قسط اول (من پنچھی)

4.4K 121 42
                                    

تیرے عشق نے بخشی ہے یہ سوغات مسلسل
تیرا زکر ہمیشہ،تیری بات مسلسل
میں محبت میں اس مقام پہ ہوں جہاں
میری ذات میں رہتی ہے تیری ذات مسلسل

دو ماہ قبل!
        صبح صادق کے وقت سورج بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا پورے آسمان کو روشن کر رہا تھا۔لاہور میں واقع بنگلہِ جاہ کے ملازم اپنے کاموں میں لگ چکے تھے۔خانساماں نے جھٹ پٹ ناشتہ تیار کیا تو مالی نے چھوٹے سائیں کے جاگنے سے پہلے ہی باغ کے سارے پھول پودوں اور درختوں کو آب سے سرشار کردیا۔مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو ہر سوں پھیل گئی۔
لاہور کی اہم شاہراہ سے گزرتے ہوئے ایک وسیع و عریض جگہ پہ یہ بنگلہ اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ کھڑا تھا۔اس بنگلے کی خاص بات اسکی اندرونی اور بیرونی خوبصورتی تھی۔
جاہ بنگلہ کی بیرونی حدودیں باغ سے گھری ہوئی تھیں اور درمیان میں سفید شاندار بنگلا قائم تھا۔
باغ کے مین دروازے سے راہداروں کے گزر کا راستہ سیدھا بنگلے کے دروازے پہ کھلتا،جو کچھ سڑھیاں کے اوپر تھا۔
بنگلے کے برابر ایک طرف پورچ تھا جہاں لمبی گاڑیوں کی قطاریں کھڑی تھیں۔باغ میں ہر رنگ کے پھولوں کی موجودگی اس جگہ کو مزید خوبصورت بناتی تھی۔اور جب ساون برستا تو اسکی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے۔
     "میاں عزیز تم کہاں جا رہے ہو؟"
کچن سے نکلتے ہوئے خانساماں نے پوچھا عزیز سیڑھیاں چڑھتے ہوئے رکا۔
     "سائیں کے لیے کال آئی ہے انکو جگانے جا رہا ہوں۔"
وہ عجلت میں تھا واپس سیڑھیاں پھیلانگنے لگا ہی تھا کہ خانساماں پھر مکھن آمیز لہجہ اپنائے ہاتھ میں کپ پرچ پکڑے سیڑھیوں تک آیا۔
     "جاہ سائیں جاگ گئے ہیں،،تم انکو قہوہ بھی دے دینا۔"
عزیز فرید کی بات پہ مسکراہٹ سختی سے روکتا کپ پرچ تھام کے سر جھٹکتا ہوا سیڑھیاں عبور کرگیا۔ایسا بھی پتا نہیں کیا تھا جو اس فرید کی چھوٹے سائیں کے سامنے جانے سے جان نکلتی تھی۔
                          ★ ★ ★
دروازے کی دستک پہ وہ بالوں میں ہیئر برش چلاتے ہوئے رکا۔
"آجاؤ عزیز۔"
اسے پتا تھا اتنی صبح سوائے عزیز کے اور کسی میں ہمت نہیں جو دروازہ بجائے۔اجازت نامہ ملتے ہی عزیز مؤدب انداز میں اپنے سائیں کی آرام گاہ میں داخل ہوا۔
     کمرہ سورج کی کرنوں میں نہایا ہوا تھا۔دروازے کے عین سامنے گلاس وال تھی۔جس میں سے شیشے کا ہی ایک دروازہ بالکونی میں کھلتا تھا۔کمرے کے درمیان میں سفید رنگ کا ڈبل بیڈ تھا جسکے چاروں اطراف کالے رنگ کے لکڑی کے ستون کھڑے تھے۔
بیڈ کے سامنے بڑی اسکرین نافذ تھی ساتھ لگی دیوار کے ساتھ ایک دروازہ بڑے سے کمرے میں کھلتا تھا جہاں اسکی واکنگ کلازیٹ تھی اور ایک دروازہ واش روم کی جانب تھا۔دوسری جانب سنگھار میز کھڑی تھی اور اسکے سامنے میران جاہ سنجیدگی سے مکمل وجاہت کے ساتھ کھڑا اپنے بال سنوار رہا تھا۔
