قسط پنجم (دردِ یار)

1.1K 59 17
                                    

عزیز کرسی پہ موجود لڑکی کو کافی دیر میں پہچانا تھا۔دوسرے کمرے میں موجود الیاس بھی فوراً باہر نکل کر کمرے کے دروازے کے پاس پہنچا۔میران جاہ کو یہاں پاکر اسے اچھنبا ضرور ہوا تھا۔
"الیاس یہ وہی لڑکی ہے؟"
عزیز نے اپنا گریبان چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی الیاس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا اور سر ہلایا۔
"ہاں وہی ہے جسکا تم نے کہا تھا خود اس کے گھر تک لے گئے تھے۔"الیاس نے جیسے بات واضح کرکے کہی میران نے جھٹکے سے عزیز کا گریبان چھوڑا اور مٹھیاں ضبط سے بھینچ کر دروازے کے گرد چکر کاٹے اور پھر ٹہھرا۔
"یہ شنواری کی بیٹی کیسے ہوسکتی ہے اسکے باپ کا نام احتشام ہے میں نے خود سنا تھا۔رومائزہ احتشام۔"اس نے بول کر جبڑے بھینچ لیے عزیز نے جملہ مکمل کیا۔
"احتشام شنواری..بزنس کی دنیا میں شنواری کے نام سے جانا جاتا ہے۔میں نے اس لڑکی کا پورا چہرہ نہیں دیکھا تھا یہ ہمیشہ ماسک لگائے رکھتی ہے اور آنکھوں سے میں پہچان نہیں سکا۔میں نے ویسے بھی اتنی اس فنکشن والے دن توجہ نہیں دی تھی۔اگر ہم چہرہ دیکھ لیتے تب بھی یہی کرتے۔"
وہ جیسے بہت کچھ ڈھکے چھپے لفظوں میں میران کو بتا رہا تھا کیونکہ میران اب بھی بے یقینی کی کیفیت میں تھا عزیز کی آخری بات پہ ضبط کرتا رہ گیا۔عزیز کو اسکے جذبات کا علم تھوڑی تھا پر اب معاملے کی سنگینی کو محسوس کرچکا تھا۔جامعہ میں جو کچھ ہوا وہ سب عزیز بھول چکا تھا اور میران نے اسکے بعد محبت کے جذبات ظاہر کیے بھی نہیں تھے۔
   تبھی اندر کمرے میں موجود لڑکی نے عزیز کو کچھ چیزیں پیش کیں جن میں ایک موبائل فون،ایک ہینڈ کلچ اور کالا ماسک تھا۔میران نے اس سامان پہ نظر ڈالی تھی۔
"سر یہ اس لڑکی کا سامان الیاس نے دیا تھا۔"وہ لڑکی بول کر اندر رومائزہ کے سامنے کھڑی ہوگئی جو اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔
"مجھے یقین نہیں آرہا اتنی خود دار لڑکی کیسے ایک گرے ہوئے شخص کی بیٹی ہوسکتی ہے!"میران تن فن بالوں میں ہاتھ چلاتا کمرے میں داخل ہوا رومائزہ سامنے ہی رسیوں میں جکڑی بڑی بے بس سی محسوس ہوئی۔میران کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچا اس نے اسے ہمیشہ اپنے خوابوں میں تتلی کی مانند اڑتا ہوا،مسکراتا ہوا پایا تھا۔
رومائزہ احتشام سے قسمت دوبارہ اس طرح سامنا کروائے گی ایسا میران جاہ نے سوچا بھی نہیں تھا۔
"تم!!مجھے یقین نہیں آرہا میران جاہ یہ تم ہو!مجھے کیوں اغوا کیا ہے،بتاؤ مجھے میں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟"اس لڑکی نے جیسے ہی میران کے اشارے پہ اسکے لبوں سے ٹیپ ہٹایا وہ حلق کے بل چلاتی ہوئی بولی کہ ایک پل کو بے ساختہ میران کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی جس کو اگلے ہی لمحے اس نے سنجیدگی کے تاثر سے چھپا لیا تھا۔
"چپ کرجاؤ بلکل..بس جو پوچھوں اسکا جواب دینا۔"وہ سرخ آنکھیں اسکی آنکھوں میں ڈالے بولا رومائزہ نے گردان تان کے اسے دیکھا۔
"تمھارا پورا نام کیا ہے؟"میران کو جیسے اب بھی کسی معجزے کی امید تھی شاید یہ وہ نہ ہو۔پر نہ بھی ہوتی تو کیا ہونا تھا۔آج اسکی محبت اسکے ہاتھوں ہی اس حالت میں یہاں قید تھی انجانے میں سہی!
"اگر یہی جاننے کے لیے اتنا اہتمام کیا تھا تو سنو میرا نام رومائزہ احتشام شنواری ہے اور مجھے جانے دو ورنہ..."
"ورنہ کیا؟"وہ بے اختیاری میں بھنویں اچکاتا اسکے قریب ہوا۔غم و غصہ تکلیف کے مارے رومائزہ کی ناک کے نتھنے بھی پھول گئے۔
  "آئی سووئیر آئی ول کل یو،،مجھے کمزور مت سمجھنا۔کیوں لائے ہیں یہ لوگ مجھے یہاں؟ہاں بتاؤ مجھے!کہیں تم مجھے پسند تو نہیں کرتے نا؟ہاں میں نے سنا ہے تمھارے جیسے ہی ٹکے کے لوگ لڑکی کو پسند کر لیتے ہیں پھر اسے طاقت کے بل پہ اغوا کرکے نکاح کرلیتے ہیں۔بتاؤ ایسا تو نہیں ہے نا...اگر ایسا ہوا تو..."
وہ پھر کوئی دھمکی شامل کرتی میران نے اسکی بات درمیان میں ہی اچک لی۔پہلے تو وہ اسی سوچ کے شکار میں تھی کس نے اسے اغواء کروایا اور اب یہاں میران کو پانے کے بعد مزید کشمکش کا شکار ہوچکی تھی کہ اس نے اسے کیوں اغوا کروایا!
