قسط 25 سن سائیاں

496 50 7
                                    

چار دن بعد...رومائزہ اور انوش خالی کلاس میں بیٹھی ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔انوش کا دھیان ساتھ ہی موبائل میں بھی لگا ہوا تھا۔رومائزہ بال پین کو مسلسل بجا رہی تھی۔
"ایگزامز کے بعد تمھارا نکاح سفیر سے ہوجانا ہے پھر تو جاب کرنے کی ضرورت نہیں۔"رومائزہ نے اسے گھورا۔
"مطلب پھر تو تم انکی ذمہ داری ہوجاؤگی،ابھی تم اسی لیے جاب کرنا چاہتی ہو کہ کسی پہ بوجھ نہ بنو۔میں تمھیں جاب کرنے سے روک نہیں رہی،کرو کرو۔بس تمھارا خیال جاننا چاہ رہی تھی کہ تم نکاح کے بعد انکے آفس میں جاب کروگی؟"
"یار انوش کیا بے تکی باتیں کر رہی ہو۔نکاح کے بعد جاب کرنا منع ہے کیا؟"وہ جھنجھلا کر بولی انوش نے دھیان واپس موبائل کی جانب مبذول کرلیا۔
"اچھا میرا ایک مشورہ سن لو،تمھارے اندر ایک آرٹسٹ ہے،تم چاہو تو اسے مزید نکھار سکتی ہو۔تمھاری پینٹگز بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔یونی ایگزیبیشن میں بھی لوگوں نے سب سے زیادہ تمھاری پیٹنگز خریدی تھیں،تمھیں اس حوالے سے سوچنا چاہیے۔"
وہ اسے پیٹنگز بنا کر سیل کرنے کی بات کر رہی تھی۔رومائزہ کے ہاتھ میں ہنر تھا،اس کام میں وہ ماہر تھی۔بڑی محبت سے اصل چیز کو دیکھ کر اپنے برش سے کاغذ پہ اسکی عکاسی کرلیا کرتی تھی۔اور اسکی پینٹنگز بہت رئیلیسٹک لگتی تھیں۔
چاہے وہ کوئی منظر ہو یا انسان۔کسی کی پرچھائی ہو یا کوئی بھی ڈیزائن۔
رومائزہ نے گہری سانس لی۔کچھ دیر سوچا۔
"رائٹ۔پر میں جاب کے ساتھ پارٹ ٹائم اسے کنٹینو کرونگی۔بابا کی بھی خواہش تھی کہ میں اپنی سکلز ڈویلپ کروں اور اسی میں اپنا نام بناؤں۔"
داہنے ہاتھ میں موجود انگھوٹی کو دیکھتے اس نے کہا۔انوش نے مسکرا کے سر ہلایا۔کلاس روم میں خاموشی چھا گئی۔دروازے کی چرچراہٹ پیدا ہوئی۔عائشے اندر آئی تھی۔
روما نے سر اٹھا کے اسے دیکھا وہ انکے پاس آکر بیٹھ گئی۔
"عائشے ولیمے کا ڈریس تم لے آئیں؟"انوش نے اب موبائل بند کرکے ہاتھوں کے درمیان میں رکھ لیا۔
"ہاں،گرے کلر کی میکسی لی ہے۔"
عائشے نے مسکرا کر بتایا۔اور بیگ سے نوٹ بک نکال کے سامنے رکھی۔اور ان دونوں کی طرف پیچھے منہ کر کے مڑ گئی۔
رومائزہ کو وہ اور انوش دو تین دن سے بدلی بدلی محسوس ہوئیں تھی۔کچھ عجیب سا تھا،جیسے کچھ چھپا رہی ہوں۔ریزروو سی لگ رہی تھیں۔اپنے خول میں سمٹی ہوئی۔
"واؤ....میں نے پرسو ہی انٹرنیٹ پہ ایک ڈریس دیکھا تھا اور اپنے لیے وہی آرڈر کردیا۔بس اسی ہفتے تک آجائے وہ،کبھی ولیمہ نکل جائے اور ڈریس مہینے بعد آرہا ہو۔"
وہ ہنس کر بولی۔رومائزہ بھی مبھم سا مسکرا دی۔
"ابھی دیڑھ ہفتہ پڑا ہے آجائیگا۔"عائشے نے تسلی بخش انداز میں کہا پھر سوالیہ نظروں سے روما کی جانب دیکھا۔
"کل تائی امی کے ساتھ شاپنگ پہ گئی تھی تو میں نے بھی ڈریس لے لیا ہے۔"اس نے دھیرے سے بتایا۔عائشے نے خوش ہوکر اسے دیکھا.
"کلر؟"
"جب پہنونگی تب دیکھنا۔"رومائزہ نے مسکرا کے نخرے سے کہا۔
"یہ تم دونوں بدلی بدلی کیوں لگ رہی ہو۔کیا کوئی بات ہے؟"وہ شاکی نظروں سے دونوں کو دیکھنے لگی۔اور پھر انوش،عائشے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی،وہ جذبذب سی ہوگئی تھیں۔
"نہیں تو۔میں سوچ رہی ہوں میرا کیا ہوگا تم دونوں کے بعد؟ایک دوست کا ولیمہ ہے اور ایک نکاح۔"وہ ڈرامائی انداز میں بات کا رخ ہی بدل گئی تھی رومائزہ ہنسنے لگی۔
"تمھارا تو کوئی ناول سے نکل کے ہیرو آئے گا۔"
اس نے اسے چھیڑا تو وہ شرماتے ہوئے کہنی میں منہ چھپا گئی۔اسکی اداکاری پہ عائشے نے سر جھکا کے مسکراہٹ دبائی تھی۔
"میں بہت تھک گئی ہوں۔صرف ایک دن کا فنکشن ہے اور مارکیٹ کے اتنے چکر لگ رہے ہیں۔امی بھی اب ساتھ چلنے کا کہہ رہیں۔وہ لیتی سب اپنی مرضی سے ہیں پر عائشے کو تھکانا لازمی ہے۔"عائشے نے اپنا مسئلہ سنایا۔انوش نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا۔
"اچھا ہے ولیمے سے پہلے وزن کم ہوجائیگا۔"
"تمھیں وزن کم کرنے کی ضرورت ہے،جب دیکھو منہ میں کچھ چل ہی رہا ہوتا ہے۔"عائشے نے فوراً اسکے ہر وقت کے کھانے کو نشانہ بنایا۔انوش کا منہ چیونگم چباتے چباتے رک گیا۔
"میرے کھانے پہ زیادہ تم لوگ نظر نہ لگایا کرو۔"اس نے فوراً برا سا منہ بنا کر تنک کر کہتے اسے دیکھا۔
دروازہ کھول کے پھر کوئی اندر آیا پر اس بار ان تینوں کی آواز کے درمیان دروازے کی چرچراہٹ دب گئی۔ہمایوں تھا۔رومائزہ کا منہ اسے دیکھ کر بگڑ جاتا تھا۔جب سے وہ واپس آئی تھی وہ بس ایک بار اس سے ملنے آیا تھا اسکا کاٹ دار انداز ہمایوں کو ڈرا دیتا تھا۔
