قسط 12 رنگ ریزہ

776 54 23
                                    

  "عائشے ہوش میں آؤ...کیا ہوا ہے تمھیں؟"
مراد عائشے کو کندھوں سے تھام کر اسکی بڑی بڑی آنکھوں میں دیکھتے فکرمندی سے بولا جن میں ویرانی سی امڈ آئی تھی۔وہ لمحے کے ہزارویں حصے میں جیسے ہوش کی دنیا میں واپس آئی گہری گہری سانسیں کھینچتے ہوئے بڑی غور سے مراد کو دیکھا اور سانس بحال کی۔
مراد سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔عائشے نے مٹھی کمبل پہ بھینچ کر گرفت مضبوط کرلی۔خشک سرخ ہونٹوں پہ زبان پھیری اسکی حرکت پہ مراد نے گلاس پانی سے بھر کے اسکے سامنے کیا۔وہ گلاس منہ سے لگا گئی اور ایک ہی سانس میں سب اندر انڈیل لیا۔
"برا خواب دیکھا ہے..."کپکپاتے ہونٹ ہاتھ کی پشت سے رگڑتے خود کو کمپوز کرتی وہ شرمندہ سی بولی چہرے کا پسینہ ہاتھ سے صاف کیا پر اسکا جواب تسلی بخش ہرگز نہیں تھا مراد مطمئن نہ ہوا۔
بھنوویں اچکا کر غور سے اسکے چہرے کا جائزہ لینے لگا وہ اسکی نظروں سے بے خبر اپنی ہانپتی ہوئی حالت پہ قابو پانے کی کوشش میں لگی تھی۔وہ جب سے یہاں آئی تھی پریشان دکھائی دی اور خواب میں اسکا اس قدر گھبرانہ فکر کی بات تھی۔اب وہ اس سے کچھ چھپا رہی تھی..پر کیا؟مراد کو وہی جاننا تھا۔
"اتنا کون ڈرتا ہے خواب سے؟حالت دیکھو اپنی۔"اسکے بکھرے سنہرے بھورے بالوں اور سرخ پڑتے نم چہرے کو وہ نظروں میں لیے بولا۔ عائشے گھگھیا گئی۔
"بہت برا خواب تھا شاید اس لیے۔"وہ شانے اچکاتے بولی جیسے جواب دینے سے کترا رہی ہو۔اسکی ناک کی لونگ چمک رہی تھی مراد نے اسکے چہرے سے نظریں پھیر لیں۔عائشے اب بھی گہری سانسیں بھر رہی تھی جیسے خوف کے زیر اثر ہو۔
"اب ڈرو تو مت،،خواب ہی دیکھا ہے اتنا سر پہ سوار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔"وہ اسکے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا عائشے نے منہ چڑایا۔
"آپکا کام ہوگیا؟"
"ہو جائے گا۔"وہ اتنا ہی بولا۔اور جیکٹ اتار کے بیڈ پہ سونے کے لیے دراز ہوگیا۔عائشے کا خوف سے ہلتا وجود مسلسل اسے ڈسٹرب کر رہا تھا۔عائشے نے کروٹ بدل لی اسکی پیٹھ مراد کی جانب ہوئی وہ کمبل میں لپٹی عائشے کی پیٹھ کو گھورتے ہوئے خیالوں کی دنیا میں کافی دیر رہا اور پھر نیند اس پہ بھی مہربان ہو ہی گئی۔
                            ★ ★ ★
صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو مراد کسی سے فون پہ بات کرنے میں مشغول تھا۔اسے جاگتا دیکھ فون بند کردیا تھا۔تاریخی طور پہ عائشے آج آٹھ بجے ہی اٹھ گئی تھی۔
"رات کیا ہوا تھا تمھیں؟"وہ کسی جن کی طرح اسکے سر پہ سوار ہوا عائشے لاجواب تھی۔
"بتایا تو تھا ڈراؤنا خواب دیکھا تھا بس۔"
"بس یہی وجہ ہے؟"عائشے نے سر ہلایا۔
"اگر بعد میں مجھے کچھ پتا چلا تو تمھارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔"اس نے دھمکی دی تو عائشے نے نظریں چھوٹی کیے اسے دیکھا۔
"ناشتہ کرنے نہیں جائینگے کیا؟"
"تم اٹھوگی تو جائینگے نا۔جاؤ ریڈی ہو آؤ۔"اسکے چہرے کو نظروں میں لیے وہ بولا اور عائشے کے اٹھنے کے بعد واپس موبائل میں لگ گیا۔
   یہ ایک چھوٹا سا ڈھابہ تھا پر پرسکون بہت تھا۔وہ دونوں لکڑی کی ایک بینچ پہ بیٹھ گئے۔
اردگرد سبز پہاڑ تھے X,x,, فاصلے پہ ایک لڑکا بھیڑ کے بال مشین سے اتار رہا تھا اور دوسرا بچہ ان بالوں کو اٹھا کے جمع کرتا بوری میں بھر رہا تھا۔اسی طرح ہر ذی روح اپنے اپنے کاموں میں مصروف اور روزی کے لیے محنت کر رہی تھی۔
عائشے اردگرد کے مناظر دیکھ محظوظ ہورہی تھی۔وہ سب دیکھتے ہوئے گہرا سا مسکرائی تو مراد کے جی میں سرشاری دوڑ گئی۔بنا پلک جھپکائے وہ کئی پل اسے تکتا گیا۔جو پنک موٹی لیدر کی جیکٹ اور سر پہ سفید ٹوپی پہنی مٹی کے کپ کو ہونٹوں سے لگائے خوشگواری سے بائیں طرف دیکھ رہی تھی مراد نے بے ساختہ آئی مسکراہٹ کو لبوں کے کناروں پہ ہی روکتے سر پہ ہاتھ پھیرا اور واپسی کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
"مراد تھوڑی دیر بیٹھ جائیں نا۔دیکھیں سب کتنا حسین ہے۔میرا دل چاہ رہا ہے یہیں رک جاؤں۔"وہ موسم سے لطف اٹھاتے بے حد خوشی سے بولی۔مراد نے اسکے تاثرات دیکھے۔
"ٹھیک ہے تمھیں یہیں چھوڑ جاؤنگا۔"
"آپ اتنی کڑوی باتیں کس منہ سے کرتے ہیں؟"وہ کلس کر بولی۔
"جس منہ سے تم کرتی ہو..چلو اب۔"
وہ اسے گھور کے بولا عائشے کا منہ بن گیا تھا۔مراد نے زبردستی اسے اسکا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا جس پہ عائشے جھجھک گئی تھی۔
   وہ دونوں واپس کاٹیج چلے آئے اور پھر عائشے خوار ہی ہوئی۔مراد کے ناجانے کونسے نا ختم ہونے والے کام تھے جو ختم ہوکے نا دیے اور وہ بے زرایت سے اکتا گئی۔اور شام میں پھر وہ ضروری کام کا کہتا باہر نکل گیا اور اسکی آنکھیں پھر ڈبڈبا گئیں بہتر یہی تھا کہ وہ لاہور ہی ٹھہر جاتی پر اس پولیس والے سے بحث کرنا بے کار تھی اس نے اپنی ہی چلانی تھی۔
                              ★ ★ ★
   "حلیمہ بی بارش کب ہوگی روز موسم بن رہا ہے پر بارش ہوکے نہیں دے دہی۔"وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کا پردہ سرکاتے ہوئے بولی۔حلیمہ بی صوفے پہ بیٹھی تھیں جو بیڈ کے آگے لگا تھا اور دوسرا صوفہ کھڑکی کے ساتھ بچھا تھا جس پہ رومائزہ بیٹھی تھی۔
"مزید ٹھنڈ بڑھ جائیگی پھر۔"انھوں نے اسکی عقل میں اضافہ کیا۔
"کچھ نہیں ہوتا۔ٹھنڈ کا بھی اپنا مزہ ہے اور اسکی سب سے اچھی خاصیت پتا ہے کیا... انسانی سرد لباس!مجھے تو بہت اچھا لگتا چاہے کسی بھی کلچر کا ہو۔انسان کی خوبصورتی اور بڑھ جاتی ہے موسم سے لطف لیتے چائے پینا اور باہر گھومنا پھرنا۔"چائے کے کپ سے بھانپ اڑاتی وہ بولی اور پھر چسکی لی۔چائے تھی تو چاہ تھی۔
"آہہ حلیمہ بی ایک تو آپکے ہاتھ کی چائے بے مثال ہے آپ جیسی چائے اور کوئی نہیں بنا سکتا۔نشہ لگ گیا ہے مجھے۔"اس نے کھلے دل سے تعریف کی حلیمہ بی نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا۔دو دن پہلے جو گھر سے بھاگنے والی اور جو ساری رات روتی رہی یہ وہ رومائزہ نہیں تھی۔انھیں اس سے توقع نہیں تھی کہ اتنی وہ خود کو نارمل کرسکے گی۔
میران کے بلکل مطابق..
"She's unpredictable!"
