قسط دوئم (یارِ من)

2.6K 67 13
                                    

                           ★ ★ ★
وہ تینوں لاسٹ بینچ پہ بیٹھی لیکچر کے دوران منہ پہ ہاتھ رکھے گپوں میں مصروف تھیں۔
"اچھا سنو ایک بات بتانی ہے میرا رشتہ آیا ہے۔"عائشے کی نظریں بورڈ پہ جمی تھیں البتہ لب کھسر پھسر کر چکے تھے۔انوش اور رومائزہ نے چونک کے اسے دیکھا۔
"تم شادی کر رہی ہو؟"رومائزہ کی بلند آواز پہ پوری کلاس انکی جانب متوجہ ہوئی۔لیکچرار کے مارکر بورڈ پہ بجانے سے واپس سب سیدھے ہوکے بیٹھے۔
"اے بلوچن تم اتنی اہم بات اب بتا رہی ہو!!"انوش نے تپتے ہوئے کہا عائشے کے تیور چڑھے۔
"تو کیا ہیڈ آفس میں جاکے اسپیکر پہ اعلان کرواؤں؟سنو عزیز فیلوز آپکی بلوچن کا رشتہ پکا ہورہا ہے،،شادی پہ سب تگڑا لفافہ لے کر آنا۔"وہ بھی دھیمی آواز میں دانت کچکچاتے ہوئے بولی تھی۔رومائزہ نے تپ کر عائشے کے پیر پہ اپنی ہیل جوں ہی رکھی بس پھر اسکی چیخ کی گواہ گلاس کی در و دیواریں ہوئی تھیں۔
"اسٹینڈ اپ یو تھری!"
لیکچرار کی سخت آواز پہ وہ تینوں جگہ سے کھڑی ہوگئیں۔
"آپ تینوں اتنی دیر سے کلاس میں میس کریٹ کر رہی ہیں۔۔کافی دیر سے آپکو اگنور کر رہی ہوں پر آپکی باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔کونسی اتنی ضروری باتیں ہیں جو لیکچر کے دوران بھی جاری ہیں؟؟"لیکچرار پھٹ پڑی تھی۔وہ تینوں شرمندہ ہونے کی بجائے دانتوں تلے ہنسی دبانے کی ناکام کوششیں کرنے لگیں۔شرمندگی کے آثار چہرے پہ دور دور تک کوسوں نہ تھے۔
"مس عائشے کا رشتہ پکا ہورہا ہے وہی بتا رہی ہیں یہ۔"آگے بیٹھی اریکہ نے ہنسی دباتے ہوئے کہا لیکچرار نے غصے سے ان چاروں پہ نگاہ ڈالی اور پھر پوری کلاس پہ جو بے ساختہ ہنس پڑی تھی۔
"کانگریجولیشنز عائشے۔"
سائیڈ کارنر پہ بیٹھے ہمایوں نے مداخلت کی۔عائشے کا جی کلس گیا۔
"بس اس کمینے کو تو بات کرنے کا موقع چاہیے۔"انوش بڑبڑائی۔
"سوری مس آپ لیکچر کنٹینیو کریں۔"رومائزہ ان سب کی حرکتوں کو دیکھ کر معذرت کرتے ہوئے بولی۔
"یس آئی ول کنٹینیو پر اس سے پہلے آپ تینوں کو علیحدہ کر دوں۔رومائزہ آپ یہاں میرے سامنے آکر بیٹھیں۔"رومائزہ نے منمنا کر لیکچرار کو دیکھا آگے بیٹھنا تو اسکے لیے سب سے مشکل ترین کام تھا۔
"اور انوش آپ مڈل آرڈر میں آجائیں۔رابعہ انکے لیے جگہ بنائیں۔"
"اور مس عائشے؟"رومائزہ فوراً بولی۔
"وہ وہیں اچھی لگ رہی ہیں۔"مس نے جتا کر لیکچر کنٹینیو کردیا تھا اب وہ تینوں ایک دوسرے سے الگ تھلگ بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ لیکچرار کو بھی کوس رہی تھیں۔کلاس ہونے کے بعد تینوں باہر نکل آئیں۔
"چلو چلو آگے بتاؤ رشتے کا کہ لڑکا کیسا ہے؟"
انوش نے ہڑبڑی مچاتے نوٹس بیگ میں ڈالتے ہوئے کہا۔رومائزہ عائشے کے گلے میں ہاتھ ڈال کر اسے چھیڑنے کے لیے تیار اسکے ساتھ چل رہی تھی۔
"اچھا ہے۔"اس نے سہولت سے کہا۔
"اوہ اچھا ہے،،ہینڈسم ہے؟"روما نے بھنوو اچکائی۔
"شٹ اپ یار اور یہ دور ہٹو۔"اس نے اسکا ہاتھ گردن سے نکالا۔
"دلہنیا غصہ ہوگئی۔"انوش نے رومائزہ کے ہاتھ پہ تالی مارتے ہوئے عائشے کو مزید چھیڑا عائشے ان دونوں کے درمیان پھنس چکی تھی۔
"ایسا تو اسکے میاں جی کہیں کچھ دنوں میں۔"
رومائزہ نے عائشے کی ناک کھینچی جس پہ اسکی آنکھیں ابل آئیں..شادی کو لے کر یہ دونوں کیسی سنکیوں جیسی حرکتیں کرنے لگیں گی یہ عائشے کے گمان میں بھی نہیں تھا۔عائشے ان دونوں کو چھوڑ چھاڑ تیز قدم لے کر ہال تک پہنچی وہ دونوں اسکے پیچھے دوڑتی ہوئی جا رہی تھی تب ہی رومائزہ کی ٹکر کسی وجود سے ہوئی۔
"واٹ دا ہیل اندھے ہوگئے ہو؟"رومائزہ غصے سے لبریز چلائی اسکا لہجہ جتنا ٹھہرا ہوا تھا دماغ کی اتنی ہی گرم تھی۔
"جی آپکے پیار میں۔"مقابل کی دلنشینی پہ اسکی رگیں تن گئیں۔
"سستے ہمایوں سعید تمھارا مسئلہ کیا ہے؟"انوش نے مداخلت کی جو ہمایوں نے کانوں پہ اڑائی تھی۔
"رومائزہ احتشام میں کوئی لوفر آوارہ لڑکا ہرگز نہیں ہوں۔تم مجھے پسند ہو اور یہ میں بتانا چاہتا ہوں۔"وہ وضاحت پہ اتر آیا انوش نے ہنکارا بھرا البتہ رومائزہ خاموش تھی۔
"سہی تم لوفر ہر گز نہیں ہو پر تم لڑکیوں سے بات چیت کرنے میں بے حد انٹرسٹ رکھتے ہو۔"رومائزہ نے بے حد سنجیدگی سے سینے پہ ہاتھ باندھے حقیقت بتائی۔
"غلط سمجھ رہی ہو وہ سب تو صرف تم سے بات کرنے کے لیے موقعے ڈھونڈتے رہا ہوں۔کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟"
"بلکل بھی نہیں اور آئیندہ ایسے راستے میں ہر گز مت آنا ورنہ اگلی بار یہ بات برداشت نہیں کرونگی سیدھا منہ توڑونگی۔"وہ غرا کے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے مضبوط لہجے میں بولی۔
"بہت غرور ہے تم میں تو۔"ہمایوں کو اس سے اس لہجے کی توقع ہر گز نہیں تھی وہ تو بڑی نرم طبیعت کی مالک لگتی تھی ہمیشہ اپنی دوستوں کے ساتھ پائے جانے والی پرکشش ٹہھراؤ لہجے والی!
