قسط 13 بہارِ زیست

707 44 17
                                    

میران کی ادھر موجودگی سے یہ بات ظاہر ہورہی تھی وہ بھی یہاں آرگینز کی سوداگری کرنے آیا تھا۔فل وقت سوچ کے کسی بھی نتیجے پہ پہنچا نہیں جاسکتا تھا۔
    میران کا یہاں موجود ہونا سوچ کے کئی پہلو چھوڑ رہا تھا۔مراد آواز تو پہچان نہیں سکا تھا پر باہر سے دبی دبی سرگوشیاں سن لی تھیں وہ تنی رگوں کے ساتھ میران کی طرف بڑھتا گیا۔مارگن جس پہ نشا طاری ہونے لگا تھا اس نے مراد پہ فائر کیا پر قبل از پیچھے سے خورشید نے اسکے بازو پہ گولی ماردی جس کے نتیجے میں مارگن کا نشانہ چوک گیا۔
مراد کو کسی کی نظریں خود پہ جمی محسوس ہوئی اس نے بائیں جانب دیکھا تو ایم این اے طفیل تمسخر سے اسے اور میران کو دیکھ رہا تھا۔جب کہ پولیس اہلکار اسکے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال رہا تھا۔بازو کی تکلیف میں تڑپتے مارگن کو بھی اریسٹ کرلیا گیا۔
اور باقی آفیسرز گودام کی پچھلی طرف گئے اور ٹرک کے ڈرائیور کو بھی حراست میں لیا اور پوری جگہ سیل کردی۔
"تو میران صاحب پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ سب کرتے پھر رہے ہیں۔"مراد کا لہجہ تلخ اور طنزیہ تھا۔اسے بے حد افسوس ہوا تھا پر ذہن یہ سب قبول کر بھی نہیں پارہا تھا۔وہ بری طرح الجھ گیا تھا۔میران کے لبوں پہ قفل لگ گیا وہ مراد کو دیکھتا رہا۔ماحول میں عجیب سا سناٹا راج کر رہا تھا۔
یہ رات جیسے لوگوں کے چہرے پہ سے نقاب ہٹانے کے کام آئی تھی۔
"تم مجھے جانے دو بدلے میں تم جو مانگو گے تمھیں دے دیا جائے گا۔تمھاری پروموشن بھی ہوسکتی ہے۔"میران ٹیبل کی طرف سے گھومتا ہوا اسکی طرف آیا مراد نے گن جو اس پہ تان رکھی تھی ہاتھ نیچے کرلیا۔
"ہنہہہ...دنیا کی ایسی کوئی دولت نہیں جو میرے ایمان کو خرید سکتی ہو۔مجھے نہیں معلوم تھا بڑا شکار اس طرح یوں آسانی سے مجھے مل جائے گا۔"وہ پھنکارا تو میران نے توقف سے سانس خارج کی۔
"جانتا ہوں تم میرے باپ کے پیچھے پڑے ہو اور اب تو تم نے مجھے بھی نا بخشنے کا فیصلہ کرلیا ہوگا پر میری مانو ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ...سوائے خواری کے تمھارے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا اے ایس پی۔۔"میران کے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی مراد کا لہو چہرے پہ چھلکنے لگا اس نے درشت نگاہ اس پہ ڈالی۔
"میں پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہوں۔"اسکی پرسکون نگاہوں میں دیکھتے ہوئے مراد نے پر یقینی سے کہا۔اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ہتھکڑی نکال کے میران کے سامنے کی۔
"کتنا اچھا ہوگا جب تمھارا اصلی چہرہ سب کے سامنے آئے گا۔"وہ آنکھیں چھوٹی کرتے بولا تو میران ہنس دیا۔اسکا یہ اطمینان مقابل کو تپانے کے لیے کافی تھا۔
مراد نے ہتھکڑی اسکے ہاتھ میں ڈالنی چاہی تھی پیچھے سے آفیسر کی آواز نے اسے روک دیا۔
"واٹ آر یو ڈوئنگ مراد!جانے دو انھیں۔"وہ چلتے ہوئے قریب آئے تو مراد کو انکی بات پہ اچھنبا ہوا۔
"سر مجرم کی اصلی جگہ جیل ہے۔"اس نے باور کروایا۔
"شٹ اپ مراد...میران صاحب معذرت جوان خون ہے آپ سمجھ سکتے ہیں۔آپ جاسکتے ہیں۔"آفیسر ابراہیم نے عاجزی سے کہا۔میران نے آنکھ جھپکائی اور بنا کوئی وضاحت دیے وہاں سے اپنی مخصوص مغرورانہ چال چلتا نکل گیا۔پیچھے کھڑے طفیل نے نفرت سے اسے دیکھا۔
"سر آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟"مراد بھونچکا گیا تھا۔
"تم کیوں انکے پیچھے پڑے ہو؟یہ سہی وقت نہیں ہم نے اسمگلر کو پکڑنے کے لیے یہ کیس تمھیں دیا تھا نا کہ زولفقار جاہ کے بیٹے کو۔"
"پر سر ہمارا اگلا کیس انھی سے جڑا ہے۔"
"تم میران جاہ کے خلاف کچھ نہیں کروگے!"وہ اشتعال انگیزی سے اسکو باور کرانے لگے مراد دیکھتا رہ گیا۔
میران نے دروازے سے پلٹ کے نگاہ ابراہیم پہ ڈالی اور گہری مسکراہٹ چھوڑ کے مراد کو جلاتا ہوا نکل گیا۔مراد نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ابراہیم کا حکم بجا لانا ضروری تھا فلحال وہ اپنی پوسٹ کے ساتھ کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا،آگے اسے مزید ان جیسے سانپوں کے چہرے دنیا کے سامنے لانے تھے۔ابراہیم کو زولفقار صاحب کی پشت پناہی حاصل تھی اسے اب یقین ہوچلا تھا۔
ٹیم کا حصہ تو وہ پہلے دن سے تھے پر کئی بار انکی مشکوک باتوں اور حرکات کو مراد نے نوٹ کیا تھا۔
میران کے حوالے سے ایک اندیشہ اسکے زہن میں امڈ آیا وہ سوچنے پہ مجبور ہوگیا۔دل کچھ اور کہہ رہا تھا پر دماغ کچھ اور..اور آنکھوں نے جو دیکھ لیا تھا میران پہ یقین کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
وہ اسی کشکمش میں اسٹیشن پہنچا۔اور مزید پوچھ گچھ کی کاروائی کے لیے تمام افراد سے پوچھ گچھ کی۔آخر میں وہ ایم این اے طفیل کے پاس آیا تھا۔
مراد نے کرسی کھینچی اور ٹیبل پہ کہنیاں جمائے بیٹھ گیا۔طفیل کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔
"ایم این اے صاحب آپ پہ تو باخدا پہلے سے ہی نظریں جمی تھیں زرا خود بتانا پسند کریں گے کہ وہاں کیا کر رہے تھے؟"
"اے ایس پی زیادہ خوش نا ہو۔میں نے ہی تم کو وہاں بلایا تھا۔"اسکی بات پہ مراد نے کوئی تاثر نا دیا پر دل پہ ایک گھونسا سا پڑا۔وہ شاید کچھ اور سمجھ رہا تھا۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟"
"میسج بھول گئے کیا۔"
"اور تم نے ایسا کیوں کیا؟"وہ بظاہر خود کو نارمل رکھے ہوئے تھا۔اور انگلیاں چلاتا ٹیبل پہ وقفے وقفے سے ٹھونک رہا تھا۔
"چھوٹے جاہ کو پکڑوانے کے لیے لیکن وہ بچ نکلا۔اسکا اصلی روپ دیکھانا تھا جو تم دیکھ چکے ہو.."
"پوری بات بتاؤ۔۔تم نے بلایا اور خود بھی وہاں چلے آئے یہ دلیری زرا ہضم نہیں ہوئی۔"
"وہ بڑے سائیں کے ساتھ مل چکا ہے اور ایسا کب کیسے ہوا اسکا علم مجھے نہیں۔جب مجھے بھی ساتھ چلنے کا کہا تو میں نے سوچ لیا تھا اپنی تمام بے عزتی کا جواب بھرپور طریقے سے دونگا۔"مراد کی پرسوچ نگاہیں اس پہ جمی تھیں جو طفیل کی نفرت کی آگ پہ حیران بھی تھیں۔
"کس بات کا بدلہ؟"وہ ٹیبل پہ جھکا۔
"اس نے ہمیشہ مجھے دس لوگوں میں بے عزت کیا ہے۔اسکے مطابق میں غدار ہوں اور اب وہ خود کیا کرتا پھر رہا ہے وہ کچھ نہیں۔میں نے پتا لگالیا تھا اس گودام سے ایک سورنگ تھوڑے فاصلے پہ کھلتی ہے۔میں نے ساڑھے نو بجے تک تمھارا انتظار کیا،میں بہانے سے وہاں سے اٹھ گیا تھا اور چھپ چکا تھا پر تم نا آئے۔خیر تم اب بھی مجھے زیادہ دیر یہاں نہیں رکھ سکتے۔بڑے سائیں مجھے چھڑا لیں گے۔"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے اطمینان سے سب سچ سچ بتا گیا۔مراد کا اعتبار کرچی کرچی ہوا تھا۔ایک ننھی امید تھی کہ شاید میسج میران نے کیا ہو۔کیس اب ایک پہیلی کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
ناجانے اسکا دل ماننے کو تیار نہیں تھا کہ میران زولفقار کے نقشِ قدم پہ چلنے لگا ہے۔پر کیسے اسکے قدم بھٹک گئے؟پہلے تو زولفقار بھی ایک اچھا آدمی تھا پھر اسکے بعد انھیں دولت کے نشے نے اندھا کردیا سہی غلط میں وہ اب فرق ہی ختم کر بیٹھے۔
"تم نے اپنے سائیں کے ساتھ اس بار غداری کردی ہے۔انکے چہیتے بیٹے کے خلاف کام کیا ہے،اس خوش فہمی نہ رکھنا کہ وہ تم کو بچا لیں گے۔"مراد کی آنکھوں میں سرد پن اتر آیا۔
   "یہ جو ہے نا...یہاں انکے کئی راز دفن اگر میں نے زبان کھول دی تو انکا تختہ الٹ جائے گا۔"وہ دل کے مقام پہ انگلی ٹھونک کر بولا۔مراد کچھ پل ویسے ہی بیٹھا شاکی نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر مزید کچھ کہے طفیل کے سیل سے نکل کر وہ مارگن کے پاس انوسٹیگیشن کے لیے دوسرے سیل میں داخل ہوا۔مارگن تمسخر سے ہنسا۔مراد نے اسکی ہنسی گھول کے پی لی تھی اور بوٹوں کی ٹک ٹک کرتا اسکے سامنے آن کھڑا ہوا سر سے کیپ اتار کے ٹیبل پہ رکھا۔
  "کیا جاننے آئے ہو مجھ سے؟"
اس نے نظروں سے اوپر تا نیچے مراد کا جائزہ لیا۔وہ آفیسر جس نے مارگن نامی ہوشیار اسمگلر کو آخر کار رنگے ہاتھوں حراست میں لیا تھا۔مارگن نے جبڑے بھینچ لیے مراد کا چہرہ پرسکون تھا۔
"جس جس کو تم مال بیچتے ہو ان سب کے نام ہمیں بتاؤ اور اس سے پہلے یہ کہ..."وہ ابھی اپنی بات مکمل کرتا مارگن بول اٹھا۔
"میران جاہ کے بارے میں پوچھنا ہے نا!"لبوں کی تراش پہ مسکراہٹ رک گئی۔
"حیران تو میں بھی ہوا تھا اسکے آنے کا سن کر۔اسکا باپ آنا نہیں چاہ رہا تھا اور میں ڈیل کینسل کرنے لگا تھا پھر اس نے رقم سمیت اپنے بیٹے کو بھیج دیا۔تم نے ہم کو اریسٹ کرلیا ہے پر کیا لگتا ہے کب تک یہاں رکھ سکو گے؟"
"کیا تمھیں معلوم نہیں میران کو اریسٹ نہیں کیا گیا لگتا ہے نشا ڈھنگ سے اترا نہیں۔"مراد اسکے چہرے کے رنگ اڑا کے سکون سے کرسی پہ براجمان ہوا۔
"اسکا مطلب کہ اس نے ڈھونگ رچایا ہے۔"مارگن نے مٹھی بھینچ کے مراد کی آنکھوں میں دیکھا۔
"ہممم مزا اب آیا۔تم یہاں بیٹھ کے سوچتے رہو کہ تمھارے ساتھ ہوا کیا ہے۔"وہ اٹھ کھڑا ہوا.