وہ انیس بیس سالہ کم عمر لڑکی،طبیعت میں شوخ چنچلاہٹ پہلے جو تھی اب کم ہوگئی تھی پر کسی وقت اسکا پرانا روپ ظاہر ہوجاتا تھا۔وہ بابا سے ملنے سے پہلے ہارنا نہیں چاہتی تھی اس لیے ہر طرح سے خود کو نارمل ظاہر کرنے لگی اور خوش رہنے کی کوشش۔
"آپکو پتا ہے کل کیا تاریخ ہے؟"اس نے اپنی چہک چھپائی۔
"22 دسمبر...کوئی خاص دن ہے کیا؟"انھوں نے ہونٹوں پہ مسکراہٹ روکی۔
"Yes..It's a very special day for me..Coincidentally, Mama and I have the same date of birth!"
"میری اور مما کی برتھ ڈیٹ ایک ہی ہے۔میں ہر سال اپنے ساتھ انکا کیک بھی کاٹتی ہوں۔وہ میرے پاس نہیں ہیں بہت دور چلی گئیں پر خیالوں میں وہ ہمیشہ زندہ ہوتیں ہیں۔"کہتے کہتے وہ افسردہ سی ہوگئی۔
"میں بابا کے ساتھ ہی اپنا برتھ ڈے منانا چاہتی تھی.."
"جبھی بھاگ نکلی تھیں۔"
"ہاں شاید...میں نے سوچا موقع ہے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ایک بار تو کوشش کروں تاکہ بعد میں پچھتاوا نا ہو کے میں نے خود سے بھی فرار ہونے کی کبھی کوشش نہیں کی۔"کپ کے نوک پہ اس نے انگلی پھیری۔کیا کمال منطق تھی۔
"پتا ہے بہت ہی عجیب سی زندگی ہوگئی ہے۔مجھے تو اب خود پہ ہنسی آرہی ہے۔ایسا نا فلموں اور ڈراموں میں دیکھا تھا اور کڈنیپ ہونے سے پہلے انوش نے کسی ناول کی اسٹوری سنائی تھی اس میں لڑکی کو لڑکا پسند کرتا ہے تو اغوا کرلیتا۔اور میں کہانی سن کے بہت ہنسی تھی۔بھلا ایسا بھی کہیں ہوتا ہے؟
"جسکے ساتھ ہوتا ہوگا وہی جانے ہم کو کیا علم..."اور انوش نے منہ میں چپس بھرتے بات ٹال دی تھی۔رومائزہ یاد کرکے ہنس دی۔
"شروع شروع میں تو مجھے لگا وہ ناول والی کہانی ہی میرے ساتھ ہورہی ہے۔پر شکر میران اتنا برا نہیں۔خیر وہ بہت اچھا بھی نہیں ہے۔جب تک بابا سے میری بات نہیں ہوئی میرے دل کو سکون نہیں ملا تھا۔پر ایک چیز سیم ہے۔اس لڑکے کو بھی ہیروئن سے محبت تھی اور اس نے اسی لیے اسے اغوا کیا اور میران کو مجھ سے ہے پر اس نے کسی اور کو اغوا کروایا پر نکلی میں اسکی محبت...واٹ ایور۔۔کیا فلمی زندگی ہے کب کیا ہوجائے پتا ہی نہیں چلتا۔"
چائے کا کپ خالی کرکے وہ ٹیبل پہ رکھتی ہاتھ کھڑے کرکے ڈرامائی انداز میں بولی۔وہ بار بار میران کی یہ ایک خاصیت دہراتی تھی۔
"یہ دنیا جھوٹی لوگ لٹیرے۔"تمسخر سے گونجتا قہقہہ۔
"اور اگر سائیں جان بوجھ کے تمھیں اغوا کرواتے پھر؟"
"تو میں اسکی محبت پہ لعنت بھیجتی۔وہ کسی صورت مجھے یہاں قید نہیں رکھ پاتا۔"وہ بے دھیانی میں بس بولے جارہی تھی۔انکے چہرے پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔
"چلو بس بہت کان کھا لیے تم نے۔میں سوئیٹر بن رہی ہوں آجاؤ سیکھا دونگی۔"وہ ٹرے اٹھاتی کھڑی ہوگئیں تو رومائزہ چاکلیٹی براؤن اونی فراک کی آستینیں چڑھاتی انکے پیچھے ہی کمرے سے نکل گئی۔
                           ★ ★ ★
"سر مجھے نہیں لگتا وہ یہاں آئے گا۔"خورشید باقی آفیسرز کے ہمراہ گاڑی سے اترتے ہوئے بولا۔
"کل وہ نہیں آیا پر آج لازمی آئے گا۔"مراد نے گن لوڈ کرتے انھیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔
کسی بند چھوٹی سی فیکٹری کے باہر وہ کھڑے تھے اور لمحوں میں اس جگہ کو گھیر کر اپنے قبضے میں کیا۔
بنا جوتوں کی چاپ کیے مراد کے پیچھے ہی باقی آفیسرز اندر داخل ہوئے تھے۔اسکی رگیں تنی ہوئی پر وہ پرسکون دکھائی دے رہا تھا۔گن تھامے نشانہ بنائے وہ لوگ فیکٹری میں داخل ہوئے۔پر اندر صرف صفائی کرنے والے موجود تھے۔جو انھیں دیکھ گھبرا گئے مراد نے گن نیچے کی۔
"تم لوگ بند فیکٹری میں کیا کر رہے ہو؟"اسکا ماتھا ٹھٹکا۔اس نے اپنا پولیس شناختی کارڈ انکے سامنے لہرایا۔
"سر ہمیں تو فیکٹری کے مالک نے صفائی کے لیے بھیجا ہے...ہم پیچھلے دروازے سے آئے ہیں اپنا کام کر رہے تھے آپ کس کی تلاش میں ہیں؟"ان میں سے ایک نے فوراً زبان کھولی مراد کے ماتھے پہ سلوٹیں آئیں۔
"تمھارے مالک کی یہاں کوئی میٹنگ نہیں تھی؟"
"مہینے بھر سے یہ فیکٹری بند ہے اب کام دوبارہ شروع ہوگا۔مالک تو ہمارا کوئٹہ گیا ہوا ہے۔ہم کو اس نے چابی بھجوادی تھی۔"دوسرے شخص نے مزید بتایا۔
مراد نے خورشید کو دیکھا ہو جیسے کہہ رہا ہو اس کا خدشہ ٹھیک ثابت ہوا ہو۔
"ٹھیک ہے تم لوگ اپنا کام کرو۔"مراد نے اس شخص کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔
وہ لوگ باہر گرے ہوئے شٹر کا تلا توڑ کے اندر داخل ہوئے تھے۔اندر سرگوشیوں کی آواز سن کر مراد کا شک یقین میں بدل گیا تھا،اسے شکار قریب ہی محسوس ہوگیا تھا پر یہاں تو منظر ہی الٹ دیکھنے کو ملا۔
"اس نے ہمارے ساتھ کھیل کھیلا ہے...ڈیم اٹ...۔پھر ہاتھ سے نکل کے چلا جائے گا۔"
غصے میں ہتھیلی اس نے گاڑی کے بونٹ پہ ماری۔یہ کیس مراد سے پہلے ایک اور انسپیکٹر کے حوالے تھا پر اسکے ہاتھ بھی وہ شخص نا لگا تو یہ کیس مراد کی پچھلے کیسز کی قابلیت دیکھ اسی کے حوالے کردیا گیا۔
"اے ایس پی صاحب کنٹرول یور سیلف۔ان شاء اللّٰہ اسے رنگے ہاتھوں پکڑیں گے۔"ٹیم کے جوان نے پر اعتمادی سے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا مراد نے پلٹ کے اسے دیکھا۔
"اسکا مطلب وہ یہاں آیا ہی نہیں اس نے ہمارا دھیان بھٹکانے کی کوشش کی۔ٹھیک ہے اسے اب ہم لاہور ہی میں پکڑیں گے۔جب تک چھپ سکتا ہے چھپے...اسکے بعد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا۔"اسکے ہونٹوں کے قریب عجیب سی مسکراہٹ آگئی۔باقی آفیسرز بھی گاڑیوں میں بیٹھے وہ سب سیول ڈریسنگ میں تھے۔مراد اور خورشید ساتھ آئے تھے باقی جوانوں کی ان سے پہلے والی فلائٹ تھی۔
مراد جب گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اسکا موبائل بجا۔
کسی پرائیویٹ نمبر سے میسج موصول ہوا تھا۔
"اے ایس پی جسکی تلاش میں تم لگے ہو وہ لاہور میں بیٹھا ہے۔کل رات آٹھ بجے اگر یہاں پہنچ سکتے ہو تو پہنچ جاؤ۔شکریہ کہنے کی ضرورت میں دوسروں کی مدد کرنا پسند کرتا ہوں...."مراد کو اچھنبا ہوا اس نے پھر آخری سطر پڑھی جس پہ ایڈریس ذیل تھا وہ سوچ میں پڑ گیا شہادت کی انگلی سے اس نے کنپٹی دبائی۔
یعنی چھپن چھپائی کا کھیل شروع ہوگیا تھا۔پر یہ میسج کرنے والا کون ہوسکتا تھا؟کوئی بھلا کیوں اسکی مدد کرے گا؟بہت سے سوال ذہن میں گردش کرنے لگے۔کیا وہ اس میسج پہ یقین کرلیتا؟کیا اسے ایسا کرلینا چاہیے تھا؟
"آفیسرز اگلی فلائٹ سے ہم لاہور واپس جائینگے۔خورشید سب کی فلاٹس بک کردینا۔"اس نے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور بولا۔ان سب نے اسکا اگلا پلان سن کر سر ہلایا اور خورشید نے دھواں اڑاتی گاڑی وہاں سے نکال لی۔
                             ★ ★ ★
