قسط 21 جامِ حیات

519 40 12
                                    

      ڈاکٹر یحییٰ نے اسکا چیک اپ کیا۔
"مسٹر سفیر یہ بہت اسٹریس لے رہی ہیں۔اگر ایسا ہی چلتا رہا تو بات انکی جان پہ بن آئے گی۔میں نے پہلے ہی کہا تھا انھیں ٹینشنز سے دور رکھیں۔بلڈ پریشر بلکل لو تھا میں نے انجیکشن لگا دیا ہے،کوشش کریں انھیں اس فیس سے باہر نکالنے کی۔"ڈاکٹر یحییٰ کو ہی اس نے گھر بلا لیا تھا۔
وہ اپنا بریف کیس بند کرتے ہوئے ہدایت کر رہے تھے۔ملازمہ جوس لے آئی تھی۔پانچ دس منٹ مزید رکنے کے بعد وہ چلے گئے۔سفیر بھی کمرے سے نکل گیا۔اور فون اٹھا کے کسی کو کال ملائی۔
  پھر تھوڑی دیر بعد واپس آیا۔رومائزہ ہوش میں آگئی تھی اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی....بال بیچ کی مانگ سے نکل کر کندھوں پہ گر رہے تھے۔سفیر کو دیکھ کر وہ انگلیاں چٹخانے لگی۔وہ یقیناً غصے میں تھا پر اپنا غصہ اس پر اتارنا نہیں چاہتا تھا۔
"سوری..قسم سے میں خودکشی نہیں کرنے والی تھی۔سوچا تھا پر ہمت نہیں ہوئی۔ویسے ہی بہت گنہگار ہوں یہ گناہ نہیں کرسکتی تھی۔"اس نے چھری اٹھا کے کلائی تک رکھ لی تھی پر اسکا ضمیر ملامت کر رہا تھا،چھری جھٹک کے پھیکنے کے بعد ہی وہ ہوش کھو بیٹھی تھی۔سفیر اسکے سامنے بیٹھا۔
"آج مجھے محسوس ہوا ہے جان کیسے نکلتی ہے۔اگر کچھ ہوجاتا تو؟"وہ کڑے تیور لیے بولا۔
"ہوا تو نہیں نا..."بھرے دل،ڈبڈباتی آنکھوں سے اس نے سفیر کی جانب دیکھا۔
"تو تم مرنے کا انتظار کر رہی ہو۔ڈیم اٹ!ایڈیٹ..میرے سمجھ نہیں آرہا کیسے سمجھاؤں۔اتنا یاد رکھو جیسے تم اپنے بابا کے لیے تڑپ رہی ہو ایسے ہی تمھیں دیکھ کر ہم تڑپ جاتے ہیں۔پرائیوریٹی ہو تم ہماری!"وہ دانت پیس کر بولا۔رومائزہ نے ندامت سے پلکیں جھکا لیں۔سفیر کئی پل ایسے دیکھے گیا۔
"ہم سب تم کو بہت مضبوط سمجھتے ہیں پر تم تو بہت جذباتی نکلیں۔"خاموشی توڑتے اس نے کہا۔وہ جنونی تھی جذباتی وقت کرچکا تھا۔سفیر کی باتوں سے شرمندگی بڑھنے لگی۔جامعہ میں کئی لڑکیاں اس سے متاثر تھیں کہ وہ ہر قسم کی سچویشن فیس کرلیتی ہے ہر حالات سے خود کو باہر نکالنا جانتی ہے۔ہاں پر وہ حالات ایسے نہیں تھے اس نے سر کا سایہ کھویا تھا اس بار...
"یہ بات آپ کسی کو نہیں بتائیں گے۔پلیزز۔"
"کیوں نا بتاؤں۔تمھاری دوستوں کو معلوم ہونا چاہیے۔"اسے دیکھتے ہوئے وہ بولا۔
"نہیں۔میں ایسا الٹا سیدھا قدم کبھی نہیں اٹھا سکتی۔نا ہی کبھی اٹھاؤنگی۔آپ سب میری وجہ سے ویسے بھی بہت پریشان ہوگئے ہیں میں مزید پریشان نہیں کرونگی۔میں ٹھیک ہوں اب۔"اس نے آنکھوں سے آنسو پوچھ کر کہا۔سفیر نے اسکے سر کے بالوں کو سہلایا اور اٹھ گیا۔
"ٹھیک ہے یہ بات ہمارے درمیان رہے گی۔پر آئیندہ ایسا سوچنا بھی مت۔"اسکی بات پہ رومائزہ نے تابعداری سے سرہلایا۔وہ مسکرا کے باہر نکل گیا۔رومائزہ کو یقین تھا وہ کسی کو نہیں بتائے گا،بوجھل دل کو کچھ اطمینان ہوا وہ پھر لیٹ گئی۔
                           ★ ★ ★
     یہ ہفتہ بعد کا منظر ہے۔گھر میں غیر معمولی ہلچل تھی،ملازم سارے اپنے کاموں پہ لگے تھے۔غضنفر شنواری اور انکی اہلیہ بتول پاکستان آرہے تھے۔سفیر بے حد خوش دکھائی دے رہا تھا۔سفیر کے اسرار پہ وہ ایک ہفتہ قبل آرہے تھے۔رومائزہ پہلے سے کچھ بہتر تھی،اسکو آنے والے کسی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔وہ جانتی تھی اسکی تائی کس طرح سے الگ ہوکے گئی تھیں۔پر جب بابا اور تایا ابو کے درمیان آخر میں صلح ہوگئی تو اسکا اب کچھ بولنے کا حق نہیں بچا تھا۔ہفتہ بھر میں وہ تھوڑی سنبھل گئی تھی۔پورے ہفتے جو وہ کمرے میں بند رہی تھی آج خود باہر نکل آئی۔سفیر ناشتے کے وقت روز اسکا منتظر ہوتا تھا پر وہ نہیں آتی تھی ملازمہ اسے کمرے میں ہی ناشتہ دے آتی تھی۔سفیر نے اسکے لیے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔آفس سے واپس آکر وہ کافی دیر اس سے باتیں بھی کرتا اسکو اکیلا نہیں چھوڑتا تھا۔اس نے انوش اور عائشے کو کہہ رکھا تھا دن میں وہ دونوں آجا کریں تو وہ پورے ہفتے اسی کے ساتھ تھیں۔
ناہید اور زرپاش بھی اس سے ملنے آئی تھیں۔دونوں کو اسے دیکھ بڑا دکھ ہوا تھا۔
دوپہر دو بجے تک غضنفر اور بتول گھر پہنچ گئے۔سفیر آج گھر پہ ہی تھا۔رومائزہ کمرے میں تھی ان دونوں کو وہ اسی کے کمرے میں لے آیا۔رومائزہ انھیں دیکھ کنفیوز ہوگئی سمجھ نہیں آیا کیا ری ایکٹ کرے۔وہ تو پہلی بار ان سے مل رہی تھی۔اسکی صرف سفیر سے دوستی تھی...کافی اچھی۔تایا تائی کے لیے وہ کسی قسم کے جذبات نہیں رکھتی تھی۔
غضنفر شنواری اسکی طرف بڑھے وہ جگہ سے کھڑی ہوگئی دوپٹہ اسکے شاںوں پہ پھیلا تھا۔بتول دروازے کے پاس کھڑی اسے تکنے لگیں سفیر نے ہمیشہ انکو اسے صرف تصویروں میں دکھایا تھا۔
تایا نے اسے گلے سے لگالیا جیسے ہر چیز کا ازالہ کر رہے ہوں۔رومائزہ کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں۔وہ ان کے سینے سے لگ کے رونے لگی۔ایک دم اسے احتشام صاحب کی ٹھنڈک ان سے محسوس ہوئی تھی۔وہ بے حد اپنے بھائی سے شبہات رکھتے تھے۔
"بس میرا بچہ صبر کرو۔"وہ اسکی پیٹھ تھپکنے لگے۔وہ دور نا ہٹی۔
"بہت کردی آپ لوگوں نے۔"
اسکے شکوہ پہ دونوں میاں بیوی کا دل کٹ سا گیا۔اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعد وہ کافی سالوں سے گلٹ میں تھے۔وراثت کا ہی معاملہ تھا جسے لے کر وہ لوگ سڈنی ہمیشہ کے لیے منتقل ہوگئے تھے۔دونوں بھائیوں کا ایک دوسرے سے دل کھٹا ہوچکا تھا کہ کبھی پیچھے مڑ کر ایک دوسرے کو نہیں دیکھا۔غضنفر صاحب کا دماغ خراب کرنے والی انکی زوجہ ہی تھیں بتول۔پر وقت نے ان دونوں میاں بیوی کو بدل کے رکھ دیا تھا۔
سفیر نے ماں کے کندھے پہ ہاتھ رکھا انھوں نے سر اٹھا کے اسے دیکھا پھر رومائزہ کے پاس چل دیں۔رومائزہ تایا سے الگ ہوئی تو بتول کو سامنے کھڑے پایا۔وہ جگہ پہ سمٹ سی گئی۔بتول شدید نادم تھیں۔اور فلحال تو بھتیجی کے غم میں شریک ہو رہی تھیں۔انکے پاس لفظوں کا ذخیرہ ختم سا ہوگیا۔اسکی جھجھک ان دونوں کے سامنے واضح تھی۔غضنفر شنواری پہ الگ شرمندگی طاری تھی۔بتول نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔لڑی کی صورت میں ان دونوں کی آنکھ سے آنسو نکلا۔
"تایا جان بابا چلے گئے۔مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔"وہ انکے خیالوں میں گم بڑبڑائی۔زخم جیسے پھر تازہ ہوگیا۔وہ یہ ایک بات کئی بار دہرا چکی تھی۔
"میرا بچہ آپ بلکل اکیلی نہیں ہیں آپکے وارث زندہ ہیں۔آپ ہماری بیٹی ہی تو ہیں۔پیاری سی بیٹی۔"انھوں نے اسے شانوں سے تھام لیا وہ سڑ سڑ کر رہی تھی۔سفیر مسکراتے ہوئے پاس چلا آیا۔
"بیٹا ہمیں معاف کردینا۔"بتول نے اسکے آگے ہاتھ جوڑ لیا رومائزہ نے فوراً آگے بڑھ کے انکے ہاتھ تھام لیے۔
"تائی جان مجھے شرمندہ مت کریں۔یہ آپ بڑوں کا مسئلہ تھا۔بابا کے جانے سے پہلے جو کہ آپ لوگ حل بھی کرچکے ہیں۔میرے بابا اپنے بھائی سے مل لیے یہ ہی بہت بڑی بات ہے۔کم از کم انکے بھائی تو آخری وقت میں انکے پاس ہی تھے۔"