"تمھارے خریداروں کی لِسٹ اگلی ملاقات میں تم سے لونگا!اور باہر نکلنے کا خواب مت دیکھنا۔تمھارے جیسے مجرموں کے لیے جیل میں خصوصی انتظامات کیے ہوئے ہیں۔"مراد آنکھ دبا کر کہتا مارگن کو سوالوں کے گھیرے میں ڈال کے باہر نکل گیا۔
مارگن اور طفیل دونوں سے پوچھ کچھ کرنے کے بعد اب سوچ کا رخ کہیں اور مڑ گیا۔وہ اپنے کیبن میں چلا آیا اور چائے منگوائی۔
     "سر باہر میڈیا والے آچکے ہیں۔"خورشید نے آکے بتایا مراد نے سرد آہ بھری۔دو دن کے سفر کی تھکان اور پھر اب یہ سب۔آج رات تو وہ گھر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
"مارگن کے ساتھ ایم این اے بھی پکڑا گیا ہے کیا آفیسر ابراہیم کو اس بات کی خبر ہے؟"اس نے سر دباتے پوچھا۔خورشید نے نفی میں سر ہلایا۔
"تو انکو بے خبر ہی رکھو...کچھ دیر میں طفیل کی ضمانت ہوجائیگی میں روک نہیں سکتا۔اسکو اور زولفقار جاہ کو اگلی بار نشانے میں لونگا۔ہوسکتا ہے یہ طفیل نفرت کی آگ میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا کردے،خیر تمھیں معلوم ہے ابراہیم صاحب بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔"وہ فائل میں سر دیے ہوئے تھا خورشید نے سن کے نچلا لب دانتوں سے کچلا۔
"شک تھا مجھے۔وہ ہماری ٹیم میں ہیں۔انکے ہوتے ہوئے ہم اپنے کیس پہ کام کیسے کرینگے؟"
"میران کو انھوں نے جانے دیا ظاہر ہے وہ اسکے ساتھی ہیں۔اگر میں طفیل کی بات نہ سنتا تو کہہ دیتا کچھ ہم سے پوشیدہ ہے۔پر اب سب سامنے ہے۔ہر ایک یہاں بڑی گیم نکل کے آتا ہے ہم باقی سیاستدانوں پہ تو ہاتھ مار لیں گے پر زولفقار جاہ کے لیے آفیسر ابراہیم مشکلیں پیدا کرسکتا ہے۔"
"سر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ صرف میران کے ساتھ ہوں جیسے ہم بھی تو میران جاہ پہ بھروسہ کرتے تھے۔میران کے علاوہ بہت کم لوگ ہیں جو ملک کے لیے خون پسینہ بہا رہے ہوں۔"
"یہی تو!تم خود سوچو ایک شخص جو اپنے ایکسیڈنٹ کے وقت تک سچا اور اچھا رہا۔اس سے پہلے ہی دونوں باپ بیٹے کے درمیان اختلافات چل رہے تھے۔اور پھر اس نے خود اپنے باپ کی منی لانڈرنگ رکوادی اور اب ایسا کیا ہوگیا جو وہ انکے ساتھ مل گیا؟مجھے یہ سب ہضم نہیں ہورہا۔"
چائے کا کپ اس نے لبوں سے لگالیا خورشید سوچ میں پڑگیا۔
"اب ہم کسی پہ یقین نہیں کرسکتے سر۔"
"بلکل...زولفقار جاہ کی تمام پراپرٹی کالے دھندوں کا علم میران کو لازمی ہوگا پر اب وہ کسی قیمت ہماری مدد نہیں کریگا یہ بات واضح ہے۔اب ہم ہی ثبوت ڈھونڈیں گے اور اس کیس سے ہٹ کے ایک کام اور یہ کہ وہ وجہ تلاشنی ہے جسکے لیے میران اور زولفقار میں صلاح بندی ہوئی ہے!ہوسکتا ہے اسکے جاننے کے بعد ہمارا کام آسان ہوجائے۔اس سب تبدیلی کے پیچھے لازماً کوئی وجہ ہے۔"
وہ ٹھہر ٹھہر کے مکمل وثوق سے کہہ رہا تھا۔دماغ اب بھی میران پہ اٹکا تھا آخر وہ کیسے ذولفقار جاہ کے ساتھ مل گیا۔کیا وجہ ہوگی جو میران نے انکے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔اسے میران کی آنکھوں کی سچائی بھولتی نہیں پر دوسری جانب وہ مغرور مسکراہٹ بھی ذہن میں برف کی طرف جم گئی تھی۔یقین کرتا تو آخر کس پہ!
                              ★ ★ ★
مسجد سے فجر کی اذانوں کی آوازیں آرہی تھیں کچھ ہی دیر میں سورج نکل آیا۔بنگلے کے ملازم حسبِ معمول کاموں میں لگ گئے۔باہر نکھرتا موسم دلکشی کا نظرانہ پیش کر رہا تھا۔
پر اندر زولفقار جاہ غصے سے بھرے ہوئے ہال میں صوفوں کے گرد کمر کے ساتھ ہاتھ باندھے بنا رکے کافی دیر سے چکر کاٹ رہے تھے۔
طفیل کی ضمانت ہوچکی تھی۔میران نے فون کال پہ سارا واقعہ انھیں سنا ڈالا تھا اور صبح فجر کے بعد بنگلے میں اس نے قدم رکھا۔
زولفقار کو دیکھ ہال میں ہی رک گیا...گردن سے چادر اتار کے صوفے پہ رکھی کمر ٹکا آنکھ موند کر صوفے پہ دراز ہوگیا۔زولفقار جاہ نے ہنکارتے ہوئے اسے دیکھا۔
"کیا کیا ہے تم نے یہ؟"وہ غصے سے لبریز استفسار کرنے لگے۔
"کیا بابا سائیں؟میری کوئی غلطی نہیں ہے۔غلطی آپکی ہے جو اس طفیل کو ساتھ لے جانے کا کہا۔مجھ پہ بھروسہ نا کیا اور اس دوغلے انسان پہ کرلیا جس نے مجھ سے نفرت کی خاطر آپ کے نقصان تک کا نا سوچا۔میں نے مخبری نہیں کی تھی طفیل نے کی تھی۔"آنکھوں کے پپوٹے چھوتا وہ آرام سے بولا۔وہ کچھ نا بھی کرتا تب بھی باپ کو اسی پہ شک ہوتا تھا۔زولفقار جاہ نے ایک پل خود کو کوسا کہ کیوں اپنے چراغ کے جن بیٹے سے ڈیل کی۔
"شکر ہے آفیسر ابراہیم وہاں تھا ورنہ معاملہ سنگین نوعیت اختیار کرلیتا۔"صوفے پہ دراز حالت میں ہی تھوڑی سہلاتے وہ بولا۔اسے اپنے علاوہ جیسے کیسی چیز سے فرق نہیں پڑتا تھا۔
"طفیل کی ضمانت کروالی؟میرے حساب سے تو اسے سڑنے دیں وہیں۔"اس نے کنپٹی سہلائی زولفقار نے غصے سے اسے دیکھا۔
"خاموش ہوجاؤ بلکل۔کئی راز اسکے سینے میں دفن ہیں اگر اس نے دشمنی میں آکے اس اے ایس پی کے آگے راز اگل دیے تو بربادی سے کوئی بچا نہیں پائے گا۔"پہلے تو وہ میران پہ غصہ تھے اور اب جب معلوم ہوا کہ طفیل نے غداری کی ہے تو اب انکا بی پی شوٹ ہونے لگا۔
"ریلکس۔کچھ نہیں بگڑے گا آپکا۔میں امید کرتا ہوں ہماری ڈیل اب بھی قائم ہوگی۔"وہ اٹھ کے انکے سامنے آن کھڑا ہوا۔زولفقار نے اسکی آنکھوں میں کچھ کھوجنا چاہا۔
"یہ تم پہ منحصر ہے کہ تم طفیل جیسی حرکت نا کرنا!"
"آپ نے کہا کہ مارگن سے ملاقات کرو تاکہ آپکو یقین آجائے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔صرف آپکو یقین دلانے کی خاطر میں وہاں گیا میں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اب آپ اپنی بات پہ قائم رہیں گے!"