"تم سوچتی بہت ہو،آرام سے یہاں بیٹھو چیخنا چلانا مت در و دیوار پہ رحم کرنا انکے بھی کان ہوتے ہیں۔"
میران لہجہ نرم ہی رکھ کر اسے پچکارتے ہوئے کھڑا ہوگیا اور الٹے قدم لیتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا اور پیچھے اس بندی کو نئی سوچوں میں غرق کرکے جا چکا تھا۔
وہ ہاتھوں پیروں کی آزادی کے لیے مسلسل مچل رہی تھی اور دوسری لڑکی کو بار بار کہہ رہی تھی اسے کھول دے پر شاید وہ لڑکی بہری تھی یا اس نے عزیز کے حکم کے آگے خود کو بہرہ بننا ہی پسند کیا تھا۔
"میم پلیز چلائیں مت۔مجھے آرڈر دیا گیا تھا آپکو کوئی تکلیف نہ دی جائے پلیز میرے لیے مشکل کھڑی مت کریں۔"
آخر کار وہ لڑکی التجا کرتے ہوئے عاجز آکر ہاتھ جوڑ بیٹھی اسکے میم لفظ اور باقی جملے پہ رومائزہ کا دماغ اٹک گیا۔کیا جو وہ سوچ رہی ہے وہی سچ تو نہیں۔
"تم بھی مجبور ہو نا؟دیکھو دونوں ساتھ بھاگ جائیں گے کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا پلیز مجھے چھوڑ دو میرے بابا پریشان ہورہے ہونگے۔ہاں تمھاری بھی تو کوئی فیملی ہوگی نا۔پلیز پلیز پلیززز۔"رومائزہ اس لڑکی کے تاثرات دیکھ کر مزید بولتی رہی۔اس لڑکی نے گہری سانس بھری اور مسکراتی ہوئی عین اسکے سامنے آن کھڑی ہوئی۔
رومائزہ منت بھری نظروں سے اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
"میری کوئی فیملی نہیں ہے۔"اسکے جواب میں اتنا سرد پن تھا کہ روما کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور وہ لڑکی جو دونوں ہاتھ پیچھے باندھے کھڑی تھی اب اسکے اوپر جھکی اور کالا ٹیپ اسکے منہ پہ چپکا دیا۔
رومائزہ بلکل بے بس ہوگئی تھی۔اس نے نتھنے پھلا کے اس لڑکی کو دیکھا۔
"ہاتھ کھلے ہوتے تو بتاتی فیملی کیسی ہوتی ہے۔"وہ دل میں ہی کلستی رہ گئی۔
"اب بیٹھو تم سکون سے۔"لڑکی اسے تپاتی ہوئی پلٹ گئی اور چند لمحے گزرے تھے رومائزہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا وہ کرسی پہ مزید ڈھ گئی۔
                           ★ ★ ★
"سائیں جانا کہاں ہے؟"میران کو گاڑی میں بیٹھتا دیکھ عزیز نے فوراً پوچھا۔
"بنگلے پہ لے چلو۔میں اسے مزید نہیں رکھ سکتا میرا دل پھٹ جائے گا۔"میران نے انگلیاں بالوں میں چلائیں اور اے_سی بھی کھولا گویا جسم ٹھنڈا ہونے لگا تھا۔
"آپکو تو اسکے باپ سے پیسے نکلوانے تھے کیا اب نہیں نکلوانے؟"عزیز نے ٹہر ٹہر کے سوال کیا میران سیدھا ہوکے بیٹھا۔
"تم سمجھ کیوں نہیں رہے؟"
"آپ سمجھا ہی نہیں رہے۔کچھ منٹ پہلے تو آپ بلکل ٹھیک یہاں آئے اور اب۔"وہ شاید میران کے منہ سے سن کر اپنے دماغ کے اندیشے پر یقین کرنا چاہ رہا تھا۔
"مجھے تم یہ بتاؤ کوئی اپنی محبت کے ساتھ ایسا کرسکتا ہے؟میں تو ہرگز نہیں۔میں کیسے برداشت کرسکتا ہوں کہ وہ اغوا ہوجائے۔اسکی عزت میرے لیے سب کچھ ہے۔یہ اسکے ساتھ غلط بلکہ بہت برا ہوچکا ہے۔"
میران نے بال مٹھی میں جکڑے تھے عزیز اسکی حالت دیکھتا رہا۔
"سائیں سب لڑکیوں کی عزت اہم ہوتی ہے بلکہ ہر بشر کی۔اور اگر اسکی جگہ کوئی اور ہوتی تو اسکے ساتھ یہ سب غلط نہ ہوتا کیا؟"وہ ناچاہتے ہوئے بھی تلخ ہوا تھا میران نے سر اٹھایا۔
"اب تم مجھے مزید غصہ دلا رہے ہو۔تم بھی جانتے ہو بابا سے محفوظ رکھنے کے لیے میں نے ایسا کیا۔ورنہ میں عورت ذات کو استعمال کرنے والے مردوں میں سے نہیں ہوں۔تم دیکھ نہیں سکتے تھے کیا اسکا پورا چہرہ!"
میران اس پہ برہم ہوا۔عزیز نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
"شکل دیکھ کر بھی یہی کرتا مجھے معلوم تھوڑی تھا آپ ان کی محبت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔شک ضرور تھا پر آپ تو اس دن جامعہ سے واپسی پر خود سب کچھ ختم کر آئے تھے۔اور مجھے پکا یقین نہیں تھا کہ آپ جس کو پسند کرتے ہیں جس کے لیے بے چین رہتے یہ وہی تقریر والی ہے۔"عزیز کی باتیں سن کر میران نے سانس بحال کی۔
"خیر اب جو ہونا تھا ہوگیا میں بابا سے بات کرکے اس کو واپس بھیج دونگا۔"میران نے گہری سانسیں لیتے ہوئے کرتے کے اوپری بٹن کھولے اور حتمی فیصلہ سنایا۔
"کیا وہ مان جائیں گے؟"عزیز نے ایکسلیریٹر میں چابی گھمائی اور گاڑی ریورس لی۔
"انکو ماننا پڑے گا کوئی دوسرا طریقہ نکالیں پیسے نکلوانے کا،شنواری کی بیٹی کو وہ اس معاملے میں نہیں لاسکتے۔"
وہ سختی سے کہتا جبڑے بھینچ گیا عزیز نے گاڑی سڑک پہ ڈال دی چند پل گاڑی میں سناٹا رہا پھر میران کے آغاز نے اس خاموشی کو توڑا۔
   "بہت بڑی غلطی ہوگئی مجھ سے عزیز۔"وہ بے حد نادم تھا اس وقت جو وہ تکلیف برداشت کر رہا تھا اسکا اندازہ کوئی لگا نہیں سکتا تھا۔
وہ اسے اپنی زندگی کا ایک حصہ بنانے کا سوچ چکا تھا اور اب یہ سب ہوگیا اور محسوس ہورہا تھا جیسے سب ہاتھوں سے ریزہ ریزہ ہوکے نکل رہا ہو۔عزیز سے سائیں کی غیر ہوتی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی کیا وہ محبت سے عشق کا سفر طے کرچکا تھا؟اس نے اس رات بھی آسمان کے نیچے دعا کی تھی کہ میران کو کسی مشکل کا سامنا نا کرنا پڑے۔ناجانے کیوں اسکا دل پہلے سے ہی کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔
کاش یہ لڑکی شنواری کی بیٹی نہ ہوتی۔
"بے شک آپ مجبور تھے پر اتنے نہیں آپ چاہتے تو زولفقار سائیں کو اپنی بات پہ قائل کرسکتے تھے۔"عزیز تھوڑی دیر بعد بولا۔
"تمھیں کیا لگتا ہے میں نے ایسا نہیں کیا ہوگا!"