"میں ہی بد نصیب ہوں جو انکا آخری دیدار تک نا کرسکی۔"غضنفر اور بتول تو اسکے معاملے سے بلکل نا آشنا تھے۔
"بیٹے ایسے نہیں بولتے۔جو رب کو منظور وہی ہوتا ہے۔ہم اپنی بیٹی کے پاس آگئے ہیں اسکا پورا خیال رکھیں گے۔احتشام بھائی کی امانت ہو تم ہمارے پاس۔"بتول نم آنکھوں سے بول رہی تھیں۔پہلے والی تیزی ان میں بلکل ختم ہوگئی تھی۔رومائزہ تو جیسے والدین کی محبت کو ترس رہی تھی ان دونوں نے آتے ہی اسے اپنے ہونے کا احساس دلا دیا تھا۔وہ بتول تائی سے پہلے کافی شکوہ کناں تھی۔اسے وہ بلکل پسند نہیں تھیں پر اب حالات بدل گئے تھے خیال بھی وہی نا رہے۔
"سفیر ایسا لگ رہا ہے تم نے اسکا بلکل خیال نہیں رکھا دیکھو کتنی کمزور ہوگئی ہے۔چلو آؤ باہر چلتے ہیں ساتھ بیٹھ کے کھانا کھائیں گے۔اور ہاں بچے آپکی خالہ کی طبیعت کیسی ہے اب؟"
غضنفر کے پوچھنے پہ رومائزہ کو یاد آیا وہ سوچ میں پڑ گئی۔
"بہتر ہیں بعد میں بات کرینگے اس موضوع پہ۔چلیں کھانا کھا لیتے مجھے تو بہت بھوک لگ رہی ہے۔"سفیر انکا دھیان ہٹاتے باہر لے آیا۔
ان لوگوں نے ساتھ کھانا کھایا۔غضنفر اور بتول اس پہ بے پناہ محبت نچھاور کر رہے تھے۔وہ تھوڑی الجھی ہوئی تھی انکے ساتھ ایڈجسٹ ہونے میں بھی تو وقت لگنا تھا۔جھجھک بھی بہت تھی ڈسٹرب سی ہوگئی تھی۔پر اگر وہ اس کچھ بات کہتے تو وہ بس مسکرا دیتی۔اب وہ پہلے کی طرح بولنے والی رومائزہ رہی کہاں تھی جسکی زبان چلنا شروع ہوتی تو سامنے سے بولنا پڑتا تھا کہ چپ کرجاؤ۔
اسے پرسکون رہنے کے لیے دوائیاں دی جا رہی تھیں،ان کی وجہ سے اسے نیند کا خمار چڑھنے لگا وہ آرام کا کہتی انکے درمیان سے اٹھ کے کمرے میں چلی آئی۔
اسکا دل پھر بھرنے لگا دروازے کے ساتھ ہی وہ بیٹھتی چلی گئی۔زہن میں میران کے ساتھ گزارے کچھ لمحے بار بار امڈ آتے تھے۔
آخری بار جب وہ اسکے ساتھ کھلکلائی تھی،کس قدر وہ خوش تھی۔میران کی مسکراتی آنکھیں،محبت کے وہ سارے دعوے جو سب رائیگاں ہوئے،جھوٹے تھے!شدت سے اسے یاد آتے تھے۔ہاں اسے دو ماہ میں میران سے جذباتی اٹیچمنٹ ہوگئی تھی۔اسکے بارے میں سوچنے لگی تھی۔اسے اسکی میٹھی میٹھی باتوں پہ یقین کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔وہ یہ بات بھی مانتی تھی اس نے اسے تحفظ دیا تھا پر آخر میں جو اس نے اسکے پیروں میں زنجیریں ڈالیں۔یہ غلطی بہت بڑی تھی۔وہ اسے کبھی معاف نہیں کرنے والی تھی۔وہ جیسے اسکا گہنگار بن گیا تھا۔باپ کے موت کی وجہ بھی اسے ہی قرار دیتی تھی کہ اسکے بابا بیٹی کی جدائی کے غم میں ڈھل ڈھل کر ختم ہوگئے۔
                            ★ ★ ★
سفیر نے اسے سیل فون لا کر دے دیا تھا۔نمبرز کی لسٹ محدود تھی۔اسکا جی متلانے لگا تھا اس نے عائشے اور انوش کو بلالیا۔وہ سب لاؤنچ میں بیٹھے انوش کے شگوفوں پہ ہنس رہے تھے۔
"آنٹی آئی کانٹ بیلیوو آپ سفیر کی مدر ہیں۔"
بتول جیسے ہی کمرے سے نکل کر انکے درمیان آئیں انوش چونک کے کھڑی ہوگئی۔
بتول صاحبہ ناہید کی ممانی کی بھابھی کی بہن تھیں۔کافی دور کی رشتہ داری ان سے نکلتی تھی۔ناہید انھیں جانتی تھیں انوش نے انکو پرانے البمز میں دیکھا تھا۔اس نے جیسے ہی اپنا حوالہ دیا تو بتول اسے پہچان کر فوراً گلے ملیں۔
"بلکل ناہید کی جوانی ہو تم۔"
بتول نے مسکراتے ہوئے کہا تو انوش اس اعزاز پہ سینے پر ہاتھ رکھ کے خوب اترائی۔اب چونکہ اسکی رشتہ داری نکل آئی تھی وہ مزید بتول کے ساتھ کمفرٹیبل ہوگئی تھی۔
بہت دیر تک اس نے سب کو اپنی باتوں سے ہنسایا تھا۔لاؤنچ کے دروازے سے اچانک سفیر آیا تو اسکی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ہنس ہنس کے آنکھوں میں آیا پانی اس نے پوروں سے خشک کیا اور سیدھی ہوکے بیٹھ گئی۔
"آج جلدی آگئے تم؟"
غضنفر شنواری نے استفسار کیا۔سفیر نے آستینیں کہنیوں تک چڑھا لیں۔
"ہاں بس فری ہوگیا تھا تو سوچا گھر ہی چلا آؤں۔مجھے نہیں پتا تھا ہمارے ہاں آج مہمان بھی آئے ہوئے ہونگے۔"آخر میں دھیمی سی مسکراہٹ سجا کر کہا۔اسکا اشارہ انوش اور عائشے کی جانب تھا۔غضنفر اور بتول کے آنے کے بعد ان دونوں نے ہی چکر نہیں لگایا تھا صرف کال پہ اسکی خیریت دریافت کررہی تھیں۔پر جب وہ دونوں ان سے ملیں تو مل کر بڑا اچھا لگا اور انوش کی تو رشتہ داری نکل آئی۔رومائزہ صوفے پہ آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔کندھے پہ دوپٹا جھول رہا تھا ڈھیلی ڈھالی سی قمیض شلوار پہنی تھی۔چہرے پہ کچھ بحالی نظر آرہی تھی۔
"مہمانوں سے رشتہ داری بھی ہے!انوش..ناہید اور گلزار بھائی کی بیٹی ہے۔"بتول خوشی سے اسے بتانے لگیں۔سفیر نے آئبرو اچکائی۔لاعلمی کا اظہار کیا۔
"ارے اسما آپا کی نند فرہ کی بھتیجی ناہید۔"سفیر کے چہرے کے زاویے عجیب سے ہوئے۔
"اوہ اچھا اچھا۔ہاں نام سنا ہے میں نے۔"ان رشتوں کی ریل گاڑی سے جان بچاتے اس نے مصنوعی سمجھنے کے انداز میں کہا۔عائشے کا سر گھوم گیا تھا۔اتنا لمبا رشتہ۔فلانے کی بھابھی تو فلانے کی نند۔
"مجھے اندازہ نہیں تھا انوش تم ہماری جان پہچان والی نکلو گی۔"آخر کار رومائزہ نے بھی گفتگو میں حصہ ڈالتے سنجیدگی سے کہا۔
"ناز بھابھی ناہید کو جانتی تھیں ایک بار میں نے ملوایا تھا انھیں۔"بتول کے بے ساختہ جملے پہ رومائزہ کے چہرے پہ اداسی چھا گئی۔جسے سب نے نوٹ کیا تھا،بتول نے لب پیوست کرلیے۔سفیر نے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے تسلی دی۔
    "چلیں اچھا ہوا سب جمع ہیں مجھے آپ سب ہی سے ضروری بات کرنی ہے۔"وہ دھیمی آواز میں بولی۔
"کس بارے میں بیٹا؟"بتول نے پوچھا۔رومائزہ ہتھیلی مسلنے لگی۔انوش اور عائشے کا رخ بھی اسکی جانب ہوگیا۔
"اپنے بارے میں۔گھر بیٹھے بیٹھے بہت دن ہوگئے ہیں۔کب تک یوں ہی بیٹھی رہونگی۔میں جاب کرنا چاہتی ہوں۔کسی پہ بوجھ نہیں بننا مجھے۔"اسکے لہجے کی تلخی کے آگے سب خاموش ہوگئے۔غضنفر اسکے پاس آکے بیٹھے۔
"بیٹا آپ ہم پہ بوجھ نہیں ہیں۔"
"پر تایا ابو میں اپنے پیروں پہ خود کھڑے ہونا چاہتی ہوں۔فارغ رہونگی تو سوچیں سوار رہیں گی۔"وہ پوری طرح انھیں راضی کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
"رومائزہ فلحال تو یونی جوائن کرلو،جاب تعلیم کے بعد کرلینا۔"سفیر نے اسے مشورہ دیا۔
"نہیں سفیر بھائی۔میں اسٹڈیز اور جاب دونوں کرنا چاہتی ہوں۔یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔"
"بیٹا اگر آپ کو کوئی پریشانی ہے تو ہم سے بول سکتی ہو۔"بتول اسکے یوں فیصلے پہ پریشان ہوگئی تھیں۔
"آپ لوگ بلاوجہ اتنا سوچ رہے ہیں۔بس میں اپنا خرچہ خود اٹھانا چاہتی ہوں۔یہی زندگی ہے اور مجھے ایسے ہی جینا ہے۔غم کھانے کے بعد ہی زندگی کی لذت کا پتا چلتا ہے۔پہلے تو بس مجھے ڈگری چاہیے تھی۔کہہ دیتی تھی بابا کا بزنس سنبھالونگی اور بابا ہنس کے بات ٹال دیا کرتے تھے تو کبھی حوصلہ بلند کردیتے تھے۔پر آج انکی کمی محسوس ہورہی ہے۔باپ کا سایہ جب سر سے اٹھ جائے تو اولاد کو زندہ رہنے کے لیے خود ہاتھ پیر چلانے پڑتے۔مجھے آپ لوگوں سے کوئی شکوہ نہیں آپ لوگ میرا بہت خیال رکھ رہے ہیں پر مجھے گھر میں بیٹھنا بلکل اچھا نہیں لگ رہا۔میں چاہتی ہوں آپ لوگ مجھے سپورٹ کریں۔"
