قسط نمبر 2

3 0 0
                                    

رنگ لگیا عشق دا

قسط نمبر 2

*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*

کبیر حیدر علی شاہ کی گاڑی شاہ حویلی کی حدود میں داخل ہوئی تو اُسےدور سے دیکھتے ہی اپنے کمرے کی کھڑکی کے قریب کھڑی بیگم زرمینہ حیدر علی شاہ کے ماتھے پر بلّوں کا جال بنا تھا۔ سِلک کے اسٹائلش سے نائٹ گاؤن میں ملبوس وہ اس وقت اپنی صبح کی چائے سے لُطف اندوز ہو رہی تھیں جب اُنکی خاص ملازمہ نے آ کر انہیں یہ خبر دی کہ آج حیدر کی آمد متوقع ہے اور تب سے اُنکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ایسا کیا کریں جس سے حیدر کو جلد سے جلد یہاں سے واپس بھیج سکیں۔

سالوں پہلے انکی چلی ہوئی ایک چال نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دۓ تھے کہ کبیر اس حویلی کااِکلوتاوارث ہوتے ہوئے بھی یہاں شازو نظر آتا تھا، اور جب کبھی بھی یہاں آتا تھا تو رات کو حویلی میں نہیں بلکہ اپنے ڈیرے پر قیام کرتا تھا۔
لیکن بیگم زرمینہ شاہ کو یہ بھی گنوارانہیں تھا کیونکہ کبیرکے یہاں ہوتے ہوۓانہیں ہر وقت اپنے اُس برسوں پرانے راز کے کھل جانے کا ڈر لگا رہتا تھا- اِسی لئے وہ کبیر کو ہمیشہ حیدر علی شاہ سے دور رکھنا چاہتی تھیں اور ایسا کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی تھیں۔

ہر بار جب انہیں کبیر کے آنےکی خبر ملتی تو اس کی آمد سے پہلے ہی وہ کسی طرح حیدر شاہ کو حویلی سے باہر بھیج دیتی تھیں تاکہ انکا کبیر سے سامنا نہ ہو سکے- لیکن اس بار ان کے لۓ ایسا کرنا ناممکن تھا کیونکہ کبیر رانیہ کی شادی کے لئے حویلی آیا تھا اور شاہ جی کو وہ اُن کی بیٹی کی شادی کے موقع پر تو کسی بھی بہانے سے حویلی سے باہر نہیں بھیج سکتی تھیں۔ بس یہی بات انہیں پچھلے ایک ہفتے سے پریشان کر رہی تھی، انہیں ہر صورت میں کوئی ایسا راستہ نکالنا ہی تھا جس سے وہ کبیر اور شاہ جی کو ایک دوسرے سے دور رکھ سکیں۔ یہی سوچتے ہوئے وہ اپنے بستر کی طرف آئیں اور سائیڈ ٹیبل سے اپنا فون لیتے ہوئے جلدی سے کسی کا نمبر ڈائل کیا۔

ہیلو مِسز شاہ، آپ کیسی ہیں؟

فون کی دوسری طرف سے کسی لڑکی کی نرم مگر سنجیدہ آواز سنائی دی تھی۔

ٹھیک ہوں۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے میرال۔

انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے سیدھا کام کی بات کی تھی۔

زہِ نصیب، مِسز شاہ۔ آپ بس حکم کریں۔

ابھی کے لئے میرا حکم بس یہی ہے کہ تم کل تک حویلی آ جاؤ۔ باقی باتیں ہم آمنے سامنے بیٹھ کر کریں گے۔

اوکے۔

اُس نے بس ایک لفظی جواب دیتے ہوئے کال کاٹ دی تو مِسز شاہ نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔ یوں جیسے انہیں اندازہ تھا کہ میرال یہی کرنے والی ہے کیونکہ وہ ایسی ہی تھی۔ سیدھی اور صاف بات کرنے والی۔ فالتو بولنا اس کی عادت نہیں تھی۔ شاید اسی لئے اُسے منانامسز شاہ کے لئے مشکل ہونے والا تھا لیکن اُنہیں یہ کسی بھی حال میں کرناہی تھا اور اُنہیں پورا یقین تھا کہ میرال کو منانا مُشکل صحیح لیکن نامُمکن نہیں ہے۔
*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*'*
رانیہ باجی، خدا کے لئے بس کر دیں۔ چھوٹی بی بی نے آپ کو کِچن میں دیکھ لیا تو وہ صبح صبح سارے ملازموں کی کلاس لگا دیں گے۔

رانیہ صبح فجر کے بعد سے کِچن میں گُھسی، حیدر کے لئے ناشتے کا اِہتمام کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ آلو کے پراٹھے سے لے کر ڈارک چاکلیٹ کیک تک، اُس نے حیدر کی پسند کی ہر چیز بنائی تھی اور ابھی بھی وہ دونوں ہاتھ کِچن سلیب پر جمائے سب کو دوپہر کے کھانے کے مینیو کے بارے میں ہدایات دے رہی تھی جب حویلی کی سب سے پُرانی ملازمہ رخشندہ نے اُسے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا تو رانیہ نے گردن ترچھی کرتے ہوئے اُسے دیکھاتھا۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Apr 20 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

Rang Lageya Ishq DaWhere stories live. Discover now