قسط ششم (بنجر)

1K 47 10
                                    

عزیز میران کے پیچھے باہر تو آیا تھا پر اسکے ساتھ جا نہ سکا میران نے اسے وہیں ٹہھرنے کا حکم دیا اور خود گاڑی پہ سوار وہاں سے نکل گیا۔عزیز کو اسکی فکر تھی کہ کوئی اپنا نقصان نا کر بیٹھے ویسے ہی میران کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔
حلیمہ بی نے ان دو لڑکیوں کی مدد سے رومائزہ کو ایک کمرے میں منتقل کردیا تھا اور باہر سے دروازہ لاک کرکے وہ تینوں سیڑھوں سے نیچے اتر آئیں۔
"تم دونوں صبح چلی جانا یہ لڑکی سائیں کی مہمان ہے میں خود سنبھال لونگی!"حلیمہ خاتون انکو نیچے ہی کسی دوسرے کمرے میں آرام کی غرض سے لے گئی تھیں۔
"حلیمہ بی بہت محتاط رہیے گا بہت فتنہ قسم کی لڑکی ہے یہ...پیچھے سے آرڈر ہے اسے تکلیف ناپہنچائی جائے اور اسکی حرکتیں ایسی ہوتی کہ قابو کرنا مشکل ہوجاتا۔اسکو تھوڑے بہت مارشل آرٹس کے داؤ پیچ بھی آتے ہیں۔آپ سنبھل کے رہیے گا۔"وہ لڑکی بستر پہ بیٹھ کے جوتے اتارتے ہوئے انھیں الرٹ رہنے کا کہہ رہی تھی حلیمہ بی کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی۔
"وہ تماشہ میں نے اپنی آنکھوں سے ہی دیکھ لیا ہے چلو تم دونوں بھی آرام کرو۔"وہ سرعت سے کہتی پلٹ گئیں۔
"ویسے مجھے میران جاہ سے یہ امید نہیں تھی وہ ایک لڑکی کو اغوا..."اس لڑکی کی بات ادھوری رہ گئی جب حلیمہ بی نے بولا۔
"چھوٹے جاہ نے یہ سب کسی مجبوری میں کیا ہے میں انھیں اچھے سے جانتی ہوں وہ کسی کے ساتھ غلط نہیں کرسکتے اور اس لڑکی کی طرف انکی نرمی دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے معاملہ کچھ اور ہی ہے،تم لوگ دماغی کہانی مت بننے بیٹھ جاؤ۔"وہ درستگی سے کہتیں کمرے سے باہر نکل آئیں اور اپنے کمرے کی جانب رخ کرلیا۔
                            ★ ★ ★
   رات کا ناجانے کونسا پہر تھا میران بے مقصد گاڑی سڑکوں پہ دوڑا رہا تھا یا خود کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوششیں،روما کی نفرت دیکھ کر جو بدن میں شرارے پھوٹ رہے تھے انکو ٹھنڈا کرنا لازم تھا۔کچھ دیر بعد اپنی مطلوبہ جگہ پہ اس نے گاڑی روک دی۔
گاڑی سے جب وہ اترا تو کہیں سے میران جاہ معلوم نہیں ہورہا تھا یہ تو بھلا کوئی اور شخص تھا جسے اپنوں سے چوٹ پہنچ رہی تھی۔میران چلتے ہوئے ایک مقبرے تک پہنچا۔وہ کسی کی قبر معلوم ہورہی تھی جو سنگِ مرمر کے پتھروں سے پکی کی ہوئی تھی۔
    تختی پہ شہوار نظیر جاہ نام ذیل تھا۔میران کئی پل دونوں ہاتھ تھامے سر جھکائے قبر کے سامنے کھڑا رہا اس نے فاتحہ پڑھی کچھ دیر سوچتا رہا پھر گٹھنا موڑ کے وہیں بیٹھ گیا۔
یہ کسی خاص مقام پہ جاہ خاندان کے مرحومین کے مقبرے بنے تھے۔
"آپ کہتے تھے جب تک آپ ہیں مجھے کوئی مشکل چھو بھی نہیں سکے گی بلکل ایسا ہی تھا،آپکے جانے کے بعد بھی ایسا ہی تھا کیونکہ یہ زمہ داری آپکی جگہ زولفقار صاحب نے جو لے لی تھی...پر اب وہ سب بھول بیٹھے ہیں انھیں اپنے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا دادا جان۔"میران نے سانس فضا میں خارج کی دوسرا ہاتھ قبر کے پتھروں کے درمیان مٹی پہ رکھا مٹی کی ٹھنڈک اسکے بدن میں اتر رہی تھی۔
"دادا جان آج ٹوٹ رہا ہوں خود کو سنبھال ہی نہیں پارہا میں اتنا کمزور تو نہیں تھا پر آج بہت بے بسی محسوس ہو رہی ہے دل کے رونے کی آواز میں سن سکتا ہوں۔آپکو معلوم ہے آپکے بیٹے نے آپکے پوتے کو محض ایک مہرہ سمجھ کے استعمال کیا اور مجھے آزمایا۔"وہ تلخی سے کہتے ہنسا۔جب جب وہ پریشان ہوتا تو لازمی اپنے دادا کی قبر پہ آتا تھا۔
"آزمانا ہی تھا تو کوئی دوسرا طریقہ ڈھونڈ لیتے پر شاید وہ ناکام ہوجاتے میں انکا خون بے شک ہوں ہر ان جیسا ہرگز نہیں!