   دس بجے تک مراد کاٹیج واپس آگیا۔خاموشی سے عائشے سے چھپا کے گن اس نے واپس رکھ دی۔گن چھپانے جیسی کوئی بات تھی تو نہیں وہ ملک کا رکھوالا تھا ہتھیار اسکے پاس ہونا لازم تھا پر عائشے کو جس طرح وہ خوفزدہ دیکھ چکا تھا فلحال کوئی رسک مول نہیں سکتا تھا۔وہ کھانا اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا۔دونوں نے کھانا ساتھ ہی کھایا اور پھر مراد نے کمرے میں جاکے لیپ ٹاپ پہ ایکشن مووی لگالی۔عائشے باہر کا سب سمیٹ کر واپس آئی اور چپ چاپ جگہ پہ لیٹ گئی۔مراد جب سے آیا تھا وہ خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئی تھی۔مراد اگر کچھ سوال کرلیتا تو وہ جواب دے دیتی اور پھر خاموشی۔
"مووی نہیں دیکھو گی؟"اسے کروٹ کے ساتھ لیٹے دیکھ کر مراد نے سر کے پیچھے ہاتھ ٹکا کر پوچھا۔
"نیند آرہی ہے مجھے۔"سنجیدگی برقرار۔مراد نے توجہ اسکرین کی جانب مرکوز کرلی۔دو ڈھائی گھنٹے اسکے مووی کی نظر ہوگئے۔پر نیند کا ناموں نشان نہیں تھا۔اسے عائشے کا کل رات کا واقعہ یاد آیا۔مراد نے عائشے کو دیکھا جسکا ماتھا اب پسینے سے پھر بھیگ رہا تھا اور ہونٹ تیزی سے پھڑپھڑا رہے تھے۔مراد نے اسے آج جگانے کی کوشش نہیں کی۔وہ بڑبڑاتے ہوئے یقیناً خود ہی نیند میں سب کچھ بول جاتی۔
پر آج ایسا نہ ہوا اسکا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔کمبل سے جھانکتی مٹھیاں میچ لی گئیں اور ایک دم سے آنکھیں کھولیں اور اٹھ کے بیٹھ گئی۔
مراد بید کراؤن سے سر ٹکائے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔عائشے کو اسکے جاگنے تک کا احساس نا ہوا۔اس نے چہرے سے بال پیچھے کیے اور چہرا رگڑا۔فوراً سے تعوذ پڑھی دل بہت گھبرا رہا تھا۔جو اس نے دیکھا اگر وہ سچ ہوتا تو؟
جب وہ کچھ دیر یونہی بیٹھی سوچ میں گم رہی تو مراد نے اسے آہستہ سے پکارا۔عائشے نے چونک کر بے ساختہ بھیگا چہرہ اسکی طرف موڑا۔اسکو روتا دیکھ مراد بے چین ہوا وہ اسکے قریب ہوا۔
    "کیا ہوگیا ہے پھر برا خواب دیکھ لیا؟"اس نے فکر مندی سے پوچھا اور اسکے پاس ہی بیٹھ گیا۔عائشے نے سرہلایا۔آج دوسری رات تھی جو وہ خواب کے زیرِ اثر اتنا گھبرا رہی تھی مراد کی فکر بڑھنے لگی۔
"پر کل والا زیادہ برا تھا بتاؤ کیا دیکھا تم نے؟"وہ بلکل نرمی سے پوچھ رہا تھا پچھلی رات وہ آج سے کئی زیادہ خوفزدہ تھی۔عائشے کے زہن میں کل کے مناظر گھوم گئے اسکا چہرہ زرد پڑنے لگا وہ مزید رودی۔
"عائشے مجھے بتاؤ کیوں مجھے پریشان کر رہی ہو؟میں تمھاری مدد کرونگا۔"اس نے پیار سے کہا تو عائشے اسے دیکھنے لگی۔
"کوئی میری مدد نہیں کرسکتا۔سب پولیس والے ایک جیسے ہوتے ہیں کوئی میری آوازیں سن کر نہیں آیا تھا۔"وحشت سے اسے دور دھیکلتی وہ ہزیانی پن سے چلا کر بولی۔مراد کا شک یقین میں بدلا۔
"کیا ہوا تھا تم نے کس لیے آوازیں دی تھیں۔بتاؤ مجھے۔"
"کک کچھ نہیں ہوا تھا۔"وہ پھر خاموش ہونے لگی اسکے ہونٹوں کی کپکپاہٹ واضح تھی
مراد کو اب سہی معنوں میں غصہ چڑھا۔اسکا بازو دبوچ کے اسکا چہرہ اپنے قریب کیا۔مراد کی گرم سانسیں اسے اپنا چہرہ جھلساتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
"شرافت سے بتادو کیا ہوا تھا ورنہ تمھاری امی کو فون کرکے سب بتا دونگا پھر وہی مجھے سچ بتائینگی۔"اس نے دھمکی دی۔
"وہ مجھے ہی بے وقوف کہینگی کوئی میری تکلیف نہیں سمجھ سکتا۔"وہ منہ میں ہی بڑبڑادی پر اسکا چہرہ مراد کے قریب تھا۔مراد نے زور دے کر سنا تو سب سمجھ گیا۔عائشے کو مزید گھورا۔
"کس سے تم خود کو چھڑا رہی تھیں؟"مراد نے اسے واپس بیٹھایا اور خود اسکے پاس پنجوں کے بل نیچے جاکے بیٹھا اسکی آنکھوں میں دیکھے بولا اور اسکے ہاتھ مضبوطی سے تھام لیے۔
"وہ بہت برا تھا۔"مراد کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر اس نے بچوں کی طرح اشارہ کرکے بتایا۔نین کٹورے پھر پانی سے بھر گئے،بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔مراد کی آنکھوں فکرمندی تھی وہ اسے سن رہا تھا۔
"کون میری جان؟مجھے سب تفصیل سے بتاؤ۔"مراد بے قراری سے پوچھا۔اوپر اسکے پاس بیٹھا اور عائشے کے خوف سے لرزتے وجود کو آہستہ سے خود سے لگالیا۔اسے خود بھی معلوم نہیں ہوا اسکے منہ سے کیا لفظ نکل گئے۔
"یہ کاٹیج....بلکل ویسا ہی ہے جیسا دس سال پہلے والا کاٹیج تھا۔"تھوک نگلتے عائشے نے بتانا شروع کیا مراد کی گرفت مضبوط رہی۔اس نے اپنی تھوڑی عائشے کے سر پہ ٹکادی اور سنتا گیا۔
"امی بابا کے ساتھ میں پہلی بار شہر سے باہر سردیوں میں چھٹیاں منانے آئی تھی۔"وہ ہولے ہولے کانپتی ہوئی اسے مزید بتانے لگی مراد اسکے بال سہلاتا رہا۔
"ہم جہاں ٹھہرے تھے اس جگہ حادثہ ہوا تھا۔ہمارے برابر والے کاٹیج میں کسی کا مرڈر کردیا گیا تھا۔پولیس شک کی بنا پہ تمام لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے لے گئی تھی۔امی نے مجھے کاٹیج سے باہر نکلنے سے منع کیا تھا میں اکیلی تھی۔"عائشے نے اسکے کندھے سے سر اٹھایا اور خاموش ہوگئی۔
"پھر؟"مراد کے چہرے پہ پریشانی و فکر دیکھ وہ مزید بولی۔
"پھر جو ہوا بہت برا ہوا۔"آنسو سوچ کر ہی بہہ نکلے۔
"کوئی سب انسپیکٹر آیا تھا۔پہلے تو میں نے دروازہ نہیں کھولا پر جب بہت دیر تک وہ بجاتا رہا تو میں نے کھول دیا۔وہ خود ہی اندر گھسا چلا آیا اور دروازہ بند کردیا۔میں دس سال کی تھی۔میرے ذہن میں جھماکے ہورہے تھے۔اس انسپیکٹر کے انداز سے مجھے خوف آیا تھا۔"
   "تمھارے امی بابا تو تمھیں اکیلا چھوڑ گئے ہیں۔"وہ کہتے ہوئے ہوس بھری نظروں سمیت میری طرف بڑھ رہا تھا۔میں چھوٹی تھی پر کم عقل نہیں۔اسکی نگاہیں فوراً پہچان لی میں نے دروازہ کھول کر باہر بھاگنے کی کوشش کی تھی پر اس نے مجھے پکڑ کے کمرے میں بند کردیا۔وہ میری طرف بڑھ رہا تھا اور پھر میں چیختی گئی چیختی گئی.......ہہہہ"وہ مراد کا چہرہ دیکھتی ماؤف ذہن سے کہہ گئی آنسو روانی سے اسکی آنکھوں سے پھسلتے ہوئے تھوڑی سے گر رہے تھے عائشے کی تکلیف پہ مراد کی آنکھیں کرب سے بھیگ گئیں اسے خود بھی پتا نہیں چلا۔اس نے سختی سے عائشے کو خود سے جا لیا اور اسے بھینچے رکھا جیسے اسے تحفظ کا احساس دلا رہا ہو۔
"آگے نہیں سنیں گے کیا؟جب میری آنکھیں کھلیں تو امی میرے پاس تھیں۔میں کچھ دیر ہی میں ہوش کھو بیٹھی تھی۔اس درندے نے مجھ پہ بلکل رحم نہیں کیا۔"
"مراد اس نے مجھ سے میری معصومیت چھین لی۔"عائشے نے مراد کا کالر سختی سے دبوچے بتایا تو مراد کا دل کٹ کے رہ گیا۔اسکی بیوی کتنا درد خود میں سمیٹے ہوئے تھی۔