"ڈئیر کلاس فیلو تمھارا ولیمہ ہے تم نے پوری کلاس کو انوائیٹ کیا بس مجھے ہی کرنا بھول گئیں؟"انکی ڈیسک کے پاس وہ کھڑا ہوگیا۔
"فی میل کلاس فیلوز کو انوائیٹ کیا ہے!اور تمھیں بھولے نہیں اگنور کیا ہے۔"رومائزہ نے جتا کر کہا۔
"تم میرے ساتھ نارمل نہیں ہوسکتی کیا؟"
"کس خوشی میں نارمل ہوں؟"
"اچھا سہی ہے،میں کوئی تم پہ لائن نہیں مارتا اب،بس یہ بتانا تھا۔"
"ہاں تھپڑ کے بعد تو اچھے اچھوں کے پر پرزے درست ہوجاتے۔خاص کر روما کے تھپڑ سے.."انوش کی سرگوشی اتنی بلند تھی کہ ان دونوں کا قہقہ چھونٹ گیا اور ہمایوں خود بھی ہنس ہڑا تھا۔رومائزہ نے ان دونوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ ہمایوں کے علاوہ اس نے تھپڑ میران کو بھی مارا تھا۔جس پہ وہ دونوں خوش ہوئیں تھی کہ بہت اچھا کیا وہ اسی قابل ہے۔
"اچھا میں ادھر جاکے بیٹھ جاتا ہوں۔"
اپنی جگہ کی طرف اشارہ کرتے وہ چلا گیا۔عائشے نے لب ملا کر الجھن کے مارے انوش کو دیکھا۔'کیا چیز ہے یہ؟'
"اللہ بہتر جانے۔"منہ ڈھیلا چھوڑ کے وہ بے زاری سے بولی۔
                 __________________
ایگزامز اسٹارٹ ہونے میں تقریباً دو ہفتے تھے۔وہ تینوں بھرپور طریقے سے تیاری میں مصروف تھیں۔خاص کر رومائزہ اسکی تیاری ان دونوں کے مقابلے میں کم تھی۔سب سے پرسکون انوش تھی جس نے پورا سیمسٹر پڑھا تھا۔ان دونوں کا تو درمیان میں گیپ ہی ہوگیا تھا۔اور رومائزہ کا دو ڈھائی مہینے کا لوس ہوا تھا جسے وہ کوور کر کرکے تھک چکی تھی۔بس اسکا دل کر رہا تھا اڑ کے اگلے سیمسٹر میں پہنچ جائے۔
   دمیر ہاؤس میں رونقیں بحال تھیں۔ارباز دمیر نے اندر اور باہر سے بنگلا قمقمی برقیوں سے روشن کروادیا تھا۔لان کی راہداری میں دیے روشن تھے۔
مسز مرتضیٰ نیمل کے نکاح کا جوڑا دینے آئی تھیں۔دائم باہر گاڑی میں انکا منتظر تھا۔نیمل سے ملاقات اسکی آفس میں روز ہوجایا کرتی تھی۔دونوں کے درمیان جو سرد دیوار قائم تھی وہ ختم ہو چکی تھی۔
"میں جوڑا دو دن پہلے ہی لے کر آتی پر درزی نے سلائی بڑی دیر سے کرکے دی ہے۔چلو شکر ہے ناپ فٹنگ وغیرہ سب ٹھیک ہے۔"زریں زرپاش سے مخاطب تھیں۔نیمل نے جوڑا پہن کے چیک کیا تھا۔وہ چینج کرکے واش روم سے نکلی تو زرپاش نے اسکی نظر اتاری۔پیروں تک کی کریم کلر کی امبریلا فراک تھی۔جس پہ نازک سا گولڈن کام چوڑے بارڈر پہ ہوا تھا۔گلے اور آستینوں کی موری بھی اس نفیس کام سے لیس تھیں۔
اسکے صاف چمکتے ہوئے چہرے پہ گہری مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔
زریں اپنی ہونے والی بہو پہ دل و جان سے محبت نچھاور کر رہی تھیں۔دائم انکا اکلوتا بیٹا تھا۔ایک بیٹا اور تھا جو بچپن میں ہی اللہ کو پیارا ہوگیا تھا۔
اب دائم میں انکی جان بستی تھی،اسکی دلہن پہ وہ پھر کیوں واری نہ جاتیں۔اپنے بیٹے کی پسند پہ بہت مطمئن اور خوش تھیں۔نیمل انکو بہت پسند آئی تھی۔
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ۔نظر نہ لگے۔بہت خوبصورت لگ رہیں ہیں اس میں آپ۔دائم تو میرے ساتھ آنے کے لیے اتاولا ہورہا تھا بڑی مشکل سے اسے باہر ہی رہنے انتظار کرنے کا کہہ کر آئی ہوں۔"
"ارے کیا ہوگا زریں،لے آتیں بے چارا باہر اکیلا بور ہورہا ہوگا۔"زرپاش نے دائم کے باہر انتظار کرنے کا سنا تو انکا تکلف ختم کرتے بولیں۔
"بس بھابھی میں رکونگی نہیں،چلتی ہوں گھر پہ بھی مہمان آئے ہوئے ہیں انھیں بھی دیکھنا ہے۔کل ملتے ہیں۔"
وہ نیمل کی تھوڑی تھام کے پیار سے بولیں اور زرپاش کے ساتھ کمرے سے نکل گئیں۔ان کے جانے کے بعد نیمل نے ایک نگاہ آئینے میں خود کو دیکھا۔شرم کی لالی لبوں پہ بکھر گئی۔اس نے دھڑا دھاڑ موبائل میں اپنے اس حُسن کی تصویریں قید کی تھیں۔
"سادی اتنی اچھی لگ رہی ہوں،کل جب تیار ہونگی تو بجلیاں گراؤنگی۔"آئینے میں خود کو دیکھ کر اس نے شرماتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا۔تبھی موبائل ڈریسنگ پہ بجنے لگا۔
"ہسبنڈ ٹو بی..از کالنگ۔"اسکرین پہ نام جمگمارہا تھا۔لبوں پہ مسکراہٹ کے ساتھ اسکی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔دو دن پہلے عائشے نے جب دیکھا تھا کہ اس نے دائم کا نمبر کس نام سے سیو کیا ہے تو وہ اس کا مزاق اڑاتے ہوئے بہت ہنسی تھی۔بلکے اسے چھیڑ رہی تھی۔پر اسے فرق نہیں پڑا تھا وہ خود بھی اسکا ساتھ دیتے ہوئے ہنسنے لگی تھی۔ہونے والا شوہر ہی تو تھا اب اور بھلا کیا نام رکھتی۔
اس نے تیسری بیل پہ کال ریسیو کرلی اور لب دانتوں تلے چبا کر ڈریسنگ پہ اچک کر بیٹھ گئی۔
"ہیلو..."