آپ کہتے تھے انسان جب اپنوں سے ہی ڈسا ہو تو تکلیف اور زیادہ ہوتی ہے مجھے آج یہ بات محسوس ہورہی ہے...میں بہت گہنگار انسان ہوں پر اس راستے پہ کبھی نہیں چلنا چاہوں گا جدھر زولفقار جاہ کے قدم ہیں۔دادا میں مٹی ہوں میں کچھ نہیں کرسکتا۔"وہ بیٹھا آنسوؤں پہ جبر کیے سب بتا رہا تھا پیچھے کسی بزرگ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔کسی کی آہٹ کو محسوس کرتے ہوئے میران نے گردن موڑ کے انھیں دیکھا جو مسکرا رہے تھے میران سیدھا ہوا وہ بزرگ اپنی لاٹھی زمین پہ رکھتے ہوئے اسکے عین سامنے بیٹھ گئے۔
"پتر صبر کر حوصلہ کر۔"وہ محبت سے بولے میران نے ٹوٹے دل سے انھیں دیکھا تلخ مسکراہٹ ہونٹوں پہ برقرار تھی۔
"مشکل ہے جب اپنے ہی زخم پہ مرحم رکھنے کی بجائے اسے مزید چوٹ دیں تو بتائیں انسان کیسے صبر کرسکتا ہے؟اور میرا تو مان ٹوٹا ہے آج!"وہ زخمی دل سے مسکرایا۔
مقبرے کے ساتھ لگے جال سے کمر ٹکا کے ایک گھٹنا زمین اور دوسرے کھڑے گھٹنے پہ بازو ٹکائے بیٹھا اسے آج شہوار نظیر کی سخت ضرورت محسوس ہورہی تھی کوئی چاہیے تھا جو حالِ دل سنے۔
"جس باپ پہ اندھوں کی طرح بھروسہ کرتا آیا اپنا مخلص سمجھا آج وہی مجھ سے غلط کروانا چاہتے ہیں۔"
"مجھ سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوچکی ہے میں نے انجانے میں ہی اسکو تکلیف پہنچادی جو میرے دل میں بستی ہے اور اب مجھ سے نفرت کرنے لگی ہے۔"
اسکا سر آسمان کی جانب تھا بزرگ اسکی یہ بات سن کے مسکرا دیے انکے چہرے پہ الگ ہی قسم کا نور اور اطمینان تھا۔
"تو یہ بات ہے تھوڑا مزید ہی بتادو شاید میں تمھاری تکلیف میں کمی کا ذریعہ بن جاؤں۔"
انھوں نے میران کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا میران نے انھیں ٹھنڈے ٹھار انداز میں دیکھا اور پھر سارا واقعہ سنا ڈالا۔
"میں بابا کی باتوں میں ہرگز نہیں آیا تھا میں بس اس لڑکی کا برا نہیں چاہتا تھا پھر بھی سب بگڑ گیا کاش مجھے معلوم ہوتا رومائزہ ہی شنواری کی بیٹی ہے۔"اس نے شکستہ لہجے میں کہا۔
"تو نے ایک طرح تو اچھا ہی سوچا اور تیرے باپ نے بہت غلط کیا پر پتر ایک جگہ تیری غلطی بھی ہے بلکہ تو گناہ کر رہا تھا۔"میران نے نظر اٹھاظے چونک کر انھیں ناسمجھی سے دیکھا۔
"کونسا گناہ؟"وہ سمجھا نہیں تھا۔
"غرور..کیا تو نے اپنی طاقت پہ غرور نہیں کیا؟تو نے یہی سوچا تھا کہ شنواری کو اسکی دھوکہ بازی پہ سزا دیگا۔کیا تو بھول بیٹھا تھا انصاف کے لیے اللہ بیٹھا ہے؟تیرا طریقہ غلط تھا!
تو لڑکی کے ساتھ برا نہیں چاہتا تھا پر اسکے باپ پہ رحم بھی کرنا نہیں چاہتا تھا۔اپنے غرور کے آڑوں تو نے اگلے کی مجبوری نہیں سمجھی میں یہ نہیں کہہ رہا وہ شخص ٹھیک تھا وہ بھی اپنی جگہ غلط ہے پر تجھے یہ تیرے غرور کی سزا ملی ہے۔رب سوہنڑا نوں غرور بلکل نی پسند!شیطان نے بھی غرور کیا تھا اور پھر آج وہ جو ہے ہم سب کے سامنے ہے!
اور تو نے ناجانے اسکے علاوہ اور کب کہاں کہاں اپنی طاقت اپنی ذات پر تکبر کیا ہو یہ سب تو اللہ کی دین ہے وہ چاہے تو کب چھین لے۔اس سب میں ہمارا کیا کمال جو انسان اکڑتا پھرتا کہ اسکے پاس سب موجود ہے۔اللہ کو یہ اکڑ ہی تو ناپسند ہے!"
وہ دھیرے دھیرے کہہ رہے تھے۔
پل بھر میران کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ماتھا پسینے سے بھیگنے لگا۔حقیقت سمجھ کے اسے دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا بزرگ کی بات سیدھا اسکے دل میں اتری تھی اور زہن کے تالے کھلے تھے میران نے کرتے کے بٹن کھولے اور زہن پہ زور ڈالا بڑے بول فلم کی طرح چل پڑے تھے۔
"ہم انسان زرا سی دولت یا طاقت آنے کے بعد غرور کا پتلا بن جاتے ہیں اور یہ بات اللہ کو سخت نا پسند ہے۔"
اسے اپنے تمام تر جملے یاد آرہے تھے جو کبھی تکبر میں آکے اس نے کہے تھے۔
میران جاہ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا...زہن میں یک دم جھماکا ہوا۔
ہم اپنی عدالت خود لگاتے ہیں....زہن سائیں سائیں کرنے لگا اسکے اشک بہنے لگے وہ بزرگ اسے خاموشی سے دیکھتے رہے وہ جانتے تھے وہ کافی تکلیف سے گزر رہا ہے۔
  یران پہ آج ایک نیا باب کھلا تھا وہ سوچ میں غرق رہا دل اندر کہیں بے چینی سے مچلنے کو تھا۔وہ کافی دیر سے ہی اسی سوچ میں تھا یہ سب کیوں ہوا اور جواب اسے اب مل گیا تھا۔
کسی معصوم کے لیے وہ برائی ہرگز نہیں رکھتا تھا پھر بھی اس دلدل میں پھنس گیا۔
"اللہ مجھے معاف کردے میں غلطی پہ تھا اگر آج ٹھوکر نہ لگتی تو ناجانے مزید کتنی غلطیاں کرکے تجھے مزید ناراض کردیتا۔"یک دم اسکے لب بول پڑے سانسوں کی رفتار میں تیزی در آئی تھی۔وہ بزرگ مسکرا دیے۔
"اب تجھے اس واقع کی مصلحت سمجھ آگئی ہوگی۔اللہ نے ایک اور زولفقار جاہ بننے سے تجھے روکا ہے کیا معلوم کچھ سالوں میں تو باپ کے نقشِ قدم چل پڑتا آخر خون تو انکا ہی ہے۔"
"پر مجھے میں میرے دادا کا خون بھی دوڑتا ہے۔"اس نے جیسے فوراً ہی تصیح کی اسے انکی آدھی بات زیادہ پسند نہیں آئی تھی۔
"اب جو ہوگیا اس سے تجھے باہر کیسے آنا وہ سوچ!یہ تو طے تھا اللہ نے ایسے ہی تجھے رسی ڈالنی تھی اللہ کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔تو ہمیشہ سیدھے راستے پہ چلنا اللہ ہمیشہ تیرے ساتھ رہے گا وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے پر کبھی ہم کو آزماتا ہے کچھ لے کر تو کبھی کچھ دے کر!"
