قسط سوئم(دلِ ناداں)

1.1K 64 27
                                    

     چند دنوں سے زولفقار جاہ میران کے بدلے انداز پہ متفکر تھے۔وہ ہر گز نہیں چاہتے تھے پاور میں آتے ہی انکا بیٹا بدل جائے۔ایم_این_اے کے ساتھ اسکا انداز بہت مختلف تھا اس سے صاف ظاہر تھا وہ آگے جاکے کرپشن کے خلاف ان سے بھی بغاوت کرسکتا ہے۔پر پھر دل میں کہیں ایک سکون اترتا تھا کہ وہ انکا خون ہے کسی صورت بغاوت پہ اتر نہیں آئے گا۔
کافی دیر سوچ و بچار کے بات انہوں نے شمس کو اپنے کمرے میں بلایا تھا۔
                             ★ ★ ★
زولفقار جاہ اپنے آفس روم میں کام کررہے تھے میران بھی وہیں آکے بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر میں شمس کسی ماڈل یلدیز کی آمد کی اطلاع دینے آیا تھا۔
"ہاں ہاں میڈم کو لے آؤ۔"میران خاموشی سے کتب خانے کے ساتھ بچھے صوفوں پہ برجمان کتاب گردانی کرتا رہا چند لمحوں میں یلدیز یلماز زولفقار جاہ کی ٹیبل کے سامنے والی چئیر پہ نشست تھی۔
"جب آپ ائیرپورٹ پہنچیں گی تو سوٹ کیس میرے آدمی وہیں آپکو پہنچادیں گے اسکے بعد آپ نے اس سوٹ کیس سمیت لندن کی زمین پہ اترنا ہے۔"ہاں وہاں منی لانڈرینگ کی بات چیت ہورہی تھیں زولفقار اور شمس یلدیز یلماز کو پوری پلاننگ سے آگاہ کر رہے تھے۔
میران کو اس سب میں زرا دلچسپی نہیں تھی وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔
کام کی باتیں ہونے کے بعد یلدیز نے کئی بار میران کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی پر وہ اپنے خول میں رہنے والا شخص کتاب سے سر اٹھائے بنا ہی اسکے سوال کا مختصر سا جواب دے کر خاموش ہوجاتا۔
میران کتاب گردانی کرتے ہوئے ہی چند لمحوں کے لیے کسی یاد کے سحر میں جکڑ گیا تھا۔
وہی خوبصورت لب و بیان،شکوہ،مسکراہٹ،
زلفوں کا چہرے پہ آبکھرنا!
میران نے سر جھٹکا وہ اسے بلکل یاد نہیں کرنا چاہتا تھا پھر بھی وہ خیالوں میں آئے جاتی۔
یلدیز کے جانے کے بعد شمس نے زولفقار کو کچھ یاد دلایا تھا جس پہ وہ غصہ ہوچکے تھے۔
"بہت وقت دے دیا ہے شنواری کو،ایک کام کرو پتا لگاؤ اسکی سب سے قیمتی چیز کیا ہے جس میں اسکی جان ہو...کوئی کمزوری؟"آخر میں وہ آنکھوں میں چمک کے ساتھ بولے۔میران اپنے باپ کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
"سائیں اسکی ایک بیٹی ہے۔اور سنا ہے وہ بیٹی سے محبت بھی بہت کرتا ہے۔"شمس کے چہرے پہ مکاری جھلکی تھی۔
   "ہمم،،،بہت خوب اسکی بیٹی ہمارا کام آسان کرے گی...اسکی بیٹی کو اٹھا لو دیکھتے ہیں کیسے قرضا ادا نہیں کرتا اولاد کے لیے ماں باپ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔"
زولفقار نے مونچھوں کو تاؤ دیا میران کتاب رکھ کے ناک کی اٹھان رگڑتا ہوا انکے عین مقابل آن کھڑا ہوا۔
"کیا بات ہے بابا سائیں؟"ماتھے پہ بل ڈالے اس نے معاملہ تسخیر کرنا چاہا۔
اسکے پوچھنے پہ شمس نے میران کو ساری بات سے آگاہ کیا کہ شنواری نے بڑے سائیں سے کافی عرصہ پہلے پانچ کڑوڑ لیے تھے جو اب تک چکائے نہیں ہیں اور اب وقت پہ وقت مانگے جارہا ہے اور وہ انکے ساتھ فراڈ کر رہا ہے۔
    "چھوٹے سائیں مجھے تو اس شنواری کی نیت صاف نہیں لگتی یقیناً وہ سارے پیسے ہڑپ گیا ہے جبھی تو پیسے دینے سے انکار کر چکا ہے۔"
"رقم چھوٹی نہیں جو میں معاف کردوں،،خون پسینہ ایک کیا ہے یہ سب کمانے کے لیے۔"میران نے باپ کی بات سے اتفاق کیا تھا۔