وہ کہہ کر خاموش ہوگیا اب وہ خود کو دلاسے دے سکتا تھا اسکو سمجھنے والا ابھی کوئی تھا ہی نہیں۔وہ کیا محسوس کر رہا تھا کسی کو کیسے پتا چلتا۔باقی سارا راستہ خاموشی سے طے ہوا تھا۔آدھے گھنٹے کے راستے کے بعد جاہ بنگلے کی عالیشان حدود لگ چکی تھی۔
عزیز نے گاڑی عین داخلی دروازے پہ روکی میران تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے بنگلے میں داخل ہوا اور قدم زولفقار صاحب کے کمرے کی جانب بڑھادیے۔یقیناً اب تک وہ تقریب سے واپس آچکے تھے۔
                          ★ ★ ★
شمس زولفقار صاحب کے کمرے میں ہی موجود تھا زولفقار صاحب نے اپنا کوٹ اتار کے صوفے پہ رکھا اور کف لنکس کھولے۔
"شمس آج میں بہت خوش ہوں۔ایک کام کرو کل کسی غریب بستی میں کھانے کی تقسیم کا انتظام کرو۔"وہ خوشی سے بے حال ہورہے تھے۔
"جو حکم۔میں سمجھ سکتا ہوں آپکی خوشی آپ نے آخر کار میران بابا پہ قابو پالیا..آخر انھوں نے وہی کیا جو آپ نے چاہا تھا اب آپکو کسی قسم کی ٹینشن لینے کی ضرورت ہی نہیں۔وہ بھی آپکے جیسے طاقتور حکمران بنیں گے۔"شمس کا فاتحانہ انداز سے بھرپور قہقہہ اسکی بات کا حصہ بنا تھا میران جو کمرے میں داخل ہونے لگا تھا انکی باتیں سن کے قدم وہیں روک لیے۔
  "وہ میرا خون ہے میرے نقشِ قدم پہ ہی چلے گا۔شنواری کی بیٹی کو اغوا کرکے اس نے میرا شک بھی ختم کر ڈالا۔ورنہ مجھے ڈر تھا کہ وہ جیسے جماعت کے اہلکاروں سے الجھنے لگا ہے کہیں مجھ سے بھی نا الجھ پڑے کیونکہ اب سے وہی زیادہ پاوور میں ہوگا۔خیر شنواری نے دوبارہ فون کیا؟"شرٹ کے کف موڑتے ہوئے وہ مغرور انداز میں صوفے پہ براجمان ہوگئے۔
"ابھی تو بے چارہ پولیس کی مدد لینے کی کوشش کر رہا ہے۔"شمس کہتے ہوئے شنواری کی بے بسی پہ ہنسا۔
زولفقار جاہ کی بات سننے کے بعد میران کا غصہ بھک سے جاگا تھا اور وہ تیش میں اندر داخل ہوا زولفقار صاحب اس بات سے انجان کہ وہ انکی بات سن چکا ہے خوشی سے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوئے۔
"آؤ میرے شیر،،تم نے آج دل خوش کردیا اللہ تمھیں بری نظروں سے محفوظ رکھے۔"زولفقار اسکے قریب آنے لگے تو اس نے جھٹکے سے خود کو پیچھے کیا زولفقار جاہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"اور آپکے شر سے بھی محفوظ رکھے۔"میران نے جبڑے بھینچے،سر ہلاتے لفظ جما کر کہا۔شمس کے دماغ کی جیسے بتی جلی اس نے حلق میں پھنسی گھٹلی نگلی...ہاں میران بابا سب سن چکے تھے۔
"کیسی باتیں کر رہے ہو دماغ خراب ہوگیا ہے کیا؟"وہ بھی غصے سے پھنکارے۔
"دماغ ہی تو خراب تھا جو آپکی باتوں پہ عمل کرتا تھا اور اگر ابھی آپکی باتیں نا سنتا تو ممکن تھا کہ آئیندہ بھی یہی کرتا۔واہ زولفقار صاحب آپ نے اپنے بیٹے کو ہی استعمال کرلیا۔آپ کو کیا لگتا ہے میں آپکی باتوں میں آیا تھا؟نہیں زولفقار صاحب میں تو اس معصوم کو آپ سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔مجھے امید نہیں تھی میرا باپ مجھے آزمانے کے لیے یہ طریقہ نکالے گا۔ایسے کام کرتے ہی کیوں ہیں جو آپکو ڈر ہے کہ میں بغاوت کرجاؤنگا۔"
وہ انتہائی غصے میں تھا اور بلند آواز میں زولفقار صاحب سے آج پہلی بار اس طرح مخاطب ہوا تھا۔تمام ملازمین گھبرا کے ایک جگہ جمع ہوچکے تھے۔سب کے لیے یہ حیران کن بات تھی کہ میران بابا زولفقار سائیں سے اتنی بلند آواز میں بات کر رہے ہیں۔
"تم اپنی حد سے بڑھ رہے ہو میں نے کچھ غلط نہیں کیا تم میرے بیٹے ہو میرا تم پہ پورا حق ہے اور یہ تمھاری بہتری کے لیے ہی کیا ہے۔"
وہ اپنے غصے پہ قابو پاتے ہوئے بولے تو میران نے استہزاء سے اپنے بازو ہوا میں بلند کیے اور ہنسا۔
  "کیا بہتری ہے اس میں؟یہ کہ میں جانور بن جاتا....بے حس!جو عورت کی عزت خراب کرے؟"وہ دوبدو بولا۔لہجہ اونچا تھا۔اس نے گہری سانس لی۔
"میں اس لڑکی کو چھوڑ رہا ہوں وہ اپنے باپ کے ساتھ ہی رہے گی آپ کو اپنے پیسے مبارک۔اب خود ہی اپنے پیسے نکلوائیں میں آپکے معاملات میں اب کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔"وہ صاف گو ہوا زولفقار نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔
"تم اسے نہیں چھوڑ سکتے!اب جب شنواری کی کمزوری ہمارے ہاتھ لگی ہے تو تم یہ باتیں لے کر بیٹھ گئے بھولو مت وہ دھوکے باز ہے ہمارے پیسے ہڑپنے کی کوشش کرنے والا!"زولفقار نے اسے کندھوں سے تھام کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے باور کروایا۔میران نے انکے ہاتھ آرام سے اپنے بازوؤں سے ہٹائے۔
"دھوکے باز تو آپ بھی نکلے!مجھے سب یاد ہے اسی لیے کہہ رہا ہوں آپ کوئی دوسرا طریقہ نکال لیں میں اس لڑکی کو مزید قید نہیں کرسکتا اور نا ہی کسی کو حق دونگا کے اسے تکلیف پہنچائے۔"
"میران جاہ پہلے بھی تو یہی لڑکی تھی اب ایسا کیا ہوگیا ہے جو تم اتنا بدک رہے ہو۔"وہ تیش میں آئے بولے اور اسے سخت نظروں سے دیکھا۔
"وہ لڑکی کوئی اور نہیں میری محبت ہے رومائزہ احتشام شنواری۔جو اس گھر کی بہو بنے گی۔"وہ ضبط سے کہتا ہوا چکر کاٹ کے اپنے ہاتھ کی مٹھی دیوار پہ مارتا ہوا بولا۔اسکے دماغ کی شریانیں پھول کر ماتھے میں نمودار ہوچکی تھیں...چہرہ پورا سرخی میں مائل تھا آنکھوں میں گویا لہو لپک آیا ہو۔وہ شارٹ ٹیمپر ہر گز نہیں تھا پر باپ نے اسے آج مجبور کردیا تھا۔
"کیا بکواس کر رہے ہو؟وہ ٹکے کی لڑکی اسکو تم اپنی محبت کہہ رہے ہو۔"
اس لڑکی سے محبت کا سن کر ہی زولفقار صاحب کا دماغ غصے سے ابل پڑا تھا وہ یہ بات تسلیم ہی نہیں کرپارہے تھے کہ انکا بیٹا کسی معمولی لڑکی سے محبت کر بیٹھا ہے۔
"بس ایک لفظ مزید نہیں بولیے گا۔وہ میرے لیے عزت کے قابل ہے اور آپ بھی۔آپ ٹھیک ہیں ہمیشہ کی طرح میں غلط ہوں،سہی ہے۔۔پر اسکے لیے ان لفظوں کا استعمال مت کریں۔میں آپ پہ برہم ہوا مجھے معاف کردیں۔پر میں اسے مزید اپنی ذات سے تکلیف نہیں پہنچا سکتا...میں اسے چھڑوا رہا ہوں اور آپ کے یہ آدمی اسکے پیچھے نہیں جائینگے۔"وہ غصے پہ جبر کرتا آرام سے بولا زولفقار جاہ کے تیور بگڑے۔
"مطلب تم ایک لڑکی کے لیے اپنے باپ سے لڑ رہے ہو۔"
"ہاں بلکل۔"وہ یخلت بول کے مڑا۔
"اس لڑکی کے لیے تم سب بھول بیٹھے ہو اور اس گھٹیا آدمی کو اپنا سسر بنانے کا سوچ رہے ہو۔یاد رکھو وہ لڑکی اس گھر کی بہو کبھی نہیں بن سکتی اسکا خیال اپنے دماغ سے نکال دو۔"وہ بے حد سفاک ہوئے میران کے اندر جیسے کوئی آگ سی لگی تھی وہ پلٹا۔
   "یہ بات آپ اپنے زہن سے نکال دیں گے کہ وہ بہو نہیں بن سکتی۔"وہ بھی انکے انداز میں بولا۔
"اسکا باپ ہمارا مقروض ہے کیسے تم دیوانے بن رہے ہو!بہت ہوگیا جاہ!جاؤ اب آرام کرو صبح سے مصروف تھے اور اس لڑکی کا خیال ذہن سے نکال دو۔"وہ سب بھولتے ہوئے بے حد عام سے انداز میں بولے تھے جیسے ان دونوں کے درمیان کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
"میں اپنی بات پہ قائم ہوں اسے خود اسکے باپ کے حوالے کر آؤنگا۔اور مجھے سب یاد ہے بس میں خود کو اس معاملے سے دور رکھنا چاہتا ہوں اور رومائزہ شنواری کو بھی!"
