8

655 66 39
                                    

وہ پریشان سا اسے دیکھ رہا تھا جو اس کی بازوؤں میں ہی نیم بیہوش ہو چکی تھی۔
"کیا ہوگیا ہے دعا۔ اٹھو۔۔"
وہ اسے آوازیں دے کر جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ دعا نے زرا سی آنکھیں کھولیں پھر دوبارہ موند گئی۔ معید اسے صوفے تک لایا اور صوفے پر لٹا دیا۔ اب وہ پریشان تھا کہ کیا کرتا۔ زندگی میں ایسی سچویشن کا سامنہ اس نے کبھی نہیں کیا تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے زہن میں خیال آیا کہ ان کے فلیٹ میں ایک ڈاکٹر رہتا تھا۔ گو کہ وہ لڑکا ابھی ڈاکٹر بنا نہیں تھا مگر شاید اس کی ہاؤس جاب ہی چل رہی تھی۔ معید کے پاس اس کا نمبر تھا اس لیے معید نے فوراً سے اسے کال کی۔ کچھ ہی دیر میں وہ لڑکا ان کے پورشن میں موجود تھا۔

"کوئی ٹینشن والی بات نہیں ہے معید بھائی۔ یہ کمزوری کی وجہ سے بیہوش ہوئی ہیں۔ ان کی ڈائٹ کا خیال رکھیں بس۔ یہ کچھ سپلیمنٹس لکھ رہا ہوں ایک دو دن انہیں دیں تو یہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی۔"
سعد دعا کو چیک کرنے کے بعد معید سے بولا۔

"ویسے آپ تو اکیلے رہتے تھے۔ یہ کون ہیں؟"
جاتے جاتے سعد نے مارے تجسس کے پوچھ ہی لیا کیونکہ وہ اتنے سالوں سے معید کو ہمیشہ اکیلا ہی دیکھ رہا تھا۔

"وہ۔۔ یہ کزن ہے میری۔ کچھ دن یہاں رہنے آئی ہے۔"
معید گڑبڑا کر بولا تو سعد نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا پھر واپس چلا گیا۔
سعد کے جانے کی کچھ دیر بعد دعا کو ہوش آیا مگر اس کے سر میں اتنا درد ہو رہا تھا کہ وہ اپنی آنکھیں بھی نہیں کھول پا رہی تھی۔

"تم نے کھانا نہیں کھایا تھا کیا؟"
اسے جاگتا دیکھ کر معید نے سوال کیا۔ دعا نے نفی میں سر ہلایا۔

"حد ہوتی ہے دعا لاپرواہی کی۔ میں کوئی چیز تالے میں رکھ کر گیا تھا کیا جو تم اس طرح سے فاقہ کر کہ بیٹھی ہوئی ہے۔ بلاوجہ کا نا شوق چڑھ گیا ہے تمہیں بس مجھ سے تیمار داری کروانے کا۔"
وہ غصے سے بولا۔ ابھی چند لمحے پہلے اس کی حالت دیکھ کر وہ حقیقتاً پریشان ہوگیا تھا۔

"معید میرے سر میں پہلے ہی بہت درد ہے۔ اگر آپ کچھ کھانے کو نہیں دے سکتے تو پلیز مجھے مزید سر درد نا دیں۔ "
وہ بیزاری سے بول کر آنکھیں موند گئی تھی۔ فلحال اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ معید سے لڑائی کرتی۔ جبکہ معید اس کے منہ سے اپنا نام سن کر بے اختیار مسکرایا۔ بچپن سے اپنے نام کے ساتھ اس کے منہ سے بھائی ہی سنتا آیا تھا اور آج صرف معید سن کر وہ اپنی بے ساختہ مسکراہٹ کو روک نہیں پایا تھا۔
سر جھٹک کر وہ دعا کو وہیں چھوڑ کر کچن میں چلا آیا اور آملیٹ کے ساتھ بریڈ کے سلائس گرم کیے چائے بنائی اور ٹرے میں رکھ کر باہر لے آیا۔ اتنے سال اکیلے رہنے کے بعد وہ کوکنگ کرنا جانتا تھا اس لیے اس کے لیے یہ زیادہ مسئلے والی بات نہیں تھی۔
اس نے ٹرے صوفے کے سامنے پڑی ٹیبل پر رکھا۔ دعا تھری سیٹر صوفے پر لیٹی تھی اور آنکھوں پر بازو رکھا ہوا تھا۔ معید بھی اسی صوفے پر بیٹھ گیا اور دعا کی آنکھوں سے اس کا بازو ہٹایا۔ دعا کی آنکھیں سے پتا لگ رہا تھا کہ وہ خاموشی سے رو رہی تھی۔ معید کے اچانک بازو ہٹانے پر وہ بوکھلائی اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ ساتھ ہی آنکھوں سے نکلنے والے گرم پانی کو بھی صاف کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