"جی؟"اسکی آواز سن کر دائم نے دل پہ ہاتھ رکھ کے سر چئیر کی پشت پہ ٹکایا اسکا دوسرا ہاتھ اسٹیرنگ پہ جما تھا۔زریں ابھی اندر لاؤنچ میں ہی تھیں جب ہی اس نے انکی غیر حاضری میں کال کر لی تھی۔
"مہندی لگوالی؟"اس نے لہجے کو نارمل کیا۔
"بس اب لگواؤنگی۔مہندی والی انتظار ہی کر رہی ہے میرا۔"وہ کنفیوز ہورہی تھی۔
"کیا تمھیں دیکھ سکتا ہوں؟باہر بالکونی میں آجاؤ۔میں لان میں آکر دیکھ لونگا۔"
"سوری...میں مام کے روم میں ہوں نیچے۔اور آپ سے ایک دن کا انتظار بھی نہیں ہورہا کیا؟"ایک ادا سے اس نے بالوں کی لٹ انگلی پہ لپیٹی تھی۔
"نیمل جلدی باہر آؤ،مہندی والی کب سے انتظار کر رہی ہے۔"عائشے نے آکے دائیں ہاتھ سے دروازہ پیٹنا شروع کردیا کیونکہ بائیں ہاتھ میں اسکے مہندی لگ چکی تھی۔اس نے مہندی زیادہ اوپر سے نہیں لگوائی تھی بس کہنی کے نیچے سے ڈیزائن بنوایا تھا۔جو اسکے سفید ہاتھوں پہ اچھا لگ رہا تھا۔
   نیمل اسکی آواز پہ چونکی۔
"آرہی ہوں بھابھی جان۔"اس نے بلند آواز سے کہا تو عائشے پلٹ گئی۔
"میں بعد میں بات کرونگی،ابھی سب باہر بلا رہے ہیں۔"
"اچھا سنو مہندی کی تصویر بھیج دینا۔میرا نام تو لکھواؤگی نا اپنے ہاتھ پہ بس وہی بھیجنا۔باقی کل میں خود ہی دیکھ لونگا۔"لہجہ اب تبدیل ہوگیا تھا۔وہ گھمبیر آواز میں آنچ دیتے لہجے سے بولا۔پتا لگ رہا تھا کوئی محبت میں گرفتار شخص گفتگو کر رہا ہے۔نیمل نے جھینپ کر بنا کچھ کہے لائن کاٹ دی۔
"لومڑی کہیں کی..."
اسکے کال کاٹنے پہ وہ اسے لقب سے نواز کر فون کان سے ہٹا گیا۔البتہ چہرہ بہت کھلا ہوا تھا لبوں پہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔بس چل تو ناچنا شروع کر دیتا۔
     پانچ منٹ بعد ہی نیمل کمرے سے نکل آئی تھی۔زریں تب تک جا چکی تھیں۔گھر میں کچھ مہمان تھے۔اور عائشے نے انوش اور رومائزہ کو بھی بلا رکھا تھا۔
انوش نے نازک سی بیل ہاتھوں کی پشت پہ لگوائی تھی۔اور رومائزہ منع ہی کر رہی تھی،نیمل کے بے جا اسرار پہ اس نے گول ٹکیا اور پورے ہاتھوں پہ لگوا لیے تھے۔مہندی اسے شروع سے ہی پسند تھے پر اب بس دل مر گیا تھا ان سب چیزوں کے لیے۔
نیمل نے آتے ہی بلند آواز میں اسپیکر پہ گانے بجا دیے تھے۔منتہی سب کے درمیان خوش ہوتی چہچہا کر ان پہ تھوڑا تھوڑا ہل جل رہی تھی اور سب کی حرکت پہ ہنس رہے تھے۔
گھر میں خوب محفل لگی تھی۔رومائزہ بھی سب کے درمیان خوب ہنس بول رہی تھی۔انوش اور عائشے اسے  خوش دیکھ کر اطمینان میں تھیں۔
عائشے نے انوش کو میران کے حوالے سے سب بتادیا تھا۔اب وہ دونوں اس قدر کنفیوژ تھیں کہ یہ بات رومائزہ کو بتائیں کہ نہیں؟کیا میران واقعی سچ کہہ رہا تھا؟عائشے نے اس معاملے میں خاموشی برتنے کا فیصلہ کیا۔اور انوش کو بھی یہی کہا تھا کہ کچھ نا کہے۔میران اسے خود بتائے گا اگر وہ یقین کرلے گی تو پھر دیکھی جائیگی۔وہ دونوں کسی بھی نتیجے پہ نہیں پہنچ پارہی تھیں اسی لیے خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔
عائشے کو میران پہ پھر بھی شبہ تھا۔
پر انوش بہت ڈسٹرب تھی۔اگر میران واقعی سچا ہوا تو؟وہ خود محبت میں ہاری بیٹھی تھی اگلے کی تکلیف کیسے نا سمجھ پاتی۔پتا نہیں ان تینوں دوستوں کہ زندگی کو کس کی نظر لگی تھی۔تینوں ہی مشکل حالات سے گزری تھیں۔سفیر کی جانب اس نے اپنے بڑھتے جذبات روک لیے تھے پر اکثر اسے اس بے بسی پہ رونا آتا تھا۔کیوں آتا تھا نہیں جانتی تھی۔وقت لگنا تھا اسے بھلانے میں یہ بات طے تھی۔
           _________________________
ارباز صاحب کام سے فارغ ہوکے گھر آئے تھے۔انوش سے وہ پہلے مل چکے تھے۔رومائزہ کو پہلی بار دیکھا تھا۔دمیر فیملی سے ملنے والی اس قدر محبت پہ رومائزہ حیران تھی۔محبت لٹانے والے لوگ تھے وہ،،
"انکل بعض اوقات حالات ایسے ہوجاتے ہیں نہ ہم کسی کو بتا پاتے ہیں نہ خود سمجھ پاتے ہیں۔اور وہ لوگ جنھیں ہمدردیاں بلکل ناپسند ہوں وہ بے چارے تو اندر ہی اندر ختم ہوجاتے ہیں۔"وہ ہلکی پھلکی مسکراہٹ ہے ساتھ بول رہی تھی۔
"اور مجھے لگتا ہے سب سے مشکل وقت وہ ہوتا ہے جب آپ اپنی دل کی بات بیان تک نہ کرسکیں۔خاص کر اپنے قریبی جن سے شکوہ ہو انھیں آپ بتا نہیں پاتے،اور اس طرح فاصلے بننا شروع ہوجاتے ہیں۔اور پھر یہ سوچیں آپ کو مارتی رہتی ہیں۔"
"بیٹا زہن آپکے جسم کا حصہ ہے۔جیسے آپکا اپنے ہاتھ پہ پورا اختیار ہے کب اسے اٹھانا ہے اسی طرح زہن پہ بھی ہونا چاہیے۔شکوے تو اپنوں سے ہی ہوتے جو فوراً ختم کر لینے چاہیے بات چیت کرکے۔تاکہ دل و دماغ چین سے رہیں.."دمیر اسکی بات کے جواب میں مسکرا کے بولے۔
