قسط 8 حصہ دوئم

929 56 28
                                    

                            ★ ★ ★
  مراد عائشے کو ساتھ لے کر باہر آگیا۔ناشتے پہ موجود زرپاش صاحبہ اسی کی منتظر تو تھیں پر آج حسبِ غیر معمول ناشتہ شروع کرکے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
"صبح بخیر..."عائشے کو آگے چلنے کے کہتے ہوئے اس نے آمدگی کا احساس دلایا۔زرپاش نے کپ ٹیبل پہ رکھ کے ان دونوں کو دیکھا اکھڑے تیور تھے عائشے تو سر ہلا کہ مراد کی اسکے لیے کھینچی کرسی پہ بیٹھ گئی۔زرپاش سربراہی کرسی پہ نشست تھیں اور وہ دونوں انکے بائیں جانب کرسیوں پہ بیٹھے تھے۔
عائشے بری طرح نروس ہوچکی تھی،،ساری دیدہ دلیری کا مظاہرہ کمرے تک رہا تھا ساس کو دیکھ کر اوسان خطا ہوگئے تھے۔
اور بچی کچی کثر تھوڑی دیر بعد نند کی آمد پہ پوری ہوئی۔
"مراد تمھارا دماغ خراب ہے کیا؟نا جان نا پہچان تم نے اس لڑکی سے نکاح کرلیا۔"
"آپی عائشے کو میں جانتا ہوں."مراد نے بڑی بہن سجل کو تنگ آکر کہا۔وہ تین بہن بھائی تھے۔سب سے بڑی سجل جو شادی شدہ تھی اور مراد سے صرف دو سال بڑی پھر مراد تھا اور اس سے چھوٹی مزید ایک بہن اور!
عائشے تو سر پکڑے صوفے پہ بیٹھی تماشہ دیکھنے میں محو تھی۔مراد ناجانے کب سے بہن اور ماں کو وضاحتیں دے رہا تھا۔پولیس والے کی ایسی حالت دیکھ دل کو بڑی تسکین نصیب ہوئی۔
"امی آپ نے مہمل کو اپنے لاڈلے کا کارنامہ بتایا؟"
مراد سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے سجل نے زرپاش کی طرف رخ کیا۔
"کیا بتاؤں اسکو،کچھ بتانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔پہلے دن سے یہ بات طے تھی اس گھر کی بہو صرف مہمل بنے گی۔پر میرا بیٹا اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ ماں باپ کو کچھ بھی بتانا گورا نہیں سمجھا کہ کسی کو پسند بھی کرتا ہے!اور اسے بیوی بنا کر گھر لے آیا!"لفظوں کے تیر برس رہے تھے۔
"بس کردیں آپ دونوں تھک گیا ہوں بتا کر مہمل کو میں نے وہ فوقیت کبھی نہیں دی جو آپ لوگوں نے دے رکھی ہے!کبھی مجھ سے پوچھا کے میں اس کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہوں؟اس لڑکی کے دل میں ابتدا سے ہی میرا نام ڈال دیا بس!"جب اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو غصے میں تنک کر کھڑا ہوگیا عائشے بھی اسے غصہ دیکھ فوراً کھڑی ہوئی۔
"میں ڈیوٹی پہ جارہا ہوں اور عائشے کو اسکے گھر چھوڑ دونگا رات تک ساتھ لے آؤنگا۔اور نیمل آجائے تو مجھے میسج کردیے گا!"سر پہ کیپ رکھتے ہوئے اس نے ارادے کی خبر دی اور سجل کی نظروں کے سامنے عائشے کی کلائی پکڑی تھی اور تیزی میں نکل گیا وہ بس اسکے ساتھ کھنچتی چلی گئی۔
گھر کی سیاست میں وہ الجھ گئی تھی۔آگے کی زندگی بے حد مشکل لگی رونا بھی آرہا تھا کہ کہاں پھنس گئی۔
مراد کا یوں عائشے کو ہاتھ پکڑ کے لے جانا دونوں ماں بیٹی کو بھایا نہیں تھا۔سجل نے کھلے منہ سے ماں کو دیکھا۔
"بیوی آئی نہیں اور بھائی کے تیور بدل گئے۔آگے ناجانے یہ لڑکی کیا کرے گی۔یہ چھوٹے گھروں کی لڑکیاں ہوتی ہی ایسی ہیں مراد کو اپنے جال میں پھنسا لیا ہے۔"وہ تنفر سی بولی۔
"خاموش ہوجاؤ سجل۔"زرپاش اسے کہتی سجل کے آگے رکھی کاٹ میں سے اپنی نواسی کو گود میں اٹھا چکی تھیں ماتھے پہ اسکے پیار کیا اور مسکرا کے دیکھا۔
"آپ کے اور بابا کی چھوٹ کی وجہ سے یہ ایسا ہوا ہے۔"سجل بڑبڑا کے موبائل میں لگ گئی۔  زررپاش کے بتانے پہ ہی وہ صبح ناشتے کے بعد دوڑی چلی آئی تھی۔وہ تیس سالہ لڑکی اپنی عمر سے کم ہی لگتی تھی،،اچھی بزنس ہولڈ فیملی میں ہی اسکی شادی کردی گئی تھی۔
گورا رنگ بھورے ڈائی بال بھوری ہی آنکھیں خوبصورت چہرے کے نقوش!عائشے نے یہ بات تو دل میں تسلیم کرلی تھی وہ دونوں بہن بھائی ہی خوب شکل تھے اور خوبصورتی انھوں نے ماں سے پائی تھی۔سسر تھے یا نہیں اسکا اسے خاصا علم نہیں ہوا تھا پر اسے یہ بڑے گھر کے لوگ بہت چھوٹے دل کے محسوس ہوئے!
     مراد عائشے کو میکے چھوڑ کے پولیس اسٹیشن روانہ ہوگیا تھا۔اسے اب نئے سرے سے زولفقار صاحب کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے تھے۔چند ایماندار بڑے آفیسرز کو اسکی اس لگن پہ تعجب ہوا تھا پر کوئی بھی اسکی راہ میں رکاوٹ نا بنا اسے کھلی آذادی دی تھی اپنا کام سر انجام دینے کی۔وہ پرسنلی بہت انولوو لگتا تھا،باقی کیسز میں بھی اتنا خود کو جھونکتا تھا پر اس کیس کی بات ہی الگ تھی!
   عائشے کے آنے سے انعم اور معین دونوں ہی خوش تھے۔اس نے فلحال سسرال کا کوئی غلط تاثر انکے ذہن میں نہیں ڈالا تھا۔جب اسے اس آگ میں جھونک دیا تھا تو وہ خود ہی اس سیراب سے باہر نکلنا چاہتی تھی،بس اس سے لڑنے کی ہمت کر رہی تھی۔
وہ تقریباً بارہ بجے یہاں پہنچی تھی آتے ہی اس نے ٹیکسٹ کر کے انوش کو بلایا تھا۔انعم نے مراد کو کافی روکنے کی کوشش کی پر وہ جلدی میں تھا تو معذرت کرکے نکل گیا۔
عائشے معین صاحب کے کمرے میں انکے پہلو میں بیٹھی تھی۔اس نے خوشی ظاہر کرنے کا کوئی ڈرامہ نہیں کیا تھا چہرے پہ اداسی صاف جھلک رہی تھی۔
"بیٹا خوش تو ہو نا؟"عائشے نے معین کو دیکھا۔
"ہمم بابا۔آپ سے ایک بات پوچھوں رات سے کھٹک رہی ہے۔مراد کو آپ اتنا جانتے بھی نہیں کیسے آپ نے ہامی بھر لی؟بابا آپکو معلوم بھی ہے وہ لوگ کتنے ہائی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔"اس نے معین کی طرف گردن کیے سوال کیا اور ساتھ انکی کلاس کے بارے میں آگاہی بھی دی۔معین نے سر خم کیا اتنے میں انعم بھی کچن سے فارغ ہوکے کمرے میں آگئیں۔
"یہ سب میں جانتا ہوں پر میں نے پیسہ دیکھ کر شادی نہیں کی۔اس بچے کی نیت صاف تھی مجھے تمھارے لیے وہ سب سے بہتر لگا۔
اور اسکے والد کو بھی میں جانتا ہوں ارباز صاحب کافی شریف اور سلجھے ہوئے بزنس مین ہیں اور میرے باس سے انکی رشتہ داری بھی ہے۔
ارباز صاحب سے کئی بار ملا ہوں ہر بار انکی نرم طبیعت متاثر کرتی آئی۔کچھ عرصہ پہلے اے ایس پی مراد سے ملا تو پتا چلا انکا ہی بیٹا ہے۔"اول تو انھوں نے پشت منظر بیان کیا تھا پھر بولے۔
"بیٹا ہوسکتا ہے شادی کے شروع دنوں میں تمھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے پر اگر تم صبر سے کام لوگی تو دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔"تفصیل سے بتاتے ہوئے معین نے اختتام میں عائشے کے سر پہ ہاتھ رکھا اس نے سر اٹھایا۔
کاش بتا سکتی کتنے اچھے لوگ ہیں۔بعض اوقات والدین کے کیے فیصلے ہمیں اپنے حق میں نہیں لگتے پر وقت کے ساتھ ساتھ ہماری نظر کا دائرہ انکی طرح وسیع ہوجاتا اور ہم اس وقت والدین کے شکر گزار ہوجاتے۔اب کون جانے یہ بات عائشے کی زندگی میں حقیقت کا روپ دھارتی کہ نہیں!
ایک آگ سے نکال کر دوسری آگ میں جھونک دیا عائشے نے اس نظریے کو سینے سے لگا لیا تھا۔
معین صاحب نے فیصلہ کر دیا تھا اسے تو یہ بس زبردستی کی شادی ہی لگی جسے نبھانا پہاڑ سر کرنا جیسا مشکل تھا۔
والدین اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے سب کچھ کرتے ہیں پر وہ نصیب آگے بے بس ہوتے ہیں۔
"انکے بابا تو گھر پہ نہیں تھے۔"عائشے نے بات نکالی۔
"ہوسکتا ہے شہر سے باہر گئے ہوں۔چلو ظہر کا وقت ہوگیا ہے میں نماز پڑھ آؤں۔"معین مسکرا کر مسہری سے اتر کر وضو کرکے مسجد کے لیے روانہ ہوگئے۔
"اگر وہ واقعی اچھے ہیں تو انکو یہاں ہونا چاہیے تھا اپنی بیگم کو کم از کم کنٹرول میں تو رکھتے۔"عائشے کو انعم نے خیالوں میں گم دیکھا تو اٹھ کے اسکے قریب آگئیں۔
"تم کچھ بتاؤ یا نا بتاؤ پر ماں ہوں میں تمھاری شکل سے ساری پریشانی اخذ کر چکی ہوں۔"
عائشے یک ٹک انکو دیکھتی رہی۔
"مجھے معلوم ہے میری بیٹی میں برداشت نہیں ہے پر اب تھوڑی عادت ڈال لو۔میری شادی سے پہلے مجھے ہر ایک نے کہا تھا شادی کے کچھ سال سسرال والوں کو سمجھنے میں لگتے۔وہ آپ کو پرکھتے ہیں یہ ٹائم لڑکیوں کے لیے مشکل ثابت ہوتا ہے ہر قدم سوچ کے اٹھانا ہوتا ہے۔
تمھارا شوہر تمھارے ساتھ ہے تمھیں کسی بات کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔بس اپنے شوہر کو خود سے دور نا ہونے دینا جو اسے پسند ہے وہی کرتی جاؤ ایک وقت آئیگا جب وہ مکمل طور پہ اپنی بیوی کو سمجھ چکا ہوگا اسکے دل میں تمھارے لیے عزت بڑھ جائیگی۔اسکے گھر والوں کو عزت دوگی تو اسکی نظر میں تمھیں مزید برتری حاصل ہوگی۔جب اگلا آپکے رنگ میں ڈھل نہیں سکتا آپ کو چاہیے آپ خود اسکے رنگ میں ڈھل جائیں پھر زندگی اتنی مشکل نہیں ہوتی۔"انعم اسے دیکھتے ہوئے لہجے میں نرمی رکھے سمجھا رہی تھی۔
عائشے سخت کوفت سے انکی طویل باتیں سن رہی تھی۔کچھ دماغ میں بیٹھی تھیں کچھ دوسرے کان سے باہر۔اس نے نظر اٹھا کے ماں کو دیکھا۔
"ویسے تو میں خاص کر آپ سے ناراض تھی پر ادھر آنے کے علاوہ اور کوئی اوپشن نہیں تھا۔"وہ آنکھیں جھپک کے بولی انعم نے اسے گھورا۔
"امی دروازہ بجا یے لگتا ہے انوش آگئی۔"مسہری سے اٹھ کے وہ تیزی سے بھاگی تھی اسکی حرکت پہ انعم نے سر پکڑا ابھی اتنے لمبے لیکچر اسکو دیے سب رائیگاں۔
"اسلام و علیکم دلہن صاحبہ..."عائشے نے دروازہ کھولا تو انوش ہاتھ میں بوکے پکڑے کھڑی تھی اندر آکے اسے انعم صاحبہ کے حوالے کیا اور عائشے کے گلے لگی اس نے عائشے کی پیٹ تھپکی۔
"نائس!شکر میری بات پہ تم نے عمل کیا۔"اسے ہلکا پھلکا تیار دیکھ انوش مسکاتے ہوئے بولی عائشے اسے بیٹھک کی بجائے اپنے کمرے میں ہی لے گئی تھی۔انعم بھی نماز پڑھنے کے لیے چلی گئیں عائشے نے کمرا بند کیا انوش اسکی بے تابی پہ آزادانہ ہنسی ۔
"سسرال والوں کی برائیاں کرنے کے لیے اتنی بے تابی۔"انوش نے لٹھے مار انداز میں کہا عائشے نے شانے اچکا دیے اسکی شکل دیکھنے لائق تھی وہ مسہری پہ ہی ٹک گئی انوش فکر مندی سے اسکے قریب آکے گھٹنا موڑ کے مسہری پر بیٹھ گئی۔
"سب ٹھیک تھا؟اے ایس پی کے گھر والے وغیرہ؟"اس نے عائشے کی اتری شکل دیکھ کر آنکھیں پھیلائے پوچھا وہ کیا جانے عائشے ابھی نان اسٹاپ شروع ہوجائے گی۔
"مت پوچھو انکے گھر والوں کا،،پڑھے لکھے لوگ ہیں پر دقیانوسی خیالات والے!بیٹے نے شادی کرلی تو گھر سر پہ اٹھالیا،،ہاں ویسے بنتا تو ہے،پر میں اچھی لڑکی ہوں دوسری لڑکیوں کی طرح تھوڑی جو انکا بیٹا ان سے چھین لے گی،،مبارک ہو انکو انکا پولیس والا بیٹا!!"
"یار عائش کیا بول رہی ہو کچھ ایسا بتاؤ جو سمجھ آئے۔"انوش نے اسے لتاڑتے ہوئے کہا عائشے نے گہری سانس کھینچی۔
"دماغ خراب ہوگیا ہے میرا....انوش زندگی بہت مشکل لگ رہی ہے۔میں کس کو بتاؤں امی بابا کو میں نے کچھ نہیں بتایا۔"وہ راز داری سے بولی انوش کا صبر آج عائشے آزما رہی تھی۔
"میں یہاں گلی ڈنڈا تو کھیلنے آئی نہیں بتا بھی چکو اب!"اس نے زور سے اسے ٹہکوہ مارا۔
"مراد کے لیے آنٹی نے کسی اور کو پسند کیا ہوا تھا میں انکو ایک آنکھ نا بھائی!رات بھی وہ غصہ کر رہی تھیں اور صبح مراد کی بہن نے بھی آکے الگ شور مچایا۔"
"ہاں ہوگا ایسا،،،کون ہے وہ لڑکی جسے انھوں نے بہو بنانے کا سوچا ہوا تھا؟"انوش نے سوالیہ انداز میں پوچھا منہ کھلا تھا۔
"کوئی کزن ہے محمل چڑیل!"
"اوہو جلن شروع۔۔"عائشے کا دماغ گھوما اب کی بار اس نے تکیہ اٹھا کہ انوش کو دے مارا۔
"ہائے ظالم کیا سسرال والوں کا غصہ مجھ پہ نکالوگی۔"اسکا شرارتی موڈ آن ہوچکا تھا جو ہر وقت ہی آن رہتا تھا۔
"اچھا سیریس ہوجاؤ۔"عائشے آلتی پالتی مار کے بیٹھی وہ کافی سنجیدہ دکھائی دی تھی انوش نے بھی خود کو کمپوز کیا اور کہنی موڑ کے تھوڑی کے نیچے ہاتھ ٹکایا۔
"میں وہاں کیسے رہونگی؟انکی اور ہماری کلاس میں زمین آسمان کا فرق ہے!وہ لوگ مجھے قبول کرینگے بھی نہیں۔زبردستی کی شادی ہے یہ بس!دباؤ میں آکے کرلی اب پریشان ہورہی ہوں۔
یقین جانو صبح ہی مراد سے جھگڑا ہوا ہے ساری زندگی یہی چلتا رہے گا۔نا وہ مجھے جانتے ہیں نا میں انکو...اور مجھے پولیس والے پسند ہیں بھی نہیں اور میرے گھر والوں کو اتنی بڑی دنیا میں میرے لیے اے ایس پی مراد صاحب ہی ملے۔"
وہ پریشانی کے عالم میں بولتی گئی انوش اسکے چہرے کے رنگ پڑھ رہی تھی۔عائشے کبھی اتنی پریشان نظر نہیں آئی تھی کتنی بھی بڑی مشکل ہوتی وہ سب کا سامنا ڈٹ کر کرلیتی تھی ایسے چیزوں کو زہن پہ سوار اس نے کبھی نہیں کیا پر اب معاملہ عمر بھر کا تھا فکرمند نا ہوتی تو کیا کرتی۔
"سب ٹھیک ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا پر یقین کرو سب ٹھیک ہوجائے گا۔"
"مجھے تو دور دور تک آثار نظر نہیں آرہے۔ہم دونوں کے درمیان اتنا کھچاؤ ہے۔اور اوپر سے مجھ کو اپنا پابند کرنا چاہتے ہیں کہہ رہے تھے اپنے دل و دماغ میں انکے نام کی مہر لگا لوں۔"عائشے غصے میں بولتی چلی گئی اور یک دم رکی انوش کا چہرہ خوشی کے مارے ٹماٹر ہورہا تھا دانتوں کی باقاعدہ نمائش!عائشے نے آنکھیں میچ لیں۔
"ارے تو بٹھاؤ نا انکا نام اپنے دل و دماغ میں آخر وہ تمھارے شوہر ہیں۔اور ابھی جیسا تم نے یہ بتایا کہ اپنے گھر والوں کے سامنے تمھارا ساتھ دیتے ہیں تو تم انکے اچھے ہونے کا اندازہ لگاؤ۔اور رہی بات اس محمل کی وہ شادی اس سے نہیں کرنا چاہتے تھے تو تم سے کرلی!تم انکے لیے بہتر اپشن تھیں!بے وقوف اتنی مایوس کیوں ہورہی ہو۔سسرال والوں کا کڑوا گھونٹ پیو سب برداشت کرلو ایک دن دیکھنا سب مٹھی میں ہونگے۔"
"مجھے مٹھی میں کسی کو نہیں کرنا بس زندگی میں سکون چاہتی ہوں۔"وہ سرد مہری سے بولی۔
"ویسے کونسا ہاتھ پکڑا تھا.."انوش نے بیگ سے پستے نکال کے منہ میں ڈالے۔
"انوشششش..."عائشے تلملا گئی غلطی کردی اسکو سب بتا کہ کس طرح پورے استحقاق سے وہ کل رات سے اسکا ہاتھ کئی بار تھام چکا تھا۔
دس سے پندرہ منٹ انوش نے اسکو بہت سمجھایا پر عائشے کا دل تھا مان کے نہیں دے رہا تھا۔بار بار اسے غصہ چڑھ جاتا کیوں شادی کرا دی!
"میرے باپ کی توبہ اب جو تم کو سمجھاؤں،تم نے تو آج مجھ سے سارے بدلے لے لیے..."
انوش نے سر چھت کی جانب اٹھالیا تھا۔
"خدا کی قسم میرے ساتھ ہی ایسے ہوتا ہے،،پہلے وہ شوربے والا روغن اور اب یہ اے ایس پی...مجھے یہ پولیس والوں سے اب چڑ ہے تم کچھ بھی کہہ لو پر میں انھیں قبول نہیں کرسکتی!"وہ اٹھ کے کمرے میں ٹہلنے لگی۔
انوش مسلسل پستے چباتی ہوئی سر جھکائے موبائل میں گھسی تھی عائشے کی آواز پہ بوکھلا کے سر اٹھایا۔
"تم سن بھی رہی ہو کہ نہیں؟میری تو زندگی برباد ہوگئی ایک خطرناک پولیس والے سے مجھے بیاہ دیا گیا۔جانتی ہو نا عائشے بلوچ دنیا میں صرف تین چیزوں سے ڈرتی ہے ایک میری ماں کی جوتی دوسرا تمھارے بے سرے گانے سے اور تیسرا پولیس والوں سے۔"وہ جب ٹہل ٹہل کے تھک گئی تو اوندھے منہ بستر پہ گری انوش نے بھی موبائل سائیڈ دراز پہ رکھ کہ مکمل طور پہ توجہ اسکی جانب مبذول کرلی اور جمائی لیتے  اسے دیکھا۔
"میں نے سنا تھا شادی کے بعد لوگ سٹھیا جاتے ہیں پر کبھی یقین نہیں کیا،پر آج تم چلتی پھرتی زندہ مثال کو دیکھ کر یقین آگیا ہے میں بھی اب شادی کا ارادہ کینسل کرتی ہوں،،آتے رہیں جہان سکندر،سالار اور ارمان یا شامیر آفندی کے رشتے سب ٹھکرا دونگی۔"انوش نے جمائی روک کر سنجیدگی سے فلمی انداز اپنایا تھا وہ بھی تھک گئی تھی اسے سمجھا سمجھا کر عائشے کا جی اندر تک کلس گیا ممکن تھا کہ قریب رکھا واس وہ اسکے سر پہ پھوڑ دیتی۔
"نکل آؤ ناول کی دنیا سے باہر یہیں قبر کھود دونگی تمھارے ناولز کی اور ساتھ تمھیں بھی دفن کردونگی۔بلکہ اپنی ساس کی لمبی ناک کو بھی بڑی کوئی خرانٹ خاتون ہیں گھور گھور کہ ڈرائے جا رہی تھیں ناشتہ کرنا کوئی عذاب بن گیا تھا۔"اس نے اٹھ کے مسہری کے سرہانے سے کمر ٹکا دی اور کشن دبوچ کے بولی جیسے کشن کی جگہ مراد کا گلا ہو۔
"خیر ویسے بڑی بری بات ہے ساسو ماں کے بارے میں ایسے نہیں بولتے۔میں تمھیں بتاتی ہوں کیسے انکا دل جیتا جا سکتا ہے بہت ناولز پڑھے ہیں سارا تجربہ ہے مجھے۔"
انوش بھی اسکے ہمراہ مسہری کے سرہانے سے ٹیک لگا چکی تھی اور دو تین پستے منہ میں چباتے ہوئے پر سوچ انداز میں بولی عائشے گردن موڑ کے خاموشی سے اسکے طریقے سنتی رہی اور ہر طریقہ سن کے اسکے چہرے پہ مزید بے زاری کا رنگ رونما ہوتا۔
"اتنی محنت؟"اسکا بیزاری سے منہ کھلا۔
"ہاں تو کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا یے،،ختم کرو یہ کاہلی کچھ گھر میں سیکھ لیا ہوتا تو اب یہ کہنا نا پڑتا۔"
وہ بلکل انعم بیگم کی طرح اسے طعنے نواز رہی تھی عائشے کے لمحے میں تاثرات مزید بگڑ گئے اور بھنبھنا کے اسے دیکھا۔
"اچھا اچھا یہ نہیں کرنا تو مت کرو۔۔آسان طریقہ ہے میں نے چاندنی چوک پہ ایک عامل بابا کا سنا ہے کوئی ان سے تعویز لے کر اپنی ساس...."انوش کی چلتی زبان یکدم رکی تھی جب عائشے نے کشن کھینچ کے اسکے پیٹ پہ مارا۔انوش کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا تھا پر طریقے اسکے بڑے ہی خطرناک ہوتے تھے۔
ایسی ہی تھی وہ زندگی کو کھل کے جینے والی کچھ بھی ہوجائے تب بھی کچھ نہیں ہوتا اس بات پہ یقین کرنے والی!
"کیا ظالم عورت ہو تم!جو بھی ہو وہ میری ساس ہیں اگر کچھ الٹا سیدھا ہوگیا تو،میں تھوڑی محنت ہی کرلوں گی۔اللہ مجھے معاف کردے بہت الٹا سیدھا بول چکی ہوں۔پر وہ پولیس والا اسکا کیا کروں؟؟؟"تو بات گھوم پھر کر واپس مراد پہ آٹھہری تھی انوش گہری سانس بھر کے اٹھ کھڑی ہوئی اور دوپٹہ سنبھالتی اس پہ ایک غصیلی نگاہ ڈالے کمرے سے نکل گئی پیچھے عائشہ دانت کچکچائے اسکی پشت تکتی رہ گئی وہ سنگ دل ہر گز نہیں تھی۔غصے میں بکواس کرجاتی پر کسی کے ساتھ غلط کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔سب کچھ برداشت کرلیتی اور مراد کو بھی کل رات نکاح میں قبول کرچکی تھی بس
ناجانے دل نے کب قبول کرنا تھا،،اگر وہ پولیس والا نا ہوتا پھر تو کوئی مسئلے کی بات ہی نہیں بس اسکو تھا پولیس سے چھتیس کا آکڑا تھا اور انوش کو یہ بات چھپبنے لگی تھی۔باقی سب عائشے اسکے زہن کے فطور تھے جس کا اس نے حوا بنا کے رکھ لیا تھا۔
"اوئے میرے لیے پانی لیتی آؤ،،،پلیز۔"تھک ہار کےاتنا بولنے پہ خشک گلے کو تر کرنے کا خیال آیا تھا اور کمرے سے انوش کو آواز لگائی۔
                             ★ ★ ★
انوش کو شام تک عائشے نے روک لیا تھا۔معین صاحب نے فرصت ملتے ہی ٹی وی کھولا اور سب سے پہلے خبریں ہی لگائی تھیں۔
خبروں کی زینت پہ اور کوئی نہیں میران جاہ ہی تھا۔معین صاحب نے آواز تیز کی انوش اور عائشے بھی کمرے میں چلی آئیں۔
جوں ہی دونوں نے خبریں سنیں افسوس سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"کیا زندگی ہے کب کچھ ہوجائے انسان کو خبر ہی نہیں چلتی۔"انوش کی بڑبڑاہٹ عائشے نے سنی۔
"مجھ سے بہتر کون جانتا ہے"وہ دوبدو بڑبڑائی۔
"یار وہ اتنا اچھا ہے سن کے بہت برا لگ رہا۔پتا نہیں کس نے حملہ کروایا ہوگا۔اللہ رحم کرے۔"انوش کا افسردہ چہرہ دیکھ عائشے نے آنکھیں گھمائیں۔
"بابا ہوسکتا ہے مراد مجھے لینے ہی نا آئیں وہ پولیس میں ہیں انویسٹیگیشن میں مصروف ہونگے۔"اسکو تو جیسے آزادی مل گئی تھی خوشی سے بولی معین صاحب نے سرہلانے پہ ہی اکتفا کیا۔
                         ★ ★ ★
گارڈذ کی لمبی قطار جو زمین پہ اپنا اسلحہ رکھے ہوئے تھے پیچھے لاتعداد کالی گاڑیاں کھڑی تھیں۔تمام گارڈز سر جھکائے زولفقار جاہ کے قہر کا سامنا کر رہے تھے۔
"تم لوگوں کو اسکی حفاظت کے لیے ہی ساتھ بھیجا تھا نا پھر بھی یہ سب ہوگیا؟کس بات کے تم لوگ پیسے لیتے ہو جب فرض ادا نا کرسکو!"زولفقار جاہ ہاتھ پیچھے باندھے غصے میں چکر لگا رہے تھے۔بنگلے کے باقی تمام ملازمین دروازے کے پاس کھڑے گارڈز کی شامت دیکھ رہے تھے۔
"سرکار ہم چھوٹے سائیں کے حکم کے آگے بے بس تھے!انھوں نے خود ہمیں بھیجا تھا ہم ایسا ہر گز نہیں چاہتے تھے اور دشمنوں نے اسی بات کا فائدہ اٹھایا۔"ایک گارڈ ہمت جمع کرکے بولا۔
"اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا تو تم سب کی زندگی جہنم بنادونگا!"وہ غصے میں کہتے گاڑی میں بیٹھے اور ہاسپٹل کے لیے روانہ ہوگئے۔
ہاسپٹل کے باہر میڈیا نے گہما گہما مچائی ہوئی تھی۔نا صرف میڈیا عوام بھی بڑی تعداد میں وہاں پہنچ چکی تھی میران کے چاہنے والوں نے اسے دیکھنے کیلئے ہاسپٹل کے باہر ہجوم لگا دیا تھا۔ہاسپٹل کی سیکورٹی کم پڑ گئی تھی شمس نے پھر اپنی سکیورٹی وہاں چارج کروائی۔
