قسط 28 گھڑیال

604 45 2
                                    

زولفقار جاہ کو اس نے کندھے کے سہارے اٹھایا،انکا جسم اکڑ چکا تھا۔فرید نے آگے بڑھ کے مدد کی۔دوسرا ملازم باہر کی طرف بھاگا۔
گاڑیاں تیار کھڑی تھیں انھیں گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ لٹا کر میران خود بھی انکے ساتھ بیٹھ گیا۔
"عزیز جلدی کرو۔"وہ چلایا۔کالی ہیلِکس پورچ سے تیزی نکلی۔سیکورٹی گارڈز نے دروازہ کھولا تو اسکی گاڑی کے آگے پیچھے پانچ محافظتی گاڑیاں ساتھ لگ کر نکل گئیں۔
لاہور کے مشہور اور معیاری ہاسپٹل میں انھیں لے جایا گیا تھا۔ہاسپٹل کا پورا عملہ پورا سے نیچے ہر ایک کو کھڑکا دیا گیا۔ہاسپٹل کے سب سے قابل ذکر ڈاکٹر زولفقار جاہ کا چیک اپ کر رہے تھے۔میران اندر ہی پاس کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔باہر ہاسپٹل کا اسٹاف جمع تھا۔
"ڈاکٹر وہاب بتائیں انھیں کیا ہوا ہے؟"
"معلوم تو یہی ہورہا فالج کا زبردست قسم کا اٹیک ہوا ہے۔اب یہ ہوش میں آئیں گے تو پتا چلے گا کہ جسم کے کس کس حصے پہ اسکے اثرات ہوئے ہیں۔دعا کریں کہ معاملہ سنگین نا ہو..."سینئر ڈاکٹر وہاب نے انکا چیک اپ کیا اور باقی ڈاکٹر اور نرس کو ڈرپ اور مخصوص انجیکشن لگانے کی تلقین کردی تھی۔میران کے بے چینی سے پوچھنے پہ اسے ایک طرف لے جاکر اپنے مخصوص انداز میں بتانے لگے۔
"ایک بار ہم ٹیسٹ کرکے بھی کنفرم کریں گے پھر اسکے بعد ہی ٹریٹمنٹ اسٹارٹ ہوگی۔"ڈاکٹر نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔وہ ان سے مصافحہ کرکے باہر نکل آیا۔
شمس کو جیسے ہی زولفقار کے بے ہوش ہونے کی اطلاع ہوئی وہ دوڑا چلا آیا۔
میران بے چینی سے کاریڈور کے چکر کاٹ رہا تھا۔لوگ دور سے ہی اسے دیکھ دیکھ کر جارہے تھے۔کاریڈور کی اینٹرنس پہ سیکیورٹی چارج کردی گئی تھی۔عزیز اور شمس چپ چاپ اسے ٹہلتے ہوئے دیکھتے رہے۔فکر سے اسکی دماغ کی رگیں پھٹ رہی تھیں۔
عزیز نے خاموشی سے مراد کو فون ملادیا۔
                            ★ ★ ★
          "عائشے گھر پہ بس تم اور نیمل ہو،مام ڈیڈ بھی بس ابھی گھنٹے تک واپس آجائیں گے۔"وہ عجلت میں تائید کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"اچھا اچھا۔اب آپ جائیں بھی۔"عائشے نے اسکرین سے نگاہیں ہٹا کر کہا۔
"جانے کا دل ہی تو نہیں کر رہا۔جب جب سوچتا ہوں اب فارغ ہوں تمھارے ساتھ کچھ وقت گزاروں گا پر کوئی نا کوئی اس دن مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔"وہ کلستے ہوئے بولا۔عائشے کا قہقہہ چھونٹا۔
"تو مت جائیں۔"وہ آنکھیں پٹا پٹا کر بولی۔
"آکر بتاتا ہوں تمھیں،ابھی جانا ضروری ہے۔"اپنی انگلیاں اسکے گالوں سے مس کرکے کوٹ کندھے پہ ڈال کر گاڑی کی کیز بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے اٹھائے انگلی پہ گھماتا ہوا نکل گیا۔عائشے مسکرا کے واپس ٹی وی پہ ڈرامہ دیکھنے لگ گئی۔
         وہ تیزی میں دروازے سے باہر نکل رہا تھا کہ زرپاش اور ارباز صاحب شادی سے واپس لوٹ آئے۔اسے یوں جلدی میں دیکھ روک لیا۔
"اس وقت کدھر جارہے ہو؟"ارباز نے کرتے پہ پہنی واسکٹ کے بٹن کھولے۔
"ایک ضروری کام ہے آکر بتاتا ہوں۔"وہ پھر آگے بڑھنے لگا۔زرپاش ںے اسکے چہرے پہ ہلکی پھلکی پریشانی دیکھی تو بھنوویں اچکائیں۔
"آج کل یہ بہت ضروری کام تمھارے بڑھنے نہیں لگے؟کیا چھپا رہے ہو؟سہی طرح مجھے ورنہ جانے نہیں دونگی۔میران وہ ٹھیک ہے؟"
وہ سوال پہ سوال کرتی بولیں۔مراد جھنجھلایا۔
"میران تو ٹھیک ہے پر اسکا باپ نہیں۔انھیں اٹیک ہوا ڈاکٹرز کا کہنا فالج ہے۔"
مراد کو اندازہ ہورہا تھا کہ رومائزہ اور اسکی باتیں سوچ بن کر انکے زہن میں حاوی ہوئی ہونگی۔
"اللہ رحم۔رکو میں بھی چلونگی۔"زرپاش کا کلیجہ باہر نکلنے کو آیا انھوں نے ہینڈ بیگ ارباز صاحب کو تھاما دیا۔
"یار ڈیڈ..."اس نے ارباز کو دیکھا جو شانے اچکا کے پیچھے ہٹ گئے۔یہ ان ماں بیٹے کا معاملہ تھا۔
"مام چل کر کیا کریں گی؟میڈیا نے دیکھ لیا تو نئی مصیبت کھڑی ہوجانی ہے۔جب وہ گھر آجائینگے تو میں خود ملوانے لے چلونگا بس..."وہ جانتا تھا زرپاش کا دل اپنے بھائی کو لے کر اب نرم ہوچکا ہے۔
"زیادہ پریشانی والی بات تو نہیں؟"ارباز کے استفسار پہ اس نے سر جھٹکا۔
"پتا نہیں...پر بے فکر رہیں وہ اتنی جلدی مریں گے نہیں۔"
مراد عجلت میں کہہ کر جانے لگا۔
"مراد معاف کردو انھیں۔بھلا دو سب،تمھاری ماں جب سب بھول گئی ہے تو تم کیوں نہیں بھول سکتے ہو!"زرپاش کی بات نے اسکے قدموں میں زنجیر ڈال دی اس نے چہرہ موڑ کے انھیں جو اسکی جانب گھوم چکی تھیں۔
"مجھے نہیں بھولتا وہ سب۔کیا کم تکلیفیں ہم نے اٹھائی ہیں؟اتنے عرصے بعد جب ہم سیٹل ہوگئے اسکے پھر انھوں نے سب اجاڑ کے رکھ دیا!آپ کو نانا سے ملنے تک نہیں دیا۔گل مامی کی موت کی خبر تک آپکو نہیں ملی!مجھے نہیں بھولتا جب ہم پائی پائی کہ محتاج ہوچکے تھے۔دادی کی دوائی تک کے پیسے نہیں تھے۔نیمل چھوٹی تھی بہت بیمار ہوئی تھی اسکے علاج تک کے لیے پیسے ادھار لیے تھے۔وہ فاقے ہر ایک چیز حرف با حرف یاد مجھے ہے۔ڈیڈ کی کردار کشی،بدنامی،آپ پر بہتان۔میرے ماں باپ کا گھٹ گھٹ کے رہنا۔آپکی آنکھوں کے آنسو بھولے بھلائے نہیں جاتے مجھ سے،پیسوں کی اتنی قلت ہوئی تھی کہ اسکول تک چھوڑنا پڑا۔
کوئی ڈیڈ کو کام دینے کے لیے راضی نہیں تھا۔"
وہ عرصے بعد پھٹ پڑا۔کتنے عرصے سے اس غبار کو دل میں دبا رکھا تھا۔زرپاش نے اسے سینے سے لگایا۔
"جو کیا انھوں نے بہت غلط کیا،میں مانتی ہوں۔پر اب دیکھو اللہ نے ہمیں ہر نعمت سے نواز دیا ہے۔ہم زندگی میں آگے بڑھ چکے ہیں تو کیا ان پرانے قصوں کو بھلا نہیں سکتے؟معاف کرنے کو اللہ پسند کرتا ہے۔"
انھوں نے اسے خود سے لگائے اسکے بال سہلاتے ہوئے کہا۔مراد نے انھیں خود میں بھینچ لیا۔ان سے دور ہوا سر ہلا کے باہر چلا گیا۔اسے زولفقار سے کوئی دلی وابستگی نہیں تھی پر میران کو اس وقت اکیلا نہیں چوڑ سکتا تھا۔وہ اسکا بھائی تھا،زرپاش نے اپنے بچوں کے دل میں ہمیشہ ہی اسکے لیے محبت ڈالی تھی۔
   میران کے ہونے سے مراد کے اندر ایک بھائی ہونے کی چاہت کو سکون پڑگیا تھا۔اسکے جانے کے بعد زرپاش نے گہری سانس فضا کے سپرد کردی۔
"اب زیادہ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں،صبح تک بی بی پی نہ بڑھ جائے۔چل کر لیٹیں اور سوجائیں بس۔"