"اگر کمرے کا معائنہ ہوگیا تو بتانا پسند کروگے کس کام سے آئے ہو؟"
میران کی آواز پہ عزیز گڑبڑا کے زیر لب مسکرایا وہ جب جب کمرے میں آتا اس کمرے کی نفاست اور بیڈ کے اوپر چھت میں نسب فانوس سے نظریں ہی نہیں ہٹا پاتا تھا۔کمرہ اپنی جانب اسکی توجہ کھینچتا تھا۔
کمرے کی صاف ستھرائی اسکی نفاست کا پتا دے رہی تھی۔
"بلڈر کی کال آئی ہے آپ سے ضروری بات کرنا چاہتا ہے۔میں نے پوچھا بھی پر کہتا ہے سائیں کو ہی بتائے گا۔"
عزیز کا آخری شکوہ سن کے میران نے گھورتے ہوئے اس سے موبائل لے کر کان سے لگایا عزیز چپ چاپ ایک طرف کھڑا رہا۔
"ہاں بولو نیاز۔"
ناک انگلی کی پشت سے رگڑتے ہوئے کہا۔
"اسلام و علیکم...سائیں میں زمین پہ آیا ہوں سارے مزدور میرے ساتھ ہیں،ہم نے آدھا کام تو کروادیا ہے پر باقی اجمل خان کے لوگ مسئلہ کر رہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ باقی زمین ہماری ہے اور یہاں کوئی کھدائی کا کام نہیں ہوسکتا اورر...سائیں سائیں؟؟"
کال منقطع ہوچکی تھی۔
بلڈر کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ مسئلہ سمجھ چکا تھا یہ اپوزیشن کے لوگ مجال ہے جو کوئی کام سکون سے کرنے دیں۔
"کیا ہوا سائیں؟"عزیز نے غصے قابو کرتے میران سے موبائل لیتے ہوئے پوچھا۔
"عزیز گاڑی نکالو فوراً..."
وہ تیزی میں کہہ کر کے دروازے کے پاس پہنچا تھا عزیز کے ہاتھ میں قہوہ دیکھ کر رکا اور ایک سانس میں ہی قہوہ انڈیل کر مٹھیاں بھینچے سیڑھیوں سے اترتا چلا آیا پیچھے ہی عزیز اپنے سائیں کے تیوروں سے پناہ مانگتا ہوا لپکا تھا۔
خانساماں نے نظروں میں ہی عزیز سے معاملہ اخذ کرنے کی کوشش کی تھی جس پہ عزیز نے نظروں سے ہی اسے خاموش رہنے کو کہا۔ابھی تو خود عزیز نہیں جانتا تھا کہ صبح صبح کس کی مت ماری جانے والی ہے۔
                            ★ ★ ★
دس منٹ کے اندر اندر کالی لینڈ کروزر ایک مرمتی علاقے میں رکی تھی۔
عزیز جھٹ دروازہ کھول کر گاڑی سے نکلا اور میران کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے بڑھا ہی تھا کہ وہ خود ہی تیش کے غضب تیور لیے دروازہ کھولتا ہوا صبح کے لباس گرے شرٹ اور بلیک ٹروزار میں ملبوس باہر نکلا۔سفید کسرتی بازو اسکی جاہ دید شخصیت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔
لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہ اپنے مزدوروں کے قریب پہنچا۔بلڈر نے میران کو دیکھا اسکی جان میں جان آچکی تھی کہ میران اب خود معاملہ نپٹا لے گا اور اپوزیشن کے چمچوں کا منہ بند کروانا تو اسکے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔مزدورں نے گھیرا توڑ کے اسکی جگہ بنائی وہ چلتا ہوا نیاز اور اپوزیشن کے آدمیوں کے قریب آیا۔
جہاں نیاز کا چہرہ خوشی سے ٹمٹما رہا تھا وہیں اب مخالف آدمیوں کے اڑتے رنگ دیکھ کر مزدور بھی تمسخر سے انھیں دیکھنے لگے۔

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now