6

317 51 24
                                    

"میری کسی بھی چیز کو بلا ضرورت ہاتھ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نا ہی میری غیر موجودگی میں گھر سے ایک بھی قدم باہر نکالنا۔تمہیں میں اپنے ساتھ یہاں امی کی ضد کی وجہ سے لے آیا ہوں مگر بہتر یہی ہوگا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو اور مجھے میری زندگی میں مصروف رہنے دو۔"
رات میں وہ لوگ معید کے فلیٹ پہنچے تھے۔ معید اس وقت شدید تھکا ہوا تھا اور صرف آرام کرنا چاہتا تھا۔ وہ أرام کی غرض سے اپنے کمرے میں جا رہا تھا تو دعا بھی اس کے پیچھے چل پڑی۔ اسے اپنے پیچھے آتا دیکھ کر وہ پلٹا دعا جو اپنی دھن میں جا رہی تھی اسے رکتے دیکھ نا پائی اور اس سے ٹکرا گئی۔ معید نے فوراً ہی اسے پیچھے کیا مگر پیچھے سیڑھی ہونے کی وجہ سے دعا کا پیر پھسلا مگر اس سے پہلے کے وہ سیڑھی سے نیچے گرتی معید نے اسے دوبارہ تھام لیا۔ اس اچانک افتاد پر دعا نے ڈر سے آنکھیں میچ لیں اور معید کے دونوں بازوؤں کو اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیا۔اگر معید اسے بروقت نا تھامتا تو وہ یقیناً سیڑھیوں سے گرجاتی۔وہ بالکل اس کے پاس کھڑی تھی معید نے غور سے اسے دیکھا آنکھیں بند کیے چہرے پر خوف تاری کیے وہ اس کے بہت قریب کھڑی تھی۔معید کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا پھر آہستہ سے پیچھے ہٹا اور بغیر کچھ کہے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی جگہ نیا ماحول اور پھر گھر والوں سے جدائی۔ دعا کو بالکل بھی نیند نہیں آ رہی تھی وہ کافی دیر تک کروٹیں بدلتی رہی لیکن نیند نا آنے پر اٹھ بیٹھی اور کھڑکی کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی۔  لاہور کی نسبت اسلام آباد میں کافی سردی تھی۔دعا نے کھڑکی کھول دی تو سرد ہوا کا جھونکا اس نے چہرے سے ٹکرایا اور وہ مسکرائی۔ اسے یہ ماحول بہت پسند تھا۔ بچپن سے ہی اسے پہاڑ، بارش، گہری خاموشی یہ سب چیزیں بہت فیسینیٹ کرتی تھیں۔ وہ ہر سال اپنے والدین کے ساتھ سیر پر ضرور جایا کرتی تھی۔ اپنے والدین کے خیال پر وہ اداسی سے مسکرائی۔ وہ انہیں بہت یاد کرتی تھی۔ بے شک سب اسے بہت پیار کرتے تھے اس کا بہت خیال کرتے تھے مگر سب کی زندگی میں اس کے علاؤہ بھی بہت سی priorities تھیں جبکہ اگر اس کے والدین ہوتے تو وہ ان کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی۔ اپنے ہمسفر کے بارے میں بھی اس نے بہت سے خواب دیکھے تھے وہ سمجھتی تھی کہ جو کمی اس کے والدین کی دوری کی وجہ سے اس کے دل میں رہ گئی ہے شاید وہ کسی کے اس کی زندگی میں س جانے سے پوری ہوجائے گی۔ اسے کوئی ایسا انسان مل جائے گا جو صرف اس کا ہوگا۔ جس کے لیے وہ سب سے زیادہ اہم ہوگی۔ جس سے وہ اپنی ساری باتیں کر سکے گی۔ جس سے وہ اپنی ساری خواہشات کا اظہار کر سکے گی مگر جو بھی ہوا تھا وہ اس کے خوابوں کے بالکل برعکس تھا۔  معید نے تو کبھی اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی تو وہ اس کی خواہشات کو کیسے سمجھتا۔
دعا اپنی سوچوں میں اتنی گم تھی کہ اسے احساس ہی نا ہوا وہ ٹھنڈی زمین پر ننگے پاؤں کھڑی تھی۔ کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی جبکہ اتنی شدید سردی میں وہ کسی بھی سویٹر یا شال سے عاری تھی۔
"دعا!" رات کے کسی پہر معید کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر کھڑکی کی طرف گئی جہاں دعا اتنی ٹھنڈ میں بغیر کسی سویٹر یا شال کے کھڑی تھی جبکہ اس کا بخار ابھی مکمل طور پر نہیں اترا تھا اور اس کی طبیعت اب بھی نا ساز تھی۔
معید کی آواز پر بھی وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی اور اپنی سوچوں میں گم رہی۔ وہ شاید اپنی سوچوں میں اتنی مگن تھی کہ معید کی آواز سن ہی نہیں پائی تھی۔ چونکی تو وہ تب جب اپنے پیچھے معید کی موجودگی کا احساس ہوا۔