"بلکل،پر یہی تو مشکل ہے ایک وقت ایسا لازمی ہوتا ہے جب زہن قابو میں نہیں آتا۔انسان خود وہی باتیں سوچتا ہے کیونکہ ان کو بار بار وہ سوچنا چاہتا ہے،اور اسی میں الجھا رہتا ہے۔جب کبھی زہن کو کوئی نئی بات سوچنے کو ملتی تب جاکہ ان سوچوں سے جان چھوٹتی ہے۔"
ارباز دمیر ہنسنے لگے۔
"ویسے آپ باتیں اچھی کرتی ہیں۔"ارباز صاحب اسکی کسی بات سے متاثر ہوکے بولے۔وہ بہت گہری باتیں ہی کرنے لگی تھی۔روما مسکرادی۔وہ ایک طرف صوفوں پہ انکے ساتھ بیٹھ کے باتیں کر رہی تھی۔باقی سب تھوڑے فاصلے پہ ہلا گلا ڈال رہے تھے۔
"بس بابا سے ہی سیکھی ہیں۔"اس نے مسکرا کر کہا۔زرپاش انکے پاس ہی آگئیں۔
"بیٹا آپ نے کھانا نہیں کھایا شام سے آئی ہوئی ہو۔"
"آنٹی مہندی گیلی تھی نا اسی لیے بس۔"اس نے ہاتھ اٹھا کے معصومیت سے کہا۔
"چلیں آپ کھانا لگوادیں میں رومائزہ کے ساتھ ہی کھا لونگا۔"
ارباز زرپاش سے مخاطب ہوئے۔زرپاش واپس کچن کی طرف چلی گئیں۔
ملازمہ کے بلانے پہ وہ ڈائننگ ائیریا کی طرف ارباز کے ساتھ ہی اٹھ گئی۔زرپاش اسکے برابر والی کرسی پہ بیٹھی تھیں۔وہ جھجھک کے مارے بڑہ مشکل سے چمچ پلیٹ میں چلا چلا کر تھوڑے تھوڑے چاول اٹھا کر کھا رہی تھی۔
"بیٹا ہنسی مسکراتی رہا کرو اس میں زیادہ اچھی لگتی ہو۔پچھلی بار جب دیکھا تھا تب بہت افسوس ہوا تھا۔"
"جی آنٹی۔آگے بڑھنے کے لیے انسان کو چیزیں بھلانی پڑتی ہیں ورنہ پیچھے ہی کہیں کھو جائیں گے۔"اس نے پلیٹ میں چمچ چلاتے ہوئے کہا۔زرپاش کو تو اس لڑکی سے پہلے ہی بہت ہمدردی تھی،زرپاش کی جوانی کی جھلک اس میں دکھتی تھی۔دونوں کی خوشیوں کا قاتل ایک شخص تھا زولفقار جاہ۔
وہ ویسی ہی خوبصورت اور ناز نخرے والی تھی جیسے کبھی جوان زرپاش ہوا کرتی تھیں۔
جب سے زرپاش کو میران کی محبت کا پتا چلا تو انھیں رومائزہ اور عزیز ہوگئی تھی۔اپنے بھتیجے کے لیے وہ بہت پریشان تھیں۔وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھیں پر میران نے روک رکھا تھا جب ہی خاموش بیٹھی تھیں۔
کھانا کھا کر وہ اٹھ کے لاؤنچ میں چلی گئی جہاں سب بیٹھے تھے۔سجل گھٹنے کے نیچے ڈھول پہ تھاپ لگا رہی تھی اور انوش درمیان میں کھڑی ڈانس کے اسٹیپس لے رہی تھی۔روما نے مسکرا کے انھیں جوائن کر لیا۔انوش نے اپنے ساتھ اسکو گھسیٹا۔
"روما کی بچی عائشے کی شادی کا بہت شوق تھا نا تمھیں اب پورا کرو یار۔"انوش اسکے کان میں جھک کر اونچا بولی روما نے ہنستے ہوئے سر ہلایا۔
                ____________________
میران پچھلے کئی دنوں سے بے حد بزی تھا۔کل رات ہی وہ اسلام آباد سے واپس لاہور آیا تھا۔اب سب اسکے حوالے تھا اور بخوبی اپنے فرائض نبھا رہا تھا۔جماعت میں اس نے کئی تبدیلیاں کردی تھیں۔سب کے عہدے بدل کے رکھ دیے تھے کئی کو فارغ کردیا تھا۔بزنس میٹنگز اور سرکاری دورے بھی انھی دنوں میں اس نے کیے۔
     مراد آج اسکے پاس خود ہی پہنچ گیا تھا۔اس دن کے بعد سے اس نے اپنی شکل نہیں دکھائی تھی۔وہ اسے اپنے ساتھ ہی گھر لے آیا۔میران بھی اسکے ساتھ خاموشی سے چلا آیا تھا۔مراد کو اسکی اس قدر خاموشی بری لگ رہی تھی۔پہلے ہی وہ سنجیدہ مزاج،کم گو کم تھا جو اب چپ سادھ لی تھی۔بس کام کی بات کرکے خاموش ہوجایا کرتا تھا۔اس دوران ایک آدھ ملاقات دائم سے بھی ہوئی تھی اور دائم اسکی جانب سے بہت فکر مند تھا۔وہ دونوں بس اسکے حق میں اللہ سے دعا ہی کیا کرتے تھے کہ اسے اسکی خوشی مل جائے جو رومائزہ میں تھی۔
اسکی سنجیدگی اس دوران کم ہوئی تھی جب رومائزہ فارم ہاؤس میں تھی اور وہ اس سے ملنے جایا کرتا تھا۔تب وہ ایک مختلف انسان ہوتا تھا۔ورنہ سب کے سامنے وہی ایک رعب دار سنجیدہ اپنے خول میں رہنے والا بندہ تھا۔
       گاڑی سے اتر کے میران مراد کے ساتھ اپنی شیو پہ ہاتھ پھیرتا ہوا اندر دروازے تک آیا۔اسکے قدم وہیں رک گئے۔اندر سے لڑکیوں کے شور کی آواز آرہی تھی۔کئی قہقہے بلند تھے۔ڈھول کی تھاپ،اسپیکر میں بجتا گانا اور اسی سب میں اسکے کھلکھلانے کی بھی آواز آئی تھی۔'انوش انوش' کرکے وہ ہنستے ہوئے کسی سے شاید مخاطب تھی۔شور بہت تھا۔
میران کے چہرے کے تاثرات یکدم نرم ہوگئے۔اس نے ایک قدم پیچھے لیا۔
"کیا ہوا؟"اسکے رکنے پہ مراد نے پوچھا۔
"رومائزہ... وہ اندر ہے؟"چونکتے ہوئے اس نے مراد سے پوچھا ساتھ ہی اس نے تھوڑی رگڑی۔
"پتا نہیں،شاید عائشے نے بلایا ہو۔ہاں وہ کہہ رہی تھی۔"یاد آتے ہی وہ بولا۔میران نے آنکھیں بڑی کرکے اسے گھورا پھر نظر ہٹالی۔
"اچھا ہے وہ یہاں ہے۔اس سے بات کرلو۔سچ پتا چلے گا تو مان جائیگی۔"مراد اسکا بازو تھام کر بولا۔
"مجھے دیکھ کر وہ غصے سے پاگل ہوجاتی ہے۔اتنی مشکل سے وہ اسٹریس سے باہر نکلی ہے۔میں اسی لیے اسکا سامنا بھی نہیں کر رہا تھا۔"
"تمھیں پہلے ہی اس سے بات کرلینی چاہیے تھی۔سفیر کے آفس بھی تو گئے تھے نا!"