"ہاں بلکل،،شمس تم اس پہ زور دباؤ ڈالو کیسے پیسے نہیں دیگا،کس میں اتنی ہمت کے ہمیں دھوکہ دے۔"میران نے سیگریٹ جلاتے ہوئے تمسخر سے کہا۔
"چھوٹے سائیں سب کرلیا پر یہ بہت ڈھیٹ آدمی ہے ایسے ہی بہت لوگوں کا پیسہ ہڑپ کر چکا ہے۔"
"ہم کافی وقت دے چکے ہیں پانی اب سر سے اوپر ہوچکا ہے یہ شنواری ایسے نہیں مانے گا جب تک اسکی کوئی کمزوری ہمارے ہاتھ نہیں لگتی۔اسکو دھوکے بازی کا انجام بھگتنا پڑے گا
میران اب تم اسکی بیٹی کو اٹھواؤ گے۔"
زولفقار نے حکم آمیز لہجے میں کہا۔پیسے وصولنے کے لیے کیا طریقہ نکالا تھا!میران نے بھنو اچکا کے انھیں دیکھا اسکا باپ اسے ایک لڑکی اغوا کرنے کا کہہ رہا تھا بے ساختہ اسکے لب تبسم میں تبدیل ہوئے۔اب میران جاہ کے اتنے برے دن آگئے تھے کہ وہ ان کاموں پڑتا۔کیا یہاں مذاق چل رہا تھا؟
"میں؟"اس نے بھنوو اچکائے پوچھا۔
"ہاں تم۔..کیا یہ مشکل ہوگا تمھارے لیے؟پیسے ہڑپ کے اب وہ مظلوم مسکین بن رہا ہے!!فراڈ شخص کو سزا نہیں دوگے۔"زولفقار نے اسکی آنکھوں میں دیکھا انداز اسے اکسانے پہ مجبور کر رہا تھا۔وہ دو نشانے ساتھ لے رہے تھے ایک شنواری سے بدلہ اور دوسرا میران..اس سے بھی یقیناً وہ کچھ چاہتے ہی تھے۔
"میں چاہوں تو خود یہ کام سر انجام دلوادوں پر جانتے ہو اپوزیشن کی مجھ پہ کڑی نظریں ہیں آلریڈی ایک کیس میں پھنس چکا ہوں عوام میری مخالفت کرنے لگی ہے تم میرے لیے ایک نئی امید ہو۔تم تو ایک ایماندار انسان ہو سب کی نظروں سے محفوظ آرام سے یہ کام نمٹا سکتے ہو۔اپنا انصاف خود لو،غلط تو ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے۔"زولفقار جاہ کے جواز سننے کے بعد میران کو پھر حیرت نہیں ہوئی تھی پیسہ اسکے باپ کا تھا وہ اچھے سے نکلوانا جانتا تھا اور شنواری فراڈ کر رہا تھا اب تو اسکا خاموش رہنا بھی نہیں بنتا تھا!!اس نے اس کام کو سر انجام پہچانے کی ہامی بھر لی۔
    ناجانے کیسے پر آج اسکے قدم کہیں بھٹک چکے تھے وہ اپنی ڈگر سے اتر گیا۔وہ سہی ہونے کہ باوجود غلط راہ چن رہا تھا کیونکہ طریقہ ہی وہ چنا تھا جو کسی بے قصور کی عزت خراب کردیتا!
"آپ دور رہیے گا میں خود ہینڈل کرلونگا عزیز کو کہہ کر اسکی بیٹی کا پتا نکلواتا ہوں بہت جلد رقم آپکے ہاتھوں میں ہوگی۔"اس نے سیگریٹ کو لبوں سے دور کیے کہا۔
"جلد بازی مت کرنا ایک بار ہمارا اجلاس ہوجائے اسکے بعد یہ سب کرنا۔"
زولفقار اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔
"سائیں میرے پاس کچھ معلومات ہے۔"شمس فوراً بولا میران کی بھنوویں آپس میں ٹکرائیں اور اسکے ہاتھ سے لفافہ جھپٹ لیا۔
"ٹھیک...اور اپنے کام پہ زیادہ دھیان رکھو دوسروں کے معاملات میں کم تانکہ جھانکی کیا کرو۔"میران دو ٹوک اسے کہتا ہوا خود بھی باہر نکل گیا۔
اسکے جانے کے بعد شمس زولفقار کے کمرے میں داخل ہوا تو خاموش ماحول میں انکا قہقہہ گونجا۔
"شکر چھوٹے سائیں کو شک نہیں ہوا۔"شمس نے سانس بحال کی زولفقار اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے البتہ انکے چہرے پہ فاتح کن مسکراہٹ قائم تھی۔
   ٫اب دیکھتے ہیں میران یہ بازی جیتتا ہے کہ نہیں۔مجھے میرے خون پہ ناز ہے یقیناً وہ میرے نقشِ قدم پہ ہی چلے گا۔"وہ مونچھوں کو تاؤ دیتے میز پہ سے اپنا دوسرا ہاتھ اٹھاتے ہوئے ٹھاٹ باٹ سے کمرے سے باہر نکل گئے۔ماڈل یلدیز کے جانے بعد جو کچھ بھی شمس اور زولفقار کے درمیان گفتگو تھی یہ ایک سوچا سمجھا پلان تھا شنواری کا زکر میران کو سنانے کے لیے کیا جارہا تھا اور وہ یہ سب سننے کے بعد خود اس معاملے کی گہرائی تک جاننا چاہتا تھا۔