"بہت ہے تم جیسوں کے لیے ہی تو غرور سنبھال کے رکھا ہے الحمدللہ۔"رومائزہ نے بے نیازی سے کہا اور انوش کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھ گئی۔
"انتظار کرونگا کبھی تو یہ غرور ٹوٹے گا۔"وہ لب پیوست کرتا ہوا نکل گیا جتنی اس ہمایوں کی رومائزہ نے تذلیل کردی تھی انوش کا دل باغ باغ ہو چکا تھا۔
رومائزہ تو سنتے ہی سیخ پا ہو چکی تھی کہ وہ دوستی کی آڑ میں اپنی دلی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے۔کئی بار اسکے پرپوزل وہ ٹھکرا چکی تھی پر آج سارے حساب اس نے برابر کردیے تھے کہ جتنا وہ تینوں اس ہمایوں کی وجہ سے پریشان ہوئی تھیں۔
                          ★ ★ ★
پل بھر میں وقت گزر جائے
بس ایک تیری یاد ساتھ ہے
وقت کہاں ٹھہرتا ہے گزرتے گزرتے دو ہفتے پر لگا کے اڑ چکے تھے۔اس چھوٹے سے عرصے میں چھوٹے جاہ نے اپنے دل پہ بہت کچھ جھیلا تھا۔
اس خوبصورت آواز والی لڑکی کی یادیں زہن سے مٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔
کسی اجلاس کے وقت یا کسی جگہ کے دورے کے دوران لوگوں سے ملاقات کے وقت زہن کہیں نا کہیں سے چھوٹے جاہ کو جامعہ کے مناظر میں لے جاتا۔
اب تو دل خواہش کرنے لگا تھا کہ اپنی مصروف زندگی میں سے وقت نکال کر ایک بار پھر اسکی دید کو جامعہ جایا جائے اور وہ بار بار دل کو روکتا پر ناکامی ہاتھ لگتی۔
پر آج کا اسکا ارادہ طے تھا کہ ہر صورت اسے دیکھنے جامعہ جائے گا ورنہ دل کو قرار دینا دن با بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
یہ سب کیا تھا کیوں ہورہا وہ سب سے انجان بس دل کی خواہش کی تکمیل کرنا چاہتا تھا۔
صرف ایک جھلک دید کی،،صرف ایک جھلک!
     سنگھار میز کے سامنے کھڑے اپنی مکمل تیاری پہ اس نے نگاہ ڈال کر انگلی کی پشت سے ناک رگڑی اور پرفیوم اٹھا کے خود پہ چھڑکا۔
وہ بہت جہانزیب شخصیت کا حامل تھا سادہ پر لوگوں کی تمام تر توجہ اپنی جانب رکھنے والا!
والٹ اور موبائل اٹھا کہ آرام گاہ سے باہر نکل آیا۔
"کہیں جا رہے ہو؟"
زولفقار جاہ اسکی تیاری دیکھ کر ٹوکتے ہوئے بولے۔میران کے قدم ٹھہرے وہ اتنا جلدی میں تھا کہ نیچے ہال میں بیٹھے باپ اور ایم_این_اے کو دیکھ نہ سکا۔
"ہاں زرا کام ہے..خدا حافظ۔"عجلت میں کہتا ہوا بنگلے کے دروازے سے سیڑھیاں اتر کر پورچ کی طرف بڑھ گیا۔
"تجھے نہیں پتا؟آجکل چھوٹے سائیں مسکرانے لگے ہیں۔مجھے تو محبت کا چکر لگتا ہے ورنہ کبھی دیکھا ہے انکو اکیلے میں مسکراتے ہوئے ہر وقت ہی سنجیدگی کا لباس اڑے رکھتے ہیں اور کھل کے ہنسنا تو انکی طبیعت کا حصہ ہی نہیں۔"
دو محافظ آپس میں گفتگو کر رہے تھے اس بات سے انجان جس کا زکر وہ لے کر بیٹھیں وہ خود براہِ راست ساری باتیں سن چکا ہے۔
میران نے غصے سے مٹھیاں اور جبڑا بھینچا اور لمبے قدم لیتا گاڑیوں کے پاس آیا جہاں وہ دونوں بات چیت میں مگن تھے اسکی دھاڑ پہ حیرت کے مارے کانپ گئے۔
"کیا بکواس لگا رکھی ہے؟"وہ انکے سر پہ آن کھڑا تھا۔
"سس سائیں وہ ہم تو بس..."
"کیا ہم تو بس؟تم لوگوں کو مشاہدے کرنے کے لیے یہاں رکھا ہوا ہے؟سب کے سب اوقات بھول گئے ہیں۔"
وہ تمام پہ پھنکارا جو اسکی آواز پہ پوزیشن میں آگئے تھے۔
"آئیندہ کوئی بھی مجھے فضول بات کرتے دکھا تو فارغ کرنے میں دیری نہیں کرونگا!!گپے ہانکنے کے تم لوگوں کو پیسے نہیں دیتا میں۔عزیز!"
ان سب نے سر جھکا لیا تھا عزیز اسکی بلند آواز سنتے ہی سرونٹ کواٹر سے دوڑا چلا آیا۔
"جی سائیں۔"دوڑ کے آنے پہ اسکی سانس پھول چکی تھی۔
"کس طرح یہ لوگ کام کر رہے ہیں؟ملازموں کی اپنی موجیں،یہاں یہ گارڈز اپنے گپوں میں لگے ہیں!تمھیں کہا تھا نا سب دیکھنے کے لیے۔"وہ عزیز پہ بھڑکنے لگا تھا گارڈ نے عزیز کو التجائی نظروں سے دیکھا اور عزیز نے خونخوار!