خیالوں میں کھوئی کھوئی وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔اسکی باتیں سنتے ہوئے عائشے کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی۔وہ خود دار لڑکی کسی کے رحم و کرم پہ زیادہ دن نہیں پڑسکتی تھی۔اسے رومائزہ کا فیصلہ بلکل ٹھیک لگا تھا اس میں اسی کی بہتری تھی۔باہر نکلتی تو ذہن بھی بٹتا اور اس مشکل وقت سے بھی باہر نکل آتی۔
سفیر اور غضنفر اسے تک رہے تھے۔سفیر کو اس پہ ترس آیا۔وہ پہلے جب بھی اس سے بات کرتا تھا تو رومائزہ کی شوخ طبیعت اکثر اسکا بگڑا موڈ بھی درست کردیا کرتی تھی۔وہ اسے اِم میچیور لڑکی سمجھتا تھا پر وہ ہر گز نہیں تھی۔اور اب اسکی سمجھداری سے بھرپور باتیں سن کے انداز ہوگیا وہ لڑکی کسی کی نہیں سنے گی۔
"اچھا ٹھیک ہے جیسا تم چاہوگی ویسا ہی ہوگا۔بس خوش۔"سفیر مسکرا کے بولا تو دھیمی سی مسکراہٹ رومائزہ کی آنکھوں میں بھی ابھر گئی۔
کافی دن بعد جاکے ماحول خوشگوار ہوا تھا۔انوش نے کہا تھا آج وہ اپنے ہاتھ کی کافی سب کو پلائے گی۔غضنفر شنواری نے کھلے دل سے اسکی آفر قبول کی وہ اٹھ کے کچن کی طرف بڑھ گئی۔ملازمہ سے اس نے اشیاء کے بارے میں پوچھا۔وہ ضرورت کی چیزیں کاؤنٹر پہ رکھ کے نکل گئی۔
انوش کافی پھینٹ رہی تھی سفیر اسکے پیچھے داخل ہوا۔وہ فوراً اسکی طرف پلٹی اور آنکھیں پھرتی سے گھمائیں جیسے اسکی آمد کی وجہ پوچھی ہو۔
"میں یہ کہنے آیا تھا میری کافی میں چینی مت ڈالنا۔"وہ نرمی سے بولا۔انوش کے تاثرات بدلے۔
"پر میں نے اس میں چینی ڈال دی ہے۔آپ کڑوی کافی کیسے پی لیتے ہیں؟آپ کڑوے لوگوں میں سے تو نہیں۔"انوش کے حیران تاثر دیکھ کر وہ ہنس دیا۔انوش جھینپ گئی۔سفیر نے کاؤنٹر پہ ہتھیلی جما لی۔انوش اسکے قریب ہی کھڑی تھی پر اسکا کافی کو پھینٹتا ہوا ہاتھ اب تھم چکا تھا۔
"مجھے بغیر چینی کے ہی پسند ہے۔پر خیر اب تم نے چینی کے ساتھ بنا لی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں میں یہی پی لونگا۔"
اس نے کپ انوش کے ہاتھ سے لے کر کافی پھیٹنا شروع کردی۔انوش نے سانس روک کے اسے دیکھا۔پھر سانس چھوڑ دی۔کیبنیٹ سے ایک اور کپ نکالا اس میں تھوڑی سی کافی ڈال کے پانی کی چند بوندیں ڈال کر پھیٹنا شروع کردیا۔
"کوئی مسئلہ نہیں میں بغیر چینی کے بھی بنادونگی۔"وہ مسکرا کر کہتی کافی تیزی سے پھیٹنے لگی۔سفیر کپ رکھ کر کچن سے باہر چلا گیا۔
     انوش کافی بنا کے لے آئی تھی اس نے ایک علیحدہ کپ فوراً سفیر کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھایا جسے سفیر نے مسکرا کے تھام لیا تھا۔
کافی سب کو پلانے کے بعد انوش اپنی مزیدار کافی کی تعریفیں سن کر ٹمٹمارہی تھی۔
                          ★ ★ ★
رات کے وقت سفیر دروازہ ناک کرتا رومائزہ کی اجازت ملتے ہی اسکے کمرے میں داخل ہوا۔رومائزہ اسے دیکھ چونک گئی۔
     "خیریت ہے سب؟"وہ اپنا کمفرٹر کھول کے بیڈ پہ ڈال رہی تھی۔تب ہی وہ اندر آتا دکھائی دیا۔بلو ٹراوزر پہ سفید ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی بال ماتھے پہ گرے تھے۔وہ قدم اسکی طرف بڑھاتا آرہا تھا۔
"اب تم ٹھیک ہو تو سب خیریت ہی ہے۔تم نے جاب کی بات کردی بس اسی سلسلے میں بات کرنے کے لیے آیا ہوں۔"
"ہاں کہیں کہیں۔سفیر بھائی ایک سوال سوچ رہی ہوں ڈگری تو مکمل نہیں پھر جاب ملے گی کیسے؟"
"میں تمھیں ایک آفر دینے آیا ہوں۔میری کمپنی جوائن کرلو۔بلکہ میں چاہتا ہی ہوں تم اور کہیں نا جاؤ میرے ساتھ ہی کام کرو۔"وہ حق جتانے والے انداز میں کہہ رہا تھا رومائزہ بستر پہ بیٹھ گئی۔
"میں نے کہا نا اپنے پیروں پہ کھڑی ہونا چاہتی ہوں اس طرح تو وہی بات ہوجائے گی کہ..."اسے آگے کیا بولنا ہے سمجھ نہیں آیا تو بات ادھوری چھوڑ دی۔پر وہ اسکی بات کا اخذ سمجھ گیا تھا۔صوفے پہ بیٹھ گیا۔
"میں تمھیں کوئی اسپیشل ٹریٹمنٹ نہیں دونگا جیسے باقی ایمپلائز سے بی ہووئیر ہوتا ہے تم سے بھی وہی رکھونگا۔تمھیں سیلری بھی ملے گی اور بھر بھر کے کام بھی۔"سفیر کے سیلری بتانے پہ رومائزہ نے نفی میں سر ہلایا۔سفیر کی مسکراہٹ رک سی گئی۔
"کیا یہ کم ہیں؟"
"سفیر بھائی یہ بہت زیادہ ہے۔ایک ان ایکسپیرینس کو اتنی سیلری تھوڑی ملتی ہے۔یہ غلط بات ہے آپ مجھے کزن سمجھ کے چھوٹ دینگے۔مجھے اس طرح کام نہیں کرنا۔"
"جب تم تجربہ کار ہوجاؤگی تب اتنی سیلری ملے گی۔مجھے تمھاری قابلیت پہ یقین ہے جب ہی اپنی کمپنی میں کام کرنے کی پیش کش کر رہا ہوں۔پہلے تو تمھیں سیکھنے میں وقت لگے گا،پر میں تمھیں سب سیکھا دونگا۔"وہ اسے اطمینان میں لیتا بولا۔رومائزہ سوچ میں پڑ گئی۔
"رومائزہ صاف بات ہے میں تمھیں نظروں سے دور نہیں رکھ سکتا۔میرے آفس میں کام کروگی تو سب مطمئن رہیں گے اور کسی کو مسئلہ بھی نہیں ہوگا۔"وہ اٹل انداز میں صاف گوئی سے بولا۔
"ہم نے تمھاری بات مان لی تم اب میری پیش کش قبول کرلو۔باہر کہیں اور کام کرنے کی تو تمھیں اجازت ہم نہیں دینگے۔"
رومائزہ نے برا سا منہ بنایا۔روک ٹوک کرنے والے بڑھ گئے تھے۔اب تو دوستیں بھی اماں بن کر حکم چلانے لگی تھیں وہ اس سب بے زار آگئی تھی۔
"چلیں ٹھیک ہے۔تو بتائیں کب سے جوائن کروں؟"وہ مسکرا کر پوچھنے لگی۔سفیر نے مسکراتے پایا تو سکون کی سانس لی۔
"پہلے یونیورسٹی جاؤ اسکے ایک دو دن بعد سے ساتھ چلنا۔اور ایسے ہی ہنستی مسکراتی رہا کرو۔یہ چہرہ اداس بلکل اچھا نہیں لگتا۔"وہ اٹھ کھڑا ہوا رومائزہ انگلیاں چٹخانے لگی۔
"اب دل نہیں کرتا ہنسنے کو۔بے رنگ سی زندگی ہے بس۔جب تک سانسیں ہیں گزار لونگی۔"وہ ساکن سی بولی۔سفیر اسکی طرف چل کے آیا۔
"بے رنگ زندگی میں رنگ تم خود بکھیر سکتی ہو،بکھیر لو۔سب تمھارے اختیار میں ہے اب۔یا تو آگے بڑھو گی یا پھر یہیں کھڑی رہ جاؤگی۔"
رومائزہ سوچنے لگی پھر اثبات میں سر ہلایا۔
"گڈ گرل۔میڈیسن یاد سے لے کر سوجانا۔"
"سفیر بھائی میں بچی نہیں ہوں آپ لوگ بچہ سمجھ کے مجھے ٹریٹ کر رہے ہیں۔"وہ اکتا کر بولی۔سفیر نے پاکٹ سے موبائل نکال لیا۔
"مام ڈیڈ کے لیے بچی ہی ہو۔انکی محبت کو سمجھو وہ تم سے پیار کرتے ہیں۔ماضی میں جو بھی معاملات رہے وہ دونوں اس پہ شرمندہ ہیں اسی وجہ سے اب انکی محبت دوگنی ہوگئی ہے۔"
وہ اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔رومائزہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
"میرے لیے سب کچھ بہت مشکل ہوگیا ہے۔پہلے ممی چلی گئیں اب بابا۔آپ لوگوں سے کوئی شکوہ شکایت نہیں۔میں آپکی مشکور ہوں آپ اگر اس رات مجھے نا بچاتے تو ممی بابا کے پاس ہی پہنچ جاتی۔بابا کے بعد آپ سب نے ہی تو مجھے سنبھالا ہے۔ان دو ہفتوں میں کسی پل جو آپ لوگوں نے میرا ساتھ چھوڑا ہو۔شکریہ سفیر بھائی سب چیزوں کے لیے۔"
آنسو اندر اتارتی وہ ایک نگاہ کمرے کو دیکھتی بولی۔