"مجھے میرے بیٹے کی خوشی قبول ہے۔"انھوں نے مسکرا کے اسکا کندھا تھپکا تو وہ بھی مسکرادیا۔
   "ویسے مجھے افسوس رہے گا آپ نے مجھ پہ اعتبار نہیں کیا۔"
اسکا چہرہ رنجیدہ ہوگیا اپنی غلطی مانتے ہوئے زولفقار جاہ کے لب سکڑے۔باپ بیٹے نے مقمقہ کرلیا تھا ایک ہاتھ دو ایک ہاتھ لو۔
تبھی شمس طفیل کو اپنے ساتھ لیتا ہوا اندر آیا زولفقار کا چہرہ سرخ ہوگیا۔میران نے سرد نگاہ اس پہ ڈالی وہ تمسخر سے ہنسا۔
"طفیل تمھارے خون میں نمک حرامی کب سے آگئی؟تم نے میرے بیٹے کو نقصان پہچانے کا سوچا بھی کیسے؟"وہ غصے سے پھنکارے۔
"سائیں میں نے آپکے لیے خود کی جان بھی کئی بار خطرے میں ڈالی پر آخر مجھ کو کیا ملا؟مجھے ہمیشہ اس نے پارٹی سے باہر نکالنا چاہا۔میں چور ہوں میں گھٹیا ہوں میں بے ایمان پر یہ خود کیا ہے؟یہ وہی ہے نا جو دنیا کے سامنے اچھائی کا ڈھونگ رچاتا ہے اور پیٹ پیچھے آپکے ساتھ مل کر تمام غلط کاموں کا حصہ بن رہا ہے۔غلط تو یہ آپکو بھی کہتا تھا پر اب اس نے اپنا ایمان بیچ ڈالا صرف کسی لڑکی کی وجہ سے۔"طفیل نے کئی الزامات کے ساتھ زہر بھرا تیر جو آخر میں چلایا وہ میران کا دل چیر گیا تھا وہ دانت پیس کے اسکی طرف لپکا۔
"بکواس بند کرو اپنی!"
"کیا ہوا چھوٹے سائیں سچ زیادہ ہی کڑوا لگ گیا کیا نام ہے اس لڑکی کا.."ابھی طفیل منہ سے مزید زہر اگلتا میران نے اپنے مضبوط ہاتھ کا گھونسا اسکے منہ پہ جڑ دیا۔
"ہاں میں بے ایمان ہوں بیچ دیا میں نے اپنا ضمیر۔پر کسی کو حق نہیں کے وہ میری محبت کا زکر اپنی گندی زبان سے کرے۔"اسکا گریبان میران نے غصے سے دبوچ لیا،جھٹکے سے دور پھینکا اور زولفقار جاہ کو دیکھا۔
"دیکھ لی اسکی اصلیت!میں تو ہمیشہ بکواس کرتا آیا ہوں کہ اسکو نکالیں،بلاوجہ سر پہ چڑھایا ہوا ہے آج اپنی اوقات ہی بھول گیا ہے۔"طفیل کی طرف اشارہ کرتے کہا۔ایک جانب اس کا تیش تھا اور دوسری طرف زولفقار جاہ کا صبر۔اسکی محبت کے آگے انھوں نے گھٹنے ٹیک دہے تھے اور اپنی محبت کے حصول کے لیے اس نے باپ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔پر پھر بھی ہر بات میں اسکی منمنانی چل رہی تھی لگ تو ایسا ہی رہا تھا۔وہ غصہ جتنا کرنے سے گریز کرتا تھا اسکے گرد لوگ اسکے غصے کو اتنا ہی بھڑکاتے تھے۔اول تو وہ پرسکون دکھائی دیتا تھا پر چند معملات میں اسکا غصہ اس پہ حاوی ہو جاتا تھا جیسے ایک اسکی ذات پہ کوئی انگلی اٹھائے دوسرا رومائزہ!
عزیز جو اس تمام واقعے سے بے خبر تھا شور سن کے اندر داخل ہوا۔منظر کو دیکھ اسے حیرت کے جھٹکے لگتے رہے۔
طفیل نے ہونٹ سے رستے خون پہ ہاتھ رکھا اور اسکے مقابل آیا۔
"جس چڑیا کو پانے کی تم کوشش کر رہے ہو وہ تمھارے ہاتھ کبھی لگے گی نہیں میران جاہ اور یہ جو تمھارا باپ ہے نا یہ بھی تمھارے کچھ کام نہیں آئے گا۔اور دنیا تم باپ بیٹوں کا اصلی روپ دیکھے گی۔"خود پہ اٹھے ہاتھ کا بدلا لینے کی غرض سے وہ نفرت انگیزی سے بولا۔میران کے نتھنے پھول رہے تھے ماتھے کی رگیں تن گئیں اس نے گہری سانس بھر کے خود کو نارمل کیا۔
اور زولفقار طفیل کی بد زبانی پہ ششدر تھے۔
"ٹھیک ہے لوگ دیکھ لیں گے۔کینیڈا کی جس یونیورسٹی میں تمھاری بیٹی پڑھتی ہے مجھے معلوم ہے۔تمھارا بیٹا کونسے اسکول میں جاتا ہے کدھر اٹھتا بیٹھتا ہے یہ بھی میرے علم میں ہے۔تمھاری بیوی کونسا انسٹیٹیوٹ چلاتی ہے وہ بھی معلوم ہے۔"میران اسکے شانے جھاڑتے ہوئے طمانیت سے بولا اور صوفے پہ بیٹھ گیا طفیل کے چہرے کے رنگ پھیکے پڑے۔
"تم جاسکتے ہو میں تم سے بعد میں بات کرونگا حساب دینا ہوگا طفیل تمھیں ہر چیز کا!"میران کی دھمکی کے بعد زولفقار نے ٹھنڈا ہوکر کہا۔طفیل تیور چڑھاتا تن فن کرتا باہر نکل گیا۔میران کی نظر عزیز پہ پڑی جو دنگ کھڑا تھا۔
"فرید دس منٹ میں چائے کمرے میں پہنچا دینا۔"
خانساماں کو حکم سناتے وہ اوپر سیڑھیوں کی جانب اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔عزیز اسکے پیچھے ہی سیڑھییاں چڑھتا چلاگیا۔
میران نے کمرے میں جاکے کرتے کے بٹن کھولے، کف کے لنکس جو اوپر چڑھا رکھے تھے وہ نیچے کیے،بالوں میں ہاتھ چلا ہی رہا تھا عزیز کمرے میں اجازت طلب کرتے آگیا۔وہ کئی سوالوں میں گھرا تھا۔
"جو بھی تم نے نیچے دیکھا اور سنا سب سچ ہے۔"میران نے جیسے اسکے لیے آسانی کردی۔
"آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟"
"میں ایسا کرچکا ہوں!"کوٹ جو وہ کندھے پہ ڈال کے لایا تھا اسکی جیب سے اپنا موبائل نکالا اور کہا۔"خیر تم قسمت دیکھو میرے ہاتھوں بابا سائیں کا کام پورا ہو ہی نا سکا۔"وہ ہنس دیا۔
"وہ آگے جو بولیں گے اسی طرح آپ کرتے جائیں گے؟"
"ہاں...پر میں انکی طرح اپنی زمہ داریوں سے منہ پھیرنے والوں میں سے نہیں۔ڈیل کی ہے میں نے انکے ساتھ...وہ بہتر تعلقات امن چاہتے ہیں تو ہم نے مقمقہ کرلیا۔وہ رومائزہ کو بخوشی قبول کریں گے اور جو بدلہ لینے کا جنون ان کے سر پہ سوار تھا اسے ختم کریں گے اور میں انکی اس عنایت پہ تھوڑی نرمی کر ہی سکتا ہوں آخر کو میرے باپ ہیں وہ۔"
"یہ خود غرضی ہے آپکی۔میں نہیں مانتا یہ آپکے الفاظ ہیں۔"
"عزیز محبت اور جنگ میں سب جائز ہیں۔میں محبت کی جنگ لڑ رہا ہوں اور اب ہر صورت مجھے فتح کا جھنڈا محبت کی دہلیز پہ لہرانا ہے۔اگر میں خودغرضی دکھا رہوں تو ایسا ہی سہی۔بے فکر رہو نقصان کسی کا نہیں ہوگا!"
"نقصان آپکے ضمیر کا ہورہا ہے۔کیا یہ آپکے اندر شور پیدا نہیں کر رہا؟میں فخر سے کہتا ہوں میرے سائیں ایماندار ہیں مجھ سے یہ حق مت چھینیں۔"
"عزیز بس جذباتی مت ہو میرا فیصلہ اٹل ہے۔اب تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ایک بار تمھاری میڈم اس گھر میں آجائیں پھر بعد کی دیکھی جائے گی۔"
"ابتداء میں قدم ایسے ہی ڈگمگاتے ہیں وفاداری حق کے راستے پہ چلنا مشکل ہے ایسے ہی شیطان کئی روکاوٹیں لے آتا ہے۔آپ زولفقار کا ہی خون ہیں انھی کے نقشِ قدم پہ چلنے لگیں گے۔"وہ روکنا چاہتا تھا۔
"تم میرے قریبی ہو میں نے تم کو کافی وضاحت دے دی ہے۔باتوں کو دہرانے کا میں قائل نہیں ہوں۔"
"میں اسے پانے کے لیے جتنی تڑپ برداشت کر رہا ہوں کوئی نہیں جانتا،میری محبت کو سب نے کھلونا سمجھ رکھا ہے پر میں اس کھلونے کی حفاظت خود کرونگا!"
