قسط 29 مضطرب

527 45 12
                                    

ڈرائیور جب واپس آیا تو گاڑی کی حالت دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اور ان دونوں کو غائب دیکھ کر تو اسکے پیروں تلے زمین کھسک گئی تھی۔
"میم صاحب...؟؟"وہ آس پاس جاکر چلایا پر بے سود کچھ نا ملا۔اس نے فوراً گھبراہٹ کے ساتھ ارباز دمیر کو کال ملائی۔
                _____________________
ارباز ڈرائیور کے فون کے بعد پریشانی سے پولیس اسٹیشن کے لیے نکلے۔سب سے پہلے انھوں نے مراد سے رابطہ کیا۔
"ڈیڈ آپ ڈی ایس پی کے پاس رپورٹ لکھوایں،میں ان سے بات کرتا ہوں۔اور آرہا ہوں میں واپس۔"عائشے کے غائب ہونے کا سن کر اسکی جان خشک ہوگئی۔خون سا کھول رہا تھا۔اور اوپر سے رومائزہ بھی اسکے ہتھے لگ گئی تھی۔کال بند کرکے اس نے ڈی ایس پی صاحب کو ساری خبر دی۔انھوں نے اسے تسلی دی تھی کہ لوگ اسے ڈھونڈ ہی رہے ہیں۔وہ ضرور مل جائیگا۔
زرپاش نے سفیر کو بھی آگاہ کردیا وہ خود غضنفر کے ساتھ الٹے پیر پولیس اسٹیشن گیا تھا۔اور اسکے بعد خود رومائزہ کی تلاش میں نکل گیا۔
ان دونوں کے اغوا ہونے سے کھلبلی سی مچ گئی تھی۔
پولیس ارغن کے پناہ کیے اڈوں کی تلاش میں تھی پر وہ پتا نہیں کونسے بل میں جا گھسا تھا۔
انعم کو بھی زرپاش نے آگاہ کردیا۔یہ بات چھپانا غلط تھا وہ عائشے کی جانب سے بہت پریشان ہوگئیں۔اس ارغن کو خوب بد دعائیں دے رہی تھیں اور اپنی بیٹی اور رومائزہ کے تحفظ کی اللہ سے دعا کرنے لگیں۔
نیمل نے انوش کے پاس میسج چھوڑ دیا تھا۔وہ شنواری ہاؤس ہی پہنچ گئی۔بتول اور غضنفر پریشانی سے دوہرے ہورہے تھے۔
"نا جانے وہ بد معاش بچیوں کو کہاں لے گیا ہوگا۔غضنفر صاحب دو گھنٹے ہوگے پولیس نے کچھ پتا نہیں کیا۔میرا دل بیٹھا جارہا ہے۔"انوش نے بتول کو بمشکل سنبھالا تھا۔
انھیں پانی دے کر وہ باہر لان میں آگئی۔کافی دیر سوچتی رہی کیا کرے کس سے مدد لے۔کون تھا جو اسکی دوستوں کو واپس لانے میں مدد کرسکتا تھا۔
دماغ نے میران کے نام کی گھنٹی بجائی تھی۔اس نے فٹ نیمل سے اسکا نمبر مانگا اور کال ملادی۔وہ بہت پریشان بوکھلائی ہوئی تھی۔مراد یہاں تھا نہیں جو اسے کچھ تسلی ہوتی۔پولیس پتا نہیں کب ان دونوں کو ڈھونڈتی اس سے مزید انتظار نہیں ہوسکا۔
بیل جا رہی تھی،وہ مسلسل پیر ہلارہی تھی۔
                 __________________
میران میٹنگ سے فارغ ہوا تھا۔بلوٹوتھ ائیر پیس اس نے کان میں لگایا ہوا تھا۔
"ڈاکٹر وہاب بابا کی رپورٹس میں کچھ بہتری آئی؟"وہ آفس لابی سے نکل کر ریسپشن کے پاس سے گزرتا باہر کی طرف جارہا تھا۔
"اچھا..میں فزیوتھراپسٹ چینج کرنا چاہتا ہوں،میرا دل اس والے سے مطمئن نہیں ہورہا۔آپ کوئی اچھا اور قابل فزیوتھراپسٹ سجیسٹ کردیں۔"ڈاکٹر وہاب کا جواب سن کر آستین کہنی تک فولڈ کرتے ہوئے وہ بولا۔
چلتے چلتے وہ پارکنگ میں گاڑی تک آگیا تھا۔
چند منٹ کے وقفے کے بعد ڈاکٹر وہاب کی بات سن کر اس نے کال ڈسکنیکٹ کردی۔
"ہاں کہو عبدل،بات ہوئی تمھاری آرکیٹکچر سے؟"ائیر پیس کان پہ درست کرتے نیلے آسمان کی جانب نگاہ اٹھا کر میران نے پوچھا۔
وہ اپنی ماں گل کے نام سے فلاحی اسپتال بنوانے جارہا تھا۔جہاں مریضوں کو مفت علاج کا ریلیف ملتا،خاص کر کینسر کے مریضوں کیلئے وہ یہ اسپتال بنوانے لگا تھا۔اور یہ بہت بڑا پروجیکٹ بننے جارہا تھا۔
مقابل عبدل ںے اسے تسلی بخش جواب دیا۔میران نے سر ہلا کے آنکھوں پہ چشمہ چڑھا لیا۔
"ہاں تم یہ معاملہ ڈیل کرلینا،اگر کوئی مسئلہ پیش آئے تو بتانا پھر میں خود دیکھ لونگا۔"بات ختم کرتے ہوئے اس نے ائیر پیس کان سے ہٹا دیا۔
وہ گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا کہ عزیز نے دروازہ کھولتے ہوئے فون اسکی جانب بڑھایا۔میران نے سیدھا کان سے لگا لیا۔
چوتھی بیل پہ کال ریسیو ہوتے ہی انوش کی دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔مقابل نے سرسری سا سوال کیا۔
"مم میں انوش بات کر رہی ہوں رومائزہ کی دوست۔آپ میران جاہ ہی ہیں نا؟"ایک بار اس نے کنفرم کرنا چاہا۔کوئی لڑکی تھی اسکی بوکھلاہٹ بھانپ کر میران ٹھٹھک گیا۔وہ اسے پہچان گیا تھا۔
"ہاں میں میران جاہ ہوں۔"وہ گاڑی میں بیٹھ گیا بھنویں سمٹ کر ماتھے کے درمیان میں آگئیں۔عزیز نے اپنی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔
"مجھے آپکی ہیلپ چاہیے۔وہ عائشے اور رر رومائزہ کو ارغن نامی شخص نے اغوا کر لیا ہے۔مراد بھائی کراچی گئے ہوئے ہیں۔سب انکو ڈھونڈ رہے ہیں پر کچھ پتا نہیں چل رہا۔آپ پلیز مدد کردیں۔"
انوش آواز رندھ سی گئی،آنسو بہہ نکلے۔حلق میں گھٹلی ابھر آئی۔میران نے حیرت سے فون کو دیکھا۔
"کیا ہوا ہے تفصیل سے بتاؤ۔کتنی دیر ہوگئی اس واقعے کو؟"اس نے بے چینی سے پوچھا۔انوش نے ساری روادار گوش گزار کردی۔
"پریشان مت ہو انشاء اللہ وہ دونوں سہی سلامت مل جائیں گی۔"میران نے اسے تسلی دے کر فون کاٹ دیا۔
"کیا ہوا سائیں؟"
"تمھاری میڈم عالمی ریکارڈ بنا رہی ہیں اغوا ہونے کا۔"میران نے بٹن لوز کرکے بمشکل سانس لی۔
"کیا؟"عزیز کے سر سے اسکی بات گزری۔
"رومائزہ اور عائشے اغوا ہوگئی ہیں۔"بھاری دل سے اس نے بتایا۔عزیز نے بڑی آنکھوں سے بیک مرر کے پار اسے دیکھا۔میران کے چہرے پہ خون واضح چھلک رہا تھا۔
"لوکییشن ٹریس کرو اور میں جہاں کا ایڈریس بتا رہا ہوں وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلواؤ۔"
وہ غصے میں پاگل ہورہا تھا۔رومائزہ کو پہلے پی کھو چکا تھا پر اسکے آنچل پہ ایک بھی تکلیف اسے برداشت کہاں تھی۔سختی سے اس نے جبڑے بھینچ کے مٹھی گھٹنے پہ ماری۔
"میں تمھیں جان سے ماردونگا ارغن اگر تم نے ان دونوں کو تکلیف پہنچائی۔"اشتعال پہ جبر کرتے اس نے لب پیوست کرلیے۔
                   _________________
عائشے مسلسل پھڑپھڑا رہی تھی۔ایک غنڈے نے رومائزہ کے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا۔اس نے میچ کر آنکھیں کھولیں۔کوئی خاک ہوتی فیکٹری لگ رہی تھی جس کے بیچ و بیچ ان دونوں کو لاکر پھینک دیا گیا تھا۔
وہ غنڈہ وہاں سے چلا گیا وہ دونوں اکیلی تھیں۔
"روما تم ٹھیک ہو؟"عائشے کے بھی ہاتھ باندھ دیے گئے تھے،روما نے منہ میں کپڑا ٹھونسا ہونے کے باعث سر ہلایا۔رومائزہ خوب ہل جل کر کمر کے پیچھے باندھے گئے رسیوں سے ہاتھ نکالنے کی جستجو میں لگی تھی۔
"میری وجہ سے تم بھی اس حال کو پہنچ گئی۔آئی ایم سو سوری۔"عائشے روتے ہوئے بولی۔رومائزپ نے غصے سے اسے دیکھ کر اردگرد دیکھا۔فاصلے پہ ایک بلیڈ پڑا تھا۔
اس نے سوچ کر اپنا وجود اسکے پاس گھسیٹا اور خود کو تھوڑا سا گھما کر بلیڈ انگلیوں میں دبوچ لیا اور واپس جگہ پہ آگئی۔ٹانگوں کی مدد سے وہ منہ سے کپڑا نکالنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
"بس ایک بار کھل جائیں ہم یہاں سے نکل جائیں گے۔رونا دھونا پلیز بند کرو مجھے غصہ آرہا ہے تمھیں روتے دیکھ کر۔"اس نے خاموشی سے دبی دبی سرگوشی کی۔عائشے کو جہاں اسکی پہلی کچھ تسلی ہوئی آگے کی ڈانٹ سن کر اس نے سہمے ہوئے بچے کی طرح سر ہلایا۔
رومائزہ بلیڈ کی مدد سے رسی کاٹ رہی تھی۔دس منٹ بعد وہ رسی کاٹنے میں کامیاب ہوگئی جلدی سے رسی دور پھینک کر عائشے کی طرف بڑھی اور اسکے ہاتھوں سے رسی کھولنی شروع کردی۔
اچانک گن فائر ہوا تو وہ دونوں ہی سہم کر اچھل گئیں۔
"ہاں کرلو کوشش بھاگنے کی پر میری اجازت کے بغیر تم ایک قدم باہر تک نہیں نکال سکتی ہو جاناں۔"ارغن اپنی منحوس شکل لیے نازل ہوگیا تھا۔گن اس نے پینٹ میں ٹکا لی۔رومائزہ نے اسے اکیلے پایا تو لکڑی کا تختہ اٹھا کے اسکے سر پہ ماردیا اور عائشے کو لے کر بھاگنے لگی۔وہ پیچھے بلبلا اٹھا تھا۔
"اے روکو اسے۔"وہ چلایا اس کے آدمی ناجانے کہاں سے نکل آئے اور ان دونوں لڑکیوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔
رومائزہ رکی نہیں آگے بڑھ کے ایک کو دھکا دیا۔اور واپس الجھ بیٹھی تھی۔جتنا ہوسکا تھا اس نے داؤ پیچ مارے تھے۔پر بدلے میں اسے کئی زخم مل چکے تھے۔عائشے بار بار چلارہی تھی۔ارغم تھوڑا سنبھالا تو تیش کے عالم میں عائشے کی جانب لپکا۔
"تجھے تو میں نہیں چھوڑنگا۔"عائشے کو اسکی انگلیاں جسم میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئیں۔
"عائشے پنچ ہم!"رومائزہ ارغن کو اسکے قریب دیکھ اشتعال سے دھاڑی پر عائشے میں ہمت نہیں ہوسکی۔
"عائشے خدا کے لیے کچھ کرو،اٹھا کے مارو۔"رومائزہ نے نیچے پڑے بلیڈ کی طرف آنکھوں سے اشارہ کیا۔ارغن نے جان کر گرفت ڈھیلی چھوڑ دی۔عائشے نے جلدی سے اٹھا کر بلیڈ ارغن کے گلے پہ گھونپنا چاہا اس نے عائشے کا ہاتھ مڑوڑ کے پیچھے کردیا۔
" دے دی نا میرے اندر کے حیوان کو ہوا۔کون بچائے گا تمھیں اب اے ایس پی کی بیوی!"ارغن خباثت بھری نگاہ عائشے کے جسم پہ ڈال کر اسے کھینچتا ہوا اندر کی طرف لے جانے لگا۔
"اسکے بعد تمھاری باری۔آج تو جلسہ ہوگا۔"اسکا مکرو غلیظ قہقہہ فیکٹری میں گونجا۔عائشے روتے پیٹتے ہوئے خود کو چھڑانے کی سعی کرتی گئی۔عائشے کو تڑپتے گڑگڑاتے اور ارغن کے ساتھ زبردستی لے جانے پہ رومائزہ کی روح فنا ہونے لگی۔
"ارغن عائشے کو چھوڑ دو۔اللہ کے واسطے چھوڑ دو۔"رومائزہ دم بخود سی ہزیانی سی کیفیت میں چلائی۔اور ان غنڈوں پہ جھپٹ پڑی۔آنسووں سے متواتر چہرہ تھا،وہ ہمت نہیں ہارنا چاہتی تھی۔
اس نے ایک غنڈے کے سینے پہ زور سے لات ماری پیچھے سے دوسرے نے اسے بالوں سے گھسیٹ کر قابو میں کیا۔رومائزہ بری طرح درد کی شدت سے چیخی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھانے لگا۔
"اللہ تعالیٰ پلیز سیو اس.."آنسو لڑی کی صورت میں اسکی آنکھوں سے بہہ گئے۔
اب وہ صرف چار پانچ نہیں تھے،غنڈے کافی سارے تھے اور شاید فیکٹری میں اور دوسری جگہوں پر بھی موجود تھے اور باہر بھی پہرے دار تھے۔
رومائزہ نے بال چھڑانے کے لیے سر پہ اپنا ہاتھ بھی رکھا۔اشک بہہ رہے تھے۔وہ بس رب کو پکار رہی تھی کہ انھیں بچا لے۔اندر سے عائشے کے چیچنے چلانے کی آوازیں اسکا جسم سرد کر گئیں۔
    "میرے پاس مت آؤ۔جانے دو مجھے۔"عائشے کو پتا نہیں تھا اسکا دوپٹہ آخر کہاں گر چکا تھا۔وہ دیوار میں دھنستے ہوئے اپنی عزت کی خاطر چلا رہی تھی۔
ارغن غلیظ نظریں اسکے سراپے پہ ڈال کر کرسی پیر سے ٹھکرا کر اسکے قریب چلا آیا۔
"اللہ میری عزت پامال ہونے سے بچا لے۔مجھ میں پھر اس اذیت سے گزرنے کی ہمت نہیں ہے۔"
"مراد مجھے آکر لے جائیں۔میں مرجاؤنگی۔اپنی عائشے کو بچانے آجائیں...مراد۔"وہ شدت سے دل میں اسے یاد کرنے لگی۔ارغن نے آکے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا عائشے نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔اور اللہ کو پکارتی گئی۔
                   __________________
عائشے کی آواز بند ہونے پر رومائزہ پہ سکتہ طاری ہوا۔اس نے بالوں کی پروا کیے بغیر ایک جست میں اس غنڈے کو لات ماری کے وہ تڑپ کے پیچھے ہٹا۔
ایک ہٹتا تو دوسرا مکرو مسکراہٹ کے ساتھ اسکے سامنے آجاتا۔جیسے اسکے ساتھ وہ لوگ کھیل رہے ہوں۔
اچانک ہی باہر گولیوں کی بارش شروع ہوگئی۔
اندر غنڈوں کے درمیان گولیوں کی آواز پہ کھلبلی مچ گئی۔وہ سارے الرٹ ہوگئے اور رومائزہ کا منہ دبوچ کر اس پہ ہاتھ رکھ دیا۔اندر سکوت سا چھایا ہوا تھا۔
رومائزہ کی سانسیں مدھم پڑتی گئیں۔وہ نڈھال ہو گئی تھی۔گاڑیوں کے تیزی سے رکنے اور پہیوں کے بری طرح چرچرانے کی آواز پہ اسکا دل لرز کر رہ گیا۔
کچھ لوگ گاڑیوں سے اتر کے اندر کی طرف بڑھے تھے۔
"کسی کو مت چھوڑنا۔جسم سے جان نکال لینا۔"میران نے گاڑی سے اتر کے دھاڑتے ہوئے حکم دیا۔اسکی پوری فوج بندوق ہتھیاروں سے لیس باہر کے غنڈوں کو نشانہ بنانے کے بعد اندر گھسی تھی۔
دھاڑ کی آواز پہ دروازہ کھلا۔سیکورٹی کے لوگ فائرنگ کرتے ہوئے اندر گھسے۔رومائزہ کی آنکھیں پھیل گئی۔اندر موجود غنڈوں نے بھی بندوق نکال کر فائر کھول دیا۔اس کے اردگرد تو بس گولیاں چلنے کی آواز گونج رہی تھی۔کچھ لاشیں سیدھا زمین بوس ہوتا دیکھ اس کی روح فنا ہوئی۔رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔
        اس نے اپنا آپ آزاد کروایا اور بھاگنے کی جست میں غنڈے کے پاس سے نکل کر پلر کی اوٹ سے باہر نکلی تھی کہ پیچھے کسی نے لکڑی کا دستہ کھینچ کر اسکے کندھے پہ مار دیا۔
وہ اس حملے کیلئے ہر گز تیار نہیں تھی خود کو سنبھال نہ سکی اور منہ کے بل سیدھا آگے کو گرنے والی ہوگئی۔عین وقت کسی کا سہارا اسے ملا تھا۔اس نے اس شخص کا بازو سختی سے تھام لیا۔درد کی شدت کندھے میں بڑھنے لگی آنکھیں میچ کر سسکی کے ساتھ اس نے سر اسکے کندھے پہ رکھ دیا۔
وہ ساکن رہ گیا تھا۔رومائزہ نے آہستہ سے سر اٹھایا تو آنکھیں سکتہ کر رہ گئیں۔روما مزید مضبوطی سے اسکا بازو تھام کر قریب ہوگئی۔اسکی آنکھوں میں آنسو اور زخمی چہرہ دیکھ میران انگاروں پہ لوٹ گیا۔دل کی بے ہنگم دھڑکنوں کو سنبھال کر روما کو خود سے لگا کر اس نے آہستہ سے اسکے بال سہلائے۔وہ اسکے کندھے پہ سر رکھے تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔دل جیسے باہر نکلنے کو آیا تھا۔
یہ سب حالات کے زیر ہورہا تھا وہ خود پہ جبر کر ہی نہ سکا۔رومائزہ کی بکھری حالت میران سے چھپی تھوڑی تھی وہ اسے دور خود سے کر ہی نہیں پایا۔اسکی دھڑکنیں روما نے قریب سے سنی تھیں۔میران کے اندر کا ابلتا لاوا رومائزہ کی قربت کے احساس سے کچھ مدھم پڑا۔
"مم میران عائشے کو بچا لو پلیز...وہ اندر ہے ارغن کے.."
اس نے روتے ہوئے اشارہ کیا۔میران کے اشارہ پہ عزیز اندر بھاگا۔روما نے اس سے فاصلہ بنایا۔وہ اسکے چہرے کو دیکھتے گئی فرشتے کی طرح وہ اسکی حفاظت کے لیے آن پہنچتا تھا۔رومائزہ کے آنسوؤں میں روانی آگئی۔اس نے اپنے کندھے پہ تکلیف کے باعث ہاتھ رکھ دیا۔میران کا چہرہ رومائزہ کا چہرے پہ تھپڑ کے نشان اور ضربوں کو دیکھ دھواں دھواں ہوگیا۔
وہ جبڑے بھینچ کر اس غنڈے کی طرف بڑھا اور اسکے منہ ہی منہ پہ مکے برسا دیے۔تب تک نہیں چھوڑا جب وہ بری طرح نڈھال نہ ہوگیا۔
رومائزہ ہچکیوں کے ساتھ اس بپھرے شیر کو دیکھ رہی تھی۔
کسی غنڈے نے گن سے میران کا نشانہ لیا۔
"میران.."رومائزہ زور سے چیخی۔
"اللہ کرے تم بھی مرجاؤ میران...تم مر کیوں نہیں جاتے...نفرت ہے مجھے تم سے...خوشیوں کے قاتل ہو تم..."اپنے کہے زہر خندہ الفاظ رومائزہ کے ذہن میں گھومنے لگے۔
نہیں وہ نہیں مرسکتا تھا۔اسے اسکے لفظوں نے جھنجھوڑ ڈالا۔
میران اسکی چیخ سن کر جب تک پلٹا تو گولی چل گئی تھی۔اس نے بے یقینی سے رومائزہ کو دیکھا،اس کے ہاتھ میں گن تھی اور وہ بدحواس سی کھڑی تھی۔روما نے نیچے پڑی کسی غنڈے کی گن اٹھا کر دوسرے شخص کے ہاتھ کی طرف فائر کردیا تھا۔
میران نے معاملہ سمجھا۔رومائزہ نے کرنٹ کھا کر گن نیچے پھینک دی۔میران قدرے حیرانی سے اسے دیکھا گیا۔رومائزہ نے اسکی جان بچائی تھی؟اپنے خیالات کو جھٹکا۔
اردگرد گولیوں کی بوچھاڑ کم ہوگئی۔میران کی سیکورٹی نے حالات پہ قابو پالیا تھا۔وہ سب غنڈے زخمی ہوچکے تھے۔لگ رہا تھا ارغن نے پوری غنڈوں کی فوج جما کر رکھی ہو۔
میران نے رومائزہ کی طرف بڑھ کے اسکا دوپٹے کے بغیر وجود پہ اپنی گلے میں موجود چادر اتار کے کھول کے اسکے شانوں کے گرد پھیلا دی۔رومائزہ کی آنکھوں سے من بھر آنسو بہہ نکلے چادر کے کونے اس نے مٹھی میں جکڑ لیے۔میران نظریں جمائے اسے دیکھتا رہا۔عائشے کے پاس جانے کے لیے قدم اٹھانے لگی تو اسکے پیر لڑکھڑائے۔میران نے پیچھے سے اسکے ہاتھ تھام لیے۔میران کے ہاتھوں کی گرمائش اسکے اندر اتری تھی۔کہنے کو بہت کچھ تھا پر وہ کہہ نہیں سکی۔اس سے نظریں نہیں ملا سکی۔
معافی مانگنی تھی نہیں مانگ سکی۔میران اسکے بدلے روہے پہ بڑا حیران تھا۔اس نے آج جھٹکا نہیں دور نہیں ہوئی۔بلکہ اسکے قریب خود کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔
اس کو کہاں معلوم تھا کہ وہ سچ پہ یقین کر چکی ہے۔۔مہران نے نگاہیں ہٹا لیں۔وہ مزید اسے دیکھتا تو دور جانا مشکل ہوجاتا۔
پولیس کے سائرن کی آواز باہر گونجی۔
"جب سب ہوگیا میاں جی آپ آرہے ہیں۔"عبدل نے گن پیچھے کرتے ہوئے ماحول کی سنجیدگی کم کرتے ہوئے مزاحیہ طور پہ کہا۔
پولیس کے ساتھ سفیر بھی اندر بڑھا تھا۔پہلے تو وہ منظر دیکھ کر پریشان ہوا۔غنڈوں کی بچھی لاشیں بہت کچھ سگنلز دے رہی تھیں۔
سفیر رومائزہ کی پشت دیکھ کر پاس آیا تو رک سا گیا رومائزہ کا ہاتھ میران کے ہاتھ میں تھا۔اس نے بہت مضبوطی سے تھاما ہوا تھا جیسے چھوڑنا نہیں چاہتی ہو۔
                 ___________________
باہر کے شور سے بے خبر ارغن عائشے کے چہرے پہ جھکنے لگا تھا کہ پیچھے کسی نے دروازہ کھول کر گن کا فائر کھول دیا تھا۔ارغن کو اپنے پیر پہ گرم سلگتی ہوئی راڈ گھستے ہوئے محسوس ہوئی وہ فرش پہ تڑپ کے مارے گر گیا۔
عائشے چیخ مار کے اس دیوار سے دور ہٹی۔اور خوب ہزیانی پن سے روتی چلی گئی۔عزیز کو دیکھ کر اسکی سانس میں سانس آئی تھی۔اللہ نے اسے رسوا ہونے سے بچا لیا تھا۔
عزیز نے جاکے کے ارغن کو بری طرح پیٹ دیا۔
پھر اٹھ کے عائشے کے پاس آیا۔چہرہ جھکائے رکھا اور اپنا کوٹ اتار کے اسکی طرف بڑھایا۔عائشے نے خاموشی سے گہری سانسیں لیتے ہوئے کوٹ تھام کر خود کو اس سے کوور کرلیا اور عزیز کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔وہ ہچکیوں کے ساتھ روتی ہوئی باہر نکلی تھی۔
رب کا شکر تھا جس نے اسکو رسوا ہونے سے بچا لیا تھا۔
باہر آئی تو عجیب سی اسٹویچین کا سامنا کیا۔
سفیر سامنے کھڑا تھا میران اور رومائزہ ایک دوسرے کے بے حد قریب کھڑے تھے۔اس نے کچھ نہیں دیکھا صرف رومائزہ کی آنکھیں دیکھیں۔جن میں الگ قسم کی آگ لگی تھی،عجیب سی شدت تھی۔عائشے دہل کے رہ گئی اور اپنی بدحواسی بھول بیٹھی۔نظروں میں حسرت محبت پچھتاوا سب تھا۔
رومائزہ یک ٹک میران کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی،اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس بار بھی اسے بچانے کیلئے آگیا ہے۔سر میں ٹھیس سے اٹھی اسکا سر میران کے بازو سے ٹکرایا۔رومائزہ نے ٹکادیا جیسے کسی پلر کا سہارا لیا ہو،وہ شدت برداشت نہیں کرپائی تھی۔اسکے بال بری طرح سے جو کھینچے گئے اسے تکلیف ہورہی تھی۔میران اسکے اقدام پہ منجمد رہ گیا۔
آہستہ سے رومائزہ نے سر اٹھایا۔مشکور نگاہوں سے اسے دیکھا۔وہ اب اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔بھیگا بھنور کہیں اسے ڈبا ہی نہ لے جاتا۔
کیا خبر تھی تری آنکھوں میں بھی دل ڈوبے گا میں تو سمجھا تھا کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں
پھر عائشے کو آتے دیکھ رومائزہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور اسکی طرف لپک کے اسے خود میں بھینچ لیا۔دونوں نے ایک دوسرے کے کندھے پہ خوب آنسو بہائے۔
"عائشے تم ٹھیک ہو نا؟"اس نے عائشے کا چہرہ ہاتھوں میں لیا۔عائشے اسے آج بچی ہی لگی تھی جسے ہر چیز کی ہدایت کرنی پڑتی ہو۔وہ بری طرح ڈر چکی تھی اپنے حواس قابو میں کر ہی نہ سکی۔
"میں ٹھیک ہوں پر روما تمھیں بہت چوٹیں آئی ہیں۔اللہ ارغن کو جہنم کے آخری کونے ڈالے۔"وہ نفرت سے کہتی رومائزہ کے پھٹے ہونٹ کو دیکھنے لگی۔
جب وہ پلٹی تو سفیر کو کھڑے پایا۔
"شکر تم سلامت ہو۔سب کی جان نکل رہی تھی۔"
سفیر اسکی طرف بڑھا اور اسے سہارا دیا۔میران جو اسے دیکھ رہا تھا نظروں کا زوایہ بدل لیا۔عائشے نے میران کی تڑپ دیکھی تھی۔اسے وحشت سی محسوس ہوئی۔برا لگا تھا۔
وہ میران کی طرف قدم اٹھا کر پاس آئی۔
"شکریہ۔آپ نہیں آتے تو پتا نہیں کیا ہوجاتا۔"کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر اس نے تشکر بھرے انداز میں کہا۔پہلی بار وہ اچھے انداز میں اس سے مخاطب ہوئی تھی۔میران نے بمشکل مسکرا کر اسکا دل رکھا۔وہ پھر رومائزہ کے پاس آگئی۔
"ڈی ایس پی صاحب آپکا بھی شکریہ۔"سفیر نے ڈی اے ایس پی سے مصافحہ کیا۔
رومائزہ کا ہاتھ اس نے اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے ساتھ لے کر چلنے لگا۔عائشے تو ٹھیک تھی پر رومائزہ کو کافی زخم آئے تھے۔میران نے اسے جاتے ہوئے دیکھا نظر سفیر اور اسکے ہاتھ پہ گئی۔وہیں ٹہھر سی گئی،کمال طریقے سے اس نے دل کو سنبھالا جو اندر ہی اندر گویا رو رہا تھا۔ماتم کا سماں ہوگیا۔
رومائزہ نے پلٹ کر میران کو دیکھا۔بیک وقت دونوں کی نگاہوں کا آپس میں تصادم ہوا،پھر سر جھکا کے بھاری دل سے سفیر کے ساتھ عائشے کے ہم قدم فیکٹری سے باہر نکل گئی۔لگ رہا تھا آج دل میران کے حوالے کر آئی ہے۔کیونکہ اندر اب صرف ویرانی بچی تھی۔
میران نے چہرہ پھیر کے سرخ آنکھوں میں جمع ہوا پانی صاف کیا۔
"میران صاحب آپکو کیسے اسکے ٹھکانے کا علم ہوا؟"ڈی ایس پی صاحب کو اچھنبا ہوا۔عبدل اندر جاکے ارغن کو گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا تھا اور اسے پولیس کے حوالے کردیا۔
"میرا لیفٹ ہینڈ بہت کام کا آدمی ہے۔"اس نے عزیز کی طرف اشارہ کیا۔تو وہ مسکرادیا۔
ہوا یوں تھا کہ وہ ساری سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ چکے تھے۔پر اس سے انکے ٹھکانے کا پتا نہیں مل رہا تھا۔کمیشنر تک سے میران نے رابطہ کیا۔
اسے ان سے معلوم ہوا کہ ارغن کسی فیکٹری میں چھپا ہے اور پولیس اسی کی تلاش میں ہے۔عزیز لاہور کی ہر فیکٹری سے واقف تھا۔اسکو فیکٹری کا پتہ لگانے میں دیر نہیں لگی اور بر وقت وہ وہاں پہنچ گیا۔
ڈی ایس پی سے الوداعی کلمات کہتا اپنے بال درست کرکے وہ فیکٹری سے باہر نکل آیا۔
"سائیں ماننا پڑے گا میڈم نے آپکو گولی لگنے سے بچایا ہے۔"
عبدل نے قدرے حیرانی سے کہا تو عزیز کو بھی حیرت ہوئی۔میران خاموشی سے بات نظر انداز کرکے گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔جیسے کسی قسم کی کوئی بات اس حوالے سے کرنا ہی نہیں چاہتا ہو،
آنکھوں میں سے سفیر کے ہاتھ میں اسکا ہاتھ جا نہیں رہا تھا۔یعنی اس نے ہر صورت سفیر کو چننا تھا۔ضبط سے اس نے آنکھیں موند کر گردن پیچھے ٹکا لی۔
عزیز اور عبدل گاڑی میں بیٹھے گئے۔عبدل نے ساؤنڈ سسٹم کھل دیا اور اس میں غزلیں لگا دیں جو سہی میں میران کی کیفیت کی عکاسی کر رہی تھیں۔
                 __________________
سفیر نے راستے میں ہی سب کو ان دونوں کے مل جانے کی خوشخبری سنا دی تھی اور وہ انھیں گھر ہی لارہا تھا۔عائشے رومائزہ کے ساتھ پہلے شنواری ہاوس ہی گئی تھی۔
جب وہ اندر داخل ہوئی تو انوش اور بتول ان دونوں سے سے لپٹ گئیں۔غضنفر نے بھی رب کا شکر ادا کیا۔
لاؤنچ میں ہی سب بیٹھے تھے۔انوش رومائزہ کے زخموں پر کریم لگا رہی تھی۔سر پہ کھروچ آئی تھی اس نے وہاں سنی پلاسٹک لگا دی۔ہاتھوں اور پیروں پہ کئی جگہ مزید کھروچیں آئی تھیں۔
"رومائزہ اگر تم بہتر فیل نہیں کر رہی تو ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔"سفیر متفکر سا اسکے برابر میں بیٹھا ہوا بولا۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں پریشانی کی بات نہیں۔بس سر اور کندھا دکھ رہا ہے۔پین کلر لے کر سوجاؤنگی تو بہتر رہے گا۔"
وہ طمانیت سے بولی اسکا چہرہ بجھا بجھا محسوس ہورہا تھا۔
عائشے نے تو آکر سب کو بتادیا تھا کہ میران جاہ نے انھیں ڈھونڈ لیا تھا۔انوش نے اسکے کان میں سرگوشی کی تھی کہ اس نے ہی میران کو تم دونوں کے اغوا ہونے ہی خبر پہنچائی ہے۔عائشے نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا تھا۔غضنفر اور بتول خاموش سے ہوگئے۔
"مجھے بھی اگر رومائزہ کی طرف لڑنا آتا ہوتا تو وہ ہم کو اٹھا کر لے جا بھی نہیں سکتے تھے۔اتنی اچھے سے یہ مار دھاڑ کرتی ہے میرا تو کلیجہ باہر نکلنے کو تھا۔"عائشے نے رشک بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"میں تم دونوں کو اسی لیے کہتی تھی سیلف ڈیفنس لازمی آنا چاہیے مجھ سے ہی سیکھ لو،پر تم دونوں کو تو لیکچر دینے سے فرصت نہیں ملتی تھی.."وہ تپی ہوئی معلوم ہوئی۔عائشے کی بے وقوفی پر غصہ آرہا تھا۔