"تم ہم سب کی جان ہو ایسی باتیں کرکے نا ستایا کرو۔تمھاری دوستیں بھی پریشان ہوجاتی ہیں۔ہم سب چاہتے ہیں پہلے والی رومائزہ شنواری کو دیکھیں جو پر اعتمادی سے قدم اٹھاتی تھی،سر اٹھا کے چلتی تھی۔"
"کیسے سر اٹھا کے چلوں آپ نے ان لوگوں کے الزامات تھوڑی سنے ہیں جو میں سن کے نکلی تھی۔"وہ دردناک شام یاد آتے ہی اسکا سانس گھٹنے لگا۔
"جس دن انکو حقیقت معلوم ہوگی تو وہ پچھتائیں گے۔"
آنکھیں جھپکا کر کہتا وہ کھڑا ہوگیا۔رومائزہ کا سر نیچے ہی جھکا رہا۔
"وقت لگے گا پر ٹھیک ہوجاؤنگی۔یہ تو حقیقت ہے دنیا کسی کے جانے سے رکتی نہیں ابھی غم تازہ ہے جیسے جیسے بھرتا جائیگے تکلیف کم ہوتی جائیگی۔مجھے اب ویسے بھی اپنے لیے کچھ کرنا ہے۔"
"تم کچھ بھی کرلو رہو گی تم یہیں...اکیلا ہم تمھیں چھوڑنے نہیں والے۔"وہ اسکی دماغی سوچ کو سمجھتے بولا۔رومائزہ نے گھور کے اسے دیکھا تو وہ گڈ نائٹ کہتا کمرے سے نکل گیا۔
رومائزہ بھی دوائیاں لے کر سو گئی تھی۔
                          ★ ★ ★
میران نے پہلے سے زیادہ مزید اپنی مصروفیات بڑھا لی تھیں۔زولفقار جاہ نے اپنے بیٹے کو اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔انھوں نے اسے کہا تھا غصہ پہ قابو کرنا اسے اپنے باپ سے سیکھ لینا چاہیے۔غصے کو بھی موقع کی مناسبت سے باہر نکالتے ہیں۔ایسا کوئی کام کرنا ہی نہیں چاہیے جس پر بعد میں پچھتاوا ہو،جو بعد میں بڑا سانپ بن کر آپ کو ہی ڈس لے۔وہ پچھتاوے کی آگ میں جھلس رہا تھا۔نا اسکے ساتھ اب عزیز تھا جسکے ساتھ وہ دل کی ہر بات شئیر کرلیا کرتا تھا،شمس ہی اسکے ساتھ پرچھائی بن کے پھر رہا تھا۔دو دن پہلے وہ اسلام آباد بھی شمس کو لے کر ہی گیا تھا۔اس نے سوچا تھا باپ کے ساتھ کی گئی ڈیل ختم کردے اب تو سب ختم ہوگیا تھا پر زولفقار جاہ ایسا نہیں چاہتے تھے۔اسے یلدیز کو ملک سے باہر جانے کے لیے قائل کرنا تھا وہ نہیں جانتا تھا کس وقت کس تاریخ کو اسے بھیجا جائے گا۔وہ صرف اپنا فریضہ ادا کرنے اس سے ریسٹورنٹ میں ملنے آیا تھا۔
       "پولیس زولفقار جاہ پہ کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اگر انھیں بھنک بھی پڑ گئی کہ میں پیسے لے کر باہر جارہی ہوں تو میرا کرئیر تباہ ہوجائیگا۔"اسٹرا منہ میں دبائے یلدیز نے کہا۔میران نے لب پیوست کرکے کالر ڈھیلا کیا۔سانس فضا کے سپرد کی۔گہری نگاہ اس پہ ڈالی۔
"اور اگر انکو یہ پتا لگ گیا کہ کئی بار تم ایسا کرچکی ہو تب بھی کرئیر تباہ ہی ہونا ہے۔"وہ سوفٹ ڈرنک کا گلاس لبوں سے لگا گیا۔یلدیز اسٹرا کے ذریعے ڈرنک پی رہی تھی چہرے کے رنگ بدل گئے۔بڑے ہی اطمینان سے وہ اپنی بات کہتا کھلی دھمکی دے کر مقابل کا سکون غارت کرگیا تھا۔
"تو آپ مجھے دھمکا رہے ہیں۔"وہ استہزاء سے ہنسی۔میران کا چہرہ سنجیدہ تھا۔
"اگر یہ کام کردیا تو تمھیں ڈبل قیمت ادا کی جائے گی۔اب سوچ لو کیا کرنا ہے۔پولیس کو بتانے والا کون ہوگا؟تاریخ وقت وغیرہ زولفقار جاہ تم کو بتائیں گے۔چند قریبی لوگوں کے علاوہ یہ بات سب سے پردے میں ہے۔"
اس نے کانچ کی ٹیبل پہ گلاس رکھتے ہوئے کہا۔کھلی جگہ پہ ریسٹورنٹ قائم تھا۔ہلکی ہلکی ہوا ان دونوں کے چہرے پہ پڑ رہی تھی۔میران کے گارڈز کے کچھ فاصلے پہ کھڑے تھے۔زیادہ رقم کی لالچ میں یلدیز نے راضی ہوتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا۔
"آپ ہنستے نہیں ہیں؟"
اسے لگا تھا اسکی رضامندی کے بعد وہ شاید تھوڑا بہت بھی مسکرادے پر اسکی سنجیدگی ہنوز قائم تھی۔وہ بھی صرف ڈیل کے تحت یہ سب کر رہا تھا ورنہ اسکو سو کام تھے اس یلدیز کو منانے کے علاوہ...
"ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔اب تم زولفقار جاہ سے مل لینا۔"عاجزی سے کہتا ان دونوں کے سوفٹ ڈرنک کی پیمنٹ ٹیبل پہ رکھ کے اٹھ کھڑا ہوا۔یلدیز اسکی شکل ہی دیکھتی رہ گئی۔عجیب گھمنڈی شخص تھا اپنی بات منوانے کے بعد سامنے والے کی ایک نہیں سنتا تھا۔یہ پیسوں کی آفر زولفقار جاہ نے بھی کی تھی پر وہ مانی نہیں پھر انھوں نے اپنے بیٹے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔وہ جانتے تھے یلدیز میران پہ فریفتہ ہے ایک وہی ہے جو رومائزہ کے علاوہ اور کسی پہ نگاہ ڈالنا بھی گناہ سمجھتا ہے۔یلدیز میران کی پشت گھورتے ہوئے وہ ڈرنک پینے لگی۔
    میران نے بنگلے پہنچ کے باپ کو یہ خوشخبری سنا دی تھی۔وہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر اسکی پیٹھ تھپکنے لگے۔انکی خوشی دوبالا ہوگئی تھی۔میران کمرے سے نکلنے لگا تو زولفقار نے اسے اپنے ساتھ صوفے پہ لاکر بیٹھایا۔
"آج کل کیا کر رہے ہو؟مجھے تمھاری فکر ہے۔"
اسکی آنکھوں کی سرخی ان سے چھپی نہیں تھی۔بہت کم وقت وہ بنگلے میں گزارتا تھا سارا دن باہر ہی ہوتا تھا۔سیگریٹ نوشی مزید بڑھا دی تھی۔
"میران اس سب سے جان چھڑا لو۔الیکشن قریب ہے اس پہ توجہ دو،اس بار میں نہیں تم کھڑے ہوگے۔جیتنا اتنا آسان نہیں ہے اپوزیشن بھی پوری تیاری کیے ہوئے ہے۔"
"اگر تم الیکشن سے پہلے شادی کرنا چاہتے ہو تو دنیا میں کئی اچھی لڑکیاں ہیں تمھیں مل جائیں گی۔علوی کی بیٹی عزہ اب بھی تمھاری منتظر ہے۔"میران نے مٹھی کس لی۔
"بابا میں سیاسی کاموں میں ہی مصروف ہوں،عزہ کا خیال تو ذہن سے نکال دیں۔میں صرف ایک ہی لڑکی کا خواہشمند ہوں اور اسے ہی زندگی میں شامل کرونگا۔اسے وقت دے رہا ہوں کہ سمجھ جائے پھر میں اس سے بات کرونگا۔"وہ اٹل انداز میں گویا ہوا۔زولفقار جاہ تو اسے آگے بڑھنے کا کہہ کہہ کر تھک گئے تھے۔
"آپ نے لندن میں فلیٹ خریدا تھا وہ بیچ دیا کیا؟"
زولفقار جاہ کو اسکے اچانک پوچھنے پہ اچھنبا ہوا تھا۔زولفقار جاہ کی تمام پراپرٹی کالے پیسوں کی تھی۔
"نہیں مجھے اسکی فائل لندن ہی پہچانی ہے سوچ رہا ہوں یلدیز کے ساتھ ہی بھجوادوں۔"وہ پرسوچ انداز میں بولے میران کچھ نہیں بولا۔اس نے عادتاً ناک رگڑتے انھیں دیکھا۔
"کیا ہوا؟"
"دیکھ رہا ہوں اب آپ واپس باتیں مجھ سے شئیر کرنے لگے۔درمیان میں تو آپ نے سب بتانا ہی چھوڑ دیا تھا۔"اسکے طنز کو وہ اچھی طرح سمجھے تھے۔
درمیان میں انھیں شک تھا کہیں وہ اے ایس پی کے ساتھ نا ملا ہو۔پھر جب وہ ڈیل کے تحت انکے کہنے پہ اسمگلر سے ملنے گیا تھا اور پھر اس نے رومائزہ شنواری کو روک لیا تب جاکے وہ اسکی جانب سے مطمئن ہوگئے تھے۔
"میران میں تمھارا باپ ہوں۔مجھ سے بہتر تمھیں اور کوئی نہیں جانتا۔تمھارے اندر جو ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے یہی تمھیں ایک بڑی طاقت بنا دے گی۔"
وہ اسکے دل کے مقام پہ انگلی ٹھوک کر بولے۔میران نے انکی آنکھوں میں دیکھا وہ ایک جذب سے کہہ رہے تھے۔وہ بس سر ہی ہلاسکا۔اسکا موبائل بج پڑا تو اٹھ کے معذرت کرتا کمرے سے نکل گیا۔
                        ★ ★ ★
"مراد آج رومائزہ بھی یونی آئی تھی۔ماشاءاللہ سے وہ کافی ریکور کر چکی ہے۔اب ضد بھی پکڑ لی ہے جاب بھی کرے گی۔پر میں اسکے لیے خوش ہوں انسان کو اپنے پیروں پہ استقامت حاصل ہونی چاہیے۔"مراد شوز اتار رہا تھا اور عائشے اسے آتے دیکھ بولنا شروع ہوگئی تھی۔مراد نے ہاتھ پکڑ کے اسے برابر میں بٹھایا.