انکے خاموش ہونے پہ ماحول میں خاموشی بڑھ گئی۔قریب ہی مسجد سے فجر کی اذان شروع ہوگئی تھی آفتاب کی آمد ہورہی تھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے روح تک کو سرشار کر رہے تھے۔
"بعض اوقات اللہ ہمیں دنیا کی ہر شئے ہر رشتے کا مزا چکھا کے پوچھتا ہے بتا ترا میرا سوا ہے کون؟رشتے بڑے خوبصورت ہوتے ہی  بس یہ ہم انسانوں نے انکی خوبصورتی خراب کردی ہے۔"میران انکا چہرہ تکتا رہا وہ بزرگ لاٹھی اٹھا کر کھڑے ہونے لگے۔
"بہت شکریہ آپکا اللہ آپکو جزا دے۔میرے دل کا بوجھ کافی حد تک کم ہوچکا ہے۔"میران ان بزرگ کے ساتھ ہی جگہ سے کھڑا ہوگیا اسے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا اور غلطی کا احساس ہوجانا بھی نعمت ہے وہ اپنے کیے پہ شرمسار تھا۔
"اللہ اپنے بندے کو ایسے ہی اپنے قریب کرتا ہے۔"وہ سرہلاتے ہوئے مسکرا کر بولے۔
"اور غصہ تھوڑا کم کیا کر۔"میران کو دیکھتے ہوئے انھوں نے کہا میران کے چہرے پہ عجیب سا تبسم پھیلا ماتھے پہ سلوٹیں آئیں۔
"مجھے آج غصہ کرنے پہ مجبور کردیا تھا ورنہ میں اتنا ظالم نہیں ہوں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔"
"مجھے تو تیری باتوں سے اندازہ ہوا اس لڑکی پہ بھی کتنا غصہ کیا تو نے۔"
"ضرورت تھی ورنہ قابو کیسے کرتا بات کرونگا اس سے اسکی نفرت کو مزید پلنے نہیں دونگا۔"اسکا انداز ہمیشہ کی طرح چیلنجنگ تھا۔
"وہ لڑکی ذات ہے۔کیا اسکا اتنا حق بھی نہیں کے اپنے حق کے لیے لڑے؟آواز بلند کرے؟"
میران انکی بات سے متفق تھا۔
"پر وہ مجھے اپنے دشمنوں میں سے ایک سمجھ رہی ہے اور میں اسکے خیر خواہوں میں سر فہرست ہوں۔"وہ گویا مسکرایا دل کا غبار کم ہوگیا تھا۔
"چل نماز کا وقت ہوگیا رب کے سامنے سجدہ ریز ہوکے معافی مانگ لینا۔وہ بڑا مہربان ہے معاف کرنے والا۔"میران نے بزرگ کے پیچھے قدم لیے وہ ایک فرشتے کی صورت پہ اسے مل گئے تھے۔وہ نمازوں کا پابند نہیں تھا اور وجہ اسکے پاس یہی ہوتی کے وقت نہیں ملتا یا کبھی نماز کے ذریعے رب سے بات کرنے کی چاہ ہی نا ہوئی۔
پر اس وقت اسکا روم روم رب سے گفتگو کا خواہشمند تھا جیسے اس سے بات کرتے ہی سب ٹھیک ہوجائے گا اسکا دل کا غبار کم ہوجائے گا۔
اور بلکل ایسا ہی ہوا تھا۔
                             ★ ★ ★
وہ دونوں کلاس میں بیٹھی رومائزہ کا انتظار کر رہی تھیں پھر کلاس شروع ہوگئی پر انکا دھیان اسی کی جانب لگا تھا۔کلاس ختم ہونے کے بعد دونوں سامان سمیٹ کے کینٹین چلی آئیں۔
"روما آئی نہیں...کل پارک میں بھی نہیں آئی بچے بھی اسکا انتظار کرتے کرتے چلے گئے اور فون بھی بند جارہا اسکا۔"انوش متفکر سی بینچ پہ کہنی ٹکاتی ہوئی بولی عائشے تب تک کینٹین سے کولڈرنک اور برگر لے آئی تھی۔
"انکل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوگی شاید انھی میں مصروف ہو۔خیر یہ اسکے ماسک یہ میرے پاس ہی رہ گئے تھے۔"
عائشے نے برگر دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر دانتوں سے توڑتے ہوئے کہا آج جامعہ بڑی سونی سونی سی لگ رہی تھی سب خاموشی سے اپنے کاموں میں لگے تھے۔
انوش نے ماسک اپنے بیگ میں ڈال لیے تھے۔رومائزہ کو ڈسٹ الرجی رہا کرتی تھی وہ عموماً باہر نکلتے وقت ماسک لگانے کی عادی ہوچکی تھی۔
"خیر یہ بتاؤ تمھاری شادی کی تیاریاں مکمل ہوگئیں؟کب بیٹھو گی مایوں؟"انوش کولڈرنک سڑک سڑک کرتے بولی۔
"تمیز سے پیو یار عجیب ندیدی ہو تم۔تیاریاں تو الحمدللہ ہوگئیں اور نکاح سے پہلے ہی مایوں بیٹھونگی یو نو سب سادگی سے ہوگا۔یونی سے لیوو بھی لینی ہے میں نے۔"اردگرد دیکھتے عائشے نے کہا۔
"ارغن بھائی سے بات ہوئی؟"
"نہیں ہوئی اور اتنا ہی کوئی ان سے گپے مارنے کا شوق ہے تو تم کرلو بات۔"عائشے نے جل کے آدھا برگر واپس ٹرے میں رکھ دیا۔انوش رسمی انداز میں بھونچکائی۔
"او بی بی بولنے سے پہلے سوچ تو لیا کرو۔ویسے میں نے کل رات ایک ناول پڑھا۔"وہ سرسری انداز میں اسے بتانے لگی عائشے نے تئیں چڑھائے اسکو دیکھا۔
"اور یہ کتب گردانی کب سے شروع کردی؟"
"بس پچھلے ہفتے سے۔"وہ تمسخر سے کہتی کرسی سے کمر ٹکا کے بیٹھ گئی۔
"ویسے بڑا افسوس ہوا لڑکی اغوا ہوگئی۔"افسوس کن تاثر دیتے اس نے کہا تو عائشے اسے گھورے بنا رہ نہ سکی۔
"اب یہ کیا سیاپا ہے؟"
"ہیرو کی محبت یار...بڑی محبت کرتا تھا تو اسے اغوا کرلیتا ہے کوئی شاید ڈان وان تھا وہ۔ہائے کتنی محبت تھی نا اسے..ایک مجھ سے کوئی کرتا ہی نہیں تم دونوں بھی مجھے پر ہر وقت چڑھ دوڑنے پہ تلی ہوتی ہو.."وہ انتہائی غم زدہ لہجہ اپنا چکی تھی عائشے بلوچ کو کہاں کہانیاں پسند تھیں!وہ دوبدو بولی۔
"ہائے کیا اس میں؟اور کیسا ہیرو ہے حرکتیں تو ولن والی ہیں!تمھیں کوئی دن دھاڑے اٹھا کے لے جائے اور پھر محبت کا دعوا کرے تو تم مان لوگی؟یا وہیں فورا نکاح کے پپیرز پہ خوشی خوشی دستخط کردوگی؟اس لڑکی پہ کیا بیت رہی ہوگی اسکا تمھیں کیا پتا!اور کیسی محبت جس میں عزت ہی نہیں۔"
"میں تو بھر بھر کے گالیاں دونگی وہ بھی موٹی موٹی والی اور بس چلا تو موقع ملتے ہی اسے ماردونگی یو نو نیکی کے کام میں دیری نہیں کرتے۔پر ایک منٹ تم سیریس کیوں ہورہی ہو؟"انوش برگر منہ میں بھر چکی تھی پھر بھی زبردستی بولنے کی کوشش کی۔