"ٹھیک ہے پھر میری آپکے ساتھ وفاداری ضرور ہے پر آپکے کسی غلط کام میں ساتھ نہیں دونگا۔"
"میں تمھیں فورس بلکل نہیں کرونگا جیسے تمھیں مناسب لگے۔"میران نے بات ختم کی فرید کی جگہ شمس چائے لے آیا تھا۔
"سائیں نے حکم بھجوایا ہے جب آپ فارغ ہوجائیں تو انکے کمرے میں چلے جائیگے گا بات کرنی ہے کچھ۔"شمس نے کہتے ہوئے نظر پریشانی میں مبتلا عزیز پہ ڈالی اور افسوس اسے دیکھا۔عزیز نے مٹھیاں ضبط کی۔
"ٹھیک ہے۔"میران نے موبائل سے توجہہ ہٹا کے کہا تو وہ سر ہلا کے کمرے سے نکل گیا۔
اسکے تھوڑی دیر بعد عزیز بے چین سا سیڑھیاں اترتے ہوئے کوریڈور سے نکل کے ہال کی طرف آیا جہاں سے باہر کا راستہ تھا۔زولفقار اسے وہیں بیٹھے ملے وہ رکنا نہیں چاہتا تھا پر زولفقار کے مخاطب کرنے پہ رک گیا۔
"تم میرے بیٹے کے لیے مشکل پیدا مت کرو۔"انکا انداز یخ تھا عزیز نے نگاہیں جھکائی رکھیں اسکا موڈ بگڑا ہوا تھا۔اسے اپنے سائیں سے بلکل یہ توقع نہیں تھی۔
وہ بچپن سے اسکے ساتھ رہا تھا اسے غلط قدم اٹھاتا دیکھ بے بسی پہ غصہ آرہا تھا۔وہ میران کو تکلیف پہچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
"میرے بیٹے نے بچپن سے مجھ سے جو چیز مانگی میں نے اسکے سامنے لاکر رکھ دی تو پھر اب کیسے اس لڑکی کو اس سے دور رکھ سکتا ہوں۔میرے لیے میرا بیٹا اہم ہے!"وہ جیسے واضح کر رہے تھے۔
"اور جو اسکے اہم ہیں جن کو وہ چاہتا ہے میرے لیے وہ بھی اہمیت رکھتے ہیں جیسے تم!میران نے کہا بابا سائیں عزیز کا اسکول میں داخلا کرا دیں میں نے کروادیا عزیز کو جاب بھی دی اپنے بیٹے کا محافظ بنادیا۔اور اب وہ شنواری کی بیٹی ہے تھوڑی انا تو میں مار ہی سکتا ہوں۔"سگار لبوں سے ہٹا کے دھوئیں کا مرغولہ ہوا میں اڑایا عزیز نے سانس بھری اور تحمل سے نظر اٹھا کے انھیں دیکھا۔اسکی آنکھوں کا کرب وہ دیکھ چکے تھے۔
"میں مشکل پیدا نہیں کرونگا۔پر اتنا جانتا ہوں میران جاہ اور زولفقار جاہ ایک ہی رستے پہ زیادہ دیر نہیں چل سکتے۔"وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں طنز مار گیا۔زولفقار خاموش رہے اور عزیز شمس پہ نگاہ ڈالتا پلٹ گیا۔
                              ★ ★ ★
    رفتہ رفتہ جس طرح دن گزر رہے تھے بیٹی کے غم میں شنواری صاحب کی حالات بھی گرتی جارہی تھی۔پہلے جو کافی تندرست دکھائی دیتے تھے اب بہت کمزور نظر آنے لگے تھے۔نعمت بی انکے اور روما کے لیے بہت متفکر تھیں۔ناجانے یہ پریشانی کے بادل کب چھنٹتے۔
آزمائشوں نے انھیں چاروں طرف سے آن گھیرا تھا۔
دائم کے ساتھ فیکٹری بیچنے کے لیے بات چیت چل رہی تھی وہ جگہ کی مناسبت پیسے کم دے رہا تھا اور شنواری صاحب کو پانچ کڑوڑ میں ہی فیکٹری بیچنی تھی۔
   "شنواری صاحب آپ نے دوائی نہیں کھائی اب تک؟"نعمت انکے کمرے میں داخل ہوئیں۔
"کھالونگا تھوری دیر میں۔"
"وقت پہ کھایا کریں۔ہمت نا ہاریں اللہ ہماری مدد ضرور کرے گا۔"
"نعمت بی میں انٹرسٹ لگی رقم کہاں سے لاؤنگا بینک سے بھی قرضا نہیں لے سکتا اور کوئی قرضا دینے پہ آمدہ نہیں۔دن رات اپنی بیٹی کے لیے تڑپ رہا ہوں۔ناجانے وہ وہاں کیسے خود پہ قابو رکھے ہوئے ہوگی۔"
وہ ہاتھوں میں سر دے کر بولے رومائزہ کی یاد پہ نعمت بی کے چہرے پہ پھیکی سی مسکراہٹ آئی۔
"وہ وہاں ٹھیک تو ہوگی نا۔"
"ہاں مجھے یقین ہے میران وعدہ خلافی نہیں کرے گا۔"کنپٹی سہلاتے انھوں نے کہا۔عزیز اکثر میران کے پیغام لے کر آتا تھا تو رومائزہ کے بارے میں بھی انکو باخبر کردیا کرتا تھا۔اسکی آنکھوں سے سچائی جھلکتی تھی اس پہ اعتبار کرنے کے علاوہ انکے پاس دوسرا کوئی آپشن بچتا نہیں تھا۔دل کو بس ایک ننھی تسلی مل گئی تھی۔کم اس کم وہ انکی بیٹی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا یہ بات انکے لیے کافی تھی۔
                             ★ ★ ★
جامعہ کے عین دروازے پہ گاڑی رکی وہ بیگ کندھے پہ ڈالے ہاتھ میں ایک دو رجسٹرز سنبھال کے منہ بسورے گاڑی سے اتری تھی۔بلوچی ڈزائن کی کرتی اور شلوار اس نے پہن رکھی تھی ناک میں لونگ ہمیشہ کی طرح چمک رہی تھی اور کاندھوں پہ شال پیچھے سے ڈال ہوئی تھی جسکے کناروں پہ کڑاہی پہ تھی۔
       وہ اتر کے گاڑی کی دوسری طرف آئی چونکہ جامعہ کا دروازہ بھی اسی طرف تھا۔ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے پولیس وردی میں ملبوس شوہر صاحب اسکی پشت تک رہے تھے جو بہت چیخ پٹاخ کرکے گاڑی سے اتری تھی۔یک دم وہ رکی اور پلٹ کے اسے دیکھا نیم سوجی اور رات جگ آنکھیں کالے سن گلاسز سے چھپا رکھی تھیں۔وہ چونکہ کیس میں مصروف تھا اسکے باوجود اس نے عائشے کو جامعہ کے لیے تیار رہنے کا پیغام دے دیا تھا۔عائشے کا کورس سارا اسکے گھر تھا جو وہ پچھلی رات نیمل اور ڈرایور کے ساتھ جاکے لے آئی تھی۔اور صبح مراد نے اسے پک کر لیا تھا۔
ریشمی بالوں کو کان کے پیچھے اڑس کے وہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگی جسکے چہرے پہ اطمینان بھرا تھا وہ مزید عائشے کے معاملے میں لاپرواہی کرنا چاہتا ہی نہیں تھا بیوی تھی اب ذمہ داری تھی!
مراد نے بھنوو اچکا کے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا وہ دانت پیس کے پیر پٹختی اندر چلی گئی۔
   تقریباً ایک ماہ بعد اس نے جامعہ میں قدم رکھا تھا۔فاصلے فاصلے سے اسٹوڈنٹس بیٹھے نظر آرہے تھے۔کلاس کا ٹائم ہوگیا تھا وہ خراب موڈ کے ساتھ ہی کلاس کی جانب چل پڑی۔بیچ راستے میں ہی کچھ فیلوز نے اسے شادی کی مبارکباد دی۔وہ تو شکر تھا کسی کو ارغن کا نام اس نے بتایا نہیں تھا ورنہ ایک مسئلہ اور کھڑا ہوجانا تھا۔اس نے کلاس میں قدم رکھا اور ڈیکسز کی جانب نظر گھمائی سب ہی اسے اتنے دن بعد دیکھ کر چونک گئے تھے۔دوسری ڈیسک پہ بیٹھی نیند میں اونگھتی انوش پہ جب اسکی نظر گئی تو تیز قدم اٹھا کر اسکے سر پہ جا پہنچی اور کندھے پہ رجسٹر مار کے اسے ہوش کی دنیا میں لائی۔انوش ہڑابڑا کے اٹھی اور عائشے کو دیکھ کر چیختی ہوئی خوشی سے پھولے نا سماتی گلے لگ گئی۔
"جنگلی بے وقوف بتا نہیں سکتی تھیں تم کہ آرہی ہو۔"
اسکے گلے لگے ہی وہ بول رہی تھی عائشے مسکرادی۔اس سے دور ہٹ کے اس نے بلند آواز میں سب کو سلام کیا۔
"عائشے شادی مبارک ہو تمھیں۔"پیچھے سے اریکہ کی آواز پہ وہ چونک کے پلٹی۔
"تھینک یو۔"اس نے مصافحہ کیا۔
"عائشے بلوچ صاحبہ آپ کس کی مسز بنی ہیں؟دلہا بھائی کا نام ہی بتادیں۔"پلر کی اوٹ میں سے جانی پہچانی آواز آئی تھی۔عائشے نے ایک نظر انوش کو دیکھا اور پھر سامنے..ہمایوں ڈیسک سے نکل کے انکی طرف ہی آیا تھا۔
"میں بتاتی ہوں کس کی مسز بنی ہیں۔ہماری کلاس میں بہت بڑے بڑے لوگوں کی بیویاں پڑھنے آتی ہیں۔"انوش سب کو جگہ پہ بیٹھنے کا ہاتھ سے اشارہ کرتے بولی اور خود ڈیسک کے اوپر چڑھ کے بیٹھ گئی جب کہ عائشے اب بھی کھڑی تھی بیگ کندھے سے اتار کے نیچے رکھا۔
"بیویاں نہیں بیوی!"عائشے نے اسکے کان میں تصیح کی تو وہ پلک جھپک کے مزید بولنے لگی کیونکہ سب کا تجسس اب بڑھ رہا تھا۔
"لاہور کے بہت قابل آفیسر اے ایس پی مراد دمیر ہمارے دلہا بھائی ہیں۔مسز عائشے دمیر!وہی آفیسر جنہوں نے کل رات ایک اسمگلر اور اسکے گینگ کو پکڑا ہے۔"انوش نے بہت چہچہاہٹ سے اعلان کیا اور سب ستائش بھری نظروں سے عائشے کو دیکھنے لگے۔
"سچی؟"
ہمایوں کو جیسے یقین نہیں آیا۔
"تو کیا جھوٹ بولونگی؟تمھارا میرا مذاق ہے؟"وہ جب اپنے پہ آتی تھی تو آنکھیں چڑھا کر کہتی تھی۔پھر اس نے اپنا موبائل کھولا اور عائشے کی نکاح کی تصویر نکالی۔جس میں گنگ سی عائشے اور مراد بھی کافی سنجیدگی سے کھڑا تھا۔وہ تھوڑی بدمزہ ہوئی کوئی ڈھنگ کی تصویر نہیں تھی۔ایک اور تلاش پہ ملی جس میں مراد نکاح نامے پہ دستخط کر رہا تھا دونوں تصویریں اس نے پوری کلاس کو کچھ لمحوں میں دکھا ڈالیں۔سب کی بے یقینی کا خاتمہ ہوا۔
"واہ بھئی واہ....عائشے بتاؤ نا کیسے انکا رشتہ آیا؟انھوں نے پہلے تم کو کبھی دیکھا تھا؟"سوال کا صاف مطلب تھا کیا یہ پسند کی شادی ہے؟عائشے لاجواب تھی چہرہ بجھ گیا۔انوش نے اسکا ہاتھ دبایا اور مسکرائی۔
"بلکل راہ چلتے انھوں نے کہیں دیکھ لیا تھا اور پھر رشتہ بھجوادیا۔"
"یار تم نے ہمیں شادی پہ بلایا نہیں۔اور رومائزہ کے بغیر ہی نکاح کرلیا۔"تھوڑے فاصلے پہ سے ایک اور آواز آئی۔
"نکاح کے لیے دوست کی نہیں دلہا کی ضرورت تھی۔اور رومائزہ جب آئیگی تب ہم ایک پارٹی آرگینائز کریں گے اس میں تم سب کو دعوت ملے گی ٹھوس لینا پھر۔جب روما ہی نہیں تھی تم لوگوں کو بھی کیوں بلاتے۔"انوش کھٹاک سے بولی۔اس نے سب اچھے سے سنبھالا تھا۔روما اور انوش باتیں بنانے میں ماسٹر تھیں۔
"ویسے کب آئیگی رومائزہ؟کافی ٹائم ہوگیا ہے اب تو یونی میں ایک اور فنکشن منقعد ہونے کی خبر سننے میں آرہی ہے۔اسے بلاؤ بھئی وہ سب اچھے سے ہینڈل کرلیتی ہے۔"ہمایوں نے مزید کہا تو انوش نے چبا کے اسے گھورا۔عائشے خاموش سی کھڑی تھی۔
"تم نا اسے بھول جاؤ!"
