قسط 24 مہرباں

472 44 7
                                    

                            ★ ★ ★
رات کھانے کے وقت وہ تینوں ڈائننگ ٹیبل پہ موجود تھے۔رومائزہ اپنے کمرے میں پڑھ رہی تھی۔غضنفر ٹی وی بند کرکے ہی کھانے کے لیے آن بیٹھے تھے۔کھانے کے دوران موضوع گفتگو نیوز چینلز پہ چلتی خبریں تھیں۔
"بابا ان سیاست دانوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔کیا معلوم باپ کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ہو اس نے اور کامیاب بھی ہوگیا۔نام بھی ہوگیا اور کام بھی ہوگیا۔عوام تو اسے اب ہار پھول چڑھاتی رہے گی۔"سفیر پلیٹ میں چمچ سے چاول بھرتے ہوئے بے زاری سے بول رہا تھا۔غضنفر نے اپنی کھانے کی پلیٹ پہ جھکا سر اٹھایا۔
"کیا معلوم.....پر یہ کام کوئی آسان تو نہیں تھا۔سب ہی جانتے ہیں وہ اپنے باپ سے کتنا قریب ہے،اسکے باوجود وہ انکے خلاف گیا۔عوام کو زولفقار کے بند کرنے سے کیا مطلب سب ہی یہی چاہتے ہیں ملک کا پیسہ واپس آئے۔یہ ملک میں پہلی بار ہوا ہے جو کسی سیاستدان نے کرپشن قبول کی ہو اور پیسہ لوٹایا ہو۔اور رہی بات میران جاہ کی اس نے صوبے میں کام تو کافی کروایا ہے۔باقی نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔"
"غصنفر صاحب بند کریں یہ باتیں،اسی شخص نے ہماری پھول سی بیٹی کو اجاڑ دیا ہے یہ نہ بھولیں!"بتول انکی بات مکمل ہوتے ہی بولیں۔لہجہ میں کڑواہٹ اور سختی در آئی تھی۔
رومائزہ کے واقعے سے پہلے تک میران انکے اعتبارِ نگاہ سیاست دانوں میں آتا تھا۔پر اب دل بدل گئے تھے۔بتول کے کہنے پہ یہ ٹاپک کلوز کردیا اور کھانے میں واپس مشغول ہوگئے۔
          رات کے آٹھ بجے تھے،وہ دمیر ہاؤس میں تھا۔اس قدر غمگین تھا کہ کسی چیز کی چاہت نہیں بچی تھی۔غم منانے سے بہتر تھا ان لوگوں سے ملا جائے جن کو اللہ نے عرصے بعد اس سے ملا دیا تھا۔جو اس سے محبت کرتے تھے،زرپاش کی محبت اسے ممتا کا احساس دلا رہی تھی۔فلحال اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی میران جاہ ہے جو سب کو جوتے کی نوک پہ رکھتا ہے۔وہ مظلوموں کا ہمدرد تھا اور ظالموں کے لیے حد درجہ برا۔انصاف پسند تھا۔وہ خود کو بے پرواہ سا ظاہر کرتا تھا پر خبر ہر ایک کی رکھتا تھا۔بچپن سے ہی تنہائی پسند رہا تھا عزیز کے علاوہ اس نے کبھی کسی کو خود کے قریب نہیں کیا تھا۔اور ایک دائم تھا جو باہر ملک اسے یونیورسٹی میں ملا تھا۔اس لڑکے نے اسکی جان نہیں چھوڑی تھی۔
   مراد نے ارباز دمیر کو آنے کی اطلاع کردی تھی سجل گھر ہی آئی ہوئی تھی۔وہ سب لاؤنچ میں موجود نیمل کا پسندیدہ ڈراما دیکھ رہے تھے جو لائیو نشر ہورہا تھا۔
قدموں کی چاپ پہ نیمل کی توجہ لاؤنچ کے دروازے پہ گئی۔وہ جگہ سے ہڑبڑا کے کھڑی ہوئی۔
"ڈیڈ دیکھیں کون آیا ہے۔"
وہ حیرت زدہ صوفے سے گھوم کے باہر نکلی۔مراد اور زرپاش کے ساتھ میران اندر آیا تھا۔حسبِ معمول سفید کرتا شلوار زیب کیا ہوا تھا۔بال جو کبھی جیل سے سیٹ ہوتے تو کبھی وہ بکھرے ہوئے ہی چھوڑ دیتا تھا آج ماتھے پہ گرے ہوئے تھے۔آستینوں کے کف کہنی تک فولڈ کیے ہوئے تھے۔
نیمل شام سے آفس آنے کے بعد سے خبریں دیکھ رہی تھی۔ابھی تھوڑی دیر پہلے اسے ٹی وی پہ دیکھا تھا اسکی کئی تصویرات گردش کر رہی تھیں۔میڈیا اسکی تعریف میں اب پھول جھاڑ رہا تھا جس نے اپنے باپ کے خلاف جاکے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔اے پی جماعت میں فلحال انتشار پھیل چکا تھا میران کو ابھی اس سب بھی نمٹنا تھا پر وہ کچھ وقت سکون چاہتا تھا۔اپنی پھوپھو کے بارے میں اسے ہر صورت جاننا تھا۔وہ لاعلم تھا ہر ایک چیز سے۔
نیمل کی آواز پہ سجل نے چونک کے سر گھمایا،دمیر صاحب اٹھ کر انکے پاس جارہے تھے۔اور عائشے جو کمرے سے نکلی تھی میران کو دیکھ قدم وہیں رک گئے۔آخر اس گھر میں چل کیا رہا تھا؟
"یہ ڈیڈ ہیں میرے،ارباز دمیر۔دمیر انٹرپرائزز کے مالک۔اور ڈیڈ یہ میران جاہ' آپ جانتے ہی ہیں۔"مراد نے میران کی کہنی پہ ہاتھ رکھا تھا اور دوسرا ارباز کے کندھے پہ۔اور دونوں کا تعارف کروایا۔ارباز دمیر نے سلام کیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا جسے اس نے تھام لیا تھا۔رسمی مسکراہٹ سجالی۔اسکا دل ہر چیز سے اچاٹ ہورہا تھا۔آج اسے ہچکچاپٹ محسوس ہورہی تھی،اگر وہ دمیر انٹرپرائزز کے مالک ارباز دمیر سے ملتا تو یقیناً اسکا یہ ردعمل نہیں ہوتا،وہ رشتے کی حیثیت سے مل رہا تھا،پھپھا کی حیثیت سے۔
"مراد بھائی آپ انکو واقعی گھر لے آئے۔میران سر آپکو پتا ہے میں آپکی فین ہوگئی ہوں۔آپ واقعی ایک رول ماڈل ثابت ہوئے ہیں۔جو آپ نے کیا ہے اسکے لیے بہت بڑا جگرا ہونا چاہیے۔"نیمل نا جانے کیا کیا ایک سانس میں بولتی گئی تھی،میران کے چہرے پہ بلآخر اسکی لاعلمی پہ مسکراہٹ آگئی۔زرپاش اور دمیر کھڑے مسکرا رہے تھے۔
"بے وقوف لڑکی تمھیں پتا ہے یہ کون ہیں؟"مراد نے نیمل کو کندھے سے تھاما۔نیمل نے لاعلمی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔سجل اٹھ کے انکے قریب آگئی تھی۔
"یہ ہمارا ماموں زاد کزن ہے۔زولفقار جاہ مام کے سگے بھائی ہیں۔"سجل نے مسکرا کے اسکا مکمل تعارف کیا۔نیمل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔عائشے جو پیچھے کھڑی تھی اس نے صوفہ تھام لیا۔حیرت تو اسکی آنکھوں میں بھی امڈ آئی تھی۔مراد نے اسے پاس بلایا نہیں تھا وہ اسکی کنڈیشن سمجھ سکتا تھا۔وہ میران کو ناپسند ہی کرنے لگی تھی۔اسکی دوست کے ساتھ جو وہ اتنا برا کرچکا تھا۔
نیمل نے بے یقینی سے زرپاش کو دیکھا جو ہنستے ہوئے سر ہلارہی تھیں۔
"آپ لوگ مذاق کر رہے ہیں نا؟یہ بھلا ہمارے کزن کیسے ہوسکتے ہیں؟"وہ شاک میں تھی اور خوش بھی۔
"ہاں بیٹا یہ آپکے کزن ہی ہیں۔بڑے بھائی سمجھ لیں۔چلو بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔"ارباز نے میران کے شانے پہ ہاتھ رکھ کے اسے بیٹھنے کا صوفوں کی طرف اشارہ کیا۔اس نے ایک نظر گھر کے جائزے کے لیے دوڑائی تھی۔اچھا خاصا بڑا بنگلہ تھا یہ۔