"چھوٹے بابا معاف کردیں آئیندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔"وہ نادم سا ہوگیا تھا۔
"خیال رکھنا ورنہ ان سب کو نکالنے میں دیر نہیں لگے گی۔"غصے سے لبریز اپنی پراڈو کا دروازہ کھولا۔گارڈز سب ہی ایکشن میں آئے اور محافظتی گاڑیوں میں بیٹھنے لگے تھے۔
"رک جاؤ کسی کو ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں۔"
میران کے انکار پہ سب ہکا بکا سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے عزیز نے ان سب کو ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔پیچھے سارے گاڈز نئی کشمکش میں پڑ گئے کے بنا تحفظ کے سائیں کہاں جارہے ہیں۔کم از کم زیادہ نہیں ایک دو محافظ گاڑیاں تو اسکے ساتھ جایا ہی کرتی تھیں۔پر اب منہ سے کچھ نکال کر کسی کو بھی نوکری گنوانے کی ہمت نہیں تھی سب ہی خاموشی سے اپنی جگہوں پہ کھڑے ہوگئے۔
عزیز گاڑی میں بیٹھ گیا پر جانا کہاں تھا اسکا علم اسے بھی نہیں تھا۔
"سائیں جانا کدھر ہے؟"اس نے گردن موڑ کے میران کی طرف پیچھے کو کی میران نے اسے دیکھا۔
"وہیں جامعہ لے چلو۔"کندھوں پہ خاکی چادر اوڑھے بڑی بے نیازی سے بیٹھا اطمینان سے بولا۔ عزیز کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا،اس نے گاڑی اہم شاہراہ سے گزار کے جامعہ کی جانب گاڑی دوڑا دی۔
                           ★ ★ ★
وہ تینوں باہر آکے بیٹھی تھیں اور گھاس پہ بیٹھی عائشے کو ہال کے سین کے بارے میں سب بتا چکی تھیں۔
"آئے میں نے مس کردیا یہ سب...یہ لمبے بالوں والا چھچھندر مجھے اتنا برا لگتا یے نا کہ کیا بتاؤں۔میں نے سنا ہے پہلے اسکا دل کسی جونئیر پہ آیا ہوا تھا جب سے اس سے تھپڑ موصول ہوا اسکو بھول بھال ہماری روما کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ویسے روما اتنا برا بھی نہیں وہ،سوچا جاسکتا یے۔"عائشے آسمان کو تکتی اطلاع دینے والے انداز میں بولی اب کلاس کا بدلا بھی تو لینا تھا۔
   "عائشے کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمھیں وہاں سے دھکا دے دوں؟"رومائزہ نے تئیں چڑھائے جامعہ کی چھت کی جانب اشارہ کیا۔
"نہیں میں بس اتنا چاہتی ہو ہمایوں بھائی کا دل نہ توڑو،انکے بال کٹوادو تو اچھے بھلے انسان لگیں گے۔"
عائشے کے لہجے کی شرارت سنجیدگی میں تبدیل تھی۔رومائزہ نے کمال ضبط سے اسے گھورا پر جب وہ باز نہ آئی تو اس پہ چیخ پڑی۔
"عائشے۔۔۔اب کچھ کہا نا تو میں انکل آنٹی کو بول دونگی آپکی بیٹی کو شادی کی جلدی ہے فوراً اسے رخصت کریں۔"غصے سے اسکی ناک لال ہوچکی تھی ان دونوں کو پتا تھا ان معاملات میں وہ کتنی اگریسسو ہوجاتی ہے۔
پھر بھی وہ تینوں ایک دوسرے کو چھیڑنے سے باز نہیں آتی تھیں۔
"اچھا یہ بتاؤ انکل کی طبیعت اب کیسی ہے؟"انوش نے اسکو اٹھایا جو اسکی گود میں سر رکھے ایک کتاب کھولے لیٹی تھی اور عائشے کی آڑ میں وہ کسی کو دِکھ نہیں رہی تھی۔
"الحمدللّٰہ بہتر ہیں...پتا نہیں کیسے اچانک اتنے بیمار ہوگئے۔"وہ پریشانی سے اٹھ بیٹھی بال جوڑے سے کھل کر آزادی ملتے ہی کمر پہ بکھر گئے تھے۔
بڑی بادامی رنگ کی آنکھیں ستواں لال ہوتی ناک کٹاؤ دار عنابی لب لمبے خوبصورت بال...
وہ انوش کی کمر سے ٹیک لگا کے بیٹھ گئی اب اسکا رخ اور ان دونوں کی پشت دروازے کی جانب تھی۔
    میران کی گاڑی جامعہ کی حدود پہ آکے رکی۔وہ عزیز کو وہیں انتظار کا کہہ کر اندر آیا۔
چادر کندھوں پہ پھیلی ہوئی تھی کالا سیاہ چشمہ اسنے آنکھوں پہ لگا رکھا تھا سر جھکاتے ہوئے سب کی نظروں سے بچ کے وہ پارکنگ سے گزر کے کینٹین کی طرف آیا۔پہلی بار جب وہ یہاں آیا تھا تب اسکا حلیہ الگ تھا اور آج الگ...تو کوئی بھی اسے با آسانی پہچان نہیں سکتا تھا وہ سر جھکائے چل بھی اسی وجہ سے رہا تھا کہ کوئی پہچان نا سکے۔
کینٹین سے نکل کے وہ اندر کی عمارت میں قدم رکھنے لگا تھا کہ باہر قریب ہی گھاس پہ بیٹھی وہ دکھائی دی ایک بار پھر مسکراہٹ کا راج ہوا۔
   بازو پہ لٹکتی چادر اس نے سینے سے گزاری اور قدم بڑھاتے ہوئے اسکی اور مزید قریب جاتا گیا۔رومائزہ جو انوش کی کوئی بات سن رہی تھی سامنے میران جاہ کو دیکھتے ہی پہچان گئی تھی۔
اسکی بڑی پرکشش آنکھوں میں حیرت امڈ آئی جوں ہی دونوں کی نظریں ملیں میران کے دل میں ہلچل سی پیدا ہوئی۔
اس سے قبل وہ اسے کئی پل دیکھے گیا تھا۔
انوش اور عائشے کے ساتھ جب وہ کھلکھلا کے ہنس رہی تھی،،کسی بات پہ ہنستے ہوئے چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی اور پھر زلفے اسکے چہرے کا طواف کرتیں اور وہ سکون سے انھیں بار بار کان کے پیچھے اڑستی میران کا دل تو وہیں سے کسی کنارے ڈوبنا شروع ہوچکا تھا۔
وہ کئی پل ایسے ہی جامد کھڑا اسے تکتا گیا میران کی نظریں خود پہ پاکر وہ الگ کنفیوز ہورہی تھی اور اسے دیکھتی رہی!ایک کی نظروں میں بے چینی کا ارتکاب تھا تو دوسرے کی نظریں الجھن کا شکار تھیں۔رومائزہ کی پلکیں ہولے ہولے لرزی تھیں وہ بخوبی اسکا ہر انداز بھانپ رہا تھا۔
آیا تو وہ ملاقات کی غرض سے تھا پر دیدارِ یار ہی اسے اتنا بھاری محسوس ہوا تھا وہ خود کو اس سہر سے بچانا چاہتا تھا۔
یہ سب اچانک کیا ہوا تھا دل کیوں ایسے بے لگام ہورہا تھا وہ سب سمجھ کر بھی کچھ سمجھنا نہیں چاہتا تھا کسی کا عادی تو ہر گز نہیں بننا چاہتا تھا۔
اس نے الٹے قدم لیے رومائزہ نے نا سمجھی سے اسے دیکھا وہ فوراً پلٹ گیا تھا۔
اس نے نگاہ سے کیا سلام ہے
دل میں ہے درد سا پھر بھی آرام ہے
  تنگ آیا یہ سماں
  ہوش ہے لاپتہ
  تیرا دیدار کر!!