اسکا باپ غلط تھا وہ اس بات کو اب بھی مانتا تھا۔
"ٹھیک ہے جو مرضی کرو پر یاد رکھنا اب میں اس لڑکی کو نہیں چھوڑونگا جس نے میرے بیٹے کو اپنے جال میں پھنسا کے میرے سامنے لڑنے کے لیے کھڑا کردیا ہے۔"
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟آپ کچھ نہیں کریں گے وہ معصوم ہے کچھ بھی نہیں جانتی اس بارے میں۔"
"وہ تمھیں اپنا دیوانہ بنا چکی ہے کیسے معصوم ہوئی؟شنواری نے دیکھو بیٹی کو مہرا بنا کر کیسے پاسا پلٹنے کی کوشش کی ہے۔"وہ بہت آگے کی سوچ رہے تھے۔
"اس نے کچھ نہیں کیا یہ سب آپ ہی چاہتے تھے۔"
"میران وہ تمھارے قابل نہیں اپنے زہن سے اسکا بھوت اتار دو کہیں بعد میں پچھتانہ نا پڑے۔"زولفقار جاہ نے اٹل لہجے میں کہا میران کا قہقہہ بلند ہوا۔
"آپکی دھمکیاں مجھے واقعی ڈرا رہی ہیں تو اب آپ دیکھیں اسکی حفاظت میں کیسے کرتا ہوں۔اور یہ کوئی بھوت نہیں میری محبت ہے اور پچھتائیں گے وہ جو غلط کا ساتھ دے رہے ہیں۔"وہ کہتا ہوا شمس پہ جو ایک جانب سر جھکائے منہ بند کیے کھڑا تھا اس پہ غصیلی نگاہ ڈالے کمرے سے تن فن کرتا باہر نکل گیا..باپ کا کہا مان کے وہ خوب پچھتاوے کا شکار تھا۔  
  اسکے جانے کے بعد پیچھے وہ دونوں وجود ہکابکا تھے۔ان کے خوشی کے دن کا اختتام بڑی بری طرح سے ہوا تھا انھوں نے جو سوچ کے یہ کام میران کے سپرد کیا وہ ہو تو گیا پر اختتام اسی بات پہ ہوا جنکا انھیں خدشہ تھا۔
                             ★ ★ ★
میران زولفقار صاحب کے کمرے سے تیش و غضب کے تیور لیے باہر نکلا تھا۔اسکے وجود میں شرارے پھوٹ رہے تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسکا باپ جسے وہ بابا سائیں کہتے تھکتا نہیں تھا اس حد تک گر جائیں گے اسے آزمانے کے لیے ایک لڑکی کو مہرہ بنائیں گے اور وہ اپنے بیٹے کو آزما رہے تھے؟دل میں کئی ٹھیسیں اٹھنے لگی تھی۔رہ رہ کے اسے خود پہ غصہ آرہا تھا کہ وہ انکی باتوں میں آگیا۔وہ خود کوئی اور راستہ نکالتا پر اب صرف کاش کی گنجائش تھی۔ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا اب جو ہوگیا اسے ٹھیک کیسے کرنا ہے اسکی اگلی حکمت عملی یہی تھی۔
  کمرے کی راہداری سے نکل کر جب وہ بیٹھک کی جانب آیا تو تمام ملازموں کو دائرہِ گول کی شکل میں پایا۔فرید نے فوراً آگے بڑھ کے اسے کھانے کے بارے میں استفسار کیا تھا۔
"سائیں کھانا لگا دوں؟"وہ جانتا تھا وہ صبح کا بھوکا گھوم رہا ہے میران نے لب پیوست کیے اس پہ سلگتی نگاہ ڈالی فرید کی جان وہیں آدھی ہوگئی۔دوسرے ملازم نے اسکے لڑکھتے وجود کو پیچھے سے تھاما میران ان سب پہ غصے سے بھرپور نظر ڈال کے باہر لان میں چلا آیا۔
عزیز اسے گاڑی کے پاس کھڑا ہی ملا تھا میران نے ایک نظر آسمان کو دیکھا پھر گہری سانسیں لے کر خود کو سنبھالا اور اپنی مخصوص چال چلتا ہوا گاڑی تک پہنچا۔
"اب کہاں؟"تھکن کے مارے عزیز کا برا حال تھا پر میران اسکو اپنی پرواہ نہیں تھی صبح سے کسی نے کسی کام میں پھنسا تھا۔
"شنواری کے گھر۔"تحمل سے کہتے ہوئے وہ ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ کی جانب گیا اور دروازہ کھول کے بیٹھ گیا۔
"ہم وہاں کیوں جارہے ہیں؟"
عزیز کو بے حد تشویش ہورہی تھی میران نے کہنی کھڑی سے ٹکالی نینوں کے ڈورے سرخی میں مائل تھے۔
"کچھ پوچھنا ہے شنواری سے۔میں اب خود یہ معاملہ حل کرنا چاہتا ہوں ایک بار تمھارے ذمے ڈال کے انجام بھگت رہا ہوں۔"چھوٹے جاہ کی بات سن کر عزیز شدید حیران ہوا تھا آخر ایسا کوئی آگیا تھا جس کی وجہ سے میران جاہ عزیز پہ بھی برسنا شروع ہوچکا تھا۔
میران نے باقی کے تمام راستے زولفقار صاحب کی سچائی عزیز کے سامنے کھول کے بیان کردی تھی وہ چپ چاپ سنتا رہا۔میران کی حالت دیکھ کر اسے دل سے بہت برا لگ رہا تھا۔زولفقار صاحب سے تو وہ خود اچھے کی امید نہیں رکھتا تھا اسے اندیشہ تو تھا پر وہ میران کے باپ تھے اور وہ دونوں کے درمیان بولنے کی جرت نہیں رکھتا تھا اسے اپنی حدود یاد تھیں۔
    مخصوص مقام پہ عزیز نے گاڑی روکی...گاڑی کے پہیوں کی چرچراہٹ سے میران نے اپنی موندی ہوئی آنکھیں کھولیں اور ناک انگلی کی پشت سے رگڑتا ہوا گاڑی سے اترا۔
یہ جگہ کوئی کالونی سی معلوم ہو رہی تھی جہاں کچھ اپارٹمنٹ اسکے گرد قائم تھے کچھ فلیٹس کی صورت میں اور کچھ چھوٹے عام گھروں کی طرح اپارٹمنٹ تھے۔میران عزیز کے ہمراہ دروازے سے داخل ہوتا ہوا کسی اپارٹمنٹ کے باہر آن رکا تھا۔
اس نے ایک نگاہ کلائی پہ بندھی واچ پہ ڈالی۔رات گیارہ بجا رہی تھی چاند کی روشنی اور اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں یہ جگہ روشن تھی منظر دل کو سکون پہنچا رہا تھا۔ٹھنڈی ہوا دل کو چھو رہی تھی۔
   کچھ دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد ایک عمر رسیدہ خاتون نے دروازہ کھولا۔وہ خاتون میران جاہ کو سامنے دیکھ کر خود ہی دروازے سے پیچھے ہوکے راستہ دے چکی تھیں دماغ حیرت کا شکار تھا لفظوں نے گویا منہ میں ہی دم توڑ دیا ہو۔
میران مغرورانہ چال چلتے ہوئے کف کھولتا ہوا اندر بڑھا راہدری کے ختم ہوتے ہی لاؤنچ قائم تھا۔احتشام شنواری سر صوفے سے ٹکائے بیٹھے تھے میران کو دیکھتے ہی اپنے غصے پہ قابو نہ پاسکے اور چند پل میں انھوں نے اپنے اور اسکے درمیان کا فاصلہ ختم کیا۔
"ظالم آدمی تم لوگوں نے میری بیٹی کو کہاں رکھا ہے؟"
وہ اشتعال سے اسکے گریبان پکڑنے لگے تھے، میران اطمینان سے ہاتھ پیچھے کی جانب باندھے سنجیدگی سے انکو تکتا رہا۔
عزیز نے فوراً آگے بڑھ کے احتشام صاحب کو ایسا کرنے سے روک لیا۔میران نے بغور انکا جائزہ لیا۔
"شنواری صاحب بیٹھ جائیے۔میں یہاں کوئی بدمزگی پیدا کرنے نہیں آیا ہوں۔اور مجھ پہ چلّانے سے بہتر ہے اپنے گریبان میں جھانکیے۔یہ سب جانتے ہیں نا کیوں ہو رہا ہے!اور اچھے سے جانتے ہیں ایک بیٹی کے باپ ہیں پھر کیوں اتنی لاپرواہی بلکہ دھوکہ بازی!"وہ حقیقت منہ پہ بولتا تھا احتشام شنواری نے گہری سانس بھری میران یک ٹک ان پہ نظریں جمائے صوفے سے پشت ٹکائے بیٹھ گیا۔ماحول میں خاموسی سی چھائی ہوئی تھی۔
"میں نے دھوکہ نہیں دیا.."وہ سامنے صوفے پہ بیٹھ گئے۔بہت تھکے ہوئے معلوم ہورہے تھے۔شکستہ دل!