"میں نہیں جانتا بابا سائیں نے آپ لوگوں کے ساتھ کیا کیا ہے پر اندازہ ہے وہ ماضی میں کافی برا کرچکے ہیں۔اس سب کے لیے میں معافی چاہتا ہوں۔"میران ںے ٹھہر ٹھہر کے بولنا شروع کیا۔عائشے مراد کے ساتھ صوفے پہ بیٹھ گئی تھی۔اس نے مٹھی بھینچی رکھی تھی جب کہ اس مٹھی پہ مراد اپنا ہاتھ رکھ چکا تھا۔وہ ضبط کے مارے سرخ ہورہی تھی۔
"میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا تھا ماضی میں؟میں نے سنا تھا بابا کی ایک بہن تھیں پر سب کہتے تھے کہ انکا اب کوئی اس خاندان سے تعلق نہیں رہا۔ممی ہوتیں تو شاید سب بتا دیتیں،میں بے خبر رہا اتنے سالوں نہ ہی خود سے اس بارے میں سوچا کہ اگر کوئی بہن تھیں تو انکا تعلق کیوں ختم ہوا۔مراد کا بائیو ڈیٹا نکلوایا تب جاکے آپ کا معلوم ہوا کہ آپ شہوار جاہ کی بیٹی ہیں۔"
"جب تم جان گئے تھے تب بھی آکے پوچھا نہیں؟"زرپاش نے پوچھا تو اس نے مراد کو دیکھا۔
"یہ آپکا بیٹا اپنی شناخت چھپا رہا تھا،بس اسی وجہ سے میں نے پہلے ملنے کی کوشش نہیں کی۔"مراد اسے گھور کے رہ گیا۔میران نے سر جھٹک دیا۔زرپاش نے لمبی سانس لے کر ماضی کی ابتداء کی۔
"بھائی جان کے بعد مجھے بھی سیاست میں آنے کا شوق ہوا تھا۔جسکی بھائی مخالفت کر رہے تھے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں انکے ساتھ کھڑی ہوں یا پھر وجہ کوئی اور تھی،جس سے میں لاعلم تھی۔تمھاری ممی گل ہمارے خاندان سے ہی تھیں،چھوٹی عمر میں بھائی کی ان سے شادی ہوگئی۔اللہ نے اولاد انکو کافی عرصے بعد نوازی تھی۔شادی کے فوراً بعد انھوں نے سیاست میں حصہ لیا تھا۔شروع شروع میں وہ سیدھی ڈگر پہ چلے پھر خطے میں اقتدار ملنے کے کچھ عرصہ بعد ہی انھوں نے فنڈز وغیرہ کھانے شروع کردیے۔مجھے سیاست میں دلچسپی تھی بابا سائیں کی حمایت سے میں بھی بھائی کے ساتھ لگ گئی۔پر مجھے انکے کالے کرتوتوں کا پتا چل گیا جس کی خبر میں نے ابا سائیں کو کردی۔وہ بھائی جان پہ شدید غصہ ہوئے اور ناراض رہے تھے۔مجھے نہیں پتا تھا میرا بھائی انا کا پجاری ہے۔ارباز اور میں ایک یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے،یہ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔"
   "بھائی جان کو اس بارے میں پتا چلا تو انھوں نے مجھ پہ غلط الزام لگا کر بابا کی نظروں میں گرا دیا۔میں نے صفائی دینی چاہی تھی پر وہ منظر ایسا کھینچ چکے تھے کہ انکی بات سچ لگنے لگی۔خاندان سے باہر بابا سائیں شادی نہیں کرنا چاہتے تھے،میری اس بات پہ کی مخالفت کو بھی بھائی نے الگ رخ کرکے پیش کیا۔مجھے ارباز سے محبت تھی میں انھیں نہیں چھوڑ سکتی تھی۔
    بھائی محض بدلہ لینا چاہتے تھے۔میری شادی کرواکے انھوں نے میرا اس خاندان سے رشتہ ہی ختم کروادیا۔کم عمر تھی بھائی کی چال بازی سمجھ نہیں سکی،انھوں نے کہا چھپ کے شادی کرلو بعد میں ابا سائیں کو منا لینا۔بھائی نکاح کے گواہ خود بنے تھے۔
اور جب ہم بنگلے پہنچے تو بھائی نے بابا سے یہ کہا کہ اس نے مجھے مرنے کی دھمکی دے کر مجبور کردیا تھا۔میں صفائی دیتی رہ گئی پر بابا کے عتاب سے بچ نہیں سکی۔انھوں نے سارے رشتے ختم کردیے۔بنگلے سے بے دخل کردیا۔وہ اپنے چچا زاد بھائی کے بیٹے سے میری شادی کروانا چاہتے تھے مجھے بعد معلوم ہوا۔اوپر سے بھائی نے انکے سامنے میرا کردار زار زار کردیا تھا۔انھوں نے مجھے قبول ہی نہیں کیا اور زندگی سے نکال پھینکا۔
    بھائی کو اندازہ تھا بابا کا دل اگر نرم پڑگیا تو پھر انکے لیے مشکل کھڑی ہوجائیگی۔انھوں نے ارباز کی نوکری تک ختم کروادی۔حتی کہ ہمارا لاہور میں رہنا عذاب ہوگیا تھا۔ہم یہاں سے دوسرے شہر شفٹ ہوگئے۔
کئی سال ہم وہاں رہے....سجل اور مراد کو نواز کر اللہ نے گود بھر دی۔میرے بچے جب آٹھ نو سال کے ہوئے تب انھیں زولفقار بھائی کا پتا چلا کہ وہ میرے بھائی ہیں۔نیمل گود کی تھی اسے لاعلم ہی رکھا تھا۔ہم فیصل آباد میں سیٹل ہوگئے تھے۔"
میران انکا چہرہ دیکھ رہا تھا،زرپاش نے بات ادھوری چھوڑی وقفہ لیا۔لاؤنچ میں یہ تین لوگ اب زرپاش کے ماضی سے روشناس ہوئے تھے۔نیمل،میران اور تیسری عائشے۔وہ تو شدید حیران تھی۔لفظ منہ میں دم توڑ گئے تھے۔زولفقار جاہ سے اسے نفرت محسوس ہوئی تھی کتنا برا شخص تھا وہ،اپنی بہن تک کو اپنے برابر برداشت نہیں کرسکا۔
"ہم فیصل آباد میں خوش تھے،بابا کی اچھی جگہ جاب لگ گئی تھی۔اور پھر ایک بار پھر زندگی میں زولفقار نامی شخص کا طوفان آیا۔وہ ہمیں برباد دیکھنا چاہتے تھے،ڈیڈ کی رپوٹیشن اس آفس میں خراب کروادی۔انھیں جاب سے فائر کردیا گیا اور کوئی کمپنی ڈیڈ کو جاب دینے کے لیے تیار نہ تھی۔کچھ زیادہ ہی کھٹک رہے تھے میرے ماں باپ انکو۔
     یہ بہت برا وقت تھا۔سیوونگز بھی جلد ختم ہوگئیں اسکول فیس گھر کا خرچہ بچوں کی دوا دارو تک کے لیے ہم محتاج ہوگئے تھے۔دادی ہمارے اس ساتھ تھیں۔وہ شوگر کی مریضہ تھیں انکا خرچہ الگ تھا۔پائی پائی کا ہمیں محتاج کردیا گیا تھا۔
     پھر بھی میرے ماں باپ ںے ہمت نہیں ہاری۔ہوم ٹیوشنز دینا شروع کردی تھیں۔دو ڈھائی سال ہم نے اسی مشکل میں کاٹے۔اور اس وقت سے اب تک زولفقار جاہ کے لیے نفرت ابل رہی ہے۔وہ انسان کے نام پہ دھبہ ہیں۔"
مراد جبڑے بھینچے ہوئے پتھریلے انداز میں بتا رہا تھا۔اسکی کنپٹی پہ رگیں تن گئیں تھیں۔عائشے کی نظر تنی رگوں پہ پڑی اس نے نظروں کا زوایہ بدل لیا۔
"اسی لیے تم انکو برباد کرنا چاہتے تھے؟"میران کے سوال پہ اس نے اطمینان سے سر ہلایا.
"ہاں جس دولت کی خاطر انھوں نے میری ماں کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا میں اس دولت کو ہی ان دور کرنا چاہتا تھا۔ظلم کی انتہا وہ تھی جب نانا کا انتقال ہوا۔مام کو انکا چہرہ تک نہیں دیکھنے دیا تھا بنگلے کے دروازے پہ ہی انھیں باہر لاکر جھٹک دیا تھا۔وہ چیختی چلاتی رہیں پر دروازے نہیں کھولے۔ایک اولاد کو اسکے باپ کے آخری دیدار تک سے محروم کردیا۔میں کیسے بدلے کی آگ میں نہیں جلتا؟ایک عرصہ اپنی ماں کو تنہائی میں روتے دیکھا ہے میں نے،حتی کہ نانا سے پہلے گل آنٹی کی ڈیتھ ہوئی انکی ڈیتھ کی مام کو خبر تک نہیں ہوئی....."
