوں ہاتھوں میں چند بیگس لیے دور سے آتی نظر آئیں۔اگلے کچھ سیکنڈ میں وہ دونوں اسکے سامنے ٹیبل کی کرسی پہ آرام سے براجمان کھانے کے لیے سینڈوچ منگوا رہی تھیں۔
"انتہائی بد تمیز ہو تم دونوں۔۔شاپنگ کرنی تھی تو مجھے یہاں ہی چھوڑ دیا اور باقی پورا مال بلاوجہ گھمایا۔"عائشے نے خفت سے کہا تو دونوں ہنس دیں۔
"مجھے کچھ کپڑے پسند آگئے تو لے لیے۔بے فکر رہیں آپکے لیے بھی ایک ساڑھی لی ہے۔"نیمل نے مزے سے بتایا عائشے کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
"ساڑھی؟کس خوشی میں لی ہے۔میں نہیں پہنتی یہ۔"نیمل نے بیگ ٹیبل پہ رکھا اور اس میں سے سرخ رنگ کی ساڑھی باہر نکالی۔
  "یہ اتنی پسند آئی کہ چھوڑنے کا دل نہیں کیا۔میری شادی نہیں ہوئی ایسے پہنونگی تو مام غصہ کریں گی ویسے بھی وہ مجھے خریدنے نہیں دیتیں پر آپکے نام سے لونگی تو کوئی کچھ نہیں بولے گا۔اب یہ آپکی ہے مرضی ہو تو پہن لیے گا کبھی۔ورنہ ایک بار میں تو اسے ضرور ٹرائے کرونگی۔"اس نے ساڑھی پہ ہاتھ پھیرتے کہا۔وہ سلک کی سادھی سی ساڑھی تھی۔جسکے پلو پہ نگینوں کا نفیس کام بنا تھا۔
عائشے سر ہلاتی رہ گئی۔
"یار تم فالتو چیزیں اسے دکھا رہی ہو کام کی چیز دکھاؤ نا۔"
"نہیں نہیں۔بھائی جان غصہ کریں گے..."
"ارے تم تو بڑی ڈرپوک نکلی..ممی ڈیڈی گرل۔"انوش نے اسے ورغلایا عائشے کے ماتھے پہ بل پڑے۔
"ڈرنے کی کیا بات...لیکن میں بھائی کو دونگی وہ بھابھی کو خود اپنے ہاتھ سے دینگے تو زیادہ بہتر رہے گا۔"نیمل کے کہنے کی دیر تھی عائشے کا تجسس ساتویں آسمان کو جا لگا۔
"اب تو تم کو دکھانا پڑے گا کیا لیا ہے۔ان کو پتا تھوڑی لگے گا کہ میں نے پہلے سی دیکھ لیا۔"عائشے واضح طور پہ بولی۔
"نہیں بھئی..."
"چچچ....عائش تم مجھے اسکے ساتھ ملا رہی تھیں۔تمھارے لیے میں کیا کچھ کردیتی ہوں اور یہ ایک ڈبہ کھول کر نہیں دکھا سکتی۔"انوش گلزار کی زبان کبھی رک جائے ایسا ہوا ہے؟نیمل نے دانت پیسے دل تو کیا تھا بال نوچ لے اسکے۔ڈبے کا سن کر عائشے کو مزید تشویش ہوئی۔کیا تھا ڈبے میں؟
"یہ لیں دیکھیں..."نیمل نے اپنے بینڈ بیگ سے ایک ٹرانسپیرنٹ شیشی نما باکس نکال کے عائشے کے سامنے کیا۔عائشے نے اسے ہاتھ میں لیا۔
"کھول کے دیکھو۔"انوش بولی۔"ہمم.."گنگ سی حالت میں عائشے نے جواباً کہا۔
باکس جتنا چمک رہا تھا اسکے اندر رکھی چیز کی چمک اور زیادہ تھی۔عائشے نے آہستہ سے کھولا تو اندر نازک سے ایک نگینے پہ مشتمل انگھوٹی چمک رہی تھی۔اس نے فام میں سے اسے نکال کے ہاتھ کے پوروں سے اٹھائی اور ان دونوں کو دیکھا۔
