قسط 27 فسانہ

455 39 4
                                    

      وہ سب لاؤنچ میں بیٹھے تھے۔رومائزہ سب کی آمد سمجھنے سے قاصر تھی۔حلیمہ بی اور حسن انکل کو دیکھ کر اس نے عزیز وغیرہ کو کچھ نہیں کہا۔جب وہ میران کو معاف کر چکی تھی تو پھر ان سے کیسا شکوہ ہونا تھا۔پر وہ حیراں ضرور تھی۔
"آپ سب کا ایک ساتھ کیسے آنا ہوا؟اور انکل آپ؟"وہ حسن کے برابر میں ہی بیٹھی تھی۔حسن نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا تو وہ سر خم کر گئی۔
"ہم آپکی آنکھوں پہ سے بد گمانی کی پٹی ہٹانے آئے ہیں۔سائیں خود تو ہٹا نہیں سکے پر ہم ضرور آج ہٹاکر جائینگے۔آپ ہمیشہ انکو غلط سمجھتی ہیں اور پھر پچھتاتی ہیں۔ایک شخص جو آپکو دنیا کی بھیڑ سے محفوظ رکھ رہا ہو وہ کیسے آپکو ان دیکھی آگ میں جھونک سکتا ہے؟آپ نے ہر بات کا الزام ہمارے سائیں کو دے دیا۔خود خوش ہیں اس سفیر کے ساتھ؟اور سائیں....مر رہے ہیں وہ..!خود کو چند لفظی بول بول کر پیچھے کرلیا پر آپ سے وہ دل کا تعلق کبھی ختم نہیں کرسکیں گے۔ایک رٹ انھوں نے لگا رکھی ہے کہ آپ کی آنکھوں پر بد گمانی کی پٹی بندھی ہے جب تک وہ نہیں ہٹے گی تو آپ سچ پر یقین نہیں کریں بے۔تو وہ پٹی ہٹائے گا کون؟"
عزیز غبارے کی طرح پھٹ پڑا تھا پر اس نے انداز مہذب ہی رکھا اور تلخ آواز کو نارمل برقرار رکھے بولا۔رومائزہ تو اسکے انداز پہ ششدر تھی۔آج سے پہلے مجال ہو جو عزیز اسکے ساتھ اتنا تلخ اور سخت ہوا ہو۔
"بیٹا میں نے آنے میں دیر کردی،معاف کرنا مجھے۔احتشام کے انتقال کے بعد میں تمھاری آنٹی کے ساتھ کچھ ماہ کے لیے کراچی چلا گیا تھا۔یہ تو اس جوان نے میرا پتہ نکال کر مجھ سے رابطہ کیا۔احتشام کے جانے کے بعد میں تمھارے لیے کچھ نہیں کرسکا تمھاری آنٹی نے کجھے روک رکھا تھا وہ زولفقار جاہ کے ساتھ دشمنی سے ڈرتی تھیں۔آخری وقت تک میں احتشام کا راز دار رہا ہوں،پر اب وقت آگیا ہے کہ تمھیں حقیقت معلوم ہونی چاہیے۔"
وہ کہتے ہوئے خاموش ہوگئے۔رومائزہ کو انہونی کا احساس ہوا۔اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ تو عزیز کی گفتگو شروع کرنے سے ہی ہورہی تھی۔اس نے حلیمہ بی کی طرف دیکھا۔پھر انکے برابر میں عزیز بیٹھا تھا اس تک نگاہیں پہنچی۔
     "آپکو چھوٹے سائیں نے جو کچھ بتایا وہ سب سچ ہے۔ہم سب قسم اٹھانے کو تیار ہیں۔وہ بے قصور ہیں۔انکو کچھ معلوم نہیں تھا ان کے پیٹھ پیچھے کیا سازش کی گئی اور کیوں کی گئی...آپ وجہ نہیں جانتی.....سائیں نے آپکو یقیناً اس بات سے بے خبر رکھا ہوگا کہ قرضے کی رقم انھوں نے ہی آپکے بابا کو دی تھی،اور اس بارے میں جب بڑے جاہ کو خبر ہوئی تو انھوں نے غصے میں آکر سائیں کا نام استعمال کرکے آپکو وہیں رکوالیا۔سائیں رقم کی بات آپ سے چھپانا چاہتے تھے،پر انکو بتا دینا چاہیے تھا۔"عزیز نے کہتے ہوئے شمس کی طرف دیکھا۔یہ رقم کا کیا ماجرا تھا!وہ بے خبر تھی۔اسے نے نا سمجھی سے حسن کو دیکھا۔
شمس نے رومائزہ کو دیکھ کر گہری سانس بھری۔
"میں ہی تھا جس نے زولفقار جاہ کو ہمیشہ سے شنواری کے خلاف بھڑکایا،اور ایسے کئی لوگ ہیں جن کے خلاف میں نے یہی حرکت کی۔میں دل سے اپنے گناہوں پر نادم ہوں۔مجھے احساس ہوچکا ہے کہ میں غلطی پر تھا۔اللہ مجھ سے میرے ہر برے عمل کا حساب لے رہا ہے۔میرا بیٹا بہت تکلیف میں ہے۔کینسر میں مبتلا ہے۔اسے آپکی بد دعائیں ہی لگ گئی ہیں اور میرا کیا وہ بھگت رہا یے۔میڈم مجھے معاف کردیں۔"شمس جگہ پہ بیٹھا روتے ہوئے گڑگڑانے لگا۔رومائزہ کو سانپ سونگھ گیا۔آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔
"آپ کک کیسی باتیں کر رہے ہیں۔میں نے آپکے بیٹے کو کبھی بد دعائیں نہیں دیں۔اس معصوم کا کیا قصور۔"وہ سن کے بے چین ہوگئی۔حلیمہ بی اٹھ کے اسکے پاس آئیں اور برابر میں بیٹھ گئیں۔
"پر میں آپکا گنہگار ہوں،میں نے ہی بڑے جاہ کو خبر دی تھی کہ میران بابا نے شنواری کو پیسے دیے ہیں۔سارا قصور میرا ہے۔"وہ پچھتاوے میں جھلس رہا تھا۔
"اللہ آپکے بیٹے کو صحت و تندرستی کے ساتھ زندگی ہے۔"حلق میں بھرتی گھٹلی نگل کر اس نے بمشکل کہا۔وہ شدید الجھ کے رہ گئی۔زہن میں سوچیں سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگیں ہر خیال بکھر رہا تھا۔کس بات کو کہاں سے جوڑتی؟
"بیٹا میران جاہ کا کوئی قصور نہیں۔وہ آپکو گھر ہی بھیج رہا تھا درمیان میں آپ اور وہ دونوں زولفقار کی سازش کا نشانہ بن گئے۔اور وہ کامیاب بھی ہوگئے۔"
  "انکل مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔"وہ ہولے ہولے لرزنے لگی۔
"آپ جب اغوا ہوئیں تو اسکے بعد ہی میران احتشام سے ملنے آیا تھا۔اس نے احتشام کو ہر طرح سے اطمینان میں لیا تھا کہ آپکا خیال رکھے گا اور حتی کہ وہ آپکے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار تک کر چکا تھا۔اور شادی بھی کرنا چاہتا تھا۔فلحال احتشام نے اس معاملے کے بارے میں کچھ سوچا نہیں۔دن گزرتے گئے۔میران پھر آیا۔اس نے تمھارے بابا کو اپارٹمنٹ بیچنے سے روکا تھا۔
    اسکا یہی کہنا تھا کہ رومائزہ کے لیے یہ گھر بہت خاص ہے آپ اسے سیل نا کریں،پر تمھیں واپس لانے کے لیے احتشام کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔"
میاں حسن ایک ایک کرکے سب کچھ اسے تفصیل سے بتانے لگے۔انکے خاموش ہونے پہ عزیز نے بات جاری کی۔
"جی میں بھی انکے ساتھ گیا تھا۔اس وقت وہ زولفقار جاہ سے ڈیل کرچکے تھے جو صرف ایک پلاننگ تھی۔
چھوٹے سائیں نے احتشام صاحب کی پریشانی دیکھتے ہوئے انھیں ایک آفر کی تھی۔بلکہ وہ انکا حتمی فیصلہ تھا۔آپکے بابا بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے۔بات یہ تھی کہ میران سائیں نے انھیں پانچ کڑوڑ روپے دیے تھے،جو کسی قرض کی صورت میں نہیں تھے۔ان پر بس پھر احتشام شنواری کا حق تھا۔سود کی رقم وہ بڑے جاہ سے معاف کرواچکے تھے۔
   اور فیکٹری بہت گھاٹے میں جارہی تھی تو اسے بیچ کر نئے کاروبار شروع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔"عزیز نے لب ملا کر بات مکمل کر کے سر جھکا لیا۔رومائزہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔ماحول میں سناٹا ہوا۔