رفتہ رفتہ صنم
تم سے ملی نظر
تو ہوا ہے اثر
  خواب سا یہ جہاں
  فرش دھواں دھواں
  جنت سا یہ شہر ہے!
"عائشے وہ میران۔"حیرت سے نکلتے ہی رومائزہ نے پلٹ کر ان دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
"کیا یہاں؟"انوش کی بھنویں سکڑیں اور اچھنبے سے پوچھا۔
"ہاں وہ یہاں تھا۔"اس نے کھلے منہ سمیت اشارہ کرکے بتایا پر اب وہاں اسکا سایہ تک موجود نہ تھا۔ان دونوں نے تیوری چڑھاتے ہوئے رومائزہ کو دیکھا۔
"دن میں خواب دیکھ رہی ہوکیا؟کہاں گیا اب وہ ہمیں تو نہیں دکھ رہا!"
"یار ابھی وہ یہیں تھا سچی۔"اس نے یقین دلانا چاہا پھر خاموش ہوگئی۔کیا وہ واقعی یہاں تھا؟
"تو اب کیا غائب ہوگیا؟"ان دونوں کو اسکا آنے پہ بلکل یقین نہیں آیا تھا۔
"او....ہوو محترمہ کو بھی اسکے خواب دکھنے لگے.."عائشے کے چھیڑنے پہ وہ تلملا گئی تھی اور اسکو مارنے کے لیے اسکے پیچھے دوڑی جو فوراً اپنا بیگ سنبھالتی کینٹین کی طرف بھاگی تھی۔
"لڑکیوں مجھے تو لے چلو۔"انوش گھاس پہ بیٹھی چیخی۔
              
میران ایک جنگ لڑتا ہوا باہر گاڑی تک آیا دل میں شور سا مچا تھا۔گاڑی کا دروازہ کھول کے اندر بیٹھ کر گہری سانسیں لینے لگا۔عزیز اپنے سائیں کی حالت دیکھے فکرمندی سے اندر بیٹھا۔
"سائیں خیریت تو ہے؟"وہ سب سمجھنے سے فل وقت قاصر تھا ابھی تو وہ بلکل ٹھیک اندر گیا تھا اور چند منٹوں میں بگڑی دل کی حالت کے ساتھ واپس آیا...اندر ایسا کیا ہوگیا تھا؟
"عزیز خیریت ہی تو نہیں کچھ۔"
میران نے ماتھے پہ گرے بال پیچھے کیے اور چادر اتار کے دور پھینکی اور آنکھیں موند کے ٹیک لگا کے بیٹھ گیا عزیز کافی دیر تک تجسس کا شکار رہا۔
"آپ کسی سے ملنے گئے تھے مل آئے؟"وہ پوچھتے ہوئے ہچکچایا تھا۔
"نہیں۔"
"کیوں؟"
وہ بے ساختہ بول بیٹھا پر میران کو سوال برا نہیں لگا تھا۔
"اگر مل لیتا تو مشکل ہی تھا اپنے پیروں پہ واپس آتا۔عزیز مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے کھڑکیاں کھول دو۔"
اس نے گھبراہٹ کے باعث کرتے کے اوپری بٹن بھی کھول دیے تھے۔
"آپ ٹھیک نہیں ہیں ایسا کیوں ہورہا ہے؟کیا گارڈز کی باتیں سچ تھیں؟جب ہی آپ اتنا غصہ کر رہے تھے۔"اسے ایک ملازم نے میسج کرکے ساری خبر دے دی تھی کہ کس بات پہ وہ بھڑکا تھا۔
"شاید..یہ ایک آگ ہے میں اس میں جلنا نہیں چاہتا ہے...گھر چلو بس۔"
وہ کھڑکی کے پار دیکھنے لگا عزیز نے حکم ملتے ہی گاڑی اسٹارٹ کردی۔وہ اب یہاں سے جارہا تھا کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔دل نے صدا دی تھی!کیا ہوا میران جاہ اتنی جلدی ہار مان بیٹھے؟ابھی تو محبت نامی پھول کے کھلنے کی ابتداء ہوئی ہے۔
پر وہ دل کی سنتا کہاں تک اب جب سنی تو ایک دم بے بس ہوگیا پر اب دماغی فیصلے دل کے اوپر غلبہ پاچکے تھے۔
                          ★ ★ ★
شنواری صاحب اپنے کسی دوست کے ساتھ آفس میں بیٹھے تھے۔
"تو اب کیا سوچا کیسے زولفقار جاہ کا قرضہ اتارو گے؟"
میاں حسن نے تشویش سے پوچھا۔
"میرے ہاتھ سے سب نکلتا جا رہا ہے فیکٹری گھاٹے میں جارہی ہے۔۔کہاں سے جوڑ توڑ کرکے قرض ادا کروں۔زولفقار جاہ بلکل رحم نہیں کر رہا۔مجھے کچھ وقت کی اشد ضرورت ہے۔"شنواری صاحب نے بال پین ٹیبل پہ بجانے سے ہاتھ روکتے ہوئے پرسوچ انداز میں کہا۔
"وہ شخص پیسے کا پجاری ہے،،اپنا پیسہ کسی صورت نہیں بھولے گا۔"میاں حسن کو شنواری کی حالت پہ ترس آیا تھا رقم اتنی زیادہ تھی کہ کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔الٹا انکا بزنس ہی نقصان میں جارہا تھا کیسے کوئی مدد کرنے کا سوچتا انکو خود پیسوں کے واپس نا ملنے کا خدشہ تھا۔
"اللہ تمھاری مدد کرے اور زولفقار کے شر سے بچائے۔"میاں حسن کی بات پہ وہ مزید سوچ میں پڑ گئے رقم کا بندوست نا ہونے کی صورت میں کیا ہوگا اس کا سوچ کر ہی انھیں جھرجھری آگئی۔
                           ★ ★ ★
    میران جب واپس بنگلے پہنچا تو خود کو اچھے سے کمپوز کر چکا تھا جو ہوا سب کچھ جامعہ تک ہی چھوڑ آیا تھا۔سنجیدہ چال چلتے ہوئے وہ راہداری سے اندر گیا۔تمام محافظ اور ملازمین اب الرٹ ہوچکے تھے اب کسی میں بھی جاہ کے غصے کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