"اب تم یہ مت کہنا میں تو مذاق کر رہی تھی میں نے الٹے ہاتھ کا رکھ کے دینا ہے۔"
"اللہ اللہ بلوچن تم تو شادی سے پہلے بڑی کوئی ظالم ہوگئیں شادی کے بعد اپنے میاں کو بھی ایسے ہی بولو گی؟"انوش کانوں کو چھوتی اسے نظر انداز کرتے بولی۔عائشے کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا تھا۔
"پھر شادی؟یہ ہر بات میں تم گھما کے شادی کیوں لے آتی ہو؟"وہ برہم انداز میں ٹیبل پہ جھکی دانت کچکچانے لگی اور انوش ڈھیٹوں کی طرح مسکراہٹ پیش کر رہی تھی۔
"کیوں ایک مہینے کے اندر تم ساجن جی کو پیاری ہوجاؤگی۔"وہ مزید تپاتے ہوئے کھانے پہ توجہ دینے لگی دراصل وہ عائشے کے چڑنے سے محظوظ ہورہی تھی۔
"میں جا رہی تم بیٹھو اپنے ساجن میرا مطلب برگر کے ساتھ اور ٹھونس ٹھونس کے موٹی بھینس ہوجاؤ۔ویسے اب بھی کچھ کم نہیں ہو۔"
اگلے پچھلے سارے حساب برابر کرتی ہوئی عائشے نے بیگ اٹھایا اور کھڑی ہوگئی انوش نے بات کا بلکل برا نہیں منایا الٹا بھنویں مٹکا کے عائشے کو مزید تپانے میں کمی نا چھوڑی۔
                            ★ ★ ★
تقریباً نو بجے کے قریب میران نے جاہ بنگلے میں قدم رکھا تھا وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا۔پہلے تو شاور لیا کل کی تھکن میں کچھ کمی آئی۔بلو ٹی شرٹ اور بلیک ٹراؤزر ملبوس کیے واش روم سے باہر نکلا ماتھے پہ اب بھی چوٹ کا نشان تھا بال بھیگے تھے وہ عین ڈریسنگ کے سامنے آگیا برش بالوں میں چلایا ننھی بوندھے اسکی روشن پیشانی پہ گرنے لگیں۔کمرے میں سکوت کا عالم اسے سکون بخش رہا تھا۔گلاس وال سے پار ہوتی دھوپ کمرہ روشن کیے ہوئے تھی۔
تبھی دروازے پہ دستک ہوئی اس نے اجازت دی تو شمس اندر چلا ایا میران نے اسکو دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا بیڈ پہ پڑا موبائل اٹھایا پشت شمس کی جانب ہی رکھی۔
"بڑے سرکار نے یہ فائل آپکو دینے کا کہا تھا اس میں کچھ ضروری دستاویزات ہیں آپ دیکھ لیے گا اور آج فلاں انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر سے میٹنگ ہے آپکی۔"شمس مضبوط لہجہ رکھے سب ایک ہی سانس میں بولا میران پلٹا نہیں تھا۔
"ٹائم؟"
"گیارہ بجے۔آپ..."
"ٹھیک ہے جاؤ تم اب۔"اتنا بھی اس نے کہہ دیا ورنہ اتنا غصہ تھا اس شمس پہ کہ آج سارا اتر جانا تھا۔
"آپ ناراض ہیں کیا مجھ سے؟"شمس نے تھوڑی ہمت کیے پوچھا میران اب پلٹا اور دائیں بھنوو اچکائی۔
"غصہ ہوں بہت اور چلے جاؤ کہیں سارا تم پہ ہی نا نکل جائے۔"وہ سختی سے کہتا فائل لے چکا تھا۔
"سائیں آپ اس لڑکی وجہ سے یہ سب کر رہے پہلے آپ بھی یہی چاہتے تھے۔"
"خبردار اس لڑکی کا ذکر تم نے اپنے منہ سے کیا۔اور تم نے بابا کے کہنے پہ اسے تکلیف پہچانے کا سوچا تو شمس یاد رکھنا میں انھی کا بیٹا ہوں اور اس بار سارے لحاظ کی پرواہ کیے بغیر اسکی حفاظت کرونگا!اور تم اس سب میں گھاٹے کے سوداگر ثابت ہوگے!"
وہ کھلے لفظوں میں اسے وارن کر چکا تھا شمس کے پاس لفظ ہی نہ بچے وہ الٹے قدموں کمرے سے نکل گیا۔
میران نے مٹھی بھینچ کے خود کو نارمل کیا اور فائل کھول کے پڑھی پھر ناشتے کی غرض سے نیچے چلا آیا۔
"آئیے چھوٹے سائیں بیٹھیں میں ناشتہ لگاتا ہوں۔"ڈائیٹنگ ائیریا میں میران کو دیکھے فرید سٹپٹاتے ہوئے بولا میران نے سرسری سا اسے دیکھا جو دوسرے ملازم کے ساتھ باتوں میں مگن تھا۔بمطابق میران اس بنگلے کے ملازموں کو باتیں کرنے کا بڑا ہی کوئی شوق تھا۔
میران ٹیبل کی طرف آیا اور کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا فوراً ہی فرید نے ٹیبل لوازمات سے بھر دی تھی۔
میران خاموشی سے ناشتہ کرکے باہر باغ میں آگیا تھا فرید کچن میں تھا ملازم نے ٹیبل سے سامان واپس کچن میں لا رکھا۔
"سائیں کافی غصے میں ہیں۔"ملازم دروازے کی جانب جھانکتی نظروں سے بولا۔
"مجھے کیا۔آج انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا اس سے بڑھ کے خوشی کی بات کوئی اور ہے ہی نہیں..."فرید دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہا تھا۔
"تم تو اپنا ڈھول پیٹو بس۔"ملازم تنگ آکر بولا۔
"ویسے فرید میاں کل تو میران بابا کے تیور ہی الگ تھے تم نے دیکھا تھا بڑے سائیں سے کس طرح بات کر رہے تھے۔وہ تو ایک ہی دن میں بدل گئے۔"ملازم نے سنک میں برتن رکھتے ہوئے کہا فرید نے اسے جھڑکا۔
"تم کام پہ توجہ دو سائیں نے سب سن لیا تو فارغ کردیں گے پھر تم اپنی بیگم کو سناتے رہنا سائیں کے غضب کے قصے۔"ملازم منہ بنا کر برتن دھونے لگا اور فرید نے سبزیاں کاٹنی شروع کردیں۔
میران باغیچے میں پودوں کو خود پانی ڈال رہا تھا موسم میں خنکی بڑھنے لگی تھی گویا سردیاں قریب ہی تھیں۔
"عزیز تم آگئے..سب وہاں ٹھیک ہے؟"میران نے پانی کا پائپ رکھا تھا اور راہداری کی طرف آیا تو عزیز گاڑی سے اترا تھا۔
"جی سب ٹھیک ہے۔آپ ٹھیک ہیں نا مجھے فکر ہورہی تھی۔"عزیز شکوہ گزار ہوا میران دھیمے سے ہنسا۔
"مجھے کیا ہونا میں ٹھیک ہوں۔رومائزہ وہ کیسی ہے؟مزید کوئی تماشہ کھڑا تو نہیں کیا اس نے؟"عزیز میران کے ساتھ ہی چلنے لگا اسکے انداز میں ہی رومائزہ کے لیے فکر جھلک رہی تھی۔