"ہاں گیا تھا بات کرنے،پر کچھ نہیں ہوسکا۔درمیان میں سفیر آگیا تھا۔پھر دوبارہ جامعہ گیا اسے حقیقت بتانے کے لیے تو اس نے اپنی شادی کا ہی فیصلہ سنا دیا۔سفیر کو اسکے پاس دیکھ کر ویسے ہی میرا دماغ خراب ہوجاتا ہے۔اس لڑکے کو میں نے کہا تھا خیال رکھے رومائزہ کا!پر اسکے قریب ہرگز نہ جائے۔اور دیکھو اسے وہ رومائزہ سے شادی کے خواب سجائے بیٹھا ہے۔کمینہ انسان۔"
سفیر سے نفرت میران کے لہجے میں جھلک پڑی۔مراد نے سر جھکا کے ہنسی دبائی۔اسکا چہرہ سفیر کا زکر کرتے ہوئے ہی لال ہوگیا تھا۔
"ویسے ایک بات ہے تم رومائزہ سے ڈرتے ہو۔"مسکراہٹ دباتے مراد نے کہا۔
"اسے تکلیف نہ پہنچے،بس اس بات سے ڈرتا ہوں۔ابھی بات کرنے کا موقع نہیں۔وہ خوش ہے۔بلاوجہ مجھے دیکھ کر،باتیں سن کر اس جنونی لڑکی کا دماغ خراب ہوجائیگا۔ویسے ہی وہ سنتی کم ہے چیختی چلاتی زیادہ ہے۔"میران نے ہلکا سا سر جھٹک کے کہا۔
"تمھارا ولیمہ ہوجائے پھر بات کرونگا۔"نگاہیں سامنے دروازے پہ جمی تھیں۔بڑی ہی شدت سے طلب ہورہی تھی اسے دیکھنے کی۔اور بڑی مشکل سے اس نے دل پہ پہرے بٹھا کر قدم پیچھے لیے تھے۔
"انشاء اللہ وہ مان جائیگی تم پہ بھروسہ کرے گی۔کہو تو اسے باہر بلا لوں دور سے ہی دیکھ لینا۔"مراد نے اسکا کندھا تھپکا اور آخر میں شرارت سے بولا میران نے بھنوو چڑھا کے اسے دیکھا۔پھر پرسوچ انداز میں نظروں کا رخ پھر لیا۔رومائزہ کے بارے میں وہ کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔پتا نہیں یقین کرے گی بھی نہیں۔اس دن فارم ہاؤس پہ اسکی بات سن کے کتنا شور شرابہ کیا تھا۔
"تم بیٹھو میں مام کو بلا کر لاتا ہوں۔بہت یاد کر رہی تھیں تمھیں۔"اسے باہر لان میں بچھی میز کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے اس نے کہا اور اندر چلا گیا۔
انوش کو ڈرائیور لینے آیا تھا۔اور وہ اتنی جلدی یہاں سے ہلنے پہ راضی نہیں تھی۔اس نے رومائزہ کو باہر بھیجا تھا کہ ڈرائیور کو ویٹ کرنے کا بول دے۔
رومائزہ سفیر کو میسج کرتی ہوئی اپنی دھن میں گنگناتی باہر نکلی تھی۔میران جسکی پشت دروازے کی طرف تھی اسکی میٹھی آواز سن کر کرسی پہ منجمد رہ گیا۔
خوابوں کی دنیا میں جینا کہاں ہے
جینے کی خواہش میں مرنا یہاں ہے
پرانی کتابوں کے پننے سبھی
گواہی یہاں دیتے رہ جائیں گے
میران کو لگا اس کا دل بند ہوجائیگا۔اس نے لب پیوست کرلیے۔
رومائزہ چلتے ہوئے راہداری تک آگئی جسکے کناروں پہ دیے روشن تھے۔لان میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اس نے سر اٹھایا کہ لائٹ چلی گئی۔میران کرسی سے کھڑا ہوگیا۔
گھر کے اندر شور سا مچا تھا۔انرر باہر دونوں طرف تاریکی پھیل گئی۔جلتے ہوئے دیوں نے راہداری میں روشنی پھیلائے رکھی اور درمیان میں رومائزہ الجھن زدہ کھڑی تھی۔
"سنیں کریم بھائی،آپ تھوڑی دیر یہیں ویٹ کرلیں انوش کو تھوڑا ٹائم لگے گا۔"اندھیرے میں کچھ دکھائی نہ دینے کے باعث کسی کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے وہ اسے ڈرائیور کریم بھائی سمجھ بیٹھی۔
"استغفر اللہ...اللہ مجھے صبر دے۔بس بھائی سننے کو رہ گیا تھا اب۔"
میران کڑ کے رہ گیا۔اندھیرے میں رخ اس نے راہداری کی طرف موڑا۔
جامنی گھٹنوں کو چھوتی فراک اس نے پہن رکھی تھی۔بال آدھے چہرے پہ جھکے ہوئے تھے۔اور اس کا چہرہ موبائل کی روشنی میں چمک رہا تھا۔دیوں کی زرد روشنی کے درمیان میں وہ کھڑی تھی۔اس خوبصورت منظر کو میران نے نگاہوں میں سمویا تھا۔
میران نے صرف دیکھا ہی تھا۔تبھی رومائزہ نے موبائل کی فلیش لائٹ کھول کے اسی جانب موبائل کا رخ کردیا۔لمحہ ضائع کیے بغیر میران نے چہرہ پھیر لیا۔اسکی سانسوں کی رفتار بڑھ گئی۔وہ اسی جانب قدم اٹھا رہی تھی۔آخر اس لڑکی کو کیا مسئلہ تھا!جا کیوں نہیں رہی تھی؟
"بلکہ کریم بھائی آپ چلے جائیں۔میں انوش کو خود گھر ڈراپ کردونگی ہمیں لیٹ ہوجائیگا۔"
وہ مزید بولتی ہوئی اسکی پشت کے بے حد قریب آگئی۔
فلیش لائٹ لیتی وہ گھوم کر اسکے سامنے جانے لگی تھی۔پیچھے سے زرپاش کی آواز پہ قدم رک گئے۔
"رومائزہ بچے کیا ہوا؟اندھیرے میں کیا کر رہی ہو؟"میران کی پشت کے قریب اسے دیکھ وہ گھبراہٹ پہ قابو پاکر بولیں۔انکے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔میران نے چہرہ گھمانے کی غلطی نہیں کی بے جان وجود کی طرح کھڑا رہا۔
"آنٹی میں کریم بھائی کو انوش کی واپسی کا بتانے آئی تھی۔"وہ زرپاش کہ طرف گھوم گئی زرپاش فورا اسکے پاس آئیں۔
"بیٹا یہ مراد کے دوست ہیں کریم بھائی نہیں۔آپ جاؤ میں انکو بول دیتی ہوں۔"اسے پچکارتے ہوئے زرپاش نے کہا۔رومائزہ نے چونک کر دانتوں تلے زبان دبائی۔
"اوہ،آیم سوری مسٹر..."ایک بار پھر وہ فلیش لائٹ کی روشنی سمیت گھومی۔میران نے مٹھی بھینچ لی۔کیا عذاب لمحہ تھا دل تو کر رہا تھا پلٹ جائے۔پر رومائزہ کی خوشی جو اسے دیکھ کر برباد ہوتی اسکا بھی اندازہ تھا۔اسے پتا تھا رومائزہ کو سچ بتانا آسان کام نہیں۔
زرپاش نے رومائزہ کو بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کیا۔
"امتیاز جنریٹر چلاؤ جلدی۔"انکا لہجہ سخت اور بلند ہوا۔
"باجی چلا رہا ہوں،اس میں آئل ختم ہوگیا ہے۔"پورچ کی طرف سے امتیاز کی آواز سنائی دی۔
"آجاؤ بیٹا۔"زرپاش رومائزہ کو لیتی آگے بڑھی۔رومائزہ کو انکا انداز عجیب سا محسوس ہوا تھا۔اب تو اسے مراد کے دوست کو دیکھنے کا تجسس پیدا ہوگیا تھا۔
اس نے راہداری میں بڑھتے ہوئے پلٹ کر دیکھا پر وہ شخص شاید عورتوں سے پردہ کرتا تھا جو پلٹا ہی نہیں۔
انجانے میں اسے بے ساختہ ہنسی آگئی۔تبھی مراد باہر چلا آیا اور رومائزہ کو دیکھ چونک گیا۔
"آپ لوگ کیا کر رہے ہیں یہاں؟"
"کچھ نہیں جاؤ تمھارا دوست اکیلا بیٹھا ہے اسے اکیلا چھوڑ کے اندر چلے گئے۔"زرپاش نے تھوڑے غصے سے کہا۔
"اور باہر انوش کو ڈرائیور لینے آگیا ہے،آپ انھیں واپس بھیج دیں میں اسے گھر ڈراپ کردونگی.."