ارباز انکے گرد بازو پھیلا کر سیدھا انھیں کمرے کی طرف لے گئے۔
                           ★ ★ ★
زولفقار کا سٹی سکین کرلیا گیا تھا۔اب ڈاکٹرز رپورٹ کے منتظر تھے۔میران اکیلا انکے پاس کمرے میں موجود تھا۔وہ نیند کی گہرائیوں میں اترے ہوئے تھے۔ہاتھوں میں ڈرپ لگی تھیں۔کچھ مشینوں کی نلکیاں انکے سینے سے مدغم تھیں۔وہ پاس کھڑا کافی دیر سے انکا مغرور چہرہ تک رہا تھا۔وہ ایک ہی دن میں برسوں کے کمزور لگ رہے تھے۔جسم کی کھال ڈھیلی پڑ چکی تھی۔
"بابا کچھ نہیں ہوگا آپ کو،آپ ٹھیک ہوجائیں گے۔"خود کو اس نے ڈھارس دی اور انکا ماتھا چھوا۔
پہلے رومائزہ کو اس نے اس حالت میں دیکھا تھا اور اب اپنے باپ کو،ان کو وہ بستر مرگ پہ پڑا دیکھے گا کبھی اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔پر اچانک انکی طبیعت بگڑی کیسے وہ یہ سوچ کر پریشان تھا۔
خیالوں کی دنیا سے باہر نکل کر وہ باہر جانے کے لیے پلٹا۔ڈاکٹر وہاب رپورٹس لے کر اندر ہی آگئے۔
"کیا رپورٹ آئی ہے ڈاکٹر؟"اس نے مضطرب نگاہیں اٹھا کر پوچھا۔
"فالج ہی ہوا ہے،دماغ کی رگیں متاثر ہوگئی ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب پہلے کی طرح سے خود چل پھر نہیں سکتے۔"ڈاکٹر وہاب بڑے سنبھل سنبھل کے افسوس کے تاثر سے بولے۔
"مطلب۔"اسکے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔
"کہ وہ محتاج ہوچکے ہیں،ٹریٹمنٹ ہم شروع کر رہے ہیں۔جب تک طبیعت میں بحالی نہیں آئیگی یہیں ایڈمٹ رکھا جائیگا۔پر اب وہ خود سے باڈی موو نہیں کرسکتے۔اٹیک چھوٹا موٹا نہیں تھا جو کسی ایک حصے کو متاثر کرتا یہ کافی بڑا تھا جس نے پورے جسم کو متاثر کیا ہے۔"
فائلز کی اسکی طرف بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا۔میران نے فائلز تھام لیں۔پر اسکی سانسیں مدھم پڑ گئیں۔گردن موڑ کے اس نے زولفقار جاہ کو دیکھا۔
    "علاج ممکن ہے،اگر آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں تو بتادیں۔میں باہر ملک انھیں لے جاؤنگا۔"اس نے لب تر کرلیے اور پریشانی سے بالوں پہ ہاتھ پھیر کر بولا۔
"اول تو انھیں ہوش آنے دیں۔اور علاج یہاں ممکن ہے پر انکی باڈی کتنا ساتھ دیگی یہ تو انھی پہ منحصر ہے۔نروس سسٹم ڈیمج ہوا ہے۔جب رگیں اعضاء تک میسج ڈیلیور نہیں کریں گی تو موومنٹ کیسے ہوسکتی ہے؟باقی آپ پریشان نہ ہوں فزیوتھراپی ہم کروایں گے۔جزا اللہ کے ہاتھ میں ہے ہم تو صرف کوشش کرسکتے ہیں۔"
وہاب نے اسے ہر پہلو سے آگاہ کردیا۔میران کی سختی سے فائلز پہ گرفت بڑھ گئی۔لب بھینچ لیے۔پریشانی کے عالم میں وہ باہر آکے کاؤچ پر ڈھ گیا۔رپورٹ فائلز اس نے برابر میں رکھ دی تھیں۔عزیز نے آگے بڑھ کے رپورٹس اٹھا کر کھول لیں۔
میران نے سانس خارج کی۔وہ مغرور چال چلنے والے چھاتی چوڑی کرکے سر اٹھا کے چلتے تھے اب چل پھر نہیں سکیں گے؟کیا اللہ نے انکی رسی کھینچ لی تھی؟میران کا حلق خشک ہوا،حلق میں کانٹے بھر آئے۔اس نے فوراً پانی منگوایا۔
نیند تو آنکھوں سے اڑ چکی تھی پر آنکھیں سوچ سوچ کر سرخ ہونے لگیں۔عجیب سا خمار طاری ہورہا تھا۔
اس نے آنکھیں موند کے سر دیوار سے ٹکالیا۔
مراد کاریڈور تک آیا سیکورٹی گارڈ نے اسے اندر جانے دیا۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اسکے پاس آرہا تھا۔شمس اکیلا کھڑا تھا عزیز پانی لینے گیا تھا۔شمس نے رپورٹس اسکی طرف بڑھا دیں۔وہ انھیں تھام کر میران کے برابر میں بیٹھ گیا۔میران نے دھیرے سے آنکھیں کھول کے گردن کو جنبش دے کر رخ مراد کی جانب کیا۔وہ سینے پہ ہاتھ لپیٹ کے سر ٹکائے ہوئے تھے۔پھر سیدھا ہوا۔
"فالج کا اٹیک ہوا ہے..."مسح کی صورت میں میں اس نے ہاتھ آنکھوں پہ رکھ کے سر تک گزارے۔مراد نے اسے تسلی دینے کیلئے اس کے شانے پہ بازو رکھ دیا۔
"اللہ بہتر کرے گا۔"وہ بمشکل ہی بول پایا۔اسے توقع نہیں تھی کہ زولفقار جاہ کی اتنی سنگین حالت ہوگی۔
"ڈاکٹرز کا کہنا ہے وہ اب چل پھر نہیں سکیں گے۔یعنی محتاج ہوچکے ہیں۔"میران نے شرٹ کا کالر بٹن لوز کیا۔اور کنپٹی کی رگیں سہلانے لگا،فضا میں آکسیجن کم ہونے لگی۔مراد اسے دیکھے گیا۔
    زولفقار کیلیے نا نفرت بچی تھی نا ترس و ترحم!
"انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا بھی ہے۔اِدھر نہیں تو اُدھر۔"وہ خود کو تلخ رکھنے سے باز نہیں آسکا۔میران کے دل کی بات وہ کہہ گیا تھا۔وہ تو بیٹا تھا ہر پہلو پہ سوچ رہا تھا پر اب کہنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔اسکی اپنی محبت تک وہ چھین چکے تھے۔اپنے بیٹے تک کو اذیت میں مبتلا کردیا تھا۔پھپھو کے ساتھ تو انھیں نے انسانیت کے پریخچے اڑا دیے۔
"سائیں پانی پیئیں۔"
عزیز نے گھٹنے کے بل بیٹھ کر اسے  بوتل تھمائی۔ایک سانس میں اس نے غٹاغٹ پانی اندر اتارا اور بوتل عزیز کے حوالے کردی۔
"جو بھی ہو،ماں باپ کو اس حالت میں دیکھنا اولاد کے لیے آسان تو نہیں۔انھوں نے ساری دنیا کو ٹھوکر پہ رکھا پر مجھے ہمیشہ چاہا،میری ہر چھوٹی بڑی ضرورت کا خیال رکھا۔ہاں انھوں نے مجھ سے بھی زیادہ اپنی دولت کو فوقیت دی پر انکی وہ محبت بھی کم نہیں۔وہ اتنا غلط میرے ساتھ،رومائزہ کے ساتھ اور پھپھو کے ساتھ کر چکے ہیں مجھے ان پہ شدید غصہ تھا نفرت بھی محسوس ہوئی تھی پر اب سب وہ احساس زائل ہوگیا ہے۔باپ ہیں وہ میرے اور میں چاہ کر بھی خود کو ان سے دور نہیں کرپاتا۔"
وہ ٹکٹکی باندھ کے سامنے گھڑی کو دیکھ رہا تھا۔مراد گھٹنوں پہ کہنی رکھ کر جھکے ہوئے بیٹھا تھا۔
مراد کے پاس تسلی بخش دو جملے تک نہیں تھے بس وہ اسکا شانہ تھپکتا رہا۔وہ میران کے ساتھ تھا اس بات کا اسے احساس دلاتا رہا۔
                            ★ ★ ★
صبح تک زولفقار کو ہوش آچکا تھا۔مراد کینٹین سے ناشتہ لینے گیا تھا۔عزیز اور شمس میران کے ساتھ انکے روم میں آگئے۔وہ آنکھیں کھولے چت لیٹے چھت گھور رہے تھے۔میران انکے نزدیک آگیا۔اسے دیکھ انکے دل میں لگی آگ مدھم سی پڑی۔انھیں لگا تھا وہ اس قدر ناراض ہے کہ نہیں آئے گا۔
"اب کیسی طبیعت ہے؟اور اتنا کیا سوچ رہے تھے جو اٹیک ہی آگیا؟"
انکا ہاتھ تھام کر وہ لہجہ نرم رکھے پوچھنے لگا۔زولفقار نے بولنے کے لیے منہ کھولنا چاہا وہ بول نہ سکے،منہ ہلکا سا ٹیڑھا ہوگیا تھا۔آنکھوں کے اشارے سے ہی انھوں نے اسے طبیعت بہتر ہونے کی تسلی دی۔
"مم مراد اوو اور و وہ لڑکی..."
ٹیڑھے منہ سے بمشکل وہ اتنا ہی کہہ سکے...زبان تالو سے جا چپکی۔۔گرم سیال اشکوں سے بہہ نکلے۔کیسی بے بسی تھی وہ بات مکمل تک نہیں کر پائے تھے۔انکا وجود چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔جسم حرکت نہیں کر رہا تھا۔بس سیدھے ہاتھ میں جیسے تھوڑی بہت جان بچی تھی جو وہ اٹھا رہے تھے۔
میران انکی بات سن کر خاموش ہوگیا۔
"علاج ہوگا تو آپ ٹھیک ہو جائیں گے،روؤیں مت۔"
انکی آنکھوں میں آنسو اسے چبھے ہی تو تھے۔وقت کیسے لحوں میں پاسا الٹ دیتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔کل۔تک سب کو رلانے والے آج اپنی حالت پہ رو رہے تھے۔کچھ دیر میران باہر آگیا۔ماجرا اس نے خود مراد سے استفسار کیا۔
     "شمس کے بیٹے سے ملنے گئی تھی رومائزہ، وہیں یہ بھی آگئے تھے۔وہ غصے پہ قابو نہیں کرسکی اور خوب  سنا کر چلی گئی۔"
نپے تلے انداز میں مراد نے اسکے سوال کا جواب دیا اور خاموش ہوگیا۔وہ اب بھی اسے اس بات سے بے خبر رکھ رہا تھا کہ رومائزہ اسکا سچ جان چکی ہے اور شرمندہ ہے،وہ بتانا ضرور چاہتا تھا پر اس لڑکی کے فیصلے نے قدموں میں زنجیر ڈال دی تھی۔اور ابھی تو اسے ہر گز اسکے بارے میں بتا کر پریشان کرنے کا خواستگار نہیں تھا۔
"مراد یہ مکافاتِ عمل ہے۔میں اسی چیز سے ڈرتا تھا۔انکو اپنی غلطیوں کا کبھی احساس نہیں ہوا۔"ہارے ہوئے انداز میں میران نے پشت دیوار سی ٹکا لی۔
"اب ہوجائیگا۔غربت اور بیماری انسان کو توڑ کے رکھ دیتی ہے۔"وہ دونوں سنجیدگی سے کاریڈور میں بیٹھے جملوں کے تبادلے کر رہے تھے۔
"میرا ایک کام کردو۔"میران نے مراد کو دیکھتے ہوئے سپاٹ تاثرات سے کہا۔
"ہاں کہو۔"
"تم رومائزہ کو اسکی کالونی لے جاؤ۔اپارٹمنٹ میں اسکا کچھ سامان موجود ہے جو نئے رہائشی نے اسٹور میں رکھ دیا تھا،وہ سب دیکھ لے گی،اور میں وہ اپارٹمنٹ اسے بطور تحفہ دے رہا ہوں اسے سمجھاؤ کے رکھ لے۔وہ اسکے باپ کی نشانی ہے اسی کے پاس ہونی چاہیے۔کہہ دینا میران ایک قرض اتار رہا ہے،کیونکہ مجھ پہ تو وہ یقین کرے گی نہیں۔"
مراد نے بات سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔
"آج ہی لے جاؤ اسے۔"وہ حکم دلی سے بولا۔
"کیوں کوئی خاص وجہ؟"مراد کا ماتھا ٹھنکا۔
"وہاں جاؤگے تو سب پتا چل جائیگا۔تم بھی گھر چلے جاؤ رات کے جاگے ہوئے ہو آرام کرو،یہاں میں ہوں۔"
اپنے ٹراؤزر کی جیب سے اس نے موبائل نکالا۔وہ نائٹ ڈریسنگ میں ہی تو تھا،پھر ملازم اسے بلانے آگیا اور اسی حالت میں وہ ہاسپٹل آگیا تھا۔نیند کے خمار سے آنکھوں کے عارض سرخ ہورہے تھے بال ماتھے پہ ڈھل چکے تھے۔وہ لاپرواہی سے کاؤچ پہ بیٹھا اس سے ہم کلام تھا۔
     "تم بھی جاکے آرام کرلو،سارے ایک ساتھ خود کو تھکا رہے ہو۔ابھی کچھ دن وہ یہیں ایڈمٹ ہیں تو الگ الگ ٹائمنگ میں سارے آجانا۔رات کو کوئی ایک رک جائے اور دن میں کوئی اور۔"
وہ اپنی بات سمجھاتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔میران نے سر ہلانے پہ ہی اکتفاء کیا۔مراد کے جانے کے بعد کاریڈور میں سناٹا چھا گیا،میران نے بھی آنکھیں موند لیں۔
                         ★ ★ ★
ایگزامز کے بعد وہ مکمل طور پہ فارغ تھی۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا مراد اسے کالونی کیوں لے کر جارہا ہے۔ساتھ میں عائشے اور نیمل بھی تھیں۔
جب اس نے گاڑی کالونی میں لاکر روکی تو کالونی کے ایڈمنسٹریٹر ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ لیے جیسے انکے ہی استقبال میں کھڑے تھے۔رومائزہ پچھلی سیٹ سے نیمل کے ساتھ ہی گاڑی سے اتری۔وہ صاحب اسکی طرف چلے آئے۔
"اسلام و علیکم....رومائزہ بیٹے کیسی ہو؟"
بڑی خوشگواری سے انھوں نے مخاطب کیا۔اسے حیرت تو ہوئی تھی۔چار بجے کا وقت تھا۔کالونی کے باقی مکین بھی گھروں سے نکل کر باہر آگئے۔جیسے اسی کے منتظر تھے۔
"وعلیکم السلام۔میں ٹھیک ہوں۔"انکا بدلہ رویہ دیکھ کر اسے حیرانی ہورہی تھی۔سنجیدگی سے ہی جواب دیا۔انھوں نے گلدستہ اسکی جانب بڑھایا تو وہ تھام گئی۔
"میں سب کی طرف سے تم سے معافی چاہتا ہوں۔تمھارے ساتھ اس دن بہت زیادتی کی گئی۔تم تو ہمارے بچوں کی ہی طرح ہو۔ہم نے پھر بھی تم پہ بنا سوچے سمجھے الزام لگادیے۔"
انکے صرف لفظوں سے نہیں انداز سے بھی وہ شرمندگی محسوس کر سکتی تھی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آیا آخر ایسا کیا ہوا جو سب کے خیالات بدل گئے۔
"تم اتنے عرصے کہاں تھیں احتشام اور تم کس مشکل میں پھنسے تھے سب میران صاحب نے آکے مجھے بتایا۔بیٹا آپ بہادر ہیں۔احتشام بھائی کی موت کا ہم سب کو بہت افسوس تھا۔ہم ہر چیز سے لاعلم تھے،شیطان نے وسوسے پیدا کرکے ہمیں بدگمان کردیا۔"
وہ ملتجی انداز اپنا گئے۔کالونی کی دو تین خواتین جو اس دن بڑھ چڑھ کے بول رہی تھیں انھوں نے آکے اس سے معافی مانگی۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔اس نے مراد کو دیکھا وہ پلک جھپک گیا تھا۔
"شکوہ مجھے آپ سب سے ہے کہ آپ لوگوں نے میرا یقین نہیں کیا۔بچپن سے ہی مجھے جانتے ہیں نا،کیا میرے کردار کے بارے میں نہیں جانتے تھے؟بلاوجہ میرے کرادر کو داغ دار کردیا اسکے چیتھڑے اڑا دیے۔"رومائزہ کے لہجے میں برہمی عود آئی۔خائف نگاہوں سے سب کو دیکھا۔
"بیٹا معاف کردو،ہمیں احساس ہے کہ کسی پہ بہتان لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔تم معاف کردو تو ہمارے دل سے بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔تم پاک دامن ہو اس میں کوئی شک نہیں۔"
خاتون نے اسکے آگے ہاتھ جوڑ لیے۔رومائزہ نے گلدستہ عائشے کو دیا اور آگے بڑھ کے انکے ہاتھ تھام لیے۔
"ایسے مجھے شرمندہ نہ کریں۔شکوہ تھا میں نے بھول کرکے ختم کردیا۔معافی مانگ کے مجھے شرمندہ مت کریں۔ویسے بھی مجھے اندازہ ہے ہمارا معاشرہ اس لڑکی کو بخشتا ہی کہاں ہے جو رات باہر گزار چکی ہو۔میں تو پھر دو ماہ غائب تھی۔"
اسکے حلق میں کڑواہٹ گھل گئی۔
"نہیں بیٹا۔تمھارے کردار پہ ہمیں بھروسہ ہے۔تم بلکل ایک شفاف موتی کی طرح ہو۔"
دوسری نزدیک کھڑی خاتون مخاطب ہوئیں۔انکی بات سن کر رومائزہ مسکرادی۔اسکے دل میں سکون سا اتر گیا۔
وہ ہمیشہ سے پاک صاف تھی،اسے اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔اللہ تو سب جانتا تھا۔پر وہ لوگ اسکے قریبی تھے اپنے حوالے سے انکو بدگمان دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ایک بار پھر میران نے اسے حیران کردیا تھا۔
   "کتنے احسان کروگے مجھ ناشکری پہ تم میران۔"
گلدستہ واپس عائشے سے لے کر نا محسوس انداز میں اسکی خوشبو دل میں اتار کے اس کو تشکر سے مخاطب کیا۔لبوں پہ خوبصورت سی مسکراہٹ رینگنے لگی۔وہ اپنے ان احساسات سے ناواقف نہیں تھی،اور انکو ہمیشہ کی طرح دل میں دبا کے رکھ رہی تھی۔
سب سے مل کر معافی تلافی کے بعد وہ اپارٹمنٹ چلی گئی۔یہاں واپسی کے دروازے واپس کھل گئے تھے۔
وہ چاروں لاؤنچ میں بیٹھے تھے۔
شہاب نے ان چاروں کے آگے لیمن جوس رکھ دیا۔گرمی بھی بڑھنے لگی تھی۔
"میں دائم سر کا ایمپلائے ہوں۔کچھ دن میں یہاں سے چلا جاؤنگا۔اس دن میرے بھائی گھر میں موجود تھے انکو آپکا معلوم نہیں تھا۔وہ نہیں جانتے تھے آپکا سامان گھر میں ہی موجود ہے۔دائم صاحب نے کہا تھا احتشام صاحب کا سامان وہیں ایک کونے میں رکھ دو،جب انکا کوئی جاننے والا آئے تو اسکے سپرد کردینا۔میں جب واپس آیا تو آپ جاچکی تھیں۔اردگرد ڈھونڈا پر آپ نہیں ملیں۔پھر میران صاحب خود آگئے تھے۔اور دائم سر اور انکے درمیان اس اپارٹمنٹ کی ٹرافرنس کے سلسلے میں بات ہوئی۔انھوں نے اپارٹمنٹ دائم سر سے واپس خرید لیا۔وہ کہہ رہے تھے یہ کسی کی امانت ہے واپس لوٹانی ہے۔مجھے تو اتنا ہی معلوم ہے باقی دائم سر جانتے ہونگے۔اب آپ کہہ رہی ہیں کہ یہ واپس خرید لیں گی۔
       فلحال میرے پاس سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا تو میران صاحب نے یہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ایک ہفتے بعد پھر آپکے کوئی کزن سفیر احمد آئے تھے۔انکے سوال کا میں نے یہی جواب دیا کہ گھر کے مالک میران جاہ ہیں۔انھوں نے زیادہ بات چیت نہیں کی،اگر وہ رکتے تو میں بتا دیتا کہ پہلے گھر میرے باس نے خریدا تھا اسکے بعد میران صاحب نے ان سے خرید لیا۔وہ بس کاغذات دیکھ کر چلے گئے۔"
شہاب مراد کے ساتھ والے صوفے پہ بیٹھا رومائزہ کی طرف دیکھتا ہوا کہتا گیا۔کافی ساری باتیں اس دن عزیز اس بارے میں بتاگیا تھا۔رومائزہ کے ہونٹوں پہ پھیکا سا تبسم پھیلا۔
"اٹس اوکے۔مجھے سامان دیکھنا ہے کہاں رکھا ہے وہ؟"
ہچکچا کر اس نے پوچھا۔جب یہ اپنا اپارٹمنٹ تھا تو وہ خوب آزادی سے ہر جگہ پھرتی رہتی تھی۔اسی لیے اب جھجھک تو لازمی ہونی تھی۔
"اسٹور روم میں ہی ہے۔کافی سامان وہ لے گئے تھے،کچھ رہ گیا تھا بس۔"شہاب نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔
دائم کی رقم ادائیگی سے پہلے کچھ سامان انھوں نے میاں حسن کے گھر رکھوادیا تھا۔حسن نے انکے لیے اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ سے ہی کھول رکھے تھے اور اس مشکل وقت میں انھیں تنہا نہیں چھوڑا تھا۔
رومائزہ سرہلاتے اٹھ کے اسٹور کی طرف بڑھ گئی۔اسکا دل تیزی سے دھک دھک کر رہا تھا۔چار پانچ ماہ بعد اپنے گھر کو خود دیکھ رہی تھی۔
سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کے گئی تھی۔وہی رنگ وہی فرنیچر،فرش پہ چلتے ہوئے عجیب سی خوشی اسکی رگوں میں دوڑنے لگی۔اور یہ خیال اس سے زیادہ حسین تھا کہ کچھ دن بعد یہ گھر واپس اسکے پاس آجائیگا۔اسکے پاس اب بابا کی چھوڑی رقم بھی تھی وہ میران سے یہ خود خریدنے کی خواہاں تھی۔
        اسٹور روم کی لائٹ جلا کر اس نے اندر قدم رکھا۔ایک طرف اسکی پیٹنگز تھیں اور کچھ پرانے البمز اور وہ فنچز کے لیے جو پنجرا لائی تھی وہ بھی ایک کونے میں پڑا تھا اور کچھ دیگر سامان بھی موجود تھا۔روما نے سانس بحال کی۔ماتھے پہ ٹھنڈا پسینہ آنے لگا۔
چھوٹے قدم اٹھاتی آگے بڑھی اور ایک البم اٹھا کہ اس نے کھول لیا۔
اس میں اسکے بچپن کی تمام حسین یادیں بسیں تھی۔
ناز،رومائزہ اور احتشام صاحب تینوں کی ڈھیر ساری تصویریں تھیں۔اسے لگتا تھا اس نے یہ خزانہ کھودیا ہے۔خوشی اور جذباتی پن سے اس نے البم سینے سے لگا کر سامنے کی۔
ایک جلد پلٹی۔پانچ سالہ رومائزہ ناز سے چپکے کھڑی تھی۔بلکہ رو رہی تھی۔اسے یاد آیا وہ بھوک کی وجہ سے تنگ کر رہی تھی اور تصویر بھی نہیں کھنچوانا چاہتی تھی۔اسکے لبوں کا تبسم بڑھتا گیا۔پھر جلد پلٹی۔اس میں وہ تینوں کسی پہاڑی کے قریب کھڑے تھے۔پیچھے قدرت کے حسین نظارے تھے۔آدھے پہاڑ برف کی چادروں سے ڈھکے ہوئے تھے۔
اس نے پورا البم دیکھا ڈالا۔تشکر سے آنکھیں بھیگ رہی  تھیں۔ممی اور بابا کی تصوریں اس نے جا بجا چوم لیں۔
پھر البمز کو ایک شاپر میں ڈال کر وہ پنجرہ اٹھا کر باہر آگئی۔
"مراد بھائی میری پیٹنگز اندر رہ گئی ہیں۔میں وہ بھی لے کر جاؤنگی۔"لاؤنچ میں آکر البم سینے سے اس نے لگا رکھی تھیں۔
"وہ پیٹنگز آپ نے خود بنائی ہیں؟"شہاب نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔عائشے نے اسکی پینٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے شہاب کو جواب دیا۔
"واہ،وہ بہت اچھی ہیں۔آپکو چاہیے کسی ایگزیبیشن میں انھیں رکھوادیں۔"وہ مفت کا مشورہ دیتے بولا تو رومائزہ ہنس دی۔
"ویسے وہ بہت ساری پینٹگز ہیں،انھیں یہیں رہنے دیں ویسے بھی کچھ دنوں تک گھر آپکے حوالے ہوجائیگا۔"شہاب نے اسکی آسانی کے لیے کہا۔
"آپ کہاں جائیں گے؟"وہ متفکر ہوئی۔
"میں فلیٹ میں شفٹ ہوجاؤنگا،اسکے بعد دوسرا فلیٹ خرید لیا تھا پر اسکی رینورییشن کا کام نکل پڑا تھا تو مجھے یہیں ٹھہرنا پڑا۔"جیبوں میں ہاتھ ڈال کر شہاب نے کہا۔
"اوہ...آپکا بہت شکریہ آپ نے سارے سامان کو بڑے احتیاط سے حفاظت میں رکھا۔"وہ مسکراتے ہوئے بولی تو شہاب نے دل کے مقام پہ ہاتھ رکھ کے سر جھکا لیا۔جولی سا بندہ تھا وہ،جیسے دائم تھا۔
وہ چاروں وہاں سے نکل گئے۔نیمل نے گول گپے کھانے کی فرمائش کردی تھی۔اور وہ دونوں بھی جیسے کھانے کے لیے تیار ہی بیٹھی تھیں۔نیمل ضد کرکے مراد اور عائشے کے ساتھ آئی تھی اور یہاں کر بہت ایموشنل بھی ہوئی تھی۔اسے رومائزہ سے بہت ہمدردی تھی یا ایک عجیب سا کنیکشن بن گیا تھا۔
                       ★ ★ ★
       دو دن گزر گئے۔رومائزہ منڈلائے منڈلائے پھر رہی تھی۔بتول اور غضنفر نے ہفتے بعد کی نکاح کی تاریخ مقرر کردی تھی۔وہ اس طرف سوچتی تو دل بند ہونے لگ جاتا تھا۔سفیر کو اب تک آجانا تھا پر اسکا اسٹے اٹلی میں کچھ دن کے لیے مزید بڑھ گیا۔وہ نکاح سے دو دن پہلے آنے والا تھا۔
بتول نے رومائزہ اور اپنا جوڑا خرید لیا تھا۔پر خوشی کی رونقیں اس گھر میں بلکل نہیں تھی۔جس طرح دمیر ہاؤس میں ایک ہفتے پہلے سے ہی شادیانے بج گئے تھے۔
   رومائزہ نے پھر سفیر کا اسکیچ شروع سے بنانے کا سوچا۔
وہ بیڈ پر پینٹنگ شیٹ رکھ کے بیٹھی تھی۔نکاح کی تاریخ قریب تھی۔پھر اسے میران یاد آتا تو تمام پچھلے زخم ہرے ہونے کے بجائے اب بھر سے جاتے تھے۔لبوں پہ مسکراہٹ پھیل جایا کرتی تھی۔
"بہت جلد تمھیں بی بی سرکار کے روپ میں دیکھونگا۔"میران کی کہی باتیں اسکے دماغ میں فلم کی طرح چل رہی تھیں۔وہ گھنٹہ دو گھنٹہ اسکیچ بنانے میں مصروف رہی۔بڑی محویت سے وہ ایک ایک نقش بنا رہی تھی۔
ڈھائی گھنٹے بعد جب اس نے کمر سیدھی کرنے کے لیے سر اٹھایا تو اسکیچ دیکھ کر حیران رہ گئی۔آنکھوں کے گرد تارے گھوم گئے۔
یہ سفیر احمد تو نہیں تھا۔بنانا کس کا اسکیچ تھا اور بنا کسی اور کا دیا تھا۔اسکی آنکھیں پھیل گئیں۔دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔
اسکیچ مٹانے کی کوشش میں اس نے ربر ڈھونڈا پھر رک گئی۔اسکیچ استحقاق سے دیکھنے لگی۔کھڑی مغرور سی ناک جیل سے سیٹ بال،گہری آنکھیں۔اور پرتپش مسکراہٹ اس اسکیچ کے لبوں پہ تھی۔کندھوں سے تھوڑا نیچے تک کا دھڑ اس نے بنادیا تھا۔ایک کالی شال جس کے شانوں پہ پھیلی تھی۔اس میں اس نے کالے شیڈ بھرئے ہوئے تھے۔خیال میں وہ مسکرا دی۔پینسل اٹھا کے شیٹ کے کنارے اس نے کچھ لکھ دیا۔
"کڈنیپر.."
اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔وہ کیا کر رہی تھی۔یہ سارے وہی احساسات تھے جو اس نے سلا دیے تھے۔خود بھی تکلیف سے دوچار ہورہی تھی اور دوسری طرف میران کو اپنی یادوں سے پاگل کردیا تھا۔اس نے شیٹ فولڈ کر کے تیزی سے الماری کھول کے اوپر رکھ دی اور گہری گہری سانسیں لینے لگی۔خود کو نارمل کرتی کمرے سے سیدھا باہر چلی گئی۔
                            ★ ★ ★
زولفقار کو گھر واپس لایا جا چکا تھا۔نوکروں کی پوری فوج جمع تھی انکے خیال رکھنے کے لیے۔میران تو چوبیس گھنٹے گھر میں نہیں رہ سکتا تھا۔اس پہ کئی ذمہ داریاں عائد تھیں۔
شمس اپنے بڑے سائیں کو اس حالت میں دیکھ بے حد افسردہ تھا۔وہ یوں بستر سے لگ جائیں گے اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔انکا جسم بلکل ہل جھل نہیں پارہا تھا۔وہ جو اپنا ہر کام خود کرتے تھے اس طرح محتاجگی کے باعث بلک بلک کر روپڑے۔
     انھیں شدید پیاس محسوس ہورہی تھی۔شمس کمرے سے باہر تھا۔انھوں نے دایاں ہاتھ بڑھا کے ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر منہ سے لگانا چاہا تو وہ فرش پہ گر کے ٹوٹ گیا۔بے بسی پہ آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے۔
اب وہ اپنی انا کی آگ میں بھسم ہو چکے تھے۔سب کی شکوہ کن نگاہیں انھیں یاد آتیں۔
ہاں یہ مکافاتِ عمل تھا اور بہت خطرناک تھا۔جس طرح انھوں نے کسی پہ رحم نہیں کیا اللہ نے بھی ان پہ رحم نہیں کیا۔اب جاکر انھیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہورہا تھا۔
وہ گلاس اٹھانے کی جستجو میں نڈھال سے ہوگئے ہاتھ واپس پیچھے کرلیا۔اچانک دروازہ کھلا تھا۔
انکی نگاہیں وہیں جم گئیں۔زرپاش اور ارباز دمیر ساتھ کھڑے تھے۔زرپاش کا دل بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر ڈوب سا گیا۔انکے قدم لڑکھڑائے تو دمیر صاحب نے انھیں تھام لیا اور زولفقار کی طرف بڑھے۔بیڈ کے ساتھ دائیں طرف کاؤچ بچھا دیا گیا تھا۔زرپاش نے ٹوٹا گلاس دیکھا تو وہ چونک سی گئیں۔انھوں نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی دوسرا گلاس موجود نہیں تھا۔وہ باہر چلی گئیں۔
ارباز تو بس اس عبرت ناک منظر کو ششدر نگاہوں دیکھتے رہ گئے۔زولفقار جاہ رو رہے تھے۔انکی زبان اور منہ ٹیڑھا ہوچکا تھا۔بولنے میں آواز لڑکھڑا جاتی۔لفظ آدھے سمجھ آتے اور کچھ منہ میں رہ جاتے۔
"مم معاف..."
وہ بمشکل بول سکے۔دائیں ہاتھ سے بیڈ شیٹ مٹھی میں بھینچ لی۔ارباز کو جھرجھری آئی۔وہ جگہ سے آگے بڑھ نہیں سکے۔انکا چہرہ سپاٹ تھا۔
"آپکی بہن کا دل بہت بڑا ہے اس نے آپکو معاف کردیا ہے۔تو پھر میں کیوں آپکے لیے نفرت دل میں رکھتا۔زمانے میں نفرت کے قابل اور چیزیں ہیں۔آپ اس قابل بھی نہیں تھے کہ نفرت کی جائے۔اللہ آپکے لیے آسانی کرے۔"
ارباز بہت ٹھنڈے مزاج کے شخص تھے پر آج اتنے عرصے بعد انکو دیکھ کر خود کو تھوڑا تلخ ہونے سے روک نہ سکے۔اپنی ماں انھیں یاد آئی تھیں وہ بھی بیمار تھیں اور دوا کے پیسے تک نہیں تھے۔بچے بھوکے سوجایا کرتے تھے۔وہ تو اللہ کا کرم تھا کہ انکے بھائی نے وراثت کی زمین کے پیسے انھیں لوٹا دیے۔
زولفقار کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔چادر انکے سینے تک چڑھی ہوئی تھی۔لب انکے خشک تھے۔حلق میں کانٹے چبھنے لگے۔ٹھسکا اٹھتا اس سے پہلے ہی کوئی گلاس تھام کر انکے پاس بیٹھ گیا۔
زولفقار زرپاش کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتے گئے۔
"ارباز...بھائی کو اٹھانے میں مدد کردیں۔پانی پلانا ہے۔"وہ ارباز کی جانب مڑ کے بولیں تو وہ سر ہلا کے پاس آئے اور انھیں سہارا دے کر کمر سے اٹھا کہ بیٹھایا۔خود انکے پیچھے ہی ٹک سے گئے۔زرپاش نے انکی تھوڑی تھام کے گلاس لبوں سے لگا دیا۔وہ گھونٹ گھونٹ کر کے پانی پیتے گئے۔
بھائی کی حالت دیکھ انکے دل بجھنے لگا۔پانی پلا کر گلاس انھوں نے ایک طرف رکھ دیا اور بھیگی اکھیوں سے انھیں دیکھتی گئیں۔زولفقار کچھ بولنا چاہتے تھے پر بولنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔
"زز زری..."دونوں بہن بھائیوں کی آنکھوں سے آنسو پھسل گئے۔بنا کچھ کہے زرپاش نے سر انکے کندھے پہ ٹکادیا۔
"بھائی جان میں نے آپکو معاف کیا۔اللہ بھی آپکو معاف کردے۔"نرمی سے کہتیں انکا بازو سہلانے لگیں۔سر اٹھا کے دوپٹے کے کنارے سے انھوں نے زولفقار کا نم چہرہ صاف کیا۔وہ خود بھی رو رہی تھیں۔
"بابا سائیں آپکے کھانے کا وقت..."
میران جو بے پروائی سے اندر آیا تھا زرپاش اور ارباز کو دیکھ کھٹک کے رہ گیا۔مراد اسکے پیچھے تھا۔اس نے اسے بھنک پڑنے بھی نہیں دی کہ وہ دونوں یہاں آئے۔خوشی کے دیے اسکے چہرے پہ جل اٹھے۔وہ ابھی بنگلے لوٹا تھا سیدھا ادھر ہی چلا آیا۔پلٹ کے مراد کو دیکھا جس نے فوراً نظریں چرا لی تھیں البتہ آنکھوں کی شرارت مخفی نہیں تھی۔
     "زہ نصیب...ہمارے بنگلے میں آج بہار لوٹ آئی ہے۔"
وہ خوشگواری سے ہنستا ہوا پاس آیا۔اس نے کھڑکی سے پردے ہٹا دیے تو کمرہ مزید روشن ہوگیا۔ارباز سے گلے مل کر پھپھو کے قریب پنجوں کے بل ٹک گیا۔انھوں نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا۔میران نے خم کیا سر اٹھایا۔دروازے کے پاس کھڑے مراد کو دیکھا۔
"اندر آجاؤ مہمان تو نہیں ہو جو بلاوا دینا پڑے گا۔"اسکے دو ٹوک انداز پہ مراد خاموشی سے اندر آگیا۔سامنے دیوار کے ساتھ بھی صوفے لگے تھے۔ارباز کے ساتھ وہیں ٹک گیا۔پر اس نے زولفقار کی کوئی خیر خیریت دریافت نہیں کی۔
"مراد جاؤ مل لو بیٹا۔"ارباز نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھا۔وہ انھیں دیکھے گیا۔میران اسکا منتظر تھا۔مٹھی بھینچے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور زرپاش کے پیچھے ہی کھڑا ہوگیا۔میران جگہ سے اٹھا اور اسے اشارے سے سامنے آنے کا کہا۔
سانس بھر کے اس نے میران کو دیکھا پھر زولفقار کے عین سامنے آن کھڑا ہوا۔
      زولفقار نے اسے دیکھ کر آنکھیں موند کر کھولیں۔انھوں نے دایاں ہاتھ اٹھا کے ہوا میں ٹھہرا دیا۔وہ سمجھ نہیں پایا تو زرپاش نے اسے اشارہ کیا۔وہ انکا ہاتھ تھام کر بیڈ پہ انکے پاس بیٹھ گیا۔زولفقار نے اسکے ہاتھ سے ہاتھ نکال کر مزید ہاتھ اونچا کرکے سر پہ رکھنا چاہا۔مراد نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔اسے گھٹن سی محسوس ہوئی۔
چہرہ سیدھا کرکے وہ پھر رونے سے لگے۔وہ چاروں ہی بے بسی کے مارے اس شخص کو دیکھے گئے۔مراد اپنا دل صاف کر آیا تھا پر انکے ساتھ گھلنے ملنے کا خواہشمند ہر گز نہیں تھا۔وہ اٹھ کے واپس ارباز دمیر کے برابر میں بیٹھ گیا۔
"مم معاف کردو مجھے تت تم سببب،،بہت زیادتی کک کی ہے تتم لوگوں کے ساتھ۔"وہ اٹک اٹک کر لڑکھڑاتی آواز کر سنبھال کے بولے۔اتنا کہنے میں وہ بری طرح ہانپ چکے تھے۔میران نے لب بھینچ کے انکا سینا سہلایا۔
"سب نے معاف کردیا ہے پریشان مت ہوں۔"زرپاش نے انکا ہاتھ سہلا کر کہا۔وہ گھٹ گھٹ کے روتے رہے۔
"پھپھو بابا نے مجھے کل کہا ہے کہ آپکا وراثت میں جتنا بھی حصہ بنتا ہے ادا کردوں۔"
باپ کی طرف مسکرا کر دیکھ کے اس نے بتایا۔وہ پھیکا سا مسکرادیں۔زرپاش بھائی کے سرہانے بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں۔
معافیاں تلافیاں ہوگئی تھیں پر ایسے کئی مظلوم لوگ اور تھے جو انکے ظلم کا نشانہ بنے تھے۔کس کس سے معافی مانگتے؟نا جانے کس کی آہیں لگ چکی تھی۔ساری زندگی ایسے بستر پہ پڑے رہ کر گزار دینے کا خیال انکی جان نکال دیتا تھا۔
          مراد اٹھ کے میران کے ساتھ ہی باہر آگیا۔وہ دونوں ہال میں بیٹھے تھے۔فرید نے چائے اندر کمرے میں زرپاش اور ارباز کو بھی دی تھی اور باہر بھی لوازمات کے ساتھ چائے لاکر رکھ دی۔
"کراچی جارہا ہوں کمیشنر صاحب سے ملاقات کے سلسلے میں،کچھ دنوں میں واپس آجاؤنگا۔"
چائے کا کپ لبوں سے لگا کر مراد نے بتایا۔میران صوفے سے کمر ٹکا کر بیٹھا ہوا تھا۔عادتاً ناک ہاتھ کی پشت سے رگڑ کر اس نے پوچھا۔
"واپسی کب تک کی ہے؟دو ماہ بعد الیکشن شروع ہورہے ہیں۔پنڈی میں اجلاس منعقد کرنا ہے سیکورٹی کے انتظامات تمھارے ہی حوالے ہونگے۔"میران نے آگے جھک کر ٹیبل سے چائے کا کپ اٹھا لیا۔
"وہ دو ہفتے بعد ہے نا،میں تو رومائزہ کے نکاح سے پہلے ہی آجاؤنگ..ا۔"نا دانستہ طور پہ مراد کی زبان تیزی سے پھسل گئی تھی۔اس نے میران سے نظریں چرا لیں۔
چائے میران کے حلق میں اٹک سی گئی۔بمشکل اس نے کڑوا گھونٹ اندر اتارا۔
"کب،کب ہے نکاح؟"وہ فوراً سنبھل نہیں پایا۔سوالیہ انداز میں پوچھا۔
"اگلے جمعرات کو۔سات دن بعد۔"مراد نے چائے کا گھونٹ بھر کے بتایا۔
"وہ خوش ہے نا؟"پرسوچ انداز میں کپ کی نوک پہ میران نے انگلی پھیری پھر گھونٹ بھرا۔
"تمھیں اب اس سے مطلب؟نہیں بتارہا کیسی ہے وہ،لوگ محبت میں کیا کچھ نہیں کرتے،تم اپنی وضاحت تک نہیں دے پائے۔"وہ ان دونوں سر پھروں سے تپا ہوا تھا۔میران نے گھور کے اسے دیکھا۔
"اب کیا جان ہتھیلی پر رکھ کر دے دوں؟وہ جب میرا ساتھ چاہتی ہی نہیں تو زبردستی نکاح تو نہیں کرسکتا نا!"وہ گرجتے ہوئے بولا تو مراد کے پرزے ڈھیلے پڑے۔جزبز سا چائے کے گھونٹ بھرتے گیا۔البتہ میران کے اندر طوفان مچ گیا تھا۔دل پہ جبر کیے وہ گھونٹ بھرنے لگا۔    
    چائے بھی کڑوی زہر ہوگئی تھی،آدھی پی کر اس نے کپ رکھ دیا۔اور ایکسکیوز کرتا اٹھ کھڑا ہوا،اور اوپر اپنے کمرے میں جانے کیلیے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔مراد نے افسردگی سے اسے سیڑھیاں چڑھتے دیکھا۔کاش وہ اسکے کچھ کام آسکتا،جتنا وہ اسکے کام آیا تھا۔
                          ★ ★ ★
میران نے کمرے میں جاکے سیگریٹ سلگائی اور شیشے کا دروازہ کھول کر بالکونی میں آگیا۔کش بھر کے دھواں باہر چھوڑ رہا تھا،اپنے اندر لگی آگ کو بجھانے کی معمولی سی کوشش تھی۔اس نے آنکھیں بند کر لی اور باغ کے پھولوں کی اٹھتی بھینی بھینی خوشبو کو سیگریٹ دور کرکے اندر اتارنے لگا۔
رابطہ بھی نہیں رکھتا سرِ وصل کوئی
اور تعلق بھی معطل ہونے نہیں دیتا
دل یہ کہتا ہے اسے لوٹ کے آنا ہے یہیں
یہ دلاسہ مجھے پاگل ہونے نہیں دیتا
                           ★ ★ ★
  دو دن بعد....
مراد کراچی جانے کے لیے پیکنگ کر رہا تھا اور عائشے اسکے ساتھ جانے کی ضد کر رہی تھی۔ڈریسنگ روم میں جاکر وہ کپڑے نکالنے لگا۔عائشے اسکے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔
"اے ایس پی صاحب میں آپکے ساتھ چلونگی۔بیوی کو چھوڑ کے جائینگے بہت گناہ ملے گا۔"
وہ ہینگر سے شرٹ نکال رہا تھا عائشے منمناتے ہوئے دوپٹے کو انگلی پہ لپیٹ کر بولی۔مراد ہنس پڑا۔
"مسز مراد دمیر،باز آجائیں۔تین چار دن کی ہی تو بات ہے۔"اس نے شرٹ ایک طرف کی ہینگر واپس ٹانگ دیا اور دوسری شرٹ نکالنے لگا۔عائشے جھنجھلاتے ہوئے کھڑی رہی۔
"میں آپکی بیوی ہوں....اے ایس پی مراد کی بیوی!اور یہ میرا حکم ہے کہ مجھے ساتھ لے کر جائیں ورنہ میں نہیں جانے دونگی۔"وہ ضدی اٹل انداز میں گویا ہوئی۔
مراد نے بازو سے پکڑ کے اسے تھاما۔
"کیوں تنگ کر رہی ہو؟"مراد نے چہرہ اسکے قریب کرلیا اور لہجے میں سختی سموئے آنکھیں دکھا کر بولا تو وہ گھگھیا گئی۔
"بس ساتھ چلنے کا ہی تو کہہ رہی ہوں۔"عائشے نے معصومیت سے کہا۔مراد کی آنکھوں میں مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔
"بیگم لگتا ہے بڑی شدت سے محبت کر بیٹھی ہیں آپ،جیسے میرے بغیر آپ سے رہا نہیں جائیگا۔"
"میں نے ایسا تو نہیں کہا۔"وہ صاف مکری۔
"صرف تین چار دن کے لیے جا رہا ہوں،اگر ساری زندگی کے لیے چلا گیا تو کیا حال ہونا ہے؟"
وہ اسے زچ کرتا اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔عائشے اسکی گرفت میں سمٹ گئی۔
"اللہ نہ کریں۔کچھ بھی بولتے رہتے ہیں۔آپ کے بغیر میں واقعی مرجاؤنگی۔"
اس نے رندھی آواز میں کہا۔مراد نے نرمی سے اسے اپنے ساتھ لگایا۔
"آئیندہ ایسی بات کی تو آپکی جان لے لونگی۔"اسکی شرٹ مٹھی میں جکڑے اسکے کندھے پہ سر رکھ کر وہ برہمی سے بولی۔مراد کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
"قاتل ادائیں جان خود ہی لے لیں گی اس نا چیز کی۔"وہ اسے مزید چھیڑنے لگا۔وہ مچل گئی۔
"مراد۔"
"یار تم سے دور رہ کر مجھے کہاں سکون ملتا ہے۔عادت ہوگئی ہے تمھاری۔چوبیس گھنٹے میں ایک بار تمھیں نا دیکھوں تو چڑچڑاپن لگ جاتا ہے۔"
اسکی بات پہ عائشے نے سر اٹھایا۔
"بس چوبیس گھنٹے میں ایک بار؟"اسکا حصار توڑ کے وہ کمر پہ ہاتھ رکھے شاکی نظروں سے گھور کے بولی۔
"تو اور کیا؟اور بھی کام ہیں تمھیں سوچتا رہا تو پھر سرکار چھٹی دے کر مجھے گھر بٹھا دیگی۔پھر چوبیس گھنٹے تمھاری شکل دیکھتے رہونگا۔"وہ واپس الماری کی طرف مڑ گیا۔عائشے نے دانت کچکچائے۔
"جائیں چلیں جائیں۔اور میں کوئی آپکے انتظار میں دیوانی تھوڑی ہوجاؤنگی۔بس مجھے کراچی دیکھنے کا شوق تھا پر کوئی بات نہیں۔"نروٹھے پن سے کہہ کر وہ جانے لگی۔
"رومائزہ اور سفیر کے نکاح کے دو دن بعد کی سوات کی ٹکٹس بک کروا چکا ہوں۔وہاں ہنی مون پہ چلیں گے نا۔اور بے فکر رہو پاکستان تو کیا جو پوری دنیا اپنے ساتھ گھماؤنگا۔"
اسکی پشت کو دیکھ کر مراد نے کہا اور کپڑے نکال کر باہر کمرے میں آگیا۔عائشے سرخ سی ہوگئی اور اسے گھورے گئی۔دوپٹہ اٹھا کے کمرے سے باہر نکل گئی۔مراد آج رات کی ہی فلائٹ سے چار دن کے لیے کراچی جا رہا تھا۔اور عائشے نے اسے سختی سے تلقین کردی تھی کہ رومائزہ کے نکاح سے پہلے واپس لاہور میں ہونا چاہیے۔
                          ★ ★ ★
         مراد کو گئے ہوئے دو دن گزر چکے تھے۔سفیر پچھلی رات کو واپس آگیا تھا۔وہ دیر رات کو گھر لوٹا تھا بتول اور غضنفر کو جگانا مناسب نہیں سمجھا۔رومائزہ سے مل کر فریش ہونے کے لیے روم میں چلا گیا۔فریش ہوکے آیا تو رومائزہ لاؤنچ میں مووی دیکھ رہی تھی وہ اسی کے پاس بیٹھ گیا۔
ہینڈ کیری کھول کے اس نے ایک پینٹنگ نکال کر رومائزہ کے سامنے کی۔
"آہ آپ لے آئے۔تھینک یو سو مچ..."پینٹنگ ہاتھ میں لے کر وہ دیکھنے لگی۔یہ کسی خوبصورت سی عورت کی پینٹنگ تھی۔وہ مبہوت ہوکر دیکھے گئی۔آنکھوں میں ستائش واضح تھی۔
"اسے پلٹ کر دوسری طرف سے دیکھو۔"
اسکے چہرے کی رمق دیکھ کر سفیر نے مسکرا کر کہا۔رومائزہ نے نا سمجھی سے پینٹنگ کو گھمایا۔اسکا منہ حیرانی سے کھل گیا۔اب پینٹگ میں کسی مرد کا چہرہ بنا تھا۔
"خوبصورت...."اس نے مشکوریت سے اسے دیکھا۔
"میرا اسکیچ مکمل کرلیا؟"سفیر نے گرم جوشی سے پوچھا۔روما کی شکل اتر گئی۔
"نہیں بنایا کیا؟کیوں یار؟"
"بنا لیا....پر صبح دکھاؤنگی۔"اسکے اڑے چہرے پہ خفگی کے پھیلتے رنگ دیکھ کر رومائزہ نے محظوظ ہوتے ہنس کر کہا۔اسے پرسکون دیکھا تو سفیر کو تسلی ہوئی۔
"تین دن بعد نکاح ہے۔تم خوش ہو نا؟"سفیر نے ابرو اچکا کر آہستہ سے پوچھا۔وہ سوچ میں چلی گئی۔سفیر کو منتظر پایا تو سر ہلادیا۔
"مجھے اس خوبصورت سی لڑکی کے چہرے پہ مسکراہٹ چاہیے بس،میں پوری کوشش کرونگا تمھیں تمام خوشیاں دے سکوں جسکی ہر لڑکی خواہش کرتی ہے۔"
اسکے چہرے کا جائزہ لے کر بولا۔رومائزہ زبردستی مسکرائی۔نظریں اسکرین پہ مرکوز کرلیں۔دل اسے جھنجھوڑ رہا تھا پر اس نے دل کی خواہش کو اندر دبا لیا۔اسکا ایک فیصلہ کتنوں کے دل توڑ دیتا۔وہ اس سوچ سے ہی ڈرتی تھی۔
سفیر تھکا ہوا لوٹا تھا واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔رومائزہ میں ہمت ہی نہیں بچی تھی میران کی حقیقت اسے بتانے کی۔وہ خود ایک گلٹ کا شکار تھی۔کوئی عام گلٹ نہیں تھا یہ،اسکا سکھ چین اڑ چکا تھا۔سب کے سامنے ہنستے مسکراتے نارمل رہ رہ کر وہ تھک چکی تھی۔
      'سفیر کو سب بڑے پاپا ہی بتا دینگے'اس نے یہ سوچ کر خود کو ریلکس کیا۔اور مووی دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔پر اب اسکا سارا دھیان آگے کی زندگی سوچنے میں لگ چکا تھا۔ایل سی ڈی بند کرکے وہ سونے کے لیے کمرے میں چلی گئی۔نیند نے کونسا جلدی مہربان ہوجانا تھا۔
پیپرز کے دوران وہ ویسے ہی جاگ رہی تھی پھر میران کی سچائی معلوم ہونے کے بعد تو راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔پچھتاوا اور گلٹ ہی بس رہ گیا تھا۔
           وہ صبح اٹھی تو ناشتے کے بعد تیار ہونے لگی۔اس نے سفیر کی واپسی کا بتول کو بتادیا تھا۔پر وہ اب تک سو رہا تھا تو کسی نے جگایا نہیں۔
اسے شاپنگ پہ عائشے کے ساتھ جانا تھا۔عائشے نے رات ہی میسج کیا تھا۔رومائزہ نے انگوری رنگ کی پرنٹڈ گھٹنوں تک کی فراک کے ساتھ انگوری ہی پاجامہ پہنا تھا۔ماسک اٹھا کے منہ پہ لگالیا۔دوپٹے کو شانوں پہ پھیلا کر لمبی چین والا بیگ شانے پہ لٹکا کر پیروں میں سلیپر اڑس کے باہر نکل گئی۔موبائل اور کچھ پیسے اس نے بیگ میں رکھ لیے تھے۔
گیارہ بج چکے تھے۔عائشے کا کہنا تھا اس وقت رش کم ہوتا ہے،اور جس دکان میں اسے جانا تھا وہ گیارہ بجے تک کھل جاتی ہے۔
ڈرائیور کے ساتھ سوا گیارہ تک عائشے اسے لینے آگئی تھی،بتول کو آگاہ کرکے وہ باہر آگئی۔گارڈ بابا نے اسکے لیے دروازہ کھولا۔عائشے گاڑی کا شیشہ اتار کے مسکرا کے رومائزہ کو آتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔اسکے پاس آنے پہ عائشے نے اندر سے دروازہ کھول دیا۔رومائزہ کے بیٹھنے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کردی۔
         کراچی سے مراد کا فون آیا ہوا تھا۔ارباز دمیر لاؤنچ میں ہی تھے۔نیمل نے طبیعت میں بوجھل پن کی وجہ سے چھٹی لی تھی۔وہ ارباز کے تاثرات دیکھ رہی تھی جو مراد کی فون کال کے بعد بدل چکے تھے۔انکے چہرے پہ تھوڑی پریشانی چھلک رہی تھی۔
"بابا کیا ہوا؟...کیا کہہ رہے تھے بھائی؟"
"عائشے گھر میں ہے نا؟"انھوں نے فوراً اسکی موجودگی کا پوچھا۔
"نہیں۔وہ ضروری کام سے رومائزہ کو ساتھ لے کر گئی ہے۔تھوڑی دیر میں آجائیگی۔"
زرپاش لاؤنچ میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔
"اچھا،آجائے تو اسے گھر سے باہر اکیلے ہر گز نکلنے نہیں دیے گا۔"
"ارباز صاحب کیا بات ہے؟"زرپاش نے چونک کر پوچھا۔انھیں خدشہ ہوا تھا کہ ارباز کچھ چھپا رہے ہیں۔
"مراد کا فون آیا تھا۔اسی نے کہا ہے عائشے کو گھر میں رکھیں جب تک وہ نہیں آجاتا۔عائشے کی پہلے جس سے شادی ہورہی تھی وہ ارغن نامی شخص جسے مراد نے اریسٹ کیا تھا،وہ دو دن پہلے جیل سے بھاگ گیا ہے۔پولیس اسکی تلاش میں ہے۔وہ آدھا پاگل انسان ہے کچھ بھی کرے اسی لیے ہمیں احتیاطی تدبیر خود لینی چاہیے۔"ارباز نے آرام سے انھیں بتایا۔
"اللہ مجھے پتا ہوتا تو میں اسے اکیلے جانے بھی نہیں دیتی۔"زرپاش پریشان سی ہوگئیں۔
"مام ریلکس اتنے بڑے شہر میں وہ بھابھی کو ڈھونڈ تھوڑی سکے گا۔ایک دیڑھ گھنٹے تک وہ آجائیں گی۔"
نیمل نے اٹھ کے انکے شانے پہ بازو پھیلا کر اطمینان دلاتے کہا۔
                          ★ ★ ★
"واہ بھئی عائش تم تو فل بیوی بن گئی ہو۔مجھے تم سے امید نہیں تھی کہ تم مراد بھائی کی برتھڈے کے لیے اتنا اہتمام کروگی۔"رومائزہ تعریف کے ساتھ اسے چھیڑنے والے انداز میں بولی۔عائشے نے فوٹو فریمز بنوائے تھے۔اور اس میں ان دونوں کی نکاح کی اور ولیمے کی کچھ تصاویر فریم تھیں۔
انکے گھومنے پھرنے والے دنوں میں مراد کی سالگرہ کا دن پڑ رہا تھا۔وہ فریمز کا سیٹ اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی تھی۔اس بارے میں نیمل اور رومائزہ کے علاوہ اس نے کسی کو خبر نہیں دی تھی۔ہاں تیسری انوش تھی جس کے ساتھ وہ آرڈر بنوانے کے لیے گئی تھی۔
"کہہ تم سہی رہی ہو،مجھے لگتا ہے میں بدل گئی ہوں۔میں اللہ کا کتنا شکر ادا کروں اتنا کم ہے کہ اللہ نے مجھے اتنے اچھے شوہر سے نواز دیا۔"وہ گاڑی میں بیٹھ کر خوشی سے مسکرا رہی تھی۔
"مجھے اندازہ نہیں تھا کوئی ایسا ہوگا جو مجھے مجھ سے زیادہ چاہے گا،جسے میری مجھ سے زیادہ پرواہ ہوگی۔کسی کیلئے میں اتنی انمول اور اہمیت رکھتی ہونگی،جو مجھے ہر صورت اپنا بنا کر رکھے گا۔میری تکلیف پہ درد انکو بھی ہوگا۔جو پل پل میرے ساتھ کھڑا ہوگا۔"
     "میرا غرور میرا حوصلہ...دونوں ہی مراد سے ہے۔"وہ ایک ٹرانس کی کیفیت میں کہہ گئی۔رومائزہ نے مسکرا کے اسے دیکھا۔
"اللہ تمھاری خوشیاں سلامت رکھے۔آمین۔"اس نے دل سے دعا دی۔