میران نے سختی سے مٹھیاں صوفے پہ بھینچ لیں۔مراد کے لفظ زہن میں ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے۔لاؤنچ میں موجود ہر ایک کے اشک بہہ رہے تھے۔
"مام نے ہمارے دل میں تمھارے حوالے سے کبھی نفرت نہیں ڈالی۔ہم نے تمھیں تصویروں میں تو کبھی ٹی وی پہ زولفقار جاہ کے ساتھ دیکھا تھا۔تم سے انسیت تھی۔ایک مغرور لاپرواہ سے بچہ۔مام کو تم سے ملنے کی بہت چاہت تھی،اور خاص کر گل آنٹی کے بعد۔"
مراد نے آنکھوں کے کنارے جمع پانی صاف کیا۔زرپاش اور ارباز کی آنکھیں خشک تھیں بس باقی وہ سارے آبدیدہ ہوگئے تھے۔میران نے زرپاش کے ہاتھ تھام لیے۔
مراد نے بات جاری کی۔
"دو ڈھائی سال کے بعد میرے تایا نے جو وراثت کی زمینیں اپنے قبضے میں کر رکھی تھیں بیمار ہونے کے بعد انھیں بیچ کر ڈیڈ کو انکا حصہ دیا۔وہ اچھی خاصی رقم تھی جس سے ڈیڈ نے کاروبار شروع کردیا۔ایک چھوٹی سی فیکٹری لگائی تھی۔اس وقت ہم میں سے کسی کو اندازہ نہیں تھا وہ ننھا سا پودا کئی سال بعد درخت بن کر سب کو کتنے پھل دے گا۔اللہ نے بل آخر آہستہ آہستہ مشکل وقت سے نکال لیا۔اور دس بارہ سالوں میں ارباز دمیر نے پوری انٹرپرائزز کھڑی کردی۔جو نام زولفقار نے انکا خراب کیا تھا اللہ نے دوگنی عزت میرے باپ کو عطا کی۔ہم لاہور سے دور تھے زولفقار جاہ نے پھر کبھی پلٹ کے ہمیں نہیں دیکھا تھا۔اب کچھ عرصہ پہلے ہی ہم لاہور شفٹ ہوئے اور لاہور میں بھی ڈیڈ نے برانچ کھول لی۔"
مراد نے بالوں میں ہاتھ چلا کے بات مکمل کر لی۔عائشے نے نا محسوس انداز میں مراد کے کندھے کے قریب سے شرٹ دبوچ رکھی تھی۔وہ آہستگی سے اسکا کندھا سہلانے لگی۔میران نے چٹختے اعصاب سے کنپٹی سہلائی۔آنکھوں کے گوشے سرخی میں مائل ہوگئے تھے۔عائشے بغور اسی دیکھتی رہی۔
سفید رنگ اس پہ بے حد کھل رہا تھا۔
"میں کسی بھی ظلم کا ازالہ نہیں کرسکتا۔"وہ بمشکل بولا۔نیمل تو آنسو بہا رہی تھی۔وہ چھوٹی تھی اس نے اچھے برے حالت دیکھے تھے پر معلوم نہیں تھا کہ انکے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ارباز دمیر نے اسے خود سے لگا کے خاموش کروایا سجل اسکی پیٹھ تھپکنے لگی۔اس نے بانہیں سجل کے گلے میں ڈال کر پھر رونا شروع کیا۔سجل نے گھور کے اسے ٹہکوہ مارا۔
"تم میری گل کے اکلوتے پھول ہو۔مجھے بہت شوق تھا اپنے بھائی کے بچوں کو گود میں کھلانے کا،اکلوتا ہی تو میرا بھائی تھا اور بھتیجا بھی میرا اکلوتا ہی ہے۔"زرپاش کے انداز سے بے پناہ محبت جھلکی تھی۔
"آپکو مجھ سے کوئی شکوہ شکایت تو نہیں میں اتنے سال بے خبر رہا ہوں.."
"مجھے تو اپنے بھائی سے بھی اب کوئی شکوہ نہیں۔تم تو میرے لیے میری اولاد کی طرح ہو کیسے تم سے شکوہ ہوگا۔تمھاری پیدائش پہ گل نے خاموشی سے خط لکھ کر مجھے بھیجا تھا۔وہ فیصل آباد کا ہمارا پتا جانتی تھی۔تمھاری ولادت کا سن کر میں بہت خوش تھی بڑی تڑپ تھی تم سے اور گل سے ملنے کی جو میں نے دبا کر رکھی۔اپنی وجہ سے گل کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرنا چاہتی تھی۔"
گل کا زکر کرتے ہوئے زرپاش کی آنکھیں اب بھیگ گئیں...میران نے انھیں خود سے لگایا۔
"یہی تقدیر میں لکھا تھا۔پر اب میں ہوں آپکے پاس۔آپکی گل کی آخری نشانی۔"اس نے عقیدت سے انکا ہاتھ چوما۔زرپاش بھیگی آنکھوں سے مسکرا کر اسے دیکھنے لگیں۔گل اور زرپاش کی گہری دوستی تھی پھر وہ بھابھی بن کے جاہ بنگلے آگئیں تو وہ دونوں بہت زیادہ ایک دوسرے سے اٹیچ ہوگئی تھیں۔
"انکل میں آپ سے بھی معافی چاہتا ہوں۔"
میران نے رخ ارباز کی طرف کیا۔
"اسکی ضرورت نہیں۔اب ہماری بیگم خوش ہیں یہی کافی ہے۔"انھیں ہلکے انداز میں کہہ کر میران  کے دل سے بوجھ کم کیا۔
"اچھا اب اسکو تو سنبھالے کوئی،مام دیکھیں اسے۔"سجل جھنجھلا کر بولی۔نیمل نے آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھایا۔
"مجھے یہ سب کیوں نہیں بتایا آپ لوگوں نے؟میں اس گھر کی فرد نہیں ہوں کیا؟"
"تمھیں ہم کچرے کے ڈھیر سے اٹھا کر لائے تھے۔"
مراد نے لقمہ دیا۔
"ڈیڈ..."