اسے اس بات سے سروکار نہیں تھا کہ ہیرا اصلی ہے کہ آرٹیفشل...وہ یہ سوچ رہی تھی اسکے لیے کیوں لی گئی؟بے شک وہ انگھوٹی بہت خوبصورت تھی عائشے کی نظر پہلی اس پہ سے ہٹی نہیں تھی۔
"کیوں لی یہ؟"اس نے بے ساختہ پوچھا تو وہ دونوں سر کے بل ٹیبل پہ دھڑام جھکیں۔دونوں کے شانوں پہ گرے بال منہ کو آئے۔دونوں ہی چڑیلوں سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔
انوش نے چہرہ اٹھایا کہنی ٹیبل پہ جماکے تھوڑی ہاتھ پہ ٹکائی۔
"دماغ گھٹنوں میں آگیا ہے کیا؟بیوی ہو تم انکی اسلیے بولا ہے کہ ایک انگھوٹی خرید لینا۔یا اللہ اسکا دماغ واپس لوٹا دے ورنہ میں پاگل ہوجاؤنگی۔میرے پاس کم دماغ ہے ورنہ میں اسکو دان کردیتی۔"انوش نے بے ساختہ ہوا میں ہاتھ اٹھا دیے اور دعا کی تھی نیمل ہنسنے لگی عائشے کی شکل پہ بارہ بجے۔
"ویسے یہ زیادہ قیمتی نہیں۔میں نے کہہ دیا بھائی کو میں زنگر برگر کی اولاد تو ہوں نہیں جو کڑوڑوں کا کریڈٹ رکھتی ہوں۔ابھی میں انگھوٹی لے رہی ہوں لیکن اگلی بار وہ خود اپنی پسند کی انگھوٹی لے کر آپکو دینگے۔"
عائشے نے جب مراد کو شاپنگ مال جانے کا بتایا تو تھوڑی دیر بعد مراد نے نیمل کو ٹیکسٹ کرکے انگھوٹی خریدنے کا بولا۔جس پہ وہ غصہ بھی ہوئی کہ وقت نکال کر خود بھی وہ یہ کام کرسکتا تھا۔اور اتنے پیسے اسکے پاس بھی نہیں تھے کہ اصلی ہیرے کی انگوٹھی خریدتی مراد نے کہا تھا وہ پے منٹ کردیگا پر وہ نا مانی۔صاف بھائی کو انکار کردیا اور اسے خود خریدنے کا بول کر کال کاٹ دی تھی۔
"لائیں دیں اب..اور بھائی جب آپکو یہ دیں تو بلکل ظاہر نا کرنا کہ پہلے ہی یہ دیکھ رکھی ہے۔ٹھیک ہے!"نیمل اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔حقیقتاً نیمل عمر میں تھوڑی بڑی تھی پر رشتے کے لحاظ سے عائشے کو پورا اس نے احترام دیا تھا۔اس نے سر ہلاتے انگھوٹی واپس کردی۔انوش کی شیطانی مسکراہٹ پر جھینپتی ہوئی عائشے سانس بھر کے رہ گئی۔اندر دل میں کہیں ایک خوشی کی لہر دوڑی تھی جو نظروں سے صاف بیاں تھی۔
                          ★ ★ ★
تین گھنٹے مال میں گزارنے کے بعد تینوں سینما پہنچ گئیں۔ان دونوں کا اتوار کی چھٹی منانے کا بھرپور ارادہ تھا پر جب مووی میں مزا نا آیا تو درمیان میں ہی چھوڑ کر وہاں سے نکل گئیں۔عائشے چل چل کے تھک چکی تھی پر ان دونوں کے بیٹری سیل فل چارج تھے۔رومائزہ کی کمی نیمل نے پوری کردی تھی۔اکثر وہ تینوں بھی اتوار کو باہر گھومنے کے لیے نکل پڑتی تھیں۔انوش ڈرائیور کے ساتھ آتی تھی پہلے روما کو پک کرتی پھر عائشے کو۔اور وہ دونوں ہی گھومنے پھرنے کی بلا کی شوقین تھیں۔عائشے کو اتنا معلوم تھا جتنا لاہور اسکے ماں باپ نے نہیں گھمایا اس سے زیادہ وہ ان دونوں کے ساتھ گھوم چکی ہے۔خود کو بہت خوش نصیب سمجھتی تھی جو رومائزہ اور انوش اسے مل گئیں۔جی دار قسم کی اور عائشے بے زار سی جسکو کافی حد تک دونوں نے بدل کے رکھ دیا تھا۔