"تمھاری دوستی کو کتنا عرصہ ہوگیا ہے؟"
"دو سال سے زیادہ ہوگئے۔وہ میری بہنوں جیسی ہے۔آپ نہیں جانتے ان دونوں نے میرا قدم قدم پہ ساتھ دیا ہے عائشے بلوچ کو بدلنے والی بھی وہی دونوں ہیں۔ان دونوں کی دوستی تو اسکول کے زمانے سے تھی پر میں انکو یونیورسٹی میں ملی۔"
وہ اسکے کندھے پہ سر رکھ چکی تھی۔مراد کا گھڑی اتارتا ہاتھ رک گیا۔
"آج اس سے ملنے چلیں؟"اس نے عائشے کے سر کو دیکھا۔وہ اچھل کے اسکے سامنے کھڑی ہوگئی۔
"ضرور۔میں یہی سوچوں آپ اتنی جلدی کیسے آگئے۔"اس نے خفت سے کہا۔گھڑی میں بجتے چھ دیکھے۔
"تم تیار ہوجاؤ۔مام کو بھی کہہ دو وہ بھی چلنے کا کہہ رہی تھیں۔"
عائشے سر ہلا کے کمرے سے نکل گئی۔مراد نے سائڈ ٹیبل سے فائل اٹھا کے دیکھی۔فائل نہیں یہ خزانہ تھا۔زولفقار جاہ کے گلے کا پھندا۔مراد کے ہاتھ انکی پراپرٹی کے تمام ثبوت لگ گئے تھے۔اب بس آخری بازی کا یہ کھیل تھا اور زولفقار جاہ کا تختہ الٹنا تھا۔
اسکے موبائل کی رنگ ٹون بجی۔میسج آیا تھا۔مراد نے موبائل کھول کے پڑھا تو مسکراہٹ گہری ہوگئی۔اسے اندازہ نہیں تھا طفیل اپنی میران اور زولفقار جاہ سے دشمنی میں آکے اسکا کام اس حد تک آسان کرجائیگا۔چہرے پہ اگلی کارروائی کی کامیابی کا سوچ کر مسکراہٹ سج گئی۔وہ اٹھ کے فریش ہونے کی غرض سے واش روم میں گھس گیا۔
                           ★ ★ ★
رومائزہ نے بیڈ پہ ساری کتابیں بکھیری ہوئی تھیں انوش اسکی مدد کے لیے آگئی تھی۔یہ سمیسٹر ماہ بعد ختم ہو جانا تھا اسکے ایگزامز ہونے تھے اور تیاری اسکی کچھ نہیں تھی۔وہ یہی سوچ رہی تھی کہ دوبارہ ایڈمیشن لے یا پھر پڑھائی میں سر دے لے۔پر اس نے جاب بھی تو کرنی تھی۔وہ کسی بھی چیز سے پیچھے ہٹنے کو راضی نا تھی۔اتنے دن بعد یونی میں جاکے اسے کافی خوشی ہوئی تھی سب نے اسکا بہت اچھے سے ویلکم کیا تھا۔اتنے دن کہاں تھی یہ بات بھی انوش اور عائشے نے اچھے سے سنبھال لی تھی کہ کشمیر میں خالہ کے پاس تھی۔درمیان میں اسکے والد کا انتقال ہوگیا اس وجہ سے بھی یونی نا آسکی۔
دروازہ پہ دستک ہوئی۔"آجائیں.."رومائزہ نے سر اٹھایا یا تو ملازمہ اندر آئی۔
"بی بی جی آپکی دوست آئیں ہیں ساتھ انکے شوہر اور ایک خاتون بھی ہیں۔"رومائزہ جو منہ کے بل لیٹی تھی اٹھ بیٹھی۔خاتوں کون تھیں؟
"ارے زرپاش آنٹی ہونگی وہ۔عائشے کی ساس اس دن بھی تو آئیں تھیں۔"انوش نے نے اپنا اندیشہ بتایا تو ملازمہ نے بے دھیانی پہ سر پیٹا۔
"اچھا میں آرہی ہوں۔"اسکے کہنے پہ ملازمہ کمرے سے نکل گئی۔رومائزہ اپنا حلیہ ٹھیک کرتی پیروں میں چپل اڑس کے انوش کے ہمراہ باہر نکل گئی۔
وہ لاؤنچ میں آئی تو بتول انکے پاس بیٹھیں گفتگو فرما رہی تھیں۔رومائزہ سلام کرکے بیٹھ گئی۔مراد آج پہلی بار یہاں آیا تھا۔اور رومائزہ کو آج وہ پہلی بار روبرو دیکھنے جا رہا تھا۔پہلے اسے صرف بے ہوشی میں دیکھا تھا چہرے پہ نیبولایئزر لگا تھا چہرہ پوری طرح دیکھ نہیں سکا تھا۔پھر اگلے دن بھی جب وہ آیا تو رومائزہ سے مل نہیں سکا تھا۔
وہ صوفوں کے پیچھے سے چلتی ہوئی آئی اور انکے درمیان ہی بیٹھ گئی۔مراد جگہ پہ ساکن رہ گیا تھا اسکی نگاہیں رومائزہ پہ جم گئیں
اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔آنکھوں کے سامنے وہ ادھوری پینٹنگ ایک بار پھر گھومی۔ہو بہو وہی آنکھیں وہی لب وہی چہرہ۔وہ اسکیچ مکمل تھا بس رنگ مکمل پر نہیں تھے۔اسے سانس لینے میں دشواری ہوئی۔پیٹنگ تو وہ اس دن بھی پہچان گیا تھا پر پھر بھی میران کو بار بار موقع دیتا تھا کہ شاید اسکا عمل دخل نا ہو پر ہر بار ہر چیز کے پیچھے میران نکل کے آرہا تھا۔رومائزہ کی حالت تو اس نے خود دیکھی تھی۔اب تو اسکے سارے سوالوں جواب وہ لڑکی ہی اسے دیتی۔
اسکے چہرے کے تاثرات پتھریلے ہوگئے۔زرپاش رومائزہ سے اسکی خیریت دریافت کر رہی تھیں۔پھر مراد کا تعارف بتول صاحبہ کو کروانے لگیں۔
"یہ میرے صاحبزادے ہیں مراد دمیر۔اے ایس پی کے عہدے پر فائز ہیں۔"زرپاش نے جب اسکے سر پہ ہاتھ رکھا تو وہ خیالوں سے باہر نکلا۔
"ماشاءاللہ۔"
بتول نے مسکرا کے کہا۔عائشے مراد کا رومائزہ کو یوں دیکھنے پہ ٹھٹک گئی تھی۔اسکے میاں کے دماغ میں آخر کیا چل رہا تھا۔مراد نے گلا کھنکارا اور جگہ سے اٹھ کے رومائزہ کے قریب والے صوفے پہ جاکے بیٹھ گیا۔وہ سب چونکے تھے۔انوش نے ٹانگیں صوفیں سے لٹکا لیں۔
"میں پہلے بھی آیا تھا پر تب تم بات کرنے کے قابل نہیں تھیں۔اب کافی بہتر لگ رہی ہو۔میں پولیس والا ہوں سوال جواب کرنا ہر چیز کھنگالنا میرا کام ہے۔میں جاننا چاہتا ہوں تمھارے ساتھ کیا ہوا تھا۔مجھے یہ مت کہنا تم کشمیر میں تھیں مجھے سو فیصد یقین ہے تمھارا کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں۔"
وہ پیشہ ورانہ انداز میں مخاطب ہوا۔رومائزہ نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔اس نے اٹکی سانس سے عائشے کو دیکھا اسکے بھی چہرے کے رنگ اڑے تھے۔بتول تائی نے سانس بھری اور رومائزہ کے شانے پہ ہاتھ رکھ دیا۔
"دیکھو تم مجھ سے کچھ چھپاؤ مت۔میں ہر چیز سے واقف ہوں صرف تمھارے منہ سے سننا چاہتا ہوں۔"اسکے دو ٹوک انداز پہ رومائزہ نے ہتھیلی رگڑی۔وہ صوفے کے گرد ہاتھ جما کے آگے پیچھے ہلنے لگی۔
"مراد بھائی کو بھی سکون نہیں۔اتنی مشکل سے وہ سب بھولتی ہے پھر کوئی ایسی بات کردیتا ہے کہ اسکا غم تازہ ہوجاتا۔"انوش عائشے کے ساتھ لگ کے بیٹھ گئی اور کان میں گھس کر بولی۔عائشے نے سر جھٹکا۔
"جب آپ سب جانتے ہیں تو پوچھ کیوں رہے ہیں۔"روما نے چہرہ اٹھا کے اسکی جانب کیا۔مراد نے نگاہیں اسکے چہرے پہ مرکوز کر لیں۔
"تمھارے منہ سے سننا چاہتا ہوں لڑکی۔"وہ سختی سے بولا۔عائشے نے اسے گھورا۔
"مراد وہ میری دوست ہے کوئی ملزم نہیں جو آپ اسے کٹہرے میں کھڑا کرکے تفتیش کر رہے ہیں۔"
"عائشے تم خاموش رہو۔رومائزہ تم کہو۔"
عائشے نے منہ بنا کے پھیر لیا۔رومائزہ کے چہرے پہ کرب چھلکنے لگا۔آنکھ سے آنسو تیزی سے رواں ہوئے۔مراد کو اس پہ جیسے بلکل رحم نہیں آرہا تھا۔یا پھر رحم ہی تھا جو وہ اسکی مدد کرنا چاہتا تھا۔
"میرے بابا نے زولفقار جاہ سے قرض لیا تھا۔وقت پہ پیسے ادا نہیں کرسکے تو انھوں نے دھمکیاں دینی شروع کردیں۔بابا نے بھی غصے میں آکر پیسے دینے سے انکار کردیا تھا پر وہ پیسے ادا کرنا چاہتے تھے۔فیکٹری نقصان کا سامنا کر رہی تھی۔پھر ایک دن مجھے اغوا کروالیا گیا تھا۔میں ساری چیزوں سے بلکل ناواقف تھی۔پتا ہے مجھے اغوا کس نے کروایا...میران جاہ نے۔"وہ سرد مہری سے بولی۔جہاں مراد کا سر جھکا تھا دوسری طرف زرپاش کے چہرے کا رنگ کا رنگ بھی لٹھے کی مانند سفید پڑگیا۔چہرے پہ ایک رنگ آتا اور دوسرا جاتا۔لاؤنچ میں خاموشی سی پھیل گئی۔دل بھاری ہونے لگے۔
"اس نے کہا تھا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے مجھے اپنے بابا سے بچا رہا ہے اس لیے فارم ہاؤس میں روکے رکھا ہے۔جب تک میرے بابا پیسے نہیں دینگے مجھے میرے گھر نہیں بھیجے گا۔اس ڈیڑھ ماہ اس نے میرا ہر طرح خیال رکھا۔وہ کبھی کبھی وہاں چکر لگا لیا کرتا تھا۔پھر ایک دن مجھ سے ایک غلطی ہوگئی جسکی اس نے بہت بڑی سزا دی۔میں اسے قاتل سمجھی تھی پر اس نے کسی معصوم لڑکی کی مدد کی تھی۔وہ اس رات وہاں سے چلا گیا۔مجھے ڈر تھا کہ کہیں کچھ برا نا ہو،پر اسکی محبت پہ یقین تھا کہ وہ میرے ساتھ کچھ برا نہیں کرے گا۔بابا نے سارا قرض اتار دیا اس نے سود کی رقم معاف کروادی پر..."