وہ ہال میں آیا تو ایم،_این _اے ابھی تک موجود تھا۔انکی موجودگی دیکھ کر سامنے والے صوفے پہ اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ گٹھنے پہ ٹانگ جمائے صوفے سے پشت ٹکا کے بازو پھیلائے بیٹھ گیا۔
"کیسے ہیں میران صاحب؟"ایم این اے طفیل نے اسکی طرف چہرہ کیے پوچھا۔
"اللہ کی دین ہے الحمدللہ ٹھیک ہوں..آپ سنائیں کیا کرتے پھر رہے ہیں آجکل؟"بنا باتیں گھمائے وہ مدعے پہ آیا زولفقار جاہ یک ٹک خاموشی سے اسے دیکھتے رہے جب کہ طفیل گھبرا چکا تھا۔
"کیا مطلب چھوٹے جاہ؟"اس نے گھبراہٹ کو پست پشت ڈالے پوچھا۔
"یہی کہ اپنی ذمہ داریاں شاید بھول گئے ہیں!
شاید آپ اسکول بنوارہے تھے سال گزر چکا پر وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا!"نرمی کی جگہ لہجے میں سختی عود آئی تھی۔زولفقار کے ماتھے پہ بل نمایاں ہوئے۔
"آپکو اس کام کے لیے باقاعدگی سے فنڈ ملا ہے پر اسکول ابھی تک تعمیر کا شکار ہے۔عوام کے سامنے ہم جوابدہ ہیں پر جواب دیں کیا؟کہ ہمارے اراکین کام کرنا بھول چکے ہیں۔بابا سائیں ایسے تو آپکی حکومت مزید نہیں چلے گی۔"وہ صرف اسکول کی بات پہ غصہ نہیں تھا اور بھی ایم این اے کی لاپروایاں غصے کا سبب تھیں۔طفیل ویسے بھی اسے زیادہ پسند نہیں تھا اور آج بلکل باپ سے صاف گو ہوگیا تھا۔
"سائیں یہ کیا باتیں کر رہے ہیں!میں نے ساری زندگی آپکے ساتھ وقف کردی اب مجھے یہ الزام سننے کو ملیں گے..کچھ ضروری کام تھے جن کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا پر آپ تو..."طفیل بپھرتا ہوا زولفقار سے مخاطب تھا اور جگہ سے کھڑا ہوگیا۔
"بیٹھ جاؤ طفیل بیٹھ جاؤ۔غصہ کرکے اپنی غلطی مت چھپاؤ اس سے بہتر ہے اپنی سچائی کا ثبوت دو مجھے ایک ماہ کے اندر یہ مکمل چاہیے..فوراً کام دوبارہ شروع کرواؤ!"
میران حکم دلی سے کہتا خود ہی صوفے سے کھڑا ہوگیا۔
"میران آرام سے۔"زولفقار نے اسے ٹوکا جیسے انھیں اسکا انداز پسند نہ آیا ہو۔
"کیسے آرام کروں آپکا ہر آدمی اپنی مرضی چلاتا ہے فنڈ کہاں غائب ہوجاتا ہے اسکا پتا ہی نہیں چلتا۔"میران بازو بلند کرتے ہوئے بلند آواز میں بولا اور طفیل پہ سخت نگاہ ڈالتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
    زولفقار کو فنڈ والی بات سن کے پہلی بار خطرے کی گھنٹی بجتی ہوئی محسوس ہوئی۔آج سے پہلے کبھی اس نے اس معاملے میں کسی کو کچھ نہیں کہا تھا۔
طفیل نے جاہ صاحب کو دیکھا جو کسی سوچ میں گم تھے۔
"سائیں آج وہ مجھے بول گیا ہے اسکا دوسرا تیسرا نمبر آپ ہی ہونگے۔"طفیل اپنا کوٹ اٹھا کر غصے میں بھنبھناتا ہوا نکل گیا۔
زولفقار صاحب سوچ بیچار کرنے لگے انکا گدی نشین ہی اگر بغاوت پہ آگیا تو زولفقار صاحب کا کیا ہوگا۔
                            ★ ★ ★
"کیا کر رہا ہے میرا بیٹا؟"احتشام صاحب اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے وہ مسکرا کے انکی طرف مڑی۔
"کبھی اپنے بابا کا بھی اسکیچ بنا لو۔"بیڈ کے آگے بچھے صوفے پہ وہ بیٹھ گئے تھے۔اور رومائزہ کمرے کے کارنر پہ پینٹینگ بورڈ پہ جھکی تھی۔سفید دیواروں پہ کئی طرح کی اسکی بنائی پینٹینگز نصب تھیں جو کمرے کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگائے ہوئے تھیں۔
"نیکسٹ ٹائم ضرور۔ابھی یہ دیکھیں میں نے کیسے اس سادھا سی پینٹنگ کو خوبصورتی بخشی۔"اپنی پینٹنگ کی تعریف کے پل باندھتے ہوئے اس نے آنکھ دبائی اور اسٹول سے اتر کے پینٹینگز کے سامنے سے ہٹی۔
"خوبصورت پر اس میں ایک کمی ہے۔"احتشام نے خوبصورت سی پینٹنگ کو بغور دیکھتے ہوئے کہا رومائزہ نے برش دانتوں میں دبائے کمی ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
"اس میں مور نہیں ہے۔ساون کے موسم میں جنگل میں مور کے ناچ کی خوبصورتی اس کو اور چار چاند لگا دیتی۔"وہ سرسری سا تبصرہ کر رہے تھے۔
   "اوہ یسس ہاؤ آئی فارگاٹ اٹ!"اس نے برش ٹیبل پہ رکھ دیا اور باپ کے ساتھ بیٹھ گئی۔
"بابا مجھے Finches دلا دیں پلیزز۔اجازت دے دیں میں خود لے آؤنگی۔"