"عزیز انھیں ریکارڈنگ سناؤ۔"اس نے کہنی صوفے کے بازو پہ جما کر ماتھا انگلی سے چھو کر کہا۔وہ نا چاہ کر بھی تمیز سے پیش آرہا تھا کیونکہ وہ رومائزہ کے والد تھے پر اب انکے بل کسنے بھی تو تھے!
عزیز نے فوراً ریکارڈنگ آن کردی جس میں احتشام صاحب نے کھلے لفظوں میں پیسے دینے سے انکار کیا تھا اور یہ سب کیوں کہا تھا یہ وہی جانتے تھے۔وہ کھٹکے سے جگہ سے کھڑے ہوئے۔
"مجھے شمس نے مجبور کردیا تھا جبھی میں نے ایسا کہا۔میں چاہتا ہوں قرض ادا کردوں یہ میرے کندھوں تلے بوجھ ہے اسے اتارنا چاہتا ہوں،پر فلحال میں خالی ہاتھ ہوں فیکٹری گھاٹے میں جا رہی ہے کوئی منافع نہیں اتنی سیوونگز بھی نہیں کہ مکمل قرض چکا دوں۔کچھ وقت مانگ رہا تھا حالات کے ٹھیک ہوتے ہی قرضا اتار دونگا پر شمس نے آئے دن فون کرکے دھمکانا شروع کردیا تھا اور میں نے غصے میں ایسا کہہ دیا۔مجھے کیا علم تھا وہ بات کہیں کی کہاں لے جائے گا۔"انکی پوری بات میران نے تحمل سے سنی اور آخر میں اسکے تیور بگڑے۔
    "عمر ہوگئی ہے آپکی سوچ سمجھ کے بولنا چاہیے تھا۔اور وہ ٹھیک ہی سمجھا کوئی فون پہ ایسے جملے ادا کرے تو اسکا کیا مطلب سمجھا جائے گا؟وقت پہ پیسے چکا دیتے تو اتنا مسئلہ ہوتا ہی نہیں۔"وہ ہنکارا تھا مقابل بھی شرمندہ تھے۔
"میران جاہ آپ یہاں یہ باتیں کرنے آئے ہیں؟میری بیٹی ناجانے کس حال میں ہوگی آپ کو جو کرنا ہے میرے ساتھ کیجئے اسے چھوڑ دیں وہ کچھ جانتی بھی نہیں۔"
ساری عمر جس باپ نے اپنی اولاد کو لاڈ سے پالا تھا آج جب وہ ان سے دور کردی گئی تو وہ سنبھل نہیں پارہے تھے بڑے ضبط سے وہ میران کے آتش جملوں کا سامنے کر رہے تھے۔
"ٹھیک ہے وہ!میں یہی بتانے آیا ہوں اسکی فکر نہ کریں وہ جہاں بھی ہے ٹھیک ہے اور وہ کچھ وقت آپ سے دور ہی رہے گی۔آپ میرے باپ کا قرضہ ادا کریں اور میں اسے چھوڑ دونگا۔"
"کک کیا مطلب؟اسکے لیے مجھے کچھ وقت درکار ہے۔مجھے میری بیٹی ابھی چائیے۔"
"اور میں بھی کہہ چکا ہوں وہ آپکے پاس محفوظ نہیں۔میرا باپ آپکا دشمن بن چکا ہے اور بدلے میں وہ رومائزہ کو نقصان پہنچائیں گے وہ جانتے ہیں وہ آپکے پاس واحد ایسی چیز ہے جس میں آپکی جان بستی ہے۔مجھے انکے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں میں بس اسے محفوظ دیکھنا چاہتا ہوں اور اس لیے وہ وہیں رہے گی جہاں میں اسے رکھونگا۔"وہ سرد مہری سے ٹہر ٹہر کے بولا۔عزیز نے میران کو دیکھا تھا احتشام صاحب نے لب پیوست کیے۔
"اور آپکو میری بیٹی کی اتنی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔میں اسکی حفاظت خود کرسکتا ہوں۔"وہ دوبدو بولے۔
"وہ تو میں دیکھ چکا ہوں آپ اسکی کتنی حفاظت کر چکے ہیں۔"وہ سنجیدگی سے جتاتا ہوا سیدھا ہوا۔
"میں سمجھنے سے قاصر ہوں آپکو اسکی اتنی پرواہ کیوں ہے؟"سوال کرتے ہی احتشام صاحب کے دماغ نے کچھ سگنلز دیے تھے پر وہ جواب کے منتظر تھے۔
   "انسانیت کی خاطر!میں عورت ذات کی بہت عزت کرتا ہوں اور دوسرا یہ کہ وہ میری ہے،اس نے میرے پاس ہی آنا تھا اب بھلے ایسے ہی سہی۔"وہ کمال اطمینان سے مسکراہٹ روکتا ہوا بولا اور جگہ سے کھڑا ہوگیا۔شنواری صاحب کو یہ بات پسند بلکل نا آئی بلکہ ناگوار گزری تھی۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟میری بیٹی پہ بری نظر مت رکھیے گا میں مجبور بے شک ہوں پر بے غیرت نہیں وہ کرجاؤنگا جسکا آپکو گمان بھی نہیں۔"
"انفف از انفف!"میران غصے سے غراتا ان پہ جھکا۔
"محبت کرتا ہوں اس سے،گڑیا گڈے کا کھیل نہیں!اچھے سے جانتا ہوں اسکی حفاظت کیسے کرنی ہے۔آپکو پولیس یہ وہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں کوئی آپکی مدد نہیں کرسکے گا۔میری مان لیں صرف پیسوں کا بندوست کریں۔آپکی بیٹی محفوظ ہے اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔"میران نے غصے پہ قابو پا کر مصلحت بھرا انداز اپنایا۔اسکی آنکھیں اسکے لفظوں کی سچائی کی گواہ تھیں شنواری صاحب واپس صوفے پہ ڈھ گئے۔
"آپکو کیا لگ رہا ہے میں ہر کسی سے ایسے بات کرتا ہوں؟آپ اسکے والد ہیں اسلیے نہ چاہتے ہوئے بھی ضبط سے کام لے رہا ہوں۔وہ میرے لیے بہت خاص ہے میں اسے ہر گز تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔"
"پھر اغوا کیوں کروایا؟"انھوں نے دوبدو پوچھا۔
"مجھے علم نہیں تھا رومائزہ تمھاری مطلب آپکی بیٹی ہے۔"اس نے صاف گوئی سے کہہ کر ہاتھ پیچھے کو باندھ لیے۔عزیز نے شنواری صاحب کو مختصر کرکے سارا واقعہ بتایا۔انکے پاس اب میران پہ یقین کرنے کے علاوہ اور کوئی اوپشن نہیں تھا۔
"میرا وعدہ ہے آپکو آپکی بیٹی لوٹا دونگا پر ایک وعدہ آپ بھی کریں جب میں اسے آزاد کرونگا تو اسے اپنے نکاح میں لونگا،اور آپ با خوشی نکاح میں شامل ہونگے۔"وہ ایک وعدہ کرچکا تھا اور دوسرا مقابل سے لینا چاہتا تھا شنواری صاحب خاموش رہے...انکی خاموشی اسے بری نہیں لگی تھی۔
        "آپ میرے بابا کے دشمن ہیں انکے مقروض ہیں پر میرے لیے صرف رومائزہ کے باپ!!اس وقت جو میں جھیل رہا ہوں اسکے بعد مجھے کوئی شوق نہیں اس معاملے میں کودنے کا!