"پھر وہ دن بھی آگیا جب احتشام آپکو لینے گیا تھا۔وہ تو آپکو لے کر ہی آتا پر زولفقار کے آدمیوں نے اسکے گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے بے ہوش کردیا اور اسے گھر پہنچا دیا۔پھر جو ہوا آپ واقف تھیں۔میران نے انھیں کسی بھی چیز سے مجبور نہیں کیا تھا۔وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ اسکے آدمی آپکو گھر چھوڑ آئے۔"حسن کی آواز نے سناٹا توڑا تھا۔ساری گوہر افشانیاں رومائزہ پہ بجلی کی طرح کڑکتے ہوئے برس رہی تھیں۔
"جی میں ہی تھا اس وقت آپکے ساتھ،میں سائیں کے قریبی بندوں میں سے ایک ہوں۔میری بیوی اور بیٹی شمس کے قبضے میں تھیں...مجھے سائیں کے حکم کے خلاف جانے پہ مجبور کردیا گیا تھا۔نا چاہتے ہوئے بھی وہ کر گزرا جس کے بعد سائیں کی زندگی میں ایک طوفان اٹھنا تھا۔"عبدل ہتھیلیاں رگڑتے ہوئے کہہ رہا تھا۔رومائزہ اس دن کے منظر میں کھو گئی۔چیخ پکار اسے سنائی دینے لگی۔
"پھر اسکے بعد احتشام سے زولفقار جاہ ملے۔اور بتایا کہ انھوں نے رومائزہ کو واپس وہیں قید کردیا جہاں وہ تھی۔اب کی بار وہ مہمان نہیں قیدی تھی۔جسے میران کی واپسی تک وہیں رہنا تھا۔زولفقار کو اندازہ تھا اس سازش کے بعد رومائزہ کبھی میران کی شکل نہیں دیکھے گی۔ وہ تم سے میران کی جان چھڑانا چاہتے تھے۔بس پھر سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسے انھوں نے سوچا تھا۔
      احتشام مزید پریشان ہوگیا۔اس نے اپارٹمنٹ اور فیکٹری بیچ کر اپنے پیسوں سے قرضا اتارنا چاہا کہ شاید اسے اس طرح سے اپنی بیٹی مل جائے،کیونکہ میران کے دیے پیسوں سے تو اسکے باپ کی انا جاگ گئی تھی۔"
"وہ سلور ہولڈنگز کے مالک دائم علی کو پہلے بھی اپارٹمنٹ بیچ رہا تھا،پر میران کے انکار کے بعد چھوڑ دیا تھا۔اس نے دوبارہ ان سے رابطہ کیا۔وہ اپارٹمنٹ خریدنے میں تب بھی انٹرسٹڈ تھے۔وہ فیکٹری کا سودا بھی کر چکا تھا رقم مل گئی تھی۔اپارٹمنٹ بھی اس نے بیچ دیا۔پر جس دن اسے اپارٹمنٹ کی رقم ملی وہ شدید بیمار ہوگیا دل کا دورا پڑا تھا۔میں اسکے پل پل ساتھ تھا ساری باتیں میرے سامنے ہوئیں تھی۔
دائم علی نے آکے انکی خیریت وغیرہ بھی دریافت کی اور وہ رقم وغیرہ دے کر چلا گیا تھا۔"
"ہاں...سائیں جب واپس آئے تو آپکو گھر بھیج دیا تھا۔
اور پھر انکو خبر ہوئی کہ شنواری صاحب کا انتقال ہوگیا۔اپارٹمنٹ وہ بیچ چکے ہیں اور آپ لاپتہ ہیں تو وہ شدید پریشان ہوگئے تھے۔
         اس رات ہاسپٹل میں وہ آپکے پاس تھے۔آپکو انہتائی خراب حالت دیکھ انکا حال برا ہوچکا تھا۔وہ خود کو بھی اس سب کا ذمہ دار سمجھ رہے تھے۔
اسکے بعد انھوں نے اپارٹمنٹ وغیرہ کا پتا کروایا۔دائم علی انکے بہت اچھے دوست ہیں۔انکو پتا لگا کہ انھوں نے ہی خریدا ہے تو سائیں نے ان سے واپس خرید لیا۔وہ گھر دائم نے اپنے ایمپلائے کو کچھ وقت کے لیے دیا تھا۔جب آپ وہاں گئی تھیں تو اسکا بھائی آپ سے ملا تھا جو سب چیزوں سے بے خبر تھا۔ہفتے کے اندر اندر اپارٹمنٹ میران سائیں واپس لے چکے تھے۔دائم کو ہر چیز سے باخبر انھوں نے کر دیا تھا۔"
"وہ گھر کسی غیر کے پاس نا جائے اسی لیے سائیں نے خریدا اور واپس آپکو لوٹانا ہی چاہتے تھے۔"
سب کی نگاہیں عزیز کے چہرے پہ تھیں۔ایک رومائزہ ہی تھی جو سفید پڑتے چہرے کے ساتھ ٹیبل گھور رہی تھی۔اسکے اوسان خطا ہورہے تھے۔لگ رہا تھا پیروں سے بس جان نکل ہی جائیگی۔
"احتشام اتنے ہی دن لکھوا آیا تھا،اسکی طبیعت سنبھل نا سکی۔اور دو دن بعد روح نے اسکے جسم کی جان چھوڑ دی۔"میاں حسن کی آنکھ سے آنسو نکل گیا۔انھوں نے آنکھوں سے چشمہ ہٹا کر آنکھ صاف کی۔
رومائزہ ساکت رہ گئی۔بے یقینی سے اس نے حلیمہ بی کو دیکھا۔آنکھوں سے آنسو پھسل رہے تھے..چہرے پہ ایک رنگ آتا اور دوسرا جاتا۔
"تمھارے تایا کی فیملی بھی اس سے آکر مل چکی تھی۔پر انھیں اس نے تب تک کچھ خبر نہیں ہونے دی تھی۔آخری وقت میں اسکے پاس کمرے میں صرف میں ہی موجود تھا۔"
         اس نے بس جیسے آخری لفظ ادا کیے تھے۔
"حسن میرا وقت پورا ہوگیا ہے۔میری بیٹی کا تم خیال رکھنا۔میں ایک اچھا باپ ثابت نہیں ہوا،اپنی بیٹی کو دنیا کے چنگل سے بچا نہیں سکا۔میران جاہ سے ممکن ہو تو رابطہ کرنا۔اسے اسکے باپ کے کیے سے آگاہ کرنا۔وہی رومائزہ کو اپنے باپ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
     اسے کہنا کہ احتشام شنواری تمھارے اور روما کے رشتے کے لیے راضی تھا۔اسکے علاوہ اور کوئی میری بیٹی کے قابل نہیں۔اسے کہنا کہ وہ میری امانت کا خیال رکھے...."اور انکی سانسیں مدھم پڑتی گئیں آنکھیں اوپر کو چڑ گئیں۔
حسن صاحب بتاتے ہوئے تکلیف سے گزر رہے تھے۔ہر نفس کی آنکھ اشک بار ہوئی تھی۔روما کی آنکھوں سے آنسو مزید تیزی سے پھسلنے لگے۔اسکے باپ کو میران پہ اتنا اعتبار تھا!
"بیٹا میران بلکل بے قصور ہے۔تمھیں اسکا یقین کرلینا چاہیے۔میں نے اپنے دوست کا پیغام تمھیں دے دیا ہے۔اس نے میران کی آنکھوں میں تمھارے لیے محبت دیکھی تھی،بہت سوچ سمجھ کے احتشام نے تمھارے رشتے کا فیصلہ کیا تھا۔بہت خاص سا احساس تھا!احتشام فیصلہ کر چکا تھا جب آپ لوٹو گی تو میران اور آپکا نکاح پڑھوادے گا۔وہ مطمئن تھا۔اس نے میران کو اچھے سے پرکھا تھا۔کوئی عیب اس شخص میں موجود نہیں تھا جسے بنیاد بنا کر شنواری رشتے سے انکار کرتا۔اس قدر وہ تمھاری حفاظت کر رہا تھا کہ احتشام اسکی پیش کش پہ راضی ہوگیا۔میران جب آخری بار اس سے ملنے آیا تھا تو احتشام نے اپنا یہ فیصلہ بھی بتادیا تھا۔جو سن کر میران بہت خوش تھا۔
اور اس ملاقات میں میں خود بھی شامل تھا۔"
   ہر بات سے پردہ اٹھانے کے بعد انھوں نے اسکے سر پہ پاتھ رکھ دیا۔وہ خوب آنسو بے مول کرنے لگی۔اس نے مٹھی سر پہ کئی بار ماری۔پھر شدت سے رونا آیا۔
"آپ کو اب تو یقین آگیا ہوگا سائیں سچ کہہ رہے تھے۔انکی خوشی آپ سے منسلک ہے۔انھیں انکی خوشی لوٹا دیں۔وہ زندہ لاش بن گئے ہیں،ہم سے دیکھا نہیں جاتا۔اندر ہی اندر وہ ختم ہورہے ہیں۔"عزیز بڑے دل سے التجا کرتے بولا۔شمس کو اپنی غلطیوں کااحساس ہوا تو وہ میران کو اس طرح اس قدر سنجیدہ دیکھ نہیں پارہا تھا۔بلکہ بنگلے کا کوئی بھی ملازم!