"میڈم رات بے ہوش ہوگئی تھیں ابھی تک ہوش نہیں آیا۔حلیمہ بی نے کہا ہے وہ انھیں سنبھال لیں گی آپ پریشان مت ہوں۔"وہ اسے تسلی دیتے بولا۔میڈم لفظ سن کر میران کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوئی تھی پر وہ عزیز سے چھپی رہی بظاہر وہ عام تاثر ہی دیتا رہا۔میران کی وجہ سے عزیز اب لڑکی کہنے سے لے کر میڈم مخاطب کرنے تک کو آگیا تھا۔
   "تم آرام کرلو کل کا دن کافی بھاری تھا تھک گئے ہوگے۔"میران اسکا کندھا تھپتھپاتے سیڑھیاں عبور کرتا اندر چلا گیا عزیز کی نظریں اسکی پشت پہ جمی رہیں۔یہ وہی میران جاہ تھا جو پرسکون انداز میں سب حل کرتا تھا اور کہیں سے بھی وہ پریشان تڑپ کا شکار محسوس نہیں ہوا عزیز کو تسلی ہوئی تو سروونٹ کواٹر میں آگیا۔
                            ★ ★ ★
   نیم روشنی کمرے میں پھیلی تھی۔رومائزہ کا زہن بیدار ہونے لگا پر آنکھوں تلے بوجھ کی وجہ سے آنکھیں بند ہی تھیں۔جسم میں ہلکی سے جنبش ہوئی تو اپنا وجود کسی ملائم بستر پہ محسوس ہوا۔آہستہ آہستہ ہمت کرکے اس نے آنکھیں کھولیں وہ ہوش سے بیگانہ لڑکی اب مکمل طور پہ جاگ رہی تھی۔دکھتے سر کے ساتھ ہتھیلیوں کے بل اٹھ بیٹھی۔
جسم نقاہت آلود تھا لب کھولنے کے لیے بھی اسے جان چاہیے تھی۔چند منٹ اسے سب یاد آنے میں لگے تھے وہ جھٹکے سے اٹھی اور دروازے کی جانب لپکی۔
"دروازہ کھولو مجھے باہر نکالو۔"زور زور سے دروازہ پیٹتی چلا رہی تھی پلٹ کے کمرے میں نگاہ دوڑائی۔
یہ کمرہ اسکے اپنے گھر کے کمرے سے بھی بہتر اور فرنشڈ معلوم ہورہا تھا۔وہ دوڑ کے صوفوں کے ساتھ بنی کھڑکیوں کی طرف لپکی پر وہ بھی باہر سے بند ملیں۔برابر میں ہی بالکونی کا دروازہ تھا اسکا لاک گھمایا وہ بھی بند ہی ملا۔
پلکوں کی باڑ بھیگنے لگی وہ واپس دروازے کی طرف آئی اور اسے مسلسل پیٹتی رہی۔
"پلیز مجھے باہر نکالو میرے بابا پریشان ہورہے ہونگے۔میران جاہ پلیز۔"شاید وہاں کوئی تھا ہی نہیں جو اسکی آواز کسی تک پہنچتی بند کمرے میں رومائزہ کا دم گھٹنے لگا تھا۔
"میران مرو گے تم بھی،اللہ تم پہ رحم نہیں کرے گا۔"روتی ہوئی وہ دروازے سے لگی فرش پہ ڈھتی گئی ساری خود اعتمادی اس وقت جھاگ ہوچکی تھی اسکا دل پھٹنے کو تھا آگے کا سوچ سوچ کر ہی آنسو تیزی سے گالوں سے پھسل کے تھوڑی کا سفر کرنے لگے تھے۔
صرف کھڑکی کی جھری سے ہلکی روشنی کمرے میں آرہی تھی ورنہ پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا وہ ایک بار پھر چلائی پر بے سود کوئی نہیں آیا۔
     دروازے سے سر ٹکائے احتشام صاحب کو یاد کرتی رہی وہ تو ہر چیز سے انجان تھی کیا ہورہا ہے کیوں ہورہا ہے۔بھوک کے مارے جسم نڈھال ہورہا تھا انتہا کی بے بسی تھی۔دماغ بھی کام کرنے سے انکاری تھا جو کچھ سوچتی۔
تبھی دروازے کی دوسری جانب سے لاک میں چابی گھمانے کی آواز پہ وہ دروازے سے کھسک کر تھوڑے فاصلے پہ ہوئی دل میں خوف الگ جاگ رہا تھا۔دروازہ اپنی جانب کھولتا دیکھا وہی خاتون جو اسکو نیچے پکڑے ہوئے تھیں کمرے میں داخل ہوئیں اور دروازہ لاک کردیا۔
     انھوں نے بیڈ کے سرہانے ٹیبل پہ کھانے کی ٹرے رکھی اور اسکے پاس آنے سے پہلے دروازے کے قریب لگے سوئچ بورڈ سے لائٹس آن کیں۔
"کیا حال بنا لیا ہے..کھانا کھالو ورنہ اور طبیعت بگڑ جائے گی۔"
حلیمہ بی نے اسے بازو سے اٹھاتے ہوئے کہا رومائزہ نے بھوکی شیرنی کی مانند انھیں دیکھا۔آنسوؤں خشک ہوگئے تھے پر انکے نشان گالوں پہ موجود تھے۔بازو چھڑاتی وہ ان سے دور ہوئی۔
"کیوں رکھا ہے مجھے یہاں؟بتائیں۔مجھے کمزور مت سمجھیں جو ڈر جاؤنگی۔نکالیں مجھے یہاں سے۔"رومائزہ چکراتے سر کو تھامے مضبوط لہجے میں بولی حلیمہ بی گہری سانس لے کر اسے دیکھنے لگیں۔
"تم ہمارے سائیں کی مہمان ہو اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تمھارا خیال رکھا جائے اب یہ بحث چھوڑو اور کھانا کھا لو۔اور کیوں رکھا ہے اسکا جواب چھوٹے سائیں ہی دیں گے وہ کوئی بھی کام بلاوجہ نہیں نہیں کرتے۔"وہ خاتون تحمل سے کہتی اسکی طرف ایک بار پھر بڑھیں تھیں وہ سناٹے کے عالم میں کھنچتی ہوئی انکے ساتھ مسہری تک آگئی۔
"میں نے کچھ نہیں کھانا۔"بڑی دیر میں اسکی آواز سن کر حلیمہ بی پھر بولیں۔
"کھاؤ گی نہیں تو لڑنے کی طاقت کہاں سے آئے گی؟ایسے تو کمزور پڑجاؤگی۔"
اسکو سمجھاتے ہوئے انھوں نے ٹرے لاکر اسکے سامنے رکھ دی۔
"میں نے کہا نا نہیں کھانا مجھے کچھ مجھے ابھی واپس چھڑوائیں۔کیسی عورت ہیں جو دوسری عورت کی تکلیف نہیں سمجھ رہیں۔تھوڑی سی انسانیت کی خاطر ہی مجھ پہ رحم کرلیں۔"اسکی آواز اونچی ہوئی حلیمہ بی سر پیٹتے رہ گئیں اس لڑکی اور میران کے حکم کے درمیان بری طرح پھنس چکی تھیں۔
"آپ کا وہ ظالم سائیں مجھ پہ ظلم کر رہا ہے میں اسے چھوڑونگی نہیں مجھے یہاں قید کرنے کی بھاری قیمت چکائے گا۔دیکھیے گا جب یہاں سے نکلونگی میڈیا کو جاکے بتاؤنگی کہ یہ لیڈر نہیں گیدڑ ہے بلکہ کیڈنیپر ہے!!"غصے میں وہ ناجانے کیا کیا الٹا سیدھا بولتی حلیمہ بی کو ہنسنے پہ مجبور کر چکی تھی۔
"باتیں اچھی کرتی ہو خیر کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے کھانے سے کیا ناراضگی!"