"تم اب رو کیوں رہی ہو؟ مجھے کیا پتا تھا کہ تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ اگر کچھ نہیں بنایا تھا تو کم از کم مجھے ہی میسج کر دیتی میں آتے ہوئے کچھ لے آتا۔ "
اس کو روتا دیکھ کر وہ زرا نرمی سے بولا۔ جو بھی تھا وہ اکیلی تھی اور وہاں تو سب اس کو ہتھیلی کا چھالہ بنا کر رکھتے تھے اور معید کی ماں کی تو وہ سب سے لاڈلی تھی اگر ان کو خبر ہوجاتی کہ وہ اسے اتنا رلا رہا ہے تو وہ اس کی بہت کلاس لیتیں۔

"آپ کو خود احساس ہونا چاہیے تھا میرا۔ "
وہ روتے ہوئے شکوہ کر رہی تھی۔ آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

"اچھا رو کیوں رہی ہو اب۔"
اسے مسلسل روتا دیکھ کر معید نے اکتا کر سوال کیا مگر وہ جواب دینے کی بجائے ہنوز روتی رہی۔

"بھوک کی وجہ سے رو رہی ہو؟ بنا تو لایا ہوں فلحال یہی کھا لو۔ "
وہ اپنی طرف سے اندازہ کرتے ہوئے بولا کہ شاید اسے زیادہ بھوک لگی تھی اس لیے رو رہی تھی۔

"اس وجہ سے نہیں رو رہی میں۔"
وہ اپنی ناک رگڑتی ہوئی بولی۔

"پھر کس وجہ سے رو رہی ہو۔؟ "

"مجھے سب کی یاد آ رہی ہے۔"
وہ رونے کے درمیان بولی۔

"ابھی صرف ایک دن ہوا ہے تمہیں یہاں آئے۔ ابھی سے اتنا رونا ڈالو گی تو کیسے رہو گی پھر ادھر۔ "
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔ وہ یقیناً سب کے لیے اداس ہو رہی تھی اس لیے رو رہی تھی۔

"اچھا چلو یہ تو کھاؤ پھر ریسٹ کرو۔ صبح سب سے بات کرلینا طبیعت زرا بہتر ہوجائے گی۔ "
وہ اس کی طرف نوالہ بڑھاتے ہوئے بولا تو دعا نے بغیر کسی احتجاج کے کھا لیا۔ اسی طرح وہ اسے کھلاتا رہا اور وہ خاموشی سے کھاتی رہی۔ کھانے کے بعد دعا نے چائے پی اور کمرے میں جا کر سو گئی۔ معید چیزیں سمیٹ کر کمرے میں گیا اور اس پر کمبل ٹھیک کر کے اپنی جگہ پر آ کر لیٹ گیا۔ دعا نے اس کی طرف کروٹ کی ہوئی تھی اور وہ چہرے پر معصومیت لیے گہری نیند میں تھی۔ معید کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا پھر تھوڑی دیر پہلے والی اس کی رونی صورت یاد کر کے وہ مسکرایا پھر دعا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر آنکھیں موند گیا اور کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح جب دعا کی آنکھ کھلی تو اسے اپنی طبیعت کچھ بہتر محسوس ہوئی۔ جب وہ پوری طرح سے نیند سے بیدار ہوئی تو اسے محسوس ہوا کہ اس کا ہاتھ معید کے ہاتھ میں قید تھا جبکہ معید گہری نیند سو رہا تھا۔ دعا نے حیرانی سے معید کے ہاتھ میں قید اپنے ہاتھ کو دیکھا اور آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسی کوشش میں معید بھی جاگ چکا تھا اور دعا کا سرخ چہرہ دیکھ کر وہ مسکرایا مگر پھر بغیر تنگ کیے وہ اس کا ہاتھ چھوڑ گیا۔ دعا بغیر کچھ کہے بیڈ سے اٹھ گئی جبکہ اس کی حرکت پر معید مسکرا کر رہ گیا۔ کل سے نجانے کیوں وہ بار بار مسکرا رہا تھا جبکہ وہی معید کتنے ہی دن سے اس رشتے کو لے کر کتنا بیزار اور غصے میں رہنے لگا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sorry for late but I was very busy.

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Aug 22, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

WAR OF HEARTS💓Where stories live. Discover now