"استغفر اللہ ہمیشہ غلط ہی سمجھنا۔تم لوگوں سے تو اسکی بات چیت ہوتی ہوگی۔کیسی ہے وہ؟"وہ مزید بات کریدتا ہوا بولا۔
"بلکل پہلے جیسی زوردار چماٹ مارنے والی۔"اب کی بار جواب عائشے نے دیا تھا پوری کلاس قہقہوں سے گونج اٹھی۔وہ دونوں کو مسلسل زچ کر رہا تھا اور رومائزہ کے بارے میں کریدنا چاہ رہا تھا۔
ہمایوں سر نفی میں ہلاتا کان چھوتے ہوئے واپس جگہ پہ بیٹھ گیا۔"بھلائی کا زمانہ نہیں!"
"کونسی بھلائی؟پنچائیت کر رہے ہو تم دس منٹ سے!"انوش ڈیسک سے اتر کے بولی اور جگہ صاف کرکے ڈیسک پہ عائشے کے برابر میں بیٹھی۔سب واپس اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔
"تم نے تو آنا نہیں تھا؟"انوش طنزیہ ہوئی۔
"انھوں نے بھیجا ہے زبردستی۔انکو بہت پڑھی لکھی لڑکی چاہیے۔"کہنی ڈیسک پہ جماتے اس نے جھنجھلا کے کہا انوش کے ماتھے پہ بل پڑے۔
"کس نے بھیجا ہے؟تمھاری ساس نے؟"اسکی سوال میں الجھی شکل دیکھ عائشے سانس بھر کے رہ گئی۔
"انھوں نے.....اے ایس پی صاحب!"وہ لفظ جما کر بولی۔
"اوہہہ...بہت اچھا کیا ورنہ میں تمھارے سسرال پہنچ جاتی تمھاری خبر لینے۔"عائشے کی شکل پہ بارہ بجے تھے جب کہ انوش کی خوشی کا پارہ ساتویں آسمان پہ تھا۔ٹیچر کے آدھا گھنٹہ دیر سے آنے پہ انوش کی طرف سے اسے پڑھائی کے متعلق لمبا لیکچر موصول ہوا تھا۔دل کا تو پتا نہیں پر بے زار ہوکے عائشے نے کہہ دیا تھا وہ واپس دل لگا کر پڑھائی پہ فوکس کرے گی۔اور انوش کے لیے اتنا کافی تھا کہ وہ اسکی بات سمجھ گئی ہے۔
یونی آف ہوئی تو نیمل کے آفس کا بریک ٹائم تھا ڈرائیور کی جگہ نیمل نے عائشے کو پک کیا تھا اور اسی اثناء میں انوش سے بھی ملاقات ہوگئی۔عائشے اور نیمل کی کافی اچھی دوستی ہوچکی تھی اور رہی بات انوش کی وہ بھی اب نیمل سے سیدھی طرح بات کرنے لگی تھی۔یہ دیکھنے کے بعد کہ انوش کے تنک کے جواب دینے کے باوجود نیمل کا رویہ برا نہیں ہوا تھا،تو وہ کیوں بلاوجہ دل میں جلن کا شکار رہتی۔
                           ★ ★ ★
فارم ہاؤس،،دوپہر کا وقت تھا قریباً ڈھائی سے اوپر۔
کھانا کھا لیا تھا اب وہ بہرائی بہرائی لاؤنچ کے چکر کاٹ رہی تھی۔موڈ خاصا خوشگوار تھا۔گلاس وال پہ سے پلاسٹک کا پردہ ہلکا سا سرکا ہوا تھا جس سے چمچماتی دھوپ سیدھا صوفوں پہ گر رہی تھی۔
بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنائے گھٹنوں کو چھوتی گرے کرتی کے اوپر کالی ہوڈی میں ہاتھ ڈال کے گلاس وال کے پاس آگئی اور باہر باغ پہ نگاہ ڈالی۔قدرت سے اسے خاصا لگاؤ تھا فوراً اچھا موسم ہر چیز اسے اٹریکٹ کرتی تھی۔وہ کئی پل مالی بابا کو کیاریوں میں پانی ڈالتے دیکھتی رہی۔تازہ گلاب کے پھول جگہ جگہ کھلے ہوئے تھے۔ایک گلابوں سے بھرا گلدستہ تو اسے کل ہی موصول ہوا تھا جو کمرے میں اس نے نگاہ کے سامنے سجا کے رکھا تھا۔دروازے کے پاس گارڈز کھڑے تھے۔وہ سائیڈ سے ہی باہر کے نظارے دیکھتی تھی۔اس قدر حسین باغ تھا اگر میران نے منع نا کیا ہوتا اور گارڈز بھی نا ہوتے تو وہ ضرور یہ باغ دیکھتی۔
اور پھر خلافِ توقع گارڈز نے کسی گاڑی کی آواز پہ دروازہ کھولا تھا اور کالی ہیلکس پارکنگ تک گئی۔
میران کی دوسری گاڑی تھی پہلے پراڈو ہوا کرتی تھی جو حادثے کے نظر ہوگئی تھی۔تقریباً دو منٹ بعد میران بھی پارکنگ کی طرف سے باغ میں گارڈز کے پاس آیا۔عزیز اسکے ساتھ تھا۔میران نے سفید کرتے شلوار پہ نیلی چادر گردن میں فولڈ کرکے ایک بل سے بائیں کندھے پہ ڈالی ہوئی تھی۔ہمیشہ کی طرح وہی پروقار شخصیت بے داغ چہرہ۔پرکشش!
     صبح گھر لوٹنے کے بعد پہلے تو کچھ گھنٹے اس نے آرام کیا تھا اور پھر یہاں آنے سے پہلے زولفقار جاہ سے مل کے آیا تھا۔
"اچھا کیا آپ نے نقصان کے بارے میں بتا دیا۔میں سوچ ہی رہا تھا ایک چکر لگا آؤں۔"
"مینیجر بتا رہا تھا۔کینڈا سے آئی کمپنی سے ڈیل کرنا بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔"کچھ فائلز زولفقار نے اسکے آگے کی تھیں اس نے سر اثبات میں ہلایا۔
"میں جاؤنگا تو دیکھ لونگا۔اور کوئی خدمت میرے لائق؟"اس نے سر جھکا کے سینے پہ ہاتھ رکھے پوچھا زولفقار جاہ کا قہقہ بلند ہوا۔
"مجھے کچھ نہیں چاہیے بس تم خوش ہو کافی ہے۔یاد رکھنا یہ سارا ایمپائر میرے بعد تم نے ہی سنبھالنا ہے۔"مونچھوں کو تاؤ دیتے انھوں نے کہا تو وہ دھیمے سا ہنسا۔
"سائیں کھانا لگوادوں؟"فرید کھانے کا پوچھنے آیا تھا۔بڑے جاہ نے چھوٹے جاہ کی جانب دیکھا۔
"بابا آپ کھالیں مجھے ایک ضروری کام ہے۔"
وہ صوفے سے کھڑا ہوگیا۔بڑے جاہ ہنسنے لگے۔
"بہو سے ملنے جارہے ہو."میران نے انکی آنکھوں میں دیکھا جدھر خوشی کے رنگ تھے وہ بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا تھا پھر سر ہاں میں ہلادیا۔آخر کو اسکے باپ نے اپنی انا کو مار لیا تھا۔
وہ ان سے بغل گیرا ہوا جاہ نے اسکی پیٹ تھپکی اور عزیز کو ساتھ چلنے کا حکم دیتے گاڑی میں بیٹھ گیا۔
عزیز نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی فارم ہاؤس کے رستے پہ دوڑا دی۔
رومائزہ باہر ناجانے کدھر کھو گئی تھی میران کے اندر آنے کی خبر ہی نہیں ہوئی۔
"کیا تانکا جھانکی ہورہی ہے؟"وہ جب بلکل گلاس وال کے پاس آکر مخاطب ہوا تو چونک کے پلٹی اور پردہ چھوڑ دیا۔
"تم...انسانوں کی طرح مخاطب نہیں کرسکتے کیا۔بلکہ آئے ہی کیوں ہو؟میں بھی بلاوجہ تم سے بولے جا رہی ہوں۔"میران کا تیش بھولی تھوڑی تھی غصے میں بھری ہوئی تھی جب کہ غلطی خود کی تھی۔پر عادت کہاں تھی اسے اس طرح سختیوں کی۔
وہ مڑ کے جانے لگی تھی میران اسکے آگے حائل ہوا اور اسکے بازو سے دور اپنے ہاتھ سے اسے روکا۔رومائزہ نے ٹکر ٹکر اسے دیکھا۔
"آئی ایم سوری۔"اسکی آنکھوں میں دیکھے میران نے کہا۔
"بس؟دل توڑوں اتنا کچھ سنادو اور پھر روکھا پھیکا سوری بول دو اور اگلا معاف کردے۔ایک بار معاف کیا تھا اب نہیں کرونگی۔"
"تو کیسے سوری بولوں کیا پوری بارات لے کر آتا؟"ایسے چٹخ سے تنکتا جواب آنے کی اسے امید نہیں تھی،نا اسکے بولنے کے انداز کی کس طرح وہ بھن کے بولا تھا۔
"اصولاً تو غلطی تمھاری اپنی ہے۔۔پر عورتوں نے مجال ہے جو کبھی اپنی غلطی مان لی ہو۔"
"تم نے مجھے معافی کا موقع دیا ہی کہاں تھا بس غصے میں پھٹ پڑے تھے۔میرے بابا نے کبھی مجھ سے روڈیلی بی ہیوو نہیں کیا اور نا کبھی کسی ٹیچر نے مجھے ڈانٹا..میں ہی جانتی ہوں تمھارا غصہ کس طرح میں نے پیا تھا۔"وہ بچوں کی طرح بحث پہ اتر آئی تھی مقابل کو تو بس اس سے بات کرنے کا منتظر ہوتا تھا۔جیب میں ہاتھ ڈالے وہ اسکی سننے لگا۔
"اچھا تو اب کرلو اکسکیوز۔"میران نے آپشن رکھا۔رومائزہ نے آنکھیں چھوٹی کرکے ہونٹوں کو عجیب سی شکل میں ڈھال کے صاف انکار کیا تھا۔میران جو ہنسنا نہیں چاہتا تھا ہنس پڑا۔
"ہاں تم بہت لائق فائق اسٹوڈنٹ!خیر مجھے تم سے اب بھی شکایت ہے۔بھاگنے والی تم نے بہت بڑی غلطی کی تھی۔خدانخواستہ کچھ ہوجاتا تو.."