وہ مچل گئی۔یوں ماحول کچھ ٹھنڈا ہوا۔سب کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی بس عائشے گم سم سی بیٹھی تھی۔مراد اکیلے میں اس سے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
"تم سجل ہو؟"
میران کے سوالیہ انداز پہ سجل نے تیور چڑھائے۔
"آپی بولو ہم سے بس دو تین سال ہی یہ بڑی ہیں پر آپی ہی بولنا ہے۔ہم لوگ مام کی پرانی البمز بچپن میں دیکھتے تھے،اس میں گل آنٹی اور نانا کی کئی تصاویر تھیں۔اور تم کو بڑے اشتیاق سے ٹی وی پہ دیکھتے تھے۔"
"سجل میران جاہ ہمارا کزن ہے کیا اسے ہمارے بارے میں علم ہوگا؟"
سات سالہ مراد نے لاشعور انداز میں پوچھا تھا۔ بھوری بڑی آنکھیں،بھرے بھرے گال،عنابی ہونٹ۔
اسکے صرف سجل کہنے پہ سجل نے گھور کے اسے دیکھا تھا اور سر پہ چت لگائی۔یہ دس سالہ سجل تھی جس کے بال باب کٹ ہوئے تھے۔خوبصورت سبز آنکھیں اور دودھیہ رنگت۔وہ دونوں خوبصورتی میں بلکل اپنی ماں پہ گئے تھے۔
"خبردار جو سجل کہا۔آپی بولا کرو سمجھے!"وہ آنکھیں دکھا کر بولی اور تصویریں الٹنے لگی۔
"اگر میران ہم سے ملا تو وہ تو تم کو آپی نہیں بولے گا۔"مراد نے اپنی طرف سے بڑی چالاکی سے کہا۔
"میں اسے بھی تھپڑ لگاؤنگی اگر اس نے مجھے آپی نہیں کہا تو۔"اس نے سختی سے کہا جس پہ چھوٹا مراد بڑا بدمزہ ہوا اور چہرہ پھیر کر برے برے کے منہ بنائے تھے۔
مراد کے بچپن کی بات بتانے پہ سب ہنس پڑے۔اور سجل کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے تم نے تو سہی دہشت مچا رکھی ہے۔بول لونگا میں آپی۔"میران نے بڑے ہی احسان کرنے والے انداز میں کہا۔سجل اسکا مغرور چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
"سجل کھانا لگاؤ سب بھوکے ہی ہیں۔اور میران تم نے تو صبح سے کچھ نہیں کھایا ہوگا۔"وہ سب کے بھوک کے احساس سے بولیں۔
"میں بس جاؤنگا اب،مجھے بس یہی جاننا تھا کہ ماضی میں کیا ہوا کیوں پھپھو کا تعلق ہم سے ختم ہوا۔میں ڈرتا ہوں بابا کے انجام سے،انھوں نے کئی لوگوں کا دل دکھایا ہے،مظلوم کی آہوں کا حساب رب ضرور لیتا ہے۔ویسے تو ماں باپ بچوں کو راہ راست پر لاتے ہیں پر یہاں الٹا ہے۔پر فرض میرا بھی ہے کہ میں کوشش کروں انھیں سیدھا رستہ دکھلاؤں۔بعد میں مجھے کوئی گلٹ نہ رہے کہ میں نے خود بھی انھیں برائی اور غلط کاموں سے روکا نہیں،حرام آنے دیا۔مجھے یہ قدم پہلے اٹھا لینا چاہیے تھا۔جب سے مجھے اس بات کا احساس ہوا میرے دل پہ بوجھ سا بن گیا تھا جو آج جاکے اترا ہے۔حرام کو میں نے خود سے بہت دور رکھا تھا پھر بھی اسکی بو مجھے ستاتی تھی۔غلط کام وہ کرتے تھے بے چین میں رہتا تھا۔"زرپاش نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا۔
"اللہ تمھیں اسکا اجر دے گا۔"
"ہمم..."وہ خاموش ہوگیا۔پھر وہی سرد مہری اس پہ طاری ہوگئی تھی۔زرپاش اور مراد تو اچھے سے سمجھ گئے تھے۔وہ رومائزہ کی وجہ سے پریشان تھا۔باقی کم گو طبیعت کا وہ مالک تھا،یہ احساس بھی انکو ہوگیا تھا۔
"پتا ہے مجھے پہلے بابا سے کبھی نفرت نہیں ہوئی پر انھوں نے مجھے مجبور کردیا ہے۔میری بے پناہ محبت کا انھوں نے یہ صلہ دیا۔"وہ اب دھیمے دھیمے ان سے مخاطب تھا جو اطمینان سے سن رہی تھیں۔
"میں رومائزہ سے بات کرونگی تم پریشان مت ہو۔"
"نہیں،وہ نہیں سمجھے گی۔وہ آپ لوگوں کو کہیں غلط نہ سمجھے۔میں خود اس سے بات کرونگا۔"اس نے سنبھل کر کہا۔زرپاش سر ہی ہلا سکیں۔
"آج سے میرے دو بھائی ہیں۔ایک مراد بھائی اور دوسرا آپ۔"نیمل چہک کر جگہ سے اٹھی تھی۔اور پھر شکوہ کناں نگاہ مراد پہ ڈالی۔
وہ میران کے برابر میں بیٹھ گئی۔
"بلکہ میرے ایک ہی بھائی ہیں۔"وہ نروٹھے پن سے میران کا بازو پکڑ کے بولی۔میران نے اسکی خفت بھری نگاہوں میں دیکھا اور پھر مراد کو جو مسکرا رہا تھا۔
"مراد سے کیوں ناراضگی چل رہی ہے؟"سجل نے  بھنوو اچکاتے اس سے پوچھا۔
"کیونکہ.."وہ بولتے بولتے رک گئی۔میران بات کی گہرائی بھانپ گیا تھا۔فون جیب میں وائبریٹ ہورہا تھا اس نے نکال کے دیکھا تو دائم کالنگ کا نوٹیفکیشن اسکرین پہ جگمگا رہا تھا۔اس نے کال بند کردی۔ساتھ ہی میسج کی نوٹیفکیشن زیرِ لب پڑھی۔
"میران صاحب اگر اپنے رشتے داروں سے ملنا ملانا ہوگیا تو پلیز اس بد دماغ اے ایس پی سے میرے رشتے کی بات کرو۔اب تو سہی وقت آگیا ہے نا!!!"لفظوں میں بھی بے تابی ظاہر تھی۔
"حد ہے..."میسج پڑھ کے میران نے موبائل جیب میں ڈال دیا۔مراد کو اشارا کرتا کھڑا ہوگیا۔
وہ دونوں لان میں آگئے۔رات کی تاریکی میں چاند کی روشنی آسمان پہ پھیلی تھی دور دور تارے ٹمٹمارہے رہے تھے۔
"نیمل اور دائم کے رشتے کے بارے میں کیا سوچا ہے؟مجھے معلوم ہے پہلے تمھارے انکار کی وجہ کیا تھی۔"میران صاف گوئی سے کہتا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔مراد نے ہاتھ کھڑے کردیے۔
"اسکو بولو رشتہ لے کر آئے!تم سے کیا زبانی کلامی کروارہا ہے۔"مراد اکھڑ کے بولا تو میران ہلکا سا مسکرادیا۔
"کہاں جاؤگے؟"
"بہت کام ہیں ابھی۔وزیر اعلی کی زمہ داری میرے سر پہ ہے۔پہلے تمام اراکین کو اکھٹا کرونگا۔پارٹی میں انتشار پھیلا ہے۔جتنے کرپٹ لوگ موجود سب کو پارٹی سے نکالونگا۔۔"
سامنے لان پہ نگاہ ڈالے اس نے کہا۔
"تم ٹھیک ہو؟"
"ہاں.."
"نہیں ہو تم ٹھیک..میرے سامنے دل ہلکا کر سکتے ہو۔میں نے تمھیں شروع سے اپنا بھائی ہی مانا ہے تم پہ سب سے زیادہ بھروسہ کرتا تھا۔"میران نے طنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"تم نے خود میرے دماغ میں شک کا کیڑا پیدا کیا..مجھے ایسے مت دیکھا کرو۔"اسکی نگاہوں کا مفہوم سمجھ کر وہ جھٹ بولا۔
"ہاں تو،تم نے شک کیا سامنے سے آکر ایک بار پوچھ لیتے شاید میں بتا دیتا پر تم کو تو جاسوسی کرنی تھی انوسٹیگیشن کرنی تھی۔اسمگلر کے ساتھ دیکھ کر لمحوں میں میرے بارے میں رائے بدل لی۔اور اس طفیل کی باتوں پہ یقین کرلیا۔"اسکے برہمی سے کہنے پہ مراد نے سر کھجایا۔
"سوری یار..."
"تمھیں رومائزہ کو سچ بتا دینا چاہیے۔"تھوڑے وقفے سے مراد نے کہا۔
"وہ یقین نہیں کرے گی۔"اسکو لے کر میران کے دل میں خوف بیٹھ گیا تھا۔
"کیوں نہیں کرے گی؟"
"تم نے کیا تھا؟تم بھی وہی سب سمجھے جو اس نے سمجھا۔"
"میری بات الگ ہے اب بھی تو یقین کیا ہے نا۔پہلے سچائی معلوم تھوڑی تھی۔ہم سب تصویر کا۔ایک رخ دیکھ رہے تھے دوسرا تم نے دکھایا ہے۔اسے بھی دکھاؤ یقیناً مان جائیگی۔"
اسکی پر یقین بات سن کر میران کچھ بولا نہیں۔وہ بظاہر نارمل لگ رہا تھا پر اندر جو آگ اسے جھلسا رہی تھی مراد اس سے واقف تھا۔
"بہت محبت کرتے ہو اس سے؟"
مراد نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔میران نے جواب نہیں دیا۔جواب کی ضرورت تھی ہی کہاں۔اسکے ہر عمل سے رومائزہ کے لیے محبت جھلکتی تھی۔اسکی آنکھوں میں کرب بتا رہا تھا وہ کتنی تکلیف میں ہے۔عجیب سی بے چینی ان مضطرب نگاہوں میں تھی۔
وہ اس سے مل کر جانے لگا تھا زرپاش لان میں آگئیں۔
"میران زولفقار بھائی ٹھیک ہونگے اس سب کے بعد؟انھیں تو گہرا صدمہ لگا ہوگا۔"وہ متفکر ہوئیں۔
"نہیں پھپھو انھیں کچھ نہیں ہوگا۔وہ اب بھی کوئی سازش رچ رہے ہونگے۔اور آپکو اب بھی انکی فکر ہے حیرت ہے۔"وہ باپ سے شدید خائف تھا۔
"اللہ معاف کرنے کے کو پسند کرتا ہے۔"وہ مختصر ہی بولیں خاص کر مراد کو واضح کیا تھا۔پر اس نے ان سنی کردی۔
"میرا دل اتنا بڑا نہیں انکو معاف کرسکوں،دنیا میں ایک انھوں نے گل کے بعد پیسے سے پیار کیا اور دوسرا مجھ سے،پر افسوس دولت کے نشے میں انھوں نے میری خوشیوں کو کچل دیا اور فوقیت مجھ پہ پیسے کو دی۔میرے لیے انکی ذات سب سے زیادہ اہم رہی ہے،وہ میرے باپ ہیں میں نے آخری حد تک کوشش کی انکو بچانے کی اور کامیاب بھی ہوا پر وہ میرے ساتھ کیا کر گزرے انکو اندازہ بھی نہیں ہے۔انھیں اس چیز سے فرق ہی نہیں پڑتا۔"
بولتے ہوئے اسکی کنپٹی کی شریانیں پھولنے لگیں۔سانس بحال کرکے اوپر آسمان کو دیکھا۔
"میں محبت میں بہت آگے نکل چکا ہوں واپسی ممکن نہیں،اور اسکے ساتھ ہی اس سفر میں آگے بڑھنے کی خواہش رکھتا ہوں۔"زرپاش اور مراد سنگینی سے اسکا سنجیدہ چہرہ دیکھ رہے تھے۔
"مجھے ہر صورت میں رومائزہ شنواری چاہیے تھی۔وہ راضی بھی تھی۔مجھ سے خوش بھی تھی،پر سب بگڑ گیا۔اب وہ صرف بدگمان ہے۔اپنے باپ کا قاتل بھی مجھے ہی ٹہراتی ہے اور اسکی آنکھوں میں بے اعتنائی اور نفرت مجھے مار کے رکھ دیتی ہے۔وہی آنکھیں،وہی دل جو کبھی مجھ پہ بھروسہ کرتا تھا آج نفرت سے لہو لہان ہوگیا ہے۔"وہ ٹوٹے ہوئے دل سے بولا۔مراد نے اسے تسلی دینا چاہی۔میران نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا تھا۔اسے ہمدردی بلکل پسند نہیں تھی۔
"میں ٹھیک ہوں۔آپ اپنا خیال رکھیے گا۔اب جب آؤنگا تو دائم کے لیے نیمل کا ہاتھ مانگنے آؤنگا۔وہ میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہے۔میں نے اسے قریب سے پرکھا ہے نیمل کے لیے اس سے بہتر شخص اور کوئی نہیں۔"
"وہ تمھارا دوست ہے تم اسے جانتے ہو یہی کافی ہے۔"مراد نے کھسیانے پن سے چور نظروں سے اسے دیکھ کر کہا۔زرپاش دھیرے سے ہنس دیں۔میران نے بھنوویں اچکا کر اسے دیکھا تھا اور سر جھٹک کے ہلکے پھلکے انداز میں دھیما سا مسکرایا،سانس بحال کرکے سر میں ہاتھ چلا کر بال درست کیے تھے۔
"میں تمھارے ساتھ چلوں؟"
"کیا ہوگیا ہے اے ایس پی تمھیں؟زچ کر رہے ہو مجھے۔اتنی لغویات کی مجھے عادت نہیں ہے۔"میران ایک دم جھاڑ پلاتے ہوئے بولا تو مراد خاموش ہوگیا۔زرپاش اندر جا چکی تھیں۔
"تم اپنی بیگم کو سنبھالو،ناجانے وہ میرے بارے میں کیا مینارِ عظیم بنا کر سوچ رہی ہوگی۔"میران اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولا۔مراد نے سر اثبات میں ہلا دیا۔وہ باہر گاڑی تک اسے چھوڑنے گیا تھا۔
                         ★ ★ ★
مراد کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈ کے آگے چکر کاٹ رہی تھی۔مراد نے تحمل سے اسے دیکھا پھر صوفے پہ جاکے بیٹھ گیا۔کیس تو سولو ہوگیا تھا پر اسکے بعد بھی اسکے سر کئی کام لگے تھے۔دوپہر میں میڈیا سے بھی اس نے بڑی مشکل سے جان چھڑائی تھی۔اب بس یہ معاملہ دبایا جارہا تھا۔اسکے اندر زولفقار سے بدلہ لینے کا جنون جو سوار تھا آج بیٹھ گیا تھا۔
    اسے اندازہ تھا انھیں سب سے زیادہ تکلیف ہورہی ہوگی میران کو اپنے خلاف دیکھ کر،جس کی خاطر انھوں نے کیا کچھ نہیں کیا،وہ شروع سے ہی نہیں چاہتے تھے بیٹا ہاتھ سے نہ نکلے،کیونکہ ان باپ بیٹوں کے خیالات مختلف تھے پر وہ انکے معاملات میں کبھی کچھ نہیں بولتا تھا۔
مراد انکو حوالات تک تو نہیں پہنچا سکا پر انکی دولت چھن جانا ہی انکے لیے ایک سب سے بڑی سزا تھی۔وہ اس وقت کیسے خود پہ جبر کیے ہونگے یہ سوچ کر اسکو تسکین مل رہی تھی۔اسے اپنے ماموں سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں تھی،مراد دمیر زولفقار جاہ سے نفرت کرتا آیا تھا اور آج اپنا بدلہ پورا کرنے کے بعد اسکے اندر کی آگ ٹھنڈی ہوگئی تھی۔
     مراد نا محسوس انداز میں سر دبانے لگا۔عائشے جب تھک گئی تو اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔
"کیوں پریشان ہورہی ہو؟"وہ پچھلی دو تین راتوں سے ویسے ہی جاگ رہا تھا۔اب نیند کا خمار آنکھوں میں اترنے لگا۔عائشے نے بالوں کو کان کے پیچھے اڑس دیا۔مراد نے صوفے پہ اسکے پیچھے شانے رکھ دیے۔
     "مام نے اسکے بارے میں سب بتایا ہے۔مراد جو بھی ہو پر میں رومائزہ والے واقعے کو لے کر اس پہ بھروسہ نہیں کرتی۔مجھے اسکی محض یہ کہانی لگتی ہے،اپنی اچھائیوں کے ساتھ اس نے جوڑ دی تاکہ سب یقین کر لیں۔اگر وہ اتنی ہی محبت کرتا ہے اس سے تو سچ بتاتا،جھوٹ بول کر اسے اس مشکل میں نہیں ڈالتا۔"
اس نے چہرہ مراد کی طرف کیا۔مراد اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔
"میں اسکے بارے میں صفائی دونگا تو تم کہو گی اپنے بھائی کی طرف داری کر رہا ہوں...وہ ایک اچھا انسان ہے،پر جو اسکا باپ ہے نا وہ دنیا کا سب سے زلیل آدمی ہے شیطان لفظ ایک دم اسکے لیے مناسب ہے۔جسے اللہ نے عزت وقار سب کچھ عطا کیا پر اس نے اسکی قدر نہیں کی۔میں شروع سے میران پہ بھروسہ کرتا آیا ہوں،ہاں درمیان میں کچھ معاملات ایسے ہوگئے تھے مجھے اس پہ شک ہوا،میں اسے بھی غلط سمجھنے لگا پر جو اس نے کیا ہے وہ کوئی عام انسان نہیں کرسکتا۔اربوں کی دولت دے رہا ہے وہ،اسی نے میری اس کیس میں بہت مدد کی ہے۔اور وہ رومائزہ کے حوالے سے جھوٹ نہیں بول رہا۔یہ سب اسکے باپ نے کیا ہے میں نے خود سنا ہے وہ اعتراف کر رہے تھے۔اب بتاؤ اس میں میران کا کیا قصور؟مام نے ساری بات تمھیں بتادی ہے کہ اس نے رومائزہ سے سچ کیوں چھپایا۔"
وہ اسکے بال سہلاتے ہوئے نرمی سے گھمبیر آواز سے سمجھا رہا تھا عائشے نے لب پیوست کرلیے۔وہ خیالوں میں گم تھی۔
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا،مجھے بھروسہ نہیں اس شخص پہ۔"وہ اٹھ کھڑی ہوئی مراد کو اسکا انداز برا لگا تھا۔
"میری دوست نے اسکی وجہ سے بہت کچھ جھیلا ہے۔"
"ایک منٹ محترمہ!یہ تمھارا میرے ساتھ بدلہ رویہ،کیا سمجھوں اسے میں؟ایک بات کان کھول کر سن لو ان دونوں کی وجہ سے ہمارے درمیان کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔نا ہی ہم اب انکے بارے میں بات کریں گے۔پر میں اتنا بتا دوں میران ہی تھا جس نے زولفقار جاہ سے رومائزہ کو بچائے رکھا!اسکی خاطر اس نے ڈیل کرنے کا ناٹک رچایا۔وہ اپنے باپ کے ساتھ جا ملا یہ سب ایک سوچا سمجھا اسکا پلان تھا۔اس نے اسے گھر بجھوانا ہی چاہا تھا!"
"تو آپ بھی تو اس پہ غصہ تھے کہ اس نے ایک لڑکی کو اغوا کر رکھا تھا۔"
"عائشے بات کو غلط رخ دے رہی ہو تم!مجھے پوری بات معلوم نہیں تھی۔اور جب حقیقت کھل کر آگئی ہے تو میں کسی بے گناہ پہ الزام کیوں لگاؤں؟بس اب مزید بحث نہیں ہوگی۔"اسے خاموش کرواکے وہ واش روم میں گھس گیا۔عائشے کی آنکھوں میں پانی بھر گیا پہلی بار اسکا اتنا سخت لہجہ دیکھا تھا۔
        وہ فریش ہوکر باہر آیا تو وہ ایسے ہی کھڑی تھی۔مراد نے تولیہ ایک طرف رکھا اور جھنجھلا کر اسکے پاس آیا۔اسکی قربت پہ عائشے کا شکوہ آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں سے ٹپ ٹپ بہہ نکلا۔وہ دھیمے سے مسکرایا اور اسکی تھوڑی اٹھا کے ماتھا چوم کر اسے سکتے میں چھوڑ کے ڈریسنگ کی طرف گھوم گیا۔عائشے دانت کچکچا کر رہ گئی۔
"میں ناراض ہوں!"
"سوجاؤ عائشے..."بالوں میں ہئیر برش پھیرتے ہوئے اس نے کہا اور آئینے سے ایک نگاہ عائشے پہ ڈالی جو پیر پٹخ کے ناراضگی کا اظہار کرتی بیڈ پہ بیٹھ گئی تھی۔دونوں کی نگاہیں آئینے میں ایک دوسرے کے عکس سے ٹکرائیں عائشے نے منہ بنا کر نگاہ ہٹا لی۔مراد کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
وہ زیادہ دیر اس سے ناراض نہیں رہ سکتی تھی۔ایک وہی تو تھا جو سب سے زیادہ اسکو سمجھتا تھا۔تھوڑی دیر بعد عائشے نے سوال کیا۔
"کھانا نہیں کھایا تھا آپ نے..."
وہ چت لیٹ چکی تھی آنکھوں پہ بازو رکھا ہوا تھا۔
"تم نے کونسا ڈھنگ سے کھایا تھا۔"مراد لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھا مصروف سا بولا۔عائشے اٹھ کے بیٹھ گئی۔پھر کمرے سے نکل گئی۔
    پانچ منٹ بعد وہ ٹرے ہاتھ میں لیے کمرے میں واپس چلی آئی ٹرے ٹیبل پہ رکھ کے خود بھی مراد سے کچھ فاصلے پہ بیٹھ گئی۔مراد نے لیپ ٹاپ سے دھیان مبذول کیا۔لیپ ٹاپ ایک طرف رکھ کے وہ کھانا کھانے لگا تھا۔
عائشے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔چونکی تب جب روٹی کا نوالہ مراد نے اس کی طرف بڑھایا تھا۔اس نے چپ چاپ کھالیا۔کھانے سے فارغ ہوکے اس نے پانی پی کر گلاس رکھا۔عائشے اٹھنے لگی تو مراد نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔
"اٹس اوکے۔"
اسکی آنکھوں سے معنی خیزی پڑھ کے وہ بولی۔اپنے جذباتی پن کا بھی اسے احساس ہوگیا تھا۔وہ مراد سے کیوں الجھ رہی تھی۔اب جو آگے ہونا تھا اسکا علم صرف اللہ کے پاس تھا۔اس نے سوچ لیا تھا وہ اس معاملے میں خاموش رہے گی۔کیونکہ وہ بے حد کنفیوز تھی۔
"ایک سوال میرے زہن میں ہے اسکا جواب تو دیں.."
چند لمحے بعد عائشے نے پرسوچ نگاہ اس پہ جمائے کہا۔مراد نے سر ہلا کے اسے جیسے بات پوچھنے کی اجازت دی۔
"مہمل کون تھی؟زولفقار جاہ اور مام بہن بھائی اکلوتے تھے تو محمل کی امی آپکی خالہ کیسے ہوئیں؟میرا مطلب وہ کونسی خالہ تھیں؟کیا زولفقار جاہ کی دو بہنیں...؟"وہ بڑی الجھی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔مراد نے اب تک نرمی سے اسکا ہاتھ تھامے رکھا تھا۔مسکرا کے اسے دیکھا۔
"وہ سگی بہن نہیں تھیں پر سگی بہنوں جیسا پیار تھا دونوں میں۔حنہ آنٹی خالہ زاد بہن تھیں۔انکے انتقال کے بعد مام نے محمل کو بیٹیوں جیسا پیار دیا۔حنہ آنٹی کے جانے کے بعد محمل کافی عرصے تک ہمارے ساتھ رہی وہ کوئی چھوٹی بچی نہیں تھی بارہ تیرہ سال کی ہوچکی تھی....خیر چھوڑو میں بھی کیا کہانی سنانے بیٹھ گیا تمھارے سوال کا جواب مل گیا بہت ہے۔"
محمل کا زکر کرتے ہوئے مراد کا حلق کڑوا ہوگیا تھا اور عائشے کے تاثرات بھی کچھ منفرد نہیں تھے۔
"ٹھیک۔پر اب کیا ساری رات ہاتھ پکڑیں رہیں گے؟چھوڑیں مجھے ٹرے لے کر جانی۔"اس نے اکتاہٹ سے کہا مراد نے بھنوویں چڑھائیں۔عائشے کی پھولی ناک دیکھی۔
"بیگم یہ ہاتھ ساری زندگی کے لیے تھاما ہے۔"وہ جذبے سے چور آنچ دیتے لہجے میں بولا۔عائشے جھینپ گئی اور اسے آنکھیں دکھا کر ہاتھ چھڑا کر ٹرے اٹھائے کمرے سے باہر نکل گئی۔پیچھے مراد نے مسکرا کر بالوں میں ہاتھ چلایا اور لیپ ٹاپ واپس کھول لیا۔
                            ★ ★ ★
چار دن گزر گئے تھے میران سیاسی مصروفیات میں بے حد الجھا ہوا تھا وزیر اعلی بننے کا اس نے حلف اٹھا لیا تھا۔وہ پرعزم تھا۔
ان چار دن اس نے بنگلے میں قدم تک نہیں رکھا تھا۔وہ سی ایم ہاؤس ہی ہوا کرتا تھا۔زولفقار نے رہائش بنگلے سے کبھی بدلی نہیں تھی،کبھی وہ سی ایم ہاؤس میں ہوا کرتے تھے تو کبھی بنگلے۔فلحال میران کو باپ کا چہرہ دیکھنے کی خواہش تک نہیں رہی تھی۔وہ ان سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور اس نے یہ بات انکی دولت نیب کے حوالے کرکے انکو بچا کر ثابت کردی تھی۔پر اب اسکا دل ہر قسم کے جذبے سے عاری تھا۔خاص کر اپنی پھپھو کے ساتھ زولفقار کے کیے گئے ظلم اسے باپ سے دور کر رہے تھے۔
        دائم اور نیمل اس دن کے بعد سے ںے حد خوش تھے۔میران کی مصرفیات کی وجہ سے دائم نے چار دن بھی بڑی مشکل سے انتظار کیا تھا۔میران نے اسے کہا تھا وہ اپنے گھر والوں کو دمیر ہاؤس لے جائے پر سامنے سے دائم نے کہا تھا اس خاص موقع پر اگر تم نہیں ہوگے تو میں نہیں جاؤنگا۔
دائم کی فیملی نیمل اور دائم کے رشتے کے لیے آج دمیر ہاؤس آئی ہوئی تھی۔مسز مرتضیٰ نے اسے گھر پہ رہنے کی تنبیہہ کی تھی اور یہ بات سن کر دائم نے گھر میں کافی احتجاج کیا تھا،زریں صاحبہ نے اسے کہا تھا رشتہ لے کر جارہے ہیں اچھا نہیں لگتا کہ لڑکے کو بھی ساتھ لے جائیں...مقابل اس نے کہا تھا 'اب زمانہ بدل گیا ہے' پر گھر والوں نے اسکی بات کو اہمیت نہیں دی تھی۔اب وہ گھر پہ بیٹھا بے زار ہورہا تھا۔
دمیر ہاؤس میں کسی کو بھی نیمل اور دائم کے رشتے پہ اعتراض نہیں تھا۔پہلے ایک مراد تھا جس نے بھی اب راضی نامہ دے دیا تھا۔
میران کے کہنے پہ دو دن پہلے دائم مراد سے ملنے بھی گیا تھا جہاں دونوں کی صلح بندی ہوگئی تھی۔ایک ان کہی سی جو دونوں کے درمیان جنگ چھڑی تھی اب وہ ختم ہوگئی تھی۔
نیمل کریم رنگ کے لباس میں دوپٹہ سر پہ اوڑھے مسز مرتضیٰ کے ساتھ بیٹھی تھی۔ارباز دمیر اور مرتضی صاحب گفتگو جاری کیے ہوئے تھے۔سجل اور عائشے بھی ساتھ ہی صوفوں پہ بیٹھی تھیں۔منتہی مراد کی گود میں تھی۔سب بہت خوش نظر آرہے تھے۔
"تو بھائی صاحب آپ کا کیا فیصلہ ہے؟"زریں نے نیمل کے سر پہ ہاتھ رکھ کے ارباز صاحب سے پوچھا۔وہ سیدھے ہوئے۔نیمل کو دیکھا جس نے شرما کے چہرہ جھکا لیا تھا۔سجل نے عائشے کے کان میں سرگوشی کی۔
"یہ اتنا شرمائے گی مجھے توقع نہیں تھی۔"عائشے ہنس دی۔
"لڑکیاں کبھی شرمائیں یا نا شرمائیں پر شادی کی بات پہ شرم آہی جاتی ہے۔"عائشے نے دھیرے سے اسکے کان کے قریب جواباً سرگوشی کی۔وہ دونوں نند بھابھی ہنسنے لگیں۔
"ہمارے بچے راضی ہیں اور بڑوں کو بھی رشتے پہ اطمینان ہے تو بات آگے بڑھانی چاہیے۔"ارباز نے صوفے پہ کمر ٹکا کر کہا۔
"تو پھر ہم بات پکی سمجھیں۔"مرتضی صاحب خوشی سے بولے۔میران انکے برابر میں ہی بیٹھا تھا۔ارباز صاحب نے ایک نگاہ اسکی راضا مندی کے لیے اس پہ ڈالی۔اس نے پلک جھپک کر اپنا فیصلہ بتایا۔
      "ہم تو بس جلد از جلد اپنی بہو کو گھر لے جانا چاہتے ہیں۔بیٹی کی کمی ہمیں بہت محسوس ہوتی ہے۔"زریں محبت سے بولیں۔
"تو پھر کیوں نا مراد کے ریسیپشن کے ساتھ ہی دائم اور نیمل کی منگنی رکھ دیتے ہیں۔اس طرح سب کو انکے رشتے کا پتہ بھی چل جائیگا اور فیملیز ایک دوسرے سے مل بھی لیں گی۔"
زرپاش نے اپنا مشورہ دیا جو سب کو پسند آیا تھا۔عائشے کے ایگزامز سے دو ہفتہ پہلے کی ولیمے کی تاریخ تھی۔
"پھپھو میرے خیال میں منگنی سے بہتر نکاح ہے۔"میران نے اپنا خیال ظاہر کیا۔درحقیقت یہ دائم کی خواہش تھی اس نے اسے پہلے ہی کہہ دیا تھا اگر منگنی کی بات چلے تو وہ سامنے سے نکاح کی بات کردے۔اور میران کو بھی یہی مناسب لگا تھا۔
مراد بھی اسکی رائے سے متفق ہوا تھا۔
"ہاں یہ زیادہ بہتر رہے گا۔رشتہ مضبوط ہوجائیگا۔رخصتی ہم کچھ عرصے بعد کریں گے۔"مراد کی بات پہ ارباز نے سر کو جنبش دی۔
"ہاں شادی کی تیاری میں وقت لگے گا۔اور اب نیمل آخری بچی ہے میں کوئی کمی نہیں کرنا چاہتی اس کی شادی میں۔"زرپاش نے اپنا موقف دیا۔جس پہ نیمل کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔وہ لوگ فوراً ہی اسے بیاہ دینے کے حق میں نہیں تھے۔
     "پھر بہت مبارک ہو دونوں فیملیز کو یہ رشتہ داری۔اللہ ان دونوں کا نصیب اچھا کرے اور جوڑی سلامت رکھے۔"میران دعا دیتا کھڑا ہوا۔اس نے مراد کو مبارکباد دیتے گلے لگایا۔دوسری طرف مرتضی اور دمیر صاحب گلے مل رہے تھے۔زرپاش اور زریں بھی خوشی سے مسکرا رہی تھیں دونوں نے مصافحہ کیا تھا۔پھر سجل نیمل کو ان کے درمیان سے اٹھا کر کمرے میں لے گئی۔
میران نے منتہیٰ کو اپنی گود میں لیا۔بھانجی کو گود میں لے کر اسے انوکھا سا احساس ہوا تھا۔زرپاش اسکے پاس ہی بیٹھ گئیں۔اور مراد عائشے کے پاس سجل کی خالی جگہ دیکھ بیٹھ گیا۔سجل جب آئی تو بھائی کو گھورتے ہوئے مسز مرتضی کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔میران منتہیٰ کے ساتھ کھیل رہا تھا....وہ دیکھ کر مسکرانے لگی۔
"مبارک ہو آپکو۔"قریب سے اسے عائشے کی سرگوشی سنائی دی۔
"تمھیں بھی،بہت خوش ہوں میں۔اب اپنے ولیمے کی تیاری شروع کردو۔"وہ اسکے قریب ہوتے بولا۔عائشے سب کے درمیان سمٹ سی گئی اور اسے کہنی مار کے دور کیا۔مراد نے اسکی حرکت پہ خود کو قہقہہ لگانے سے باز رکھا تھا۔
یوں ایک ہنسی مسکراتی شام ڈھل گئی تھی۔
سب کے چہروں پہ تبسم کے ساتھ....
نئے رشتوں کی بنیادوں کے ساتھ....
                             ★ ★ ★
"یار آپ اتنا ہلیں مت،ورنہ میں نہیں بناؤنگی آپکا اسکیچ۔"سفیر کے مسلسل حرکت کرنے پہ وہ غصہ کرتے ہوئے بولی۔اسٹول پہ وہ آدھی ٹکی تھی اور باقی اسٹینڈ جو زمین پہ کھڑا تھا اسکے بورڈ پہ جھکی ہوئی تھی۔سفیر سیدھا ہوکے بیٹھ گیا۔بورڈ سے سر اٹھا کے وہ اسکے نقوش دیکھتی پھر واپس بورڈ پہ جھک جاتی۔کافی دیر یہی مرحلہ چلتا رہا۔اچانک اسے انوش کی آواز آئی۔
"ہیلو ائیوری بڈی..."کیا چل رہا ہے؟"آئس کریم باکس اس نے ٹیبل پہ رکھا اور رومائزہ کی طرف بڑھی۔
"کچھ نہیں بس انکا اسکیچ بنا رہی تھی۔"اس نے سفیر کا نام لینا ہی چھوڑ دیا تھا۔اسکا نارمل موڈ دیکھ کر انوش کو تسلی ہوئی۔
"عائشے کی پٹاخہ نند کا رشتہ طے ہوگیا ہے۔ابھی میں نے عائشے کا میسج پڑھا۔میں گھر میں بور رہی تھی سوچا تمھارے ساتھ شاپنگ پہ چلی جاؤں۔پہلے ہم کتنا گھومتے پھرتے تھے نا۔"انوش نے اسے مسکانے کی بھرپور کوشش کی۔ اسی کی بات پہ رومائزہ پھیکا سا مسکرائی۔
"ارے لڑکی میرا اسکیچ تو مکمل کرو۔"سفیر اٹھ کے دونوں کے پاس چلا آیا۔رومائزہ آنکھیں مٹکا کر اسکی طرف گھومی۔
"بعد میں کرونگی ابھی تو میں انوش کے ساتھ جارہی ہوں۔گھر میں ویسے بھی دم گھٹ رہا ہے۔کچھ آؤٹنگ ہوگی تو مائنڈ ڈائیورٹ ہوگا۔"اس نے سنجیدگی سے کہا۔
"اپنی یہ سنجیدگی گھر رکھ کے چلنا میں بتادوں!مجھے اب پہلے والی رومائزہ چاہیے۔بس بہت ہوگیا ہے۔"انوش حق جمائے بولی تو وہ ہنس دی۔
"اچھا بھئی...ڈرائیور کے ساتھ آئی ہو؟"وہ اسکے آگے ہار مانتے ہوئے بولی۔طبیعت بھی اب اسکی ٹھیک تھی شنواری صاحب کی موت کا غم کم تو نہیں ہوا تھا پر صبر آگیا تھا۔اور اس نے فیصلہ کرلیا تھا اب مزید اپنی وجہ سے کسی کو پریشان نہیں کرے گی۔وہ ایک مضبوط لڑکی تھی اسے بس اب اپنے پیروں پہ کھڑے ہونا تھا۔ہمت کرکے آگے بڑھنا تھا۔ماضی بھلا کر حال میں اب جینا تھا۔
"میں کیب کرکے آئی ہوں،بابا گاڑی لے کر گئے ہیں اور دوسری گاڑی خراب تھی۔"
"اوہ،چلو ہمارے پاس اپنا ڈرائیور موجود ہے ویسے بھی اکیلے کوئی ہمیں جانے دیگا بھی نہیں۔"وہ ہنس کر بولی۔سفیر نے آئبرو اچکائی۔انوش اسکی بات کا مطلب سمجھ رہی تھی۔
"اور وہ ڈرائیور کون ہے؟"اس نے ہنسی دبا کر پوچھا۔
"یہ تمھیں چھ فٹ دو انچ کے انسان نظر نہیں آرہے؟"رومائزہ نے سفیر کی طرف اشارہ جسکی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
"سوری میڈم میں نہیں جاؤنگا۔عورتوں کو شاپنگ کروانا دنیا کا سب سے اوکھا کام ہے۔"وہ صوفے پہ جا بیٹھا۔
"زیادہ پنجابی اداکار نہیں بنیں۔"
"ٹھیک ہے ہم کیب کرلیں گے۔چلو انوش۔"کمر پہ ہاتھ رکھ کے رومائزہ نے انوش سے کہا اور گھور کے سفیر کو دیکھا تھا۔
"یہ بہت غلط حرکت ہے کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا۔"شکوہ کرتا وہ کھڑا ہوگیا۔تو وہ دونوں ہنس دیں۔
"چلو یا پھر گاڑی اندر لے کر آؤں۔"ان دونوں کو موبائل میں گھسا دیکھ وہ لاؤنچ کے دروازے تک پہنچ کے پلٹا۔ان دونوں نے چونک کے سر اٹھایا اور اسکی تقلید میں ہنستے ہوئے پیچھے نکل گئیں۔
                         ★ ★ ★
    سفیر آگے ڈرائیو کر رہا تھا اور وہ دونوں پیچھے باتوں میں مصروف تھیں۔سفیر نے بیک مرر سے ایک نگاہ ان دونوں پہ ڈالی پھر سر نفی میں ہلاتا نظریں واپس ونڈ اسکرین پہ جما گیا تھا۔وہ دونوں اسکی موجودگی بلکل ہی فراموش کر چکی تھیں۔کئی دنوں بعد اس نے رومائزہ کو اچھے موڈ میں اتنا ہنستے بولتے دیکھا تھا۔
مال سے چند میٹر دوری پہ پل کے ساتھ بل بورڈز لگے تھے۔انوش سے باتوں میں مصروف رومائزہ کی نگاہ بے ساختہ باہر اٹھی اور ایک مخصوص بل بورڈ پہ جاکے ٹھہر گئی۔کسی مشہور برانڈ کی ایڈورٹائز تھی۔اور برانڈ ایمبیسڈر میران تھا جسکی ہنستے ہوئے تصوریر لی گئی تھی۔نگاہیں بس پلٹ نہ سکیں۔وہ اتنا کھل کے کبھی نہیں ہنستا تھا۔اس تصویر میں بھی اسکی مسکراہٹ بہت گہری نہیں تھی۔پر وہ بے حد خوبصورت نظر آرہا تھا۔سفید رنگ شاید اسی کے لیے بنا تھا،سفید کرتا شلوار پہ کالی چادر ڈالی ہوئی تھی۔تمام مردانہ وجاہت کا پیکر وہ شخص کسی کا بھی دل دھڑکانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔لوگ اس سے پہلی ملاقات میں مرعوب ہوجاتے تھے۔
نگاہیں بل بورڈ پہ ایک لمحے کے لیے جم گئیں تھیں،انوش کی آواز پہ اس نے نظروں کا زوایہ بدلا اور چہرہ اندر کیا۔سفیر اور نا انوش نے وہ بل بورڈ دیکھا تھا۔مال کی پارکنگ میں
سفیر نے گاڑی لگا دی۔وہ بظاہر نارمل لگ رہی تھی۔ان دونوں کے ساتھ ہی گاڑی سے اتر کے مال کی طرف بڑھ گئی۔
"تم رکو میں واش روم سے ابھی آتی ہوں۔"مال کی اینٹرنس سے اندر آکے اس نے انوش سے کہا تھا۔انوش سفیر کے ساتھ کسی شاپ کی طرف بڑھ گئی تھی۔
رومائزہ نے واش روم میں جاکر سانس بحال کی۔آئینے کے پاس آئی ایک نظر اپنی پرچھائی کو دیکھا۔پھر واش بیسن کا نل کھول کے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے۔آنکھوں میں سرخی کے ساتھ نمی اترنے لگی تھی۔وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پاتی تھی۔میران کو دیکھ کر پھر اذیت سے دوچار ہوگئی تھی۔آخر کیوں اسکے ساتھ ایسا ہوتا تھا وہ بے بس ہوجاتی تھی۔دل باہر نکلنے کو آتا تھا۔یہ نفرت اسے ختم کرنے کو تھی،خون سلگنے لگا۔بار بار میران کی قسمیں وعدے یاد آتے جن پہ یقین اس نے کر لیا تھا بس کبھی اقرار نہیں کیا۔
بڑی مشکل سے اس نے اپنے حال پہ ضبط کیا۔شیشے میں چہرہ اٹھا کے دیکھا۔بالوں کی گیلی لٹیں چہرے کے اردگرد چپک گئی تھیں۔پھڑپھڑاتے ہونٹ سرخ ہورہے تھے۔
ایک بار پھر اس نے پانی کا چھینٹا منہ پہ مارا۔نل بند کرکے دونوں ہاتھ واش بیسن پہ جما کے خود کو دیکھنے لگی۔اسکو آنکھیں آنسوؤں سے خشک کرنی تھیں جو بار بار بھیگ جاتیں۔بھیگے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی۔مسکراہٹ پھیلائی پر آنسو ٹوٹ کر آنکھ سے موتی کی صورت بہہ نکلا۔اس نے پھر کوشش کی۔ٹشو اٹھا کے چہرہ خشک کیا۔انگلیاں آگے کے بالوں میں چلا کر بال ٹھیک کیے۔دل بھر رہا تھا آواز ڈبڈبا رہی تھی۔دھڑکتی بے ہنگم دھڑکنوں کو سنبھال کر مسکراہٹ سجا کر وہ باہر نکلی۔
انوش نے اسے شاپ کا بتا دیا تھا وہ سیدھا اسی جانب بڑھی۔سفیر ایک طرف بیٹھا تھا جب کہ انوش کپڑے دیکھ رہی تھی۔سفیر کو ابھی سے ہی بوریت ہونے لگی تھی۔وہ موبائل میں لگ گیا۔
رومائزہ آئی تو انوش اسکا چہرہ دیکھ کر ٹھٹک گئی۔"کچھ نہیں آنکھ میں صابن چلا گیا اور پانی بھی کھارا تھا یار.."اسکے منمنا کر جواز دینے پہ انوش کو تسلی ہوئی۔
تم نے نہیں لینا عائشے کے ولیمے کے لیے کوئی سوٹ؟"
"عائش کا ولیمہ ہے میں تیاری کرکے کیا کرونگی؟"وہ شانے اچکا کر بولی۔
"کیا کہا تم نے.....میں نے کہا تھا اس رومائزہ کو گھر رکھ کے آنا!"
"یار ابھی نہیں لے رہی پیسے کہاں لائی ہوں منہ اٹھا کے ایسے ہی آگئی۔"
"پر تمھارا بینک سسٹم تو ادھر ہے نا!"انوش نے سفیر کی طرف اشارہ کیا۔روما نے شدید کوفت سے سر جھکا لیا۔
"ویسے پتا ہے شاپنگ ابھی میں بھی نہیں کر رہی۔مجھے بس تمھارے ساتھ گھومنا تھا اسی لیے تمھیں لے آئی۔"وہ رازداری سے بولی۔
"یار انوشش.."روما کی نظر اٹھ کے سفیر کی طرف گئی صاف پتا چل رہا تھا وہ بری طرح بور ہورہا ہے۔
"یار کوئی بات نہیں،شادی کے بعد بھی تو وہ شاپنگ پہ تم کو لے کر جائینگے نا!اچھا ہے ابھی سے عادت ہوجائیگی۔"انوش کی بات پہ رومائزہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی اسکی سانس کہیں اندر اٹکی۔
انوش کا لہجہ بھی کچھ عجیب سا ہوگیا تھا۔آسان تھا کیا محبت کو بھول جانا؟اور پھر جب وہ بار بار آپکے سامنے آئے۔انوش نے اپنے جذبات کو لگام ڈال دی تھی تب ہی اتنی مطمئن دکھ رہی تھی پر اندر جو کچوکے اسے لگ رہے تھے انکا کیا!
"اچھا فورڈ کورٹ چلتے ہیں کچھ کھا پی کر گھر چلے جائینگے بس۔"سفیر کی بے زاریت کا احساس کرکے اس نے روما سے کہا جس پہ وہ راضی ہوگئی تھی۔
                           جاری ہے....
Agli qist mai ap WALIMY or NIKKAH mai shamil hony k liye tayyar hain?
Bht time hogaya roma or Meeran ki mulaqat nhi hui..
Han jee next mai mulaqat ka scene on krwaya hai..bhttt special episode hogi next..
Dil tham kar parhni paregi..

Kher aj ki episode ka review dena nhi bholna apny..
Ap logo ka piyar hai jo mujhy himmat deta..
Must vote and comment ❤️

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now