"امی بابا نے یہ بات سب سے چھپا لی تھی۔مجھے نہیں پتا امی بابا کب آئے اس پولیس انسپکٹر کا کیا ہوا۔ہم بس پھر لاہور واپس آگئے۔امی نے مجھے بہت سنبھالا۔میں کم سن بچی تھی خوف میرے دل و دماغ میں جم گیا۔وقت گزرتا گیا میرے زخم پہ مرہم تو لگ گئے پر وقت نے مجھ سے میرا اپنا آپ چھین لیا۔اس دن کے بعد سے عائشے بلوچ بلکل بدل گئی۔جسکا دنیا میں بلکل دل نہیں لگتا تھا بس ایک زندہ لاش بن گئی تھی اکیلے کمرے میں پڑی رہتی خود کو سب سے دور رکھتی تھی۔اسکول میں بھی چپ چپ،پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا...بار بار وہ رات زہن میں گھوم جاتی تھی۔ٹیچرز میری کمپلین کرتے تھک گئیں۔اور ایک دن امی نے بھی جھڑک دیا کہ جس بات کو وہ لوگ دنیا سے چھپا رہے میں کیوں اسے اپنے رویے سے سب کے سامنے عیاں کر رہی ہوں۔انکا دل بھی میری حالت دیکھ کر دکھتا ہی تھا۔انھوں نے کہا ظالم اپنے ظلم کا اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔تم سب اللہ پہ چھوڑ دو..میں نے چھوڑ دیا....امی نے پھر کہا زندگی سے بھاگو مت اسکا سامنا کرو۔کسی نے تم سے جینے کا حق نہیں چھینا یہ ظلم میں خود پہ نا کروں۔اور پھر میرے دل کو یہ بات متاثر کر گئی میں جو پہلے ڈر ڈر کے سانس بھرتی تھی میں نے کھل کر سانس لینا شروع کردی ہر طرح کا سوگ بھی ختم کردیا،آنسو تو پہلے ہی آنکھیں خشک کرچکے تھے۔آہستہ آہستہ بڑی ہوتی گئی خود کو خود تک محدود کر لیا اور ذہن سارا پڑھائی میں وقف کر دیا۔پر اس سب میں خاموشی میرے اندر سرائیت کر چکی تھی۔میرے دل میں پولیس کا ایک بہت ہی برا نقشہ کھنچ گیا۔اور جب جب کسی پولیس والوں کو دیکھتی مجھے نفرت ہونے لگتی۔جب آپ بھی ملے تھے تو میں آپ سے بھی بات کرنے میں کترا رہی تھی۔"
وہ آنسو رگڑ کے بولی۔مراد کے پاس لفظ نہیں تھے اس نے نرمی سے عائشے کا ماتھا چوما۔عائشے کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کے پھسلا۔
اگر وہ درندہ اسے مل جاتا تھا تو وہ اسکی گردن مڑوڑ دیتا۔وہ شخص انسان نہیں حیوان تھا جس نے ناجانے اور کتنے معصوموں کے ساتھ زیادتی کی ہوگی۔
"تم بہت بہادر ہو جس نے تمھارے ساتھ برا کرنے کی کوشش کی مجھے یقین ہے اللہ نے اسکے گلے میں بھی رسی ڈالی دی ہوگی۔اب تم اپنے خوف کو نکال پھینکو۔بھول جاؤ سب۔"عائشے کے گرد مراد نے بازو پھیلا دیے اور پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا ہاتھ سے اسکے آنکھوں میں بھرے آنسو صاف کیے۔عائشے نے گردن اٹھائی۔۔
"میں نے نکال دیا ہے ہر خوف....پر جب یہاں آئی تو وہ سب پھر زہن میں فلم کی طرح چل پڑا۔جب میں پریشان ہوتی تب مجھے ایسے ہی برے خواب آتے ہیں۔پر یہ سب جاننے کے بعد آپ مجھے چھوڑ تو نہیں دینگے؟"اسکے ذہن میں ناجانے کیا سمائی پوچھ بیٹھی۔وہ مراد کے اتنے قریب بیٹھی تھی اسے اندازہ ہی نا ہوا۔
بے اختیار سے لمحے تھے۔مراد نے اسکا جھکا سر دیکھا جو جواب کی طلب میں اسکا تھاما ہاتھ دیکھے پوچھ بیٹھی تھی۔
"میں تمھیں کبھی نہیں چھوڑونگا پاگل لڑکی۔اور سب پولیس والے برے نہیں ہوتے۔"اس نے پر یقین نگاہوں سے عائشے کی آنکھوں میں دیکھے کہا اور ہاتھ پہ گرفت مضبوط کردی۔پہلی بات سن کے جہاں اسے تسلی نصیب ہوئی مراد کی دوسری بات پہ نفی میں سر ہلایا۔
"سب برے ہوتے ہیں آپ بھی برے ہیں۔"وہ اپنی پوزیشن دیکھتی اس سے پیچھے ہٹی تو مراد ہنس دیا عائشے دمیر کا نیا روپ اس پہ ظاہر ہوا تھا۔آج اسے وہ بے حد معصوم لگی تھی ایک چھوٹے بچے کی طرح جو اسے اپنی غمگین کہانی سنا رہا ہو۔
"ہیرو بن کے بلاوجہ مجھ سے شادی کرلی۔امی بابا کی شکل دیکھ کر میں نے نکاح کے کاغذ سائن کیے تھے ورنہ مر کے بھی پولیس والے کی بیوی نا بنتی۔"اسکا رونا بند ہوگیا۔
"اچھا..اور ابھی چند سیکنڈ پہلے تم چاہتی تھی کہ میں تمھیں کبھی نا چھوڑوں۔"لب دانتوں تلے دبائے مراد نے کہا تو عائشے نے آنکھیں بند کرلیں۔اس کا دھیان ہی نہیں گیا وہ کیا پوچھ بیٹھی تھی اور پھر لب بھی بھینچ لیے۔
"تم روتے ہوئے بہت اچھی لگ رہی ہو پر تم ہنستے ہوئے زیادہ اچھی لگتی ہو ہنستی رہا کرو۔"مراد گھٹنوں پہ کہنیاں جمائے بیٹھا تھا،گردن ہلکی سی موڑے اسے نظروں میں لیے ہوئے تھا۔وہ اب زیادہ فری ہورہا تھا۔
"ویسے اب تو پتا چل گیا ہوگا مجھے پولیس والے کیوں برے لگتے ہیں۔"
"ہاں اور سب سے زیادہ تمھیں اپنا شوہر زہر لگتا ہے۔"وہ طنزیہ برابری سے جواب دیتے بولا۔ایسا نہیں تھا کیا؟
"زہر تو نہیں لگتے۔"وہ بے ساختہ بولی۔
"تو پھر کیا نمکین لگتا ہوں؟"مراد کی بات پہ عائشے نے جھینپ کر دبے لب سر جھکا لیا۔مراد گہرا مسکرایا۔
"چلو مجھے تمھیں سوات لاکر فائدہ ہوا۔تمھارا پاسٹ بھی معلوم ہوگیا اور پتا بھی چل گیا تم کو میں برا کیوں لگتا ہوں۔ورنہ مجھے غم ہی کھاتا رہتا ہینڈسم اے_ایس_پی مراد دمیر کی بیوی اسے پسند نہیں کرتی جب کہ دوسری طرف وہ مہمل ہے۔"
   "اس مہمل چڑیل کا نام مت لیں۔ایک بار موقع مل جائے میں اسے گنجا کردونگی۔"مٹھیاں بھینچ کے وہ غراتے ہوئے بولی مراد کا قہقہ بلند ہوا۔کچھ دیر پہلے والے ماحول میں اداسی کے بادل چھنٹ گئے تھے...ماضی کو یاد کرکے خود کو تکلیف دینا دونوں کے نزدیک بے وقوفانہ عمل تھا دونوں نے ہی جلد موزوں تبدیل کرلیا۔
تلخ یادیں جتنا چاہیں ہم بھلا نہیں سکتے پر انکو خود پہ حاوی بھی نہیں ہونے دینا چاہیے۔
جو ماضی تھا وہ گزر گیا اسکا اثر حال اور مستقبل پہ نا آئے یہی ہماری زمہ داری ہے۔
"خیر مجھے تم سے ضروری بات کرنی تھی۔"وہ مدعے پہ آیا۔
"تم یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہو.."مراد نے اسے دیکھتے کہا وہ سمجھ نہیں پائی یہ سوال تھا یا وہ بتا رہا تھا۔
"ہاں..."اسکا چہرہ سنجیدہ ہوگیا جیسے وہ اسکا اگلا سوال بھی جان چکی ہو۔
"میرے زہن میں آیا نہیں پر تم مجھے کہہ دیتیں...اتنے دن سے تم یونیورسٹی نہیں جا رہی..."اسکے پاس سے اٹھ کر وہ ہیٹر کے پاس جاکے بیٹھ گیا اور ہاتھ سینکنے لگا۔مراد نے انوش اور اسکی درمیان ہونے والی گفتگو سن لی تھی کیا؟وہ خود بھی ہیٹر کے پاس صوفے پہ جا بیٹھی۔
"مجھے مزید نہیں پڑھنا جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا بہت ہے۔"وہ صاف گویا ہوئی۔مراد نے جو اپنے ہاتھ ہیٹر کے آگے سیدھے کر رکھے تھے پیچھے ہٹائے اور اسے دیکھا جو ہاتھ گرم کر رہی تھی۔ہیٹر کی روشنی میں اسکا چہرہ بھی چمک رہا تھا اور بھوری آنکھیں بھی۔
"کیوں نہیں پڑھنا تمھیں؟تمھارے بابا تو بتارہے تھے تمھیں پڑھنے کا کافی شوق ہے۔ضد کرکے ہی تم نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا۔"مراد اسکی طرف مڑا تھا اور بھنوویں اچکا کر پوچھا پر وہ سن ہی کہاں رہی تھی۔
"عائشے۔"وہ برہم ہوا۔
"بولیں کانوں سے سنتی ہوں آنکھوں سے نہیں۔"
"نا پڑھنے کی وجہ بتاؤ گی مجھے!"