شمس زولفقار صاحب کو پچھلے دروازے سے ہاسپٹل کے اندر لے گیا۔میران کو گولی لگنے کی خبر جوں زولفقار جاہ کو پہنچی تھی یک دم وہ بھی بھونچکا گئے تھے۔میران کا چہرہ انکی نظروں کے سامنے گھوم گیا۔
وہ اندر پہنچے میران آپریشن تھریٹر میں انڈر سجری تھا۔سرجنز پہ پیچھے سے بہت پریشر تھا ہر حالات میں انھیں میران کو کھڑا کرنا تھا۔
زولفقار جاہ ریسیپشنسٹ کے بتانے پہ کاریڈور سے گزر کے آپریش تھریٹر کے دروازے کے پاس پہنچ گئے۔گلاس کی گول کھڑکی سے اندر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔
شرٹ لیس بے جان وجود جس پہ سرجن جھکے اپنا کام کر رہے تھے۔بڑی دیر میں انھیں میران کا چہرہ دکھائی دیا۔اسکے درخشاں چہرے کی رمق گویا اب بھی برقرار تھی جیسے وہ نیند میں تھا۔زولفقار صاحب کی نا چاہتے ہوئے بھی آنکھیں بھیگ آئیں انھوں نے آنکھوں کا پانی اندر ہی اتارا تھا۔تبھی اندر سے نرس باہر نکلی۔
شمس کے استفسار پہ اس نے یہی کہا تھا دعا کریں۔ایک گولی جو بازو میں لگی تھی وہ نکالی جا چکی تھی پر دوسری اسکے کندھے اور سینے کے درمیان لگی تھی ممکن تھا کہ دل کے قریب ہو۔
شمس بھی خاموش سے کھڑے زولفقار کو دیکھ رہا تھا اچانک یہ سب ہونا اور اسکو سمجھنا مشکل ہوا۔زولفقار صاحب نے پتا لگانے کے لیے فوراً اپنی سورز کا استعمال کیا کہ معلوم ہو کہ اس حملہ کے پیچھے ہاتھ کس کا ہے۔
فکر کے عالم میں وہ دیوار سے لگی بینچ پہ بیٹھ گئے۔کافی دیر سے وہ سوچ و بیچار میں محو رہے شمس خاموشی سے کھڑا کاریڈور کی خاموشی میں زولفقار جاہ کے تاثرات جانچ رہا تھا۔میران کے لیے برا اسے بھی بہت لگا تھا کہ کس نے اتنی جرت کی ہوگی۔
کچھ دیر بعد آپریشن تھریٹر کے باہر لگی لال بتی بجھ گئی تھی۔زولفقار صاحب کھڑے ہوگئے انرر سے سرجن باہر نکلے زولفقار انکے راستے میں حائل ہوئے۔سرجن نے پلکیں جھپک کے سب انڈر کنٹرول ہونے کا اشارہ کیا تھا۔زولفقار کے دل کو آرام آیا انھوں نے گہری سانس فضا کے سپرد کی۔
"الحمدللہ ہی از فائن!خون کافی بہہ چکا تھا دوسری گولی نکالنے میں تھوڑا مسئلہ بھی پیش آیا پر میران صاحب کی قوتِ مدافعت کی وجہ سے ہم باآسانی سرجری کرسکے۔"
زولفقار صاحب سر خم کیے سن رہے تھے شمس نے کھڑکی سے اندر جھانکا افسوس کی لہر اندر دوڑ گئی۔
اس نے ایک نظر بڑے سائیں کو بھی دیکھا تھا معاملے کے پیچھے انکا ہاتھ ہونے کا بھی اسے شبہ ضرور ہوا پر اگر ایسا ہوتا تو شمس کو وہ ساتھ ملاتے۔یا وللہ عالم کس دشمن کی یہ ناکام چال تھی۔
"اسے ہوش کب تک آئیگا؟"زولفقار نے موبائل میں وقت دیکھ کر پوچھا،،رات کے گیارہ بج رہے تھے۔
"بے ہوشی کی ڈوز دی گئی ہیں تین چار گھنٹے میں انشاء اللہ ہوش آجائیگا.."سرجن پیشہ ورانہ انداز میں کہتا نکل گیا۔
وارڈ بوائز نے آکے میران کو آپریشن تھریٹر سے نکال کے کر پرائیویٹ روم میں منتقل کردیا۔
اسی کے برابر والے کمرے میں عزیز تھا۔عزیز کو گولی کندھے کے پیچھے طرف لگی تھی پر اسکی حالت اتنی تشویش ناک نہ تھی جتنی میران کی ہوئی تھی۔
زولفقار جاہ گھر نہیں گئے تھے وہیں بیٹھے میران کے ہوش میں آنے کے منتظر تھے۔اسکا سینا نلکیوں میں جکڑا ہوا تھا،ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی جن میں خون کی ڈرپ بھی شامل تھی۔
  میران کی گاڑی کالی پراڈو پولیس کی کسٹڈی میں تھی گولیوں کے نشان شیشوں،گاڑی کے بونٹ اور دیگر اوپری حصے پہ تھے اور گاڑی کے پہیے مزید گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔
واضح تھا حملہ جان لینے کے لیے نہیں کسی مقصد کے تحت ڈرانے یا کسی اور وجہ کی بناء پہ کروایا گیا تھا۔
مراد پولیس اسٹیشن میں تھا مغرب کے بعد کا ہی تو وقت تھا جب خبر اسکے علم میں آئی۔
وہ فوراً جائے وقوعہ جگہ پر پہنچا تھا،میران اور عزیز کو تب تک ہاسپٹل پہنچا دیا گیا تھا۔وہاں کے قریبی اسٹیشن کی پولیس موجود تھی باقی میڈیا کے نمائندے اور عوام..
پوری گاڑی کی اس نے تلاشی لی گولیوں کے نشانات دیکھے اس نے سر جھٹکا اسے بھی اندازہ تھا یہ حملہ دھمکانے کے لیے تھا پر کون تھا جس نے میران کے ساتھ اتنی دشمنی موڑ لی تھی۔پہلا شک ہی اسے اسکے باپ پہ گیا تھا گولیاں جہاں سے چلی اس جگہ کا بھی اس نے جائزہ لیا کہ کوئی سوراخ ہاتھ لگے۔اسکا دھیان سی_سی ٹی وی فوٹیج پہ گیا اس سے پہلے وہ نکلواتا اس نے ایک کال ریسو کی تھی۔
پیچھے سے اسے آرڈر آیا تھا وہ اس معاملے سے دور ہو جائے..یہ کیس کسی دوسرے آفیسر کے ذمے دیا گیا تھا اور جس کا نام اس نے سنا تھا وہ قابل آفیسر تھا اور اسے ایماندار بھی لگتا تھا پر اسکے تعلقات زولفقار جاہ سے بھی تھے۔
ڈی آئی جی نے اسے کہہ دیا تھا وہ اپنے کیس پہ توجہ دے یہ کیس کوئی اور دیکھ لے گا۔انکی بات سے متفق اور گہرائی سمجھ کے وہ خود پیچھے ہٹ گیا۔ویسے ہی گھر کی الگ الجھنیں تھیں وہ گھن چکر بن کے رہ گیا تھا۔
اس نے بنا چوں چراں کیے انکی بات مان لی۔وہ حالات کا جائزہ پہلے ہی لے چکا تھا بہت کچھ وہ سمجھ بھی گیا تھا،اور یہی چیز ہر شخص پہ بھی عیاں ہوئی تھیں کہ میران کو مارنے کی غرض سے حملہ نہیں ہوا۔میڈیا والے پل پل میران کے متعلق خبر دے کر عوام کو آگاہ کر رہے تھے۔
      مراد خورشید کو چلنے کا کہہ کر وہاں سے نکل گیا تھا۔
                           ★ ★ ★
سر سنسناہٹ کا شکار تھا سانسوں کی رفتار مدھم تھی جسم میں الگ کمزوری سی محسوس ہوئی،بے جان وجود میں گویا حرکت ہونے لگی۔
زہن دھیرے دھیرے بیدار ہورہا تھا پلکوں کا جھالر بھی اٹھا سامنے ہر طرف پہلے تو دھندلاہٹ تھی پھر نظروں نے فوکس پکڑا تھا۔
اسے ہوش میں آتا دیکھ زولفقار صاحب فکر کے اثرات لیے صوفے سے اٹھ کر اسکے قریب آگئے۔
اسکے ماتھے پہ گرے بال انھوں نے آہستہ سے پیچھے کیے میران کا زہن بیدار تو ہوچکا تھا پر ڈوز کہ وجہ سے غائب دماغی تھی۔اسکی حالت دیکھ زولفقار جاہ کے دل میں تکلیف کی لہر دوڑ گئی۔
وہ تمام تر جاذبیت سموئے بیڈ پہ لیٹا تھا سفید چادر اسکے اوپر سے گزاری ہوئی تھی جس سے آدھا سینا ڈھکا ہوا تھا بال بکھر کے واپس ماتھے پہ آگرے تھے..
کیا پتا....کتنی بار مارے گی!
میں تو بس زندگی سے ڈرتا ہوں
موت تو ایک ہی بار مارے گی..