زولفقار میران کو آزمانا چاہتے تھے اور اس سے بہتر طریقہ انھیں کوئی اور نا ملتا۔ایک تیر سے دو شکار کرنے کے تو وہ کھلاڑی تھے۔
انھوں نے دو شکار کرنے کے لیے یہ طریقہ چنا تھا ورنہ طریقے تو اور بھی نکل سکتے تھے۔
اب میران کا امتحان تھا کہ وہ کیا کرتا ہے۔
   زولفقار جاہ صرف یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ انکا بیٹا کیا اس طرح کا کام کرسکتا ہے یا صرف ملک کے لیے خود کو ختم کردیگا۔ہاں یہ شخص اب ملک کا سچا وفادار نہیں رہا تھا،پچیس تیس سال قبل ہی اپنی اچھائیوں کو انھوں نے ختم کردیا تھا۔
زولفقار نے جو چاہا تھا بلکل وہی ہوا اب وہ میران کی جانب سے کافی حد تک مطمئن ہوچکے تھے۔۔پر اس بے خبر کو اپنے باپ کے غلط ارادوں کی کیا خبر تھی۔اسکے پاس سوائے باپ کے اور کوئی سگا رشتہ نہیں تھا جس پہ خود سے زیادہ اعتبار کرتا تھا۔مطلب انکے آنے والے دن خوش آئیند تھے۔
                           ★ ★ ★
احتشام ہاؤس میں آج پھر بھونچال آیا ہوا تھا۔
نعمت بی رومائزہ کو سمجھا سمجھا کہ تھک چکی تھیں پر اس نے بھی نہ سننے کی قسم کھالی تھی۔اسکے شور شرابے پہ احتشام صاحب کمرے سے نکل آئے۔
"کیا ہوگیا کیوں شور مچایا ہوا ہے؟"وہ پنجرے کو گود میں لیے جھولے پہ بیٹھی ماتم منا رہی تھی تبھی احتشام صاحب نے تشویش سے پوچھا۔
"احتشام صاحب میری ایک چڑیا فرار ہوگئی۔"آنسو بہانے کی بجائے اس نے آواز سے شور مچایا ہوا تھا۔احتشام صاحب کو نعمت بی نے چڑیا کے اڑ جانے کی خبر دی۔
"آپ نے ہی بھگایا ہے اسے مجھے پتا ہے،،آپ ہی ایسا کر سکتے ہیں۔۔احتشام صاحب آپ بہت برے ہیں مطلب چڑیا سے آپکی کیا دشمنی تھی؟"
پنجرے کو مضبوطی سے تھامے اس نے احتشام صاحب کو کچہری میں کھڑا کردیا تھا اور شکی نظروں سے گھورنے لگی۔
"بیٹا میں تو پنجرے کے قریب گیا بھی نہیں۔"اسکی ناراضگی پہ وہ فوراً وضاحت دیتے بولے۔
"صبح آپ میرے کمرے میں آئے تھے۔"
"ہاں اور آپکے سامنے ہی کمرے سے گیا تھا اور ابھی آفس سے آیا ہوں۔"
"یار بابا پھر وہ کہاں چلی گئی میں اتنا اسکا خیال رکھ رہی تھی۔"وہ آخر جب تنگ آگئی تو جھولے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"بی بی آپ نے اسکا لاک سہی طرح نہیں لگایا تھا جب ہی وہ اڑ گئی۔"نعمت بی نے اسے بتایا رومائزہ نے اسکا لاک ٹٹولہ اور پھر جزبز سی احتشام صاحب سے نظریں چرائیں جو اسے ہی گھور رہے تھے۔
"سوری۔"
"کوئی بات نہیں۔"احتشام نے اسے خود سے لگالیا پھر وہ دور ہوئی۔
"اب میں دو اور لے آؤنگی۔"اسکی آنکھوں میں چمک دیکھ کر وہ انکار نہیں کرسکے۔
"اچھا بس لے آنا اور یہ سب سمیٹو کمرے کا دیکھو کیا حال بنا رکھا ہے ایک چڑیا ہی تو تھی وہ۔"
"تو کیا مطلب؟"
"سوری سوری میں بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔"وہ ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہوئے باہر نکل گئے۔
"اوپر فون گھمانا پڑے گا ممی سے شکایت کرونگی بہت ہی آپ بگڑ گئے ہیں اور بحث میں نہیں کرتی آپ شروعات کرتے ہیں۔"پیچھے سے وہ چلائی اور پھر ہنستے ہوئے پنجرہ جگہ پہ سیٹ کیا۔