"میرا دل پڑھائی سے اٹھ گیا ہے بس یہی وجہ ہے۔پڑھ کے میں نے کونسا تیر مار لینا ہے۔شادی ہوگئی ہے اب۔"بے نیازی سے پڑھائی سے جان چھڑاتے وہ بولی۔مراد کو اسکی سوچ جان کر افسوس ہوا عائشے کے یہ خیال ہونگے اسے یقین نہیں آیا۔پر انوش نے ایک بار اسے بتایا تھا عائشے شادی کے بعد بھی پڑھنا چاہتی تھی۔
"شادی کے بعد ہی بڑے سے بڑے تیر مارے جاتے ہیں۔تم پہ میں نے کوئی پابندی عائد نہیں کی تم پڑھ سکتی ہو میں چاہتا ہوں تم پڑھو ایک قابل لڑکی بنو۔اے ایس پی مراد کی بیوی صرف انٹر پاس ہو یہ مجھے قبول نہیں۔"عائشے نے منہ بسورا اسے مراد کی خود غرضی دکھائی دی۔
"تو آپ کو ایک موسٹ ایجوکیٹیٹڈ بیوی چاہیے جسے اپنے سرکل میں متعارف کرواسکیں..."
وہ تلخی سے کہتی استہزائیہ ہنسی۔
"شٹ اپ!"مراد  درشتگی سے بولا۔
"پڑھائی انسان کو قابل شخص بناتی ہے!"
"اچھا تو بتائیں قابل بن کے کیا کرونگی؟"پچھلی بات بھلا کے اسکی آنکھوں میں سوالوں کا جہان امڈ آیا۔
"تم بزنس جوائن کر سکتی ہو۔جو میرا ہے وہ سب تمھارا بھی ہے۔اور اگر بزنس جوائن کرنا نا بھی چاہو تو پڑھائی ایٹلیسٹ نا چھوڑو۔خود کو مصروف رکھا کرو اور علم کے دروازے کبھی خود کے لیے بند نا کرو۔"وہ اسے دیکھتے ہوئے سمجھانے لگا۔
"اففف..."
"بس تم یہاں سے واپس جانے کے بعد یونیورسٹی جوائن کروگی۔میں خود چھوڑ آؤنگا۔"اس نے اپنا آخری فیصلہ سنا دیا عائشے بے بس ہوگئی۔منمنا کے اسے دیکھا.
"اب میں اپنی زندگی کے فیصلے خود کر بھی نہیں سکتی۔"اس نے دانت پیسے۔
"ایسے فضول فیصلے تو بلکل نہیں۔"وہ جتاتا ہوا بولا۔
"میں اپنی بیوی کو ایک ایک مضبوط عورت کے طور پہ دیکھنا چاہتا ہوں۔پڑھائی سے منہ موڑ لینا محض بے وقوفانہ فیصلہ ہے۔تم کیوں ہر چیز سے جان چھڑا رہی ہو۔ماضی میں جو ہوا اور پھر شادی والے دن جو ہوا مجھے اندازہ ہے دونوں واقعات سے زہن پہ اثر ہوا ہوگا..."
"ہاں پر دل پہ زخم تو لگ جاتے ہیں نا۔"عائشے نے اسکی بات کاٹی تھی۔
"اللہ مرحم بھی تو دیتا ہے۔میں ان زخموں کا مرہم بننا چاہتا ہوں عائشے دمیر کو ہر خوف سے نکال کے مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔ہماری شادی جیسے بھی ہوئی اسے بھی بھول جاؤ سمجھو ایک نارمل شادی ہے۔میں نے تو تم کو اسی وقت زندگی میں قبول کرلیا تھا جب نکاح کے کاغذات پہ دستخط کیے پر تم نے نہیں کیا تھا۔"
"اب تو کرلیا نا..."وہ فٹ بولی مراد کے لبوں پہ تبسم کے پھول بکھر گئے۔اسکا اتنا کہنا ہی بہت تھا۔
"ٹھیک ہے پھر ہم رشتے کی شروعات دوستی سے کرتے ہیں۔ایک دوسرے کو مزید جان بھی لیں گے۔تو مجھ سے دوستی کروگی عائشے مراد دمیر؟"مراد نے اسکے سامنے ہاتھ پھیلایا عائشے کی گردن اکڑی وہ سیدھی ہوئی اسے دیکھا جسکا چہرہ نرمی کے عناصر میں ڈوبا ہوا تھا۔کس طرح وہ عائشے کو اپنے رشتے اپنے ہونے کا احساس دلا چکا تھا۔اس رشتے کی طاقت کا احساس!عائشے نے ناز سے اسکے پھیلائے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔مراد نے ہاتھ تھام لیا۔
"پھر اب آپ مجھے طعنے بلکل نہیں دیں گے۔"
"استغفر اللہ..میں نے کب طعنے دیے۔"
"ہاں ہاں مکر جائیں۔"عائشے نے ہاتھ چھڑا لیا۔
  "وہ طعنے تھوڑی ہوتے۔ہمارے درمیان ہوتی ہی طنزیہ گفتگو ہے..تم نے کبھی خود پہ غور کیا تم کیا کرتی ہو؟شوہر سے کتنی زبان چلا کر گناہ سمیٹتی ہو اول تو شوہر کو شوہر بھی نہیں مانتیں۔"اسکی باتیں عائشے کے دل پہ جالگیں اسکی آنکھوں میں پانی آگیا۔
شرمندہ تو وہ ہوئی تھی۔
"چلو بس سوجاؤ بہت باتیں کر لیں۔اور یہ آنسوؤں انکو اتنا بے مول مت کیا کرو۔"انگلی سے اسکی آنکھ سے آنسو چن کے وہ بستر پہ لیٹ گیا۔
"اچھا سنیں۔اب کل ہم سوات گھوم سکتے ہیں نا؟"
"میں تم کو بتانا ہی بھول گیا آٹھ بجے کی فلائٹ ہے۔ایک کام کرو سو مت اگر آنکھ نا کھلی تو فلائٹ مس ہو جائے گی۔۔واپس جانا بہت ضروری ہے۔"آنے کی بھی جلد بازی مچا رکھی تھی اور جانے میں بھی اس نے یہی کیا عائشے تپ کر رہ گئی۔
"پر مجھے سوات دیکھنا ہے۔"وہ احتجاج میں بولی۔
"بعد میں آئیں گے پھر دیکھ لینا ابھی مجبوری یے اس لیے جلدی جانا پڑ رہا ورنہ ایک دن تم کو ضرور گھماتا ہی میں۔"مراد لیمپ آف کرتے بولا تو وہ منہ بسور کے لیٹ گئی۔
کمرے میں اب خاموشی تھی پر دونوں کے دلوں کی گونج باہر تک سنائی دے رہی تھی۔آج رات وہ دونوں اطمینان سے مطمئن ہوکے سوئے تھے۔جیسے دونوں کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا ہو۔
سامان ان کا تقریباً پیک ہی تھا۔دو بجے دونوں سوئے تھے اور چھ بجے مراد نے اسے جگا دیا۔ناشتہ کرتے ہی وہ سوات سے لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔
                            ★ ★ ★
وہ اپنے آفس میں موجود فائلز کا جائزہ لے رہا تھا۔عزیز نے دروازہ ناک کیا۔
"یس کم ان۔"اسکی توجہ فائلز پہ ہی جمی رہی بھنویں سکڑیں وہ پڑھ کے فارغ ہوا۔عزیز ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟"
"شنواری سے مل کے آیا ہوں۔"
"پھر کیا بتایا اس نے کب رقم ادا کرے گا؟"میران نے فائلز بند کردیں اور اٹھ کے کھڑکی کا شیشہ اوپر کی طرف کھولا اور باہر کا منظر دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