میری نظر میں آپ خود بھی اپنی بیٹی کے مجرم ہیں جب جانتے تھے دشمن اتنا طاقتور ہے تو کیوں اس سے الجھ بیٹھے غلطی آپکی ہے میرے بابا کے ساتھ مجرم آپ بھی ہیں۔اور میں اپنے مجرموں کو خود سزا دیتا ہوں۔مبارک ہو آپکو اپنی بیٹی سے دوری!"پتھریلے انداز میں کہتا زرا فاصلے پہ ہوا۔احتشام نے اس سنگدل کو دیکھا۔
وہ یہاں صرف انکو رومائزہ کے حوالے سے مطمئن کرنے اور ساری سچائی شنواری کے منہ سے سننے کے لیے آیا تھا کہیں اس میں بھی زولفقار صاحب کی مکاری شامل نہ ہو۔
"ٹھیک..پر میران صاحب میری بیٹی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔"میران جب گھر سے نکلنے لگا تو شنواری صاحب نے کہا وہ نکاح والی بات پہ راضی نہیں تھے پر میران کے لہجے میں ایسا کچھ تو تھا جو وہ اسے قبول کرنے سے انکاری نہیں ہوئے تھے۔
"مجھے اپنی چیزوں کی حفاظت کرنی آتی ہے۔"
آنکھوں سمیت یخ لہجے میں شنواری صاحب کی بات کا جواب دے کر اسی انداز میں گیا جس انداز سے وہ یہاں آیا تھا۔
میران سے بات کرنے کے بعد احتشام صاحب کا دل جو بے سکون تھا اب کہیں جاکے دل میں اطمینان سا اتر آیا تھا۔ہاں وہ اس پہ بھروسہ کر رہے تھے انھیں معلوم تھا میران زولفقار جاہ جیسا نہیں اور ایسا پوری دنیا جانتی تھی اسکی مغرور طبیعت سنجیدہ مزاج ضرور تھی پر نرم دلی بھی اسکی طبیعت کا اہم حصہ تھی۔
   "اب کیا کرنا ہے سائیں؟"عزیز کالونی کے دروازے سے نکلتے ہوئے اسکے پیچھے قدم لیتے ہوئے بولا میران نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر گہری سانس بھری گویا دل ہلکا کرنے کی ناکام سی کوشش۔
"اب جیسا میں کہہ رہا ہوں وہ کرو۔"سرعت سے کہتا وہ گاڑی کا دروازہ کھول کے بیٹھا چند لمحوں میں گاڑی کا دھواں فضا میں ایک ہوگیا۔
                            ★ ★ ★
گاڑی ویران راستوں سے گزرنے کے بعد کسی خوبصورت سے علاقے میں داخل ہوئی تھی رات کی اندھیری میں بھی سڑک پہ لگے پولز کی گول بتیاں اس راہداری کو روشن کیے ہوئے تھیں جو ایک قریب ہی فارم ہاؤس پہ رکتی تھیں۔
رومائزہ مسلسل خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی اسکے ہاتھ رسیوں سے بندھے تھے اور آنکھوں پہ کالی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ایک لڑکی اسکے سر پہ بندوق رکھے اسے قابو میں رکھے ہوئے تھی۔گاڑی جب کسی بڑے سے فارم کے دروازے پہ رکی اس لڑکی نے رومائزہ کی آنکھوں سے پٹی کھول دی دو تین بار پلکیں جھپکنے کے بعد اس نے گاڑی کے شیشے سے باہر جھانکا تو اسکی سانس حلق میں ہی اٹک گئی۔
"یہ کہاں لے آئے ہو مجھے؟"
اسکا دم خشک ہوا۔
رومائزہ کے علاوہ گاڑی میں دو لڑکیاں اور ڈرائیور موجود تھا۔ایک نے گاڑی سے اتر کے اسے اترنے کا کہا تھا تو وہ پیچھے کو ہوتی ہزیانے پن سے چیخی۔
"چپ چاپ اندر چلو تم!"اسکے برابر میں بیٹھی لڑکی نے گن اسکے سر پہ جمائی تو وہ کھسیانی سی ہوکر انکی بات مانتے ہوئے نیچے اتری آنکھوں کے ڈیلے مسلسل چاروں سمت ناچ رہے تھے جیسے جگہ حفظ کر رہے ہوں۔
سیکورٹی گارڈ نے دروازہ کھولا وہ لڑکیاں رومائزہ کو بازوؤں سے تھام کے زبردستی لے کر چل رہی تھیں اور وہ اپنی مکمل کوشش میں تھی کہ جان چھڑا کے کہیں بھاگ جائے۔
پہلے تو بڑا خوبصورت سا لان تھا جسکی راہداری سے گزر کے وہ اس ہاؤس میں داخل ہوئیں تھیں۔
     اندر کا منظر بے حد خوبصورت اور پرکشش تھا ہر چیز اپنی جانب زہن مرعوب کر رہی تھی دروازے کے کھلتے ہی بڑا سا ہال نما لاؤنچ تھا جسکے گرد گول دائرے میں جامنی صوفے بچھے تھے کونوں میں بڑے واس دیواروں پہ بے جا چھوٹی لیمپ نما بتیاں!!جدید لک پہ فارم ہاؤس کا انٹیریئر تھا۔
رومائزہ نے جیسے ہی نگاہیں اٹھا کر سامنے دیکھا اسکی آنکھوں میں مزید حیرت امڈ آئی۔لب بے ساختہ وا ہوئے دل کے کسی کونے میں انہونی کا احساس جگمگایا۔
ہال کے درمیان میں کانچ کا فانوس اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا ایک طرف شیشے سی دیوار تھی شاید وہ بڑی دروازہ نما کھڑکیاں تھیں جو لان کا منظر پیش کر رہی تھیں اور انکے کناروں پہ کریم رنگ کے جھالر لٹک رہے تھے ایک طرف کالے رنگ کا زینہ دوسرے فلور پہ کھل رہا تھا رومائزہ کی نظریں واپس پلٹ آئیں جہاں فانوس کے نیچے میران جاہ صوفے پہ تمام تر وجاہت کے ساتھ براجمان تھا۔
    میران کو اس طرح یہاں دیکھ کر اندر ہی کہیں بے شمار خدشے جاگ گئے۔رات کا ناجانے کونسا پہر تھا اسے تو وقت کا بھی معلوم نہیں تھا اچھی خاصی پارک کے لیے شام کے وقت نکلی تھی اور اچانک زندگی نے جو پاسا پلٹا وہ خود گھوم کے رہ گئی۔
وہ لڑکیاں اسے عین صوفوں کے قریب لے گئیں کچھ دور عزیز اور ایک عمر رسیدہ خاتون بھی موجود تھیں جو اس پورے واقعے سے انجان تھیں۔