اس نے عزیز سے بات کی تھی کہ وہ میڈم سے معافی مانگنا چاہتا ہے۔عزیز نے اسے بتایا کہ وہ میران سے ںے حد بدگمان ہیں۔انھیں سچ پتا ہونا چاہیے پر ایسا کوئی جسکی بات پہ وہ یقین کریں۔
اس وقت شمس کو شنواری کے کسی دوست کا خیال آیا تھا۔فیکٹری میں اسے ساتھ دیکھا تھا بس پھر شمس نے میاں حسن کو ڈھونڈ نکالا۔اور انھیں گواہ کے طور پہ رومائزہ کے پاس لے آئے تھے۔
"بچے تم چھوٹے سائیں کے ساتھ غلط کر رہی ہو،محبت کرتے ہیں وہ تم سے۔"حلیمہ بی نے بڑی شفقت سے کہا پر وہ کسی کی سن کہان رہی تھی۔اسکا دماغ تو میران پہ اٹک گیا تھا۔
وہ بے قصور تھا..ہاں وہ بے قصور تھا!کس بات کی اس نے اسے معافی دی تھی؟اس نے شنواری صاحب کی کتنی مدد کی یہ سب تو اس نے بتایا ہی نہیں۔بتا دیتا تو یقین کرلیتی وہ؟
      اسے میاں حسن پہ بہت بھروسہ تھا ایک وہی تھے جو اسکے بابا کے قریبی دوست تھے۔وہ سمجھ گئی تھی کہ انکی کہی ہر بات سچ ہے۔اس نے دے دردی سے آنسو پوچھے۔وہ غیر مرئی نقطے پہ نگاہ جمائے ہوئے تھی۔سب اب اسکی کیفیت سمجھ سکتے تھے۔
روما کے ہونٹ پھڑپھڑانے لگے۔لبوں پہ اس نے انگلیاں جما لیں۔وہ ہولے ہولے لرز رہی تھی۔شرمندگی نے اسے گھیر لیا۔
"اس نے کچھ نہیں کیا...حلیمہ بی میں نے اسکا یقین نہیں کیا۔وہ صفائیاں دیتا رہ گیا۔وہ بہت تڑپ رہا تھا میں نے دیکھا تھا پھر بھی پتھر دل بنی رہی...اللہ۔"چیخ کر کہتے ہوئے اس نے سر ہاتھوں میں دے لیا۔
"اللہ میں پاگل ہوجاؤنگی،یہ سب کیا ہوگیا،میں نے اسے کتنا برا بھلا کہا اتنی بد دعائیں..."اپنے سخت لفظ اسے یاد آنے لگے۔سب کچھ تو میران کو اس نے بول دیا تھا حتی کہ اس کو مرنے تک کی بد دعا دی تھی۔
"آ ااپ کا درد ہم سمجھ سکتے ہیں اس وقت آپ شنواری کی موت کے غم میں تھیں اور سچائی سے ناواقف تھیں۔"عزیز نے اسے بھپک بھپک کر روتا دیکھ پریشانی سے کہا۔
                           ★ ★ ★
آج چھٹی کا دن تھا تو مراد عائشے کو آئسکریم کھلانے کے لیے نکلا تھا۔
"مراد روما کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں،سفیر بھی اٹلی میں ہے اور انکل آنٹی بھی باہر کہیں گئے ہیں۔"مراد کو ڈرائیونگ کرتے ہوئے دیکھ کر اس نے خواہش کی۔مراد نے سر ہلاتے ہوئے گاڑی کا رخ دمیر ہاؤس کی جانب کرلیا۔
وہ وہاں پہنچے تو چوکیدار نے بتایا تھا کہ رومائزہ بی بی سے ملنے کچھ لوگ آئے ہیں۔عائشے نے اچھنبے سے مراد کو دیکھا۔مراد کے زہن میں جھماکا سا ہوا۔وہ فوراً اندر بڑھا اور عائشے اسکے پیچھے ہی تھی۔
     "یہ یہ سب کیوں آئے ہیں؟"لاؤنچ کے پاس کانچ کے دروازے سے پہلے ہی ان دونوں کے قدم رک سے گئے۔مراد نے اسکی حیرت زدہ شکل دیکھی اور اسکے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کہ اسے خاموش رہنے کی تلقین کی۔
وہ چپ چاپ اسکے ساتھ ایک طرف کو ہوکے وہیں کھڑی تھی۔اندر گفتگو جاری تھی۔اور جیسے جیسے باتیں کلئیر ہوئیں،عائشے کے جسم کا خون نچڑ کر سارا چہرہ پہ مجتمع ہوگیا۔اس نے مراد کا بازو سختی سے پکڑ لیا تھا۔وہ یہ ٹک سامنے بیٹھے عزیز کو دیکھ رہی تھی۔رومائزہ حلیمہ بی اور میاں حسن کی انکی جانب پشت تھی۔
رومائزہ اپنی کم عقلی،پتھر دلی پہ خوب رو رو کر ماتم منا رہی تھی۔عائشے کی آنکھیں نمکین پانی سے لبزیز ہوگئیں۔اس نے مراد کے سینے پہ سر ٹکا دیا۔
"آئی ایم سوری مراد...مجھے یقین کرلینا چاہیے تھا۔"وہ سسک اٹھی۔مراد ںے اسے سہارا دیا اور اسکے بال سہلا کے اسے پیچھے کیا۔
"اب اپنی دوست کو سنبھالو،اب وہ سچ جان چکی ہے اپنی غلطی پہ اسے اور زیادہ تکلیف ہوگی۔"مراد پیار سے اسے کہہ کر اندر بڑھا۔عزیز اسے دیکھ کر گڑبڑا کے کھڑا ہوگیا۔مراد اسی کے پاس چل کر آیا۔
"میران کو پتا ہے تم لوگ یہاں آئے ہو؟"
"نہیں...تم بھی مت بتانا۔پلیز۔"یہ التجا نہیں تھی۔یک لفظی بات تھی۔مراد سر ہلا کہ رہ گیا۔
غضنفر اور بتول واپس آچکے تھے۔پورچ میں انکی گاڑی رکنے کی آواز اندر تک آئی۔
     اندر جب وہ داخل ہوئے تو ان سب کو پاکر حیران ہوئے۔میاں حسن نے فوراً اپنا تعارف کروایا پر وہ انھیں ہاسپٹل میں احتشام شنواری کے ساتھ دیکھ چکے تھے تو پہچان گئے۔حسن سے تو وہ بہت اچھے سے ملے تھے۔باقی عزیز،عبدل شمس کو وہ جانتے پہچانتے نہیں تھے۔حلیمہ بی نے اپنا حوالہ دیا کہ فارم ہاؤس میں رومائزہ انھی کے پاس تھی انھوں نے ہی اسکا خیال رکھا تھا۔رومائزہ انکے ساتھ لگی رو رہی تھی۔بتول اور غضنفر اتنا اندازہ لگا چکے تھے وہ ان خاتون سے کافی اٹیچ ہے۔اس لیے انکے حوالے سے دل میں کوئی غلط تاثر پیدا نہیں ہوا۔
"انکل یہ لوگ میران کی سچائی بتانے آئے ہیں،اس پہ جو غلط الزام لگائے گئے انھیں صاف کرنے۔"مراد نے کہتے ہوئے عزیز کو اشارہ کیا۔جس نے الف سے یے تک کی ساری روادار سنا دی اور درمیان میں حسن نے بھی بات رکھی تھی۔
دونوں میاں بیوی نے حیرت انگیز انداز میں رومائزہ کو دیکھا۔دونوں ہی ایک ریگرٹ میں پڑ گئے۔کچھ دیر بعد وہ سکتے سے باہر نکلے۔
میران کے حوالے سے وہ حیران پہلے ہی تھے اب جاکے ایک تسلی کا احساس ہوا تھا۔وہ اسے ایک اچھا شخص ہی تصور کرتے تھے....رومائزہ کے واقعے کے بعد میران کے بارے میں انکی رائے بدلی تھی۔اپنی بھتیجی انکو اس سے زیادہ عزیز تھی۔
رومائزہ میں کسی کا مزید سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی اٹھ کے اپنا وجود گھسیٹتی کمرے میں چلی گئی۔سب اسے تکتے ہی رہ گئے۔بتول اور غضنفر کا دل تیزی سے دھک دھک کر رہا تھا۔
انکے بھائی نے تو میران کو رومائزہ کیلیے چنا تھا....اب؟اب تو فیصلہ رومائزہ کا تھا کہ وہ کس کو چنتی ہے۔جو اسکے ساتھ ہے؟یا وہ جس نے راہیں تو جدا کرلیں پر پل پل اسکی یاد میں تڑپ رہا ہے۔
میاں حسن نے اپنا نمبر غضنفر کو دے دیا تھا۔تاکہ بعد میں آرام سے کانٹکیٹ کرسکیں۔احتشام شنواری کے اپارٹمنٹ اور فیکٹری کی رقم انھوں نے لوٹانی بھی تھی جو انکے پاس اب تک امانت کے طور پہ محفوظ تھی۔
آہستہ آہستہ سب چلے گئے لاؤنچ خالی ہوگیا۔بس وہ چار رہ گئے تھے۔عائشے نے بتول کو کچن سے پانی لاکر دیا۔غضنفر بھی پریشان سے بیٹھ گئے۔
"کسی پہ بہتان لگانا یہ چھوٹا گناہ نہیں ہے۔"غضنفر سوچ و افکار میں گم بڑبڑائے۔
"یہ کام تو اسکے باپ نے ہی کیا ہے،آپ لوگ خود کو پریشان مت کریں۔ایک وقت ایسا تھا میں بھی دھوکے میں میران کو غلط سمجھ رہا تھا۔رومائزہ کو اس نے میرے ولیمے پہ سچ بتایا تھا پر اس نے یقین نہیں کیا۔"مراد ان کے ساتھ ہی صوفے پہ ٹک گیا۔
"مجھے نہیں معلوم اس بارے میں کچھ،ورنہ میں خود بات چیت کرتا اور تحقیق کرتا۔میری بھتیجی مجھ پہ بوجھ نہیں پر میں اسکی زندگی کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔مجھے لگا کہ وہ میران کو دیکھ کر شاید پریشان ہوگئی ہے،پر اصل بات یہ تھی.."وہ دونوں میاں بیوی الجھ کے رہ گئے۔کسی کے ساتھ بھی وہ نا انصافی کے حق میں نہیں تھے۔
"غضنفر صاحب وہ کمرے میں بند ہے کہیں کچھ کر نہ لے۔پتا نہیں کب اسکی زندگی میں سکون آئے گا۔"
بتول نے خشک حلق پانی سے تر کرتے ہوئے کہا۔مراد نے عائشے کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔
"آپ فکر نہ کریں،ہم دیکھ لیں گے۔"مراد کے پیچھے ہی عائشے اٹھ کے اسکے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
عائشے نے لاک پہ ہاتھ رکھا۔جہاں وہ توقع کر رہی تھی کہ دروازہ لاک ہوگا پر توقع کے برعکس دروازہ کھلتا چلا گیا۔
اسکے کمرے میں کوئی کھڑکی موجود نہیں تھی۔نائٹ بلب کی روشنی سے کمرہ نیم تارک تھا۔ان دونوں نے کمرے میں نظر گھمائی تو وہ بیڈ کے آگے بچھے کاؤچ سے پشت ٹکائے فرش پہ بیٹھی تھی۔نگاہوں کا مرکز سامنے کی دیوار تھی۔خشک لب آدھ کھلے تھے۔رونے کے باعث حلق میں کانٹے ابھر آئے۔
اسے دیکھ کر عائشے کا دل کٹ کے رہ گیا۔
عائشے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر اسکے پاس آئی۔مراد جیبوں میں ڈال کر اسکے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا تھا وہ فارمل ڈریسنگ میں تھا۔نیوی بلو شرٹ کے ساتھ نیلی جینس پہنی تھی۔ماتھے پہ بال ڈھلک رہے تھے۔ہاتھ میں رسٹ واچ موجود تھی۔
ان دونوں کی آہٹ پہ رومائزہ نے چہرہ اٹھایا آنسوؤں سے لبالب آنکھیں دیکھ عائشے پریشان ہوگئی۔
"کتنا ظلم کرتی ہو ان آنکھوں پر،کچھ تو رحم کرو اپنی حالت پہ۔"عائشے نے اسکے گرد شانے پھیلا کر کہا۔
"مم میں بہت بری ہوں عائشے بہت بری،چلی جاؤ تم کہیں میری منحوسیت تمھیں نا لگ جائے۔مجھ سے ہر چیز دور چلی جاتی یا میں قدر نہیں کرتی۔وہ کہتا رہ گیا کہ بے گناہ ہے پر میں..."لفظ منہ میں دم توڑ گئے،بھپکتے ہوئے اس نے مٹھیاں بھینچ کر سر پہ ماریں۔اسکی الٹی سیدھی بکواس سن کر عائشے گرم ہوئی۔
    "فضول بکواس مت کرو۔سب اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔تمھاری عقل پہ پردہ پڑا تھا اب ہٹ گیا۔تم معافی مانگ لینا وہ معاف کردیگا۔بد گمان میں بھی اس سے بہت تھی میں بھی اپنے رویے کی معافی مانگوں گی۔"وہ اسے پچکارنے لگی۔رونے کے درمیان ہچکی لیتے اس نے سر اٹھایا اور بازو عائشے کے گلے میں ڈال کر اسے سختی سے خود میں بھینچا۔
"کس منہ سے معافی مانگوں گی؟بہت غلط کیا ہے میں نے اسکے ساتھ۔ایک وہی تو میرا رہبر میرا محافظ تھا اسی پہ شک کیا!دنیا کی باتوں میں آگئی۔سچ جاننے کے بعد بھی اسکا یقین نہیں کیا۔اتنی بدگمان ہوگئی اس سے میں۔"
اس کے آغوش میں وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔مراد کی آنکھوں کے عارض بھیگ سے گئے۔
اتنی شدت...کیا اسے میران سے محبت تھی؟مراد اور عائشے نے ان دونوں کو ایک دوسرے کیلئے تڑپتے دیکھ لیا تھا۔
"رومائزہ سنبھالو خود کو،تمھیں سچ اس لیے تو نہیں بتایا کہ اپنی حالت خراب کرکے بیٹھ جاؤ۔"مراد نے اسے تسلی دیتے کہا۔
"مراد بھائی میں کیا کروں تو؟میں اتنی پتھر دل نہیں تو اس کے معاملے میں کیسے ہوگئی۔میں اسے ڈیزروو کرتی ہوں بھی نہیں۔اچھا ہوا اس نے الگ راہ کرلی۔میں اسکے قابل نہیں ہوں۔ہمیشہ اسے تکلیف دیتی ہوں۔وہ سب کا احساس کرتا ہے اور میں نے اسی کا احساس نہیں کیا۔اسکی ایک نہیں سنی۔"وہ مر رہی تھی،بلک بلک کے روتی چلی گئی۔پچھتاوے کا احساس بڑا جان لیوا ثابت ہوا تھا۔
جو محبت اس نے نفرت کے پیچھے چھپا لی تھی اب وہی اسے کوڑے سے مار رہی تھی۔اپنی ہی باتیں اسے یاد آرہی تھیں کہ محبت پہ تو یقین کیا جاتا ہے معاف کیا جاتا ہے بھروسہ کیا جاتا۔تو کیا اسکی محبت پہ یہ سب عائد نہیں تھا؟
"چندا غلطیاں ہم انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔اور ہم انسان ہی انھیں درست کرتے ہیں۔اب اٹھو شاباش۔پیپر کی تیاری تم نے کرلی؟کتنے پیپر رہ گئے تم لوگوں کے؟"مراد نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔عائشے نے رومائزہ کے منہ پہ چسپاں بھیگے بال ہٹا کر پیچھے کیے۔وہ پسینہ پسینہ ہورہی تھی۔رونے سے منہ کی رال تک باہر نکل آئی۔
"بس دو پیپرز رہ گئے۔اسی ہفتے میں مکمل ہوجائینگے۔"عائشے نے اٹھ کر ڈریسنگ سے ٹشو اٹھا کر لاتے ہوئے جواب دیا۔اسکا چہرہ صاف کرکے ٹشو ڈسٹ بن میں پھینکا.وہ دبی دبی آواز میں سسک رہی تھی۔
"میں اسکے پاس رک جاؤں؟آپ رات میں مجھے لینے آجائیگا۔اور پیپر کی تیاری بھی تقریباً میری اور روما کی ہو چکی ہے۔"عائشے نے مراد کو دیکھ کر پوچھا۔تو وہ سر ہلا کے اٹھ کھڑا ہوا۔
"خیال رکھنا اسکا..."نرمی سے مراد نے عائشے کو کہا اور رومائزہ کی طرف نگاہ کی۔
"اور تم اب رونا نہیں۔سکون سے ایگزامز دو پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔تب تک سفیر بھی آجائیگا۔"وہ بڑے بھائیوں کی طرح رعب دار انداز میں تلقین کرتے بولا۔عائشے مسکرادی۔روما نے سہم کر سر ہلایا۔تو مراد کے لبوں مسکراہٹ بکھر گئی۔عائشے اٹھ کے اسکے پاس دروازے تک گئی۔
"سوری۔مجھے پتا ہے بہت دنوں بعد آپکو چھٹی ملی تھی..."