   "میں نے اسے بتادیا کہ اسکی بیٹی بھی اس سے خفا ہورہی ہے کہ وہ اسے بھول ہی گیا۔کہہ رہا تھا فیکٹری بیچ کے جو رقم ملے گی وہ ادا کردے گا۔قرض تو تقریباً ادا ہوجائیگا پر سالانہ جو انٹرسٹ اس پہ لگا ہے وہ قرض کی قیمت کے برابر ہی ہے اسکے لیے وقت لگے گا۔وہ بھی اپنی بیٹی کا یاد کرکے کافی ٹوٹا ہوا لگ رہا تھا۔"عزیز نے بات مکمل کی انٹرسٹ کا سن کے میران سیگریٹ سلگا کر اسکی طرف مڑا اور کش بھر کے مرغولہ ہوا میں اڑاتے ٹیبل کے قریب آیا۔
"کچھ سوچا ہے میں نے اگر وہ میری بات پہ راضی ہوجائے تو اسکا مسئلہ بھی حل ہوجائیگا اور میرا بھی۔پر ابھی اسے کرنے دو جو وہ کر رہا ہے۔"بات مکمل کرکے اس نے سیگریٹ پھر لبوں سے لگالی۔آنکھوں میں انوکھی چمک تھی۔
"کیا سوچا ہے مجھے نہیں بتائیں گے کیا؟"
عزیز کے تجسس سے پوچھنے پہ وہ دھیمے سے ہنس دیا۔
"وقت آنے پہ سب جان جاؤ گے۔"اس نے کہا ہی تھا کہ دائم گھوڑے پہ سوار تیزی میں دروازہ دھکیلتے اندر داخل ہوا۔میران نے سر جھٹکا اور سیگریٹ ایش ٹرے میں جھاڑی۔
"آنے سے پہلے اجازت بھی لیتے ہیں۔"عزیز نے اسے دیکھے باور کیا تو وہ ہنس دیا اور میران کی چئیر کے سامنے والی چئیر اپنی طرف گھسیٹ کے بیٹھ گیا۔میران نے اپنی جگہ سنبھالی اور عزیز کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ صوفے پہ جا بیٹھا۔
"اگلی بار اجازت طلب کرکے ہی آؤنگا بس ٹھیککک ہے استاد صاحب۔"
گردن پھیر کے اس نے عزیز کو دیکھا جس نے انکھ جھپک کے ہاں کیا تھا۔
"کیسے آنا ہوا؟"میران نے کمر کی پشت چئیر پہ ٹکالی اور کش بھرتے پوچھا تھوڑے تھوڑے وقفے سے وہ سیگریٹ کے مرغولے ہوا میں چھوڑ رہا تھا۔سفید چہرے کے مقابل ملگجی سی دھندلاہٹ آجاتی۔
"دل چاہ رہا تھا اپنے یار سے ملنے کا۔چائے کافی ہی مانگا لو۔باہر ٹھنڈ دیکھ رہے ہو کس قدر ہورہی ہے۔"وہ بولتے ہوئے واپس عزیز کی طرف مڑا تو عزیز چائے اور کافی کا کہنے کے لیے اٹھنے لگا۔میران نے فوراً رسیور اٹھا کے عزیز کو نظروں ہی میں بیٹھے رہنے کی تنبیہہ کی۔
"مس نشاء ایک کافی اور دو کپ چائے میرے آفس میں بھیج دیں۔"دائم اسکی حرکت پہ مسکراہٹ روک رہا تھا۔وہ جب سے آیا تھا عزیز کو تنگ کرنے کا موقع نہیں چھوڑتا تھا۔عزیز نے تیور چڑھائے تمسخر سے دائم کو دیکھا۔کیا غرور تھا عزیز کو اپنے سائیں پہ۔
"سنا ہے تم نے راحیم ٹیکسٹائل کا پروجیکٹ حاصل کرلیا ہے۔"
"ہاں آج کل بس اسی میں مصروف ہوں۔وئیر ہاؤس(گودام) کے لیے بھی ایک جگہ خرید رہا ہوں۔"وہ مزید بتانے لگا تو میران کے ماتھے پہ شکنیں ابھریں۔
"کوئی فیکٹری ہے شنواری گارمنٹس.."
"اوہ...کتنے میں ڈیل کر رہے ہو؟"اس نے بنا دلچسپی ظاہر کیے عام انداز میں ناک رگڑتے پوچھا۔
"اس جگہ کی قیمت گر گئی ہے پر جو اسکا اونر ہے وہ منہ مانگی قیمت پہ ہی فیکٹری بیچنا چاہ رہا ہے۔ساڑھے چار کڑوڑ میں ابھی بات چل رہی۔پر جگہ کی نسبت تین کڑوڑ بھی بہت ہیں ویسے ہی وہ فیکٹری نقصان میں جارہی ہے۔اب دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔"ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کے وہ انگلیاں چلاتے بولا۔
"تم خرید لو..زمین کی قیمت جب بڑھ جائے تب بیچ دینا اور کوئی دوسرا گودام سستے دام میں خرید لینا۔"کیونکہ ابھی دائم کو گودام کی سخت ضرورت تھی تو میران نے مخلصانہ مشورہ دیا دائم نے سر تاسف سے ہلایا۔
اتنے میں سیکریٹری چائے اور کافی رکھ کے چلی گئی تھی۔میران نے چائے کا کپ اٹھا کے کچھ سوچتے ہوئے عزیز کو دیکھا۔
"اور سناؤ بھابھی کیسی ہیں؟"
عزیز جو کپ لینے کے لیے ٹیبل کے پاس آیا تھا اور کپ اٹھا کے دوسری چئیر کھینچ کے بیٹھا تھا دائم کے سوال پہ لب دبا کے میران کو دیکھنے لگا۔میران نے سیگریٹ پھینک دی تھی۔
"میں نے تم کو منع کیا ہے نا اس بارے میں سوال نا کیا کرو۔"وہ سنجیدگی سے بولا پر دائم علی کو کونسا فرق پڑنا تھا۔
"سائیں میں نے آپکا کام بھی کردیا ہے۔"گھونٹ بھرتے عزیز نے کہا تو میران سانس بھر کے رہ گیا۔دائم نے گھور کے اسے دیکھا اسکا تجسس بڑھ چکا تھا۔
"کونسا کام؟کیا بھابھی جی کو پھول وغیرہ بھجوائے ہیں؟"اسکے کہنے کی دیر تھی کہ عزیز کو بری طرح سے پھندا لگا۔
"میرے بھائی کیا ہوگیا؟کیا میری بات سچ ہے جو تم کھانسنے ہی لگ گئے۔"مسکراتے ہوئے دائم نے آخر میں نگاہ میران پہ ڈالی جسکو عزیز پہ غصہ آرہا تھا۔
                              ★ ★ ★
گیارہ بج گئے تھے اور وہ ابھی تک سو رہی تھی۔حلیمہ بی دروازہ کھول کے اسکے کمرے میں داخل ہوئیں جو ہیٹر چلنے سے کافی گرم ہوچکا تھا انھوں نے ریموٹ سے ٹیمپریچر کم کیا۔
اور اسکے پاس آئیں۔
"لڑکی جاگ جاؤ آج تو تمھارا خاص دن ہے کیا سو کر منانے کا ارادہ ہے؟"حلیمہ بی نے اس پہ سے کمبل ہٹا کے کندھے سے ہلایا تو وہ کروٹ بدل گئی۔رات وہ کوئی انگلش بک پڑھتے پڑھتے سو گئی تھی۔کتب گردانی کا خاصہ شوق تو نہیں تھا پر کبھی کبھار وہ پڑھ لیا کرتی تھی۔اور یہ کتاب میران کی تھی جو اس نے ٹی وی لاؤنچ کے شیلف سے حلیمہ بی کو بتا کر اٹھائی تھی۔
"باہر چھوٹے سائیں آئے ہیں۔"جب وہ نیند میں غرق رہی تو حلیمہ نے لاپرواہی سے اسکے سر پہ بم پھوڑا۔انکے کہنے کی دیر تھی وہ پٹ آنکھیں کھول کے اٹھ بیٹھی۔
"کس خوشی میں آیا ہے میرا دن خراب کرنے؟"چہرے پہ گرتے بھورے بالوں کو اس نے پونی کی مدد سے پیچھے جوڑے کی شکل میں باندھا۔حلیمہ بی اسکی حالت پہ ہنسنے لگی۔
"نہیں آئے وہ...."