رومائزہ اسے کہتے اندر چلی گئی۔
جنریٹر کی آواز گونجی۔بنگلا روشنیوں سے نہا گیا۔اسکے اندر جانے کے بعد دونوں ماں بیٹے نے سکون کا سانس خارج کیا اور میران کے پاس چل دیے جو سر پکڑ کے کرسی پہ بیٹھ گیا تھا۔
مختصراً زرپاش نے رومائزہ کی بات مراد جو بتادی۔مراد کی ہنسی بے قابو ہوگئی۔
"کریم بھائی سوری.."وہ ہنستے ہوئے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔میران نے دانت پیس کر اسے دیکھا۔زرپاش کے گھورنے پہ مراد نے ہنسی کا گلا گھونٹنے کی ناکام سی کوشش کی۔
                 ___________________
گہری چاندنی ہر سوں پھیلی ہوئی تھی۔جاہ بنگلے کا لان روشنیوں سے جلملا رہا تھا۔پر اندر دلوں میں ویرانہ قائم تھا۔پھر جس میں ایک عجیب سے احساس کا شور اٹھتا جو پہلے کبھی نہیں اٹھا تھا۔
عزیز میران کے کمرے سے ایک فائل لینے کے لیے بنگلے آیا تھا۔شمس کو سوچوں میں غرق چاند تاروں کو تکتے ہوئے دیکھ کر وہ لاشعوری انداز میں اسکی جانب چلا آیا۔
آج سے پہلے اس نے شمس کے کبھی یہ تاثرات نہیں دیکھے تھے۔وہ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔میران کی وجہ سے عزیز زیادہ تر بنگلے میں ہوا کرتا تھا پر اب جب میران ہی یہاں چکر نہیں لگا رہا تھا تو اس نے بھی آنا چھوڑ دیا۔کافی دن بعد شمس کو دیکھا تھا۔
عزیز اسکے پاس کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔شمس کا تسلسل ٹوٹا اس نے چہرہ گھما کر عزیز کو دیکھا پھر نگاہیں جھکا لیں۔
"کیا کوئی نیا ڈرامہ رچانے والے ہو تم بڑے جاہ کے ساتھ؟"عزیز طنزیہ مخاطب ہوا۔شمس نے سوکھے لبوں پہ زبان پھیری پھر لفظ تولنے لگا۔
"بڑے جاہ کے تو میران بابا نے سارے پر کاٹ دیے۔وہ تو بس اپنے تیش میں سلگ رہے ہیں۔"
عزیز نے گردن موڑ کے پیچھے بنگلے کو دیکھا پھر واپس سیدھا ہوا۔
"غلط کاموں کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔"
وہ سرد مہری سے بولا۔اقتدار زولفقار نے پہلے ہی میران کو دے دیا تھا،اس بات کا انھیں غم نہیں تھا۔غصہ تھا کہ میران نے انکے خلاف اتنا بڑا قدم اٹھالیا۔وہ تو کبھی نہیں مانتے تھے کہ دولت انھوں نے ملک کی لوٹی ہے۔اور اب عہدہ بھی چلا گیا تھا تو سب ختم۔حتی کے انکے کاروبار تک ضبط کیے جاچکے تھے۔اب وہ بلکل فارغ تھے۔بنگلے سے باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا۔دولت کے ساتھ عزت بھی جا چکی تھی۔میران نے چاہا تھا معاملہ میڈیا تک نا پہنچے پر مراد کو وہ روک نہیں سکا تھا۔مراد نے ہی انھیں اریسٹ کرنے کے بعد میڈیا بلایا تھا۔
  "تم سہی کہہ رہے ہو برے کاموں کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔"شمس نے درد سے آنکھیں میچ لیں۔عزیز اب چونکا تھا۔وہ سیدھا ہوا۔
"کچھ ہوا ہے کیا؟"پوچھے بنا وہ رہ نہیں سکا۔
"بہت کچھ ہوگیا ہے،میں نے بڑا برا کیا رومائزہ میڈم کے ساتھ۔جتنا بڑے جاہ کا قصور اتنا قصور وار میں بھی ہوں۔انکی آہیں میرے بیٹے کو لگ گئی ہیں۔عمر کو کینسر تشخیص ہوا ہے۔"
وہ پھوٹ پھوٹ کے اسکے سامنے رو دیا۔عزیز جگہ پہ ساکت ہوگیا۔والدین کا کیا اولاد کے سامنے ہی آتا ہے۔عمر تین سالہ چھوٹا بچا تھا۔عزیز سے کئی بار ملا تھا۔اور عزیز کو چاچو کہا کرتا تھا۔عزیز دعا مانگتا تھا کہ وہ اپنے باپ پر نہ جائے۔
عمر کی بیماری کا سن کے اسے خود بے حد افسوس ہوا۔
"عزیز،میرا بیٹا بہت تکلیف میں ہے۔"اس نے آنسو خشک کیے پھر دوبارہ گرم سیال اشکوں سے بہہ نکلے۔عزیز کے پاس لفظ ختم ہوگئے۔نا اس میں ہمت بچی تھی کہ شمس کو اس سب کا زمہ دار ٹھہرا تھا۔
"اللہ اسے صحت کے ساتھ زندگی دے۔میڈم کی بد دعائیں تمھارے بیٹے کو نہیں لگ سکتی۔تمھارا کیا اسکے سامنے آیا ہے۔وہ تو تمھارے بیٹے کو جانتی تک نہیں۔اسی لیے کہتے ہیں ظلم بھی اتنا کرنا چاہیے کہ جب خود کی باری آئے تو برداشت کرسکو۔تم لوگوں نے ان سے انکا سب کچھ چھین لیا۔کس قدر وہ تکلیف سے گزری ہیں۔اور چھوٹے سائیں وہ الگ تکلیف سے دوچار رہے۔"عزیز کہے بغیر رہ نہ سکا۔شمس نے اسکے آگے ہاتھ جوڑ لیے تھے۔
"عمر کہاں ہے؟"
"ہاسپٹل میں ہی ایڈمٹ ہے اسکی ماں اسکے پاس ہے۔اسکی الٹیاں بلکل نہیں رک رہیں۔میں بس بڑے سائیں کو یہی بتانے آیا تھا۔"عزیز نے اسکی پیٹ تھپک کر اسے تسلی دی تھی۔عزیز کی نگاہ ٹیبل پہ پڑے نوٹوں کی گڈی پہ گئی۔زولفقار نے ہی شمس کو اسکے بیٹے کے لیے علاج کے لیے دیے تھے۔
عزیز اسکے پاس سے اٹھ کے فائل لینے اندر چلا گیا۔پیچھے وہی رات کی گہری خاموشی اور شمس کے دل میں پچھتاوے کا شور رہ گیا۔