انکو اس لڑکی کے حال پہ ترس آرہا تھا پر وہ خود بھی مجبور تھیں پر میران پہ اتنا بھروسہ تھا کہ انھیں اندازہ تھا اسکو یہاں رکھنے کے پیچھے کوئی سبب ضرور ہوگا۔
رومائزہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر چپ چاپ ٹرے کی طرف ہاتھ بڑھا لیے۔روٹی کے نوالے بمشکل حلق سے اتر رہے تھے اسے پھر رونا آنے لگا پر آنسوؤں پہ جبر کرتی رہی۔تھوڑا سا کھا کر ہی وہ پیچھے ہوگئی تھی حلیمہ بی مسکرائیں اور ٹرے اٹھا کر باہر جانے کے لیے دروازے تک پہنچی تھیں رومائزہ انکے پیچھے ہی لپکی۔
"مجھے بھی باہر آنا ہے۔"پراعتمادی سے اس نے کہا حلیمہ بی نے ایک نگاہ سے اسکا اوپر تا نیچے جائزہ لیا۔شکن آلود کپڑے ٹخنوں کو چھوتی جینز بکھرے بال غلافی گالوں پہ آنسوؤں کے خشک نشان سرخ ہونٹ۔
اسکی ملگجی حالت میں بھی خوبصورتی دیکھ کر حلیمہ بی بہت کچھ سوچنے پہ مجبور ہوچکی تھیں۔
"جب تک چھوٹے سائیں نہیں آتے تم یہیں رہو۔زیادہ دماغ مت چلانا یہاں سیکورٹی بہت سخت ہے!اور میں نے میڈیسن رکھی یے ٹیبل پہ کھالینا اور ادھر واش روم ہے جاکے اپنا حلیہ ٹھیک کرو۔"سختی سے کہتیں وہ اچانک ہی کمرے سے نکلیں تھیں اور دروازہ باہر سے لاک کرتی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئیں۔
"چھوٹے سائیں چھوٹے سائیں۔کہاں مر گیا ہے یہ آدمی۔"
مٹھیاں بھینچے بڑبڑاتی ہوئی واپس مسہری سے ٹک گئی۔کل سے سائیں لفظ ہزار بار سن کے کان پک گئے تھے۔اب تو سارے اسے پاگل لگ رہے تھے جو سائیں لفظ ہر وقت دہراتے تھکتے نہیں تھے وہ کہاں ان چیزوں کی عادی تھی۔
سائیں لفظ سے زہن ہٹا تو واپسی اپنے بسی پہ رونا آنے لگا۔بند کمرے میں قید اسے اپنے پنجرے میں قید کی ہوئی چڑیا یاد آنے لگیں ایک وہ جو اب تک پنجرے میں ہوگی اور دوسری جو بھاگ گئی۔بھاگ جانے والی چڑیا کا سوچ کے مسکراہٹ چہرے کو چھو گزری۔اسے بھی آزادی پیاری تھی اور رومائزہ کو بھی۔وہ پرندہ تھی بول نہیں سکتی تھی تو کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا وہ تو بول بھی سکتی تھی تو کوئی سمجھ ہی نہیں رہا تھا۔
کیا پرندے بھی بد دعا دیتے ہیں؟میں نے قید ہی تو کیا تھا۔تو پھر بد دعا باقی سب کو کیوں نہیں لگتی مجھے ہی کیوں لگی؟
ڈھیروں سوال تھے اور جواب لاپتہ۔
                           ★ ★ ★
"آج روما یونیورسٹی نہیں آئی اور نمبر بھی بند جا رہا تھا تو ہمیں فکر ہونے لگی۔کہاں ہے رومائزہ؟"وہ دونوں شنواری ہاؤس کے لاؤنچ میں بیٹھی احتشام صاحب سے مخاطب ہوئی تھیں۔
"رومائزہ اپنی خالہ کے ہاں گئی ہے کچھ دنوں میں آجائے گی آپ لوگ پریشان مت ہو۔"احتشام صاحب کا پر اعتماد لہجہ تھا پر ان دونوں کو حیرانی ہوئی۔
"انکل تو وہ یونیورسٹی تو آسکتی ہے نا۔"
"اسکی خالہ کا گھر کشمیر میں ہے۔وہ بیمار ہیں اسی لیے رومائزہ کو بلایا ہے۔اکلوتی بھانجی ہے اور اس سے محبت بھی وہ بہت کرتیں ہیں۔"وہ گھٹنوں پہ کہنی جمائے ہتھیلی رگڑ رہے تھے۔انوش اور عائشے کو مزید حیرت ہوئی منہ کھولے ایک دوسرے کو دیکھا اور انوش مشکوک انداز میں احتشام صاحب کو دیکھنے لگی تو عائشے نے اسے کہنی ماری۔
"اس نے بتایا نہیں ویسے تو سب بتاتی ہے اور موبائل؟"
"اسکا موبائل پانی میں گر گیا اب کل کی ہی فلائٹ تھی اسی لیے بتانا بھول گئی ہوگی۔خالہ کی طبیعت کافی خراب ہے اس لیے وہ فوراً چلی گئی۔"احتشام صاحب انھیں تفصیل سے بتاتے ہوئے یقین دلا رہے تھے۔
"مطلب وہ میری شادی میں نہیں ہوگی؟انکل اسے کہہ دیے گا جلدی آجائے۔"عائشے نے اٹھلا کے کہا احتشام صاحب دھیمے سے ہنس دیے ورنہ ساری گفتگو میں وہ کافی پریشان نظر آرہے تھے۔
"ہاں جیسے اگر وہ نا آئی تو تم نکاح کرنے سے انکار کردوگی نا۔"انوش کے طنز پہ عائشے نے گھور کے اس دیکھا تھا۔
"آپ کافی کمزور ہوگئے ہیں خیال نہیں رکھتے کیا اپنا؟"انوش واپس انکی جانب متوجہ ہوگئی۔
"عمر کا تقاضا ہے بیٹا اب۔"
"جی نہیں میرے بابا کو دیکھ لیں وہ آپکی عمر کے ہی ہیں اور کیسے ماشاءاللہ فٹ ہیں۔آپ نے تو خود کو بھلا دیا ہے۔"انوش کی تلخی پہ عائشے نے بات بدلی۔
"ابھی تو آپ روما کو بھی یاد کر رہے ہونگے نا۔"
"ہاں وہ ہوتی تو خوب رونق لگی ہوتی۔"بھاری دل سے انھوں نے کہا وہ دونوں بس مسکرا ہی سکیں کچھ تھا جو دونوں کو کھٹک رہا تھا۔
"ارے رونق ہم لگا دینگے ہم بھی تو آپکی بیٹیاں ہیں۔جاؤ عائشے جلدی سے تین کپ چائے بنا لاؤ۔"انوش صوفے پہ مزید پھیل کر کشن گود میں رکھ کے بیٹھتے ہوئے بولی۔عائشے نے حکم دیتے سنا تو کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔
"میں؟"
"ہاں تم..انکل یہ بڑی اچھی چائے بناتی ہے اسکی چائے کا تو کوئی جواب ہی نہیں میں تو دو کپ بھی پیوں تو کم لگتی ہے۔ارے تم گئی نہیں ابھی تک جاؤ نا۔نعمت خالہ ہونگی ان سے پوچھ لینا چینی پتی کہاں رکھی ہے۔"اسکے زبردستی کہنے پہ عائشے دانت کچکچاتی جگہ سے کھڑی ہوگئی تھی۔
"ابھی بنا کر لاتی ہوں۔"احتشام صاحب کو تکتے پایا تو رسمی مسکراہٹ سجائے کہتی کچن میں چلی گئی پیچھے انوش ان سے باتوں میں مصروف ہوگئی۔