  "یہ گھر کا راستہ تو نہیں ہم کہاں جا رہے ہیں؟"
نئی صاف ستھری سڑکیں اور عمارتیں دِکھیں تو عائشے نے پوچھا۔
"لونگ ڈرائیو...یہاں سارے پولیٹیشنز کے بنگلے اور حویلیاں آئیں گی۔ہم اندر جا کے تو وہ محلات دیکھ نہیں سکتے پر باہر کے نظاروں سے کیوں محروم رہیں...مزا آئیگا آپ بس خاموشی سے بیٹھ کے انتظار کریں۔"اس نے اسے چوں چراں کرنے سے پہلے ہی منہ بند کردیا۔عائشے نے کمر سیٹ سے چپکا لی۔
"کیا ہوا احمد بھائی گاڑی کیوں بند ہوگئی؟"نیمل نے ونڈو سے جھانک کے کہا۔آگے انجن پہ جھکا احمد سیدھا ہوا۔
"بی بی گاڑی گرم ہوگئی ہے تھوڑی دیر صبر کریں ٹھیک ہوجائے گی۔"
"اچھا چلیں ٹھیک ہے..."وہ واپس اندر ہوکے بیٹھ گئی۔
نئی نئی سڑکیں تھیں موسم بھی خوشگوار تھا انوش سے اندر اکیلے بیٹھا نا گیا وہ گاڑی سے اتر گئی۔
سناٹے دار جگہ تھی دیر دیر میں گاڑیوں کا گزر ہوتا۔گاڑی کے قریب ہی انوش کمر پہ ہاتھ رکھ کر چکر کاٹ رہی تھی۔اتنے میں کئی گاڑیاں قریب سے گزریں پر کوئی مدد کے لیے نا آیا۔
"کوئی مسئلہ ہے کیا؟میں مدد کرسکتا ہوں؟"اچانک کسی کے قریب سے کہنے پہ انوش بری طرح اچھل کے پلٹی بے ساختہ دل کے مقام پر اسکا ہاتھ بڑھا اور گہری گہری سانسیں لیں۔
"مسٹر آپ یہ دور رہ کر بھی پوچھ سکتے تھے۔"وہ آنکھیں دکھاتی بولی دائم نے بات ہوا میں اڑادی۔
"کیا مسئلہ ہے؟"اس نے احمد سے پوچھا اور آنکھوں سے چشمہ ہٹا کر ایک نگاہ گاڑی پہ ڈالی۔
"کوئی مسئلہ نہیں ہے جائیں یہاں سے۔"انوش کو غصہ آیا۔
"اوہ میڈم تمیز رہیں مدد کا پوچھنے آیا تھا میں پر غلطی ہوگئی۔۔کھڑی رہو سردی میں جم جاؤ۔"وہ بھی غصے میں سناتا پلٹ گیا۔
"ہاں تو آپ تمیز سے رہیں نا۔"وہ پیچھے سے دانت پیس کے چلائی گردن موڑ کے دائم نے انوش کے سراپے پہ نگاہ ڈالی۔سمارٹ سی چھوٹے بالوں والی لڑکی بلکہ لڑاکہ لڑکی جسکی ناک سردی سے پہلے ہی لال تھی۔
"ارے جاؤ اپنا کام کرو میرے منہ نا لگو۔"
"میری جوتی تمھارے منہ لگنا پسند نا کرے۔"دائم کی آواز کے برابر ہی اس نے آواز نکالی۔باہر شور ہونے پہ نیمل اور عائشے باہر نکل آئیں۔
"سمجھتی کیا ہو خود کو کوئی حور پری ہو؟"وہ غصے میں ابلتے قریب آیا۔
"تم خود کو کیا سمجھتے ہو کوئی ہیرو ہو یا ملک کے وزیراعظم!"آئبرو اچکا کے اس نے تنک کر جتایا۔
"پتا بھی ہے میں کون ہوں!اے ایس پی مراد دمیر کی سالی ہوں۔۔اور یہ۔"مزید بولتے ہوئے انوش نے عائشے کو ساتھ کھینچا.