نعمت بی کے ساتھ مل کر کمرہ صاف کرکے صوفے پہ آڑی ترچھی لیٹ چکی تھی ٹی وی آن کیا تو کسی بھی چینل سے کچھ اچھا نہیں آرہا تھا۔بے مقصد چینلز تبدیل کرتی رہی تبھی نظر ایک نیوز چینل پہ ٹھہر گئی اس نے چند پل انگلیوں کو آرام دیا چینل آگے نہیں بڑھایا۔
نیوز اینکر تیز آواز میں خبر پڑھ رہی تھی اور دوسری جانب اسکرین پہ میران جاہ کی تصاویر اور ویڈیو کلپس چل رہے تھے جن میں وہ بے حد خوبرو اور رعبدار معلوم ہورہا تھا۔اسے سیاست میں بے شک انٹرسٹ تھا پر میران کے متعلق کیا خبر تھی اس میں نہیں۔۔
   میران کے کلپس دیکھنے کے بعد اس نے چینل تبدیل کردیا نیوز کیا تھی اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ناجانے کیوں بس وہ اب اسے برا لگا تھا کیونکہ اس نے اسکی تقریر کی تعریف نہیں کی تھی....اور یہ بہت بڑی بات برا لگنے کیلئے ہاں وہ ایسی ہی تھی خود پسند۔
   اچانک سے اسکا زہن اسکے خیال میں کھویا کیا وہ اس دن یونیورسٹی آیا تھا؟یا پھر اسکا وہم تھا؟پر اسکو یہی وہم ہونا تھا۔
"اللہ اللہ کیا سوچ رہی ہوں میں۔"ٹی وی بند کرکے وہ اسائمنٹ بنانے کے لیے اٹھ گئی۔
                              ★ ★ ★
دیر رات میران جھت پہ بیٹھا سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہا تھا بے خیالی میں بھی خیالوں کا مرکز رومائزہ ہی تھی۔کب تک وہ اسکے خیالوں کو جھٹکتا!اب تو ماہ گزر چکا تھا اور کونسا ایسا پل نہیں جب اسے چین آیا ہو۔
اس نے آنکھوں سے تبلیغ ہی یوں کی
میں بنا سوچے سمجھے محبت پہ ایمان لے آیا
کیا عجیب سی کشش تھی اس لڑکی میں وہ لمحوں میں اسکی گرویدہ ہوگیا۔وہ محبت کے فلسفے سے بلکل بے خبر شخص کیا اسے محبت ہوچکی تھی؟کسی کو چاہنا بار بار اسکے دیدار کی خواہش اسکی آواز کے سہر میں جکڑنا،خیال یار پہ مسکرانا اگر یہ تو محبت کی نشانیاں تھیں تو کیا وہ اتنی جلدی محبت کر بیٹھا تھا؟کیسے دل کسی اور کے نام پہ بے ہنگم انداز میں دھڑکنے لگا تھا۔وہ تو یہ باب اس دن بند کر آیا تھا پر اندر ہی کہیں اسکی یاد کے شعلے بھڑک بھڑک  کے لاوا بند چکے تھے۔
تھوڑی دیر میں عزیز بھی چھت پہ چلا آیا۔وہ اکثر اپنے گھر کی بجائے سرونٹ کواٹر میں ٹھہر جاتا تھا۔اس وقت تو میران کے بلاوے پہ چھت پہ پہنچا تھا۔
میران کے اشارے پہ عزیز نے سامنے والی کرسی پہ جگہ سنبھالی۔
"کوئی ضروری کام ہے جو اس وقت غریب کو یاد کیا؟"عزیز نے فوراً استفسار کیا۔
"ہاں عزیز ایک لڑکی کو اٹھوانا مطلب اغوا کرنا ہے۔"سگریٹ کا دھواں اڑاتے ہوئے کمال بے نیازی سے کہا۔عزیز نے چونک کے چھوٹے سائیں کو دیکھا۔اسے شاک ہی تو لگا تھا۔
"کیوں؟"
اسکی آنکھوں تک میں حیرانی تھی میران سب اچھے سے سمجھ رہا تھا۔
میران نے اسے مکمل بات بتائی اور عزیز مزید حیران ہوگیا۔زولفقار جاہ سے تو وہ یہی امید رکھتا تھا ان کے لیے یہ سب جائز اور عام ہی بات تھی پر میران ایسی غلط بات مان لے گا اسے دھچکا لگا تھا وہ تو عورت ذات کی بے حد عزت کرتا تھا۔
"پر چھوٹے بابا اغوا کرنے کی کیا ضرورت ہے یہ کہاں کا انصاف؟"
"ضرورت ہے اور جیسا میں کہہ رہا یوں ویسا ہی کرنا۔"
"یہ غلط نہیں؟لڑکی کا کیا قصور؟"
عزیز سمجھدار تو تھا ہی اور اسکا وفادار بھی وہ ہر گز نہیں چاہتا تھا میران اپنے باپ کی باتوں میں آکر کچھ غلط کر بیٹھے۔اسے اندازہ تھا میران جاہ دنیا میں صرف اپنے باپ سے محبت کرتا ہے۔انکی بات اسکے لیے پتھر پہ لکیر ہویا کرتی ہے۔
"اس لڑکی کے ساتھ میں کچھ غلط کرنا چاہتا بھی نہیں وہ آرام سے رہے گی۔اسکے باپ سے پیسے نکلوانے اور دھوکہ بازی پہ سبق سیکھانے کا یہی واحد طریقہ ہے جو اسے اچھے سے جھنجھوڑ ڈالے گا۔"وہ سرد انداز میں بولا۔