کل سے اب تک احتشام صاحب قدرے پریشان تھے انوش اور عائشے کے آنے سے تھوڑا دل ہلکا ہوا پر بیٹی کی یاد اور اسکی تکلیف کا سوچ کر ہی وہ واپس متفکر ہوجاتے۔رات سے ہی سارا دھیان رومائزہ پہ تھا ہر وقت اسکی سوچیں زہن میں رہتیں اسکے علاوہ وہ پیسوں کے انتظام میں الگ لگے ہوئے تھے پر ابھی تک رقم کا انتظام نہیں ہوپارہا تھا۔
   "لعنت ہو انوش تم پہ...اللہ ایسے دوست کسی کو نہ دے۔اللہ مجھے چائے بنانی بھی نہیں آتی اب کیا کروں۔"کچن میں گھستے ہوئے عائشے زور و شور سے انوش کو کوس رہی تھی پیچھے سے نعمت بی کچن میں داخل ہوئیں تو عائشے نے سکھ کا سانس خارج کیا۔
"نعمت خالہ مجھے چائے بنانی ہے آپ مدد کردیں گی؟"
"ارے بیٹا آپ جاؤ میں بنا کر لاتی ہوں۔"نعمت بی نے پتیلی میں پانی بھر کے چولہا جلایا تھا عائشے دروازے کے پاس ہی کھڑی ہوگئی اور انوش کی ساری مکاری انھیں سنا ڈالی۔
"سہی سہی تو پھر چائے آپ نے ہی بنائی ہے۔"چینی پتی ڈالے انھوں نے ہنستے ہوئے کہا۔رومائزہ کا زکر انھوں نے غلطی سے بھی نہیں چھیڑا تھا ورنہ عائشے کے کسی بھی سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہوجانا تھا۔
                             ★ ★ ★
وہ دونوں تھوڑی دیر میں واپسی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"انکل اپنا خیال رکھیے گا اور روما کو کم یاد کریں جب وہ آئے گی تو آپکو ایسے دیکھ کر غصہ کرے گی۔"انوش نکلتے نکلتے بھی انھیں تاکید کرتی گئی تھی۔ان دونوں کے بعد گھر واپس خاموشی میں ڈوب گیا۔
"نعمت بی آپ نے کچھ بتایا تو نہیں؟"
"نہیں صاحب میں نے زکر ہی نہیں کیا۔پر مجھے بی بی کی بہت فکر ہورہی۔آپ کچھ کریں انھیں اس قید سے نکال لائیں۔"وہ چائے کے کپ میز سے اٹھاتی بولیں۔
"کوشش کر رہا ہوں دعا کریں میران جاہ اپنی بات پہ قائم رہے میری بیٹی جہاں بھی ہو سلامت ہو۔اولاد واقعی اپنے والدین کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتی ہے۔اور مجھ سے بھی کچھ بڑی غلطیاں ہوگئی ہیں۔"وہ افسردگی سے کہتے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
      وہ دونوں ٹہلتی ٹہلتی کسی پارک کے قریب پہنچ گئیں پارک کا پچھلا حصہ سناٹے میں ڈوب رہا تھا۔باہر راہداری کے گرد وہ دونوں ٹہلتے ہوئے کڑیاں ملا رہی تھی۔
"بات ہضم نہیں ہورہی نا احتشام انکل بہت پریشان دکھائی دے رہے تھے۔"انوش شہادت کی انگلی اٹھائے عائشے کی جانب پلٹ کے بولی عائشے نے اسکی انگلی ہاتھ مار کے نیچے کی۔
"کچھ تو گڑ بڑ ہے بھائی صاحب کچھ تو گڑ بڑ ہے کیا معلوم بزنس کی فکریں وغیرہ ہوں۔"وہ مشکوک انداز میں آسمان کو تکتی کہہ رہی تھی انوش نے بازو پکڑ کے اپنی جانب کھینچا۔
"اے سی پی پردویومن نا بنو یہ بتاو روما سے کانٹیکٹ کیسے کریں!"
"اوہ یار انکل نے کہا تو نیٹ ورک پرابلم اور اسکا موبائل بھی پانی میں اپنی جان دے چکا۔"
"مطلب تم یقین کر رہی ہو۔"انوش نے بھنویں سکیڑ لیں،عائشے نے ہنکارا بھرا۔
"انکل جھوٹ تھوڑی بولیں گے۔"بیگ کا اسٹریپ کھینچے عائشے اسکے ساتھ قدم لینے لگی تھی ماحول کافی سبزہ زار تھا۔
"ہاں تو میں ایسا تھوڑی کہہ رہی پر...."انوش لب کترتے ہوئے خاموش ہوگئی عائشے بھی وہی سوچ رہی تھی۔
"خیر چھوڑو جب وہ آئیگی تب خود سہی طرح اسکی کلاس لیں گے۔اب تھوڑی سکون سے واک کرلو۔"پھر انوش ہی خود بولی۔عائشے سڑک پہ پڑے پتھروں کو لات سے دور پھینکتی چل رہی تھی۔اچانک ہی دو مشکوک بائیک سوار وہاں سے گزرے۔
"عائش بھاگ۔"انوش چیخی اور عائشے کا ہاتھ پکڑ کے دوڑ لگا دی۔
                             ★ ★ ★
ہفتے بعد نئے تھانے دار اے_ایس_پی مراد دمیر کی اسلام آباد سے پچھلی رات ہی واپسی ہوئی تھی اور اگلی صبح وہ آن ڈیوٹی تھا!شام کے وقت مراد پولیس جیپ میں دورے کے لیے نکلا تھا۔
کسی پارک کے قریب ہی جیپ بند ہوگئی تھی خورشید جیپ کا انجن دیکھنے لگا تب تک مراد تھوڑی دور چہل قدمی کرتے چلا گیا۔
وہ سکون سے جگہ کا جائزہ لے رہا تھا تبھی دور سے دو لڑکیاں بھاگتی ہوئی قریب آتی نظر آئیں مراد کے ماتھے پہ تشویش سے بل پڑے۔وہ محتاط ہوتا آگے بڑھا۔
"کیا ہورہا ہے یہاں؟"ان دونوں کے قریب آنے پہ مراد نے پوچھا عائشے بتانے کے لیے آگے بڑھی تھی انوش نے اسکا ہاتھ کھینچ کے نفی میں سر ہلایا۔
"یہ بھی شاید انھی لڑکوں کے ساتھ ہے۔بھاگو عائش۔"عائشے اب بھی بے یقینی کی کیفیت میں تھی سمجھ کچھ نہیں آرہا تھا بس انوش کے ساتھ بھاگتی چلی جا رہی تھی۔
"شٹ اپ۔کن لڑکوں کی بات کر رہی دونوں؟اور اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟"وہ بے شک سناٹے دار جگہ تھی دن میں لڑکی کا موجود ہونا باعث شک تھا۔
"اوہ بھائی تمیز سے رہو۔اور ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے؟میں چوروں کی بات کر رہی ہوں!"انوش کا منہ کھلنے میں دیر نہیں لگی تھی مراد نے بھنوو اچکائے اسے دیکھا۔
"کہاں ہے وہ چور؟"وہ ان لڑکیوں پہ شک کر رہا تھا۔
"میری گود میں۔تم کیوں اتنی تشویش کر رہے ہو...پولیس والے ہوکیا؟"انوش کے تیور چڑھے تھے مراد نے صبر سے کام لیا۔
"مس یو آر ٹاکنگ وتھ اے_ایس_پی مراد دمیر!"