"کب سے آوازیں دے رہا ہوں تمہیں۔ کون سی سوچوں میں مگن ہو۔"
وہ اس کے سامنے کھڑا غصے سے کہہ رہا تھا۔

"وہ میں۔۔۔"
اس کے اچانک سوال پر وہ بوکھلائی۔ معید نے آگے بڑھ کر کھڑکی بند کی۔

"تمہارا دماغ بالکل ہی چل گیا ہے جو اتنی ٹھنڈ میں کھڑکی کھول کر کھڑی ہو اور وہ بھی بغیر کسی سویٹر کے اور ٹھنڈی زمین پر ننگے پاؤں۔ پھر بیمار پڑ جاؤ گی تو مجھ سے بالکل امید مت رکھنا تیمار داری کی۔"
وہ اسے جھڑکتے ہوئے بولا تو وہ بیڈ پر آ گئی اور کمبل میں گھس کر بیٹھ گئی۔

"مجھے آپ سے کسی قسم کی بھی کوئی امید نہیں ہے۔"
وہ آہستہ آواز میں بڑبڑائی مگر معید اس کی ںڑبڑاہٹ سن چکا تھا۔

"اچھی بات ہے۔ انسان کو امیدیں وابستہ کرنی بھی نہیں چاہیں۔ بہت تکلیف دیتی ہیں۔"
اس کی بات کے جواب میں وہ سنجیدگی سے بولا۔

"انسان کو دوسرے انسانوں کے رویے بھی بہت تکلیف دیتے ہیں۔ انہیں کیسے نظر انداز کیا جائے؟ "
وہ بھی اسی کے انداز میں بولی۔ معید نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا مگر وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔
معید نے اس کی بات کا کوئی بھی جواب دیے بغیر لیمپ بند کیا اور اپنی جگہ پر لیٹ گیا۔ دعا بھی خاموشی سے لیٹ گئی اور نیند آنے کا انتظار کرنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح بھی ان دونوں نے ایک دوسرے سے مخاطب ہونا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ دعا وقت پر ہی اٹھ گئی تھی اور کچن میں چیزیں ڈھونڈ کر ناشتہ بنا رہی تھی جب کمرے سے مسلسل معید کے موبائل پر کالز آ رہی تھیں۔ دعا کافی دیر اگنور کرتی رہی مگر جب کالز بند نا ہوئیں تو کچن میں چلی آئی۔ معید نہانے گیا ہوا تھا دعا کو مجبوراً کال ریسیو کرنی پڑی۔ کوئی ایمرجنسی بھی ہوسکتی تھی ورنہ کوئی بھی مسلسل اتنی دیر کال نا کرتا۔

"ابے یار معید کہاں تھا تو۔ کب سے کال کر رہا ہوں۔ سر ارشد کی کال آئی تھی۔ جس اسائنمنٹ کی کاسٹ ڈیٹ ہم اگلے ہفتے کی تصور کیے بیٹھے ہیں وہ کل کی ہے۔ یار اتنا بڑا دھوکا کیسے لگ گیا ہمیں۔"
فون اٹھاتے ہی فون کرنے والا اپنی دھن میں بولے ہی جا رہا تھا۔

"اب بول بھی پڑ۔ صدمے سے کیا بے ہوش ہو گیا ہے؟ "
مسلسل خاموشی پر وہ چڑھ کر بولا۔

"وہ دراصل معید شاور لے رہے ہیں۔"
نسوانی آواز پر سفیان نے فون کان سے ہٹا کر دیکھا کہ کہیں غلط نمبر تو نہیں ملا بیٹھا۔ بھلا معید کے فون سے کوئی لڑکی کیسے بول سکتی ہے۔ جبکہ معید کی تو کوئی بہن بھی نہیں تھی۔

"آپ کون۔۔؟ "
سفیان نے تجسس بھرے لہجے میں سوال کیا۔ دعا کچھ دیر شش و پنج میں مبتلا رہی کہ کیا جواب دے۔

"م۔۔میں معید کی وائف ہوں۔"
کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ بولی تو سفیان کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
معید جو ابھی واش روم سے نکلا ہی تھا دعا کے الفاظ سن چکا تھا اور آگے بڑھ کر اس سے فون چھین بھی چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Bohat time bad is story ko b complete krne ka khayal a hi gya.
Ab inshallah jaldi jaldi updates dia krungi.
Bs ap log feedback b dia krain jese pehle dia krte they takey me b pehle jesa likh skun.

WAR OF HEARTS💓Where stories live. Discover now