اسکی ہمت جواب دے گئی۔زخم پھر تازہ ہوگیا وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔بتول نے اسے خود سے لگا کے خاموش کروانا چاہا۔مراد نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔
"اس نے میرے بابا کو بھی مجبور کیا ہوگا جب ہی وہ مجھے اسکے آسرے پہ چھوڑ کے چلے گئے۔زولفقار جاہ نے کہا تھا میران نے بابا کو اپارٹمنٹ سیل کرنے سے روک لیا ہے پر بابا اپارٹمنٹ اسی کو سیل کر چکے تھے...پتا نہیں اپارٹمنٹ کی کیا کہانی ہے۔پر اس سب میں میرے بابا دور چلے گئے میں انکا چہرہ تک نہیں دیکھ سکی۔"
وہ بتول کے سینے سے لگی پھڑپھڑاتے لبوں سے بول رہی تھی۔اسکی اس گوہر افشانی پہ زرپاش کا خون رگوں میں جم گیا۔مراد نے انھیں دیکھا وہ خالی نگاہوں سے مراد کو دیکھنے لگی۔مراد اٹھ کے اسکے قدموں میں بیٹھ گیا۔رومائزہ سیدھی ہوئی۔
"تمھیں تسلی دینے کے لیے میرے پاس لفظ نہیں ہیں نا ہی تمھیں تمھارے باپ لوٹا سکتا ہوں۔پر تمھارے گنہگار کا یہ چہرہ دنیا کے سامنے لانے میں تمھاری مدد ضرور کرسکتا ہوں۔"مراد نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھ دیا۔
اس نے ڈبڈباتی آنکھیں اٹھائیں۔
"مجھے کوئی کمپلین نہیں کرنی۔"آنسو صاف کر کے خود کو سنبھال کے کہا۔
"یہ سب چھپانے کا کیا مقصد ہے؟تم اسے بچا رہی ہو۔کیا تمھیں اس سے...؟"رومائزہ نے چونک کے سر اٹھایا مراد نے جیسے دل کی بات پوچھ لی تھی۔گھٹلی نگل کے ان سب کے چہرے دیکھے جو اسکا جواب سننا چاہتے تھے۔
"میں بس کبھی اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔"وہ پتھر دلی سے بولی۔مراد سر ہلاتا کھڑا ہوگیا۔اس نے سخت نگاہوں سے عائشے کو دیکھا۔عائشے کی تو سانس رک گئی تھی۔انوش اٹھ کے رومائزہ کے پاس آگئی اور مراد عائشے کے برابر میں آکے بیٹھ گیا۔اسکے تنے جبڑے دیکھ عائشے کی جان خشک ہورہی تھی۔
"میں نے آپکو یہ سب بتا دیا ہے،آپ کچھ نہیں کریں گے۔وہ لوگ خطرناک ہیں اور بہت طاقتور بھی۔میں نہیں چاہتی میری وجہ سے کسی کو تکلیف ہو۔آپ سب میرے اپنے ہیں اور مجھے بے حد عزیز ہیں۔"وہ چہرہ ہاتھوں سے خشک کرتے بولی۔مراد نے سر ہلانا ہی مناسب سمجھا۔وہ لڑکی پہلے ہی اتنی تکلیف میں تھی مزید اسے وہ پریشان نہیں کرنا چاہتا۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا میران اپنے غصے اور انا کے ہاتھوں اس حد تک گزر جائیگا۔میران کے خلاف ایسے کوئی ثبوت ہاتھ نہیں لگ رہے تھے جسکے خلاف وہ کاروائی کرتا۔میران کے ہاتھ ہر گناہ سے صاف تھے۔رومائزہ بھی معاملہ آگے نہیں بڑھانا چاہتی تھی۔
باپ زولفقار سے صلح کی وجہ یعنی ایک لڑکی تھی اسکی خاطر اس نے ایمان تک کو بیچ دیا۔حق کے راستے پہ چلنے والا ڈگمگا گیا۔تھوڑی دیر وہ لوگ مزید بیٹھے اور گھر واپس چلے آئے۔
      مراد زرپاش کے کمرے میں تھا۔زرپاش ابھی تک ششدر تھیں۔انھیں تو رومائزہ کی باتوں پہ یقین کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
"بیٹا میں مان نہیں سکتی میران ایک لڑکی کے ساتھ اس طرح کرسکتا۔وہ تو اسے محفوظ رکھنا چاہ رہا تھا نا۔"
زرپاش کمرے کی کھڑکی کھولے کھڑی تھیں۔مراد انکے پیچھے ہی آن کھڑا ہوا انھیں شانوں سے تھام کے اپنی طرف گھمایا۔
"میں بھی ایسے ہی لمبے عرصے سے اس پہ یقین کرتا آیا ہوں پر ہر بار میرا یقین ٹوٹا ہے۔میرے گمان سے وہ الگ نکلا ہے۔وہ زولفقار کا بیٹا ہے ایسے ہی کام کرے گا۔اسکی بھی لمبی ناک ہے۔کوئی اسکے خلاف کچھ کہہ دے وہ پھر اسکے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے جو اس معصوم لڑکی کے ساتھ کیا۔اسکے خلاف جس دن پکے ثبوت لگے میں نے کاروائی شروع کردینی ہے۔کہیں تو وہ غلطی کرے گا۔"
زرپاش اسکا چہرہ دیکھنے لگیں۔کتنی نفرت اسکے لہجے میں تھی۔محسوس ہورہا تھا اسکا بھرم ٹوٹا ہے۔
"پتا ہے اس لڑکی میں مجھے بلکل میری جھلک محسوس ہوئی ہے۔وہ اپنے اندر کتنا درد سمیٹے ہوئے ہے۔میری طرح اس نے بھی باپ کا آخری وقت چہرہ نہیں دیکھا۔"وہ مراد کے کندھے پہ سر رکھ گئیں۔مراد نے انھیں خود میں بھینچ لیا۔
"مام اب نہیں رونا ہے۔یہ آنسو اب انکا مقدر بنیں گے جو آپ لوگوں کے گہنگار ہیں۔"
"مراد کیا کر رہے ہو تم؟اس دن کیس کے بارے میں بات کر رہے تھے بتاؤ کونسا کیس ہے؟"زرپاش یاد آنے پہ بولیں تو مراد نے انکے شانوں سے ہاتھ ہٹا لیا۔
"بہت جلد سب کو پتا چل جائے گا۔"وہ انکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا اور کمرے سے نکل گیا۔مراد کی آنکھوں میں الگ قسم کا جنون تھا۔زرپاش کا ذہن کسی ایک نقطے پہ جا ٹھہرا۔
"مراد خدا کے لیے کوئی غلطی نا کر بیٹھنا۔میں تمھیں کھونے کی ہمت نہیں رکھتی۔"زرپاش نے سوچتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
                            ★ ★ ★
عائشے کمرے میں ٹہلیں مار رہی تھی مراد تن فن کرتا اندر آیا۔وہ ایک جگہ ہی جم گئی۔
"میں نے تمھیں کہا تھا نا مجھ سے کچھ نا چھپانا۔"وہ آتے ہی اسکے پاس کھڑا ہوا اور اسکے چہرے پہ جھکا۔
"مم میں کیا بتاتی اس نے منع کیا تھا۔"
"جھوٹ وہ ہوش میں تب نہیں تھی۔"اس نے مزید اپنا چہرہ عائشے کے پہ چہرہ جھکایا۔عائشے کی سٹی گم ہوگئی۔
"آپ مجھ سے کیوں ناراض ہورہے ہیں میں بہت پریشان تھی۔مجھے ڈر تھا آپ غصے میں کچھ کر نا دیں۔"وہ منمناتے ہوئے بولی۔
"بچہ ہوں جو بدلہ لینے اسکے گھر پہنچ جاتا۔"
عائشے کو رونا آیا تھا۔اسے مراد سے خوف آرہا تھا۔پولیس والے جیسے مجرموں کو ڈیل کرتے مراد کا انداز عائشے کے ساتھ بلکل وہی ہوگیا تھا۔
"مجھے اسی لیے پولیس والے برے لگتے ہیں۔"وہ جل کر بولی اور سائیڈ سے نکل کر جانے لگی۔مراد نے اسکا بازو تھام کے اسے روکا۔
"مراد میں ڈری ہوئی تھی بس اسی لیے نہیں بتایا۔"
"ایک تو یہاں ہر ایک ڈرتا ہے۔یہی وجہ ہے مجرم کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرپاتے۔"
"ہاں آپ سارا غصہ مجھ پہ نکال لیں۔رہ کر آخر میں بیوی ہی بچتی ہے۔"وہ زور سے بڑبڑائی اور اپنے بازو کو دیکھا جو اس نے سختی سے پکڑ رکھا تھا اسے تکلیف ہورہی تھی۔مراد ںے خود کو کمپوز کیا عائشے کا بازو چھوڑ دیا۔عائشے ہلکا سا سسکی تو وہ اسے چھوڑ کے باہر نکل گیا۔بلاوجہ عائشے درمیان میں پس کے رہ گئی تھی۔
                         ★ ★ ★