"پر سائیں ہم اسکے خلاف کیس بھی کرسکتے ہیں۔"
"تم کیا باتیں کر رہے ہو؟اسکو سزا نہیں دلوانی پیسے چاہیے!اور ہمارے اپنے قائدے قانون ہیں۔جب خود میں اتنی طاقت ہے تو کیوں کسی اور کی مدد لیں۔آخر اسکو معلوم ہونا چاہیے کس کے پیسے ہڑپنے کی کوشش کی ہے
اور میران جاہ اپنی طاقت کے بل پہ پیسے نکلوانا اچھے سے جانتا ہے۔"
عزیز پہ آسمان ٹوٹ پڑا تھا یہ تو اسکے سائیں کے الفاظ نہیں تھے۔غرور انا پیسہ سب بڑھ کر کے بول رہا تھا۔وہ مغرور بے شک تھا پر ایسا سنگدل نہیں تھا۔
"عزیز یہ بات باور کرلو عورت کی عزت سب سے بڑھ کر ہے تم اسے جہاں بھی رکھو سہی سلامت حفاظتی جگہ پہ رکھنا اسے کوئی تکلیف نہیں پہچنی چاہیے!"
"یہ کام میں نے اپنے ذمے اس لیے بھی لیا ہے کہ میں نہیں چاہتا مردوں کی جنگ میں کوئی عورت پِسے۔بابا سے کسی قسم کے رحم کی توقع نہیں رکھی جا سکتی پتا نہیں لڑکی کو کس حال میں رکھیں اور کیا سلوک کریں۔کچھ سوچ کر ہی انھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور مجھے معلوم ہے وہ پیچھے ہٹیں گے نہیں۔"میران نے تلخی سے کہتے سیگریٹ زمین پہ پھینک کے چپل سے مسل دی۔
میران جاہ سب کے لیے ہمدرد!!پر دھوکہ باز اور دشمنوں کے لیے اس سے کسی قسم کے رحم کی امید نہیں لگائی جاسکتی تھی۔
وہ شنواری کی بیٹی کو اپنے باپ کی نظروں سے دور کردینا چاہتا تھا اور یہی شنواری کے لیے تکلیف دہ چیز ثابت ہونی تھی بیٹی کا اغوا ہوجانا۔
عزیز نے اب جاکے گہری سانس لی تھی۔
اسکے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی وہ کیسے سوچ سکتا ہے اسکے سائیں ظالم ہونگے کوئی تو وجہ ہوگی جب ہی وہ راضی ہوئے۔
       ہاں میران یہ بات جان کہ کافی حیران ہوا تھا اسکے باپ کا پیسہ کسی نے ابھی تک چکایا نہیں۔پر مزید حیرانی اسے تب ہوئی جب انھوں نے لڑکی اغوا کرنے کی بات کہی۔ان کو سمجھانا طویل بحث تھی ہونا وہی تھا جو وہ سوچ چکے تھے۔
اس نے انکی بات قبول کی اور زولفقار صاحب کو یہ لگا کہ وہ انکے امتحان میں پاس ہوچکا ہے پر اس سب کے پیچھے میران کا مقصد کچھ اور ہی تھی۔
"مجھے پتا تھا آپ کبھی کسی کے ساتھ غلط نہیں کرسکتے۔"عزیز خوشی سے بولا۔
"ہنہہ۔۔پر اسکے باپ کو سبق ضرور سکھانا چاہتا ہوں۔"عزیز نے سر جھکایا کاش وہ اسے روکنے کی ہمت رکھتا کچھ تو تھا جو غلط تھا۔
اس لڑکی پہ اسے ترس آنے لگا۔
زولفقار جاہ کے تحت نہ سہی پر میران کے تحت تو ایک لڑکی اغوا کی جاتی!بس طریقہ زولفقار کا تھا پر مقصد تو دونوں کا ایک ہی تھا۔
میران نے ٹیبل پہ رکھے لفافے کی جانب اشارہ کیا عزیز نے لفافہ اٹھا کے کھولا تو اس میں شنواری کے گھر کا پتا لکھا تھا۔عزیز نے ایک بار پھر میران پہ امید بھری نگاہ ڈالی شاید وہ انکار کردے پر نگاہیں خالی ہاتھ لوٹ آئیں۔چاند کی روشنی میں میران کا چہرہ چمک رہا تھا اور وہ خود کو کسی بھی قسم کی نرمی سے باز رکھے ہوئے تھا۔
میران سینے پہ چادر لپیٹے واک آؤٹ کر گیا عزیز پریشان سا کرسی پہ واپس بیٹھا۔
وہ بس رب سے دعاگو تھا کہ میران کسی مشکل میں نہ پھنسے اور بعد ازاں کسی پچھتاوے کا شکار نہ ہو۔
ناجانے کیوں عزیز کو بے چینی سی شروع ہوچکی تھی۔آج اس نے میران میں طاقت کا تکبر ہی پایا تھا۔میران بے شک اس لڑکی کا برا نہیں چاہتا تھا بس کسی فراڈیا کو سبق سکھانا چاہتا تھا پر طریقہ...!!