رومائزہ نے منت بھرے لہجے میں کہا اور انتہائی معصوم شکل بنا کر احتشام صاحب کو دیکھنے لگی یہی ہتھیار وہ اپنی باتیں منوانے کے لیے استعمال کرتی آئی تھی۔احتشام صاحب نے اسے گھوری نوازی جو اس نے کسی کھاتے میں نہیں رکھی تھی۔
   "کیا کروگی ان معصوم چڑیاؤں کا؟"
"اپنے پاس رکھونگی اس پنجرے میں انکا خیال رکھونگی اور کیا!"اس نے بالکونی میں لٹکے بڑے سے گول پنجرے کی جانب اشارہ کرتے صاف کہا۔
"مطلب قید کرلوگی ہے نا۔"احتشام صاحب کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی رومائزہ عجیب الجھن کا شکار ہوئی۔
"ہہننہ ناا...ہاں۔"رومائزہ نے الجھن سے شانے اچکائے۔
"میرا بچہ پرندے بھی جاندار ہیں انھیں بھی آزادی پسند ہے انکو اس پنجرے میں بند کرکے کیوں بد دعائیں سمیٹنی ہیں۔"انھوں اسے پیار سے سمجھایا۔
"آپ ہمیشہ یہی کہتے ہیں مجھے بچپن سے لے کر اب تک کوئی پرندہ خرید کر نہیں دیا۔"وہ منہ بسورتی کھڑی ہوگئی نین ٹکر ٹکر تیزی سے اردگرد گھوم رہے تھے کہ کیسے آج ضد پوری کروائی جائے۔
"بیٹا ظلم ہے یہ ان معصوم پرندوں پہ۔"
"نہیں بابا میں میں انکا بہت خیال رکھونگی کیا آپ اپنی بیٹی کی یہ خواہش پوری نہیں کرنا چاہتے۔آئی لوو برڈز۔"
"اچھا یہ بتاؤ یونی کیسی جا رہی ہے؟"انھوں نے موضوع بدلا۔
"احتشام صاحب اب آپ بات نہیں بدلیں۔پلیز مجھے لینے دیں،صرف دو لونگی بس دو۔۔"رومائزہ نے انکے بازو سے سر ٹکایا اور دو انگلیوں کا نشان بناتے ہوئے بولی احتشام صاحب خاموش رہے۔
"بابا صرف دو ہی لونگی پلیزز ناا۔"اس نے سر اٹھایا احتشام اسکی ضد کے آگے ہارے تھے۔
"اچھا بھئی ٹھیک ہے۔"انھوں نے کہتے ہوئے سر نفی میں ہلایا وہ خوشی سے چہکی اور انکے گلے لگی۔
"تھینک یو ہینڈسم مین۔"رومائزہ آنکھ مارتی ہوئی کھڑی ہوئی اور پھر اسٹول پہ جا کہ بیٹھ گئی۔
"اب سوجاؤ پوری رات اسی میں نہیں لگی رہنا۔"احتشام اسے تاکید کرتے ہوئے کمرے سے نکل گئے تھے وہ بھی انکے جانے کے بعد سب سمیٹ کے بستر کی نظر ہوئے نیند کی وادی میں چلی گئی۔
                           ★ ★ ★
زولفقار جاہ اور میران کسی اجلاس سے واپس ایک ہی گاڑی میں آرہے تھے محافظوں کی گاڑیاں انکی سیدھ میں پیچھے کو تھیں۔
"میران میں چاہتا ہوں اس بار تم الیکشن لڑو تم اس قابل ہوچکے ہو کہ اقتدار سنبھال سکو۔اب یہ اہم ذمہ داری میں تم کو سونپنا چاہتا ہوں۔"اس نے زولفقار کی بات سن کے آنکھوں سے کالا چشمہ اترا۔
"بابا سائیں یہ تو میں جانتا ہوں الیکشن میں نے ہی لڑنا ہے۔"
"بہت ہوشیار ہوچکے ہو،،(وہ ہنس دیے ساتھ ہی میران کے لبوں کے کنارے پہ بھی ہلکی سی مسکراہٹ در آئی)۔
تم نے اتنے کم وقت میں کافی رکے ہوئے کام مکمل کروا کے عوام کے دل اپنی جانب راغب کرلیے ہیں اور یہ کہنا اب غلط نہیں کہ ملک کا مستقبل تم ہو۔مجھے میرے خون پہ غرور ہے تم مجھے کبھی ناراض نہیں کروگے سب اچھے سے سنبھال لو گے۔"وہ اسکو سراہتے ہوئے بہت کچھ معنی خیزی سے باور کروارہے تھے۔
"آپ کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں آپکو کبھی ناراض نہیں کرونگا۔میران جاہ کی دنیا اسکا باپ ہی تو ہے۔"اسکے مطمئن انداز پہ زولفقار نے اسکی پیٹھ تھپکی۔
"پھر اگلے اجلاس میں یہ خوشخبری سب کو سناؤنگا۔اے_پی جماعت (آزاد پاکستان) کا مستقبل میران جاہ ہوگا۔"خوشی سے نہال انکا قہقہ سفید پراڈو میں گونجا باپ کا ساتھ دینے کے لیے وہ بھی ہنسنے لگا۔
"اس خبر کے منظرِ عام پہ آنے کے بعد تم اپنی سیکورٹی سخت رکھنا ویسے ہی اپوزیشن کی تم پہ کڑی نظریں ہیں تمھاری چھوٹی سی غلطی یا بے احتیاطی بہت کچھ بگاڑ سکتی ہے۔"انکے تاثرات سنجیدگی میں تبدیل ہوئے میران نے گہرا سانس خارج کیا۔
"آپ بے فکر رہیں سب بہتر ہی ہوگا اتنا برا وقت بھی نہیں کہ یہ لوگ میران جاہ کا کچھ بگاڑ سکیں۔"طاقت کا غرور سر چڑھ کے بولا تھا۔
                            ★ ★ ★
"ماشاءاللہ اتنے سارے پرندے انوش تم کہاں لے آئیں مجھے۔"رومائزہ نے خوشی سے بحال انوش کے گلے میں بازو ڈالا۔
تین بیک بینچرز کا ٹولہ آج طوطا منڈی پہنچا ہوا تھا اور تینوں الگ قسم قسم کے پرندے دیکھ کر حیرت زدہ تھیں۔
"اے لڑکی دور ہو فوراً۔"انوش جھنجھلاتی ہوئی اسے پیچھے کرنے لگی پر وہ کہاں ہوش میں تھی پرندوں کے میلے میں آکے ہوش کھو بیٹھی تھی۔