"اے ایس پی صاحب کی بیوی اور یہ بہن۔"نیمل کی بھی کلائی دبوچ کے اسے قریب کیا۔
دائم ںے ان دونوں لڑکیوں کو بھی دیکھا۔انوش نے مغرور انداز میں اسے دیکھا گردان تانے سینے پہ ہاتھ باندھ لیے۔دائم کے چہرے پہ ڈر کے آثار رونما ہوئے انوش کے دل کو تسکین ملی۔
"اور میں پتا ہے کون ہوں!"
"آوارہ لوفر آدمی.."
"ناٹ ایٹ آل۔۔دائم علی ہوں سلور ہولڈنگ کا مالک۔اور وزیر اعظم کا تو پتا نہیں پر فیوچر کے وزیراعظم کا بھائی ہوں۔"اسکے چہرے پہ جھک کے چبا چبا کے استہزاء سے بولا اس سے پہلے انوش اسکا مذاق اڑاتی گاڑی میں سے میران اترا۔انوش کی نظر اس تک گئی یک دم اسکے تاثرات ڈھلیے پڑے۔اس نے کھلے منہ سے دائم کو دیکھا جو اسکی حالت دیکھ کر اب خوب محظوظ ہوا تھا۔
"از دئیر اینی پرابلم؟"آنکھوں سے کالا چشمہ اتارتے وہ قریب آیا۔وہ تینوں ہی دنگ تھیں۔وہ بھی بے حد دنگ...سڑک پہ میران جاہ مل جائیگا بھلا کبھی سوچا ہوگا۔ہاں صرف سوچا ہی ہوگا۔
"یس...کائیندلی ٹیل ہر آور ریلیشن!"میران نے ناسمجھی سے دیکھا۔اسکی گاڑی دور تھی جب ہی ساری گفتگو سے بے خبر تھا۔
"یہ محترمہ کسی اے ایس پی مراد کی سالی صاحبہ ہیں میں نے کہا میں بھی تمھارا بھائی ہوں قریبی یار۔۔پر انکا تو منہ ہی کھل گیا ہے۔"
مزے لیتے ہوئے وہ چشمے کی ڈندی انگلیوں میں پھنسا کر بولا۔میران کی نظر ان تینوں پہ پڑی۔
جانے پہچانے چہرے تھے۔وہ بھولا نہیں تھا انھیں یاد تھیں دونوں۔رومائزہ کی دوستیں!
عائشے نے انوش کا کھلا منہ بند کیا اور اسے سنبھالا جس کو دھچکا ہی لگا ہوا تھا۔
"اسلام و علیکم سر...آپ واقعی انکو جانتے ہیں؟"دماغ واپس ٹھکانے لگا تو پوچھا۔
"جی بلکل۔آپ تینوں یہاں کیوں کھڑی ہیں؟سورج ڈھلنے لگا ہے اندھیرا ہوجائیگا اور یہ علاقہ مزید سنسان۔"
"سر وہ ہماری گاڑی خراب..."