    میران نے نیم بے ہوشی کی حالت میں نظریں پورے کمرے میں ڈالیں پھر زولفقار جاہ کو دیکھا ورنہ اب تک وہ صرف سامنے ہی دیکھ پارہا تھا۔
زولفقار نے اسکے ماتھے پہ رکھا وہ اسکے قریب کھڑے تھے میران نے نظریں پھیر کے آنکھیں واپس بند کر لیں۔دماغ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھا تھا۔آدھے گھنٹے بعد وہ مکمل طور پہ ہوش میں آیا،،شام کا واقعہ اسکی نظروں میں گھوم گیا۔بدن میں دوائیوں اور انجیکشن کی وجہ سے تکلیف کم تھی پر کندھے کی طرف کھچاؤ بہت تھا۔
اسکا دوسرا بازو جو گولی سے محفوظ رہا تھا اسکو حرکت دے کے اس نے نیبولایئزر ہٹا دیا جسے زولفقار نے اس سے لے کر ٹیبل پہ رکھ دیا۔
باپ بیٹھے کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا وہ بہت متفکر نظر آرہے تھے میران کے چہرے پہ پھیکی سی مسکراہٹ سجی تھی۔
"آپکے راستے کا کانٹا ہٹ جاتا آج..."وہ تلخی سے مسکراہٹ برقرار رکھے بولا چہرے کے اعصاب ڈھیلے تھے بڑے جاہ اسے دیکھتے رہ گئے شمس دروازے کے باہر کھڑا منظر دیکھ رہا میران کو ہوش میں دیکھ شکر اس نے بھی ادا کیا تھا۔
"پاگل ہوگئے ہو جان ہو تم میری،لاکھ اختلافات سہی پر میں اپنے بیٹے کا برا کبھی نہیں سوچ سکتا۔"
"واقعی؟"سینے پہ درد کی شدت سے ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
"بولو مت آرام کرو ورنہ تکلیف زیادہ ہوگی۔اور جس نے یہ حرکت کی ہے اسکو میں ہرگز نہیں بخشونگا تم بس اپنا خیال رکھو دوسری تمام فکرات کو چھوڑ دو۔"وہ اسے تاکید کرتے صوفے پہ آ بیٹھے میران چھت گھور رہا تھا۔یہاں آرام کرنے کا سوچ کے ہی وہ سخت بے زاریت میں مبتلا ہوا۔اس نے عزیز کی خیریت دریافت کی تھی زولفقار نے بتا دیا وہ ٹھیک ہے۔اس پہ غصہ بھی کیا تھا کہ گارڈز واپس بھیجنے کی ضرورت کیا تھی۔جس پہ وہ آرام سے کہہ گیا تھا جب حادثہ پیش آنا ہوتا ہے تو آکر رہتا۔۔موت کا فرشتہ کسی کو دیکھ ٹھہرتا نہیں ہے اور بس زولفقار صبر کرتے رہ گئے۔
"زولفقار صاحب آپ گھر چلے جائیں بلاوجہ یہاں بے آرام ہورہے ہیں۔"رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے تب میران نے کہا انھوں نے نفی میں سر ہلادیا اور صوفے سے پشت ٹکا کر ہی بیٹھے رہے۔
میران حادثے کے تمام پہلوؤں پہ سوچ ڈال رہا تھا۔گولی اگر انجن وغیرہ کی طرف لگتی تو گاڑی بلاسٹ ہوجاتی یہ بات زیرِ غور تھی کہ معاملہ کچھ اور تھا۔ایک لمحے کو اس نے باپ کو بھی شک کے دائرے میں لیا تھا جیسے پوری دنیا نے لے رکھا تھا۔بھروسہ تو وہ کسی پر بھی نہیں کرتا تھا پر باپ پہ بچپن سے ہی اسے خود سے زیادہ یقین تھا اور شنواری والے واقعے کے باوجود وہ اس معاملے میں بھی اپنی سوچ جھٹک کر ان پہ بھروسہ کر رہا تھا۔
جو چیز نظروں کے سامنے آرہی تھی وہ تو ہر گز سچائی نہیں تھی،عزیز ٹھیک ہوتا تو وہ لازمی طور پہ اس سے بات شئیر کرتا اور عزیز فوراً اپنے کام تحقیق پہ لگ جاتا عزیز کے علاوہ اتنا قریبی کوئی تھا ہی نہیں شمس نے حال چال پوچھا تھا پر وہ اپنے خول سے بلکل باہر نہیں نکلا۔
تھوڑی دیر میں دائم وہاں پہنچ گیا اسکے آنے پہ میران نے زولفقار جاہ کو تسلی سے گھر بھیج دیا تھا۔وہ یہاں ہوتے تو وہ کچھ کروا بھی نہیں سکتا تھا۔دائم نے کوٹ اتار کے صوفے پہ رکھا اور چلتا ہوا اسکے پاس آیا۔
"بھائی میرے آتے ہی تم بستر سے لگ گئے مجھے اب لاہور کون گھمائے گا؟"دائم بے اختیاری میں اس سے بغل گیر ہونے لگا تھا میران نے نظروں سے گھور کے اسے پیچھے رہنے کا کہا۔
"تو میں تم کو گائیڈ نظر آتا ہوں؟"
"کیا ہی بات ہو اگر تم یہ نیکی بھی کرلو۔"دائم مسکراہٹ برقرار رکھے ہوئے تھا،میران اگر اسے ڈھیٹ کا لقب دیتا تو اس میں کوئی غلط نہیں تھا۔
"ایک بات بتاؤ تم یہاں اپنا بزنس سنبھالنے آئے ہو یا لاہور کی سڑکیں ناپنے؟"ماتھے کے درمیان سلوٹیں سمیٹے میران نے پوچھا تو دائم بے نیازی سے شانے اچکاتا صوفے پہ دراز ہوگیا۔میران نے تاسف سے سانس فضا میں بحال کی۔
"میں سیدھا سادھا مشرقی لڑکا ہوں تھوڑا پردیسی ہوں،،اور شادی کے ارادے سے پاکستان واپس آیا ہوں..."وہ سہولت سے آنکھیں جھپکا کے بولا میران کے چہرے پہ نرم سی مسکراہٹ نے جگہ لی۔
"حد ہے.."چھت کو تکتے میران نے منہ سے گرم ہوا نکالی۔
"ویسے میں عیادت کے لیے آیا تھا پر مجھے مریض بلکل ٹھیک لگ رہا ہے!!
   ارے بے چارا عزیز نوکری کے چکر میں گولی کھا گیا!اسے دیکھ کر آتا ہوں امید کرتا ہوں وہ مریضوں کی طرح ہی برتاؤ کرے گا!"میران کے مسلسل بولنے پہ چوٹ کرتا اور آخر میں عزیز کو اپنی بات میں لپیٹے سر ہلا کر کہتے روم سے نکل گیا،میران نے سر جھٹکا۔دائم کے آنے سے اسکی طبیعت میں فرق بھی آیا تھا اور جو کوفت آلود ماحول تھا اس میں بھی تازگی دوڑ گئی۔
دائم واپسی میں عزیز کو اپنے ساتھ کندھے سے لگا کر روم میں لے آیا دوسرا بیڈ خالی تھا اسے وہیں آرام کرنے کا کہا میران نے دائم پہ غصہ بھی کیا تھا پر وہ سنتا کہاں تھا!
"وہ الگ تنہائی کا شکار تھا اور مجھے یہ بلکل گوارا نہیں میرے ہوتے ہوئے کوئی خاموشی سے دیواریں تکتا رہے۔مجھ سے بات کرکے پوچھو عزیز کو کتنی طبیعت میں بہتری محسوس ہوئی ہے۔۔"اپنی صلاحیتوں پہ بھرپور روشنی ڈالتے اس نے بال سنوارے تھے میران عزیز کو دیکھتا گیا۔
"تکلیف تو نہیں ہورہی؟"میران متفکر سا عزیز سے مخاطب ہوا اس نے نفی میں سر کو جنبش دی۔تکلیف تھی پر مرد ذات تھا جسے برداشت کرنا تو بچپن سے سکھایا گیا تھا۔
"مجھے معاف کردیں میں آپکی حفاظت نہیں کرسکا۔"اسکی شرمساری پہ دائم نے میران پہ نگاہ ڈالی۔
"تم ہمیشہ ہی فضول بولتے ہو!"میران موضوع بدلنے کا خواہاں ہوا دائم بھی اب سنجیدہ ہوگیا تھا اور صوفے پہ ٹک کے بیٹھ گیا کچھ دیر تھوڑی رگڑتا رہا۔
"تم پہ حملہ کس نے کروایا ہے؟اتنے خطرناک دشمن پال رکھے ہیں.."اسکا انداز تشویش ناک تھا میران نے بائیں ہاتھ سے پرسوچ انداز میں ناک رگڑی۔
"حملہ نہیں تھا دھمکی تھی یا پھر کچھ اور...خیر میں پتا لگالوں گا اس سب کے پیچھے کی وجہ۔"اسکا ہاتھ اب شیو تک آیا تھا اسے سہلاتے بولا۔دائم موجود تھا اسکی عدم موجودگی میں عزیز میران سے کھل کر کچھ کہہ نہیں پایا تھا۔کچھ دیر کے لیے جب وہ باہر گیا تب اس نے اپنے شک و شبہات کھل کر اسکے سامنے رکھ دیے۔میران نے بس بے تاثر طور پہ سنا تھا کہا کچھ نہیں۔
عزیز کو بھی وہی لگتا تھا جو صبح میڈیا نے کہنا تھا۔
                            ★ ★ ★
مراد رات تک عائشے کو لینے پہنچ گیا تھا اور عائشے اسے دیکھ بری طرح چونکی،اسکا موڈ خراب ہوا تھا۔مراد کمرے میں اکیلا تھا انوش فوراً موقع دیکھ دوسرے صوفے پہ بیٹھ گئی۔
"جیجا جی.."اسکے مخاطب کرنے پہ مراد نے چونک کے گردن اٹھائی اسکا جیجا جی کہنا کافی عجیب لگا تھا۔
"یس..."ہتھیلیاں جو اس نے چہرے پہ جمائی تھیں ہٹا کر سیدھا ہوا انوش مزید اسکی جانب مڑی۔
"ایک ضروری بات کرنی ہے امید ہے آپ برا بلکل نہیں مانیں گے۔"انوش نے تمہید باندھی۔
"محترمہ برا لگنا یا نا لگنا آپکی بات پہ منحصر کرتا ہے خیر فرمائیں۔"کہنی صوفے کی کمر سے لگائے اس نے انوش کو دیکھا جو بلکل ریلیکس تھی۔
"مجھے بلکل شوق نہیں میاں بیوی کے تعلقات میں ٹانگ اڑانے کا....پر عائشے میری دوست ہے اسکے لیے وہ سب کرونگی جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں۔"
"یعنی ہماری ازدواجی زندگی میں ٹانگ اڑائیں گی۔"اسکے سنجیدہ پن پہ انوش نے دانت کچکچائے۔عائشے سہی کہہ رہی تھی منہ پہ بات مارتا ہے وہ۔اکلوتی سالی تھی تھوڑا لحاظ ہی بندہ کرلیتا ہے۔
"نہیں،آپ دونوں کے درمیان کیسے تعلقات ہیں مجھے کچھ نہیں پتا بس اتنا بتانا چاہتی ہوں عائشے اب آپکی بیوی ہے۔آپ دونوں کی شادی کوئی عام شادی تو ہے نہیں،آپ نے اس سے اپنی مرضی سے نکاح کیا اچھی بات ہے..."الٹی سیدھی گھما پھرا کے وہ ٹھہر گئی کام کی مختصر سی بات کرنے میں الجھن ہورہی تھی۔
"یہ سب میں جانتا ہوں کوئی نئی بات اگر میرے علم میں نہیں تو وہ بتادیں بہت احسان ہوگا۔"
احسان لفظ کو جما کر کہا تھا انوش بخوبی طنز سمجھی تھی کڑوا گھونٹ پیا۔
"اگر آپکو لگتا ہے عائشے کے دل میں اس روغن افف ارغن کے لیے فیلینگز ہونگی تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے،عائشے نے اس سے کبھی فون پہ بات تک نہیں کی...وہ ان لڑکیوں میں سے ہے جو نکاح کے بعد شوہر سے محبت کرنے کو ترجیح دیتی ہیں نا کہ ہونے والے شوہروں سے محبت کر بیٹھے۔آپکو بتانا ضروری تھا کہیں آپ غلط فہمی کا شکار نا رہیں اور اسی وجہ سے اپنا رشتہ خراب کرلیں۔اس کے دل و دماغ پہ آف کورس اب آپکا ہی نام ہوگا۔اور آپ اسے ہر گز نہیں بتائیں گے کہ یہ سب میں نے آپکو بتایا۔"گھوڑے سی تیزی میں وہ بات ختم کر گئی مراد کہنی کے بل گھٹنوں پہ جھکا۔
   "میں آپ سے زیادہ سمجھدار ہوں اور مجھے اس سب سے کچھ فرق نہیں پڑتا اب وہ میری بیوی ہے بس بات ختم!اور بیوی کا مطلب آپ اچھے سے جانتی ہونگی مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔"سامنے رکھی ٹیبل پہ آہستہ سے ہاتھ مار کے وہ پیچھے ہوا انوش نے چونک کے سر ہلادیا۔
"آپ وعدہ کریں اپ اسے کچھ نہیں بتائیں گے!آپکی گاڑی تو چل پڑے گی پر آپکی ظالم بیوی میرا کچومر بنا دے گی۔"
"لڑکی میری بیوی کو بدنام نا کرو۔"وہ ہنستے ہوئے کھڑا ہوگیا عائشے دروازے پہ کھڑی تھی انوش کی اسے دیکھ سٹی گم ہوگئی پر قسمت اچھی تھی مراد کے آخری جملے کے علاوہ اس نے کچھ نہیں سنا تھا۔انوش کے بتانے عائشے کے دل میں کسی کے ناہونے کی بات سن کے مراد کے دل کو مزید ڈھارس ملی تھی۔اسے اندازہ ہوگیا تھا عائشے نے انوش کو سب بتا دیا جب ہی وہ اسکے سامنے بیٹھی اتنا کچھ سمجھانا چاہ رہی تھی۔
"چلیں؟"
مراد نے ایک بار عائشے سے پوچھا دل تو کیا تھا بول دیتی نہیں پر پیچھے انعم بیگم کھڑی تھیں زبردستی وہ بس مسکرا دی۔اسکی ناک کی لونگ چمک رہی تھی۔
"عائش جیجا جی کو بلکل پریشان مت کرنا۔"عائشے نے اسے آنکھیں چھوٹی کیے دیکھا اور نفی میں سر ہلایا سر پہ دوپٹہ درست کیا۔
"ویسے اے ایس پی صاحب اب تو میں آپکی سالی بن گئی ہوں،مجھے ریمانڈ ہی ریمانڈ ہے اور آپکو جیجا جی بول رہی ہوں برا تو نہیں لگا نا؟"سینکڑوں بار جیجا جی کہنے کے بعد اسے ہوش آیا تو پوچھ بیٹھی۔
"مراد بھائی کہہ لوگی تو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں۔"مطلب صاف انکار تھا۔
"اوکے مراد بھائی۔عائش اب میں تمھاری نند بھی ہوں سنبھل کے رہنا۔"وہ لمحوں میں بدل گئی تھی اور عائشے کو محتاط رہنے کی وارننگ دے دی۔مراد کی ہنسی بے ساختہ چھونٹی انعم بھی ہنسنے لگیں جب کہ عائشے تو سر پیٹتی رہ گئی تھی۔رومائزہ کس پاگل کے ساتھ اسے اکیلا چھوڑ نکل گئی تھی کاش روما ہوتی وہ سکون اسے اپنا حالِ دل سناتی کم از کم وہ انوش کی طرح الٹی سیدھی حرکتیں تو نہ کرتی۔
مراد کو انوش بلکل اپنی چھوٹی بہن کی طرح ہی لگی تھی۔زیادہ بولنے والی فوراً اگلے کے رنگ میں گھل جانے والی اگلے کو متاثر چھوڑ دینے والی،باتوں سے باتیں نکال لینے والی!یعنی خوش مزاج زندہ دل لڑکی!
                          ★ ★ ★
آج بھی بلوچ منزل سے اس بنگلے تک کا سفر خاموشی سے کٹ گیا۔عائشے مراد کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔وہ اپنے خیالوں کی دنیا میں گم تھی اچانک ہی مراد کے کندھے سے اسکی جھڑپ ہوئی۔مراد ٹہھرا پلٹا تو دیکھا عائشے ناک پہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔
"دیکھ کر چلو.."اسے کہتا وہ لاؤنچ تک آیا تھا جہاں دن کا ماحول بنا تھا مراد کی کیفیت میں سرشاری آگئی۔
"اسلام و علیکم بھائی جان..."ہاں وہ نیمل تھی،مراد کو اندر آتا دیکھ ماں کے پاس صوفے سے اٹھ کر بھائی کی طرف خوشی سے لپکی تھی۔مراد نے اسے اپنے حصار پہ لیا۔
"آئی مسڈ یو ٹو مچ،،نیکسٹ ٹائم اب ہم فیملی پکنک پہ جائیں گے اور آپ کو ڈیوٹی سے وقت نکالنا ہی ہوگا۔"وہ اس سے لگی شکوے شروع کر چکی تھی۔لاؤنچ میں موجود زرپاش صاحبہ کے چہرے پہ بھی چھوٹی بیٹی کے ناز دیکھ کر مسکراہٹ آگئی۔مراد نے اسے نرمی سے سامنے کیا۔نیمل اس سے پہلے کچھ بولتی عائشے مراد کے پیچھے منہ بناتی ہوئی اندر آئی تھی۔
"ویلکم بھابھی جی۔"مراد کو چھوڑ چھاڑ اس نے گرم جوشی سے عائشے کا استقبال کیا۔
عائشے نے ناک کی تکلیف کا غم پرے ڈالا مراد کے ساتھ اپنی ہم عمر خوبصورت سی لڑکی کو دیکھا جو اب اسی کی جانب لپک آئی تھی۔
  "فائنلی میری بھی بھابھی آگئیں۔میری ساری دوستوں کے بھائیوں کی شادیاں ہوگئی تھیں سوائے میرے بھائی کے پر اب غمِ زندگی کچھ کم ہوا۔"وہ خوشی سے عائشے کے گلے لگ گئی۔وہ حیران نا ہوتی تو کیا کرتی بڑی نظروں سے مراد کو دیکھا جو نیمل کی حرکت پہ مسکرا رہا تھا جب کہ ساس کا چہرے اب بے تاثر تھا۔
وہ شاکڈ تھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اس گھر متھ اسکا یوں استقبال بھی کرے گا۔نیمل پیچھے ہٹی اور چہرے پہ آتے بالوں کو ساتھ اس نے کان کے پیچھے اڑس دیا عائشے کی شال اسکے کندھوں پہ آچکی تھی بال کیچر میں مقید تھے۔چہرے پہ نا ہونے کے برابر میک اپ تھا اور وہ اپنی سادگی میں ہی دلکشی ڈھا رہی تھی۔
"بھائی اپنی بیگم کو میرا تعارف تو کروائیں۔"وہ عائشے کو بازو سے تھام کے مراد کے پاس لے آئی تھی اور خود مراد کے کندھے کو دیوار سمجھ کے ٹیک لگا چکی تھی۔
"عائشے یہ میری چھوٹی بہن نیمل دمیر ہے..اور نیمل یہ تمھاری بھابھی عائشے دمیر۔"عائشے کے سامنے جان بوجھ کر عائشے دمیر پہ اس نے زور دیا وہ اسے گھورتی گئی۔نیمل کی خوش اسلوبی پہ عائشے مسکرادی۔
"نیمل بھابھی کو انکے کمرے میں لے جاؤ۔"زرپاش صاحبہ صوفے سے اٹھ گئیں نیمل نے سر ہلایا اور مراد کے اشارے پہ عائشے نیمل کے ساتھ چلی گئی۔
مراد قدم بڑھاتا کیپ کو ٹیبل پہ رکھ کے زرپاش کے سامنے ہی آگیا۔
"خیریت ہے مام؟"
"ہاں،تم جلدی آگئے مجھے لگا نہیں آؤگے۔میران جاہ کو گولی لگی ہے۔"وہ مزید معاملہ مراد سے اخذ کرنا چاہتی تھیں۔
"ہمم...کسی اور کو کیس دے دیا ہے تو میں چلا آیا،جو بھی ہو بہت برا ہوا افسوس ہوا ہے مجھے،میران بہت اچھا انسان ہے جب سے سیاست میں آیا ہے ہمیشہ عوام کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا اس نے خطے میں بہتری لانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔"مراد سچائی سے بولا،کیپ اٹھا کے اسے موڑ رہا تھا۔
"شکر ہے گولیاں نکال دی گئی ہیں۔"زرپاش کہتی صوفے پہ بیٹھ گئیں۔مراد مسکرایا۔
"چھوڑیں اسے۔"زرپاش نے ایک نظر مراد کو دیکھا۔
"کھانا لگواؤں تمھارے لیے؟اور تمھاری بیوی نے کھانا کھا لیا؟"وہ ٹی وی پہ نظریں جما چکی تھیں۔ٹی وی پہ خبروں کا چینل ہی کھلا تھا جو مراد کی آمد پہ زرپاش نے آواز کم کردی تھی۔
"عائشے کے گھر کھالیا،آپ کی طبیعت کیسی ہے بابا کو یاد کر رہی ہونگی۔"زرپاش کی نرمی دیکھتا ان کو مکھن لگاتے وہ انکے پاس ہی بیٹھ گیا تھا۔
  "مجھے سو فیصد یقین ہے کل آپکا کوئی استقبال نہیں ہوا ہوگا۔کاش میں دوستوں کے ساتھ گھومنے نا گئی ہوتی تو کل آپکے استقبال کے لیے موجود ہوتی۔"وہ دونوں کمرے میں تھیں عائشے نے شال اتار کے بیڈ پہ رکھی دوپٹہ بھی ایک طرف سے لڑک کر گر گیا تھا۔
عائشے کو تھوڑی بہت نیمل سے ہچکچاہٹ تھی جو کمرے میں آکے نیمل کی باتیں سن کر ختم ہوگئی۔
"تم واقعی مراد کی بہن ہو؟"عائشے نے داہنی آنکھ چھوٹی کیے پوچھا نیمل اسکے سوال پہ ہنس دی۔
"ہاں میں ان کھڑوس لوگوں کی بہن اور بیٹی ہوں،ویسے یہ لوگ بھی کھڑوس نہیں ہیں۔میری مام اور آپی دونوں بہت اچھی ہیں نرم طبیعت کی مالک ہیں پر ابھی مہمل کی وجہ سے آپکو قبول کرنے میں دیری کر رہی ہیں۔بہت جلد وہ آپکو بہو مان لیں گی۔خیر یہ سب چھوڑیں آپ یہ بتائیں بھائی سے آپ کیسے ملی؟مام نے بتایا مراد بھائی آپکو پسند کرتے تھے۔"
"یہ تم اپنے بھائی سے ہی پوچھنا۔"اب وہ کیا بتاتی اسے کچھ سوجھا ہی نہیں تو مراد کو بیچ میں لے آئی۔
"تم کو برا نہیں لگا ہمارا اچانک شادی کرنا؟"عائشے بیڈ پہ ٹک گئی تھی نیمل دراز سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔
"آپ دونوں اپنی زندگی پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔میں کون ہوتی ہوں برا ماننے والی؟اور آپکے اس عمل سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی تو برا لگنے والی کوئی بات ہی نہیں۔"
"پر آنٹی۔"عائشے کے بیچ میں بات اچکنے پہ نیمل نے واپس بات کاٹی۔
"ہاں انکو تکلیف ہورہی ہے جب ہی وہ ناراض ہیں،پر غلطی آپ دونوں کی نہیں ہے۔میری مام کی غلطی ہے،بھائی نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ وہ مہمل کو پسند کرتے ہیں اور اس سے شادی کرلینگے وہ پہلے دن سے اس بات کی نفی کرتے آئے ہیں۔آپ بھی کوئی غلط فہمی نہیں پال لیے گا،آپ سے سمجھداری کی امید کرتی ہوں۔"وہ اپنے بھائی کے حق میں بولی تھی عائشے کو سن کے اچھا لگا۔ویسے تو پولیس والے سے بہت مسئلے تھے پر ناچار طور پہ اب وہ اسکے متھے لگ گئی تھی۔
عائشے اب کی بار خاموش ہی رہی۔مراد کمرے میں آیا عائشے کو دوپٹے کا خیال آیا تو اس نے فوراً اٹھا کے کندھوں پہ پھیلا دیا تھا۔
"اب وہ محرم ہی ہیں اتنا گھبرائیں تو مت..."مراد کو دیکھتی نیمل سیدھی ہوگئی اور آنکھیں پٹپٹاتی کمرے سے نکل گئی۔
مراد چینج کر کے کمرے میں آیا عائشے صوفے پہ بیٹھی تھی وہ منہ تولیے سے خشک کرتا اسکے برابر میں بیٹھ گیا عائشے نے اٹھنے کی سعی کی تھی مراد نے کلائی تھام کے اسے واپس بٹھایا۔وہ بات کرنا چاہتا تھا۔
"مجھ سے ڈرتی ہو؟"ہاں بلکل یہ بھی مراد کو انوش نے ہی بتا دیا تھا اور عائشے سمجھ گئی تھی کونسی ان جیجا سالی کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔انوش نے کھلے لفظوں میں تو اسکی کمزوری نہیں بتائی تھی پر وہ چاہتی تھی عائشے کا جو بھی خوف ہو مراد اسے سمجھا کر نکال دے۔
مراد کے سوال پہ عائشے نے نفی میں سر ہلایا تو مراد کے چہرے پہ تبسم بکھرا عائشے اسکی بھلی سی مسکراہٹ دیکھتی رہی۔مراد کی زیرک نگاہیں اسکی لونگ پہ آں ٹھہری تھیں۔کل رات بھی وہ بے چین ہوا تھا اور اب چھونے کی خواہش جاگ اٹھی تھی عائشے نے اسکی نظروں کی تپش سے سر جھکا لیا۔
وہ لونگ جیسے مراد کی کمزوری کا سبب بن رہی تھی۔
"عائشے میں ان مردوں میں سے نہیں جو بیویوں پہ زور دباؤ ڈالتے ہیں۔میں پرسکون زندگی جینا چاہتا ہوں اور تمھیں بھی پرسکون رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔میں نے تم سے نکاح کیا ہے تم میری بیوی ہو ذمہ داری ہو،اور جانتی ہو میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں ایک دوسرے کا عکس ہوتے ہیں۔ہمارے درمیان جو اجنبیت کی دیوار ہے اسے توڑنا ہوگا ساری زندگی ساتھ رہنا ہے خود کو بھی موو آن کرنا ہوگا!میں اپنا بتا دوں میری زندگی میں پہلے کوئی نا تھی اور اب کوئی ہے تو میری بیوی ہے۔اور مجھے یقین ہے میری بیوی کے دل میں بھی کوئی نہیں تھا۔"
وہ درحقیقت رشتہ آگے بڑھانا چاہتا تھا عائشے کی جھجھک مٹا دینا چاہتا تھا۔جب انکا تعلق بہتر ہوتا جب ہی تو وہ گھر والوں کو فیس کرسکتے تھے۔اس نے بے حد نرمی سے اپنی بات کہی تھی۔عائشے کو لگا ہی نہیں وہ کل رات اور صبح والا ہی مراد ہے۔
رہنا تو اسی کے ساتھ تھا اور عقلمندی کا تقاضا بھی یہی تھا سب کچھ قبول کرلیتی ورنہ بد سکونی کے سوا کچھ اسکے ہاتھ نہیں لگتا۔
"تو آپ یہ سب مجھے کیوں بتا رہے ہیں میں بچی تو نہیں ہوں سب معلوم ہے مجھے بھی۔"سردی سے اسکی ناک سرخ ہوگئی تھی۔دن ڈھل رہے تھے اور سردی بڑھتی جا رہی تھی۔
مراد کی کالی آنکھیں عائشے کی بھوری آنکھوں سے لمحہ بھر کے لیے ٹکرائیں۔عائشے نظریں بچا کر ہاتھ ملنے لگی۔
"رشتوں کے ستون مضبوط ہونے چاہیے ورنہ غلط فہمی جیسی دراڑوں کے آنے سے بعض اوقات رشتے بگڑ جاتے یا ختم...اور میں صبح ہی تمھارا بچپنا دیکھ چکا ہوں اسی لیے سمجھانا بہتر سمجھا،ورنہ اگلی صبح بھی تم نے کسی بہانے لڑنے بیٹھ جانا تھا...کل رات سے ہی تم موقع کی تلاش میں تھی نا کہ بس میاں پہ غصہ اتار دوں۔"
اسکی پول پٹیاں وہ منہ پہ بیٹھ کے کھول رہا تھا عائشے کا منہ کھل گیا خفیف نگاہ سے مراد کو دیکھا جسکی بے چینی کا عالم یوں تھا کہ اس نے ہاتھ بڑھا کہ ماؤف سی حالت میں عائشے کی لونگ چھو لی..لبوں پہ گلِ شیریں مسکراہٹ پھیل گئی۔عائشے یک دم سیدھی ہوئی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرت لیے مراد کو دیکھا تھا جو اب پیچھے ہوکے انجان بنا ماتھا مسل رہا تھا۔اسکی حرکت پہ جی بھر کے شرمندہ ہورہی تھی ساتھ بیٹھنا محال ہوگیا وہ اٹھ کے واش روم میں بند ہوگئی اور مراد سر جھٹک کے فون میں لگ گیا۔
"حد ہوگئی مراد ایک لونگ کے پیچھے تم..."وہ دانستہ طور بڑبڑاہٹ بھی ادھوری چھوڑ گیا۔
                                ★ ★ ★         
    سورج نکل آیا ہر سوں اسکی روشنی پھیلی تھی کھڑکیوں سے آتی روشنی نے ہی فارم ہاؤس کو روشن دان بنا دیا تھا۔رات اسے مشکل سے نیند آئی تھی۔ساری رات وہ کروٹیں بدلتی رہ گئی۔
رومائزہ کے کمرے کا دروازہ اگلی صبح ہی کھلا تھا۔رات ناجانے کیسے وہ اتنی جذباتی ہوگئی تھی۔
نا ہی تو وہ اس سے محبت کرتی تھی نا ہی پسند پھر کیوں!عجیب سی بے چینی اس پہ طاری تھی۔
دروازہ کھلا دیکھ حلیمہ بی اسکے کمرے میں آئیں وہ پیٹنگ برشز ٹب میں ڈالے دھو رہی تھی۔وہ کئی پل اسے دیکھتی رہیں جو خود کو مصروف ظاہر کر رہی تھی۔
"کیا وہ بچ گیا؟"حلیمہ بی بیڈ پر بیٹھی تھیں اس نے گردن موڑ کے انھیں دیکھا اور لہجے ہر چیز سے عاری تھا۔
"الحمدللہ۔اللہ نے کرم کیا گولی سینے کے قریب لگی تھی ڈاکٹرز نے نکال لی۔"ان کے بتانے پہ رومائزہ نے سانس بحال کی واپس اپنے کام میں لگ گئی۔
"کل رات تمھیں کیا ہوا تھا؟حواس باختہ سی کمرے میں جاکے بند ہوگئیں۔سائیں کی فکر ہورہی تھی؟"وہ اس سے بہت کچھ اگلوانا چاہتی تھیں۔اس نے خود پہ لعنت بھیجی تھی کہ رات ہوا کیا تھا اسکو۔۔
اس نے برشز تولیے پہ رکھے اور گیلے ہاتھ دوسرے تولیے سے خشک کرکے ان کے پاس آگئی۔
"جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں۔مجھے اس کے لیے برا لگا تھا اور وہ میرا ری ایکشن تھا۔"
"واقعی ایسا ہی ہے؟"انھوں نے اسکی آنکھوں میں جھانکا جو بہت الجھی ہوئی تھی۔روما نے پلکیں جھپکائیں۔
"کوئی بات پریشان کر رہی ہے کیا؟"
"ہممم...مجھے لگا میری بد دعاؤں کا یہ سب نتیجہ تھا۔پہلے مجھے اس پہ بہت غصہ تھا اور میں سہی بھی تھی میں نے بہت بد دعائیں دی تھیں غصہ مجھے اب بھی ہے!پر پہلے والا غصہ الگ قسم کا تھا۔"وہ سر جھکا گئی میران کے لیے بلکل نرمی ظاہر نہیں کرتی تھی۔
"تو اب تم کو پچھتاوا ہورہا ہے۔"
"حلیمہ بی اس نے کہا تھا اس نے مجھے اغوا کروایا پر اسکے پیچھے ٹھوس وجہ تھی وہ ظالموں سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا ایک انجان لڑکی کو...پھر کہیں اس سے بھی بھول ہوئی اور پھر اللہ نے اسکو سزا دے دی۔یہ اسکا اور اللہ کا معاملہ ہے میں کون ہوتی ہوں پھر،معاف کردیا ہے اسے...اس نے غلطی سدھارنی بھی چاہی پر سب الٹا ہی ہوگیا اور میں واپس یہیں قید رہ گئی بقول آپ سب کے میری اسی میں بھلائی ہے اور اس بات سے میں بلکل اتفاق نہیں کرتی کیونکہ میں اپنے بابا کے ساتھ محفوظ رہ سکتی ہوں۔آپ لوگ بڑے سائیں سے ڈرتے ہونگے پر میں نہیں۔صرف میں اپنے بابا کی وجہ سے برداشت کر رہی ہوں ورنہ یہاں کی دیواریں پھیلانگ کر بھی بھاگ سکتی ہوں۔"
"سو بات کی ایک بات تم نے سائیں کو معاف کردیا ہے"
"ہاں...جب کوئی دشمنی ہی نہیں تو میں اسکے مرنے پہ کیوں خوشیاں مناؤں۔۔اتنی بری بھی نہیں ہوں جتنا وہ مجھے سمجھتا ہے۔"کندھے کو چھوتے بال اس نے پیچھے کیے۔
"میرا دل ہر قسم کے جزبے سے عاری ہے اور کچھ ہوتا تو گواہ میری آنکھیں ہوتیں جو آپ پڑھ لیتیں ہیں۔"وہ مسکرا کے کھڑی ہوگئی حلیمہ بی اسے دیکھے گئیں وہ سچ ہی کہہ رہی تھی۔کیسی لڑکی تھی سمجھ سے باہر!
کمال طریقے سے اس نے دل پہ قابو کیا ہوا تھا۔
"وہ تم کو برا سمجھتے ہی نہیں۔"
"وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں اسکے اس جذبے کا احترام کرنے لگی ہوں اور کچھ نہیں بس!"وہ کھڑی ہوگئی۔
حقیقت اس نے آج بتادی تھی۔حلیمہ بی کی چہرے پہ مسکراہٹ نے جگہ بنائی۔یہ دل کب موم ہوتا بس اسی کا انتظار تھا۔
وہ میران پہ بھروسہ کرنے لگی تھی اسکی محبت پہ تو یقین کر ہی لیا تھا۔یہاں اسکو میران نے الگ ہی مقام دیا تھا اور جو آگے مستقبل وہ مقام دینا چاہتا تھا اسے وہ ہرگز قبول نہیں کرتی تھی۔اسکی زنگی میں ایک ہی شخص اور وہ اسکا باپ تھا۔
"میری نفرت کی آگ بے شک ٹھنڈی ہوگئی ہے پر غصہ مجھے اس پہ اب بھی ہے۔"
"جب معاف کرچکی ہو تو پھر کس بات کا غصہ؟"انھوں نے حیرت سے پوچھا۔
"حلیمہ بی ہے بس!سمجھتا کیا ہے خود کو۔مجھ کو میرے بابا سے ہی دور کردیا،حفاظت کے لیے میرا اللہ کافی ہے!کچھ ہونا ہوگا تو یہاں بھی ہوجائے گا۔"تھوڑی نرمی جو آئی تھی وہ صرف میران کے رویے کی وجہ سے تھی پر جو وہ باتیں کردیتا تھا اور سب سے بڑا کارنامہ جو وہ یہاں قید تھی یہی سوچ کے اسکا غصہ پھر عود آتا تھا۔
"پر انسان احتیاطی تدابیر بھی تو لے سکتا ہے نا۔"وہ اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔
"آپ لوگوں سے بھلا میں کبھی جیت سکتی ہوں۔میرے علاوہ اور بھی اس نے دشمن پال رکھے ہیں جو سیدھا گولیاں چلوادیتے ہیں،اسٹرینج!"وہ بھنوویں گھوماتی ڈریسنگ کے سامنے کھڑی تھی اور بات با آسانی بدل چکی تھی۔۔حلیمہ بی اسے ناشتے کے لیے بلانے آئی تھیں پھر اسکی خیریت پوچھنے ہی بیٹھ گئیں۔سچ تو یہ تھا رات ان دونوں نفوس نے میران کے لیے نوافل پڑھے تھے۔
"ادھر ادھر کی باتیں کروالو تم سے..ناشتہ کرنے چلو۔"اسے ڈپٹتی وہ کمرے سے باہر لے گئیں۔
                          ★ ★ ★
میڈیا نے من مرضی خبریں چلانا شروع کردی تھیں۔تمام باتوں کا رخ زولفقار جاہ پہ آکے رکتا۔میران ضبط سے خبریں سن رہا تھا اس نے ٹی وی بند کروادیا۔
دروازے پہ نگاہ گئی تھی شمس کے ساتھ اجمل خان عیادت کے لیے آیا تھا۔
انھوں نے کافی ہمدردی محسوس کروادی تھی۔میران مسکراتا رہا۔خبروں میں کیا چل رہا تھا اسکا علم ہر ایک کو تھا اسی سلسلے میں اجمل نے بھی بات کی تھی میران بس سنتا ہی رہا تھا۔
اجمل خان اور زولفقار جاہ کے بیچ شروع سے ہی معاملات ناساز تھے اسی وجہ سے اجمل کی جاہ کے برائے میں رائے جان کے میران کو حیرانی نہیں ہوتی تھی۔
انکے مطابق بھی حملے کے پیچھے اسکے باپ کا ہی ہاتھ تھا۔
"میں جانتا ہوں پہلے بھی کہا تھا وہ دشمن پلنے نہیں دیتا فوراً ایک طرف لگا دیتا ہے۔"اجمل خان نے بھی اسی وجہ سے کھلم کھلا کہا اپنی دشمنی واضح نہیں کی تھی۔
ایک حد تک انکی بات سے اتفاق کیا جاسکتا تھا پر میران انکا بیٹا تھا دشمن نہیں!اور حملہ صرف دھمکانے کے لیے تھا تو معاملہ زولفقار جاہ سے مکمل طور پہ مل نہیں رہا تھا وہ بلاوجہ باپ پہ الزام تراشی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔وہ پریقین تھا اس میں زولفقار کا کوئی ہاتھ نہیں۔
تھوڑی دیر میں کسی معروف چینل کا سی ایی او ملنے آیا تھا۔
"میران صاحب کیسے ہیں؟"تحفے کے طور پہ لایا بوکے ٹیبل پہ رکھ دیا تھا۔عزیز نے گردن دوسری جانب موڑ لی۔میران اب کمر تکیے سے ٹکا کے بیٹھا تھا۔
"آپکے سامنے ہوں بلکل ٹھیک اور یہ آپ اپنے کارندوں کو لگام ڈالیں،یہ جتنی الٹی سیدھی خبریں چلائی جا رہی ہیں انھیں بند کروائیں۔
خبردار جو میرے باپ کا نام بلاوجہ کسی نے بیچ میں لیا۔"اسے غصہ کرنے سے ڈاکٹرز نے سختی سے منع کیا تھا پر جیسے لوگوں کے کارنامے تھے غصہ اگلے کو آجاتا تھا اب بھی بہت ضبط کیے وہ بیٹھا تھا۔
"میڈیا آزاد ہے جاہ صاحب۔"
"بے شک پر الٹی سیدھی خبریں نشر کرنے کے لیے نہیں ہے اسکے خلاف میں سب کے اوپر کیس دائر کرسکتا ہوں۔کیا سوچ کر میرے باپ کو اس حادثے کے پیچھے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے؟"سب کے سب ویوز ہڑپ رہے تھے میران غصے میں پھٹ پڑا تھا اسکے ماتھا تن آیا۔عزیز کے ٹوکنے پہ اس نے خاموشی اختیار کی۔
"مہربانی فرما کر آپ یہ سب بند کروائیں ورنہ ہم اپنے طریقے سے کروائیں گے جو آپکو بلکل پسند نہیں آئے گا۔"عزیز نے صاف کہا سی ایی او سٹپٹایا اور معذرت کرکے نکل گیا۔
زولفقار جاہ تک جب یہ خبریں پہنچی تھی انکو الگ غصہ چڑھا تھا دنیا بیٹے پہ افسوس اور باپ پہ لعنتیں بھیج رہی تھی جب کہ پولیس کی جانب سے کچھ بھی کنفرم نہیں ہوا تھا۔
زولفقار کے بعد میران نے بھی شمس کو کہا تھا سارے چینلز پہ سے یہ خبر بند کروائے اور کہیں بھی اب میران کے متعلق بلاوجہ کوئی زکر نہ ہو۔
میران نے شمس کو ڈسچارج پیپرز بنوانے کا کہہ دیا تھا یہاں کل رات سے پڑے رہ کر سخت بے زار تھا دائم صبح آٹھ بجے تک واپس جاچکا تھا اسکے بعد لوگوں کی آمد شروع ہوگئی تھی اب بس وہ گھر جانا چاہتا تھا۔عزیز کی حالت میں بھی بہت بہتری آئی تھی۔عزیز کی جگہ شمس میران کے آرڈر پہ عمل کر رہا تھا اور عزیز بے چارہ شمس کو دیکھ جی کڑا کے رہ جاتا۔
   ایک بجا تھا میران آنکھیں موندیں گہری سوچ میں ڈوبا تھا دروازہ ناک ہوا میران نے آنکھیں کھولیں سامنے اے ایس پی مراد دمیر کھڑا تھا۔
                                       جاری ہے.....

Bach gaya Meeran..Hero tha kese marskta tha..Ab comments ki janib rukh kr lein👍
Han Romaiza or Meeran k scene kuch episodes se nhi arhy..sbr sbr..

Comment krky episode kesi lagi,,,izhar e raye lazmi krein👍
Or haan vote bhi kia krein..🤝

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now