اس نے شرمندہ ہوکر کہا۔دونوں نے طے کیا تھا آج باہر گھومیں پھریں گے اور عائشے نے رومائزہ کو بھی ساتھ لے چلنے کا ارادہ کرلیا تھا۔وہ تو اچھا ہی ہوا وہ لوگ یہاں آگئے۔
"خیر ہے پھر کبھی،دس بجے آؤنگا لینے۔"ایک نظر رومائزہ کے ساکت وجود پہ ڈال کر اس نے عائشے کے ماتھے پہ لب رکھے۔عائشے کی آنکھیں پھیل گئی۔جب تک کچھ سمجھ کر غصہ کرتی وہ جا چکا تھا۔اس نے جھٹ پلٹ کر رومائزہ کو دیکھا جو نم آنکھوں سے مسکرا رہی تھی۔عائشے شرمندہ سی ہوگئی۔
"ہنسو مت..تمھارا بھی وقت آئے گا۔"عائشے نے جھینپ مٹاتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔اس نے سوچ لیا تھا اب رومائزہ کو رونے نہیں دیگی،وہ بہت رو چکی تھی،سچ جان کر اب وقت فیصلے کا آگیا تھا۔
                          ★ ★ ★
دائم نیمل کو ساتھ لے کر شاپنگ سینٹر آیا ہوا تھا۔ایک شاپ سے وہ باہر نکلے تو دائم نے اسے مخاطب کیا۔نیمل جو اردگرد آوٹ لیٹز کے شیشوں کے پیچھے ڈمی میں موجود کپڑے دیکھنے میں مصروف تھی اسکی آواز پہ چونک کر اسکی جانب پلٹی۔
دائم نے ایک ہاتھ میں تین چار شاپنگ بیگس تھامے ہوئے تھے اور دوسرے میں گاڑی کی چابی گھما رہا تھا۔
"دو گھنٹے ہوگئے ہیں تمھارے ساتھ خوار ہوتے ہوتے۔یہ لیڈیز کو شاپنگ میں اتنی دیر کیوں لگتی ہے آج پتا چل گیا۔فورڈ کورٹ چلو پہلے کچھ کھالیتے ہیں۔"چل چل کر اب اسکے انداز سے تھکان محسوس ہورہی تھی۔
"بس ابھی سے تھک گئے؟شادی کے بعد کیا ہوگا پھر؟"آنکھوں کی پتلیاں نچا کر اس نے کہا۔
"تم اپنی ساس کے ساتھ جانا شاپنگ پہ۔"وہ سرینڈر کردینے والے انداز میں گویا ہوا۔
"آپکا پورا کریڈٹ کارڈ خالی کرکے آیا کرونگی۔"
نیمل مسک کر کہتی اسکے ساتھ فورڈ کورٹ کی جانب لفٹ کے ذریعے اوپر والے مالے پہ جانے لگی۔
ایک سائڈ پہ خالی بینچ دیکھ کر وہ دونوں اپنا سامان رکھ کر وہیں بیٹھ گئے۔
"جی میڈم کیا لے کر آؤں؟"بیرا فوراً چلا آیا۔
"بھائی یہاں کے گول گپے مزے کے ہوتے ہیں؟"بیرے نے عجیب تاثر سے اس لڑکی کو دیکھا۔دائم موبائل چیک کرتے ہوئے مسکرایا تھا۔
"بھائی ایک گول گپے کی پلیٹ کردو،دو سینڈوچز اور ایک کافی!"
دائم نے ہاتھ کے اشارے سے کہا بیرا آرڈر نوٹ کرکے واپس مڑ گیا۔
"مجھے نکاح کی تک سمجھ نہیں آرہی۔ہم رخصتی بھی تو اسی وقت ساتھ کرسکتے تھے نا۔"دائم نے موبائل ٹیبل پہ رکھ کر پیٹھ کرسی کی پشت سے ٹکا لی اور بے قراری سے بولا۔نیمل نے شکنیں ماتھے پہ جمع کیے گھور کے اسے دیکھا۔
"اب زیادہ فری نا ہوں،مجھے اتنی جلدی شادی نہیں کرنی۔"
"اور میں دو ماہ سے زیادہ مزید صبر نہیں کرونگا۔تمھاری اسٹیڈیز چل رہی ہوتی تو ایک الگ بات ہوتی۔"اس نے حتمی انداز میں کہہ کر فورڈ کورٹ میں نگاہ دوڑائی۔
"پر..."نیمل نے مذمت کرنا چاہی دائم نے ٹوک دیا۔
"اٹس فائنل۔نو مور آرگیومنٹس!"اس نے پہلے سے ہی تہیہ کرلیا تھا کہ آج نیمل کو رخصتی کے لیے منا کر رہے گا۔اور اسی وجہ سے وہ خوب اسکے ساتھ دو گھنٹے سے خوار ہورہا تھا۔
      "بہت برے ہیں آپ،لوگ اپنی بیویوں کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے آپ زرا سا صبر نہیں کرسکتے کیا؟اور اتنے بے دلی سے شاپنگ کروا رہے ہیں جیسے احسان کر رہے ہوں۔میں بھائی کے ساتھ آتی نا تو وہ بولتے میری بہن تم چھ گھنٹے بھی لگاؤ مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔"
وہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے غصہ ہورہی تھی۔دائم کے ماتھے ہہ انگنت بل پڑے۔
"تفف ہے..اے ایس پی کے پاس بڑا ٹائم ہے۔"وہ سوچ ہی سکا زبان پہ لاکر اپنی شامت تو بلوانی نہیں تھی۔
"اچھا ایسا کتنی بار اس نے کہا ہے؟"وہ حیرت چھپائے بغیر بولا۔
"ایک بھی بار نہیں۔میں تو سجل آپی یا مام کے ساتھ شاپنگ کرتی ہوں۔میں تو بس آپکو ایک بات بتا رہی ہوں کہ بھائی اتنے اچھے ہیں۔"اسکی بات سن کر دائم نے سانس بھر کے اسے دیکھا۔
"یہ وہی بھائی ہے جو تمھارے اور میرے رشتے کے خلاف تھا۔"دائم نے جتا کر چوٹ کی۔نیمل نے آنکھیں پھاڑ کے اسے دیکھا۔
"واٹ ڈو یو مین؟آپ مجھے طعنہ مار رہے ہیں؟سنیں وہ میرے بھائی ہیں ہر طرح سے جانچ پڑتال کرکے انھوں نے میرا ہاتھ آپکے ہاتھ میں دیا۔کسی بھی ایرے غیرے نتھو غیرے کے ساتھ نکاح پڑھا کے سر سے بوجھ اتارنے والوں میں سے نہیں ہیں وہ،تھوڑی غلط فہمی تھی جو بروقت دور ہوگئی۔"وہ منہ بنا کر ایک طرف کر گئی۔
بھائی کے خلاف ایک لفظ وہ سننے کو تیار نہیں تھی۔دائم مسکرائے بنا رہ نہ سکا۔نگاہیں اسکے من موہنے چہرے پہ مرکوز تھیں۔بال کیچر سے آزاد،پنکھے کی ہوا سے چہرے کو چھو رہے تھے۔لبوں پہ لالی موجود تھی۔اور ہاتھ کی انگلی میں دائم کی گفٹ کی انگھوٹی وہ پہنے ہوئے تھی۔وہی ہاتھ اس نے تھوڑی کی نیچے ٹکایا ہوا تھا۔
"بس نہیں کہتا سالے صاحب کو کچھ،تم ایسے منہ تو مت پھلاؤ،قسم سے بلکل معصوم نہیں لگتی اس طرح۔"آنکھوں میں شرارت لیے اس نے چھیڑا۔