میران کے آگے بولنے کی اتنی جرت عزیز میں بھی نہیں تھی وہ خاموش ہی ہوگیا تھا۔
                           ★ ★ ★
       یہ گھر کسی مڈل کلاس طبقے کا معلوم ہوتا تھا۔گلی کے نکڑ پہ قیام دو منزلہ گھر میں آج خوب تیاریاں چل رہی تھیں۔
"عائشے تیار ہوگئیں کیا؟"اماں جی جب کمرے تک آئیں تو بند دروازہ منہ چڑا رہا تھا انھوں نے دروازہ پیٹنا شروع کردیا چند منٹ بعد دروازہ اندر کی جانب کھلتا ہوا محسوس ہوا اماں نے نظر دوڑائی تو وہ کالے رنگ کا جوڑا زیب کیے ہاتھوں میں سلور اور کالی چوڑیاں سجائے بالوں کو کیچر میں مقید اور ہلکے پھلے میک اپ اور ضرورت سے زیادہ لبوں کو گہری لالی سے سجائے کھڑی ملی۔
   "ماشاءاللہ۔پر یہ اتنی گہری لالی لگانے کی کیا ضرورت تھی؟صرف رشتہ پکا ہوگا نکاح پڑھا کے رخصتی نہیں کروانی۔۔چل منہ دھو اپنا۔"اماں اسکو پیچھے کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں۔
"منہ کس بات پہ دھوؤں؟لپسٹک ہلکی کر لیتی ہوں۔سوچا آج ہی نکاح پڑھ کے رخصتی ہوجائے گی تو آپکے طعنوں سے جان تو چھوٹے گی۔"اس نے انھیں چھیڑتے ہوئے دوپٹے کا کونا لبوں سے رگڑدیا۔
"بہت زبان چلنے لگی ہے مہمانوں کے سامنے زبان پہ قابو رکھنا اور ہنستی مسکراتی رہنا۔اور منہ کھول کے بلکل مت ہنسنا!"انعم صاحبہ نے اسے تائیدی نظروں سے باور کروایا کیونکہ پچھلی بار اس نے جان بوجھ کے یہ حرکت کی تھی۔
"ہاں تو موٹی ناک والے لڑکے سے شادی نہیں کرنی تھی نا!"اس نے فوراً جتایا اماں نے اسے گھورا۔
"اب والے کا بھی بتادو تمھارا کچھ بھروسہ نہیں۔"وہ چادر تہہ کرتی ہوئی بولیں۔
    "نہیں نہیں ارغن میں کوئی مسئلہ نہیں بس اسکے نام میں مسئلہ ہے خیر سب کچھ تو نہیں مل جاتا نا انسان کو..تھوڑا صبر بھی کرلینا چاہیے تو میں صبر کرلونگی۔"عائشے بیڈ پہ بیٹھی اور جو انعم صاحبہ نے چادر درست کی تھی اب وہ واپس شکن زدہ کر چکی تھی۔
"کچھ تو انسانوں والی حرکتیں کرلو۔"
انھوں نے دانت پیسے عائشے نے مشکوریت بھرے انداز میں سر جھکا لیا۔باہر مہمانوں کی آمد محسوس کرتے ہوئے انعم صاحبہ فوراً کمرے سے باہر نکل گئیں۔
لڑکے والے عائشے کو پسند کرکے جاچکے تھے آج وہ رشتہ پکا کرنے آرہے تھے اور لڑکے کو بھی ساتھ لارہے تھے۔
انعم صاحبہ کچھ دیر میں عائشے کو بھی باہر لے آئیں تھیں پر وہ زیادہ دیر باہر نہ رہ سکی ارغن کی نظروں سے الجھن کھا کر کمرے میں جا چکی تھی جس پہ انعم نے بڑی سہولت سے بات سنبھالی کہ بچی شرما گئی۔
ارغن کی فیملی منگنی کی بجائے ڈائیریکٹ نکاح کی خواہشمند تھی۔اور فوراً رخصتی بھی ہوجائے تو اور اچھا ہوگا کیونکہ چند ماہ بعد انھیں ملک سے باہر جانا تھا۔
عائشے کے والد معین صاحب نے کچھ وقت لیا تھا اور پھر ان کی بات پہ رضامند ہوگئے۔
تو ایک مہینے کے اندر سادگی سے ہی عائشے کی شادی کا فیصلہ ہوچکا تھا۔
      "ہاں ہاں رشتہ پکا ہوگیا ہے۔"اس نے کوئی تیسری بار یہ بات دہرائی تھی وہ دونوں ایک بار پھر چیخیں۔
"بلوچن تم بیاہ دی جاؤگی ہمارا کیا ہوگا ہم بہت یاد کریں گے اور ہاں جیجا جی کے گھر والوں کے ساتھ باہر ملک مت جانا!"