"انوش دل تو کر رہا ہے خوشی سے تمھارا چہرہ چوم لوں۔"
"لاحول ولا۔۔روما پاگل نا بنو مجھے تم سے خوف آرہا ہے دور رہو مجھ سے۔"انوش اسکا دیوانہ پن دیکھ کر خود کو بچاتی ہوئی بولی رومائزہ نے اسکے چہرے پہ ڈر کے تاثر دیکھے تو پیٹ پہ ہاتھ رکھے ہنسنے لگی۔
"تم لڑکا ہوتیں تو میں تم سے شادی کر لیتی۔"رومائزہ نے چہرے پہ آتے بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے تاسف سے کہا۔
"یو آر فلرٹنگ وتھ می؟"انوش نے اسکے پیٹ پہ مکا جڑا رومائزہ نے پلٹ کے اسے گھورا۔
"آف کورس!"انوش اسکی پشت گھور کے رہ گئی۔
"ارے بھائی صاحب یہ آپکا طوطا ہے؟"رومائزہ نے راہ چلتے آدمی کو روکے پوچھا جس کے کندھے پہ مکاؤ نامی سرخ رنگ کا بڑا اور بے حد خوبصورت طوطا بیٹھا تھا۔
"ارے رکیں تو زرا دو منٹ کے لیے ہمیں دیں نا۔"رومائزہ نے اپنا بازو آگے کیا اس شخص نے طوطا اسکے کندھے پہ بیٹھا دیا۔
"کچھ کرے گا تو نہیں نا؟"
عائشے کی آنکھوں میں تھوڑا سا خوف پھیلا تھا۔
"ارے بہن مجھے کرے گا اگر کچھ کیا بھی تو تم کیوں ڈر رہی ہو۔"اس نے بیگ سے موبائل نکال کر انوش کو پکڑایا جس نے اسکی طوطے کے ساتھ تصویریں لی تھیں۔
"ویسے آپ یہ بیچنے آئے ہیں کیا؟"وہ ایک ہی سمت میں کھڑی رہی طوطے کا وزن بھی اچھا خاصا تھا۔
"جی بہن۔"
"ویسے میں یہ خریدنے میں انٹرسٹڈ ہوں۔"انوش نے روما کو کہنی ماری تھی کہ کیا کر رہی ہے،پر اسکے آنکھیں دکھانے پہ وہ خاموش ہوگئی۔
"اچھی نسل کا طوطا ہے اور بے حد خوبصورت بھی ہے پچاس ہزار دونگی ڈیل ڈن کریں؟"وہ اپنی طرف سے حساب لگا لگو کہ آنکھوں میں چمک کے ساتھ بولی۔
"او باجی معاف کرو۔یہ ایک جوڑا پاکستان میں سات لاکھ کا بک رہا یے تم کہاں پچاس ہزار کی بات کر رہی ہو۔"وہ شخص تنکتا ہوا بولا اور اپنا طوطا واپس لے کر نکلتا بنا رومائزہ اب بھی حیرت کے عالم میں ڈوبی تھی انوش نے اسکا کندھا جھنجھوڑا۔
"تم سات لاکھ کا طوطا بازو پہ بٹھائے ہوئی تھیں!!"انوش کی آنکھیں حیرت کے مارے پھیلی تھیں اس ںے رومائزہ کے بازو پہ ہاتھ پھیرا۔
"ہاں انوش سات لاکھ۔"وہ خود بے یقینی کے عالم میں تھی انوش پھر اسے ساتھ گھسیٹی ہوئی آگے بڑھی۔
     "آہہہ کاش میں یہ سب خرید سکتی پر احتشام صاحب تو پرندے..."عائشے نے اسکو سفید بطخوں کے پنجرے سے کھینچ کر دور کیا اسکے باقی لفظ منہ میں ہی رہ گئے۔
"شکر مناؤ انکل نے فنچ خریدنے کی اجازت دے دی ناشکری عورت۔"
"خبردار جو مجھے عورت کہا کہاں سے تمھیں عورت لگتی ہوں۔انیس کی ہوں صرف انیس کی۔"آنکھیں جھپکا کے اس نے جتایا۔
"یار روما اب میں تھک چکی ہوں بحث کا قطعی موڈ نہیں جو لینا ہے جلدی لو اور واپس چلو دو گھنٹے ہوگئے گھومتے گھومتے۔"انوش چل چل کے تھک چکی تھی گھٹنوں کے بل جھک کے بولی اور عائشے کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔
"عمر ہوگئی ہے تم دونوں کی شادی کرلو ورنہ کوئی اپنا لڑکا تمھیں نہیں دے گا!"طنز کا تیر چلاتی ان دونوں کو تپاتی تیزی سے آگے بڑھی۔
"انگریز میں نے قتل کردینا ہے تمھارا۔"انوش پیچھے سے چیخی۔
"اور ہاں لڑکی دی جاتی ہے لڑکا نہیں!"عائشے نے اس کے پیچھے لپکتے ہوئے اسکی عقل میں اضافہ کیا۔
تقریباً شام چھ بجے کو وہ گھر لوٹی تھی۔
فنچز کو جال میں سے نکال کے اس نے پنجرے میں بند کیا۔پانی اور انکی خوراک مٹی کی کٹوروں میں رکھ دیں تھیں اور پھر اس منظر کو اپنے برش سے پینٹ بورڈ پہ قید کرنے لگی۔
                            ★ ★ ★
گاڑیوں سے چلتی سڑک کے کنارے ایک نقاب پوش لڑکی ہاتھ میں کچھ تھامے سکون سے چل رہی تھی۔
سڑک پہ گاڑیوں کا گزر تیزی سے ہورہا تھا کہ تبھی اس سے کچھ فاصلے پہ گزرتی ہوئی خاتون کے ساتھ ایک بچہ چلتے چلتے انجانے میں چلتی سڑک کی طرف بڑھ گیا۔
دور سے گاڑیاں تیزی سے اسی جانب آرہی تھیں جب تک وہ خاتون اس بچے کو بائیک کی ٹکر سے بچانے کے لیے روکتی وہ بائیک تیزی سے وہاں سے گزری۔اس خاتون کی چیخ بلند ہوئی۔
اس نقاب پوش لڑکی نے پھرتی سے اس چھوٹے بچے کو سڑک کے کنارے لاکے کھینچا تھا۔
وہ دونوں منہ کے بل کنارے پہ گرے تھے۔
وہ خاتون جلدی سے ان دونوں کی طرف لپکی۔
"میرا بچہ۔"اس خاتون نے بچے کو اٹھا کے گلے سے لگایا وہ نقاب پوش لڑکی بھی کپڑے جھاڑتی ہوئی کھڑی ہوئی۔