"پہاڑی بکرے آپ بھی اچھے نہیں لگتے فضول کے ٹینٹرمز دکھاتے ہوئے۔"
دائم یک دم اسکے لقب پہ ہکا بکا سا رہ گیا۔ہاں وہ اسکے لومڑی کہنے کا حساب برابر کر گئی تھی۔
                             ★ ★ ★
میران شام میں بنگلے پہنچا۔اسے زولفقار کے دستخط کی ضرورت تھی اور کچھ ضروری بات بھی کرنی تھی الیکشن کے متعلق۔باپ تھے وہ اسکے،اسے انکی کمی محسوس ہورہی تھی۔اپنے کمرے میں اس نے کچھ دیر سوچا کہ جائے یا نہیں پھر ہمت کرکے کمرے سے باہر نکل گیا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔
اسے اندازہ تھا زولفقار جاہ کو اب بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہوگا اور حقیقت بھی یہی تھی وہ اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائے بیٹھے تھے۔
    "چھوٹے سائیں بڑے سائیں تو یہاں نہیں ہیں۔"
ملازم نے اسے سیڑھیوں سے نیچے اتر کے پلر کے پاس سے راہداری میں زولفقار کے کمرے کی طرف جاتے دیکھا تو بولا۔میران کے ماتھے کے درمیان بل پھیل گئے۔
"کہاں گئے ہیں؟"بھنوو اچکا کر اس نے پوچھا۔
"پتا نہیں...پر شمس کے ساتھ ہی گئے ہیں۔"
ملازم ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔میران نے سر ہلایا تو پلٹ گیا۔میران نے اپنی لائیبریری کا رخ کیا۔زولفقار کے خیالات اس نے جھٹکے تھے۔وہ ان سے نفرت کر نہیں پاتا تھا۔انکے لیے بس اسکا دل اچاٹ ہوگیا تھا۔
لائیبریری میں کھڑکیوں سے روشنی آرہی تھی۔اس نے اندر دوسرے روم کی جانب قدم بڑھا دیے۔معمول بن گیا تھا اس کمرے میں آنا اور اس پیٹنگ کو دیکھنا۔
اس نے یہ مکمل کروالی تھی۔وہ یہ خود نہیں بنارہا تھا کسی جان پہچان کے آرٹسٹ سے اس نے یہ بنوائی تھی۔جو یہاں آکر ہی اسے اسکے سامنے بناتا تھا۔
پہلے تو وہ بڑے شیشوں کی دیوار کی جانب آیا۔باہر باغ میں جھانکا۔شام کا وقت،مالی گھاس کی کٹائی کر رہا تھا۔اور ملازم باہر چائے پیتے ہوئے ہنس بول رہے تھے۔اس نے پردہ ڈال دیا۔پلٹ کر اپنی ٹیبل تک آیا جسکے پاس ہی اسٹینڈ کھڑا تھا اور لال ریشم کا کپڑا اس پہ ڈھکا ہوا تھا۔اس نے ہاتھ بڑھا کے کپڑا ہٹا کر کاؤچ پہ رکھ دیا۔مبھم سی زخمی مسکراہٹ کو ہونٹوں نے چھوا۔آنکھوں کے عارض پہ نمی آگئی۔وہ نمی اس نے اندر اتار کے سانس خارج کی۔
وہ سیاسی سرگرمیوں میں قدرے مصروف ہوچکا تھا۔الیکشن سے پہلے کا ملک میں شور برپا تھا۔وہ پہلی بار الیکشن لڑنے کے لیے پرجوش بھی تھا۔اسکی زندگی کا مقصد صرف ملک کے لیے جینا تھا پھر ایک دن رومائزہ زندگی میں آگئی،اور پھر اسے لگا اب اسے خود کے لیے بھی جینا ہوگا۔۔اور وہ جینے لگا تھا۔اسکی زندگی میں بہت بڑا بدلاؤ آیا تھا۔
اور پھر وہ دور چلی گئی...سب ختم سا ہوگیا زندگی مزید گھٹن زدہ ہوگئی۔وہ محبت میں کھائے زخموں کی وجہ سے ملک کے لیے جو اس پہ فرائض لاگو تھے انھیں ترک نہیں کرسکتا تھا،خود کو اسی طرف مصروف کردیا۔
اسکی ذات محبت اور وطن کے درمیان تھی ہی کہاں!
وہ دنیا کی دولت اپنے پاس رکھتا تھا پر محبت کا کیا جو نہ ملنے پہ خریدی بھی نہیں جاسکتی!اور بھلا محبت کی سوداگری بھی کہیں ہوتی ہے؟اس نے کی بھی نہیں تھی۔پھر بھی دنیا کے جہاں کے الزام اس کی محبت پہ لگے تھے۔
    میران جاہ کی محبت کو داغ دار کردیا گیا تھا۔
وہ ابتدا میں تو ایک انجانے میں خطا کرچکا تھا پھر تکبر پہ توبہ کرلی اور سب ٹھیک کرنا چاہا،سب ٹھیک ہونے لگا اور پھر ریت کی طرح سب بکھر گیا....جو جرم اس نے کیا ہی نہیں اسکی سزا کاٹ رہا تھا۔
ہاتھ بڑھا کے اس نے پوروں سے پیٹنگ کو چھوا۔اسے دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔تو جھٹکے پیچھے ہٹا کر تیز دھڑکن کے ساتھ تیزی سے باہر نکل گیا۔
وہ یاد آتی تو اسکی بے اعتباری بھی یاد آنے لگتی،اور پھر اسکا سفیر سے شادی کا فیصلہ جو اسے نچوڑ کے رکھ دیتا تھا۔اسے لگتا تھا وہ اگلی سانس نہیں لے پائے گا۔
                           ★ ★ ★
آج آخری پیپر تھا۔ان تینوں نے سکھ کا سانس اب لے لیا تھا۔روما کو ڈرائیور لینے آچکا تھا وہ ان دونوں سے الوداعی کلمات کہتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
وہ سب کو ہی اپنا فیصلہ بتا چکی تھی کہ سفیر سے ہی نکاح ہوگا۔میران اسے تو کوئی اچھی صاف دل کی لڑکی ملنی چاہیے رومائزہ شنواری نہیں۔وہ میران جاہ کے قابل نہیں تھی،نہ ہی میران اسے ڈیزروو کرتا تھا۔یہ اسکا اپنا کہنا تھا۔
انوش اور عائشے اسکے فیصلے کے آگے خاموش ہوگئیں تھیں۔عائشے نے مراد کو جب یہ بتایا تو اسے اب رومائزہ پہ غصہ آگیا تھا۔اس لڑکی کا دماغ کیا کھسکا ہوا تھا؟میران کو اس بات سے ان لوگوں نے بے خبر ہی رکھا تھا کہ وہ سچ جان چکی ہے۔مراد نے پہلے اسکے فیصلے کا انتظار کیا تھا۔اور جب اسکا فیصلہ سنا تو امید ٹوٹ کے رہ گئی۔وہ کس منہ سے میران کو یہ بات بتاتا اسی لیے رہنے دیا وہ مزید تکلیف سے دوچار ہوجاتا کہ سب جاننے کے بعد بھی وہ سفیر سے ہی شادی کرنا چاہتی ہے!!