"ویلکم رومائزہ شنواری۔"میران نے جگہ سے اٹھ کے بازو کھول کے اسکا استقبال کرتے کہا۔رومائزہ کی آنکھیں چندھیا گئیں میران کے اشارے پہ ان لڑکیوں نے رومائزہ کو اپنی گرفت سے آزاد کیا تھا اور آزادی ملتے ہی رومائزہ میران کی جانب خونخوار انداز میں لپکی۔
"ہاؤ ڈئیر یو میران جاہ؟کیا ہے یہ سب؟"
رسیوں میں جکڑی کلائیوں کی پرواہ کیے بنا ہی وہ اس پہ حملہ آور ہوئی تھی بدلے میں چوٹ اسی کو لگ چکی تھی۔میران نے جھٹکے سے اسکی کلائی تھام کے رسی پوری کھول دی۔وہ اب بھی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھی۔اسکے ساتھ ہو کیا رہا تھا اور کیوں ہورہا تھا؟اتنے سوال اور جواب دینے والا اسکے سامنے تھا جو قابل دید آنکھوں میں چمک لیے اطمینان سے کھڑا تھا۔
  ماحول کی سنجیدگی بھانپتے ہوئے رومائزہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی وہ خود بخود قدم لیتے ہوئے پیچھے ہوئے میران کے لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
"حلیمہ بی یہ محترمہ چند دن کی ہماری مہمان ہیں انکی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہیں کیجئے گا۔"میران قدم بڑھاتا ہوا اسکی طرف بڑھا رومائزہ کے دل کی دھڑکن نے رفتار پکڑی۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟مجھے کیوں اغوا کیا ہے میری اور تمھاری کوئی دشمنی تو نہیں!بتاؤ میران جاہ بتاؤ!تمھیں پیسے چاہیے کیا؟میرے بابا دے دینگے پر مجھے چھوڑ دو۔"
وہ غصے سے چلاتی اسکا گریبان جھنجھوڑ چکی تھی عزیز نے آگے بڑھ کے اسے ہٹانا چاہا تو میران نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک لیا۔
"ہاں ہماری کوئی دشمنی نہیں بلکہ..."
اسکے چلانے پہ وہ بے ساختہ دل کی بات زبان پہ لانے سے گریز کرتا ہوا خاموش ہوگیا مبھم سی مسکراہٹ سائے کی طرح پھیل کر واپس غائب ہوگئی۔رومائزہ نے پھٹی نظروں سے اسے دیکھا 'بلکہ' کہ آگے کیا؟وہ اندر کہیں ڈر رہی تھی اپنی عزت کے مٹی میں ملنے کا احساس اسے خوف دلانے لگا۔
"تم ایک نمبر کے گھٹیا آدمی ہو جو ایک شریف لڑکی کو منہ اٹھا کہ اغوا کروالیتا ہے اور جو تم چاہ رہے ہو نا وہ میں ہونے نہیں دونگی۔میں ان لڑکیوں میں سے نہیں جو تمھارے آگے پیچھے ڈولتی ہیں اور تمھاری توجہ کے لیے اپنی حدیں مٹادیتی میں رومائزہ احتشام ہوں اگر مجھے ہاتھ بھی لگایا تو...."وہ غصے میں پھنکار رہی تھی اور اسکا جملہ بیچ میں ہی میران کی دھاڑ پہ ادھورا رہ گیا۔
"شٹ اپ!مجھے دوسرے بھڑیوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کیا!!کچھ کہہ نہیں رہا تو یہ نہیں کہ بکواس کیے جاؤ ایک لفظ اب منہ سے نہ نکالنا ورنہ گدی سے زبان کھینچ نکالونگا۔"اسکی دھاڑ پہ وہ سہم کے پیچھے ہوئی پھر ایک بار مزید جوش کے بل چلائی۔
"اور تم کر ہی کیا کرسکتے ہو میں خاموش نہیں ہونگی مجھے گھر جانا ہے...گھٹیا آدمی!! تم بھی دوسرے پولیٹیشنز کی طرح نکلے کیا کمال تم نے اداکاری کا ناٹک سب کے سامنے رچایا ہوا ہے۔"وہ غصے سے لبریز بڑے ہی سخت جملوں کا استعمال کرتی میران کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچا رہی تھی میران کے ماتھے کی رگیں تن آئیں۔نظر بھر رومائزہ دیکھا۔
"اسٹاپ دس نان سینس سلی گرل۔"
میران نے گن نکال کر رومائزہ پہ جھکتے ہوئے اسکے سر پہ رکھی۔وہ اسکی ذات کے اوپر کیچڑ اچھال رہی تھی بلکہ اپنے اندازے لگا رہی تھی جو سن کے وہ بے قابو ہوچکا تھا۔
"آئی ول ناٹ!یو بلڈی..."
    اسکی آنکھوں میں دیکھ کر وہ ہزیانی سی چلائی۔میران کی آنکھوں میں سرخی تیر گئی ہال میں موجود ہر شخص ساکت تھا۔عزیز پہ حیرانی کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے یہ چھٹانک بھر لڑکی چھوٹے جاہ کے آگے اتنا کچھ بول رہی تھی اسکے آگے تو اچھے اچھے خاموش ہوجاتے تھے۔یہ لڑکی وہ جامعہ میں تقریر سنانے والی ہر گز نہیں معلوم ہورہی تھی۔
میران نے بازو میں اسکی گردن بھر کے گن اسکے سر پہ تانی۔
"اپنی زبان کو لگام دو۔مجھے سختی کرنے پہ مجبور نا کرو عزت سے کہہ رہا ہوں یہاں کچھ دن رہو۔اور اب اگر ایک لفظ اور نکالا تو بندوق خالی کرنے میں دیر نہیں کرونگا۔"لفظوں کو جما جما کے بولتے ہوئے آخر میں اس نے جبڑے بھینچے اور جھٹکے سے اسکی گردن آزاد کرکے واپس گرفت میں لی۔وہ گہری گہری سانسیں لے کر چکراتے سر سے اس بپھرے شیر کو دیکھنے لگی۔
"کیوں رہوں میں یہاں؟دماغ خراب ہے جو یہاں رہوں!"میران کی گرفت میں مچلتی ہوئی وہ چیخی اور اپنی گردن آزاد کروانے کے لیے اسکے ہاتھ پہ ناخن گڑا چکی تھی پر وہ شاید فولاد سے بنا تھا جسے رتی برابر فرق نا پڑا ہو۔
"رہنا پڑے گا!"