"یار ایک کام کرو تم جہیز میں اسکو بھی ساتھ لے جانا۔"رومائزہ کان میں ہینڈ فری ڈالے دوسری طرف پینٹنگ بورڈ پہ جھکی تھی۔
"تم پڑھائی چھوڑنے کا ارادہ تو نہیں رکھتی نا؟"رومائزہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
"نیور!میری شرط یہی ہے وہ لوگ مجھے پڑھنے دیں گے!"
فون اسپیکر پہ پڑا تھا عائشے کانوں میں سے جھمکے اتار رہی تھی۔انعم بیگم کچن میں مصروف ہوگئی تھیں۔
"ویسے ایک بات بتاؤ تم نے ارغن بھائی سے بات کی؟"انوش بریانی کا چمچ منہ میں بھر کے بولی۔
"کیوں بات کرے گی یہ۔۔عائشے جب تک نکاح نہیں ہوتا لفٹ بھی مت کرانا!"رومائزہ کی حکم آلود آواز پہ عائشے نے سر ہلایا اور انوش نے آنکھوں کے ڈیلے گھومائے۔
"برو تم کیوں کباب میں ہڈی بن رہی ہو؟"
"شٹ اپ تم اپنی بریانی پہ دھیان دو!"رومائزہ سختی سے بولی۔
"اب تم میرے کھانے پہ نظر مت لگاؤ۔"
"تم دونوں میری شادی کا زکر آتے ہی اتنی بہکی بہکی باتیں کیوں کرتی ہو؟کیا دماغ گھاس چرنے چلا جاتا ہے؟"عائشے ان دونوں کی کچ کچ سن کے کوفت سے بولی۔
اور پھر ان لڑکیوں کی صدا نہ ختم ہونے والی گفتگو تب تک چلی جب انعم بیگم نے عائشے کو کچن سے آوازیں نا دیں۔
                            ★ ★ ★
    اتوار کا دن تھا شنواری صاحب اپنی لاڈلی بیٹی کی ضد پہ باہر چلنے کے لیے راضی ہوئے تھے۔
اور خاص بات یہ تھی کہ انکی ننجا بیٹی نے آج انھیں اپنی ڈرائیونگ اسکلز دکھائیں تھیں۔
گاڑی ایک سو ساٹھ کی اسپیڈ سے چلتے چلتے اچانک سے اسکے بریک لگانے پہ رکی،شنواری صاحب کو جھٹکا لگا جب کہ وہ خود بھی اسٹیرنگ پہ جھک پڑی تھی۔
"ایسے گاڑی چلاؤ گی تو روز ٹریفک حوالدار کی چاندنی ہوگی چلان بھرتی رہنا۔"انھوں نے سڑک کے کنارے قریب حوالدار کو دیکھتے ہوئے کہا جسکے اشارے پہ اس نے بریک مارا تھا۔
اس سڑک پہ گاڑی صرف 120 کی اسپیڈ پہ چلانے کی اجازت تھی اور وہ گاڑی کو 160 کی رفتار پہ اڑا رہی تھی اب لاپرواہی کا نقصان بھی بھرپا کرنا تھا۔
حوالدار کو چلان بھر کے اس نے خفگی سے شنواری صاحب کو دیکھا تھا جو دبے لب مسکراہٹ روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔انکے لاکھ کہنے پہ بھی وہ اسپیڈ کم کرنے سے باز نہیں آرہی تھی۔
ماسک سے جھانکتی آنکھوں سے وہ خفگی کا اظہار کیا۔
"میں اب اس میں پرو ہوچکی ہوں اب اپنی دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا چاہتی ہوں ڈیڈ۔"اس نے چہرے پہ پھیلے بال پیچھے کیے اور گاڑی واپس گھر کی جانب موڑ لی۔شنواری صاحب نے اسکی بات نہ مانتے ہوئے جواب دینے سے گریز کیا تھا۔
"مسٹر آئی ایم ٹاکنگ ٹو یو!"اس نے چٹکی بجائی تھی شنواری صاحب نے اسکا ہاتھ تھاما۔
"میں ابھی آپکو اس قابل نہیں سمجھتا...آئی ایم پراؤڈ آف یو بٹ اس معاملے میں میری 'نہ' ہے۔بغیر ڈرائیور کے کہیں جانے کی آپکو اجازت نہیں۔"انکے صاف انکار پہ وہ منمنائی تھی پھر موضوع تبدیل کرلیا اب گھر کے جاکے ہی انکو راضی کرنے کا وہ ٹھان چکی تھی۔
"ویسے آج کل پولوشن کتنی بڑھ گئی ہے!"اس نے بے جاہ مٹی اور دھوئیں سے خار کھاتے ہوئے کہا اور بیک مرر سے پیچھے دیکھنے لگی۔
    عزیز نے اس لڑکی کو اغوا کرنے کا کام اپنے جان پہچان کے گروپ کو سونپا تھا۔اس وقت وہ اس کی گاڑی کو ہی فولو کر رہے تھے۔
اسے ایسا محسوس تو ہوا تھا کہ کوئی مسلسل اس پہ نظر رکھے ہوئے ہے پر خیال کو جھٹک کر ڈرائیونگ پہ اس نے دھیان دیا تھا۔
گاڑی جب عین گھر کے پتے پہ رکی وہ دونوں باپ بیٹی ایک ساتھ گاڑی سے اتر کر اندر جا چکے تھے۔عزیز نے اپنی گاڑی تھوڑے فاصلے پہ روکی تھی انکے جانے کے بعد وہ گاڑی سے باہر نکلا اور دوسرا شخص جو اسکے ساتھ تھا وہ بھی کالی شرٹ پینٹ میں ملبوس باہر نکل آیا۔
"یہی لڑکی ہے؟"
الیاس نامی باؤنسر نے عزیز پہ ترچھی نگاہ ڈالے پوچھا۔عزیز نے ایڈریس اور شنواری کی تصویر کو دیکھا اور پھر سر اثبات میں ہلایا۔
کالونی میں بچے کھیل رہے تھے عزیز معمولی انداز میں ان بچوں کے پاس آیا اور ایک چھ سالہ بچے کو مخاطب کیا اب وہ بچہ فٹ بال چھوڑ کے اسکی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔
"بیٹا ابھی جو ایک لڑکی آپکو یہ چاکلیٹ دے کر گئی ہے وہ کون تھی؟"عزیز نے بڑے ہی پیار سے اسے پچکارتے ہوئے پوچھا بچہ ارد گرد دیکھنے لگا۔
"وہ ماسک والی؟"بچے نے آنکھیں بڑی کیے کہا۔
"ہاں وہی!"عزیز کی آنکھوں میں چمک ابھر آئی۔
"ہاں وہ تو میری آپی ہیں۔"اس نے بڑی سادگی سے کہا۔
"اور انکے ساتھ وہ انکل کون تھے؟"عزیز کا تجسس اس بچے کو کہاں سمجھ آنا تھا وہ فٹ بول کے گیم کھیلنے بھاگ گیا۔
"وہ انکے بابا ہیں۔"
"اوہہہ۔"
شرٹ جھاڑ کے وہ کھڑا ہوا اور واپس گاڑی کی طرف چلا آیا۔
"یہ پیسے رکھو باقی کام ہوجانے کے بعد دونگا۔
اس تاریخ سے ہی اس پہ نظر رکھنا جیسے ہی موقع ملے کام ہوجانا چاہیے کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرونگا لڑکی کو آرام سے جگہ پہ پہنچا دینا۔"عزیز نے نوٹوں کی موٹی گڈی اسکی طرف بڑھاتے ہوئے یاد دہانی کروائی۔
"فکر مت کرو تمھارا کام ہوجائے گا۔"
وہ اسے مطمئن کرتا ہوا بولا عزیز اسکا جواب سن کر مڑ کر اپنی جگہ پہ آیا اور گاڑی وہاں سے دوڑا دی۔
عزیز شنواری پہ نظر رکھوا رہا تھا اور ایک دو بار ایک لڑکی اسکے آدمیوں کو شنواری کے ساتھ پائی نظر آئی جو اسکی بیٹی کی عمر کی معلوم ہوتی تھی۔عزیز نے ساری تصدیق کرواکے یہ کام اپنے پہچان کے بندے کو سونپا تھا۔
اسے پورا یقین ہو چلا تھا یہی شنواری کی بیٹی ہے کیونکہ اس نے خود پچھلی بار قریب سے گزرتے ہوئے انکی بات چیت سنی تھی جس میں وہ اسے بابا کہہ کر مخاطب کر رہی تھی اور اب انکا ایک ساتھ گھر جانا اور اس بچے کی گواہی اسے مکمل طور پہ اطمینان دلا چکی تھی۔
وہ اسکا مکمل چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا اسی وجہ سے ہر طرح سے اس نے تصدیق کرلی تھی اور اب اسے مکمل یقین ہوچکا تھا وہ دونوں باپ بیٹی ہی ہیں۔

Assalamualaikum...
Story ab track py achuki hai..
Apny comments mai story ki mutaliq discussion kia karein..
Achy reader's thing🙌
Do vote and comment..

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now