"بی بی جی یہ ٹھیک ہوگئی ہے۔"احمد گاڑی بند کرتے بولا نیمل نے سر ہلایا۔
"مس نیمل آپ نے بتایا نہیں آپ کے بھائی اے ایس پیییی ہیں۔"دائم نے پی کو کچھ زیادہ ہی جما کر نیمل کو دیکھتے کہا وہ الجھن کا شکار صرف مسکرائی۔
"سر فارم میں بھائی کے پروفیشن کا پوچھا نہیں تھا جو بتاتی۔"اسکے جتا کر کہنے پہ انوش کی ہنسی چھوٹ گئی۔وہ سارا معاملہ اخذ کرچکی تھی۔
"یہ تو بڑی ہیوی ڈرائیور نکلی۔کب سے اسکے باس سے لڑ رہی ہوں مجال ہے اس لڑکی نے ایک بار جو روکا ہو الٹا کھڑے مزے لے رہی تھی۔"انوش عائشے کے کان میں جھک کے بولی عائشے نے اسے گھوری نوازی۔انوش دل ہی دل میں نیمل کے گن مان چکی تھی۔پورا دن ہی ساتھ گزارا تھا اچھے سے اندازہ ہوگیا تھا کس قسم کی لڑکی ہے۔
"کبھی ملوائیے گا اپنے بھائی سے مل کر خوشی ہوگی۔"
"میں ملوادونگا اب چلو یہاں سے۔"میران نے سنجیدگی سے لب ملائے کہا۔
"تم جانتے ہو کیا اسے؟"اسکے پوچھنے پہ میران نے ہلکا سا سر ہلا کے ہاں کہا۔
"بھائی نے بتایا تھا وہ آپ سے ملے ہیں۔آپ کو گولی لگی تھی نا اب ٹھیک ہیں آپ؟"نیمل کو یاد آیا تو پوچھ لیا۔میران مسکرایا۔انوش اسکی مسکراہٹ دیکھ رہی تھی پھر لعنت دے کر ذہن جھٹکا۔
"الحمدللہ میں ٹھیک ہوں۔بھائی کو سلام دینا۔"وہ مسکرا کر بولا اور نظروں میں ہی دائم کو چلنے کا کہا پر وہ بھی ڈھیٹ کا بچہ ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا وہیں کھڑا رہا اور دلچسپی سے نیمل کو سن رہا تھا۔
"میں بول دونگی۔آپ بہت اچھے انسان ہیں میری بہت خواہش تھی آپ سے کبھی مل لوں۔ایک تصویر لے سکتی ہوں کیا؟"خوشی سے بتاتے ہوئے نیمل نے اجازت طلب کی میران کی حامی پہ اس نے عائشے اور انوش کو بھی ساتھ لیا اور دائم کو موبائل پکڑا کے تصویر کھینچنے کی ذمہ داری سونپ دی۔
"یہ بلکل اچھی نہیں آئی ایک اور پلیز!"دائم نے انکو تصویر دکھائی تو انوش ناک چڑھا کے بولی دائم نے دانت پیسے۔
وہ تینوں واپس جگہ پہ کھڑی ہوگئی درمیان میں میران تھا۔کلک کی آواز آئی دائم نے چاروں کو کیمرے میں محفوظ کرلیا۔
"بس یہ آخری تھی میں کوئی فوٹوگرافر نہیں جو رات تک کھڑا یہی کرتا رہوں۔ہمیں دیر ہورہی تھی چلو بھائی چلتے ہیں۔"نیمل کو موبائل اس نے موبائل لوٹایا اسکی بات پہ نیمل نے برا سا منہ بنایا تھا دائم کے نقش ڈھلیے پڑے دھیمے سے مسکرایا۔
میران نے شہادت کی انگلی سے ماتھا کھجایا۔
"تم دونوں کی ایک دوست اور بھی تھی نا..."لہجہ سرسری تھا۔
"جی....وہ کشمیر گئی ہے کچھ دنوں میں آجائے گی۔"انوش کی زبان سے بے ساختہ پھسلا عائشے نے جبڑے بھینچ کے اسے گھورا تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت تھی!
"اوہ اچھا۔اینی ویز..."کشمیر گئی ہے یعنی شنواری نے سب سنبھال لیا تھا۔رومائزہ کے خیال پر لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔
"ٹھیک ہے مس نیمل آپ سے پھر آفس میں ملاقات ہوگی۔"دائم اسے نظروں میں لیے بولا۔اور میران کے پیچھے ہی ہولیا۔
ان تینوں نے سانس بحال کی۔
"مجھے تو یہ خواب لگ رہا تھا۔اگر وہ سلور ہولڈنگ کا بندر نا ہوتا تو میں خواب ہی سمجھتی۔"میران کے خیال پہ انوش بولی اور دائم کا سوچ کے غصہ چڑھا تھا۔اسکی پہلی ملاقات زیادہ تر ایسی بری ہی ہوا کرتی تھیں۔
"نیمل وہ تمھارے باس تھے تم نے بتایا ہی نہیں۔"عائشے نے اسکا کندھا پکڑا نیمل نے شانے اچکا دیے۔
"باس ہونگے آفس میں۔۔بہت اچھا کیا انوش تم نے۔خدا کی قسم دل باغ باغ ہوگیا۔اتنا اپنے ایمپلائز سے یہ کام کرواتے ہیں نا کہ بس...."وہ ابل پڑی۔
"اچھا اچھا ٹھیک۔اب ہم بس واپس گھر جائینگے۔احمد بھائی گاڑی واپسی موڑ لیں۔"عائشے احمد کو کہتے گاڑی میں بیٹھ گئی بال درست کرکے وہ دونوں بھی اسکے ساتھ ہولیں۔
                           ★ ★ ★
"کیا دیکھ رہے ہو؟سڑک پہ دھیان دو۔"گاڑی میں بیٹھنے اور اسٹارٹ کرنے کے بعد سے ہی دائم مسکراہٹ کے ساتھ بار بار میران کو دیکھے جا رہا تھا بلا آخر میران نے الجھ کے پوچھ ہی لیا۔
"کون تھی وہ جسکا تم نے ان لڑکیوں سے پوچھا؟"اسکے ذہن میں شک کا کیڑا پیدا ہوگیا تھا۔لب دبائے اس نے میران سے پوچھا جسکے تاثرات بدلنے میں کوئی فرق نا آیا وہ ہنوز ونڈو سے باہر دیکھتا رہا۔
"کوئی نہیں..."
"کوئی تو تھی وہ...تم کسی کو یاد رکھو اور اسکے بارے میں پوچھو دائم علی کو بے وقوف سمجھ رکھا ہے کیا!سچ بتاؤ کہیں وہی تو بھابھی جی نہیں؟"اسٹیرنگ پہ ہاتھ جمائے اس نے گردن میران کی طرف موڑے کہا۔میران نے ہنکارا بھرا۔
"تم ایک بات کے پیچھے پڑ جاتے ہو تمھاری یہ بری عادت مجھے بے حد زچ کرتی ہے...کہہ دیا کوئی نہیں ہے۔ایک جامعہ میں اسپیچ ونر تھی وہ...کافی اچھے خیالات تھے اسکے...بس اسی لیے پوچھ لیا۔"تپ کر کہتے وہ خاموش ہوگیا دائم کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
"اچھا ٹھیک ہے کچھ نہیں کہتا مان لی تمھاری بات!"اس ںے توجہ واپس ڈرائیونگ پہ مرکوز کردی۔
                            ★ ★ ★
لاؤنچ خالی تھا وہ دل کی تیز رفتار پہ لگام ڈالتی ہوئی لان کے دوسرے دروازے پہ پہنچ گئی۔
دعا کر رہی تھی باہر کوئی موجود نا ہو،مشکل ہی تھا اس حصے میں شام کے وقت گارڈز کا آنا جو ویسے بھی منع تھا اور اب تو دن ڈھل گیا تھا۔اس نے ہلکا سا جھانکا راستہ صاف تھا پر ایک گارڈ دوسری طرف رخ کرکے ہاتھ میں گن لیے اپنی پوزیشن میں کھڑا تھا۔وہ دبے قدموں دروازے سے باہر نکل کر چھپڑے کے نیچے کو آگئی۔لان کی داہنی سائیڈ تھی۔گارڈ درمیان میں کھڑا تھا دروازے کے سامنے آٹھ فٹ کی اونچی دیوار تھی۔پر اس تک پہنچنے کو بھی لان کا طویل راستہ طے کرنا تھا۔جب تک وہ پہنچتی گارڈ نے پلٹ کر دیکھ ہی لینا تھا۔
گملوں کے پاس پڑے لکڑی کے تختے پہ اسکی نظر پڑی اس نے گارڈ کو دیکھا۔اور پھر نا آؤ دیکھا نہ تاؤ اسکی طرف لپکی مضبوطی سے لکڑی ہاتھ میں دبائی اور گارڈ کے سر تک دبے پیر پہنچ کر کھینچ کے پوری طاقت لگا کر تختہ اسکے سر پہ دے مارا۔گارڈ سر پہ پڑتے تختے کی تکلیف سے تڑپتا سر پہ ہاتھ رکھ کے اسکی جانب پلٹا۔سر سے اسکے خون بہنے لگا۔اور چند ہی لمحوں میں اسکا ہاتھ خون سے رنگ گیا۔رومائزہ خوف و ہراس سے تختہ ہاتھ میں لیے کھڑی تھی۔
گارڈ کچھ کر ناسکا چکراتے سر کے ساتھ زمین بوس ہوگیا۔روما نے تختہ وہیں پھینکا اور اسٹول اٹھا کر دیوار کو لگایا۔اور لمحوں میں وہ دیوار پہ چڑھ گئی۔
نیچے دیکھا اونچائی زیادہ لگ رہی تھی پھر بھی دل مضبوط کرکے دیوار سے چھلانگ لگادی۔ہتھیلیوں کے بل وہ زمین پہ گری ہاتھوں پہ خراشیں آگئیں۔
سارے گارڈز فارم ہاؤس کے فرنٹ حصے پہ نافذ تھے وہاں سے فرار ہونا تو ناممکن تھا۔میران کی ملی چھوٹ کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا اور دوسری طرف سے باہر بھاگ نکلی۔
رومائزہ نے سر اٹھایا ہاتھ میں جلن سے تکلیف ہورہی تھی پر خود کو باہر آذاد دیکھ اسکے ہونٹوں پہ فاتح کن مسکراہٹ پھیل گئی۔وہ اٹھ کھڑی ہوئی کپڑے اور شال جھاڑی ماسک درست کیا۔اور چھوٹے چھوٹے قدم لیتی دیوار سے لگ کر ایک کنارے کو آگئی۔اصلی امتحان تو اب تھا۔نکل کر بھاگنا تو فارم ہاوس کے دروازے سے ہی تھا۔باہر بھی گارڈز نافذ تھے۔ان کے پاس بھی بندوقیں تھیں۔کیا کرتی اب؟دھیان بھٹکاتی؟
اگر انکو شک ہوجاتا اور وہ پکڑی جاتی تو...ارادہ بدل لیا انتظار کرنا تھا شاید وہ اندر جاتے۔
کچھ دیر اس نے انتظار کیا اندر سے جب وہ باہر نکلی تھی اسے لان کے سامنے والی طرف سے گارڈز کے ہنسنے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔اس نے لاؤنچ کی گلاس وال سے پردہ سرکا کے جھانکا تھا وہ سارے شطرنج کھیل رہے تھے۔
روما نے تھوڑی دیر بعد اب پھر جھانکا وہ دونوں نہیں تھے۔اس نے نکلنے کے لیے جیسے قدم بڑھائے وہ ٹہلتے ہوئے پھر دروازے سے تھوڑے آگے تک آگئے۔
وہ واپس ٹہھر گئی انکے جانے کاانتظار کیا پر انکی تو چہل قدمی شروع ہوگئی تھی۔اسے حلیمہ بی کے جاگنے سے پہلے ہی بھاگنا تھا۔
اس نے انکے چکر لگانے کی ٹائمنگ نوٹ کی۔
تقریباً ایک ڈیڑھ منٹ کے بعد وہ واپس باہر آرہے تھے۔
اس نے گہری سانس لی چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اللہ سے دعا کی اور گارڈ کے اندر کی طرف پلٹتے ہی سامنے کی پٹی پہ بھاگ نکلی جہاں گاڑیاں کھڑی تھیں اور تیزی سے ان گاڑیوں کی اوٹ میں فارم ہاوس کی حدود پار کرگئی۔
ایک جگہ ٹہھری سانس بے حد پھول چکی تھی۔گھٹنوں پہ جھک کے گہری سانسیں لیں پیچھے پلٹ کے دیکھنے کی اس نے غلطی کی بھی نہیں تھی تیزی سے وہاں سے فرار ہوئی تھی۔
چلتے چلتے فارم سے کافی دور آگئی ہر طرف تاریکی پھیلی تھی چاند بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا روشنی کیے ہوئے تھا ۔
اب آگے جانا کہاں تھا یہ اسے معلوم نہیں تھا۔گھر کیسے پہنچتی؟اسے تو یہبھی نہیں پتا تھا کہ وہ لاہور میں بھی ہے کہ نہیں یا کسی دوسرے شہر میں۔وہ ساری جگہ سناٹے میں ڈوبی تھی۔کوئی راہ چلتا آدمی نا دکھائی دے جس سے علاقے کا معلوم کرسکے۔
چلتے چلتے ایک میدانی سے رستے پہ آگئی اسکا دل بیٹھے جا رہا تھا بس ساتھ خیریت سے بابا کے پاس پہنچنا چاہتی تھی۔
پیچھے کئی موڑ آئے تھے کہیں دائیں طرف اس نے راستہ اپنایا تو کبھی بائیں۔آبادی والا علاقہ اسے مل ہی نہیں رہا تھا۔
"یا اللہ یہ مجھے کہاں لے آیا تھا مجھے تو لاہور لگ بھی نہیں رہا ہے۔"وہ تمام جگہیں آنکھوں کے لیے نئی تھیں راستوں سے نا آشنا رومائزہ بھٹکتی ہوئی ایک سڑک پہ آرکی۔
سامنے جیپ کھڑی تھی تین آوارہ لڑکے سیگریٹ پی رہے تھے۔اس سے پہلے وہ پلٹ کے بھاگتی وہ اسی کی طرف آنے لگے۔دل سوکھ کے لرزنے لگا۔
"ہیلو میڈم ادھر کدھر؟ہم راستہ بتا دیں کیا؟"وہ تین جوان اسکے سامنے آن کھڑے ہوئے نظروں سے خباثت جھلک رہی تھی اسکو اب اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا اکیلے بھاگنا اس قدر مشکل ہوسکتا تھا اس نے سوچا ہی کہاں تھا۔ایک ان میں ہٹا کٹا باڈی بلڈر سا لڑکا تھا اور باقی دو ڈالی کی طرح کمزور تھے پر تھے تو مرد ہی۔آوارہ بدمعاش لڑکے دکھائی دے رہے تھے۔
رومائزہ نے خاموشی سے راستہ الگ کرنا چاہا آگے بڑھنے کی کوشش کی تو وہہ ہٹا کٹا لڑکا اسکے راستے میں حائل ہوا روما ںے خونخوار نگاہ اس پہ ڈالی۔
"کیا بدتمیزی ہے راستہ چھوڑو میرا۔"وہ پھنکاری۔اس لڑکے کا قہقہ بلند ہوا اسکے ساتھی بھی ہنسنے لگے روما کے پیر ویسے ہی لرز رہے تھے چل چل کر ٹانگیں شل ہوگئی تھیں۔
"اور نا چھوڑیں تو؟"دلنشینی سے کہہ کر اس لڑکے نے رومائزہ کی کلائی دبوچ لی۔اسکی آنکھیں باہر نکل آئیں دل میں بیٹ مس ہوئی۔
یہ کیا کردیا اس نے عزت کے لالے پڑتے دیکھ اسکا روم روم کانپ اٹھا۔
                                      جاری ہے.....
Do vote!
And tell me in comments how's the episode...
Roma bibi ka karnama dekha ap logo ny🙂kuri bhag nikli...
Baki ab Allah hu kher kre...
Comments kia krein writer ki mehnat wasol hojati👍

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now