     زرپاش اور ارباز نے اسے سمجھا بجھا کے ٹھنڈا کیا تھا کہ جس میں وہ خوش ہو وہی کرنے دو،تو وہ سفیر سے شادی کے لیے خوش تھی؟مراد کو تو پہلے دن سے کبھی اسکے چہرے پہ سفیر کے نام سے مسکراہٹ نہیں دکھی۔وہ میران کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار تھا بس ایک بار سفیر واپس آجائے تو وہ سوچ چکا تھا سیدھا اس سے بات کرے گا۔سفیر سمجھدار تھا حالات سمجھتا تھا۔پر کیا یہ سب آسان تھا؟
باقی زرپاش بھتیجے کے لیے بے حد بے بس تھیں،رومائزہ کے فیصلے کا احترام کرکے خاموش رہیں۔سفیر اچھا لڑکا تھا اور رومائزہ کا یہ فیصلہ اپنی مرضی کا تھا۔اوپر سے میران وہ رومائزہ کے ساتھ رشتہ بنانے میں زور زبردستی کا قائل نہیں تھا اسی وجہ سے انکو خاموش ہونا پڑا۔
                            ★ ★ ★
حلیمہ بی اپنا فون نمبر بتول کو دے کر گئی تھیں۔میاں حسن نے بھی شنواری صاحب کی امانت انکے حوالے کردی تھی۔رومائزہ نے انکو کال ملائی۔وہ بہت دنوں بعد پرسکون ہوئی تھی۔چوتھی گھنٹی پہ انھوں نے کال اٹھا لی۔
"اسلام و علیکم،حلیمہ بی میں رومائزہ بات کر رہی ہوں۔"
فون کان سے لگائے اس نے کہا۔حلق میں گولا سا بھر کے معدوم ہوا۔
"وعلیکم السلام۔میرا بچہ کیسی ہو،مجھ سے غلطی ہوگئی اپنا نمبر دے گی۔تمھارا نمبر لے کر جانا چاہیے تھا۔کب سے تمھاری کال کا انتظار کر رہی تھی۔"
حلیمہ بی کے شکوؤں کی لسٹ مزید لمبی چلتی روما نے مسکرا کر بات کاٹی۔
"بس ایگزامز میں مصروف ہوگئی تھی۔آج آخری پیپر تھا سکون ہوگیا ہے۔مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔"
اس نے بیک مرر سے آگے ڈرائیور پہ نگاہ ڈالی۔وہ سامنے سڑک کو دیکھ ڈرائیونگ میں مصروف تھا۔
"ہاں کہو،کیا چھوٹے سائیں کے حوالے سے بات کرنی ہے؟"انکے لہجے کی خوشی وہ فون کے پار بھی محسوس کرچکی تھی۔وہ زخمی سا مسکرائی۔
"نہیں...مجھے شمس کے بیٹے سے ملنا ہے۔میرا دل چاہ رہا ہے اس بچے سے ملوں۔حلیمہ بی میں نے اسکے بیٹے کا کبھی برا نہیں چاہا بلکہ شمس کو بھی میں اتنا جانتی ہی کہاں تھی۔"وہ خوفزدہ ہوئی۔بد دعائیں تو اس نے بس میران کو ہی دی تھیں اور اب جی بھر کر شرمندہ تھی۔چلو بھر پانی بھی بہت تھا ڈوبنے کے لیے۔دوسری پار اسکی بات سن کر حلیمہ بی مسکرائیں۔
"بلکل۔تم مجھے بتادو کب جاؤگی؟میں عزیز کو بھیج دونگی تمھیں لینے وہ ہاسپٹل لے جائے گا۔"
"نہیں عزیز بھائی کو پریشان نہ کریں۔آپ مجھے ایڈریس بتادیں۔میں مراد بھائی کے ساتھ آجاؤنگی۔"اس نے سر جھکا کے گود میں رکھے بائیں ہاتھ کو دیکھا پھر ونڈو کے پار نگاہ ڈالی۔  
       گاڑی پل پہ چڑھ رہی تھی۔دو بل بورڈز لگے تھے۔اور ایک وہی میران کا بھی تھا۔اس نے فون کان سے ہٹا کر بے ساختہ اسکی ویڈیو بنالی تھی۔اور کال ہولڈ پہ سے ہٹا کر فون واپس کان پہ لگایا۔لبوں پہ اسکے دیکھ مسکراہٹ پھیلنے لگی۔اسے ایک دم میران کو دیکھ اپنی خوش گوار کیفیت کا اندازہ ہوا تو سرد مہری سے لب بھینچ لیا۔
حلیمہ بی نے اسے ایڈریس بتایا اور مختصر ہی اسکی ان سے بات ہوسکی۔کال کاٹ کر اس نے مراد کو فون کھڑکا دیا۔وہ سفیر کے ساتھ چلی جاتی پر وہ یہاں تھا ہی نہیں۔اسکا ارادہ اب سفیر کا اسکیچ مکمل کرنے کا تھا۔
مراد نے اسے ایک ریسٹورنٹ کے قریب آنے کا کہا تھا وہاں سے وہ خود اسے پک کرکے لے جاتا۔
         مراد کے ساتھ وہ ہاسپٹل پہنچ چکی تھی۔اس معصوم سے بچے کو نلکیوں میں جکڑے دیکھ اسے جھرجھری سی آئی۔اسکے سر کے بال سارے جھڑ چکے تھے۔
"آپکا نام کیا ہے؟"اسکے پاس کھڑے ہوکر رومائزہ نے پیار سے پوچھا۔شمس کی بیوی مسکرا رہی تھی۔
مراد اپنے یونیفارم میں تھا،جیبوں میں ہاتھ ڈال کر بیڈ کی پائینتی کی طرف کھڑا تھا۔
"میرا نام عمر ہے۔اور آپکا؟"
"میں رومائزہ ہوں۔آپکی طبیعت اب کیسی ہے؟"رومائزہ نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ لیا اور مسکراتے ہوئے پوچھا۔عمر نے سر خم کردیا۔عزیز کو حلیمہ بی نے رومائزہ کے ہاسپٹل آنے کی اطلاع کر دی تھی....وہ بھی وہیں پہنچ چکا تھا اور دیوار سے پیر ٹکائے کھڑا منظر دیکھ رہا تھا۔
"ٹھیک ہوں،پر درد بہت ہوتا ہے۔"وہ اداسی سے بولا روما کا دل کٹ کر رہ گیا۔
"میں آپکے لیے دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جلدی سے صحت یاب کردے۔پھر آپ اسکول جانا اور ڈھیر سارا پڑھ کے مما بابا کا نام روشن کرنا۔"رومائزہ مسکرا کر اس سے باتیں کرتی رہی۔مراد اسے دیکھتا رہا۔
شفاف دل کی وہ لڑکی تھی زمانے نے اسے کیسا پتھر دل بنا دیا تھا۔زرپاش کی باتیں اسے سہی لگی تھیں۔رومائزہ کی باتوں کا عمر خوب جواب دے رہا تھا۔
"آپکے لیے میں کچھ لے کر آئی ہوں۔"اس نے تجسس پیدا کیا تو عمر کچھ جگہ سے اچکا۔
"لیٹے رہو،میں دکھاتی ہوں۔"اس نے نیچے رکھی چاکلیٹس اور ویفرز سے بھری باسکٹ اسکے سامنے کی۔جسے دیکھ عمر کی خوشی سے بانچھیں کھل اٹھیں۔
"امی یہ آپی بہت اچھی ہیں انھیں روز بلا کریں۔"عمر کے چہرے پہ خوشی رقص کرنے لگی۔
"ہاہا...پر یہ روز تمھارے لیے چاکلیٹس نہیں لائیں گی۔"عزیز ہنستے ہوئے اسکی بات سے محظوظ ہوتا ہوا پاس آیا۔وہ رومائزہ سے آنکھیں نہیں ملا رہا تھا نا اس میں ہمت تھی کہ اسے دیکھتی۔
تھوڑی دیر مزید گپ شپ کے بعد وہ جانے کے لیے پلٹی۔
"میڈم جی بہت شکریہ یہاں آنے کا،شمس نے مجھے سب بتایا یے۔وہ بہت شرمندہ ہے...اسے معاف کردیں۔"رومائزہ نے سرد مہری سے سر ہلایا۔اسنے بولنے کے لیے لب کھولے تھے کہ وارڈ کا دروازہ اندر کی جانب کھلا۔
زولفقار جاہ اندر داخل ہوئے تھے اور پیچھے انکے شمس تھا۔
رومائزہ وہیں پتھر کی ہوگئی۔چہرہ سرخ پڑگیا۔نفرت کا ٹھاٹھیں مارتا طوفان اسکے سینے میں اٹھا تھا۔آخرکار گہنگارِ اول سے سامنا ہوگیا تھا۔زولفقار اسے دیکھ رک سے گئے۔مراد بھی ٹھٹھک سا گیا۔وہ رومائزہ کے تھوڑا پاس جاکے کھڑا ہوگیا۔
رومائزہ نے دانت پیسے اور انکے مقابل جا کھڑی ہوئی۔انھوں نے ناگواری سے اسے دیکھ کر نظر ہٹائی تھی۔
وہ عمر سے ملنے آئے تھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہاں مل جائے گی۔مراد تو خود ان سے نفرت کرتا تھا۔وہ دونوں کے ہی دشمن تھے اور سامنے کھڑے تھے۔انکے چہرے پہ کسی قسم کی شرمندگی نہیں تھی بلکہ ڈھٹائی سے طنزیہ مسکراہٹ اچھال کے ان دونوں کو نظر انداز کرتے آگے بڑھنے لگے۔روما بیچ میں حائل ہوئی۔
      "کیسے انسان ہیں آپ؟بلکہ آپ انسان ہیں بھی کہ نہیں؟مجھے تو لگا تھا آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہوگا پر میری غلط فہمی تھی۔دوسروں کی زندگی کو تو جہنم بناتے تھے اپنے بیٹے تک کو نہیں چھوڑا؟"
وہ قدرے تلخی سے مضبوط لہجے میں مخاطب ہوئی تھی۔عزیز کے چہرے پہ زولفقار کو دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔
"لڑکی اپنی اوقات میں رہو۔"
انھوں نے سر تا پیر اسکا جائزہ لیا۔وہ لان کی کرتی میں ملبوس دوپٹہ گلے میں مفلر کی طرح ڈالے ہوئی تھی۔اس نے مقابل کھڑے اس شخص کو دیکھا جسکے وہی پرانے ٹھاٹ بھاٹ تھے۔
"میں اپنی اوقات میں ہی ہوں۔پر آپ شاید اپنی اوقات بھول چکے ہیں جاہ صاحب!اور اللہ مٹی کے پتلے کو اوقات یاد دلانا اچھے سے جانتا ہے۔جتنا آپ نے لوگوں کی زندگیوں میں زہر گھولا۔حتی کہ اپنی سگی بہن تک کو نہیں بخشا،اللہ اس سب کا آپ سے حساب ضرور لے گا۔میں تو دعا کرتی ہوں کہ آپ پر رحم ہی کرے کیونکہ اسکی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔"
وہ درشتگی سے بولی۔مراد کے لبوں پہ بھی تنفر بھری مسکراہٹ تھی۔زولفقار نے اسے دیکھا۔مراد انھیں مخاطب کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔رومائزہ مزید رکی نہیں تھی اس شخص سے سر پھوڑنا اسے گوارا نہیں تھا پر دل کی بھڑاس ضرور باہر نکال گئی تھی۔زولفقار اس لڑکی کی ہمت پہ دنگ رہ جاتے تھے جو دو ٹوک آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بنا ڈرے ان کا سامنا کیا کرتی تھی۔
"ماموں جان کتنے لوگوں کا دل دکھائیں گے؟دولت ہی سب کچھ نہیں۔اپنے پیاروں کے چہرے پہ آپکی وجہ سے ایک مسکراہٹ اہم ہوتی ہے جو آپ چھین چکے ہیں۔اور اپنے بیٹے تک کی مسکراہٹ آپ نے چھین لی ہے!"