"کیوں؟"وہ مزید بلند آواز میں بولی میران نے جھٹکے سے اسے سامنے کیا اور گردن کی پشت ہتھیلی سے پکڑی پر گرفت بہت نرم تھی اب رومائزہ کا چہرہ بلکل اسکے سامنے اور قریب تھا۔
"کیونکہ تمھاری جان کو خطرہ ہے اور اب خبردار جو تمھاری آواز نکلی تو یہ گن چلانے میں دیر نہیں لگاؤنگا۔"سرخ آنکھیں اسکی بڑی آنکھوں میں ڈالتے ہوئے غصے سے کہا۔میران کی بات رومائزہ کے پیروں تلے بجھی اور اسکی دھمکی کو کسی خاطر میں نا لاتے ہوئے بولی۔
"ہمت ہے تو چلاؤ گولی میں ڈرتی نہیں ہوں...جان سے زیادہ مجھے عزت عزیز ہے۔۔شوٹ می ناؤ!"
اب کی بار وہ چیخی نہیں تھی مدھم آواز میں غراتی ہوئی بولی اسے طرح طرح کے خوف نے گھیرے میں لے رکھا تھا پر اکڑ اپنی جگہ برقرار تھی۔
لمحوں میں اسے میران سے شدید نفرت محسوس ہوئی تھی باہر کس سے خطرہ ہونا تھا ابھی تو یہی میران جانی دشمن بنا تھا اور بھلا کس سے اسے خطرہ ہوسکتا ہے میران کی بات پہ اس نے بلکل یقین نہیں کیا تھا الٹا اسے یہ سب میران کی سازش لگ رہی تھی۔
"آل رائٹ!!ایز یور وش۔"
میران نے اسکے سر کا نشانہ تان لیا رومائزہ سختی سے آنکھیں میچ گئی زہن نے جیسے تیز رفتاری سے کام کیا تھا وہ لمحوں میں پلٹ کے پیچھے دوڑی اور جو ساتھ میں لڑکی آئی تھی اسکی کالی جینز میں اٹکی گن نکال کر میران کا نشانہ لیا۔یکدم عزیز آگے بڑھا تھا اور رومائزہ کی گن کا نشانہ اوپر کی جانب کیا وہ گولی چلا چکی تھی۔
چھت پہ لگے فانوس سے دور بلب کرچی کرچی نیچے گرا۔
عزیز نے اسکے ہاتھ سے گن چھینی اور صوفے کے پیچھے کھڑی حلیمہ بی کو اسے سنبھالنے کا کہا۔وہ ہٹی کٹی خاتون تھیں جنھوں نے اسکے دونوں بازو پیچھے کو لگا لیا رومائزہ بن آب مچھلی کی طرح تڑپی تھی۔
کانچ کے ٹکرے عین درمیان میں گرے تھے ایک ٹکرا میران کا ماتھا زخمی کر گیا تھا باقی نفوس فاصلے پہ تھے جو نقصان سے بچ گئے تھے۔اپنے زخم کی پرواہ کیے بغیر میران کانچ کے ٹکروں کو جوتوں تلے روندتا ہوا اسکے قریب آنے لگا۔
کسی خاص مقام پہ اس نے دو تین فائر کیے تھے گولیوں کی گونج سے رومائزہ کا وجود کانپ اٹھا۔ایسا محسوس ہورہا تھا گولیاں جیسے اسکا وجود چھلنی چھلنی کر رہی ہوں وہ آنکھیں میچیں اور کانوں پہ ہاتھ رکھ کے چیخ اٹھی۔
"ششش...ڈارلنگ ایسے چلاتے ہیں گولی!خیر یہ بچوں کا کھیل نہیں۔"
میران نے بندوق عزیز کی طرف اچھالتے ہوئے استہزاء سے کہا رومائزہ کو اسکا انداز آگ لگا گیا پر اب وہ ان خاتون کے رحم و کرم پہ کھڑی تھی آنکھیں اب بھی خشک تھیں شاید آنسو بہنے کا راستہ بھول چکے تھے اور دل پہ غبار بڑھتا جا رہا تھا سانس کی رفتار مدھم ہونے لگی۔
میران کا دل واپس بے ہنگم انداز میں دھڑکنے لگا اسے رومائزہ کی دیدہ دلیری بہا گئی تھی پر بدتمیزی پہ سیخ پا ہوا تھا اور اب بکھرتی حالت دیکھ کر وہ نرم پڑنے لگا تھا۔
"چھوٹی سی ہو اتنی خود کو تکلیف مت دو،،حلیمہ بی اسکا خیال رکھیے گا۔اور تم سنو یہاں سے بھاگنے کی کوشش بھی مت کرنا ورنہ جو باہر گارڈز ہیں وہ نشانہ بلکل جگہ پہ لگائیں گے۔"
انگلی اٹھا کے اسے وارن کرتا ہوا وہ پلٹا پر اسکی کہی بات پہ میران کے قدم جم گئے۔
"تم بہت غلط کر رہے ہو میری بد دعا ہے تمھارے کسی اپنے کے ساتھ بھی ایسا ہو تب تمھیں تکلیف کا اندازہ ہوگا۔اب بھی وقت ہے مجھے جانے دو میرے بابا پریشان ہورہے ہونگے۔پلیز مجھے جانے دو۔"وہ یکدم نرم پڑی تھی شاید مقابل کے دل میں رحم آجاتا میران نے لب پیوست کیے سرد مہر انداز میں پلٹ کر دیکھا۔
اسکے مطابق وہ ظالم ان سنی کرچکا تھا پر اسکی بد دعا سن کے میران کا دل کسی نے شکنجے میں جکڑا تھا۔کسی نے جیسے زمین پہ لا پٹخا ہو اسکی قریبی اپنی اب صرف وہی تو تھی جسکی محبت میں وہ گرفتار ہوا تھا۔دو ماہ میں وہ محبت کا سفر طے کرچکا تھا اور وہ جو اس گھڑی تکلیف برداشت کر رہا تھا اسکا اندازہ کسی اور کو ہونا بھی کیسے تھا۔
     "ظالم ہو تم سفاک مغرور!نفرت کے قابل!"آخر اسکی زبان سے یہ لفظ ادا ہوئے تھے اور وہ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ ہوش سے بیگانہ حلیمہ بی کے ہاتھوں میں جھول گئی۔
میران وہاں ٹھہرا نہیں تھا تیزی سے مٹھیاں بھینچے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل آیا کھلے آسمان کے نیچے کھینچ کر سانس لی،آسمان پہ نگاہ ڈالی ملگجی بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا ہوا چودیں کا چاند بھی اسے اپنی حالت پہ ہنستا ہوا محسوس ہوا۔
رومائزہ کے لفظوں نے اسے جھنجھوڑ دیا تھا وہ اس سے نفرت کر رہی تھی اسے وہ اس حالت میں کیا سچ بتاتا جو کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
   آج سے پہلے اسے کبھی اتنی بے بسی محسوس نہیں ہوئی تھی اسکے لفظوں نے اسے کوڑی کی مانند کردیا تھا کہ وہ اسے ان دوسرے مردوں کی طرح سمجھ رہی تھی جو حلال اور حرام کا فرق بھلا دیتے ہیں۔رومائزہ کے لفظوں نے اسے توڑ پھوڑ دیا تھا کتنی ہمت لے کر وہ اسکے سامنے گیا تھا کہ کمزور نہ پڑجائے پر اسکی نفرت دیکھ کر وہ آج ہی دوسری بار ریزہ ریزہ ہونے لگا تھا پہلا باپ کی سازشیں اور دوسرا رومائزہ کی نفرت!دونوں نے میران جاہ کی ہستی کو ہلادیا تھا۔
Ehmmm...
Thori long episode thi..
(Mask wala raaz agy khul jayega..BTW it's not a raaz)
Or batein kesi lagi episode?
Ab ap finally Meeran or Romaiza k scenes parh skengy...

Anosh or ayeshy aj ki epi mai ghb thi👀..
Do vote and comments..
Your comments motivate me so much..
JazakAllah..

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now