                 ___________________
       دمیر ہاؤس میں گہما گہمی مچی تھی۔شام سے تقریب کا آغاز تھا۔دائم اور نیمل کا نکاح بادشاہی مسجد میں ہوا تھا۔میران نکاح میں شامل نہیں ہوسکا تھا۔
نکاح کے بعد سب ہال پہنچ پہنچ گئے تھے۔
وہ دونوں دلہن بنی اسٹیج پہ موجود تھیں ہر انکے میاں نیچے سب سے مل جل رہے تھے۔
"بھابھی میں کیسی لگ رہی ہوں؟"نیمل نے مہمانوں کی طرف نظر اٹھا کے جھلاتے ہوئے مسکراہٹ سجا کر پوچھا۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو۔تمھارے میاں جی تمھیں چھوڑ کے چلے گئے؟انکو اسٹیج پہ بیٹھنا چاہیے تھا۔ولیمہ ہمارا ہے گھومتے پھرتے ہم اچھے لگیں گے۔"عائشے سامنے نگاہ جمائے بولی۔
"مجھ بے چاری کا کیا قصور ہے مجھے بھی اسٹیج سے اترنا ہے۔"نیمل نے منمناتے ہوئے کہا اور اسٹیج کے پاس کھڑی زرپاش کو دیکھا جنھوں نے اس آنکھیں دکھا کر خاموش رہنے کی تلقین کی تھی۔عائشے نارمل انداز نیں گفتگو کر رہی تھی پر نیمل کے تاثرات بڑے نرالے تھے۔
زرپاش واپس زریں اور انعم کی طرف مڑ گئی تھیں۔
دھیمی آواز میں میوزک چل رہا تھا۔ماحول میں سرور سا تھا۔
رومائزہ سجل کے ساتھ اسٹیج پہ آئی تھی۔اور ان دونوں کی بے جا ضد پہ انھیں اپنے ساتھ نیچے لے گئیں۔
"بڑی دیر کردی آپ لوگوں نے آنے میں۔"زرپاش غضنفر فیملی کو ریسوو کرتے ہوئے مخاطب ہوئیں۔
"بس سفیر اور غضنفر کا ہی انتظار کر رہی تھی۔رومائزہ کو اسی لیے میں نے پہلے ہی انوش کے ساتھ بھیج دیا تھا۔"
بتول نے سفیر کا کاندھا تھام کے کہا۔اس نے مسکرا کے انھیں سلام کیا تھا۔فیملی کو آتا دیکھ رومائزہ انھی کے پاس چلی آئی۔ہاں اب وہی تو اسکے فیملی ممبرز تھے۔
سفیر نے ایک نگاہ سر تا پیر اسے دیکھا تھا پھر نظریں پھیر لیں۔وہ دوپٹہ سنبھالتی ہوئی لمبی گھیر دار فراک کو پہلو سے تھوڑا اونچا کیے انکی طرف آئی تھی۔
غضنفر نے اسے خود سے لگایا۔
"آپ لوگ ادھر آجائیں۔"اس نے انھیں انوش کی فیملی جہاں بیٹھی تھی اسی ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
بتول اور غضنفر ایک جگہ بیٹھ گئے تھے۔
سفیر رومائزہ کے ساتھ عائشے اور مراد سے ملنے چلا گیا۔وہ دونوں ساتھ کھڑے مہمانوں سے  مل رہے تھے۔اور دونوں کی جوڑی بہت جچ رہی تھی۔عائشے کی میکسی کے امتزاج سے ملتا جلتا مراد کے ڈنر سوٹ کا کلر گرے تھا۔
"روما تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔تمھیں نہیں اندازہ یہ کلر تم پہ کتنا کھلتا ہے۔"عائشے چونکہ اب اسٹیج سے نیچے تھی تو کھل کے رومائزہ سے ملی اور بانہیں کھول دیں۔
"میری جان آپ دونوں بھی پیارے لگ رہے ہیں۔"رومائزہ نے اس سے دور ہٹتے ہوئے کہا۔
"بہت شکریہ۔اب اگلا نمبر تم دونوں کا ہی ہے۔"عائشے نے ہنستے ہوئے سفیر اور اسکو دیکھتے ہوئے کہا۔سفیر مسکرادیا۔اور روما نے پھیکا سا مسکرانے کی کوشش کی تھی۔اور مراد کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔اسے سفیر سے کوئی مسئلہ نہیں تھا پر وہ اسے اب درمیان گھسی ہوئی کباب میں ہڈی محسوس ہونے لگا تھا۔
دائم انکو دیکھ وہیں چلا آیا۔رومائزہ اس سے بھی ملی۔وہ تینوں مرد کھڑے باتیں کرنے لگے۔رومائزہ عائشے کو اپنے ساتھ صوفوں کی طرف لے گئی۔وہیں نیمل بیٹھی انوش سے اور اپنی کچھ قریبی دوستوں کے ساتھ تصوریں کھنچوا رہی تھی۔
تقریب بہت اچھے سے جاری تھی۔رومائزہ کو نہیں معلوم تھا دائم میران کا دوست ہے۔اور دائم نے بھی اسے آج پہلی بار روبرو دیکھا تھا۔اور میران کی پسند پہ عش عش کر اٹھا۔وہ سحر انگیز شخصیت کی حامل لڑکی تھی۔
دائم کو اپنے خاص یار کیلئے بے حد دکھ تھا۔اسکا بس چلتا تو خود ہی میران کے حوالے سے ابھی رومائزہ کو صفائیاں دینے بیٹھ جاتا۔اسے تو اتنا شوق تھا یہ جاننے کا کہ میران جاہ نے اپنا کس کو دل دیا ہے،اور جب وہ بھابھی جی سے ملتا تو خوب میران کی برائیاں کرتا۔پر افسوس سد افسوس سب کچھ الٹ پلٹ ہوگیا تھا۔
مراد کے کئی دوست جو خود آفیسرز تھے اور کر خاص آرمی سے تعلق رکھنے والے اشخاص بھی مدعو تھے۔
مراد میران کا منتظر تھا۔عائشے اور مراد کی بلیک اینڈ وائٹ اینٹری ہوچکی تھی وہ تب بھی نہیں آیا تھا۔وہ عائشے کے ساتھ اسٹیج کے کنارے پہ ایک طرف تھا اور پیچھے سے اسے تھام رکھا تھا۔فوٹوگرافر انکی تصویریں لینے میں جٹا ہوا تھا۔
"آؤ خورشید آؤ،تمھارے ساتھ بھی ایک تصویر ہونی چاہیے۔"خورشید صاحب خوب نک سک سے تیار ہوئے وہاں آئے تھے۔عائشے مسکرانے لگی۔
"سر ولیمہ مبارک،مجھے تو لگا کہ آپ بس نکاح کے کھجوروں پہ ہی ٹراخا گئے۔"وہ مراد کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور کیمرے میں دیکھ کر بولا۔