"آر یو اوکے؟"وہ خاتون کسی اچھے گھرانے کی معلوم ہوتی تھیں۔
"یس آئی ایم۔"اس لڑکی نے جواب دیا اور اپنا سامان سائیڈ پہ رکھ کہ بچے کی طرف بڑھی۔
"شکریہ تمھارا ورنہ پتا نہیں کیا ہوجاتا۔"
"اٹس اوکے۔ہیلو مسٹر چیمپ دیکھ کر چلتے ہیں اور بڑوں کا ہاتھ بلکل بھی نہیں چھڑاتے۔"اب یہ تو اسے پتا نہیں تھا کہ وہ اسکی ماں ہے یا کوئی اور۔
"سوری۔"اس بچے نے فوراً کان پکڑے لڑکی نے اسکے بالوں میں ہاتھ چلایا۔
"آپکا بہت شکریہ اب ہمیں چلنا ہوگا۔"وہ خاتون اس لڑکی کو دیکھ کر بولیں جسکا چہرہ دیکھنے کی خواہش جاگی تھی پر کالے اسٹالر کا نقاب اسکا چہرہ چھپایا ہوا تھا اور آنکھیں چمک رہی تھیں۔بال کمر پہ کھلے پڑے تھے۔وہ واقعی کوئی برقعہ ایونجر والی وائبز دے رہی تھی۔
انکے جانے کے بعد اس لڑکی کی چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوتی گئی اور اپنی منزل کی طرف بڑھ گئی۔
                             ★ ★ ★
علاقے میں نیا تھانے دار اے_ایس_پی آیا تھا جو کافی ایماندار تھا۔
"خورشید...."اسکی کی آواز پہ خورشید فوراً روم میں داخل ہوا اور فوراً سلوٹ مارا۔
"یس سر..."
"خورشید تم سے ایک کام تھا۔"اے ایس پی نے اپنی سیٹ سے پشت ٹکائی۔
"حکم فرمائیں خورشید حاضر ہے۔"کانسٹیبل خوشی سے بولا۔
"میں نے تمھیں دیکھا ہے کافی لگن سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہو۔"
"سر جی یہ تو فرض ہے۔"
"کیا تم میری مدد کروگے؟"اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں آپس میں پیوست کر کے اسکے چہرے کو نقطہِ نظر بنایا۔
"جی بلکل۔"خورشید اسکی ٹیبل کے قریب آیا اے_ایس_پی سیٹ پہ سیدھا ہوا پھر دراز سے ایک لفافہ نکال کر سامنے رکھ دیا۔
"خوشی ہے تم ساتھ دوگے یہ لفافہ دیکھ رہے ہو اس میں کچھ نام ہیں ہمیں ان لوگوں کے بارے میں معلومات کرنی ہیں۔"
"کیسی معلومات؟"
"کرپشن کی معلومات۔۔سرفہرست زولفقار جاہ ہے اسکے خلاف ثبوت لاکے نیب میں پیش کرنے ہیں۔"اس نے اسکی آنکھوں میں دیکھا،خورشید نے راضی ہوتے ہوئے سر ہلایا۔
"تو آپ کسی خاص مقصد کے لیے یہاں بھیجے گئے ہیں۔"خورشید نے ہنستے ہوئے کہا تھانے دار نے گہرے تبسم کے ساتھ آنکھ جھپکائی۔
"ٹھیک ہے سر الیکشن سے پہلے ہم ثبوت ڈھونڈ لیں گے۔"خورشید نے ٹیبل پہ سے لفافہ اٹھایا اور باہر نکل گیا۔
                           ★ ★ ★
ایک مہینے سے اوپر کا عرصہ گزر چکا تھا شمس بیٹھا حساب کتاب دیکھ رہا تھا پھر قرض داروں کا صفحہ کھولا۔تقریباً دیے گئے قرضے کی رقم واپس ریکوور ہوچکی تھی بس شنواری کا قرضہ باقی تھا جس نے ایک پھوٹی کوڑی تک ادا نہیں کی تھی۔
شمس نے اسکو فون کھڑکا کہ دھمکی دے دی تھی کہ اسکی مدت ختم ہوچکی ہے اب جو بھی ہوگا اسکا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔
جس پہ شنواری نے اسے غصے میں آکر کہا تھا "کوئی پیسے ویسے نہیں ہیں میرے پاس جو کرنا ہے کرلو۔"انھوں نے اپنی ساری بھڑاس نکال دی تھی انکو اندازہ تھا جتنا زولفقار بولتا نہیں ہوگا اس سے زیادہ دوسروں کو پریشان کرنے کے طریقے یہ شمس نکال لیتا ہے۔
"تمھاری ہمت کیسے ہوئی ہمیں دھوکہ دینے کی!!!"شمس غرایا تھا۔
"آئیندہ کال مت کرنا۔"شنواری نے فوراً فون منقطع کرکے فلحال خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی،انکو اندازہ نہیں تھا وہ آگ کے ایسے بھانپڑ سے ٹکرانے والے ہیں جو سب راکھ کر گزرے گا۔انکی بات سن کر شمس دھمکی دینا نہیں بھولا تھا۔
  "اب تم انجام کے منتظر ہوجاؤ شنواری!کیونکہ زولفقار جاہ اپنے پیسوں کے معاملے میں کسی قسم کی نرمی برادشت نہیں کرتے انکے قاعدے قانون اپنے ہیں اب تم بس اپنی عافیت کی دعا کرو۔"
اسکی دھمکیوں سے شنواری صاحب واقعی ڈر چکے تھے فیکٹری سے اٹھ کے فوراً وہ گھر کے لیے نکل گئے۔
Stay Tuned...
Assalamualaikum readers..
Apko bta dun ab week mai InShaAllah 2 episode ayengi..
Kher don't forget give me your's precious review in comments..

Any guesses who is the mask girl?
Do Vote and comments..

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now