7

356 53 40
                                    

"م۔۔میں معید کی بیوی ہوں۔"
ابھی اس نے یہ بات بولی ہی تھی کہ معید اس کے ہاتھ سے موبائل چھین چکا تھا مگر سفیان پہلے ہی اس کی بات سن چکا تھا اور بات سن کر غش بھی کھا چکا تھا۔
"سفیان میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔ تم پہنچو یونی میں بھی آ رہا ہوں تھوڑی دیر میں۔"
سفیان کے کوئی بھی سوال کرنے سے پہلے اس نے جلدی سے کہہ کر کال بند کردی اور پھر دعا کی طرف پلٹا۔

"تمہارا دماغ خراب ہے؟ کیا کہہ رہی تھی تم فون پر سفیان سے۔"
وہ اس کا رخ اپنی طرف کرکہ غصے سے دھاڑا۔

"میں کچھ بھی نہیں کہہ رہی تھی بس یہی بتا رہی تھی کہ میں کون ہوں۔"
وہ اس کا ہاتھ اپنی بازو سے ہٹاتے ہوئے بولی مگر معید نے اس کا بازو اور زور سے دبوچا۔

"بہت شوق ہے تمہیں اپنا تعارف میری بیوی کے طور پر کروانے کا؟ "
وہ غصے سے بولا۔

" جو میرا تعارف ہے میں وہی بتاؤں گی سب کو."
وہ بھی سنجیدگی سے بولی۔

"اتنا بڑا مسئلہ کھڑا کردیا ہے تم نے میرے لیے۔ میرے کسی بھی دوست کو نہیں پتا تھا کہ میری شادی ہوچکی ہے اور اب تم نے یہ نیا شوشا چھوڑ دیا ہے۔ سب کے سامنے اب مجھے کتنی شرمندگی کا سامنہ کرنا پڑے گا۔"
وہ غصے سے کہہ رہا تھا۔ اس کی آخری بات پر دعا نے اسے حیرت سے دیکھا۔

"ہمارا تعلق آپ کے لیے شرمندگی ہے ؟"
دعا نے دکھ سے پوچھا۔

"ہاں تو ظاہر ہے۔ کیا جواب دوں گا میں اب سب کو کیوں نہیں بلایا سب کو اپنی شادی پر یا بتایا بھی کیوں نہیں۔ "
وہ جوابا چڑتے ہوئے بولا ۔

"تو بلا لیتے سب کو۔ بتا دیتے سب کو۔ اس میں اتنا چھپانے والی کیا بات تھی۔ "
وہ بھی اس کے جواب میں سنجیدگی سے بولی۔

"کیا بتاتا کہ میری ماں مجھے ایموشنل بلیک میل کر کے ایسی لڑکی سے میری شادی کروانا چاہتی ہیں جس سے میں بالکل بھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ "
وہ تلخی سے بولا۔

"ہاں ساری مجبوریوں کے پہاڑ تو آپ پر ہی ٹوٹ پڑے ہیں۔ "
وہ بھی تلخی سے بولی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔

"ناشتہ بن گیا ہے۔ کرتے جائیں۔"
وہ تیار ہو کر گھر سے باہر نکل رہا تھا جب کیچن میں سے دعا نے اسے آواز دی۔ 

"تم خود بیٹھ کر کرو اور جشن مناؤ اپنی شادی کا۔"
غصے سے کہتا وہ گھر سے باہر نکل گیا۔