"تم تو گواہ بنے تھے سمجھو یہ سارا اہتمام تمھارے لیے ہی ہے۔"مراد ہنستے ہوئے بولا۔فوٹوگرافر تصویر کھینچ کر ایک طرف ہوگیا۔
"خورشید بھائی اب آپ بھی شادی کرلیں۔"عائشے نے مسکرا کر کہا۔خورشید کے شانے چوڑے ہوگئے۔
"بھابھی جی بس ایک جگہ بات چل رہی ہے دعا کریں بات بن جائے۔"جھینپتے ہوئے وہ بولا،مراد نے اسکی پیٹ پہ مکا جڑا۔
"واہ خورشید میاں بڑے چھپے رستم نکلے۔مجھے تو تم نے اس بارے میں بتایا ہی نہیں۔"وہ شاکی نظروں سے گھور کے بولا۔
"آپ نے پوچھا ہی کب؟آپ پہ تو ہر وقت کام کا بھوت سوار ہوتا ہے."خورشید نے فٹ کہا۔
"اور  غصہ ناک پہ چڑھا رہتا ہوگا۔ہے نا؟"مراد کو چھیڑتے ہوئے عائشے خورشید کا ساتھ دینے لگی۔
"گھر جا کے بتاؤنگا کتنا غصہ ناک پہ چڑھا ہوتا ہے۔"مدھم سی اس نے سرگوشی کی جسکا عائشے پہ کوئی اثر نہیں ہوا۔الٹا ہنستی مسکراتی گئی۔خورشید مزید ہنس بول کے چلا گیا۔
تقریب رواں دواں تھی۔پھر غیر معمولی سا شور اٹھا۔اینٹرنس پہ نگاہ گئی تو مراد کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔عائشے کا ہاتھ تھام کے وہ اسٹیج سے نیچے اترا۔
دو گارڈز میران کے پیچھے تھے اور دو آگے،عزیز اور عبدل ان دونوں کی ڈریسنگ عام تھی۔باقی دوسرے گارڈز بلیک یونیفارم میں تھے جو لوگوں کو اسکے پاس آنے سے روک رہے تھے۔اسکی آمد کا عوام میں شور سا اٹھ چکا تھا۔لوگ دیوانوں کی طرح جگہ سے کھڑے ہوگئے۔موبائل کیمراز کا رخ اسکی طرف کرلیا۔
رومائزہ جو ہنستے ہوئے انوش سے مخاطب تھی اسکی نگاہ میران کی جانب اٹھی اور وہیں جم گئی۔لفظ منہ میں دم توڑ گئے۔وہ ساکن نگاہوں سے اس مغرور سحر انگیز شخص کو اندر آتے دیکھنے لگی۔انوش نے اسکی نظروں کے زاویے میں دیکھا۔
"شٹ..."وہ زیرِ لب بڑبڑائی۔مہمان خصوصی میران ہی تھا۔پھپھو اسے دیکھ فوراً اسکے پاس پہنچی تھیں۔وہ مسکراتا ہوا سفید شلوار قمیض پہ کالی واسکٹ پہنے بال جیل سے سیٹ کیے بائیں ہاتھ میں ریسٹ واچ پہنا تھا۔مغرور،طمانیت سے بھرا چہرہ۔سیدھی کھڑی ناک۔انداز میں بے پروائی۔
دمیر فیملی اسکے پاس ہی جمع ہوگئی۔پوری شان و شوکت سے اسکا استقبال کیا تھا۔
رومائزہ ہکا بکا سی منظر دیکھ رہی تھی۔زرپاش آنٹی اس سے مل رہی تھی بلکہ پیار نچھاور کر رہی تھیں۔مراد گلے ملا تھا۔ارباز انکل سے اس نے مصافحہ کیا۔اور دائم نے تو چہک کر اسے گلے سے لگایا لیا تھا۔جیسے بہت بے تکلفی ہو،اور نیمل کے سر پہ اس نے ہاتھ رکھا تھا۔اور شاید کچھ کہہ رہا تھا۔۔نکاح میں جو شرکت نہیں کر پایا اس پہ وہ ایکسکیوز کر رہا تھا۔اور عائشے کو اس نے مخاطب نہیں کیا تھا پر ایک نگاہ دیکھا ضرور تھا۔اور ان چاروں کو ہی مبارکباد دی۔
     نیمل دائم کے برابر میں کھڑی تھی۔دائم نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔اسکی آنکھیں پھیل گئیں۔جلدی سے اس نے ہاتھ چھڑایا۔
"آپ لوگوں نے تو لگ رہا ہے ایک جگہ دھرنا ڈال دیا ہے۔اس طرح ری ایکٹ نا کیا کریں مجھے بلکل پسند نہیں۔یار تم کیوں اسٹیج سے اتر آئے میں خود آرہا تھا نا۔"مراد کی پیٹ پہ ہلکا سا مکہ مارتے ہوئے اس نے خفت سے کہا۔
"تم مہمان خصوصی ہو،استقبال تو پھر ہمیں کرنا ہی تھا۔میران صاحب آپ یہاں آئے ہمیں بہت اچھا لگا۔"
"بلکل آپکی آمد نے ہمارا دن مزید خاص بنا دیا۔"
مراد کے ساتھ دائم بھی اسے زچ کرنے لگا۔
"شٹ اپ پلیز۔ہٹو رش کم کرو۔"وہ دونوں اسکے سب سے قریب کھڑے تھے دونوں کو ہٹا کر بولا۔ارباز کے ساتھ ایک طرف بڑھ گیا۔مرتضی صاحب اور زریں سے ملنے کے بعد وہ ایک جگہ صوفے پہ بیٹھ گیا تھا۔وقفے وقفے سے لوگ اس سے ملنے آرہے تھے۔لوگوں کی محبت کا وہ احترام کرتا تھا پر یہ سب بہت زیادہ ہوجاتا تو زچ ہونے لگتا تھا۔وزیر اعلی بننے کے بعد اسکی مقبولیت مزید بڑھ گئی تھی۔
جب اسکے ارد گرد سے ہجوم ختم ہوا تو نظریں یارِ دیدار کی متلاشی ہوئیں۔
اس نے چاروں طرف تھوڑا اوپر ہوکے نگاہ دوڑائی۔ایک جگہ بائیں طرف اسکی نظر ٹھہر گئی۔
سفید پیروں کو چھوتی گھیردار فراک اس نے پہن رکھی تھی۔بھورے سنہرے بال کندھے تک گرے ہوئے تھے۔کچھ آزاد زلفیں چہرے کو بار بار آکر چومتی جنھوں وہ انوش سے باتوں میں مگن بار بار پیچھے اڑس رہی تھی۔اسی اثناء میں نظر  سفید گداز ہاتھوں پہ گئی۔جو سرخ مہندی کے رنگ سے رنگین تھے۔ہتھیلی کی پشت پہ گول سرخ چاند اور پورے لگے تھے اور صاف گداز ہاتھوں میں اس نے سفید موتیے کے ساتھ گجرے پہن رکھے تھے۔

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now