قسط 7 حصہ دوئم

941 54 16
                                    

معین صاحب مراد کے اچانک فیصلے پہ بھونچکا گئے تھے فوراً ہی کچھ سمجھنے کی حالت میں وہ ویسے ہی نہیں تھے۔انعم بیگم نے معین صاحب کو دیکھا کیونکہ حتمی فیصلہ انہی کے اختیار میں تھا انھوں نے گہری سانس بھری۔
"مجھے کوئی اعتراض نہیں پر عائشے کی رضامندی جاننی لازم ہے۔"والد صاحب کا فیصلہ بھی اچانک تھا وہ مراد کو جانتے تھے اور حالات کے حساب سے جو بہتر لگا اسی کی مناسبت انھوں نے فیصلہ کیا۔
معین صاحب کے اشارے پہ انعم بیگم عائشے کے کمرے میں اسکا جواب لینے پہنچیں۔
"امی ہر گز نہیں۔بابا کیسے راضی ہوگئے!!"ماں کو اندر آتا دیکھا تو وہ دبی آواز میں سر ہلاتی چیخی اور منع کر گئی عجیب وحشت اس پہ طاری تھی۔
"مسئلہ کیا ہے تمھارا اتنا اچھا رشتہ ہے کیوں انکار کر رہی ہو؟"انعم صاحبہ غصے میں اسکو ڈپٹنے لگیں عائشے نے آنکھیں موندیں۔انوش کو بھی رشتہ سہی لگا تھا اسے مراد میں ایمانداری دکھی تھی۔
"بس امی میں نے اب شادی نہیں کرنی۔"جو منہ میں آیا وہ بول گئی تھی پہلا تجربہ بہت برا ثابت ہوا تھا اور فوراً ہی دوسرا جھٹکا وہ قبول نہیں کر پارہی تھی یا شاید کوئی اور وجہ تھی انکار کی۔
"باتیں دیکھو اسکی۔بیٹا جو ہونا تھا ہوگیا۔تمھارے بابا نے پہلے بھی مراد کا زکر کیا تھا کافی اچھا لڑکا ہے۔"وہ اسے پیار سے سمجھانے لگیں عائشے نے انوش کو دیکھا جیسے لڑکا بولنا اسے بھایا نہیں تھا۔مرد تھا وہ لڑکا کہاں سے ہوگیا۔
"امی میں نہیں کرنا چاہتی اس سے شادی ترس کھا کر وہ شادی کا کہہ رہا ہے،،نہیں لینا ایسا کسی کا احسان!"
"اس میں احسان کی کیا بات؟اندازہ بھی ہے رشتہ ختم ہونے پہ لوگ کتنی طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔"انھوں نے آنکھیں دکھائیں۔
"بنانے دیں لوگوں کا کام ہے یہ،،باتیں ان پہ بننی چاہئیں جن کی جیل رخصتی ہوئی۔ہم تو شریف لوگ ہیں ہمارا کیا قصور؟..."
"وہ سب ٹھیک ہے لیکن شادی ویسے بھی کرنی ہی تھی نا۔"
"بس امی میں نہیں چاہتی منع کردیں آپ۔"
"تمھارے باپ کی رضا مندی شامل ہے اور آگے تمھارے رشتے کے لیے کتنی مشکلات ہوسکتی ہیں تم کو معلوم بھی ہے۔۔تم بوجھ نہیں ہو ہم پہ پر تمھارا باپ تمھاری فکر میں خود کی جان ہلکان کرلے گا۔"وہ ایسے ہی کئی باتیں اسکو سناتی گئیں عائشے خاموشی سے سنتی رہی اسکی ہمت جواب دے گئی تھی۔
"ٹھیک ہے جو مرضی آپ لوگوں کی وہی کریں۔"دل کڑا کے اس نے ماں کو دیکھتے ہوئے کہا انعم بیگم اسکے سر پہ ہاتھ رکھ کر باہر جاکے اسکی رضامندی بتا چکی تھیں۔
انوش نے خاموش سی عائشے کو دیکھا اور اسکا کندھا تھپکایا عائشے نے خالی خولی نظروں سے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا۔بھاری فراک کو سنبھالتی وہ واش روم میں گھس گئی۔بس اسکی یہی حیثیت تھی زبردستی فیصلہ اولاد پہ تھونپ دو۔
اور پھر ہوا یوں کہ ارغن کی جگہ مراد دمیر کی وہ شریکِ حیات بن گئی۔عائشے بلوچ سے عائشے دمیر!
کاغذات پہ دستخط کرتے ہوئے ہاتھ کانپے نہیں تھے جیسے دل میں بھی سرد مہری اتر گئی ہو،یہ راہ اسکے لیے کتنی مشکل ثابت ہونی تھی اسے اندازہ تھا۔بھاری دل سے اس نے قلم واپس رکھا اور خود پہ ضبط کرکے بیٹھی رہی۔
"مراد دمیر کیا آپکو عائشے بلوچ ولد معین بلوچ دو لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہیں؟"
"قبول ہے۔"تیسری بار کہنے کے بعد مراد نے بھی نکاح کے کاغذات پہ دستخط کیے۔نکاح کی دعا ہوئی انوش عائشے کے پیچھے ہی اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھے اسے اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہی تھی۔اور اب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اسکی خوشیاں سلامت رہیں یہی اس نے دعا کی تھا۔

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now