"عجیب ہیں۔ ایسے کر رہے ہیں جیسے میں نے گن پوائنٹ پر شادی کی ہے ان سے یا مری جا رہی تھی میں ان سے شادی کرنے کے لیے۔ میری بلا سے سارا دن بھوکے پڑے رہیں مجھے کیا "
غصے سے کہتی اس کا ناشتہ پٹخ کر وہ اندر آ گئی۔ صبح ہی صبح کی بد کلامی سے اس کا بھی ناشتہ کرنے کا اب بالکل بھی دل نہیں کر رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  سارا دن اس نے اپنا سامان سمیٹنے اور گھر کی چیزیں دیکھنے میں لگایا تھا اور سب اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کھانا بناتی اس لیے انتظار کرنے لگی کہ معید آئے گا تو اس سے کہہ دے گی کہ کھانا باہر سے لا دے۔ معید کی صبح سے کوئی خبر نہیں تھی دعا جانتی تھی کہ وہ یونیورسٹی کے بعد آفس چلا جایا کرتا تھا مگر اس کی واپسی کا کوئی علم نہیں تھا دعا کو اس لیے وہ اس کا انتظار کرنے لگی۔ رات کے دس بجنے والے تھے مگر معید اب تک گھر نہیں آیا تھا۔ دعا سب گھر والوں سے بات کر چکی تھی اس کے پاس معید کا نمبر بھی تھا اور اسے اب معید کی فکر ہورہی تھی مگر اس نے پھر بھی کال نہیں کی تھی کیونکہ صبح وہ اس سے جتنی بدکلامی کر کے گیا تھا اس کے بعد وہ اس سے گھر آنے کا تو بالکل نہیں پوچھنے والی تھی۔ اس کا انتظار کرتے کرتے اسے پتا ہی نہیں چلا تھا کہ صوفے پر لیٹے لیٹے ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ کچھ ساری رات بھی وہ بے آرام رہی تھی اور صبح سے تھکاوٹ کی وجہ سے وہ گہری نیند سو چکی تھی۔

معید رات بارہ بجے کے قریب گھر میں داخل ہوا تھا۔ 
آفس سے تو وہ سات بجے ہی فارغ ہوجایا کرتا تھا مگر آج وہ آفس کے بعد دوستوں کے ساتھ بیٹھا رہا پھر یونہی گلیوں میں پھرتا رہا۔ دعا کی وجہ سے وہ جلدی گھر نہیں جانا چاہتا تھا نا ہی اس سے مخاطب ہونا چاہتا تھا۔ اسی لیے وقت گزارنے کے لیے وہ باہر پھرتا رہا اور اب جب کافی دیر ہوچکی تھی اور ٹھنڈ بھی کافی بڑھ گئی تھی اس لیے وہ مجبوراً گھر واپس آ گیا۔
گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر لیونگ کے صوفے پر سوئی دعا پر پڑی جو اتنی ٹھنڈ میں بغیر کسی کمبل کے سکڑ کر سو رہی تھی۔ 
معید سر جھٹک کر اپنے کمرے میں چلا گیا کپڑے تبدیل کر کے وہ واپس آیا تو وہ ہنوز ویسے ہی سکڑ کر سو رہی تھی۔

"دعا۔۔"
معید نے اسے دو تین بار آواز دی مگر وہ بہت گہری نیند میں تھی۔

"دعا۔۔ اٹھ کر اندر کمرے میں جا کر سو جاؤ۔"
وہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ معید بھی اتنا تھکا ہوا تھا کہ اٹھ کر اسے اٹھانے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔

"بھنگ پی کر سو گئی ہے لگتا ہے۔"
وہ بڑبڑا کر بولا اور صوفے سے ایک کویشن اٹھا کر دعا کو دے مارا۔ اسی طرح سے دوسرا ، تیسرا اور پھر چھوتا کیوشن لگنے پر دعا نے مندی مندی آنکھیں کھولیں تو وہ اپنی کامیابی پر مسکرایا۔

"اٹھ جاؤ میڈم کیا بھنگ پی کر سو رہی تھی۔"
اس کے اٹھتے ہی وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔ دعا نے پاس گرے کیوشنز کو دیکھا اور معید کو گھورا۔

"یہ کیا بیہودہ طریقہ ہے کسی کو جگانے کا۔"

"جب تم ایسے دنیا جہان سے بے خبر ہو کر سو گی تو یہی ہوگا۔ اس کے علاؤہ تمہیں اٹھانے کے لیے میرے پاس اور کوئی طریقہ نہیں تھا۔ "
وہ کندھے اچکا کر بولا تو دعا اسے نظر انداز کرتی کمرے کی طرف بڑھی۔ وہ اس وقت اتنی تھکی ہوئی تھی کہ صرف سونا چاہتی تھی اور معید سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔

"ارے دھیان سے۔۔ کیا ہوگیا ہے۔"
ابھی وہ کچھ قدم آگے بڑھی ہی تھی کہ اس کا سر چکرایا اور وہ گرتے گرتے بچی کیونکہ معید پہلے کی اسے تھام چکا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے پوچھتا وہ اس کے حصار میں ہی بیہوش ہوچکی تھی جبکہ معید اسے پریشانی سے دیکھ کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

So here's an another update.
Btw my old readers how are you?
Let's have some talk❤️

WAR OF HEARTS💓Where stories live. Discover now