"دوبارہ شروع مت ہو."اس نے ہاتھ اٹھا کے روک دیا۔
میران نے سر جھٹک کے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ سفید کانچ کا باکس اب اسکے ہاتھ میں تھا روما نے اسکے ہاتھ پہ توجہ نہیں دی واپس باہر دیکھنے لگی۔
میران نے باکس کھولا تھا اس میں سے ایک گول چھلّا جس کے درمیان میں نازک سا ایک ہیرا جڑا تھا کیس میں سے نکال لیا اور باکس واپس جیب میں ڈال لیا۔
کچھ پل اس نے رومائزہ کو دیکھتے ہوئے لب دانتوں تلے کترے اور پھر ایک جست میں ہاتھ بڑھا کے روما کے بازو کے گرد لپٹا بایاں ہاتھ پکڑ کے اسکا رخ اپنی جانب موڑ لیا۔جب تک وہ کچھ سمجھ پاتی میران نے تیسری انگلی میں انگھوٹی پہنا دی اور ستائشی نگاہ سے مسکرا کے اسکی انگلی میں انگھوٹی کو دیکھا۔اور پھر اڑے رنگ والے رومائزہ کے چہرے کو...اسکی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئی تھیں۔میران نے مسکرا کے اسکی نظروں میں دیکھا۔
"Happy birthday my love.."
"روم..."
اسے سانس بند ہوتی محسوس ہوئی تھی وہ لفظ جب کاغذ پہ لکھا ہوتا تو وہ بے خود ہوجاتی تھی آج تو اسکی کان کے قریب میٹھی آنچ دیتی آواز میں سرگوشی سن لی تھی۔
وہ دور ہوگیا تھا پر روما کا ہاتھ اب بھی ہوا میں رہا۔
"کیا حرکت تھی؟"صدمے اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں بولی اور انگلی سے انگھوٹی اتارنے کی کوشش کی۔میران نے سرد نگاہ سے اسے گھورا تو اسکا ہاتھ رک گیا۔
"یہ مت بولنا تحفہ ہے تو اتارو مت!"
"بلکل....خیر کل مصروف تھا ورنہ سالگرہ کے دن ہی تمھیں یہ دیتا۔"
"گلدستہ بھجوادیا تھا کافی تھا۔"سورج کی کرنیں ان دونوں کے صاف چہرے کی رنگت پہ پڑ رہی تھی۔ماحول میں ایک سحر انگیز فسوں قائم ہوگیا۔دھوپ میں روما کے بال گولڈن براؤن سے دکھ رہے تھے۔
"ہمم...ہاتھ ٹھیک ہوگیا؟"
"بہتر ہے۔"اسکی الجھن میران سے چھپی نہیں تھی۔وہ زیر لب مسکرا رہا تھا۔
"آج موسم کافی حسین نہیں؟"ایک نظر باہر آسمان کو اور رومائزہ کے چہرے پہ نظر جما کے وہ بولا۔
"ہاں خوبصورت ہے۔سورج نکل آیا ورنہ بارش آج ہو ہی جانی تھی۔"بارش نا ہونے کا اسے غم کھائے جارہا تھا۔
"میرے بابا ٹھیک ہیں؟"اسکا لہجہ بھیگ گیا۔میران نے سر ہلایا۔
"کیا دیکھ رہی ہو؟"
"گھر جانا ہے۔"اس بار تو رومائزہ نے معصومیت کی انتہا کردی تھی۔بے ساختہ میران کو ملامت ہوئی۔کتنی آس سے وہ بار بار اس سے درخواست کرتی تھی۔
"بہت جلد۔"
"کتنا جلد؟دیڑھ مہینے سے تم نے یہی رٹ لگائی ہوئی ہے۔پر یہ بہت جلد آکے نہیں دے رہا۔"
"مسئلہ کیا ہے یہاں رہنے میں؟کسی چیز کی پریشانی ہے کیا؟"
"ہاں ہے ایک نہیں ہزاروں پریشانیاں ہیں۔پہلی بات یہ گھر میرا نہیں میرا گھر وہ ہے جہاں سے مجھے تم نے اغوا کروالیا تھا۔"
"گھر سے تو نہیں اٹھوایا تھا راستے میں روکا تھا اور تمھاری حفاظت کے لیے ہی اٹھوایا تھا!"
"فالو تو وہ لوگ گھر سے ہی کر رہے ہونگے نا۔"وہ دانت کچکچا کر بولی۔
"اوہ ہاں مجھے داد دینی تھی تمھیں،کافی اچھے کراٹے کرلیتی ہو۔"وہ ابنِ ڈھیٹ مسکرا رہا تھا اور اسکو تپارہا تھا اور وہ تپ بھی جاتی تھی۔
"یا اللہ مجھے صبر دے۔"
"یا اللہ مجھے رومائزہ شنواری دے دے۔"وہ دوبدو ہاتھ کھڑے کرتے بولا تو بے ساختہ روما ہنس دی۔
"خود کو تھکا رہے ہو تم...جب میں یہاں سے جاؤنگی تو پلٹ کہ تم کو دیکھونگی بھی نہیں۔"ایک ادا غرور سے اس نے کہا میران کے نقوش تن گئے۔
"اپنی چیزوں کو حاصل کیسے کرنا ہے میں جانتا ہوں۔تمھارا دل میری محبت کی زد میں آجائے گا۔"وہ بہت آرام سے بولا تھا آخر کیوں اس سے کرتا تھا اتنی محبت...اسے نہیں چاہیے تھی۔
"میرے زہن سے یہ بات نہیں نکلتی کہ تم اغوا کروانے کے پیچھے ملوث تھے۔کیسے ایسے شخص سے محبت کرلوں جو مجھے بہت برا ظالم جابر لگتا تھا..یہاں بند ہوں اکتا چکی ہوں ایسا لگ رہا ہے اللہ بھی مجھ سے خفا ہوگیا ہے۔پتا نہیں میں نے ایسا کیا کردیا جو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ہر چیز میری سکت سے باہر ہے۔"وہ باہر دیکھتے ہوئے کافی رنجیدہ ہوگئی تھی میران اسکی حالت سمجھ رہا تھا۔
"وقت جیسے رک گیا ہو میری زندگی کہیں رک گئی ہے بابا یونی دوستیں باہر گھومنا پھرنا زندگی جینا،اب ایسا لگ رہا  ہے کسی چڑیا کی طرح یہاں بند کردی گئی ہوں۔"درختوں کی ٹہنیاں باہر ہوا سے ہلنے لگیں تھیں۔رومائزہ نے آنسوؤں کی لہر اندر ہی پی لی۔میران اسکی پشت تک رہا تھا گہری سانس بھری۔
"میں بہت نیک انسان نہیں ہوں پر اتنا ضرور کہونگا جب تک آخری سانس ہو شکر ادا کرتی رہو۔شکر کرو تمھاری سانسیں نہیں کھینچی گئی،،تمھارے پیروں پہ کھڑی ہونے کی طاقت سلامت ہے۔جیسے لائی گئیں تھیں اب بھی ویسی ہو۔تمھارا برا تو کوئی نہیں چاہتا سب تمھاری بہتری چاہتے ہیں۔اللہ نے اگر مجھے تمھارا محافظ بنایا ہے تو اس بات کو قبول کرلو۔وہ ایسے ہی کسی پہ اتنی خاص ذمہ داریاں نہیں ڈالتا۔اپنا نظریہ بدلو۔کھل کے سانس لو اور دیکھو کیا باہر آسمان پہلے جیسا نیلا نہیں؟کیا یہ ہریالی پہلے جیسی نہیں۔سب وہی ہے صرف تم نے سوچ لیا ہے غم کی حالت میں رہ کر خود کو تکلیف پہنچاؤ گی اگر یہ بادل برسیں گے تو تم کو لگے گا تمھارے غم میں شریک آنسو بہا رہے ہیں۔فار گاڈ سیک نظریہ بدل لو ورنہ ایسی ہی پریشان رہو گی۔میں وعدہ کرتا ہوں سب ٹھیک کردونگا تمھاری زندگی پھر لوٹ آئے گی۔مجھے ہم قدم پاؤگی تم!"
وہ اسکے برابر میں آن کھڑا ہوا اور باہر دیکھنے لگا۔رومائزہ نے چہرہ اسکی طرف پھیرا۔
وہ ایک سیاستدان تھا اسکی زندگی پہ کوئی اثر نہیں ہوا سارے کام ویسے ہی چل رہے تھے وہ یہ سب آسانی سے کہہ سکتا تھا۔جس پہ گزر رہی ہوتی ہے اسکا دل ان باتوں کو تسلیم بڑی مشکل سے کرتا ہے۔پہلے وہ بھی دوسروں کو ایسے ہی مشورے دیا کرتی تھی۔
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔میں کوشش کر رہی ہوں نارمل رہنے کی۔تھوڑا مشکل ہے پر کر رہی ہوں۔تم سے لڑ رہی ہوں سمجھو نارمل ہوں۔"وہ اسکی جانب دیکھتی کہنے لگی۔سیسہ مانو پگھل رہا ہو تیز دھڑکنوں سے اس نے نظر اسکے چہرے سے ہٹا لی۔
"مجھ سے محبت کرلو سب آسان ہوجائیگا۔دیکھنا چاہو تو تمھیں میری برائیوں کے علاوہ اچھائیاں بھی نظر آجائیں گی۔"وہ دھیمے سے مسکرادی۔وہ مانتی تھی وہ اچھا آدمی بھی ہے۔پر کبھی اسکے ساتھ زیادتی کردیتا ہے۔دونوں کی سوچ اس معاملے میں مختلف تھی۔پر میران کی نظروں میں اپنے کے لیے احترام رومائزہ کو سرخرو کردیتا تھا۔وہ اسکی مشکور تھی پر زبان پہ یہ بات لاتی نہیں تھی۔
"محبت زبردستی نہیں ہوتی۔"
"لمحے میں ہوجاتی ہے اور پتا بھی نہیں چلتا!"اس نے روما کی آنکھوں میں دیکھتے کہا وہ پزل ہورہی تھی آخر کیوں؟یہ شخص تو اب محاز بنا چکا تھا اسکا دل پگھلا کر رہے گا۔وہ موم ہوتی دھڑکنوں کو روک نہیں پارہی تھی۔آخر یہ نگاہیں بار بار اس کی طرف کیوں اٹھ رہی تھیں۔
وہ کبھی کبھی چکر لگاتا تھا اور دونوں کے درمیان سوائے بمبار گفتگو کے کچھ نا ہوتا تھا۔
"اب تم پھر محبت نامہ لے کے بیٹھے تو میں تمھاری جان لے لونگی۔"وہ تلملا اٹھی۔وہ ہمیشہ الجھا کے رکھ دیتا تھا اپنی شخصیت سے۔ایک پل میں اچھا اور ایک پل میں زہر بھی وہی لگتا تھا۔
"آج تم اپنی دلی خواہش پوری کرہی لو۔"میران نے چادر کے نیچے پہنے کوٹ کی جیب سے گن نکال کے اسکا ہاتھ میں تھما دی تھی۔پہلے تو رومائزہ کی آنکھیں چندھیا گئیں حیرت سے منہ کھلا۔اس نے گن تھام کے چیلینجنگ انداز سے میران کو دیکھا۔
"سوچ لو میں گن پکڑ سکتی ہوں تو چلا بھی لونگی ایک موقع دو۔"
"ہاں معلوم ہے اور پہلا نشانہ تمھارا میں ہی ہونگا...چلاؤ۔"اس نے اطمینان سے بازؤں پہ ہاتھ لپیٹ کر کہا۔
"میں چلا دونگی سچ میں۔"بھنویں چڑھاتے اس نے دھمکایا پر میران کا سکون قابلِ دید تھا۔وہ کئی پل سوچتی رہی پھر گن اسکے ہاتھ میں پٹخ کے رکھ دی۔
"مجھے قاتل بننے کا شوق نہیں..."نظر وہ ملا نہیں پائی تھی میران کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ہنوز اسے دیکھتے اس نے سیٹی بجانے کے لیے ہونٹ گول کیے۔اور اگلے لمحے روما کے کان سے تھوڑا اوپر سر کی طرف گن رکھ دی۔
اس نے آنکھیں پھاڑ کے منہ کھولے اسے دیکھا۔
اور لمحہ ضائع کیے بغیر میران نے ٹریگر دبا دیا۔
رومائزہ نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔میران پلکوں کی لرزش کو ٹرانس کی کیفیت میں دیکھے گیا۔
ماحول میں سناٹا چھایا تھا صرف ٹریگر کی آواز گونجی تھی۔روما نے تھوک نگل کے آنکھیں کھولی۔حواس جب واپس آئے تو اس نے دانت کچکچا کے اسے دیکھا۔گولیوں سے بھری گن وہ آخر اسے دیتا ہی کیوں!خالی گن دیکھ بنا کچھ مزید کہے وہ پلٹ گئی۔یہ خاموشی میران پہ بہت کچھ عیاں کر گئی تھی۔
                           ★ ★ ★
شام کے وقت کالے بادل آسمان پہ چھا گئے تھے بس انکے برسنے کی دیر تھی۔میران عزیز کا منتظر تھا جو ایک فائل میران جاہ بنگلے بھول آیا تھا اسے لینے گیا تھا اسکے ساتھ ہی وہ سیدھا اسلام آباد کے لیے نکلتا۔
کمرے میں لیپ ٹاپ میں مصروف اپنے کام نپٹا رہا تھا ماحول کی خوشگواری دیکھ لاؤنچ میں ہی چلا آیا جہاں حلیمہ بی ٹی وی کھولے بیٹھی تھیں اور رومائزہ پینٹنگ میں مشغول تھی۔
لال رنگ سے کسی لڑکی کے گھومتے وجود میں رنگ بھر رہی تھی۔
خبروں میں شہر بھر میں بارشوں کے متعلق ہی رپورٹنگ جاری تھی۔
"لاہور اور اسلام آباد کے بیشتر علاقوں میں بارشیں ہورہی ہے۔اور یہاں بھی بادل برسنے کو ہیں۔مطلب میں ان دونوں میں سے کسی ایک جگہ ہوں۔"نیوز چینل پہ نظریں جمائے اس نے کہا میران نے سر اٹھا کے اسے دیکھا اور واپس لیپ ٹاپ پہ جھک گیا۔
"اپنا دماغ زیادہ نا چلاؤ..."عادتاً ناک رگڑتے ہی اس نے کہا۔رومائزہ نے بات ہوا میں اڑانی بہتر سمجھی بار بار الجھنے کا شوق تھوڑی تھا۔
"حلیمہ بی آپ ہی بتا دیں۔کیا یہ فارم ہاؤس اسلام آباد میں ہے؟میں سچ بتاؤں مجھے اسلام آباد بہت پسند ہے۔لاہور میرا شہر ہے پر اسلام آباد سے کافی لگاؤ ہے یہ بہت خوبصورت ہے...."
وہ ایک سانس میں شروع ہوگئی تھی۔میران کا زہن کام سے بھٹک رہا تھا اس نے باہر آکے ہی غلطی کردی تھی۔
"کتنا پٹر پٹر بولتی ہو تھوڑا زبان کو اور دوسرے کے کانوں کو سکون بخش دو۔"رومائزہ کے جان بوجھ کے اونچا بولنے پہ اس نے لیپ ٹاپ سے سر اٹھا کر کہا۔
"میری پٹر پٹر تم ساری زندگی یاد رکھو گے بھلے میں تمھارے ساتھ ہوں یا نہیں۔"اسے نظر انداز کرتی وہ واپس پینٹنگ میں لگ گئی پر اسے اندازہ نہیں تھا وہ کیا بول گئی ہے میران کے دل میں شور مچا تھا۔
     "تم بول سکتی ہو میں ساری زندگی سننے کے لیے تیار ہوں البتہ گفتگو کا مرکز ہم ہوں۔"
"تم تو لازمی ہوتے ہو حلیمہ بی بتائیں نا اسے۔"وہ دانت چبائے بولی۔حلیمہ بی کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی میران نے انھیں دیکھا اور شانے اچکائے۔اسے بھی یقین تھا میران کی برائیاں ہی اسکی گفتگو کا حصہ ہوتی ہونگی۔
"نا تمھاری زندگی حرام کی میں نے میرا نام بھی رومائزہ شنواری نہیں!"
"یاد رہتا ہے تمھارا نام بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں۔"وہ مصروف سا ہی بولا اور ایک نگاہ باہر ڈالی۔مینا برسنے لگا تھا۔ہوا کا شور اندر تک آرہا تھا۔
"کرتے رہو تم اپنا کام میں جا رہی ہوں.."بارش کی شوقین لڑکی بنا کچھ سوچے سمجھے وقت ضائع کیے بغیر پینٹنگ چھوڑ چھاڑ کھڑی ہوگئی۔
"حلیمہ بی اسے روکیں باہر اتنی ٹھنڈ ہے بارش میں بھیگے گی بیمار پڑجائے گی۔"وہ تو لاؤنچ سے نکل کے لان کے دوسرے دروازے کے پاس پہنچ چکی تھی۔میران متفکر سا سیدھا ہوا۔
"رہنے دیں میری بات نہیں مانے گی بہت دنوں سے بارش کی دعائیں کر رہی تھی۔"حلیمہ بی کو جو بہتر لگا وہی بولیں پر وہ مطمئن نہیں ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کی چوکھٹ کے پاس گیا۔جہاں وہ کھڑی آنکھیں بند کیے ٹھنڈی ہوا خود میں اتار رہی تھی۔
"بس یہیں کھڑی رہنا نیچے مت اترنا!بھیگنے کی ضرورت نہیں۔"پیچھے سے آتی آواز پہ وہ پلٹی آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا۔
"اٹس مائے لائف آئی ول فالو آنلی مائے رولز!ناٹ یورز!..گاٹ اٹ!"وہ بلند آواز میں بڑبڑائی۔
"تم سے زیادہ ضدی لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔"میران نے ہاتھ بلند کرتے روکنے کی کوشش کی۔
"ہاں بس کبھی غرور نہیں کیا۔"
وہ جتاتی ہوئی چھپڑے سے باہر نکل کر لان میں آگئی۔بارش کی بوندیں اسکا وجود بھیگانے لگیں اور وہ اس سے سیر ہورہی تھی۔
"حد ہوتی ہے بچپنے کی بھی۔"ضبط سے کہتا نظریں پھیر کر وہ اندر کی اوڑ پلٹ گیا۔
پیچھے بارش تھی اور رومائزہ شنواری....