مراد گھر سے باہر نکلا تھا تبھی ایک کالی گاڑی دروازے کے سامنے رکی۔نیمل باہر اتری مراد کو دیکھ اسکے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ڈرائیونگ سیٹ سے تبھی دائم باہر نکلا تھا۔مراد نے سرد نگاہ ان دونوں پہ ڈالی۔نیمل دل دل میں تعوذ پڑھنے لگی۔مراد کا پارا آج چڑھا ہوا تھا۔اس نے سخت نگاہوں سے نیمل کو دیکھا اور اندر جانے کا اشارہ کیا۔وہ تو ایسے غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگھ۔
دائم جیبوں میں ہاتھ ڈال کے کھڑا رہا۔مراد چل کے اسکے سامنے آیا۔
"اسلام و علیکم مراد صاحب۔"چہرے پہ آتی مسکراہٹ روک کے اس نے کہا۔
"وعلیکم السلام۔پک اینڈ ڈراپ سروس بھی شروع کردی ہے کیا؟"وہ طنزیہ ہوا۔اسکے چہرے پہ رقم سنجیدگی دیکھ دائم بھی سنجیدہ ہوگیا۔دائم کو تصویروں میں ہی اس نے دیکھ رکھا تھا۔
"اسے ڈرائیور لینے نہیں آیا تھا اس لیے مجھے آنا پڑا۔"مزاج دونوں کے اکھڑے ہوئے تھے۔مراد نے جبڑے بھینچ لیے۔
"آئیندہ مت آنا۔"
"اے ایس پی تمھارا مسئلہ کیا ہے۔مجھ میں ایسی کون سی برائی ہے جو تم رشتے پہ راضی نہیں ہو۔میں تمھاری بہن سے محبت کرتا ہوں اسے ہمیشہ خوش رکھونگا۔"
"محبت کرنے والوں کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔"
مراد نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔دائم چبھتی نگاہ سے دیکھنے لگا۔وہ نہیں ماننے والا تھا فلحال سڑک پہ کھڑے رہ کر بات لمبی کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا تھا۔مراد واپس پلٹ گیا اور دائم بھی گاڑی میں واپس بیٹھ گیا۔
"بد دماغ۔"دائم نے بڑبڑا کے اگنیشن میں چابی گھما دی۔مراد کی کہی محبت والی بات کا مطلب وہ بخوبی سمجھ گیا تھا وہ بس اب سہی وقت کا منتظر تھا۔
                           ★ ★ ★
     سورج بلکل سر پہ تھا۔دھوپ میں تپش نہیں تھی۔سفیر اسے آفس دکھانے کے لیے جارہا تھا۔وہ فیصلہ کر چکی تھی ایگزامز کے بعد آفس جوائن کرے گی۔
"سفیر بھائی آپ کا آفس تو بڑا اچھا ہے۔"تین منزلہ عمارت کو وزٹ کرنے کے بعد آخر وہ سفیر کے آفس روم میں آکر بولی۔
"محترمہ آپکا حسنِ نظر ہے۔"وہ ہنستے ہوئے بولا۔رومائزہ دھیما سا مسکرادی۔سفیر کی نگاہیں خود پہ محسوس کرکے وہ کنفیوز سی ہوگئی۔
"تمھارے ایگزامز کب سے ہیں؟"وہ اپنی کرسی پہ بیٹھ گیا تھا رومائزہ اسکے سامنے والی کرسی کھینچ کے بیٹھ گئی۔
"اگلے مہینے کی شروع کی تاریخیں ہیں۔مجھے تو ٹینشن ہورہی ہے ایک مہینے میں سب کیسے کوور کرونگی۔"اسکے چہرے پہ فکر در آئی۔پیچھے دروازہ کھلنے کی تیز آواز پہ وہ مڑی۔کوئی انجان لڑکی روم میں داخل ہوئی تھی۔
"مس آپکی تعریف؟"
سفیر نے اس انجان لڑکی کو چونک کر مخاطب کیا۔
"عزہ علوی ہوں میں۔لڑکی مجھے تم سے بات کرنی ہے۔"نام سن کے رومائزہ کے کان کھڑے ہوگئے۔میران نے اسکا ایک بار زکر کیا تھا۔وہ جگہ سے کھڑی ہوگئی۔عزہ بہت بد لحاظی سے مخاطب ہوئی تھی۔
"کیا بات کرنی ہے ہاں!"رومائزہ اسکے مقابل جاکے کھڑی ہوگئی اور سینے پہ ہاتھ لپیٹ لیا۔
"تمھارا مسئلہ کیا ہے!کیوں میران کے پیچھے پڑی ہو چھوڑ کیوں نہیں دیتی ہو اسے۔اپنا دیوانہ بنا رکھا اور خود یہاں کسی اور کے ساتھ..."
"شٹ اپ!بلکل بکواس نا کرنا۔"رومائزہ غرا کے بولی۔عزہ کو تذلیل پہ تیش آیا۔
"ہاں تو غلط کیا کہہ رہی ہوں۔"وہ تمسخر سے بولی۔رومائزہ نے جبڑے بھینچ کر صبر کا گھونٹ پیا۔
"میرا میران جاہ سے کوئی لینا دینا نہیں۔اب اگر وہ تمھیں منہ نہیں لگاتا تو میرا کوئی قصور نہیں۔"رومائزہ کے پھنکارنے پہ عزہ کا غصہ بڑھ گیا۔اپنی تذلیل کے احساس سے اسکا چہرہ سرخ پڑنے لگا۔عزہ نے اسے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ بلند کیا۔رومائزہ نے فوراً ہاتھ پکڑ کے کہنی موڑ کے پیچھے لگادیا۔عزہ تڑپ سے چیخ اٹھی۔
"ایسے ہی توڑ مڑوڑ کے رکھ دونگی آئیندہ یہ غلطی کی تو....رومائزہ شنواری کو سب نے بہت کمزور سمجھ لیا ہے پر اب مزید نہیں۔اور اگر میرے کردار پہ کیچڑ اچھالی تو زبان کاٹ دونگی۔"سختی سے اس نے اسکی کلائی مزید مڑوڑی۔عزہ سسکی۔رومائزہ اسکے کان کے قریب چہرہ کیے بول رہی تھی۔عزہ اکڑی کھڑی تھی اور رومائزہ اسکے پیچھے۔سفیر نے ستائش سے اس شیرنی کو دیکھا۔
رومائزہ نے جھٹکے سے اسے چھوڑ دیا وہ لڑکھڑا کے دور ہوئی۔
"یو وچ۔آئی ول کل یو۔"عزہ غصے میں اسکی طرف پھر بڑھی۔رومائزہ کا اطمینان قابلِ دید تھا۔اس نے اسکی دونوں کلائیاں تھام کے اسے دیوار سے لگادیا اور اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ دیں۔
"نفرت ہے مجھے میران سے سمجھی۔آئندہ اسے میرے ساتھ نہ جوڑنا۔نا ہی اپنی شکل دکھانا۔اگر اتنا ہی اسے چاہتی ہو تو بنا لو اسے اپنا۔"
وہ چبا چبا کے بولی۔اسکی آنکھوں میں وحشت اتر آئی تھی۔عزہ خود بھی کانپ کے رہ گئی۔اسے امید نہیں تھی رومائزہ اتنی خونخوار سی نکلے گی۔
ایک بار دروازہ پھر کھلا تھا۔اب کی بار حیران ہونے کی باری رومائزہ کی تھی۔سفید کرتا شلوار میں ملبوس مغرور چہرہ لیے میران روم میں داخل ہوا۔سفیر جو سارا تماشہ دیکھ رہا تھا اب کرسی سے اٹھا اور گھوم کے اسکے سامنے آیا۔رومائزہ نے چہرہ پھیر کے اسے دیکھا وہ جگہ پہ منجمد ہوگئی۔میران کی نگاہیں عزہ پہ گئیں وہ پیر پٹخ کے روم سے باہر نکل گئی۔رومائزہ نے پتھریلی نگاہوں سے اسے دیکھا۔ڈھائی تین ہفتے بعد اسے دیکھا تھا۔نظروں میں ناگواری ابھر آئی۔میران کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا۔
شکر تھا وہ ٹھیک تھی،اسے ہسپتال میں دیکھ کر تو اسکی جان سوکھ کے رہ گئی تھی۔
اب چونکہ وہ ٹھیک ہوچکی تھی اس لیے میران خود بات کرنے چلا آیا تھا ورنہ پہلے ڈاکٹرز کی بتائی احتیاطی تدابیر کی وجہ سے وہ ملنے سے گریز کر رہا تھا۔کہیں اسے دیکھ وہ اپنا آپا ہی نا کھو بیٹھے۔
ہرے قمیض شلوار اور گلے میں سفید رنگ کا دوپٹہ پڑا تھا۔رومائزہ کی ڈریسنگ میں خاصا فرق آیا تھا۔پہلے وہ جینس یا کیپری وغیرہ پہ اونچی شرٹس یا کرتیاں وغیرہ پہنا کرتی تھی۔پھر فارم ہاؤس میں حلیمہ بی نے اسے فراکس اور قمیض شلوار لاکر دیے تھے۔اسے یہ زیادہ پسند آئے تھے اس نے اب اسی طرح کے کپڑے پہننا شروع کردیے تھے۔
اسے دیکھ میران کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔چہرے پہ پرتپاک مسکراہٹ نے جگہ لی۔
تجھ کو دیکھا تو سر چشم ہوئے
تجھ کو چاہا تو اور کوئی چاہ نا کی
رومائزہ کی ناک کے نتھنے پھولنے لگے۔سفیر رومائزہ کی کنڈیشن دیکھ کر میران کی جانب بڑھا۔