"یار حد کرتی ہیں ایک پل کو مجھے بس غصے سے ہارٹ اٹیک ہی آنے والا تھا۔"
"بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو۔"انھوں نے اسے ڈپٹا اور سائڈ ٹیبل پہ سے ٹرے اٹھا کے اسکے سامنے کی۔
یہ ایک پاؤنڈ کا خوبصورت سا کیک تھا جس پہ اردو ہی میں سالگرہ مبارک رومائزہ لکھا تھا۔اور اسکے گرد چاکلیٹ کی ڈیکوریشن تھی۔
رومائزہ دیکھ کر مسکرادی اور بازو انکے کندھے پہ پھیلائے ان سے لگی۔
"تھینک یو...آپ بہت اچھی ہیں۔"
"میری بیٹی بھی بہت اچھی ہے.."اسکا ماتھا چوم کے انھوں نے ٹرے بیڈ پہ رکھ دی اور چھری اٹھا کے رومائزہ کو پکڑائی۔
"یہ کیک آپ نے بیک کیا ہے؟"چھری تھامے اس نے خوشگواری سے چہک کر پوچھا۔
"ارے میں کہاں اتنا اچھا اسے سجا سکتی تھی۔بیکری سے منگوایا ہے چلو اب جلدی سے کیک کاٹو۔"رومائزہ نے سر ہلایا اور آنکھیں میچیں۔وہ انوش،عائشے،نعمت بی اور اپنے بابا کے ساتھ ہمیشہ کیک کاٹا کرتی تھی۔اس نے سب کو خود میں محسوس کیا اور آنکھیں کھولنے کے بعد چھری کیک پہ پھیردی۔
"ہمیشہ خوش رہو اللہ تمھارا نصیب اچھا کرے اور آسانیاں پیدا کرے۔"حلیمہ بی نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا روما نے کیک کا ٹکڑا اٹھا کے انکی طرف بڑھایا اور پھر خود نے بھی کھایا۔آنکھوں کے کٹورے آب سے بھیگ گئے تھے۔
کیا ہی ہوتا وہ سب کے ساتھ ہوتی۔اس بار تو اس نے سوچ لیا تھا برتھڈے پر یونی فیلوز کو بھی انوائیٹ کرے گی۔پر یہی قسمت ہے انسان سوچتا تو بہت کچھ پر تقدیر کے آگے چلتی کس بشر کی ہے۔
   آسمانی رنگ کا کاٹن کا سادھا پر خوبصورت جوڑا اس نے پہنا تھا۔بال ہمیشہ کی طرح کندھے سے تھوڑا نیچے گر رہے تھے۔ظہر پڑھ کے وہ کمرے سے باہر نکلی۔قدرتی گلابی ہونٹ جنھیں کسی قسم کے بناوٹی رنگ کی ضرورت نہیں تھی۔بلاشبہ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔
"میڈم یہ آپکے لیے آیا ہے۔"
مالی بابا نے پھولوں کا ایک گلدستہ اسکے آگے کیا۔حلیمہ بی تھیں نہیں وہ دروازے کے باہر کھڑے ہی آوازیں لگا رہے تھے رومائزہ پیروں میں چپل اڑس کے شانوں پہ شال درست کرتی دروازے کے پاس گئی اور ان سے گلدستہ لے لیا۔
"کس نے بھیجا ہے یہ؟"اسے تعجب ہوا۔پھولوں سے لدا ہوا کافی بھاری گلدستہ تھا۔مالی بابا نے لاعلمی کا اظہار کیا تو سر اثبات میں ہلاتی گلدستہ اٹھائے لاؤنچ میں آگئی۔گلاب اور دھتورہ کے لال اور سفید پھول اور فاصلے فاصلے پہ لیوینڈر کے پھول بھی لگے تھے۔
وہ خوبصورت سا گلدستہ اپنی جانب اسکی توجہ کھینچنے میں کامیاب ہوا تھا۔اس سے اٹھتی خوشبو سے رومائزہ کے اندر بے چینی بڑھ گئی اس نے ایک جست میں چہرہ قریب کرکے خوشبو خود میں اتاری تو نظر سائیڈ میں ٹیپ سے چسپاں چھوٹے سے کارڈ پہ گئی۔اس نے گلدستہ دائیں بازو میں پکڑا اور بائیں ہاتھ سے کارڈ نکال کے بھنویں ماتھے کے درمیان لائے کارڈ نگاہوں کے سامنے کیا۔
"HAPPY BIRTHDAY MY LOVE"
پہلی سطر پڑھ کے رومائزہ کی سانس تھم گئی اگلی سانس اس نے زبردستی کھینچ کے لی تھی۔پھولوں کی بہار دل پہ پڑتی محسوس ہوئی۔
"HAPPY TWENTIETH BIRTHDAY"
یہ دوسری سطر تھی جو کارڈ کے دوسرے حصے پہ لکھی تھی۔اسے کیسے پتا کہ وہ اب بیس کی ہوئی ہے۔پھر اسے خیال آیا اسکو سب ہی معلوم ہوگا سارا بائیو ڈیٹا نکلوا چکا ہوگا۔
"عمر کیا ہے تمھاری؟"
"بیس.."پچھلا منظر زہن میں گھوما تو ہونٹوں کے قریب مسکراہٹ آگئی اس نے سر جھٹکا۔اور آخری سطر پڑھی۔سطر نہیں بس انگریزی میں ایک لفظ لکھا تھا۔
"SORRY...."
اس نے پڑھا اور برا سا منہ بنایا یہ بھی کوئی طریقہ تھا؟اتنا کچھ سنانے کے بعد آخر میں سوری بول دو۔میران پہ غصہ تو بہت چڑھا ہوا تھا پر گلدستہ دیکھ کر پتا نہیں کیوں اسکا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔قدرتی چیزوں سے اسے بڑی انسیت تھی۔وہ گلدستے سے اٹھتی خوشبو سے محظوظ ہورہی تھی کچھ بھی سوچ کے دماغ خراب کرنے کا ارادہ قطعی نہیں تھا۔وہ ڈھیٹ ابن ڈھیٹ تھا کچھ بھی بولو پر اسکی محبت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی تھی۔اور محبت دیکھانے کے اسکے بڑے سادھے سے طریقے تھے۔
روما نے کارڈ بن کیا تو پیچھے بھی کچھ لکھا تھا۔
"FROM KIDNAPER.......TO"
نظر نے مزید نیچے سفر کیا...اردو میں بلکل پہلے جیسا ہی "روم" لکھا تھا۔بے ساختہ اسکے چہرے پہ خوبصورت سی مسکراہٹ گھل گئی۔
"واٹ دا ہیل وائے آئی ایم اسمائلنگ...ہی مسٹ گو ٹو ہیل اینڈ....."کارڈ واپس گلدستے میں لگا کے وہ الجھن کے مارے گلدستہ صوفے کے سامنے بچھی میز پہ رکھ کے بیٹھ گئی۔گلدستہ مسلسل اسے اپنی جانب راغب کر رہا تھا وہ ایک نظر گلدستے کو دیکھتی پھر سر جھٹک کے نگاہ ہٹا لیتی آخر کو اس نے دانت پیسے۔اتنے میں حلیمہ بی بھی آگئی۔
"تو تمھارا تحفہ آگیا۔کیسا لگا تمھیں؟"
"آپ کو معلوم تھا؟"ناخن چبا کے وہ اپنی بے چینی چھپا رہی تھی۔
"ہاں۔آج سائیں مصروف ہیں ورنہ لازمی آتے اور خود وش کرتے۔بتاؤگی نہیں تحفہ کیسا لگا؟"اس نے حلیمہ بی کو دیکھا جو جان بوجھ کر اس سے پوچھ رہی تھیں۔
"اچھا ہے..."اس نے بے تاثر انداز میں شانے اچکا دیے اور کھڑی ہوگئی۔
"میں پانی پی کے آتی ہوں۔"وہ بالوں کو کانوں کے پیچھے کرتی کھڑی ہوگئی۔
"یہ گلدستہ تو لے جاؤ اپنے کمرے میں رکھ لو۔تحفے کی بے قدری نا کرو ناجانے انھوں نے کتنے جذبات سے تمھیں بھیجا ہو۔"
"اللہ اللہ..حلیمہ بی بس کریں لے جاتی ہوں میں یہ۔ویسے اسکے دیے تحفے کی ضرورت نہیں مجھے۔اگر تحفے میں آزادی دے دیتا تو کیا ہی بات ہوتی..."پیر پٹخ کے وہ گلدستہ اٹھاتی لاؤنچ سے نکل گئی۔
                             ★ ★ ★
دوپہر تک وہ دونوں گھر پہنچ گئے تھے مراد عائشے کو گھر ڈراپ کرکے واپس چلاگیا۔شام میں اس نے چکر لگایا تھا فریش ہوا اور دس پندرہ منٹ زرپاش کے پاس بیٹھ کے ان سے دعائیں سمیٹتا پلان کے مطابق مشن کے لیے نکل گیا۔