ایسا لگ رہا تھا جیسے عرصے بعد کسی نے اندر جلتی آگ کے طلسم میں پانی کا چھڑکاؤ کر دیا ہو۔یہ آب اسے سکون پہچانے کا باعث بنا تھا۔لان کے اس حصے میں کوئی ذی النفس موجود نہیں تھا وہ تنہا بارش میں بھیگ کر اپنا سر آسمان کی جانب اٹھائے گول چکر لے رہی تھی...دل ہی دل میں اللہ سے رجوع کرتی کہ جلد از جلد وہ اس قید سے نکل جائے۔آنکھ سے نکلتے آنسو بارش کی نذر کب ہونے لگے اسے خود بھی پتا نہیں چلا۔وہ کہاں سب کے سامنے روتی تھی۔اس نے گال رگڑے اور آنکھیں کھول کے اردگرد دیکھا تھا۔
اس نے دیکھا کوئی نہیں دیکھ رہا تو واپس اطمینان سے آنکھیں موندے گول گول جھومنے لگی آنسوؤں کی قطاریں تیزی سے غلافی گالوں سے پھسل کر تھوڑی تک کا سفر طے کر رہی تھیں۔آج اس نے کھلے آسمان کے نیچے بھی رو کر دل ہلکا کرلیا تھا۔
اور دل کے بوجھل پن میں افاقہ بھی ہوا تھا۔پھر دوبارہ وہ دنیا کو پر شوق نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔ہر چیز میں اسے حیات محسوس ہوئی۔اسکے اندر کی سوئی ہوئی رومائزہ بھی جیسے جاگ چکی ہو۔کیا یہ صرف بارش میں بھیگنے کا اثر تھا؟یا میران کے کہے لفظوں نے اسے جوڑ دیا تھا۔
    میران کو بارش خاصی پسند نہیں تھی کیونکہ اسے فوراً زکام ہوجاتا تھا پر اس نے اوپر کسی دوسرے کمرے میں جس کی بالکونی لان کے مشترکہ حصے میں کھلتی تھی وہاں سے چند پل اس خوبصورت منظر کو آنکھوں میں قید کیا جہاں وہ ہر شئے سے بے خبر دنیا بھلائے اپنی دھن میں ہوا میں بجتی موسیقی کے ساتھ گھوم رہی تھی۔وہ مسکراتا ہوا واپس نیچے چلا آیا۔
"چھوٹے سائیں آپکو بھیگنے کی کیا ضرورت تھی؟کسی چیز کی ضرورت ہے؟"اسے جب سیڑھیوں سے اترتا دیکھا تو حلیمہ بی نے استفسار کیا وہ دھیمے سے مسکرایا۔
"مجھے جو چاہیے وہ فلحال کوئی بھی نہیں دے سکتا۔"وہ زیر لب بڑبڑایا۔
"آپ جائیں اور اسے اندر لے آئیں بارش کا پانی کافی ٹھنڈا ہے کہیں وہ بیمار ہی نا پڑ جائے۔آچھییی۔"بارش کی چند بوندوں نے اس پہ اپنا اثر دکھا دیا تھا۔حلیمہ بی ہنستی ہوئی رومائزہ کو بلانے گئیں اور میران بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
        رات کا کھانا حلیمہ بی نے شام سات بجے ہی ٹیبل پہ لگا دیا تھا کیونکہ میران کو واپس لوٹنا تھا وہ صرف سے ملاقات کی غرض سے چکر لگا لیا کرتا تھا۔وہ عزیز کی واپسی اور راستے کھلنے کا منتظر تھا۔
میران کھانا کھاتے ہوئے بھی مسلسل زکام سے پریشان تھا۔حلیمہ بی نے ٹیبل سے اٹھ کے کف سیرپ اسکے سامنے لاکر رکھا۔میران نے سوالیہ انداز میں انھیں دیکھا۔
"پی لیں ورنہ بیمار پڑجائیں گے۔"وہ تاسف سے کہتیں واپس جگہ پہ بیٹھ کر کھانے میں مشغول ہوگئیں۔رومائزہ بھی خاموشی سے سر جھکائے کھانے میں خود کو مصروف ظاہر کر رہی تھی میران نے ایک نظر اس پہ ڈالی جو سکون سے کھانے میں مصروف تھی۔اسے حیرت کا احساس ہوا کہ اس لڑکی کو ایک چھینک تک نہیں آئی تھی اور وہ جو صرف چند پل بالکونی میں ٹھہرا تھا بمشکل شرٹ اور ہلکے سے بال گیلے ہوئے تھے اور اب زکام کا شکار ہوئے بیٹھا تھا۔ویسے اصل وجہ یہی تھی جو اسے بارش زیادہ پسند نہیں تھی۔
کھانے کے بعد حلیمہ بی نے دونوں سے پوچھا تھا کہ چائے لیں گے یا کافی!
"حلیمہ بی آپکے ہاتھ کی مزیدار سی چائے۔"
اور دونوں کے منہ سے چائے کی فرمائش بروقت نکلی...میران نے گردن موڑ کے رومائزہ کو پرتپش مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا جو دانت کچکچانے میں مصروف تھی اور پیر پٹختی صوفے سے کھڑی ہوگئی۔
"آیا بڑا چائے پینے والا۔"رومائزہ کی آواز میران کے کانوں تک کا سفر طے کر چکی تھی اسکے لبوں کے کنارے پہ مسکراہٹ مزید پھیلی۔
"ٹھیک ہے میں دونوں کے لیے چائے ہی بنادیتی ہوں۔"حلیمہ بی کہتی ہوئی سرعت سے کچن کی طرف بڑھ گئیں اور رومائزہ انکے پیچھے پیچھے۔
"آپ چائے نہیں پئیں گی؟"اس نے پوچھا تو وہ ہنس دیں۔
"میں تو کافی پیونگی۔چائے تو تمھیں اور چھوٹے جاہ کو پسند ہے مجھے نہیں۔"وہ یقیناً اسکو چھیڑنے کی کوشش کر رہی تھیں اور وہ تپ بھی چکی تھی۔
"میرا بس چلے تو آگ لگا دوں آپکے اس ننھے کاکے سائیں کو۔"
"اے لڑکی چل چپ کر جو منہ میں آتا ہے بولتی جاتی ہے۔"حلیمہ بھی نے اسے فوراً جھڑکا تو وہ منہ بنا کر ایک طرف کھڑی ہوگئی اور پھر حلیمہ بی کے لیے کافی اس نے خود بنائی تھی۔
کافی اور چائے کے تیار ہوتے ہی وہ رومائزہ کو لاؤنچ میں ہی لے آئیں۔میران نے ٹرے سے کالا ماربل کا مگ تھام کے لبوں سے لگایا تھا۔
"ویسے انسان کو اتنا نازک بھی نہیں ہونا چاہیے دو بوندوں سے ہی زکام لگا کے بیٹھ جائے۔"لاؤنچ کی خاموشی رومائزہ کے طنز پہ ٹوٹی۔دوپہر کی گن والی حرکت کا حساب بھی تو برابر کرنا تھا۔اتنی دیر سے جلی کٹی اسی لیے تو سنائے جارہی تھی۔
"پتا نہیں کون کہتا کے کہ لڑکیاں نازک ہوتیں ہیں۔"جب میران کی طرف سے خاموشی ہی جواب میں موصول ہوئی تو وہ پھر بولی۔ بھڑاس تو نکالنی تھی اور وہ میران پہ ہی نکلتی جو ضبط سے سنتا اور کبھی پلٹ کے منہ بند کرنے لائق جواب پکڑا دیتا تھا۔
"وہی لوگ کہتے ہیں جنھوں نے نزاکت دیکھی ہو۔"
"سنو مسٹر نازک ہونے اور نزاکت میں فرق ہے۔"وہ پلٹ کر بولی۔
"واقعی!خیر تم میں تو دونوں ہی نہیں۔"میران نے چائے کے گھونٹ بھرے۔
"مجھ میں نزاکت ہے یہ لڑکیوں کی خوبصورتی ہوتی ہے۔بس نازک نہیں ہونا چاہیے کہ چیونٹی بھی کانٹ لے تو رونے بیٹھ جاؤ۔"نینوں کے ڈورے گھمائے اس نے جیسے بہت بڑی بات بتائی تھی میران جو اپنی کمر صوفے سے لگائے بیٹھا تھا اب سیدھا ہوا۔
"بلکل!یاد رکھنا رونے سے سوائے دل ہلکا ہونے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بعض اوقات تکلیف بڑھ جاتی ہے انسان کو ہر حالت میں خود کو مضبوط رکھنا چاہیے۔"میران نے اس پہ نظریں جمائے کہا اسکا لہجہ سنجیدگی سے بھرپور تھا رومائزہ کو کرنٹ سا چھو گیا۔کیا اس نے روما کو بارش میں روتے ہوئے دیکھا تھا؟وہ یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔
"چائے پی لو ٹھنڈی ہوجائے گی نازک کلی۔"میران نے مگ خالی کرلیا تھا اور ٹیبل پہ رکھتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔پیچھے رومائزہ اپنے لیے لقب سن کر مچل گئی۔
"میں سر پھاڑ دوں گی اسکا۔خود ہوگا نازک! بس ڈان بنا پھرتا ہے اب دیکھو زکام کے شربت پینے پڑ رہے۔"وہ حلیمہ بی کو دیکھ کر زور سے بولی تاکہ میران کے کمرے تک آواز پہنچ جائے اور رات کی اس خاموشی میں آواز کا پورے فارم ہاؤس میں پھیلنا کوئی مشکل نہیں تھا۔
"بس بس جب دیکھو کچھ نا کچھ کرنے کی دھمکی۔اب سوجاؤ۔"حلیمہ بی نے اسکے ہاتھ پہ اپنا دائیاں ہاتھ رکھا جو انھیں گرم محسوس ہوا۔
                           ★ ★ ★
راستے بند ہوچکے تھے عزیز کو واپس لوٹنے میں کافی دیر ہوگئی تھی۔اور پھر آگے اس علاقے سے باہر بھی کافی ٹریفک تھا تو میران جانے کے انتظار میں لاؤنچ میں بیٹھا تھا۔
عزیز باہر لان میں تھا۔اسکا میسج موصول ہوا تو وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
حلیمہ بی کو اس نے آواز دی تھی۔جاتے ہوئے ان سے مل کے جایا کرتا تھا۔وہ رومائزہ کے کمرے سے نکل کر آئی تھیں۔
"حلیمہ بی میں جارہا ہوں ضروری کام ہے دعا کریے گا کامیاب ہوجاؤں۔"سینے پہ ہاتھ رکھتے وہ بولا حلیمہ بی مسکرادیں۔
"اللہ کے امان میں رہیں آپکی منزلیں آسان ہوں۔"وہ دعا دیتے بولیں۔
"اسکا بھی خیال رکھیے گا اب اس طرح چند ملاقاتیں ہی رہ گئیں ہیں کرنے کو پھر وہ اپنی اصل جگہ پہنچ جائے گی۔"
"انشاء اللہ...محترمہ کو بہت تیز بخار چڑھ چکا ہے اور اپنے بابا سے بات کرنے کی ضد لگائے بیٹھی ہے۔"اسکی ضد سے پریشان ہوکے حلیمہ بی کو بتانا ضروری لگا تو اسے آگاہ کردیا میران سانس بھر کے رہ گیا۔
                         جاری ہے....
Give me your feedback!
Do 40 above votes..plss🤝
& Comments👍

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now