"کیوں آئے ہو تم؟"سفیر کے سوال پہ میران نے کان تک نہیں دھرے،رومائزہ کو دیکھتا رہا اور اسکی طرف بڑھا۔
"تم ٹھیک ہو۔"انداز ایسا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔رومائزہ انگاروں پہ لوٹ پوٹ گئی۔
"مر گئی ہوں میں صرف لاش دفنانا باقی ہے۔"وہ تنک کر بولی۔
"فاتحہ پڑھ سکتا ہوں؟"وہ بے ساختہ بولا۔روما نے دانت کچکچائے۔
"کیوں آئے ہو میرا تماشہ دیکھنے؟چھین لیا نا میرے بابا کو تم نے۔مل گیا سکون تمھیں۔"وہ اسکے کندھے پہ ہاتھ مار کے اسے دور دھکیلتی چیخ کر بولی۔سفیر اسکے پاس آیا اسے تھاما۔میران تو یہ دیکھ تپ گیا تھا۔
"تم اس سے دور نہیں رہ سکتے کیا!"وہ سفیر پہ غرایا۔سفیر نے چبھتی نگاہ سے اسے دیکھا۔
"تمھیں کیا مسئلہ ہے؟چلے کیوں نہیں جاتے میری زندگی سے۔"وہ آگے بڑھتے ہوئے اس پہ برسنے لگی۔
"تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ایک بار میری بات سن لو۔"وہ نرمی سے بولا۔
"واہ میران تمھیں اب بھی اپنی ہی پڑی ہے۔تم مجھے اب بھی نکاح کا بولو گے۔نہیں کرنی مجھے تم سے شادی۔"
"میرے پاس امانت ہو تم شنواری کی۔"اس نے آنکھیں دکھائے کر باور کرنا چاہا۔روما نے حیرت سے اسے دیکھا،پھر استہزایہ ہنسی۔
    "امانت تھی پر تم نے اس میں خیانت کردی۔نفرت ہے مجھ تم سے۔تمھارے چہرے سے جس کے پیچھے ایک درندہ ہے،کسی کی خوشیوں کا قاتل!نفرت ہے مجھے تمھاری محبت سے۔سب فریب ہے سب نظروں کا دھوکہ تھا۔"وہ سرد مہری سے اسکے دل پہ وار کیے کہے گئی۔جسم کا خون سارا چہرے پہ آن جمع ہوا۔میران نے جبڑے کَس لیے۔
"معاف کردو۔"
"کبھی نہیں۔تم تو نفرت کے قابل بھی نہیں۔دفع ہوجاؤ اس سے پہلے میں کچھ غلط کر گزروں۔"غصے میں وہ تھر تھر کانپ گئی۔میران کا ضبط ختم ہونے لگا۔انتہا تب ہوئی جب سفیر نے رومائزہ کا ہاتھ تھاما تھا۔میران نے اشتعال بھاری نگاہوں سے اسے دیکھا جیسے سالم اسے نگل جائیگا۔
"تمھیں لگتا ہے تم گلاب ہو،پر اسکے کانٹے ہو تم! جو بار بار اسے تکلیف دیتے ہیں۔سکون سے اسے جینے دو۔یہ تمھاری نہیں میرے چاچو کی میرے پاس امانت ہے۔"
میران کی نگاہیں اسکے ہاتھ پہ جم گئیں اسکی توجہ سفیر کی بات پہ بلکل نہیں گئی تھی۔آگے بڑھ کے اس نے رومائزہ کا ہاتھ سفیر کے ہاتھ سے نکالا۔اور سفیر کا ہاتھ جھٹک دیا۔رومائزہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتی رہ گئی۔
"آئیندہ یہ جرت مت کرنا۔"وہ قہر برساتی نگاہوں سے اسے دیکھ کر کہتا پلٹ گیا۔دروازے کے پاس اسکے قدم رکے اس نے مڑ کے کرب اور اشتعال بھری نگاہوں سے رومائزہ کو دیکھا جو اسکے عمل پہ ساکت کھڑی ساکن نظروں سے اسکی پشت تک رہی تھی۔لب بھینچ کر تیزی سے وہ باہر نکل گیا۔وہ اسکے سحر سے باہر نکلی۔
"یہ ایسے مجھ پہ دھونس جماتا ہے سمجھتا کیا ہے خود کو؟غلطی خود کی پر دیکھو زرا اس شخص کے چہرے پہ سنجیدگی کو۔"
وہ غصے میں بڑبڑاتی بگڑے موڈ کے ساتھ صوفے پہ بیٹھ گئی۔اب کی بار اسکے اشک نہیں بہے تھے یا وہ اسکے سامنے کمزور پڑنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
   اسے معلوم نہیں تھا وہ اسکے بیمار ہونے کے وقت بھی اسکے پاس تھا تب جب اور کسی کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں تھی صرف وہی تھا جو اسکے پاس آسکا تھا۔اور سفیر نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔رومائزہ کے بل کے پیسے میران کو وہ لوٹا آیا تھا۔
        میران انگاروں پہ لوٹتا ہوا بلڈنگ سے باہر نکلا۔وہ آرام سے اس سے بات کرنا چاہتا تھا پر سفیر کو دیکھ اسکا دماغ گرم ہوگیا تھا۔عزہ اسکی گاڑی کے پاس ہی کھڑی تھی۔عبدل نے اسے روک لیا تھا۔میران چادر کندھے سے ہٹاتا ہاتھ میں گولا بناتا اسکے سر پہ آن پہنچا چادر گاڑی کا دروازہ کھول کے اندر اچھالی۔
"تم یہاں کیا کرنے آئی تھیں؟میں نے کہا تھا میرے معاملات سے دور رہنا ایک بار بات سمجھ نہیں آتی۔اگر تم نے اسے نقصان پہچانے کا سوچا تو میں پہلی فرصت میں تمھارا گلا دبادونگا۔"میران نے واضح طور پہ دیکھا تھا رومائزہ عزہ پہ حاوی تھی یقیناً عزہ نے بھی کوئی حرکت کی ہوگی جب ہی وہ اتنا تیش میں آئی تھی۔
"اللہ بچائے اس سے۔یہ آپکی رومائزہ کا کارنامہ ہے۔"اس نے اپنی کلائی اسکے سامنے کردی۔رومائزہ کی انگلیوں اور ناخنوں کے نشان تھے۔بے ساختہ مسکراہٹ لبوں کی تراش پہ جمع ہوگئی۔عزہ نے مرعوب ہوکے اسکا چہرہ دیکھا۔
"آپ اسے واقعی بہت چاہتے ہیں؟"
"ہاں۔"
"پھر آپ نے اسکے ساتھ کیوں کیا؟وہ سزا کی مستحق تھوڑی تھی۔"عزہ کی آنکھوں میں اٹھتا طوفان تھم سا گیا۔میران اس سے نظریں نہیں ملا سکا۔اس نے گہری سانس اندر اتاری۔
"دماغ خراب ہوگیا تھا۔"
"میرا بھی جو آپ جیسے شخص کے ساتھ سر پھوڑنے لگی تھی۔"
"تم کافی سمجھدار ہو۔"اسکے قدم پیچھے لینے پہ میران نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھتے طنز کرتے کہا۔وہ پھیکا سا مسکرادی۔
"نہیں آؤنگی آئیندہ آپکے راستے میں۔مجھے میری محبت نہیں ملی پر آپکو آپکی محبت مبارک ہو دعا کرتی ہوں وہ آپکو مل جائے۔"اسکا چہرہ گاڑی کی ونڈو  کے قریب تھا۔ایک جذب سے کہتی وہ آگے بڑھ گئی۔میران نے اسٹیئرنگ پہ ہاتھ جما کر سر نفی میں ہلایا۔
"لگتا ہے رومائزہ نے زیادہ ہی ٹیوننگ کردی ہے۔"وہ بڑبڑا کے رہ گیا۔عبدل جذبذب سا باہر کھڑا تھا۔
"تمھیں بیٹھنے کا دعوت نامہ دوں؟"گاڑی کے شیشے سے سر نکال کے اس نے عبدل سے کہا۔
"سائیں آپ یہاں کیوں بیٹھ گئے میں گاڑی چلا لونگا نا۔"وہ پریشانی سے بولا۔
"عبدل مزید دماغ نہیں خراب کرو،آکے بیٹھو۔"عبدل سر جھکا کے برابر والی سائڈ کا دروازہ کھول کے اندر سر جھکا کے بیٹھ گیا۔میران کی پریشانی اس سے دیکھی نہیں جارہی تھی۔
"آپکو عزیز کی یاد آرہی ہے نا۔"وہ بھی چپ نا رہ سکا۔میران نے گھور کے اسے دیکھا۔
"سائیں کیوں پریشان ہوتے ہیں۔وہ لڑکا کچھ نہیں کرسکے گا۔میڈم اسے بھائی بولتی ہیں۔"
"وہ اسے بھائی سمجھتی ہے پر وہ تھوڑی بہن سمجھتا ہوگا۔انکا سگے بہن بھائیوں والا رشتہ نہیں ہے۔"
اس نے غصے کی حالت میں گاڑی اسٹارٹ کردی اور پارکنگ سے نکالنے لگا۔عبدل کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی۔
                                         جاری ہے....

Waddi si episode ka wadda sa review dena hai ok!!

Speedein check kr rhy hain publishing ki🤡

عشقِ متشکرمDonde viven las historias. Descúbrelo ahora