"ویری نائس جوک۔ایسے میں بھی پائلیٹ انوش گلزار ہوں۔پاگل سمجھا ہے کیا کچھ بھی بولو گے یقین کرلونگی۔"مراد کے مقابل کھڑے وہ اسے سنا رہی تھی۔
"پولیس والوں کا یونیفارم ہوتا ہے اور تم تو۔۔"انوش نے اسکی فارمل ڈریسنگ پہ چوٹ کی اسے خود نہیں پتا تھا کیوں بحث کر رہی ہے۔شاید ان چوروں سے بچنے کے لیے...اتنا اسے اندازہ ہوگیا تھا یہ مراد ان چوروں کے ساتھ نہیں۔مراد نے اسکے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھا جسکی شکل دیکھ کے با آسانی اندازہ لگایا جاسکتا تھا وہ کافی بے یقینی کی حالت میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔
انوش کی تیوریاں دیکھ کر مراد نے موبائل کوور سے اپنا آئی ڈی کارڈ نکال کر اسکی آنکھوں کے سامنے پیش کیا۔
"اے ایس پی مراد دمیر۔"انگریزی میں بڑے لفظوں میں لکھا تھا انوش کے حلق میں گٹھلی سی بھری۔لمحوں میں تاثر بدل کے بے چارگی میں تبدیل ہوئے تھے۔
"سر جیپ ٹھیک ہوگئی۔"پیچھے سے وردی میں ملبوس خورشید مراد کو بلانے آیا۔عائشے اب ماحول کی گرماہٹ سمجھنے لگی تھی انوش کا بازو دبوچا۔
"کس سے پنگا لے لیا تم نے!"عائشے بڑابڑائی سٹی تو انوش کی بھی گم ہوگئی تھی مراد تمسخر سے مسکرایا تھا۔
ستواں ناک جیل سے سیٹ بال،آنکھوں پہ لگا کالا چشمہ،،بس وہ وردی کی بجائے فارمل ڈریسنگ میں تھا۔ایک لمحے کو منظر بدل گیا تھا۔اے_ایس_پی_مراد دمیر کے آگے انوش اور عائشے کو سب ٹھہرا ہوا نظر آیا۔
"سو سوری سر...آج کل لوگ مذاق بھی تو بہت کرتے ہیں تو مجھے لگا دور کہیں آپ نے بھی کیمرہ فٹ کر رکھا ہوگا اور پھر بولیں گے کیمرے میں ہاتھ ہلا دیں۔"اپنی گھبراہٹ چھپاتے انوش نے بولنا شروع کیا۔وہ اب فرار کے پر تول رہی تھی۔
"خورشید پولیس آفیسر سے بدتمیزی کرنے کے جرم میں اسے اریسٹ کرو۔"مراد یکدم حکم دیتے بولا انوش کامنہ کھلا رہ گیا۔
"کیوں؟خبردار اسے ہاتھ بھی لگایا انوش چلو یہاں سے۔"عائشے بلوچ آج پہلی بار معاملے سے فرار چاہتی تھی۔
"ارے میں سوری کہہ تو رہی ہوں غلطی ہوگئی مجھے کیا پتا تھا آپ اے_ایس_پی نکلیں گے۔یونیفارم میں گھوما پھرا کریں نا...اب ہم معصوم عوام کو کیا الہام ہونا کہ اے_ایس_پی مراد دورے پہ نکلیں ہیں۔"
"یہ معافی ہے یا طنز؟"کف موڑتے ہوئے انوش پہ نظر جمائے اس نے پوچھا وہ کھسیانی سی ہوگئی۔
"خیر کہاں جارہی تھیں تم دونوں؟"وہ مدعے پہ آیا شک اب بھی وہیں کا وہیں تھا۔
"ہم اپنی دوست کے گھر گئے تھے اور واپسی پہ یہاں تک واک کرتے کرتے آگئے۔سکون بہت تھا نا ادھر۔پھر دو مشکوک بائیک سوار گئے مجھے لگا چور ہیں اس لیے بھاگ آئے۔
You know safety is first!
جب کچھ سمجھ نا آئے تو بھاگ نکلو!"اسکے کمال لاجک سن کے عائشے کا دل کیا تھا رکھ رکھ کے تھپڑ مارتی صرف شک کی بناء پہ کتنی تیزی سے اسے بھاگا کے لائی تھی۔البتہ مراد کے چہرے پہ انوش کی بات سن کے دھیمے سے مسکراہٹ آئی۔
"واوؤ!محترمہ اکیلے ایسے سنسنان جگہ پہ گھومنے پھرنے سے گریز کریں۔"مراد کی تاکید پہ دونوں نے برابری سے سر ہلایا انوش کی بھی جان میں جان آئی تھی جو اریسٹ کرنے والی بات سن کر گھٹنوں میں جاچکی تھی۔ان دونوں کی حرکتوں سے وہ مطمئن ہوچکا تھا کہ عام لڑکیاں ہی ہیں۔
"انوش اب چلو۔"عائشے نے اسے گھورا مراد نے انھیں چھوڑنے کی آفر کی تھی جو عائشے نے صاف انکار کردیا تھا۔
                            ★ ★ ★
    رات آٹھ بجے تقریباً میران کی واپسی ہوئی تھی۔ملازم کی اطلاع پہ وہ سیدھا زولفقار جاہ کے آفس روم میں گیا تھا جہاں وہ اسکے منتظر تھے۔
عزیز اور شمس دونوں دروازے کے باہر کھڑے اگلے تماشے کے منتظر تھے۔

ASP MURAAD DAMEER is here..
New entry...!
Sorry for late episode..
Kesi lagi episode?must tell me in comments..
Do votes and comment 🤝

عشقِ متشکرمTahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon