قسط 14 ہم راز

776 59 16
                                    

میران اٹھ کے حلیمہ بی کے پشت قدم کمرے کی طرف بڑھا۔حلیمہ بی نے ڈور لاک گھمایا اور اندر داخل ہوئیں۔رومائزہ نے بخار سے دہکتی آنکھیں کھولیں۔چند پل میران دروازے کے باہر رکا گیا تھا۔حلیمہ بی نے اشارے سے رومائزہ کو کچھ کہا وہ لحاف اوپر تک کھینچ کے اٹھ کے بیٹھ گئی اور تکیے کے پاس پڑا دوپٹہ اٹھا کے اوڑھا۔
حلیمہ بی نے دروازہ مزید کھولا تو وہ اندر آگیا ایک نگاہ اس پہ ڈالی۔بخار کی شدت سے چہرہ سرخی میں مائل تھا۔ہونٹ سوکھے پڑے تھے۔
"منع کیا تھا روکا بھی تھا ٹھنڈ کی برسات میں مت بھیگو پر تمھیں میری باتیں بکواس لگتی ہیں۔"
وہ خفا ہورہا تھا۔برہمی سے بولا۔رومائزہ نے اسے دیکھا جسم کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا۔
"تم نا میرے ابا مت بنو!"
"استغفار..."وہ سانس بھر کے رہ گیا۔
"میں ٹھیک ہوں اس برسات نے میرے اندر کی آگ بجھا دی ہے۔جو اب بخار کی صورت میں باہر نکل آئی۔صبح تک بخار اتر جائیگا۔تم بس میرے بابا سے میری بات کروادو۔"
لہجے میں کوئی منت نہیں تھی اٹل انداز تھا۔میران نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھا اسے دیر ہورہی تھی۔
پھر اپنا فون نکال کے نمبر ڈائل کرکے فون کان سے لگایا۔رومائزہ کی آنکھوں میں چمک اتر آئی۔
"بابا کو کال کی ہے؟"وہ پرجوشی سے بولی۔میران نے کمرے میں رکھی اسکی پیںٹنگز کو ایک نظر دیکھا۔وہ انھیں کبھی فرصت سے دیکھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
"ڈاکٹر کو!"
"مجھے ڈاکٹر کی نہیں بابا کی ضرورت ہے پلیز بات کروادو۔"اب کی بار لہجے میں نرمی اتر آئی۔اس نے وقت دیکھا۔
"تمھارے بابا نے ڈاکٹری بھی پڑھ رکھی ہے؟"وہ زچ آکر بولا۔روما اسے گھورنے لگی میران نے نگاہوں کا زاویہ بدلا۔
"رات ہوچکی ہے کیا معلوم وہ سو گئے ہوں۔بعد میں بات کروادونگا۔"موبائل کان سے ہٹا کے بولا۔ڈاکٹر نے کال اٹھائی نہیں تھی۔
"انتہائی ظالم ہو تم!سینے میں دل نہیں پتھر لگا ہے۔ایک بندہ کہہ رہا ہے تم سے کچھ مانگ رہا ہے اور تم دے بھی سکتے ہو پر نہیں...تم کو تو دھونس جمانا آتا ہے۔"بخار سر پہ ہی چڑھنے لگا تھا حلیمہ بی اسکے پاس بیٹھیں۔
"تمھاری زبان کی جگہ اللہ ںے قینچی لگا دی ہے۔"افسوس سے کہتے ہوئے پھر کوئی نمبر ڈائل کرکے اس نے موبائل حلیمہ بی کی طرف بڑھایا تھا۔
"صرف دس منٹ!مجھے دیر ہورہی ہے..."اپنی بات کہتا وہ کمرے سے نکل گیا۔رومائزہ نے بے یقینی سے موبائل کان سے لگایا اور گرم ہونٹوں کو چھوا۔
رِنگ ٹون بج رہی تھی...کیا بابا اتنی جلدی سوگئے ہونگے؟انکے متعلق کئی سوچیں دماغ میں گھومنے لگیں...سوچوں کا ارتکاز تب ٹوٹا جب مقابل سے آواز ابھری۔
"ہیلو...اسلام و علیکم،خیریت ہے میران صاحب؟"اپنے بابا کا مخصوص انداز سن کر خوشی سے اسکی آنکھیں بھیگ گئیں وہ آگے کو جھکی۔آنسو صاف کرتے رندھی آواز میں بولنے کی سعی کی۔
"بابا میں ہوں رومائزہ۔مجھے آپ بھول گئے نا..."فوراً اس نے شکوہ کیا تھا۔بیٹی کی آواز سن کر شنواری صاحب بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے۔خوشی سے انکی آواز لڑکھڑائی پیر لڑکھڑائے۔بے یقین سی کیفیت تھی۔
"میرا بچہ کیسی ہو تم؟تمھارے بابا تمھیں بھلا کیسے بھول سکتے ہیں۔"بالوں میں ہاتھ چلاتے انھوں نے خوشی دباتے کہا اور خوشی سے سنبھلتے صوفے پہ بیٹھ گئے۔
اتنے عرصے میران نے انکی رومائزہ سے بات نہیں کروائی تھی۔وہ دونوں کو ہی تکلیف سے بچانا چاہتا تھا بار بار ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے تو تڑپ بڑھتی۔
"بابا میں بلکل ٹھیک ہوں میری وجہ سے پریشان مت ہوں۔بس قرضا ادا کردیں جلد از جلد اس بوجھ سے جان چھڑا لیں۔"روما نے کراؤن سے کمر ٹکا لی آنکھیں موندے کہا۔
"بہت جلد میں اپنی بیٹی کو اپنے پاس بلا لونگا۔انٹرسٹ کی رقم اتارنے میں مشکل پیش آرہی پر میں کچھ نا کچھ کرلونگا۔"وہ کوئی بڑا قدم اب اٹھاتے۔
"انٹرسٹ؟"سود دینے کا سن اسے کپکپی طاری ہوگئی۔
"ہمم.."وہ مزید کچھ نہیں بولے روما کی خوشی میں جیسے بھنگ پڑا تھا اس نے دکھتے سر کو دبایا۔
"آپ کیسے ہیں طبیعت ٹھیک ہے؟عائشے اور انوش سے ملاقات ہوئی کیسی ہیں وہ دونوں؟نعمت بی کیسی ہیں؟"خود کو کمپوز کرکے اس نے پوچھا۔
"بچیوں سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔دونوں بار بار پوچھتی ہیں تمھارے واپس آنے کا۔اور یہاں سب ٹھیک ہیں۔"
"آپ کی آواز سے نہیں لگ رہا کہ آپ ٹھیک ہیں۔"
"بیٹا جس باپ کی بیٹی اسکے گھر میں نا ہو وہ اسکا تحفظ نا کرسکے اور کوئی غیر اسکو پناہ دے وہ باپ کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے۔"آنکھوں کے کنارے سے انھوں نے نمی صاف کی روما نے سر اثبات میں ہلایا تو بیڈ کراؤن سے ٹکرایا۔
   وہ ایک خود دار لڑکی تھی یہاں رہنا اسکے لیے بڑا مشکل کام تھا۔
پورے دس منٹ تک مزید اس نے بات کی اپنی بیمار حالت کی انھیں خبر نہیں ہونے دی تھی بس بار بار یہی کہا کہ مزید یہاں نہیں رہ سکتی جلد از جلد پیسوں کا بندوست کریں بھلے سب کچھ بیچ دیں۔اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ فیکٹری کا دیوالیہ نکل چکا ہے اب وہ سیل ہی ہوگی۔
یہ قرض کی وجہ سے ہوا تھا۔اچھے خاصے حالات تھے پھر سب ریزہ ریزہ ہوگیا۔شنواری صاحب نے قرض اتارنے میں جو دیر کی۔بوجھ ان پہ اس طرح آن پڑا تھا اور اسکا دماغ اسی سوچ پہ اٹک گیا تھا۔
بعض اوقات انسان انجانے میں ایسے اقدام اٹھا لیتا ہے جو بعد میں ناسور بن جاتے ہیں۔بے شک وہ ہمارا مستقبل سنوارنے کے لیے ہوتے پر یہ چار دن کی چاندنی آگے اندھیری رات کا روپ دھار لیتی ہے۔
احتشام شنواری سے بات کرنے کے بعد وہ اداس ہوگئی تھی۔حلیمہ بی کو مزید کچھ کہے اس نے کروٹ بدل لی۔وہ کمرے کی لائٹس آف کرکے میران کا موبائل لیے باہر نکل آئیں۔
"صبح تک بخار نا اترے تو لازمی ڈاکٹر کو بلا لیجیے گا۔"اس نے موبائل کوٹ کی جیب میں ڈالا اور انکے گلے سے لگا۔ہمیشہ کی طرح انھوں نے اسے دعاؤں میں رخصت کیا تھا۔
ہفتوں میں وہ یہاں آتا تھا اور جب آتا تو اسے باہر کی فکر نہیں ہوتی تھی کہ دنیا میں کیا چل رہا ہے،چند پل وہ سوچ و افکار سے جان چھڑالیا کرتا تھا۔وہ یہ کچھ لمحے صرف دومائزہ شنواری کے نام کرنا چاہتا تھا۔
                           ★ ★ ★
عائشے کو جامعہ جاتے دو دن ہوگئے تھے مراد کیس کے سلسلے میں مصروف ہوگیا تھا صبح جاتا رات کو لوٹتا عائشے تب تک سوجاتی تھی اور صبح بھی کوئی خاصی گفتگو انکے درمیان نہیں ہوپارہی تھی۔
    عائشے کی زندگی میں جیسے سب نارمل ہونے لگا تھا سوائے ایک دو چیزوں کے۔ایک وہ محمل نامی چڑیل اور دوسرا بڑی نند اور ساس!باقی مراد اور نیمل کا رویہ تو پہلے سے ہی ٹھیک تھا۔
مغرب کے وقت وہ ڈیوٹی سے واپس آگیا تھا۔فریش ہوکے وہ باہر نکلا عائشے نیمل کے پاس سے کمرے میں آئی تھی اسکی شکل پہ بجے بارہ دیکھ مراد کو تشویش ہوئی۔
"خیریت ہے اب کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟"عائشے کو لگا تھا دونوں کے درمیان طنزیہ گفتگو ختم ہو جائے گی پر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔پر اسے سمجھ آگیا تھا یہ طنز نہیں تھے اور اسے اب برے بھی نہیں لگرہے تھے۔ہر وقت کی جی حضوری بھی بھلا کہاں اچھی لگتی ہے۔تھوڑی بہت چیخ پٹاخ اسے بھی پسند تھی۔
انکا بلکہ رشتہ ہی ایسا بنا تھا۔
"آپ سے مطلب!"
چہرے پہ ہاتھ پھیر کر وہ صوفے پہ بیٹھ گئی۔مراد نے تولیہ ایک طرف رکھا اور اسکے برابر میں آکے بیٹھ گیا۔گیلے بال ماتھے پہ گرے تھے کالی ہالف سیلوز شرٹ سے کسرتی بازو نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔
"سارے مطلب ہی مجھ سے شروع ہوتے ہیں۔بتاؤ کیا بات ہے؟کسی نے کچھ کہا ہے؟"وہ اسکا اترا ہوا چہرہ دیکھتے بولا اور عائشے کی جھکی تھوڑی اٹھا کے اپنی جانب کی۔۔
"آپکو بتا بھی دونگی کونسا آپ نے میری مدد کردینی ہے۔"وہ بے تکلفی سے شانے اچکا کے بولی۔بات کو لمبا کرنے پہ مراد جھنجھلایا عائشے کو اسکی نظریں خود پہ جمتی محسوس ہوئیں۔
"اچھا اچھا بتاتی ہوں۔آپکی مام نے مجھے کہا ہے گھر کا کھانا میں بناؤنگی۔"انگلیاں مڑوڑتے اس نے کہہ ہی ڈالا مراد کو سب ٹھیک لگا۔
"تو بنا لو،اور آپکی مام نہیں ہماری مام!"مراد نے اسکے گرد شانے پھیلائے عائشے نے سانس بھری۔
"کیسے بناؤں مجھے کھانا بنانا نہیں آتا۔"اس نے بچوں کی طرح اپنا پھوہڑ پن بتایا تھا۔
   "حد ہے عائشے،تو اس میں پریشان ہونے والی کونسی بات ہے؟مام کو تم بتادیتیں کے کھانا بنانا نہیں آتا۔وہ خود ہی بنا لینگی۔ایکچولی مام کو خانساماں وغیرہ کے ہاتھ کا کھانا پسند ہی نہیں وہ شروع سے کوکنگ خود کرتیں ہیں۔"عائشے کی بچوں جیسی بات سن کے وہ اسکے شانے پہ سے بازو ہٹاتا اٹھ کھڑا ہوا۔اس نے عائشے کی بات کو سیریس نہیں لیا تھا۔عائشے کو یہ سب معلوم ہوچکا تھا۔حتی کہ نیمل بھی کھانا بنانا جانتی تھی۔
"مسئلہ یہ ہے کہ میں نے انکو بول دیا ہے مجھے کھانا بنانا آتا ہے پر مجھے کھانا بنانا نہیں آتا اور کل پرسو انکل واپس آرہے ہیں مام نے کہا ہے کھانا میں ہی بناؤنگی۔"اس نے جھنجھلا کر چہرے پہ سے بال پیچھے کرکے بتایا عائشے کے مسئلے بھی نرالے تھے۔مراد تو بیوی اور ماں کی کھانا پکانے کی کہانی پہ لاجواب تھا۔
"تم جھوٹ بھی بول لیتی ہو..."عائشے اسکے جملے پہ سرخ ہوگئی۔
"اور آپکو جھوٹ بولنے والی لڑکیاں بھی بری لگتی ہونگی۔پر بے فکر رہیں اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ایک پھوہڑ جھوٹ بولنے اور رونے دھونے والی لڑکی ہی آپکے نصیب میں لکھ دی گئی ہے۔"
"نصیب کو تین بار اور آزما سکتا ہوں آخر کو شرعی حق حاصل ہے۔"وہ لہجہ سرسری رکھ کے بولا اور ٹی وی آن کر چکا تھا۔پہلے تو عائشے اسکی بات سمجھنی نہیں پھر جب سمجھ آئی تو اسکا دل ڈوب گیا وہ چار شادیوں کی بات کر رہا تھا۔
"ویسے خود کو اتنا ڈی گریڈ کرنے کی ضرورت نہیں تمھارا شوہر جانتا ہے تم کتنی بہادر ہو۔اور میرے لیے یہی کافی ہے۔رہی بات کام کی تو تم میرا کام کردیا کرو۔باقی گھر میں ملازم موجود ہیں۔اور میری ماں کا خیال رکھو گی تو مجھے اچھا لگے گا۔"وہ لب ملاتے بولا عائشے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ایسی بات نہیں ہے۔مجھے کام سے مسئلہ نہیں پر مجھے آتا ہی نہیں اب کیا کرونگی۔مجھے پتا تھا آپکے پاس کوئی حل نہیں ہوگا آپ صرف میری پریشانی کے مزے لیں گے۔"
تپ کے اس نے اپنا بیگ کھول دیا تھا اور ٹیبل پہ کتابیں بکھیر دیں۔اسائمنٹ بنانے کی غرض وہ ٹیبل پہ جھک کے اب کتابوں کے ساتھ کشتی کر رہی تھی۔وہ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولا۔
"ہاں سن کے مزہ تو بہت آرہا ہے۔جھوٹ بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔تمھیں کیا لگا مام تمھیں میڈل نوازیں گی کہ میری بہو کو کھانا بنانا آتا ہے!"اب مراد کو کون بتاتا اسکی بیوی کو زرپاش صاحبہ سے کتنا ڈر لگتا تھا۔اسکی نظر میں وہ ایک اچھی خاتون تھیں پر اسے غصے کی تیز لگتی تھیں جب کہ انھوں نے کبھی اس سے زیادہ بات چیت نہیں کی تھی۔پتا نہیں اسے بہو مانتی تھیں بھی کہ نہیں۔
"کرلونگی میں ہی خود کچھ۔آپ بس بیٹھ کے باتیں بنائیں۔پولیس والے کہیں کہ۔"وہ بڑبڑائی۔
"کچھ کہا تم نے؟"اسکرین سے نظر ہٹا کے اس نے عائشے کی آنکھوں میں دیکھے پوچھا۔
"کچھ نہیں کہا۔"آنکھیں چڑھا کے وہ واپس اسائمنٹ میں لگ گئی۔اے ایس پی کے کان بہت تیز تھے وہ اسکی بڑبڑاہٹ پہلے ہی سن چکا تھا۔اسکی بڑبڑاہٹ سوچ کر مسکراہٹ لبوں پہ برابر کردی۔
                            ★ ★ ★
       اٹلی جانے سے پہلے میران یہاں کے سارے کاموں سے فراغت چاہتا تھا۔روز کے دورے بزنس میٹنگز سیاسی ملاقاتیں وغیرہ تو ویسے بھی زندگی کا عام سا حصہ بن کے رہ گئیں تھی۔وہ وزیر اعلی کا بیٹا تھا اور اگلا الیکشن خود لڑنے کے لیے تیار تھا۔باپ کی مزید سپورٹ اسے حاصل ہوچکی تھی۔وہ عوام کے لیے کام کرتا تھا اور لوگ اسکے کام سے خوش تھے اسکا اخلاق اسکی شخصیت سب متاثر کرتی تھیں۔
کسی ہوٹل کی افتتاحی تقریب میں وہ مدعو تھا۔اسکی موجودگی سب کے درمیان کشش کا باعث بنی تھی۔اسکا انوکھا انداز،خود اعتمادی،چٹان سی جسامت...گہری سیاہ آنکھیں جب ہنستیں تو اردگرد کی کھال نرم پڑتی جاتی۔لبوں پہ مسکراہٹ کا قیام تھا جب وہ ہنستا تو مقابل دیکھنے پہ مجبور ہوجاتا کوئی مسحور کن لمحہ ہوتا تھا۔
اسکے پاس سفید کرتا شلوار بڑی تعداد میں تھے۔یا سفید رنگ اسکا پسندیدہ تھا۔اور آج بھی سفید کرتا شلوار پہ بھوری گرم چادر گلے میں ڈال کے گھوما رکھی تھی۔
دائم بھی وہاں موجود تھا گھمتا گھماتا وہ میران کے پاس پہنچ ہی گیا۔
"اتنے ہیرو بن کے آجاتے ہو تمھارے علاوہ لوگوں کو دوسرے دکھتے ہی نہیں۔"اپنی نیلی شرٹ کے اوپر جیکٹ کو درست کرتے اس نے کہا میران نے اسکا بن ٹھن کے آنا دیکھا اور پھر اپنی سادہ سی تیاری دیکھ کے سر جھٹکا۔
    "شادی کی تم کو اتنی بھی کیا جلدی ہے؟"
میران نے سوفٹ ڈرنک کا گلاس لبوں سے لگایا۔جگہ پہ ہجوم تھا ہوٹل کے مالک کے کئی دوست وہاں جمع تھے فاصلے فاصلے پہ ٹیبلز اور صوفوں کے گرد کھڑے اور بیٹھے تھے۔وہ دونوں بھی انھی کے درمیان کھڑے تھے۔
"میں چاہتا ہوں یہاں سے واپس جانے سے پہلے شادی کرلوں.."