مراد ان کے کان کے قریب سرسراتے انداز میں دروازے کی چوکھٹ کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے گرم سرگوشی کرتا رومائزہ کے پیچھے ہی نکل گیا۔اسکے ماموں جان کہنے پہ ان کے اندر عجیب سا احساس جاگا تھا۔
پہلی بار وہ اس احساس سے روشناس ہوئے تھے۔انکے اپنے قریبی تو بہت تھے جیسے دمیر فیملی پر وہ سب کو اپنے ہاتھوں سے کھو چکے تھے،دور کردیا تھا۔وہ وہیں گنگ کھڑے رہ گئے۔شمس نے انکی ساکت نگاہوں میں جھانکا۔عزیز پاس سے ہنکار کے باہر نکل گیا تھا۔وہ خود کو نارمل کرکے عمر کے پاس آگئے۔
           رومائزہ نے پارکنگ میں آکے گہری سانسیں لیں۔
"مراد بھائی آپ میرے فیصلے پہ مجھ سے خفا ہیں نا؟پر میں کچھ نہیں کرسکتی۔اللہ کو یہی منظور ہے۔میری وجہ سے وہ اتنا پریشان ہوا ہے،میں اسے خوشی نہیں دے سکتی۔"اسکے بولنے پہ مراد کا گاڑی کا دروازہ کھولتا ہوا ہاتھ ٹھہر گیا۔
"تمھیں یہ کس نے کہا کہ تم اسے خوشی نہیں دے سکتی؟اسے خوشی ہی تم سے حاصل ہے!"
وہ برہم ہوا۔
"مجھ میں ہمت ہی نہیں کہ اسکا سامنا کرسکوں۔کیسے اسکے ساتھ خوش رہونگی اور اسے خوش رکھ سکونگی؟"مراد نے صبر کا گھونٹ پی لیا۔
اسکی بیس کی عمر تھی۔مراد نے اسکا سر تا پیر جائزہ لیا۔وہ خود کو مضبوط اور عقل مند ظاہر کرتی تھی۔اور وہ ایسی تھی بھی،پر اس معاملے میں اس لڑکی نے عقل سے پیدل فیصلے کیے تھے۔مراد سرد آہ بھر کے رہ گیا۔
"اگر کبھی اپنا فیصلہ غلط لگے تو بتانے میں دیر مت کرنا،فیصلہ پہ غور کرنا نکاح سے پہلے کی مدت میں!"لب پیوست کرتا وہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔
"میرا فیصلہ بدل نہیں سکتا۔"وہ دو ٹوک بولی۔گاڑی میں بیٹھ کے دروازہ بند کرکے نگاہ باہر جما لی۔مراد نے کڑوا گھونٹ پی کر خاموشی برت لی۔اسے گھر چھوڑ کے وہ خود پولیس اسٹیشن چلا گیا۔
                          ★ ★ ★
گھر آکے زولفقار نہا کر باہر آئے۔عشاء کی اذانیں ہورہی تھیں۔انکا سر پھٹنے کو آیا۔انھوں نے کنپٹی پہ رکھ کے اسے دبایا۔رومائزہ اور مراد کے جملے ہتھوڑے کی مانند ذہن میں برس رہے تھے۔بیس پچیس سال پہلے والی زرپاش کا آنچل آنکھوں میں لہرایا۔
انکے کئی روپ....وہ جو بھائی جان بھائی کرتے تھکتی نہیں تھیں۔شہوار سے ڈانٹ پڑوانے کے بعد انھیں منانے آیا کرتی تھیں۔ان سے بے حد محبت کرتی تھیں۔تو ایک بہن کی محبت کا انھوں نے یہ صلہ دیا کہ سب کچھ ان سے چھین لیا۔انکے لیے بہت آسان تھی یہ چھینا جھپٹی۔جب وہ سیاست میں دلچسپی لینے لگی تو کچھ واقعات کے بعد زولفقار کو بہن سے نفرت ہوتی گئی کہ باپ کی نظروں میں زرپاش نے انھیں کرپٹ شخص جو ظاہر کردیا تھا۔زرپاش کا ملتجی چہرہ یاد آنے لگا۔
"ماموں جان کتنے لوگوں کا دل دکھائیں گے؟"
"خدا آپ پر رحم کرے!"
"بابا سائیں میری خوشیاں مجھے لوٹا سکتے ہیں؟"
"بھائی جان مجھے بابا کا آخری دیدار تو کرنے دیں..."
"زولفقار صاحب میری بیٹی کی جان بخش دیں۔میں قرض اتار دونگا...."
چیخوں،التجاؤں اور غصے بھری آوازوں سے سر گھومنے لگا انھوں نے سر کو سختی سے ہاتھوں میں جکڑ لیا۔کنپٹی اور سینے میں درد کی شدت بڑھ گئی۔جب ناقابلِ برداشت ہوئی تو وہ آخری چیخ کے ساتھ تھرتھراتے ہوئے قالین پہ اوندھے منہ گر گئے۔
ملازم انکی آواز سن کر گھبرائے اور کمرے میں پہنچے۔انکو بے ہوش دیکھ فرید اوپر میران کے کمرے کی طرف دوڑا۔
    میران کاؤچ پہ بیٹھا پیر ٹیبل پہ ٹکائے سکون سے کتاب پڑھ رہا تھا۔ملازم کے تیز تیز دروازہ بجانے پہ اس نے بدمزگی سے اٹھ کے دروازہ کھولا۔فرید کی حیران و پریشان شکل اور چڑھتی سانسوں کو دیکھ اسکی پیشانی پہ بل نمودار ہوئے۔اس نے ایک ابرو اچکائی۔
"چھوٹے سائیں نیچے چلیں۔بب بڑے جاہ بب بے ہوش ہوگئے ہیں۔"
فرید کے حواس باختہ ہکلا کر کہنے کی دیر تھی وہ الٹے قدموں سیڑھیوں کی طرف لپکا اور نیچے انکے کمرے تک کو پہنچا۔
دروازے پہ اسکے قدم چند لمحے کے لیے رکے۔وہ بے ہوش پڑے تھے۔ملازم ان کے ارد گرد جمع تھے۔میران دوڑ کے ہانپتا ہوا انکے پاس پہنچا۔باپ کا سر گود میں رکھا۔
"کیا ہوا ہے انھیں؟"وہ سر اٹھائے دھاڑا۔
"سس سائیں انکی چیخ سن کر ہی ہم آئے ہیں۔"فرید نے خشک لبوں پہ زبان پھیر کر بتایا۔میران نے چہرہ ان پہ جھکا لیا۔
"بابا ہوش میں آئیں۔فرید گاڑی نکلواؤ اور عزیز کو بلا کر لاؤ۔"وہ حواس سنبھالتے ہوئے حکم آمیز لہجے میں بولا۔
                       جاری ہے۔
Don't forget to vote and comment..
Bary Jaah ka bura waqt ab aya hai🙃

 

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now