عائشے نیمل کے ساتھ لاؤنچ میں بیٹھی موم پھیلیاں کھا رہی تھی اور نیمل نے کوئی ایکشن مووی لگادی تھی۔وہ ان دونوں سے بھی مل کر گیا تھا۔
          "سر آر یو شیور؟"پولیس پتے پر پہنچ گئی تھی اور اسی طرح خفیہ طریقے سے مشن کو سر انجام دینا تھا۔
"ہنڈریڈ اینڈ ٹین پرسنٹ شیور۔تم اس میسج کو بے پرکی نا سمجھو۔یقیناً مارگن کے کسی قریبی دشمن کا یہ کام ہے اور ہمارا کام آسان ہوگیا۔میری چھٹی حس کہہ رہی ہے وہ یہاں لازمی آئیگا۔پر اب واپس صرف جیل جاسکے گا۔"مراد نے گن لوڈ کرتے کہا۔وہ اور اسکی ٹیم بناء بوٹوں کی چاپ کے اس سنسنان جگہ بنے گودام کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔
مراد نے میسج موصول ہونے کے بعد اپنے خبری کو اطلاع دی تھی جس نے پتا لگا کے معلوم کیا تھا وہ میسج کوئی فریب نہیں سچ ہے۔
یہ مارگن نامی شخص ملک کا سب سے بڑا اسمگلر تھا جو انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کرتا تھا۔جن کا نشانہ کئی ملکی اور غیر ملکی معصوم لوگ بنتے تھے۔
پولیس پوری تیاری بھاری نفری کے ساتھ آئی تھی اس جگہ کو چاروں اطراف سے گھیر لیا تھا۔باہر کھڑے گارڈز کو بھی چالاکی سے ان لوگوں نے گرفتار کیا۔
"تین کے اشارے پہ ہم اندر داخل ہونگے۔"مراد نے گن سامنے کی طرف کرتے کہا اور پلٹ کے تاکید کرتا دروازے کی طرف بڑھا جو ہلکا سا کھلا تھا اندر تین چار نفوس گول ٹیبل کے گرد بیٹھے تھے اور درمیان میں ایک سفید بلب روشن تھا۔
آج صرف وہ مارگن کو ہی نہیں پکڑتا بلکہ اسکے ساتھ سودا کرنے والے کی بھی گرفتاری لازم تھی۔
اس معمولی سی کھلی جھری میں سے چہرے تو نظر نا آئے پر سرگوشیوں کی آوزیں سنائی دے رہی تھیں۔
"نو بج گئے یہ بے وقوف اے ایس پی اب تک نہیں آیا۔"سفید شلوار قمیض میں ایک شخص سوچتے ہوئے وہاں آیا اور ان سب کے درمیان بیٹھ گیا۔
"یہ تمھاری رقم،،بس دھیان رکھنا کسی کو میرے آنے کی خبر نا ہوئے۔"
"مارگن کے کام کی کبھی کسی کو خبر نہیں ہوتی۔"اس نے جیسے فکر سے آزاد کرنا چاہا تو مقابل نے سر اثبات میں ہلایا۔
"ویسے مجھے یہ سودا بنتا نظر نہیں آرہا تھا پر تم نے آکے تو مجھے حیران کردیا کافی سمجھدار ہو گھاٹے کا سودا نہیں کرسکتے۔"
"اپنا منہ بند رکھو۔یہ آرگینز ہم رکھ نہیں سکتے تم انکی ڈیلوری سیدھا ہسپتالوں میں کروگے۔"اس شخص نے تحکم سے اسے آگے کی آگاہی دی۔وہ یہ آرگینز مارگن سے بلیک میں خرید کے ہاسپٹل والوں کو شناخت بدل کے آرگینز زیادہ دام میں بیچتا اور بلیک مال کو وائٹ میں تبدیل کرتا۔مارگن کو سب سمجھ آگیا ایسا وہ کئی دوسرے گاہکوں کے لیے کرچکا تھا اور کسی کو اس پہ شک ہوا بھی نہیں تھا۔
"ٹھیک اس کے بعد اگلی سپلائے کب کروں؟"مارگن مسکرا کے بولا تو مقابل کا قہقہ گونجا۔
"پہلے یہ کام کردو۔میں یہاں صرف تمھاری بے حد عجیب ضد پہ آیا ہوں ورنہ میرے آدمی رقم تم تک پہنچا دیتے۔"وہ میز پہ تھوڑا جھکا تھا بلب میں اسکا چہرہ مزید روشن ہوگیا۔
"صاحب جی میرے دھندے کے بھی کچھ اصول ہیں۔پیسہ اسی کے ہاتھ سے لیتا ہوں جسکو مال بیچ رہا ہوں میں کسی کے بھی آدمیوں سے سودے بازی نہیں کرتا جسکا سودا ہے اس سے ملے بغیر میں ڈیل پکی نہیں کرتا اور آپ کو تو پھر بھی رعایت دی۔ہاتھ کے ہاتھ سپلایے کرتا ہوں۔باہر مال لوڈ ہے تم جہاں کہو گے ہم پہنچا دیں گے۔اسکے بعد حساب بند اور نیا حساب شروع۔"ٹیبل پہ کئی گلاس رکھے تھے جس میں ایک مخصوص حرام جام موجود تھا اپنے آگے رکھا گلاس اٹھا کے مارگن نے منہ سے لگایا اور قہقہہ مارتے بولا۔
"میرے بھی کچھ اصول ہیں میں اپنے کام ایسے انجام دیتا ہوں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔اگلی بار پیمنٹ میری جگہ میرے آدمی ہی تم تک پہنچادیں گے۔"وہ شخص بول کے کالی چادر خود پہ ڈالتے حکم دیتی نگاہوں سے کہتا کھڑا ہوگیا۔تیسرے شخص کی نگاہیں اسکے ارتقاب میں اٹھیں۔
"ون ٹو تھری....فائر۔"مراد کے اشارے پہ پولیس دروازے کو دھکا مارتی اندر داخل ہوئی اور اپنی آمد کا بتانے کے لیے دو تین فائر کیے اور تیزی سے اندر بھی پھیل گئی۔اس ملگجے روشن گودام میں اب پولیس کی تیز ٹارچ کی روشنی کی شعائیں ان چاروں کے چہرے پہ پڑ رہی تھی۔
مراد نے ٹارچ نیچے کی تو مارگن کا چہرہ اسکے سامنے تھا۔مارگن نے بھی بندوق اس پہ تان لی تھی وحشت اسکی آنکھوں سے جھلک رہی تھی۔
"تو بلی ڈھونڈتے ہوئے آگئی۔"وہ طنزیہ انداز میں گن سے نشانہ لیتے بولا۔
"مارگن خود کو ہمارے حوالے کردو تم چاروں طرف سے گھیرے جا چکے ہو۔"پیچھے سے آفیسر نے بلند آواز میں کہا۔مراد کی نظر ان باقی نفوس پہ پڑی اس نے سب کے چہرے پہ لائٹ ماری تھی اور دوسرے ہاتھ سے گن کا نشانہ مارگن تھا اور باقی آفیسرز کے نشانے پہ دو لوگ۔ایک اور تھا وہ مارگن کے پیچھے تھا۔اور کسی ہیولے کی طرح وہ مارگن کی اوٹ سے ہاتھ کھڑے کرتا سامنے آیا تھا۔
ٹارچ کی روشنی اسکی آنکھوں میں گھستی چلی جارہی تھی۔مراد نے چہرے دیکھنے کی چاہ میں ٹارچ آہستہ آہستہ نیچے کی۔اور سامنے بے خوف شخص کو دیکھ اسے چارسو چالیس والٹ کا جھٹکا ہی لگا۔
جس نے بے نیازی سے باقی کے تمام اہلکاروں پہ نگاہ ڈالی تھی آنکھوں میں غرور اور بھی بہت کچھ تھا جو پہلے کبھی دیکھا نا گیا ہو۔
"میران جاہ...."
اسے دیکھ مراد زیر لب بڑبڑایا اسکا وجود ساکت ہوگیا یہ منظر بھی اسکو کبھی دیکھنے کو ملے گا یہ خیال اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا۔وہ بے یقینی اور حیرت کے ملے جلے تاثر کے ساتھ وہ اسکے قریب بڑھتا گیا۔
جاری ہے.....
Vote and comment...

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now