"مجھے سو پرسنٹ یقین ہے تم نے کوئی پسند کر رکھی ہے۔"میران چھوٹتے ہی بولا تو وہ واضح طور پہ گڑبڑا اٹھا۔
"دعا کرو لڑکی مان جائے۔"پریشانی سے اس نے انگشت انگلی سے ماتھا رگڑا۔میران کے لبوں پہ مسکراہٹ در آئی۔
"اچھے خاصے گڈ لکنگ ہو مشکل ہے وہ منع کرے۔"وہ پہ زور دیتے میران نے کہا۔اسے معلوم تو نہیں تھا کس لڑکی کو دائم نے پسند کر رکھا ہے نا ہی وہ وقت سے پہلے جاننے کا خواہشمند تھا پر اسے اپنے دوست کی صلاحیتوں پر پورا یقین تھا۔
"فیکٹری کی ڈیل فائنل ہوگئی؟"اس نے سرسری سا پوچھا۔
"ہوگئی پر شنواری گارمنٹس سے نہیں۔سستے دام میں دوسری جگہ مل گئی ہے اور وہ صاحب بھی کم دام میں دینے کو تیار نہیں تھے تو انکے ساتھ بات نہیں بنی۔"ناک کی سیدھ میں وہ دیکھ رہا تھا میران نے اسکی نگاہ کا تعاقب کیا۔
"سہی.."
"پر اب انھوں نے اپنے اپارٹمنٹ کو سیل کرنے کی آفر سامنے رکھی ہے۔اور مجھے اپارٹمنٹ پسند بھی آگیا ہے۔"دائم نے اسے بتایا تو میران کو حیرانی ہوئی۔اس نے دائم کی طرف چہرہ کیا اور بھنوو اچکائے سوال کیا۔
"پہلے فیکٹری اور اب اپارٹمنٹ بیچ رہا ہے وہ...کیوں؟"
"شہر سے رہائش بدل رہے ہیں۔"دائم نے جواباً کہا میران سوچ میں پڑگیا سوفٹ ڈرنک کا گلاس لبوں سے لگا لیا۔
"تمھیں اپارٹمنٹ کی کیوں ضرورت پڑ گئی؟"سوال کرتے اس نے حیرانی چھپائی۔
"وہ اپارٹمنٹ اچھی سوسائٹی میں قائم ہے جہاں کافی رونق لگی رہتی ہے۔ڈیڈ کو بھی جگہ اچھی لگی اس لیے خرید رہا ہوں۔کیا تمھیں بھی اس اپارٹمنٹ میں دلچسپی ہونے لگی ہے؟"وہ پوچھتے ہوئے مسکرایا۔
  اسے اس اپارٹمنٹ میں دلچسپی نہیں تھی اس میں رہنے والی میں تھی۔
"بنا دیکھے میں کسی چیز میں انٹرسٹ بھلا کیسے لے سکتا ہوں۔خیر بیسٹ آف لک سودا تمھارے حق میں ہو۔"میران نے مسکرا کے اسکا کندھا تھپکا تو وہ سر خم کر گیا۔
ہوٹل کے اونر ریاض صاحب انکی طرف چلتے ہوئے آرہے تھے اور پاس آکے شور کی باعث کان میں سرگوشی کی تو وہ دونوں ہی ان کے ساتھ چل دیے۔چند لوگ مزید انکے ہمراہ تھے۔
ریاض صاحب نے انھیں ہوٹل کا پورا گراؤنڈ فلور دکھایا تھا۔وہ ایک کامیاب بزنسمین تھے اور اب فائیو سٹار ہوٹل کی اوپنگ کی تھی۔
  آخر وہ صوفے پہ آکے بیٹھ گیا ایک پچیس  سالہ لڑکی ایک کم عمر بچے کے ساتھ اسکے پاس آئی۔اس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے سلام کیا تو میران جگہ سے کھڑا ہوگیا۔
"وعلیکم اسلام۔"وہ اسے پہچان گیا تھا۔یہ وہی مصیبت تھی جس سے زولفقار میران کی شادی کروانا چاہتے تھے۔اسکے ساتھ جو بچہ تھا وہ اسکے بھائی کا بیٹا تھا۔اسکے والد کو وہ اچھے سے جانتا تھا زولفقار جاہ کے دوست تھے۔
"مجھے معلوم نہیں تھا آپ بھی یہاں ہونگے۔کافی عرصے بعد آپکو دیکھا ہے۔"
گود میں چڑھے چھوٹے بچے کے بال ٹھیک کرتے اس نے کہا۔وہ شاید اس بچے کو سنبھال نہیں پارہی تھی۔میران نے ہاتھ بڑھایا تو وہ بچہ خوشی خوشی اسکی گود میں اچھل کر آگیا میران مسکرایا اور اسکے گال کھینچے۔عزہ کی بات کا جواب اسکے پاس نہیں تھا۔اپنے لیے اسکی پسندیدگی سے وہ واقف تھا۔
"اسکے بابا کدھر ہیں؟"
بچے کے اس نے بال ٹھیک کیے۔وہ کیوٹ سا بچہ تھا خوش مزاج۔بھرے بھرے گال گلابی ہونٹ کالی بڑی آنکھیں اور سلکی بھورے بال جو ماتھے پہ گرے تھے۔میران نے پوچھتے ہوئے اردگرد نگاہ دوڑائی۔
"وہ ریاض انکل کے ساتھ ہیں۔آپ کبھی آئیں ہمارے گھر۔"وہ مسکراتے ہوئے بے ساختہ ہی بولی۔میران مسکرا نہ سکا۔عزہ کی نظریں اسکے شفاف چہرے پہ جمی تھیں جو ایک دم پتھریلا ہوا تھا۔
"ضرور آؤنگا۔"
"شادی کے بعد بھابھی کے ساتھ ہی آئینگے یہ۔میں بھی اتنا بولتا ہوں پر یہ میرے گھر بھی نہیں آتا۔بھابھی ہی اسے لے کر آیا کریں گی۔"دائم جو ناجانے کہاں سے واپس آیا تھا بیچ میں بول پڑا۔عزہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔اس نے بے یقینی سے میران کو دیکھا۔دوسری طرف میران نے دائم کی نظروں میں دیکھتے اسے دل ہی دل میں شاباشی سے نوازا تھا۔
عزہ جانتی تھی میران کے سامنے انکے رشتے کی پیش کش رکھی جا چکی ہے اور زولفقار انکل نے کہا تھا وہ اسی سے شادی کرے گا۔
    "اس چھوٹے حسام کا کیا نام ہے؟"بچے کے اس نے گال چومے کہا وہ موضوع بدل رہا تھا۔دائم تو بچے کو لے کر اسکی محبت دیکھ رہا تھا۔تو میران جاہ کو چھوٹے بچے پسند تھے۔عزہ نے بمشکل سانس لی۔اسکے چہرے کی چمک ہلکی پڑ گئی۔
"اسمائیل نام ہے۔"زبردستی بھی وہ مسکرا نا پائی....دائم اسکے تاثرات دیکھ کر اندر خود کو داد دے رہا تھا۔
"کھڑی کیوں ہو بیٹھ جاؤ۔"وہ اسے اپنی جگہ دے رہا تھا وہ پھیکا سا مسکرادی ایک نگاہ اس نے اس وجیہہ شخص کو دیکھا جسکے خواب اس نے سجا رکھے تھے۔وہ اسمائیل سے کھیل رہا تھا۔مغرور کھڑی ناک،عزہ کے لیے بے توجہی!وہ یہ سب برداشت نا کرسکی۔
"میں چلتی ہوں میری فرینڈ میرا انتظار کر رہی ہوگی۔"اسمائیل کو اس نے میران کی گود سے لیا تھا اتنے میں حسام اسکے پیچھے ہی آگیا۔
"بابا ہو ہو..."اسمائیل اپنے باپ کو دیکھ کر مچلا تو وہ ہنس دیا اور اسے اپنے بازوؤں میں بھر لیا۔وہ بچہ میران کی طرف انگلی اٹھا کے جیسے کچھ کہہ رہا تھا۔میراں تو سمجھ نہیں پایا۔
    "میرا بیٹا تمھاری تعریف کر رہا ہے۔"بات کی ابتداء ہی حسام نے یوں کی میران ہنسنے لگا۔اور اس سے مصافحہ کیا۔عزہ سے مزید کھڑا نہیں ہوا گیا۔میران اسکی بے چینی دیکھ سمجھ گیا تھا کوئی طوفان کھڑا ہونے والا ہے اور وہ بخوشی اس طوفان کا منتظر تھا۔
جب سے محبت ہوئی تھی زندگی میں طوفان ایک بعد ایک آئے جارہے تھے پر اس طوفان کا اسے خود انتظار تھا۔
"تمھارا بیٹا بہت پیارا ہے...ماشاءاللہ سے..اور یہ تم پہ بلکل بھی نہیں گیا۔"میران نے آہستہ سے اپنے ماتھے پہ گرے بال پیچھے کیے تھے۔عزہ کا دل وہیں ڈوب گیا بنا کچھ مزید کہے وہ پلٹ گئی دائم نے میران کو کہنی ماری تھی۔میران کے لب سی گئے۔
عزہ کے جانے بعد حسام اور میران نے کافی دیر بات کی پر شادی کا ذکر دونوں میں سے کسی نے بھی نہیں چھیڑا تھا۔حسام عزہ کی یک طرفہ پسندیدگی سے واقف تھا پر وہ میران کو بھی اچھے سے جانتا تھا۔اسے محسوس ہوچکا تھا عزہ میں میران بلکل بھی دلچسپی نہیں رکھتا تو وہ کسی صورت شادی بھی نہیں کرے گا۔
                            ★ ★ ★
اتوار چھٹی کا دن آج ارباز دمیر پاکستان واپس آرہے تھے۔دمیر ہاؤس میں انکی آمد کی تیاریاں چل رہی تھیں۔سب بے حد خوش تھے پر عائشے حواس باختہ پھر رہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کھانے میں کیا بنائے ایک تو مراد نے بھی کوئی مدد کے لیے مشورہ نہیں دیا۔وہ جھوٹ بول کر سخت پچھتائی تھی۔
     اس نے فون پہ انعم بیگم سے کچن کڑاہی بنانے کی ریسپی پوچھی تھی۔اور وہ اسے کوئی دس بار سمجھا چکی تھیں اور خوب اچھی خاصی سنا ڈالی تھیں کہ گھر میں کام کروالیتی تو سسرال جاکے یہ نوبت نہ آتی۔
عائشے شدید جھنجھلاہٹ کا شکار تھی۔وہ صرف کڑاہی بنا رہی تھی باقی کی ڈشز زرپاش صاحبہ نے اپنے ذمے ہی لی تھیں۔انھوں نے فوراً عائشے پہ بوجھ نہیں ڈالا تھا۔وہ چاہتی تھیں جب ٹیبل پہ لوازمات رکھے جائیں تو ایک ڈش اس گھر کی بہو کی بنائی ہوئی بھی موجود ہو۔
عائشے نے ریسپی ایک نوٹ بک میں اتار لی تھی۔مراد آج گھر پہ ہی تھا صبح چلا گیا تھا دوپہر میں واپس آگیا۔وہ عائشے کی بھاگم دوڑی سے محظوظ بھی ہورہا تھا اور عائشے اسکو پرسکون دیکھ کر تپ رہی تھی۔
     وہ پہلی بار کچھ بنا رہی تھی اس لیے سب بہت مشکل لگ رہا تھا اور ڈر بھی رہی تھی۔اس نے ریسپی اچھے سے رٹ لی تھی انعم صاحبہ نے اسے اہم پوائنٹس بتائے تھے وہ بھی زہن میں تھے۔
جب اس نے کچن میں قدم رکھا تو زرپاش پہلے سے موجود تھیں انکو دیکھ اسے ہٹلر کی یاد آتی تھی۔
"ارباز شام تک آجائینگے تم بھی کھانا بنا کے جلدی تیار ہوجانا۔میں نے چکن نکال دی ہے۔"بریانی کی گریوی کا چولہا انھوں نے بند کردیا تھا۔میٹھا بنا کے وہ ٹھنڈا کرنے کے لیے فریج میں رکھ چکی تھیں۔سلاد وغیرہ بھی کاٹ لیا تھا اور بریانی میں چاول وہ آخر میں ڈالتیں۔اور کباب بنا کے ڈی فروز وہ پچھلی رات کر چکی تھی۔
"جی..آپکا کام ہوگیا؟"زبان کی لڑکھڑاہٹ پہ قابو پاکر اس نے پوچھا۔وہ کافی سنجیدہ تھیں۔
"ہاں میں نے اپنا کام کرلیا اب تم فٹافٹ کرلو۔کوئی مسئلہ ہو تو مجھ سے پوچھ لینا۔"انکے کہنے پہ عائشے نے سرہلایا اور وہ کچن سے باہر نکل گئیں۔
چکن دھلی ہوئی تھی یہ دیکھ عائشے کی جان میں جان آگئی پھر بس اس نے اپنی امی کی باتوں کو دھیان میں رکھتے مصالحے  بنانے کے لیے چیزوں کی کٹائی شروع کردی اور اسکے دو تین گھنٹے کہاں گئے تھے اسے خود بھی پتا نہیں چلا۔
      تھک کر اس نے کمرے میں قدم رکھا مراد نے پورے بیڈ پہ سامان بکھیرا ہوا تھا۔اسکے کپڑے اور بے شمار فائلز جو پتا نہیں کمرے کے کونسے حصے میں اس نے چھپا رکھی ہوئی تھیں عائشے تو پہلی بار دیکھ رہی تھی۔اور خود جناب وہ صوفے پہ بیٹھا لیپ ٹاپ میں مصروف تھا۔اسے اپنے مطلب کی فائل مل گئی تھی جسے وہ آگے بھیج رہا تھا۔دوسری طرف فون پہ بھی کسی سے گفتگو جاری تھی۔عائشے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔
کمرے کا پھیلا منظر دیکھ آنکھوں میں حیرانی اتر آئی تھی مراد نے فون بند کیا اور لیپ ٹاپ ٹیبل پہ رکھا۔عائشے نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔تو مراد نے فائل کی جانب اشارہ کیا۔عائشے نے پسینے میں بھیگی ماتھے پہ چپکی لٹیں کان کے پیچھے اڑس دیں۔
اسے شدید بھوک لگی تھی اس لیے چڑچڑا پن بھی ہونے لگا۔دو گھنٹے کے کام میں اسکی حالت بری ہوگئی تھی وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کے بیٹھ گئی۔
چند سیکنڈ کے لیے آنکھیں بند کی تھیں پھر گھڑی میں وقت دیکھا ساڑھے چار ہو گئے تھے۔آنٹی نے جلدی تیار ہونے کا کہا تھا تو مطلب اس نے تیار ہوکے باہر جانا تھا۔پر کمرے کا حسین منظر دیکھ کڑ کر رہ گئی۔
"یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ایسے کوئی سامان پھیلاتا ہے اور اتنے کپڑے کیوں نکالے ہیں؟"چلو فائلز کا تو وہ سمجھ گئی تھی پر کپڑوں کا بکھیڑا دیکھ پریشان ہی ہوگئی۔
"میرے سمجھ نہیں آرہا کیا پہنوں۔تم ہی بتادو مدد کردو میری۔"عائشے نے سانس لیتے بے یقینی سے اسکو دیکھا۔
"کسی دعوت میں نہیں جا رہے ہم جو آپ اتنا کپڑوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔حد ہوگئی یے۔یہ آپ نے جان بوجھ کے کیا ہے نا!"وہ اٹھی اور اسکے صوفے کے پاس آئی مراد کے چہرے پہ کمال کا اطمینان تھا۔
"تمھیں پریشان کرنے کے لیے کپڑے پھیلا کر کیا کرونگا۔بیوی کو پریشان کرکے گناہ نہیں سمیٹنا مجھے۔"مراد شیو پہ ہاتھ مسلتے آنکھ دبا کر اسکی آنکھوں میں دیکھے بولا۔عائشے نے دانت پیس لیے۔
"اب یہ سمیٹے گا کون؟"کمر پہ ہاتھ رکھے وہ بیویوں والے روپ میں پوچھ رہی تھی۔مراد کی نگاہیں اسکی نوز پن پہ جا ٹھہریں عائشے کی آواز پہ اسکی محویت ٹوٹی۔
"بتائیں!"
"آف کورس تم!میں کردیتا پر مجھے ڈیڈ کو پک کرنے جانا ہے۔سوری.."اٹھتے ہوئے اسکے کان کے پاس سرگوشی کرکے وہ کپڑے اٹھا کے واش روم میں گھس گیا۔عائشے کا سر چکرا کے رہ گیا۔بے بسی ہی بے بسی تھی۔ابھی اس نے بھی تیار ہونا تھا اسکے لیے اتنا کام بہت تھا کہ کھانا بنایا اور پورا کچن سمیٹا۔اب مزید کچھ کرنے کی نا ہمت تھی نا دل کر رہا تھا بھوک نے الگ اعصاب ڈھیلے کردیے تھے۔پیر پٹخ کے بیڈ کی طرف بڑھی مرتی دھرتی کمرہ تو سمیٹنا تھا۔
     آج واقعی اسے مراد کی حرکت پہ غصہ آیا تھا۔شادی شدہ زندگی اسے آج محسوس ہو ہی گئی تھی اسے شدت سے انعم بیگم کی نصیحتیں یاد آئی تھیں۔پھر ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ بھی بکھر گئی۔
                           ★ ★ ★
میران واپس آکے فریش ہوا اور چھت پہ چلا آیا۔سگریٹ سلگا کے اس نے لبوں سے لگا لی۔
فرید نے اسے آکے زولفقار جاہ کا حکم سنایا تو وہ نیچے آگیا۔اسکا رخ انکے کمرے کی جانب تھا۔سیگریٹ کا دھواں وقفے وقفے سے ہوا میں چھوڑ رہا تھا۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ فون پہ کسی سے بات کر رہے تھے۔دوسری طرف کون تھا اسے اندازہ ہوچکا تھا۔وہ جب تک فون پہ لگے تھے اس نے کھڑکی سے باہر باغ کا منظر دیکھا پھر ٹھنڈی ہوا آنے کی وجہ سے کھڑکی بند کردی۔اس وقت وہ کوئی جیکٹ یا چادر بھی نہیں اوڑھے ہوئے تھا۔پھر آرام سے صوفے پہ جاٹکا۔زولفقار جاہ نے فون بیڈ میں پھینکا اور اسے دیکھا۔
"تم نے کیا قسم کھا رکھی ہے میرے لیے مشکلات پیدا کرنے کی؟کیا ضرورت تھی عزہ کو بتانے کی تم کسی اور سے شادی کروگے۔"ذولفقار بیڈ پہ بیٹھے ہاتھ گدے پہ جما کے آگے کی طرف جھک کے برہمی سے بولے۔
"بابا سائیں آپکو بتا دینا چاہیے تھا میں اس سے شادی نہیں کرونگا۔مجھے لگا وہ جانتی ہوگی میرے فیصلے کے بابت۔"وہ معصومیت سے بولا۔
"میں اسے خود اپنے طریقے سے بتاتا۔تمھیں اندازہ بھی ہے گھر جا کے عزہ نے کتنا تماشا کھڑا کیا۔"اسکی ڈھٹائی دیکھ انھوں نے ماتھا مسلتے کہا۔
"واٹ ایور۔میری بلا سے جہنم میں جائے۔"میران نے لاپرواہی سے شانے اچکا دیے اور سیگریٹ سلگاتا ہوا ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
"میران!"زولفقار نے اسے ٹوکا۔
"اچھا بتائیں اب کیا ہوا؟معاملہ کس نتیجے پہ پہنچا؟آپ اچھے سے جانتے ہیں میں کسی صورت اسے نہیں اپناؤنگا اگر میری زندگی میں کوئی آئے گی تو وہ رومائزہ احتشام شنواری ہے!"اس نے باور کرانا ضروری سمجھا۔
"میں اپنی بات پہ قائم ہوں یہ مسئلہ تم نے ہی آج کھڑا کیا ہے۔خیر میں نے رحان کو سمجھا دیا ہے۔دس پرسنٹ اسے مزید شئیر دینے پڑ رہے جب ہی وہ خاموش رہے گا اور اپنی بیٹی کو سنبھالے گا۔"بالوں میں انھوں نے ہاتھ پھیرا۔
"چلیں آئیں باہر گھوم آتے ہیں کافی عرصے سے ساتھ گھومے پھرے نہیں۔"وہ اٹھ کھڑا ہوا زولفقار کو اسکے رویے پہ حیرانی ہوئی تھی۔پھر انھوں نے سکون کا سانس خارج کیا۔وہ اپنے بیٹے کو کھونا نہیں چاہتے تھے اسکا ساتھ چاہتے تھے۔پر جو کام وہ کرتے تھے میران کبھی اس میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا اب جو ہورہا تھا تو اسکی مجبوری انکے ہاتھ میں تھی۔پر وہ اسے کوئی اپنے دو نمبر کاموں کی ذمہ داری دینے سے گریز ہی کر رہے تھے۔
انھوں نے اسے روک دیا تھا انھیں شک تھا کہیں وہ اے ایس پی کے ساتھ نا مل جائے۔اب تک سب نارمل تھا باپ بیٹے دونوں ہی اس ڈیل سے مطمئن تھے۔دونوں کے تعلقات بہتر ہورہے تھے۔
ایک پہ دولت کا نشہ طاری تھا دوسرے پہ محبت کا!
اور یہ نشہ ان کو کہاں لے جاتا دونوں بے خبر تھے۔
غلط راستوں پہ نکلنے والے کبھی کامیابی و سکون کی منزل پہ پہنچ سکتے ہیں؟
اسے رومائزہ سے محبت تھی اسکے بغیر رہنے کا تصور اسکی سانسیں مدھم کردیتا تھا اسے نہیں پتا کب اسے اتنی شدت سے محبت ہوگئی بس اسے اب ہر صورت میں اسے پانا تھا چاہے وہ اپنے اصولوں کے خلاف جائے۔اور یہی بات زولفقار کے حق میں ہوئی تھی۔
پر وہ یہ بات واضح کر چکا تھا سیاسی فرائض سے وہ کبھی لاتعلقی نہیں برت سکتا۔اس نے کوئی غلط کام نہیں کرنا بس خاموشی برتنی ہے ہر چیز جانتے ہوئے۔زولفقار جاہ نے اسکی خوشی قبول کرکے اسکے پر کاٹ دیے تھے۔
                            ★ ★ ★
         لاؤنچ میں نیمل زرپاش اور سجل اور اس کا شوہر محب سب موجود مراد اور ارباز صاحب کے انتظار میں تھے۔تقریباً کوئی چار ماہ بعد وہ پاکستان واپس آرہے تھے۔عائشے مہرون رنگ کی گھٹنوں سے نیچے تک شیفون کی فراک پہ مہرون ہی دوپٹے کو کندھے کے دائیں جانب پھیلائے ہوئے تھی۔وہ تیار ہوکے کمرے سے نکلی تو اس نے دوپٹہ سر پہ رکھ لیا تھا۔نیمل نے اسے اپنے ساتھ لا کر بیٹھایا۔زرپاش کی محب سے گفتگو جاری تھی۔عائشے کی ساری توجہ دیوار میں نسب آن اسکرین پہ تھی۔
پارکنگ میں گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔
"مام...ڈیڈ آگئے۔۔"نیمل فوراً بیرونی دروازے کی جانب بھاگی جہاں سے باپ اور بھائی آتے دکھائی دیے۔
"ڈیڈ آئی مسڈ یو سو مچ۔"باپ کو دیکھ کر وہ خوشی سے لپٹ گئی۔
   ارباز دمیر!نیلی جینس پہ جنھوں نے لائٹ پنک کلر کی شرٹ پہنی تھی۔سر کے بال اور داڑھی کے بالوں میں ہلکی ہلکی چاندی بھری تھی۔بڑھتی عمر کے ساتھ چہرے کی کھال نرم پڑ چکی تھی۔چست و توانا جسامت!سیاہ آنکھیں چہرے پہ بجا کی نرمی رقم تھی۔مراد نے بیگز ایک طرف رکھے۔اور عائشے کو کہنی سے پکڑ کے اپنی جانب کھینچا تھا وہ ٹوٹی ڈالی کی طرح لڑکھڑا کے اسکے بازو سے لگی اور گھور کے اسے دیکھا۔وہ اس سے ناراض تھی اتنا بکھیڑا جو اسکے لیے وہ جان بوجھ کے چھوڑ گیا تھا۔بس روٹھنا اسے اچھا لگ رہا تھا۔
نیمل باپ کے ساتھ لگی تھی۔وہ گھر کی چھوٹی اور سب سے لاڈلی تھی ارباز صاحب نے مسکرا کے اسکے سر پہ پیار کیا وہ ان سے دور ہوئی۔
"آئی مسڈ یو ٹو۔اور سلام دعا کیا آپ بھول گئیں ہیں؟"اسکے دور ہٹنے سے انھوں نے یاد دلاتے کہا نیمل نے زبان دانتوں تلے دبائی۔
"اسلام و علیکم بابا جان۔کتنا ٹائم لگا دیا واپس آنے میں۔"سجل انکے گلے لگی شکوہ کر رہی تھی۔پھر وہ محب سے ملے اور گود میں اپنی نواسی منتہیٰ کو لے کر خوب پیار کیا۔بالآخر نظر شریک حیات پہ پڑی جو اس فیملی کے مکمل منظر کو دیکھ کر خود میں مسکرا رہی تھیں۔
چند جھائیوں نے انکی خوبصورتی میں کمی کردی تھی پر ارباز صاحب کی نظر میں وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگئی تھیں۔وہ آگے بڑھ کے ان سے بھی ملے اور انھیں گلے لگایا۔
"آپکی اولاد نے بہت پریشان کیا ہے مجھے۔"وہ مسکرا کر مخاطب ہوئیں۔آنٹی ہنستی بھی تھیں؟عائشے کو اچھنبا ہوا پر وہ ہنستے ہوئے اچھی لگتی تھیں اس نے انکے ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہنے کی دعا کی تھی۔وہ سب کتنے مکمل تھے عائشے کو ایک بار ان سب کی قسمت پہ رشک آیا رشتے مال و دولت عزت اللہ نے سب سے نوازا تھا۔
"آپکے چہیتے نے زیادہ ہی پریشان کردیا شاید۔"انھوں نے زرپاش کے گرد بازو پھیلائے تو نیمل ہنس دی۔سجل کی مسکراہٹ مدھم پڑ چکی تھی۔
"بہو سے تو مجھے ملواؤ کدھر ہے وہ؟"انھوں نے بے تابی سے پوچھا۔مراد مسکراتے ہوئے نیمل کو سائیڈ کرتا عائشے کو آگے لایا۔عائشے سخت کنفیوز تھی۔دوپٹہ سر سے سرک کے کندھے پہ ڈھلک گیا مراد بلکل اسکے پیچھے کھڑا تھا زرا سا بھی ہلتی تو اس سے ٹکرا جاتی۔
"السلام و علیکم۔"عائشے نے مسکراتے ہوئے سر جھکا کے سلام کیا ارباز صاحب نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔
"وعلیکم السلام۔جیتی رہو ہمیشہ خوش رہو۔"وہ اسے دعا دیتے بولے عائشے کی جان میں جان آگئی۔اسکے بابا سہی کہتے تھے ارباز صاحب بہت اچھے انسان ہیں۔
انھوں نے اسے قبول کرلیا تھا،سوچ کر ہی اسکے گال گلابی ہوگئے۔
"ماشاءاللہ مراد تمھاری بیوی تو بڑی پیاری ہے۔اچھی پسند ہے تمھاری۔"انھوں نے بیٹے کے کندھے پہ ہاتھ رکھے کہا۔اس نے ترچھی نگاہ سے عائشے کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی۔
"ڈیڈ عائشے بھابھی بہت اچھی ہیں میری تو ان سے کافی اچھی دوستی ہوگئی ہے۔"نیمل انکو لاؤنچ میں لاتے ہوئے بولی۔سب جگہ پہ بیٹھ گئے تھے۔مراد نے عائشے کو اپنے ساتھ ہی رکھا تھا تاکہ گھر میں موجود ہر شخص اسکی اہمیت جان جائے۔
"میں نے صاحب زادے کو پہلے ہی کہہ دیا تھا شادی کا فیصلہ غلط نہیں کیا ہے تو نکاح فوراً کرلے۔"ہنستے ہوئے عام سے لہجے میں بتاتے ہوئے ارباز صاحب نے بمب پھوڑا تھا۔سجل اور نیمل کے تو پیروں تلے یہ بات نا بجھی زرپاش نے گردن موڑ کے انھیں دیکھا۔
"آپ پہلے سے اسکے نکاح کے بارے میں جانتے تھے؟"ارباز دمیر نے اثبات میں سر ہلایا زرپاش حیران رہ گئیں۔
"وہاں جو بھی معاملہ طے ہوا تھا مراد نے مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا۔نکاح سے پہلے اس نے مشورہ کیا تھا۔عائشے کے والد بہت اچھے انسان ہیں میری ان سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔نہایت شریف اور خود دار...."ارباز نے صوفے سے کمر ٹکائی۔مراد کی نظروں کا ارتکاز عائشے کا چہرہ تھا جو آج خاصا ٹمٹما رہا تھا۔اس نے ایک نگاہ اسکے سراپے پر ڈالی شادی کے بعد وہ پہلی بار اتنا تیار ہوئی تھی۔
"بابا بھی آپکی کافی تعریف کرتے ہیں۔"
بل آخر عائشے کے منہ سے پہلی بار سب کے درمیان جملہ ادا ہوگیا ورنہ وہ بس خاموش رہا کرتی تھی۔اسکے چہرے کی مسکراہٹ کسی کے دل میں سکون اتار چکی تھی۔
زرپاش صاحبہ اس سب گفتگو میں خاموش رہیں۔اور سجل کی بے زاری بھی واضح تھی۔نیمل نے منتہیٰ کو گود میں لے رکھا تھا۔
"مراد پریشان تو نہیں کرتا نا؟"انھوں نے بیٹے کی طرف باتوں کا تیر گھمایا اور اس پہ نظر جمائی مراد گلا کھنکار کے سیدھا ہوا اور چور نگاہ سے برابر میں عائشے پہ ڈالی جسکے برابر میں نیمل ساتھ بیٹھی تھی۔
"میں نے کیوں ہریشان کرنا ہے بھلا!"وہ شانے اچکاتے بولا۔عائشے کا دل کیا اسکی تازی تازی حرکت بتا دے۔اور مراد کو اس بات پہ شبہ نہیں تھا کہ وہ چپ رہے گی...ارباز صاحب کے آنے سے اسے تو جیسے بڑی سپورٹ مل گئی تھی۔
"تم چپ رہو۔میں نے اپنی بیٹی سے سوال کیا ہے۔"مراد کو جھڑکنے پہ عائشے کھل کے ہنسی مراد نے حیرانی سے اسے دیکھا شوہر کو ڈانٹ پڑنے پہ بیوی کے کیسے دانت نکل رہے تھے پیچھے سے نیمل بھی ہنس رہی تھی۔مراد نے معصوم سی شکل بنا کے اسے دیکھا عائشے نے نفی میں سر ہلا دیا مراد کے سر سے بوجھ اترا۔
جب کہ سجل تو عائشے کو بیٹی کہہ کر پکارنا سن کے تلملا گئی تھی اسے بیٹی کہنا پسند نہیں آیا تھا۔اس لڑکی نے مہمل کاحق مارا تھا وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتی تھی۔محب نے کوئی برا ردعمل نہیں دیا تھا۔
اسی ہنسی مذاق میں کھانے کا دور شروع ہوا تھا سب ڈائینگ ہال میں بیٹھے تھے۔خواہش کے مطابق سب نے پلیٹ میں کھانا نکالا۔ارباز صاحب اور سجل کو جب پتا چلا کے کڑاہی عائشے نے بنائی ہے تو انھوں سب سے پہلے وہی نکالی تھی۔عائشے نے کڑاہی ڈش میں لاکر سروو کی جسکی شکل تو بہت اچھی دکھائی دے رہی تھی۔ادرک اور حیدرآبادی مرچوں کا اوپر سے چھڑکاؤ کیا تھا۔
تھوڑی جھجھک کے ساتھ وہ مراد کے برابر میں ہی بیٹھ گئی۔سجل نے کڑاہی کی ڈش محب کی طرف بڑھائی۔ارباز صاحب نے پلیٹ میں کڑاہی نکال لی تھی۔
   "یا اللہ پلیز عزت رکھ لیے گا۔بہت محنت سے بنائی ہے ٹیسٹ اچھا نکل آئے بس۔اللہ پلیزز آئیندہ کبھی جھوٹ نہیں بولونگی توبہ کرتی ہوں۔"عائشے نے اپنی پلیٹ میں بھی تھوڑی سی کڑاہی نکال لی تھی پر نظریں سسر کے نوالے پہ جمی تھیں جو اب منہ میں جانے والا تھا۔مراد کڑاہی پلیٹ میں نکال رہا تھا اسکی بند آنکھوں کو دیکھ ہنسی روک نہیں پایا۔اسکی کھن کھن پہ عائشے نے دعا مکمل کرکے آنکھیں کھولیں۔
اور ہاتھ میں بنا نوالا منہ میں ڈالا۔منہ میں رکھا ہی تھا کہ اسے لگا کسی نے زبان پہ مرچیں مل دی ہوں اور حلق میں نمک کی کڑواہٹ اتر گئی۔وہ بری طرح کھانسنے لگی۔
"کیا ہوا؟"مرچوں کی وجہ سے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔مراد متفکر سا اسکی طرف پلٹا۔ادھر ارباز صاحب کو بری طرح پھندا لگا تھا۔زرپاش نے فورا پانی کا گلاس انکے آگے کیا۔عائشے گلے پہ ہاتھ رکھے کھانس رہی تھی۔مراد نے پانی کا گلاس اسے دیا جسے وہ منہ سے لگا گئی اور ڈبڈبائی آنکھوں سے ارباز انکل کو دیکھا۔
زرپاش صاحبہ کھانے میں گڑ بڑ سمجھ چکی تھیں ایک چھوٹا سا نوالہ بنا کر انھوں نے منہ میں رکھا اور سجل نے تو وہیں ہاتھ روک لیا تھا۔چند لمحوں میں ان دونوں کی کھانس کھانس کے حالت بری ہوئی تھی۔
"آنٹی مت کھائیں مرچیں اور نمک تیز ہوگیا ہے۔"ہونٹوں سے پانی خشک کرکے عائشے نے رندھی آواز میں کہا۔اس قدر شرمندگی کا احساس ہوا تھا۔زمین پھٹتی اور وہ اس میں سما جاتی۔مراد نے سن کے لب بھینچ لیے۔خود کو سنبھال کے وہ فوراً اٹھ کے ارباز صاحب کی طرف بڑھی مراد کچھ سمجھ نہیں پایا وہ کیا کرنے والی تھی۔
ارباز صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا بلڈ پریشر کے وہ مریض تھے اس قدر مرچیں اور نمک نے انکی حالت خراب کردی تھی۔
"آئی ایم سوری انکل،مرچیں پتا نہیں کیسے زیادہ ہوگئیں اور نمک شاید بے دھیانی میں دوبار ڈال دیا میں نے۔"اس نے خود میں تمام تر ہمت جمع کرکے کہا۔گھر میں دعوت تھی وہ اتنے لمبے عرصے بعد وہ آئے تھے،عائشے کو انجانے میں سرزد ہوجانے والی گڑبڑ پر سخت شرمندگی نے آن گھیرا۔
"کوئی بات نہیں بیٹا ہوجاتا ہے اکثر....میں ٹھیک ہو آپ پریشان مت ہوں۔مراد تمھاری بیوی تو بہت نازک دل کی ہے رونے ہی لگی ہے۔"وہ بڑے دل سے بولے۔حرکت ہی ایسی کی تھی اسے رونا آنے لگا تھا۔سجل کی طرف بے ساختہ نظریں اٹھیں تھیں اسے لگا تھا وہ ابھی اسے کھا جائیگی۔سجل نے سر جھٹک لیا۔جب کہ محب بھائی کچھ نا بولے وہ اسے شریف النفس لگے تھے۔
ارباز کے مخاطب کرنے پہ مراد جگہ پہ سے اٹھا۔
"میری غلطی ہے میں نے آنٹی سے جھوٹ کہا تھا کہ کھانا بنانا آتا ہے۔مجھے نہیں آتا۔یہ بھی امی سے پوچھا تھا اور سب خراب ہوگیا۔"حلق میں ابھری گٹھلی سٹکی وہ مزید جھوٹ پہ پردہ نہیں ڈال سکتی تھی۔زرپاش صاحبہ نے ماتھا پیٹا۔
"تو مجھے بتا دیتیں کوئی زور زبردستی تھوڑی کی تھی میں نے۔مجھے لگا تم بنا لوگی اس لیے تمھیں صرف ایک ہی ڈش بنانے کا کہا۔"وہ دبے دبے غصے میں کہہ رہی تھی عائشے کو پھر رونا آیا۔یہ کمبخت آنسو پتا نہیں کیوں رک نہیں رہے تھے اسے آنسوؤں پہ غصہ چڑھ رہا تھا۔سب کیا اسکے بارے میں سوچ رہے ہونگے۔
"بچی آپ سے ڈر گئی ہوگی نا۔"ارباز صاحب نے بات سنبھالتے ماحول ٹھنڈا کرنا چاہا زرپاش کا منہ کھلا۔
"میں بھلا اسے کھاجاتی جو یہ ڈر گئی۔حد ہوتی کسی چیز کی۔چلو بیٹھو جگہ پہ کچھ نہیں ہوتا آہستہ آہستہ سب سیکھ جاؤگی۔"نفی میں سرہلاتے انھوں نے ارباز صاحب کی پلیٹ بدلی تھی۔
"مام آپ عائشے بھابھی کو کھانا بنا سیکھا دیں۔عائشے ممی بہت اچھا کھاںا بناتی ہیں تھوڑی بہت کلاسز لے لیں جلد ہی کڑاہی بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔"نیمل ارباز کی سربراہی کرسی کے سب سے قریب بیٹھی تھی اور وہیں عائشے اور مراد کھڑے تھے۔نیمل نے سر اٹھا کے ہنستے ہوئے کہا۔
"ہاں مام آپ اپنی بہو کو کھانا بنانا لازمی سیکھا دیے گا۔"مراد مسکرا کے بولا زرپاش نے ایک نگاہ اس لڑکی پہ ڈالی جو انکے بیٹے کے ساتھ کھڑی جچ رہی تھی۔وہ عائشے سے اتنی بے وقوفی کی امید نہیں رکھتی تھیں۔ایک لمحے کو انھیں اس میں نیمل اور سجل دکھائی دی تھیں جب انھوں نے بھی شروع میں کوکنگ سیکھتے ہوئے کھانے خراب کیے تھے۔
"میری بیگم نے بھی آنٹی سے کوکنگ سیکھی ہے تم بھی جلدی سیکھ جاؤگی۔کوئی بات نہیں ایسا ہوجاتا ہے کھانا کنٹینو کرتے ہیں۔"محب نے تسلی بخش جملہ کہا۔سجل نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا۔محب نے نظروں میں ہی اسے خود پہ قابو رکھنے کی تاکید کی۔
"ہاں بلکل۔چلو آؤ۔"مراد زرا سا پیچھے ہوا۔
"ایک منٹ رکو۔عائشے نے پہلی بار کچھ بنایا ہے اسکا انعام تو ملنا چاہیے۔اسے بنانا نہیں آتا پر بچی نے کوشش ضرور کی ہے۔"ارباز دمیر نے پینٹ کی جیب سے والٹ نکالا اور اس میں سے دو بڑے لال پانچ ہزار کے نوٹ نکال کے عائشے کی جانب بڑھائے نیمل کی آنکھیں چمکیں۔
"بھابھی جلدی سے لے لیں دیر نہیں کریں.."نیمل نے خود ہی اسکا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔مراد کھڑا ہنس رہا تھا۔
"اسکی کیا ضرورت ہے.."وہ منمنائی۔
"منع نہیں کرتے رکھ لو۔آئیندہ خیال رکھنا!"جب زرپاش صاحبہ نے کہا تو وہ جی جان سے مسکرادی۔جب کہ انکا انداز مصروف سا تھا۔
اس نے پیسے لے لیے اور واپس اپنی نشست پہ بیٹھ گئی۔
   "تھینک یو..."نم آنکھوں سے ہلکا سا مسکرادی۔"اوہہ تو تم پیسوں کی وجہ سے وہاں سے ہٹ نہیں رہی تھیں۔"کان میں مراد کی سرگوشی سنائی دی اسکا حلق کڑوا ہوا۔
"آپ سے میں نے بات نہیں کی خاموش رہیں۔"اس نے نروٹھے پن سے کہا اور کھانے میں لگ گئی بھوک بھی بڑی زوروں کی لگی ہوئی تھی۔
کھانے کے بعد نیمل کافی بنانے کے لیے اٹھ گئی تھی سب لاؤنچ میں بیٹھے تھے مردوں کے درمیان عورتیں خاموش ہی تھیں۔محب اور ارباز  بزنس کی ہی باتیں کر رہے تھے اور مراد بھی انکی گفتگو کا درمیان میں حصہ بن جاتا۔عائشے کیلئے زرپاش اور سجل کی تلفی ان تینوں مرد حضرات نے نوٹ کرلی تھی پر بولا کوئی کچھ نہیں۔زرپاش کا لہجہ پھر بھی ٹھیک تھا عائشے انھیں سمجھ نہیں پائی تھی۔پر سجل نے اس سے بلکل بات چیت نہیں کی تھی۔محب کو سجل کی بات پسند نہیں آئی تھی اسکی بیوی اس طرح کی بلکل نہیں تھی پھر کیوں اپنی بھابی کے ساتھ بیگانہ سلوک کر رہی تھی؟وہ محمل والے معاملے سے لاعلم تھا۔پر جانتا ہوتا بھی تب بھی سجل کا ساتھ نہیں دیتا اسے سجل سے سمجھداری کی امید تھی۔
شاید اسکا،اکلوتا بھائی تھا وہ اپنی پسند کی بھابھی لانا چاہتی تھی اور جو کہ محمل تھی۔
مراد نے منتہیٰ کو گود میں لیا ہوا تھا عائشے جو لیڈیز کی طرف صوفوں پہ بیٹھی تھی تھوڑا سا کھسک کے مراد کی طرف ہوگئی۔اور مسکرا کے منتہیٰ کے گال چھوئے۔
 ۔ "مانو بے بی کیسی ہو؟"اس نے پچکارتے ہوئے ہوئے پوچھا مراد کی طرف وہ جھکی ہوئی تھی۔مراد نے گرفت ڈھیلی چھوڑ کے منتہی کو اسکی گود میں دیا...سجل نے ایک نگاہ اس منظر کو دیکھا وہ کچھ بولتی زرپاش صاحبہ نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے نفی میں سر ہلادیا۔
"سجل میرے گھر کا سکون کسی صورت خراب نہیں ہونا چاہیے۔جو بھی ہے اب وہ اس گھر کا حصہ ہے!"زرپاش کی بات پہ چونک کے رہ گئی۔اس لڑکی نے اسکی ماں کو بھی اپنی طرف کرلیا تھا۔
"شکر ہے تم میری گود میں آکے روئی نہیں ورنہ سارے بچے میرے پاس آکے رونے لگ جاتے ہیں۔"وہ ہنستے ہوئے بتارہی تھی یہ بھول کے برابر میں دشمن بیٹھا ہے اور کان لگائے اسکی سن رہا تھا۔بظاہر وہ خود کو ارباز اور محب کے ساتھ باتوں میں مصروف شو کروارہا تھا پر ساری توجہہ عائشے پہ تھی۔
"ڈراؤنی چیزوں سے ظاہر سی بات ہے بچے ڈریں گے ہی۔"بھانجی کی تھوڑی اوپر نیچے ہلاتے مراد نے عائشے کے کان میں کہا۔وہ منتہیٰ کو لے کر دانت پیستی کھڑی ہوگئی مراد کی جانب دیکھا تک نہیں اور زرپاش کے برابر میں جا بیٹھی۔زرپاش صاحبہ نے چونک کے اسے جگہ دی تھی۔مراد اسے آج بہت زچ کر رہا تھا۔
     وہ منتہیٰ کے ساتھ کھیلنے میں لگی رہی مراد گاہے بگاہے اس پہ نظر ڈال دیتا۔دوپٹہ سر سے اترا ہوا تھا پر شانوں پہ پھیلا تھا۔کچھ آوارہ لٹیں چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔لال چوڑیوں کی کھنکھناہٹ اسے دل میں بجتی محسوس ہورہی تھی۔اسکا دل بے لگام ہورہا تھا۔
وہ سب آپس میں باتوں میں لگے تھے پر ایسا نہیں تھا کہ عائشے سے انجان ہوں۔وہ سب کی سن رہی تھی۔نیمل ہوتی تو وہ اسکے ساتھ باتیں کرلیا کرتی پتا نہیں اسکی کافی بند کرکے کیوں نہیں دے رہی تھی۔کڑاہی کا سوچ کے اسکا دل واپس ڈوب گیا۔کیا ہوجاتا اگر نمک مرچیں سب سیٹ ہوتیں باقی تو سب ٹھیک تھا۔
"آنٹی...."اس نے خود سے ہی بولنے کی کوشش کی ورنہ ان دونوں میں سے تو کوئی اسکو بات کا حصہ نہیں بنا رہا تھا۔زرپاش اسکی دھیمی سے آواز پہ اسکی طرف گھومیں۔
"میں کمرے میں چلی جاؤں؟سر میں درد ہورہا ہے۔"ایسے ہی اٹھ کے جانا اسے مناسب نہیں لگ رہا تھا وہ اس گھر میں اپنی جگہ خود بنانا چاہتی تھی۔اسی لیے پہلی بار انھیں مخاطب کرلیا۔
"ہاں چلی جاؤ۔جاکے آرام کرو میڈیسن لے لینا۔"انھوں نے منتہیٰ کو اپنی گود میں لیا اور آرام سے اسے کہا تو وہ کھڑی ہوگئی۔مراد نے ایک نظر اسے جاتے دیکھا۔پانچ بعد ہی نیمل کافی لے آئی تھی۔
مراد نے گرم گرم کافی انڈیلی تھی اور کھڑا ہوگیا۔نیمل کی شرارتی نگاہوں سے بچنا مشکل تھا وہ بہت دیر سے اپنے بھائی کی بے چینی نوٹ کر رہی تھی۔اور ابھی ٹیکسٹ کیا تھا کہ بھابھی کہیں کمرے میں رو نا رہی ہوں جاکے دیکھ لیں۔اور آگے ایک آنکھ دباتا ایموجی تھا۔مراد نے اسے گھورا تو وہ شانے اچکا کر لاتعلق ہو کے بیٹھ گئی۔مراد محب اور سجل سے مل کے کمرے میں آگیا۔
   کمرا اندھیرے میں ڈوبا تھا بس عائشے کے پاس کا لیمپ آن تھا وہیں روشنی تھی۔وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے گھٹنے خود میں سمیٹے خود پہ دوپٹہ پھیلائے بیٹھی تھی۔چہرے پہ اداسی دیکھ مراد نے اسکی طرف قدم بڑھائے۔
"اب کیا ہوا؟"وہ اسکے پاس بیٹھ گیا۔عائشے نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا پر بولی کچھ نہیں۔مراد نے جھنجھلاہٹ سے سر کے بالوں میں ہاتھ چلایا۔
"عائشے تمھیں پتا ہے مجھے بلاوجہ کا رونا دھونا نہیں پسند کیوں تم آج ٹسوے بہا رہی ہو؟اتنی سی بات تھی سب بھول گئے اور تم آکے ایسے بیٹھی ہو۔چھوٹی بچی تو نہیں ہو تم!"ہاں عائشے بلوچ رونے والوں میں سے نہیں تھی پر بعض اوقات حالات کے ہاتھوں انسان خود پہ قابو نہیں رکھ پاتا۔جب سے عائشے دمیر بنی تھی بہت تبدیلیاں اس میں آگئی تھیں۔اسے لگتا تھا اسکا دل کمزور ہوگیا ہے۔
"آپ کو تو میری ہرچیز سے پرابلم ہے۔میں آپکے قابل ہوں ہی نہیں وہ محمل ہی اچھی ہے اسی سے شادی کرلیں جا کر۔"وہ بھری یوئی بیٹھی تھی سجل کی نظر اندازی کا یہ سارا نتیجہ تھا۔اور مراد سے تو پہلے ناراضگی چل رہی تھی۔اسکی بات پہ مراد نے ٹھنڈی آہ بھری۔اور آگے بڑھ کے بغیر کچھ کہے آہستہ سے اسے خود سے لگایا۔
"کچھ بھی سوچتی رہتی ہو۔محمل سے شادی کرنی ہوتی تو پہلے ہی نا کرلیتا۔"وہ آہستہ آہستہ اسکا سر سہلا رہا تھا۔عائشے کے آنسو اسکی شرٹ بھیگونے لگے۔
یہ بات بھی تھی عائشے جب روتی تھی تب مراد نرم پڑجاتا تھا کوئی ایسی بات مذاق میں نہیں کرتا تھا جسکا وہ الٹا مطلب نکال لے۔وہ چاہتا تھا عائشے اس پہ بھروسہ کرے۔بعد میں بھلے وہ اسے باتوں سے کتنا ہی پریشان کرتا رہے۔
"میں آپ سے ناراض ہوں!"وہ اس سے دور ہوگئی۔سر اٹھا کے کہا۔
"میں منا لونگا۔"عائشے کے چہرے پہ بکھرے بال پیچھے کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ڈریسنگ روم میں گیا تھا الماری کے پٹ کھلنے کی آواز آئی پھر بند ہونے کی آواز آئی۔
عائشے نے اسے واپس آتے دیکھا جو سفید پینٹ پہ کالی فل آستینوں کی شرٹ پہنا تھا اور کف کہنیوں سے نیچے فولڈ ہوئے تھے۔دل میں ہی اس نے لقب دیا تھا۔"ہینڈسم اے ایس پی۔"
وہ اسکے برابر میں واپس آکے بیٹھ گیا۔اور وہی چمکتی شیشی اسکے ہاتھ میں تھی جو عائشے پہلے ہی دیکھ چکی تھی فوڈ کورٹ میں۔پر اس نے کچھ بھی پتا چلنے نہیں دیا۔وہ اس وقت اس لمحے کے زیر اثر تھی مزید کچھ سوچنے کی صلاحیت زیرو تھی۔
وہ مدھم ہوتی سانسوں سے باکس کو دیکھتی اور پھر مراد کا روشن چہرہ جس پہ لیمپ کی زرد روشنی پڑ رہی تھی۔مراد نے باکس کھول کے انگھوٹی نکالی اور ہلکا سا دائیں طرف عائشے کی جانب مڑا اور اسکی آنکھوں میں دیکھا۔
   "مے آئی؟"
عائشے نے نروٹھے پن سے کوئی جواب نا دیا تو وہ گہرا مسکرایا اور اسکا ہاتھ تھام کے انگھوٹی پہنا دی۔وہ ویسے ہی ساکت بیٹھی رہی۔
قیامت تو تب یوئی جب مراد نے ہاتھ چوما تھا عائشے کانپ کے رہ گئی۔آنکھیں پھیلائے بڑی آنکھوں سے اسے دیکھا۔وہ خوش تھا مسکرا رہا تھا۔کمرے میں صرف ان دونوں کے قریب چہروں پہ لیمپ کی زرد روشنی پھیلی تھی باقی کمرے میں نیم اندھیرا تھا۔دلوں کی دھڑکن اور گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز تھی۔دونوں کی زبان تالو سے لگی تھی۔
کمرے میں سحر قائم ہوگیا۔عائشے کو کسی مووی کی وائبز آرہی تھیں۔وہ اردگرد دیکھنے لگی۔مراد نے اسکا ہاتھ تھامے رکھا۔
"نوک جھوک زندگی کا حصہ ہے۔اس طرح پوری زندگی ایسے ہی آسانی گزر جائیگی۔تم روٹھو گی میں بار بار منانے کو تیار ہوں۔اگر میں کہوں مجھے عائشے دمیر سے محبت ہوگئی ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔نظریں تم پہ سے ہٹتی نہیں ہیں تمھاری طلبگار ہوگئی ہیں۔یہ معصومیت مجھے لے ڈوبے گی کسی دن۔مجھے معلوم ہے تم معصوم ہر گز نہیں ہو پر کبھی کبھی جو یہ بھولا پن معصومیت تم پہ طاری ہوتی ہے نا میں دل کھو بیٹھتا ہوں۔میں نے تمھیں آن بان شان سے نکاح کرکے زندگی میں ساتھ رہنے والا ہمسفر بنایا ہے۔تم پہلی اور آخری ہو جس کے آگے مراد دمیر نے گھٹنے ٹیکے ہیں۔"وہ ایک جست میں ماحول کی خاموشی توڑتے ہوئے بغیر کوئی تمھید باندھے مدھم اور گھمبیر آواز میں اعتراف کرچکا تھا۔عائشے کو اپنی سماعت پہ یقین نہیں آیا دل اچھل کے حلق میں آیا ہوا تھا۔وہ بے یقینی سے مراد کو دیکھ رہی تھی جس نے آگے بڑھ کے اسکے ماتھے پہ مہر ثبت کی تھی وہ ٹھنڈی پڑ گئی۔نظریں بے اختیار جھک گئیں۔مراد جی جان سے مسکرا دیا۔
"تھینک یو مجھے مکمل کرنے کے لیے۔"مراد نے اسکے اطراف بازو پھیلا دیے۔عائشے کی آنکھیں خوشی سے نم ہوگئیں۔اللہ نے کیسے اسے اتنا نواز دیا۔وہ ناشکری تو اسے پہلے شوہر مانتی ہی نہیں تھی۔اس نے توبہ کی تھی۔ندامت نے اسے آن گھیرا شکر کے لیے الفاظ کم پڑگئے تھے۔اسکے حصار میں وہ خود کو محفوظ محسوس کرتی تھی۔اس نے سر اٹھا کے اسے دیکھا۔
"مذاق تو نہیں کر رہے نا؟"وہ نمی صاف کرتے ہنستے ہوئے بولی۔
"لڑکی اس معاملے میں تم سے مذاق کرونگا؟"اسکے سر پہ اس نے تھوڑی ٹکا دی۔"عائشے تم اس رشتے سے خوش ہو نا؟"اس کے زہن میں سوال اٹھا تھا۔عائشے نے سرہلایا۔
   "ہوں..."اسکی دھیمی سی آواز مراد کے کانوں تک سفر کرتی دل میں رس گھول گئی۔
"کچھ بھی زہن میں الٹا سیدھا نہیں سوچنا۔ہمارے رشتے میں باتیں نکالنے کے لیے فلحال کئی لوگ بیٹھے ہیں۔کوئی بھی ایسی بات ہو ھو تمھیں پریشان کرے اسے مجھ سے شئیر کر لینا۔"
"ہوں..."
"ویسے مجھے اچھا لگا تم نے سب کو خود سچ بتادیا۔"
"ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے دس جھوٹ اور بول کے نہیں پھنسنا چاہتی تھی.....ویسے آپ اتنے اچھے کب سے ہوگئے؟"دبے ہونٹ وہ مسکرا رہی تھی۔
"میں خطرناک بھی بہت ہوں."وہ ہنس کر ہی بولا۔
"اچھا چلیں بس بہت ہوگیا مجھے نیند آرہی ہے۔"اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے وہ فوراً اس دور ہونے لگی مراد کی گرفت مضبوط تھی اس نے گھور کے دیکھا تو مراد نے ہنس کے اسے چھوڑ دیا اور بیڈ پہ اپنی جانب آکے لیٹ گیا۔عائشے اپنا سر درد تھکن سب کچھ بھول بھال کے مراد کی قربت اسکی باتوں کے حصار اور اس لمحے کے زیر اثر تھی۔وہ جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا۔اسکے لفظ آبِ حیات کا کام کرگئے تھے وہ جی اٹھی تھی۔انکا رشتہ آخر کار اب نارمل ہو ہی گیا تھا۔اسے خود سے زیادہ مراد پہ یقین تھا کہ وہ کبھی اس رشتے کو بگڑنے نہیں دے گا۔
                            ★ ★ ★
عزیز نے اپنے کسی قریبی بندے کے ہاتھ رومائزہ کا دیا خط احتشام شنواری تک پانچ دن بعد پہنچا دیا تھا اپنے کاموں کے درمیان اس خط کو پہچانے کا کام زہن سے نکل گیا تھا۔یہ خط والا معاملہ میران کے علم میں نہیں تھا۔رومائزہ نے میران سے چھپ کے اپنے کمرے کی کھڑکی سے عزیز کو یہ خط دیا تھا اس وقت اسے اندازہ نہیں تھا رات ہی وہ ان سے فون پہ بات کرسکے گی۔
"عزیز بھائی یہ میرے بابا کو دے دیجیے گا پلیز۔اپنے چھوٹے سائیں کو مت ہی بتائیے گا پتا نہیں وہ کیسا ری ایکٹ کرے۔کہیں خط دینے سے انکار نا کردے۔اور آپ چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں میں نے ایسا کچھ نہیں لکھا جو میران کے خلاف ہو۔"اس نے نہایت سادگی سے گزارش کی تھی۔عزیز نے سوچنے میں وقت ضائع نہیں کیا اور خط لے لیا۔
"پڑھنے کی ضرورت نہیں...آپ ںے فکر رہیں میں پہنچا دونگا۔"اسے مطمئن کرکے وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ گیا۔
شنواری صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے اس خط کو پڑھ رہے تھے۔"اسلام و علیکم بابا جان۔"اکثر شنواری یا احتشام صاحب کہا کرتی تھی۔بابا جان تو صرف کوئی بات منوانے مکھن لگانے کی صورت میں اسکے منہ سے نکلتا سنتے تھے۔
"امید کرتی ہوں آپ ٹھیک ہونگے پر آپ سے خفا ہوں۔میں روز انتظار کرتی ہوں کب آپ قرض اتارئیں اور میں یہاں سے نکل سکوں۔آپ سب مجھے بہت یاد آتے ہیں۔میرے سمجھ نہیں آرہا مزید کیا لکھوں سامنے ہوتے تو ڈھیر ساری باتیں کر لیتی آپ کو گلے لگا لیتی۔کبھی سوچا نہیں تھا خط لکھنے کی نوبت آئے گی۔میں یہاں ٹھیک ہوں۔مجھے کسی نے نقصان نہیں پہنچایا پر یہ قید بہت بھاری لگ رہی ہے۔اللہ آپکے لیے راستے کھولے۔آمین.....'کچھ سطر چھوڑ کے نام ذیل تھا۔'
"آپکی شیرنی رومائزہ!"جلدی میں وہ جتنا لکھ سکی تھی لکھ کر عزیز کو دے دیا تھا۔
سانسوں کی رفتار پہ قابو پاتے انھوں نے پرچہ تہہ کرلیا۔ہلکی بڑھی داڑھی پہ ہاتھ پھیرا۔اس میں وہی باتیں تھیں جو تقریباً چھ دن پہلے وہ فون پہ کرچکے تھے۔پر ان لفظوں میں چھپا کرب انکے دل میں چبھ رہا تھا۔انھوں نے اپنی کنپٹی سہلائی۔ایک نگاہ کمرے میں گھمائی۔بل آخر انکے اپارٹمنٹ کا سودا ہونے جارہا تھا۔دائم علی کے منتظر بیٹھے تھے۔اور فیکٹری بھی ایک زمین دار آدمی انکی منہ مانگی رقم میں خریدنے کو تیار تھا۔
ان دونوں جگہ سے رقم کی وصولی ہوتے ہی وہ قرض اتارنے والے تھے۔
"شنواری صاحب میران جاہ آئے ہیں۔میں نے اندر بٹھا لیا ہے...آپکے مںتظر ہیں وہ۔"نعمت بی دروازے کی چوکھٹ پہ کھڑی بتا کے مڑ گئیں۔شنواری صاحب نے سر اثبات میں ہلادیا تھا۔اسکے آنے کی انھیں حیرانی ہوئی تھی آخر اب کیا کہنے یا لینے آیا تھا۔
وہ دروازے کے باہر سن گلاسز لگائے کھڑا تھا۔عین گاڑی میں بیٹھتے وقت اس نے عزیز کو کہا تھا شنواری کے گھر لے چلے۔جب کہ وہ گھر سے نکلا تھا کسی سایسی عہدے دار سے ملنے کے لیے۔خاتون نے دروازہ کھولا میران نے آنکھوں سے گلاسز ہٹائے۔
"شنواری صاحب سے ملنا ہے۔"عزیز نے تھوڑا جھک کے بتایا۔نعمت بی ان دونوں جوانوں کو چبھتی نظروں سے دیکھ رہیں تھیں پھر سر ہلا کے دروازے پورا کھولا اور انھیں اندر آنے دیا۔
"آپ بیٹھیں میں انھیں بلا کر لاتی ہوں۔"میران گلاسز اسکی ڈنڈی سے پکڑ کے گھماتا پورے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے اندر آیا تھا۔ان خاتون کی آواز پہ وہ چونک کے سر ہلاتا بیٹھ گیا۔عزیز کا کھچاؤ بھی وہ نوٹ کرچکا تھا۔اس نے اس معاملے میں آنکھیں بند کرلیں تھیں کسی سے اسے کچھ فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
لاؤنچ میں خاموشی تھی۔شنواری صاحب آئے تو وہ کھڑا ہوا ان سے مصافحہ کیا۔پچھلی ملاقات کے برعکس آج وہ کافی پرسکون تھا۔احتشام نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا وہ اسکی آمد سمجھنے سے قاصر تھے۔میران نے انکے چہرے پہ رقم سوالات دیکھ کر اپنی بات کی شروعات کردی۔
گفتگو کی طویل جنگ چھڑ گئی تھی۔عزیز کو بھی معلوم نہیں تھا وہ یہاں کیا کرنے آیا ہے پر جوں جوں میران اپنی بات مکمل کرتا گیا اسکی آنکھیں کھل گئیں۔لب بھینچے وہ سن رہا تھا۔
شنواری صاحب کے بھی برہم ہوتے تو کبھی نرم پڑتے تاثرات دیکھے تھے۔اور بالآخر میران اپنی بات منوا کر وہاں سے کھڑا ہوا تھا۔احتشام صاحب کے زہن میں جنگ چھڑی تھی بری طرح الجھ گئے تھے۔میران نے انکے آگے جو معاہدہ رکھا تھا پتا نہیں رومائزہ اس پہ راضی ہوتی کے نہیں۔پر میران کے زور دینے پہ انھوں نے میران کے مطلب کی بات کردی تھی وہ مان گئے تھے۔جس کام کے لیے وہ آیا تھا وہ مکمل ہوگیا تھا۔
بہت مشکل سے میران نے انکو فیصلے پہ راضی کیا تھا۔
"اپنی بیٹی کی طرف سے بے فکر رہیں۔اور آرام سے یہاں رہیں بہت جلد آپکو اس سے ملوادونگا۔"اسکے اٹھنے کے بعد احتشام شنواری بھی کھڑے ہوگئے۔میران نے گلاسز واپس آنکھوں پہ لگا لیے اور پلٹ گیا۔احتشام صاحب کے پاس الفاظ ادا کرنے کے لیے نہیں بچے تھے۔انھوں نے دروازے تک اسے چھوڑا اور جب پلٹے تو ایک آنسو کا قطر آنکھ سے پھسل کے داڑھی میں جذب ہوگیا۔
    "اب تو آپ مجھے کچھ بتانا پسند ہی نہیں کرتے۔"عزیر کی خفت پہ میران زیر لب مسکرایا۔وہ گھوم کے ہیلکس کا دروازہ کھول کے بیٹھا۔
"پھر بھی تم کو سب پتا چل جاتا ہے سائے کی طرح میرے ساتھ ہوتے ہو۔کہہ دو تمھیں اس بات سے بھی اعتراض ہے جو میں نے شنواری سے کی۔"وہ کھلا طنز کرگیا عزیز کاسر جھک گیا۔اس نے ایگنیشن میں چابی گھمائی اور سوال کیا۔
"بنگلے واپس؟"
"نہیں فارم ہاؤس..."موسم میں کم ٹھنڈ کے باعث آج اس نے چادر وغیرہ نہیں اوٹھ رکھی تھی۔سیٹ سے پشت ٹکائے بیٹھا تھا۔عزیز نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"پانچ چھ دن پہلے ہی تو گئے تھے۔"وہ بے ساختہ بولا۔
"اب تم دن بھی گنو گے...واہ عزیز میاں!"میران عش عش کر اٹھا۔عزیز جھینپ گیا۔بات تو یہ بھی تھی یہ پانچ دن بڑی تیزی سے گزر گئے تھے۔پھر بھی ملاقاتِ یار کی طلب تو ہوتی ہی تھی۔وہ۔تو ہر حق وقت پورے حق کے ساتھ رومائزہ کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھنے کا خواہشمند تھا۔
"شاید یہ آخری چکر ہو۔میں چاہتا ہوں وہ جب آزاد ہو تو مجھ سے نکاح کرنے کے لیے باخوشی راضی ہوجائے۔اسکے دل میں میری محبت کے نغمے گونجنے لگیں۔موم پگھل رہا ہے۔اس موم کو سمیٹنا میرا کام ہے۔اب مزید میں انتظار برداشت نہیں کرسکتا۔"وہ باہر سڑک پہ غیر مرئی نقطے پہ نظر جمائے کھویا کھویا سا کہہ رہا تھا۔بعض اوقات عزیز کو اسکا جنون دیکھ کر خوف آتا تھا۔اور جو وہ کرتا پھر رہا تھا اب تو اسکی بھلائی کی دعائیں مانگنا بڑھا دی تھیں۔
عزیز نے گاڑی کے ایگنیشن میں پھر چابی گھمائی اور گاڑی فراٹے بھرتی نکل گئی۔جسکے جانے کے کچھ دیر بعد دائم وہاں آیا تھا۔
                           ★ ★ ★
"ارے یار رومائزہ سب خراب کردیا تم نے۔"وہ لاؤنچ میں پینٹنگ بورڈ کو اسٹینڈ پہ فٹ کرکے اسٹول پہ بیٹھی ہوئی تھی۔دو برشز الگ الگ رنگوں سے رنگے ہوئے تھے۔اس نے لال کی جگہ ہرے رنگ میں لت پت برش بے دھیانی میں گلاب کی آؤٹ لائن پہ پھیر دیا تھا۔بے ساختہ اس نے سر پہ ہاتھ مارا۔
آج کل اسکا دھیان ہی دوسری دنیا میں ہوتا تھا کام کچھ ہوتا تھا کر کچھ اور رہی تھی۔حلیمہ بی اگر اسے کچھ کہتیں آدھی بات سمجھ آتی آدھی پھر انکے ہاتھ ہلانے پہ واپس پوچھتی۔
"رومائزہ جس کو سوچ رہی ہو دفع کرو اسے۔محبت کچھ نہیں ہوتی سب وقتی لگاؤ ہوتا ہے۔"برش کو کان پہ پھنسائے وہ چکر کاٹنے لگی۔
"اللہ مجھے اس مشکل سے نکال دے ساری امیدیں تجھ سے وابستہ ہیں میرے مالک...
خیر کردے میرے لیے۔"بے بسی سے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی۔
باہر گاڑی کی آواز بھی وہ اپنی جھنجھلاہٹ میں سن نا سکی۔تیز تیز قدم لے رہی تھی کہ بے ساختہ کسی سے تصادم ہوتے بچا۔اس نے سر اٹھایا وہم سمجھ کے سر جھٹکا۔پر جب وہ حقیقت میں جگہ بناتا صوفوں کی طرف بڑھا تو اسکی آنکھوں میں بے یقینی اتر آئی۔
صرف سوچا تھا اور وہ حاضر ہوگیا تھا۔ابھی تو وہ آیا تھا...ہاں ابھی چھے دن پہلے۔پر دل میں خوشی کی کلی پھونٹی تھی۔
"زرا مجھے بھی تو دکھاؤ اپنے ہاتھ کے جلوے۔"صوفے کی ٹیبل کی طرف سے مڑ کے وہ اسٹینڈ کے پاس آیا۔خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا اور جب تھوڑی سہلاتے پینٹنگ شیٹ دیکھی۔وہ ہنسا تھا اسکا قہقہہ پورے لاؤنچ میں گونجا۔
"کیا ہے؟"وہ کاٹ دار لہجے میں بولی۔
"تم بتاؤ یہ کیا ہے؟گلاب لال کی جگہ ہرا کب سے ہونے لگا؟"وہ ہنستے ہوئے ہی اسکے پاس واپس آیا۔رومائزہ ساکت کھڑی اسکی نظروں میں دیکھ رہی تھی۔
"غلطی سے ہوگیا۔"آرام سے کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑنے لگی میران اسکے آگے آیا۔وہ ذہنی کشمکش کی شکار صاف دکھائی دے رہی تھی۔
"آج تو لگ رہا یے سورج مغرب سے نکلا ہے۔"میران اس کے تاثرات پہ چوٹ کرتا ہوا بولا۔وہ نہیں چاہتی بے دھیانی میں کچھ الٹا سیدھا اسے بول دے۔پچھلی بار بھی یہی ہوا تھا۔
"چلو تم نے تو نا بولنے کا روزہ رکھا ہے۔پر تمھارے لیے میرے پاس ایک خوشخبری ہے۔"اس نے جینس میں ہاتھ ڈالے۔آج وہ فارمل ڈریسنگ میں تھا۔نا وہ کرتا شلوار نا ہی چادر تھی۔ہاتھ میں سن گلاسز تھے جو اس نے آتے ہی ٹیبل پہ رکھے تھے۔اسکے بدلے حلیے کا جائزہ لینے سے فرصت ملی تو رومائزہ نے اسکی بات پہ غور کیا۔
"کیا خوشخبری؟وہی جو میں چاہتی ہوں؟آزادی؟"ویران آنکھوں میں چمک در آئی۔وہ مبھم سا مسکرانے لگا۔
"جو میں چاہتا ہوں۔بلاوجہ تمھیں یہاں رکھنے کا مقصد نہیں تھا۔جس بنا تمھیں روکا تھا وہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔تمھارے بابا بھی قرض اتارنے والے ہیں۔"
"آہہہ...پھر میں کب گھر جاؤنگی؟"خوشی سے وہ چہکی موڈ میں ایک دم بہتری آئی تھی۔
"صرف دو ہفتے...انھی کے درمیان۔"لب ملا کے اسکی آنکھوں میں دیکھتے یقین سے بولا۔روما نے نظریں نہیں پھیریں۔
"حلیمہ بی نہیں ہیں کیا؟"اس نے کمروں کی طرف نظر گھمائی۔
"آج پہلی بار مجھے اکیلا چھوڑ کے باہر گئی ہیں کسی رشتے دار کی عیادت کے لیے۔"
"اوہ اچھا۔"اس نے گردن ہلائی۔
"زیادہ بنو مت تم کو جیسے پتا نہیں ہوگا۔ایسے ہی تم انکے جاتے ہی آگئے۔"اسے گھور کے تئیں چڑھا کے اس نے جتایا۔
"آج ہوسکتا ہے ہماری فارم ہاؤس میں یہ آخری ملاقات ہو میں چاہتا ہوں کوئی بحث نا ہو۔دو تین گھنٹے کے لیے آیا ہوں کیا ہم نارملی بات نہیں کرسکتے؟آخر کو دشمن تھوڑی ہیں اور مستقبل میں ایک مضبوط رشتے میں بندھ جائیں گے۔"وہ پلک جھپکا کر ایک ہاتھ بازو پہ لپیٹے دوسرا بات کی نسبت ہاتھ ہلا کر بولا۔روما نے گہری سانس لی اور گنگ ہوکے اسے دیکھا۔مستقبل میں کیا ہوتا وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔اسکو بس اپنے گھر جانا جانا تھا۔
"تو پھر؟"اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"آؤ لان میں چلتے ہیں۔"رومائزہ نے اسے دیکھا وہ باہر سامنے والے حصے کی بات کر رہا تھا جہاں قدم رکھنے کی رومائزہ کی خواہش تھی۔
"ٹھیک ہے۔"سر گھماتی وہ اسکے پیچھے چل دی۔
باہر کسی گارڈ کا نام و نشان نہیں تھا۔وہ آہستہ آہستہ سیڑھوں سے اتر کے نیچے آئی۔پیروں سے چپل اتار کے سبز گھاس پہ اس نے قدم رکھ دیے۔میران نے بھی اپنے جوتے اتار دیے تھے۔گھاس کی ٹھندک دل میں اتر رہی تھی۔دونوں کے درمیان خاموشی تھی۔رومائزہ نے ہر کیاری کے پاس جاکر پودوں اور درختوں کو دیکھا۔پھولوں کو پوروں سے چھو کے خوشبو خود میں اتاری۔
کھلی جگہ میں آسمان کی جانب سر اٹھا کے اللہ کا شکر ادا کیا۔واپس میران کے پاس آگئی جو سیڑھوں کے پاس پلر سے ٹیک لگائے کھڑا اسے ہی تک رہا تھا اسے پرسکون دیکھ اسکے لبوں میں جنبش ہوئی۔
"فضا میں کتنا سکون ہوتا ہے نا بس ایک ہمارے دل میں طوفان ہر وقت زور و شور سے اٹھا رہتا ہے۔کبھی ایک خواہش کے پیچھے اور اسکے حصول کے بعد دوسری چیز کی خواش کے پیچھے۔"سیڑھوں کے دونوں اطراف آخری سیڑھی پہ پلر کھڑے تھے اور اوپر پلر کے ساتھ چھت بنی تھی۔وہ اسی چھپڑے کے نیچے دوسرے پلر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔میران کھڑا تھا اسکی بات سن کے نیچے بیٹھ گیا۔ہلکی ہلکی ہوا ان دونوں کے سر کے بالوں کو اڑا رہی تھی۔میران نے آج دیکھا تھا اسکے بال کندھے سے تھوڑا نیچے آتے تھے جب کہ جامعہ میں جب دیکھا تھا تب اسکے لمبے بال تھے۔کیا اس نے اس دوران بال چھوٹے کیے تھے؟یا وہ ہیئر ایکسٹینشن یوز کرتی ہو۔وہ تھوڑے فاصلے پہ ہی بیٹھی تھی۔
سفید قمیض شلوار پہنی تھی بال کھلے تھے دوپٹہ بھی سفید ہی تھا جسکے گرد سرخ پیکو ہوئی تھی۔دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہوا میران نے نظریں ہٹا کے اپنے ہاتھوں کی جانب مرکوز کرلیں۔پھر دھیمے سے بے خودی میں ہنسا۔
"مجھے سمجھ نہیں آتا کونسا رنگ تم پہ سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ہر رنگ میں جچتی ہو۔"نادانستہ طور پہ دل کی بات زبان پہ آہی گئی۔وہ مسکرا کے اسے دیکھنے لگی آج آزادی کا فرمان سن کے بہت خوش تھی۔میران کو اسکے بدلے رویے پہ یقین کرنا مشکل ہورہا تھا۔
"میرے بابا بھی یہی کہتے ہیں۔پر سفید رنگ کی بات الگ ہے۔"سامنے کیاریوں میں دیکھتے اپنی ہتھیلی مسلتے روانی میں کہا۔میران متفق تھا۔
"میں جب چھوٹی تھی میری ممی نے سفید رنگ کی کئی فیری فراکس بنائی تھیں۔اور میں اتنی جھلی تھی خود کو پری ہی سمجھتی تھی۔اور پھر جب ہم باہر ملک گئے وہاں سے آئی تھی تو انکا برٹش ایکسنٹ سیکھ آئی تھی۔جب بات کرتی تھی تو ممی میری انگلش کی روانی سن کر بہت خوش ہوتی تھیں اور مجھے خود سے لگا لیتی تھیں۔اس وقت مجھے لگتا تھا ایک چھوٹی سی پری کو اسکی ماں نے اپنی آغوش میں چھپا لیا ہے۔"ماضی میں کھوتے ہوئے وہ سفید رنگ سے نا جانے کدھر نکل گئی۔میران کو احساس ہوا تھا وہ اپنی ممی کو بہت یاد کرتی ہے۔آج تو اس نے زکر بھی کردیا تھا۔
اسکی توجہ رومائزہ کی جانب تھی۔
"لڑکیاں اپنے گھر میں پریاں ہی ہوتی ہیں جو ایک مقرر وقت آنے پہ وہاں سے اڑ جاتی ہیں۔"
"پریاں نازک ہوتی ہیں!"
"پر اگر وہ چاہیں تو اپنی طاقت کا استعمال بخوبی کرسکتی ہیں۔"
"میں اپنی ممی کی بات کر رہی تھی تم کیا بیچ میں لا رہے ہو۔"اسے ٹوک کر خاموش رہنے کا کہا تو وہ ہلکا سا مسکرایا۔
"میں سننے کے لیے تیار ہوں۔پہلے تم اپنا پاسٹ بتاؤ پھر میں بتاؤنگا۔"دونوں ہی ایک دوسرے کو جاننے کے لیے بے تاب تھے۔خاص کر میران وہ تو چاہتا رومائزہ اور اسکے درمیان جو دیواریں کھڑی ہیں بے اعتباری کی انھیں ختم کردے۔
وہ بھی اپنا دل ہلکا کرنا چاہتی تھی کوئی تھا جو صرف اسکی سنتا تھا تو پھر کیسے خاموش رہ لیتی۔
"میں بابا اور ممی!ہماری ایک مکمل فیملی تھی۔ہم لاہور میں نہیں رہتے تھے ہماری رہائش اسلام آباد میں تھی۔ممی کشمیر سے تھیں۔میری ممی بہت خوبصورت تھیں مجھ سے بھی زیادہ۔ممی بابا نے میرے بے حد لاڈ اٹھائے ہیں۔کافی عرصہ ہم اسلام آباد میں رہے جب ہی مجھے اس سے بے حد انسیت ہے۔اور پھر کاروبار کے لیے بابا لاہور شفٹ ہوگئے۔"
"انکا کوئی اور بھائی بہن نہیں ہے؟"
میران نے مداخلت کی۔وہ سامنے دیکھ رہی تھی۔نفی میں سر ہلایا پھر ہاں میں میران سمجھا نہیں۔
"ہیں تو سہی۔پر وہ باہر ہیں اور کافی عرصے سے لاتعلقی ہے۔یو نو خاندانی مسئلے بس ہم ملتے نہیں۔"روما نے بات ٹالی۔
"بابا نے فیکٹری بنائی۔اور اسی وقت زولفقار جاہ سے قرض لیا ہوگا۔اسلام آباد میں وہ اچھی پوسٹ پہ ہی لگے تھے۔پتا نہیں انکو بھی کیا سمائی لاہور چلے آئے...۔شاید ممی جانتی ہوں انھوں نے قرض لیا تھا پر میں تو سب سے نا آشنا تھی۔میں بارہ سال کی تھی جب ممی ہمیں اکیلا چھوڑ گئیں۔لاہور انکو راس نہیں آیا۔"لہجے میں تلخی ابھر آئی۔میران نے گہری سانس بھری۔ماحول گھٹن کا شکار ہوا تھا۔
"اب تو انکے بغیر رہنے کی عادت ہوگئی ہے۔وہ بہت ڈرتی تھیں۔میں ایک مرتبہ پارک میں کھو گئی تھی۔بابا بتاتے ہیں کہ انھوں نے رو رو کے برا حال کرلیا تھا وہ مجھے کبھی خود سے دور نہیں کرتی تھیں۔سب کہتے تھے ناز نے رومائزہ کو ہتھیلی کا چھالا بنایا ہوا ہے۔ انھوں نے مجھے ساری محبت دے ڈالی تھی۔انکو جانے کی جو جلدی تھی۔"وہ مسکرا رہی تھی؟درد چھپا رہی تھی!
"وہ ابھی زندہ ہوتیں تو ناجانے کیسے خود کو سنبھالتیں۔پر اگر وہ زندہ ہوتیں تو بابا کو بھی زور دیتیں کے قرض اتار دیں۔ورنہ یہ ہمیں کھاجائیگا۔پھر انکے جانے کے بعد کچھ عرصہ میں ٹراما میں رہی پھر سوچ لیا خود کو اس فیس سے باہر نکالونگی۔میں نے کم عمری میں ہی ممی کے جانے کے بعد مارشل آرٹس سیکھی تھی بابا سے بے حد ضد کرکے،وہ کہتے تھے تھوڑی بڑی ہوجاؤ۔انکے لیے تو میں ہمیشہ چھوٹی ہی رہی۔پر میں تیرہ چودہ سال کی لڑکی تھی بڑی اسی دن ہوگئی تھی جب میں نے خود کو ٹراما سے نکالا۔"
"بابا نے ممی کے جانے کے بعد بہت محبت دی۔ہمارا اسلام آباد والا گھر بہت خوبصورت جگہ پہ قائم تھا پر لاہور میں جو بابا نے اپارٹمنٹ لیا اسکی لوکیشن بھی اچھی تھی اور وہ اندر سے بھی بہت اچھا فرنشڈ کیا گیا تھا۔مجھے ہر چیز کی خوبصورتی بہت اٹریکٹ کرتی ہے کسی بھی چیز میں خوبصورتی نکال لیتی ہوں۔وہ گھر میرے لیے جنت سا ہے۔بابا اور میری کئی یادیں ہیں۔مجھے وہاں ہی کسی کمرے میں بند کردیتے تو خوشی خوشی رہ لیتی۔"
اس نے ہنستے ہوئے مزاحیہ طور پہ کہا میران بڑی دلچسپی سے سن رہا تھا نگاہوں کا مرکز صرف وہی تھی۔جسکے چہرے کی شادابی میران کے دل میں پھوار کی طرح برس رہی تھی۔چلتی ہوا اسکے بالوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی۔روما نے اسکی طرف چہرہ کیا تو نظریں ٹکرائیں اسکے دل میں ولولہ سا مچا میران کی محبت لٹاتی نگاہوں میں دیکھنا بڑا مشکل کام تھا۔اس نے پلکیں بچھا لیں۔میران کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔رومائزہ نے سانس بحال کی اسے دیکھا جو مزید سننے کے لیے بے تاب دکھ رہا تھا۔
   "پھر اسکول سے کالج،،کالج سے یونی۔اچھی دوستیں مل گئیں۔زندگی میں مصروف ہوگئی۔اور پھر تم آگئے۔اور ایک بار پھر زندگی کا بھیانک روپ سامنے آیا۔اور لاہور مجھے بھی راس نہیں آیا۔"اپنا ہاتھ اوپر کرکے اس نے ناخن دیکھے اور عام انداز میں کہا۔میران نے اسکی آخری بات پہ سر جھٹکا مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔سمجھدار لڑکی تھی کبھی کبھی میران کو اسکے ساتھ جو ہورہا تھا اس پہ بے حد افسوس ہوتا تھا۔کاش کے پہلے ہی سب ٹھیک کر پاتا اسے مزید دکھ ملنے سے بچالیتا۔پر آزمائشیں بھی اللہ کی جانب سے آتی ہیں۔اور ناجانے وہ مزید کتنا آزمائی جاتی۔اس نے اچھا اور برا وقت دونوں ہی دیکھے تھے۔اب بھی وہ خود کو سنبھالتی تھی خودداری بہت تھی یہاں رہنا اسے سب سے دشوار لگتا تھا۔پر اسے یہاں محبت لٹانے والی حلیمہ بی مل گئی تھیں جو اسکے دماغ میں غلط سوچیں ابھرنے نہیں دیتیں تھیں کیونکہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔
وہ یہ بات واضح کردیتی تھی اسے اغوا کرکے نہیں رکھا ہوا مہمان ہے وہ یہاں!
"اور اسی سب میں پینٹنگ کا شوق چڑھ گیا تھا وہ بھی سیکھ لی پھر مہارت آگئی....اب تم بتاؤ اپنی کہانی میں کافی بول چکی ہوں۔اتنی تو میری کوئی سنتا ہی نہیں بڑی بات ہے تم نے سب سن لیا۔"سانس لیتے وہ ہلکا سا اسکی طرف پلٹی جیسے اپنی بات مکمل کر لی ہو۔میران نے اس پہ نظریں جما دیں وہ اسکا ماضی جاننے میں دلچسپی دکھا رہی تھی۔
"میرے بارے میں جان کر کیا کروگی۔کچھ خاص نہیں ہے بتانے کے لیے۔تمھاری ممی کا سن کے افسوس ہوا اللہ انکی مغفرت فرمائے۔"وہ کہتے ہوئے مصروف انداز میں آستین فولڈ کرنے لگا۔رومائزہ نے آمین کہہ کر اسے گھورا۔
"یہ غلط بات ہے تم نے میری پوری کہانی سنی اپنا اب بتا نہیں رہے۔کہانی سب کی ہی خاص ہوتی ہے۔"رومائزہ نے پلر سے سر ٹکا لیا۔میران کی نظر اسکے ہاتھ پہ پڑی وہ اسکی پہنائی انگھوٹی کو تھامے بیٹھی تھی اسکے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی پھر اسکے بے حد اسرار پہ میران بتانے کو راضی ہوگیا۔
     "میرے دادا شہوار جاہ وڈیرے جاگیردار تھے ہم جدی پشتی اچھے دولت مند گھرانے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔سرداری بھی انکو حاصل تھی۔بہت اچھے انسان تھے کبھی کسی کا حق نہیں مارتے تھے۔مام کا نام گل تھا۔جب میں تین چار سال کا تھا وہ اپنی بیماری کی زد میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔زولفقار صاحب ان سے بہت محبت کرتے تھے سب نے کافی کہا پر انھوں نے دوسری شادی نہیں کی۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے میرے باپ پہ مان ہے....."
"تم تو بہت چھوٹے تھے۔"وہ گھٹنوں پہ جھکی افسوس سے بولی چہرے پہ دکھ بھی نمایاں تھا اور ہاتھ کے نیچے تھوڑی ٹکادی میران کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھری۔
"ہاں۔میری مام کے ساتھ اتنی یادیں نہیں ہیں۔عمر ہی اتنی کم تھی زیادہ کچھ یاد ہی نہیں۔بابا نے پہلے ہی سیاست میں دلچسپی ظاہر کی تھی وہ سیاسی سرگرمیوں مصروف رہا کرتے تھے۔"
"تمھیں تنہائی محسوس نہیں ہوتی تھی؟اگر ایک بندہ بھی گھر کا کم ہوجائے تو بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔اور ماں کی کمی تو بہت محسوس ہوتی ہے۔"اس نے ہنوز اسکی آنکھوں میں دیکھے سوال کیا۔میران نے شرٹ کا بٹن کھول کالر کر ڈھیلا کیا۔
"ہوں..."وہ اپنی بری یادیں بتانے سے گریز کر رہا تھا۔ماں کی یاد پہ بند کمرے میں کس قدر روتا تھا۔
"میرے باپ نے میرے آگے دنیا جہاں کی نعمتیں لا کر رکھ دی تھیں کہ مجھے کسی چیز کی کمی نا ہو۔پر ماں کہ کمی ایسی تھی جو کوئی پوری نہیں کرسکتا۔لیکن وقت سب کا استاد ہے سب بھلا دیتا ہے۔انسانی فطرت ہے کسی بھی سوچ کو لمبے عرصے تک اون نہیں کرسکتا۔خیالات بدلتے ہیں۔کوئی نا کوئی ہوتا ہے جو آپکو برے وقت سے باہر نکال لے آتا ہے اور اگر کوئی نا ہو تو خود کوشش کرنی پڑتی اور جو ایسا نہیں کرتے وہ وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں۔میں زولفقار جاہ کا بیٹا اور شہوار جاہ کا پوتا تھا...."
"ہاں مغرور تو تم بچپن سے ہی ہوگے۔"آنکھیں گھما کر جب وہ بولی تو وہ ہنسی پہ قابو نا کرسکا۔غلط بھی نہیں کہہ رہی تھی۔
"شکر تم نے یہ نہیں کہا مرد روتے نہیں۔"
اسے دلکشی سا ہنستے دیکھ کر وہ بولی۔پرکشش مسکراہٹ لبوں پہ تھی سامنے والے پہ اپنا گہرا اثر چھوڑ دینے والی...
"میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا!"
"وہی تو شکر تم نے خود کو بچہ ہی سمجھا۔چھوٹے جاہ.."وہ اپنے حساب پورے کر رہی تھی۔
    "اے پی جماعت کے لیڈر زولفقار صاحب نے بہت جوش و جذبے سے عوام کی خدمت کے لیے یہ جماعت بنائی اور کئی الیکشن لڑے۔کافی محنت بھی کی۔کامیابی بھی ملی پر جلد ہی شیطان پیروں سے چمٹ گیا اور اب تک چمٹا ہی ہے۔"اسکے آگے اس نے خاموشی برت لی۔
"سیاست میرے بابا زولفقار جاہ کو کھا گئی۔پر وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں میں ان سے محبت کرتا ہوں۔میرے باپ نے مجھے کسی قدم پہ تنہا نہیں چھوڑا دادا کے بعد تو وہ مزید قریب ہوگئے تھے۔ہم باپ بیٹوں کی بہت بنتی تھی۔بڑا ہوا پھر میں تعلیم کے لیے باہر چلاگیا واپس آیا تو دادا کے بزنسز کو مزید بڑھایا اپنے دم پہ اپنے لیے بھی کافی کچھ کیا۔پر کچھ زندگی میں چھوٹ رہا تھا۔مزہ نہیں آرہا تھا۔ایک دن مزار پہ راشن کی تقسیم کی تھی اس وقت جو مجھے خوشی ملی مجھے اپنا راستہ دکھائی دیا۔پھر بابا کے ساتھ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا پر انکی سیاست کی دنیا الگ تھی۔میں شہوار جاہ کا پوتا اس میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکتا تھا مجھے سب غلط لگتا تھا۔جو کام میرے باپ نے کرنا بھلا دیے انکی ذمہ داری میں نے لی اور صوبے کے لیے کام کرنا شروع کردیا اور کرتا رہونگا۔"
اپنی بات مکمل کرکے اس نے سیڑھی کے فرش پہ ہاتھ جما دیے۔ہوا کے ساتھ دھول بھی اڑنے لگی تھی۔رومائزہ کو بیٹھنے میں دشواری ہونا شروع ہوئی پر اس نے گہری سانسیں لے کر خود کو نارمل رکھا تھا۔
"اور ہاں پھر ایک شوخ و چنچل بہادر سی لڑکی میری زندگی میں آئی جس نے پہلے میری سوچوں پہ قبضہ کیا پھر میرے دل پہ!مجھے چاروں شانے چت ہی کردیا۔"مزید یاد آنے پہ وہ سامنے نیلے آسمان پہ بکھرے سفید ہالوں کو دیکھتے بولا۔روما نے سر جھکا لیا۔بالوں کی کچھ لٹیں کان کے پیچھے سے چہرے پہ گریں اس نے انھیں پیچھے کیا۔میران نے چہرہ اسکی طرف موڑ کے دیکھا۔
"میں نے تو چاہا تھا اسکے گھر والوں سے رشتے کی بات کرونگا۔میں زولفقار صاحب سے بھی بات کرنے والا تھا پر اس سے پہلے ہی ایسے واقعات پیش ہوئے کہ سب بگڑ گیا۔تمھیں کوئی تکلیف دے وہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔"
رومائزہ کے قریب عجیب سے سحر کا حصار کھینچ کے وہ بولا۔وہ چپ رہی۔
"اگر مام ہوتیں تو مجھے یقین یے وہ سب ہینڈل کرلیتیں۔بابا تمھارے لیے کچھ بھی غلط نہیں سوچتے۔"وہ باپ کی انا کا سوچ شرمندگی سے گویا ہوا۔دونوں ہی ایک ہی کشتی کے مسافر تھے۔بن ماں کے پلنے والے۔ایک دوسرے کو دلاسہ دینے کے لیے دونوں کے پاس لفظ نہیں تھے۔ دونوں نے ہی ماضی ایک دوسرے پہ عیاں کردیا تھا۔
"تمھیں کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی؟"رومائزہ کو لگا زندگی کا سب مشکل سوال اس نے پوچھ لیا ہے۔اگلی سانس بمشکل لی۔
"تم سے نہیں ہوگی.."وہ مسکراہٹ روک کے بولی۔میران نے غم و گداز سے دیکھا۔
"کبھی کسی کے بارے میں ایسا سوچا ہی نہیں۔"پھر سنجیدگی سے کہا۔
"اور اگر کوئی محبت کرے تم سے پھر؟"
"تم کہتے ہو محبت کرتے ہو۔جواب بھی تم کو معلوم ہوگا۔بتاؤ کیا ملا مجھ سے محبت کرکے؟خواری،میری بے رحمی؟"
"نہیں۔محبوب محبت کی خاطر بندہ تھوڑی محنت کرلے تو خواری نہیں کہہ لاتی۔محبوب کے لیے تو سینکڑوں چکر بندہ خوشی خوشی لگا لیتا ہے۔میں تو خوش نصیب ہوں جس کو بار بار دیدارِ یار نصیب ہوجاتا ہے۔تمھاری بے رحمی کا شکوہ نہیں ہے تمھاری حالت سمجھ سکتا ہوں مشکل وقت سے گزر رہی ہو ہر اتنا کہونگا جو آپکے مشکل وقت میں ساتھ ہو اسے کبھی چھوڑنا نہیں چاہیے۔کاش یہ سب جھنجھٹیں نا پلی ہوتیں میں تمھیں فوراً اپنا لیتا.....تم آج جاہ بنگلے کی مکین ہوتیں اور مجھے یقین ہے اس وقت انکار کی تمھارے پاس کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی۔متاثر تو تم تھیں مجھ سے،میران جاہ سے۔"وہ مسکرا کے سن رہی تھی آخری بات پہ سر نفی میں ہلایا۔"جی نہیں!"
"تم بھی اگر محبت کرلو آگے راستہ آسان ہوجائیگا۔پر تم ہو کہ...."
اس نے بات ادھوری چھوڑدی۔وہ سننا چاہتا تھا کہ وہ بھی دل کی بات زبان پہ لے آئے۔
"تم مجھے اچھے اور برے دونوں لگتے ہو۔پر مجھے تم سے محبت نہیں ہے۔"وہ سنبھل کے نظریں چرا کے بولی۔وہ اسکی سوچوں کا مرکز بن چکا تھا پر ان احساسات کو اس نے کوئی نام نہیں دیا تھا وہ ڈرتی تھی کہیں میران اسکی سوچیں نا پڑھ لے۔
"مجھے تمھیں شکریہ کہنا ہے۔تمھیں لگتا ہے میں اپنے علاوہ اور کسی کا نہیں سوچتی...میں مجبور ہوں حالات ہی ایسے ہیں۔کسی پہ یقین کرنا مشکل ہے پر تم پہ یقین کرتی ہوں۔اگر اس رات تم وقت پہ نہیں پہنچتے تو پتا نہیں کیا ہوجاتا۔تم نے ہمیشہ مجھے تحفظ دیا ہے اپنے بابا کے شر سے بچایا۔"وہ اسکی ہوئی مشکور تھی۔اوع آہستہ سے بے حد دھیمی آواز میں کہا۔     میران کا شکریہ ادا کرنے میں اسکی انا ہمیشہ آڑے آتی تھی۔پر آج جب اتنا دل کھول دیا تھا تو جاننے کا بھی وہ حق رکھتا تھا۔جانے سے پہلے وہ شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی اسکا ہر قرض اتار دینا چاہتی تھی۔میران اسکی بات پہ بے تاثر ہی رہا۔
کچھ دیر خاموشی رہی رومائزہ جو کھانسی کا ٹھسکا بڑی مشکل سے روکے بیٹھی تھی زیادہ دیر روک نا پائی۔اس نے بری طرح کھانسا شروع کردیا۔
"تم کو بیٹھنا ہے تو بیٹھو میں مزید نہیں بیٹھ سکتی۔"پھندوں کے درمیان بڑی مشکل سے اس نے کہا اور منہ پہ ہاتھ رکھ کے واپس اندر بھاگی۔اور یوں اتنی تفصیلی بات صرف اسکے ایک پھندے پہ ختم ہوگئی۔
میران اسکے پیچھے اٹھا تھا۔اندر آیا تو اسکے چہرے پہ دوپٹے کا نقاب تھا۔ماسک ختم ہوگئے تھے۔سفید نقاب سے گہری بھوری آنکھیں جھانک رہی تھیں جن کے کناروں پہ موتی جما تھے۔
"چائے پیو گی؟"
"تم بناؤگے؟"نقاب سے جھانکتی آنکھوں نے حیرانی سے پوچھا۔اس نے ہاتھ سے ہی نقاب کو روکا ہوا تھا۔میران نے سر اثبات میں ہلایا اور کچن کی طرف بڑھ گیا۔
"ایک بات بتاؤ تم نے یہ فلاسفی کہیں سے سیکھی ہے؟"
"کونسی فلاسفی؟"
"عشق معشوقی کی.."ہاتھ بلند کرتے وہ بھنوو چڑھا کے بولی۔میران ساکن نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔
"معشوقی؟فضول تم نا ہی بولا کرو۔"معشوقی لفظ اسے انتہائی غیر مہذب لگا تھا جب ہی چڑ کے بولا۔
"تم تو برا ہی مان گئے۔"وہ کاؤنٹر کے ساتھ ٹک کر کھڑی تھی۔میران نے ساس پین میں پانی اور چینی پتی ڈال دی۔
 "تم نے اس دن اسپیچ بہت اچھی کی تھی۔"
"ہاں مجھے پتا ہے جب ہی جیتی بھی تھی۔لیکچر دینے کا تو ویسے بھی بہت ہی شوق ہے۔"
"لمبے لیکچرز کی تم کو بھی ضرورت ہوتی ہے جب تک ملتا نہیں تمھاری عقل ٹھکانے نہیں لگتی۔"اسکے چوٹ کرنے پہ وہ سمجھ گئی کس لیے بول رہا ہے۔
وہ انجان بنتی تھی۔
"کچھ دنوں کے لیے اٹلی جا رہا ہوں۔تمھیں تمھارے بابا کے پاس چھوڑدونگا اس عرصے کے لیے۔واپس آکے نکاح کرونگا۔میں چاہتا ہوں تم اپنی رضامندی سے پورے دل کے ساتھ اس رشتے کو قبول کرو۔ہم دونوں کی منزل نکاح ہے۔"اسکی طرف بڑھتے ہوئے میران نے سنجیدگی سے اپنے ارادے بتائے۔
"اور اگر راضی نا ہوئی تو زبردستی نکاح کروگے؟"اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلننجینگ انداز میں پوچھا۔
"اگر یہی کرنا ہوتا تو تم ابھی میرے نکاح میں ہوتیں۔میرے پاس سارے اختیارات موجود ہوتے۔پر ایسا کچھ نہیں ہوگا مجھے میری محبت پہ یقین ہے۔"وہ پورے وثوق سے اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے بولا تھا۔رومائزہ کرنٹ کھا کے پیچھے ہوئی۔کیا اسکے دل میں لگی آگ سے وہ واقف تھا؟ابھی تو وہ خود بھی کچھ قبول نہیں کرپائی تھی۔
    "تیار رکھنا خود کو سب بھلا دینا جامعہ کی ملاقات کے بعد سے جو کچھ ہوا۔مشکل ہوگا پر کرنا پڑے گا۔سب تمھارے لیے کیا گیا ہے با خدا میں تمھارا مجرم نہیں ہوں۔خوشی سے تم کو ادھر نہیں رکھا میں نے۔اور مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ تم نے بنا کسی جھجھک کے میرے سامنے اپنا ماضی کھول کے رکھ دیا۔اس قابل تو سمجھتی ہو تم مجھے۔"پلٹ کر کہتا وہ چولہے کی طرف بڑھ گیا۔روما اسکی پشت دیکھتی رہی۔وہ سوچ میں پڑ گئی تھی آگے کیا فیصلہ کرے گی۔کب تک دل پہ و دماغ پہ پہرا بٹھا سکتی تھی۔اپنی جگہ غلط وہ بھی نہیں حالات نے اسے بھی مجبور کیا تھا۔
  "ہر محبت کی منزل نکاح نہیں ہوتی۔بعض محبتیں درمیان میں ہی دلوں میں رہ جاتی ہیں ایک کنارہ کر لیتی ہیں۔"وہ دم سادھے قدرے تلخی سے بولی۔میران نے ساس پین ہلاکر اسے دیکھا۔
"بلکل۔پر ہم ان 'کچھ' میں سے ہونگے جن کی منزل نکاح ہے۔"اس نے  اٹل انداز میں باور کیا۔وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔
"چینی کتنی؟"
"تم پہلے ہی ڈال چکے ہو!"آنکھیں چھوٹی کرکے پین کی طرف اشارہ کرتے کہا تو وہ ہنس دیا۔
وہ اپنی انگھوٹی کو مسلسل انگلی میں گھمانے کی کوشش کر رہی تھی۔اسکے ہاتھ میں انگھوٹی اب بھی تھی میران کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔
"ویسے میں نے تمھیں ایسے ہی انگھوٹی پہنا دی۔"
"ہاں تو۔زبردستی پہنائی ہے تم نے!"
"تو یہ کہ لڑکیاں چاہتی ہیں کہ کوئی انکو اچھے سے پرپوز کرے۔"اب وہ یقیناً اسے زچ کر رہا تھا۔
"پتا ہے میرے کلاس فیلو نے بھی ایسا ہی کچھ کیا تھا۔بلکہ وہ مجھ سے دوستی کرنا چاہتا تھا۔اور پھر پتا ہے میں نے کیا کیا!"
"میں نے اسکے منہ پہ تھپڑ مار دیا۔کیونکہ وہ مجھے بار بار پریشان کرتا تھا۔سوچ لو تم بھی!"اس شیرنی کی دھمکی سے وہ ڈرنے ہی کہاں والا تھا۔
"کام تو تم نے بہت اچھا کیا۔تمھارا یہی اٹیٹیوڈ مجھے پسند ہے!"وہ مصروف سا بولا کبرڈ سے کپ نکال کے سلیپ پہ رکھے۔میران نے گردن موڑ کے دیکھا تو وہ رومائزہ اسکی بات پہ کھلکھلا کے ہنس رہی تھی۔
    پہلی بار اسے اتنا خوش دیکھا تھا۔سر جھٹک کے وہ چائے نکالنے لگا ہونٹوں کی تراش پہ مسکراہٹ جما ہوگئی۔روما نے ہنستے ہوئے اسکی پشت کے چوڑے شانے دیکھے۔کچن کے ماحول کی ٹھنڈک میں اسکی کھلکلاہٹ نے جیسے اضافہ ہی کردیا تھا۔
کوئی ایسی راہ پہ ڈال مجھے
جس راہ سے وہ دلدار ملے
کوئی تسبیح دم درود بتا
جسے پڑھوں تو میرا یار ملے
چائے کا کپ اسکی جانب بڑھاتے دلکشی سے مسکرایا۔روما نے ہنستے ہوئے ہی کپ تھام لیا۔دونوں کی نظریں ٹکرائی تھیں۔کتنے دن بعد کھل کے ہنسی تھی۔اسے خوش دیکھ میران دوسرا کپ اٹھاتا ناک شہادتِ انگشت سے رگڑ کے مسکراہٹ دباتا ہوا کچن سے باہر نکل گیا۔
وہ دل کو مٹھی میں قید رکھنے والا شخص کسی کی محبت میں یوں گرفتار ہوا کہ دل مٹھی سے کب نکلا معلوم ہی نا ہوا،اگر وہ جھلی تھی تو میران وہ سمندر تھا جو اسکی تمام شوخیوں کو خود میں بھینچ لینا چاہتا تھا۔بے شک اس نے محبت کا اعتراف نہیں کیا تھا یا شاید اسے محبت ہو ہی نا پر اسکے جذبات وہ سمجھ گیا تھا۔اب اسکے اظہار کی ضرورت نہیں تھی۔اس لڑکی نے آرام سے اپنا ماضی اپنے احساسات سب اسے سنا ڈالے تھے۔
دیڑھ ماہ کی مسافت کے بعد میران کے مطابق منزل اب بے حد قریب تھی۔
                                جاری ہے....

Dil khol k bari qist likhi hai mene..
Ab ap sb comments mai kanjosi na krein..
Vote nhi krte ap log dil dukhta hao yar🙂💔
Must vote and comment!

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now