"تمھیں بھی خوشیاں دے جو تم ڈیزروو کرتی ہو۔"عائشے نے تھوڑا زور دے کر کہا وہ اسکی بات کا مطلب سمجھ گئی تھی۔خاموشی سے کھڑکی کے دوسری پار دیکھنے لگی۔
شاپ سے کچھ دور جانے کے بعد گاڑی بند ہوگئی۔ڈرائیور اتر کے باہر نکلا۔یہ سناٹے دار جگہ تھی کافی دیر دیر میں گاڑیوں کا گزر ہورہا تھا۔
"میڈم گاڑی گرم ہوگئی ہے۔پانی ڈالنا پڑے گا،میرے پاس ختم ہوگیا میں آگے سے بھر کے لاتا ہوں۔آپ باہر مت نکلیے گا۔"
وہ تنبیہہ کرکے بوتل گاڑی سے نکال کر آگے بڑھ گیا۔ان دونوں نے کوفت سے سر پٹخا۔
ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ انکی گاڑی کے گرد کچھ موٹر بائیک سوار اور ایک گاڑی آن رکی۔عائشے گھبرا کر رومائزہ کے قریب ہوگئی۔کسی نے بائیک سے اتر کے شیشہ بجایا۔رومائزہ کی چھٹی حس نے تیزی سے کام کیا۔اس نے دروازہ نہیں کھولا۔وہ سارے بائیک سوار اتر گئے۔
"اے لڑکی باہر نکل۔"
وہ آدمی باہر سے چلایا۔وہ رومائزہ سے نہیں عائشے سے مخاطب تھا۔عائشے نے خوف و حراس نگاہوں سے باہر دیکھا۔رومائزہ نے اسے بازوؤں سے تھام لیا۔
"عائشے گھبراؤ مت۔رکو میں فون کرتی ہوں گھر پہ۔"عائشے کو سنبھال کر رومائزہ نے بیگ سے جیسے ہی فون نکالا اسکی پار کا شیشہ کسی نے ڈنڈا مار کے توڑ دیا۔وہ چیخ کے پیچھے ہٹی۔
باہر موجود شخص نے جارحانہ انداز میں اسکے ہاتھ سے موبائل فون جھپٹ کے جیب میں رکھا اور گاڑی کا دروازہ کھڑکی سے کھول کر رومائزہ کو باہر کھنیچا۔وہ ٹوٹی ڈالی کی طرح حواس باختہ کھنچتی چلی گئی۔عائشے چلائی۔
"ارے چھوڑو اسے۔"عائشے بوکھلاتی ہوئی اسکے پیچھے ہی باہر نکلی کسی نے اسے بازو سے گرفت میں لیا۔عائشے کی تو بولتی بند ہوگئی۔
"ہو دا ہیل آر یو!چھوڑ دو ورنہ میں نہیں چھوڑونگی پھر!"رومائزہ نے غرا کر دھمکی دی۔ان دونوں کی سمجھ سے باہر تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔
اس شخص نے رومائزہ کی کمر میں ہاتھ ڈال کر جب جکڑا تو وہ بلبلا اٹھی۔آنکھیں غصے سے پھیل گئیں۔یہ تیسری بار اسکے ساتھ ہورہا تھا جو غنڈے اسکے راستے میں آگئے تھے۔پر یہ میران کے لوگ تو نہیں تھے نا ہی ہوسکتے تھے۔پھر یہ کون تھے۔اور نہ ہی اب میران آکے بچانے والا تھا۔
رومائزہ نے زور سے کہنی اسکے بازو پہ ماری اور خود کو چھڑایا۔پر کسی دوسرے غنڈے نے اسے پکڑ لیا۔
"میڈم جی اتنی محنت نا کرو...آج کوئی نہیں بچا سکتا۔خاص کر تمھیں مسز مراد دمیر!"ان غنڈوں کے درمیان سے ایک شخص سر پہ سے ہیلمٹ اتار کے عائشے کی طرف بڑھا۔
"ارغن!"عائشے کی روح کانپ گئی۔آخر یہ شخص کیا چاہتا تھا۔بدلہ؟رومائزہ سارا ماجرا سمجھ گئی۔اسکے اندر کی ننجا جاگ گئی تھی۔لات الٹی گھما کر اس نے خود کو آزاد کیا اور ارغن کی طرف لپکی۔
"یو بلڈی باسٹرڈ تمھاری ہمت کیسے ہوئی ہمارا راستہ روکنے کی۔"رومائزہ اس پہ جھپٹنے والے انداز میں اسکا گلا دبوچ کر غرائی۔عائشے کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور وہ حیرت سے رومائزہ کی ہمت کو دیکھ رہی تھی۔
"چھوڑ مجھے۔"
ارغن نے اپنا گلا چھڑا کے اس کے منہ پہ تھپڑ رسید دیا۔رومائزہ کا تو دماغ گھوم گیا۔اس نے آگے بڑھ کے جنون سے اسکے منہ پہ تھوک دیا۔ارغن نے نفرت سے اسے دیکھا۔عائشے بے ہوش ہونے کو آئی۔
پیچھے سے لڑکوں نے روما کو گھیرا تھا۔اس نے پوری قوت سے ہاتھ پیر چلا کر خود چھڑایا۔
ایک کی کہنی پہ لات ماری تو دوسرے کی پیٹھ پر۔ارغن ایک طرف ہوکر تماشہ دیکھنے لگا۔
"عائشے ککڈ ہم!"رومائزہ نے چلا کر کہا۔پر عائشے کے تو اوسان خطا ہورہے تھے۔رومائزہ نے پتھر اٹھا کے اسکے پیچھے کھڑے شخص کے سر پہ دے مارا۔عائشے نے آنکھیں میچ لیں۔نشانہ چوک ضرور گیا تھا سر کی بجائے کندھا زخمی کر گیا۔عائشے اس غنڈے کی گرفت سے جیسے ہی آزاد ہوئی لڑکھڑا کے روما کی طرف لپکی۔
رومائزہ اکیلی ان غنڈوں کا سامنا کر رہی تھی اور وہ خود بھی زخمی ہوچکی تھی۔
تین چار غنڈے تھے وہ جو اسے بخشنے کو راضی نہیں تھے۔
"ہمیں جانے دو،ہم نے تمھارا کیا بگڑا ہے؟"عائشے ہکلاتے ہوئے ارغن سے مخاطب ہوئی۔وہ تمسخر سے ہنسا اور اسکے پاس چلا آیا۔عائشے سہم کر پیچھے ہوئی۔
"تمھارے شوہر کو کیا لگا مجھے جیل بھجوا کر اور تم سے شادی کرکے تمھیں تحفظ دے دیگا!"وہ ہنس رہا تھا۔کڑوی ہنسی۔
"مراد تمھیں چھوڑیں گے نہیں۔"وہ پھنکاری۔
"پر اس سے پہلے میں تمھیں نہیں چھوڑونگا ڈارلنگ۔"ارغن نے جھٹکے سے اسکی کلائی تھام کے اسے اپنی جانب کھینچا۔
"روما ہیلپ می۔"عائشے چیخی۔رومائزہ کی سانس چڑھ گئی تھی۔ان دو غنڈوں نے اسے سختی سے اپنے شکنجے میں دبوچ لیا تھا۔
"اے کمینے انسان چھوڑ دو اسے ورنہ..."رومائزہ اپنا وجود چھڑانے کی جست میں لگی چلائی۔ارغن کا قہقہ بلند ہوا۔اس نے دل فریبی سے اسے دیکھا پھر عائشے کو۔
"خوبصورت تو تمھاری دوست بھی بہت ہے تو ایک کام کرتے ہیں اسے بھی ساتھ ہی لے چلتے ہیں۔"وہ خباثت سے بولا۔عائشے کا دل دہل گیا۔
"بہت غلط کر رہے ہو،جب پکڑے جاؤگے نا،تو تمھیں مراد بھائی چھوڑیں گے نہیں۔"
رومائزہ کی آواز ڈگمگائی تھی پھر بھی لہجہ مضبوط رکھا۔وہ ڈرتی نہیں اگلے کو ڈرا کر رکھنے والوں میں سے تھی کہ اگلے پہ اسکا رعب ہو۔
ارغن اسکی دل فریب آواز پہ جھومنے لگا۔کھڑا لہجہ،جیسے کوئی انگریز بڑی شائستہ اردو بول رہا ہو۔رومائزہ کی آواز اور لہجہ ہی اگلے کو راغب کرنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔وہ گھر سے باہر تو بہت سنبھل سنبھل کے بولا کرتی تھی۔
"خبیث انسان منہ نوچ لونگی تمھارا۔چھوڑو عائشے کو۔"وہ مچل رہی تھی۔ارغن کی عائشے کی کلائی پہ سخت گرفت تھی اسکے آنسو بہہ نکلے۔
"عائشے کچھ تو کرو۔"وہ اشارتاً اسے کہنا چاہتی تھی اسکے ہاتھ پہ دانت گڑا کے خود کو چھڑا لے پر عائشے تو حواس ہی کھو رہی تھی۔رومائزہ کو شدید غصہ چڑھا۔
شدت سے میران کا خیال آیا تھا۔کاش وہ پھر اس بار کہیں سے آجاتا اور انھیں بچا لیتا۔پر اب وہ اسکی حفاظت میں کہاں تھی۔اسکی امانت تھوڑی تھی۔
    "گاڑی میں ڈالو اسے۔اڈے پہ پہنچ کے بتاتا ہوں اسے تو میں،بہت زبان چلتی ہے اسکی۔"ارغن نے عائشے کو کھینچ کر گاڑی میں ڈالا۔اور اپنے ساتھیوں کو رومائزہ کی جانب اشارہ کرتے بولا۔وہ قابو سے باہر تھی۔تو ایک شخص نے اسکے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا اور چہرے پہ کپڑا ڈال کر ہاتھ باندھ کے گاڑی میں بٹھادیا۔عائشے بوکھلا گئی تھی۔وہ ارغن سے التجائیں کرتی رہ گئی۔
گاڑی سڑک پہ دوڑا دی۔ان دونوں کا دل بند ہونے لگا۔
       "اللہ جی بچالے ہمیں...مراد کہاں ہیں آپ!"بے بسی سے عائشے کی آنکھوں سے سنامی بہہ نکلا۔
       جاری ہے.....
Kidnapping kidnapping chal rhi hai🤡
Guess agy kia hooogaww?
Next episode will be 2nd last 🔫
Must vote and comment ❤️

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now