بتول نے رومائزہ کے زخمی سراپے پہ نگاہ ڈالی پھر کچھ سوچا۔
"بیٹا پرسو آپکا نکاح ہے،اگر بہتر فیل نہیں کر رہی ہو تو ہم تاریخ آگے بڑھا دینگے۔"بتول کے پوچھنے پہ عائشے نے سانس کھینچ کر رومائزہ کو دیکھا۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں،نکاح مقرر تاریخ پر ہی ہوگا۔نکاح ہی تو کرنا ہے کونسا جنگ لڑنی ہے۔"رومائزہ ہلکے پھلکے انداز میں بات سنبھال کر بولی۔مہاز بھی طے کرنا تھا،اور ایک جنگ خود کے اندر چھڑی تھی اسکا سامنا بھی کرنا تھا۔
"جیسے تم خوش،اب بس اب آرام کرو میں تمھارے لیے کچھ ہلکا پھلکا بناتی ہوں۔"بتول ہدایت کرتی کچن میں چلی گئیں۔اور غصنفر سفیر کو لے کر باہر لان میں آگئے۔
اب وہ لوگ واپس آگئی تھیں تو سب کو سکون سا ہوگیا تھا۔دمیر فیملی گھر پہ عائشے کی منتظر تھی۔عائشے کے امی بابا بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔
      وہ تینوں لاؤنچ میں اب اکیلی تھیں۔عائشے اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔رومائزہ کے چہرے کے بال پیچھے کیے۔رومائزہ غیر مرئی نقطے کو گھورنے میں مصروف تھی۔
"تم اب بھی نکاح کروگی سفیر سے؟"عائشے کے انداز پہ انوش اور رومائزہ دونوں چونک گئیں۔
"کیا ہوگیا ہے عائشے؟"
"تم بتاؤ تم کیا چاہتی ہو اور کر کیا رہی ہو،انوش میران کو دیکھ کر جو اسکی آنکھوں میں شدت تھی نہ وہ کوئی عام زوایہ نہیں تھا۔"عائشے برہمی سے گویا ہوئی۔انوش نے اچھنبے سے رومائزہ کی نگاہوں میں دیکھا۔
"میں تمھیں کل فون پہ کہہ رہی تھی نا کہ یہ محبت کرتی ہے اس سے،ہم میں سے کسی نے دھیان نہیں دیا پر اس نے اس رات کئی بار واضح کیا تھا کہ اسے میران سے محبت ہوگئی تھی۔"
انوش بھی دوبدو بولی۔روما نے نچلا لب دبا کر دونوں کو نظر انداز سا کیا۔
"روما بہت ہوگیا ہے۔تم اس رشتے سے خوش ہو بھی کہ نہیں؟یا مدر ٹریسا بن کے قربانی دینے چلی ہو۔دیکھو جھوٹ مت بولنا تمھیں میران سے محبت نہیں۔تمھارا چہرہ ہر چیز کا جواب دے رہا ہے۔"
سچ جاننے کے بعد عائشے کا میران کی جانب سے دل صاف ہوچکا تھا۔اور انوش کو تو پہلے ہی شبہ تھا کہ وہ سچ ہی کہہ رہا ہے۔
وہ میران کی حمایت نہیں کر رہی تھی وہ بس رومائزہ کی خوشی چاہتی تھیں۔
"لڑکیوں کا نکاح ہوتا ہے وہ بہت خوش دکھائی دیتی ہیں۔اور یہاں تمھارے نکاح کی بات پر تمھارے چہرے کی ساری رمق اڑ جاتی ہے۔ایک دم مرجھا جاتی ہو۔"
انوش نے اسکا بازو دبوچ کر کہا۔
"تو کیا کروں ہاں؟پیچھے ہٹ جاؤں؟اپنی بات سے مکر جاؤں۔سفیر کو کمٹمنٹ کی ہے کہ نکاح کرونگی تو بس انھی سے کرونگی۔تائی امی کتنی خوش ہیں میرے ایک فیصلے سے انکے دل پہ کیا اثر ہوگا؟
اور سفیر؟انکے ساتھ میں ایسا نہیں کرسکتی۔جو بھی ہو انھوں نے میری خاطر بہت کچھ کیا ہے۔وہ مجھے میری خوشی کی خاطر اپنانا چاہتے تھے اب پیچھے ہٹ کر انکا دل بھی توڑ روں؟"دبے دبے لہجے میں اس نے غصے سے کہا۔
"سب کے دل کی پرواہ ہے سوائے اپنے!تم کیا چاہتی ہو اسے مارو گولی بس سب کا دل رکھتی رہو!اور میران نے تمھارے لیے کچھ نہیں کیا؟میں اسکی آج حمایت کر رہی ہوں کیونکہ آج سب اپنی آنکھوں سے دیکھ آئی ہوں۔موقع تھا تم ان سے معافی مانگ لیتیں سارے شکوے ختم ہوجاتے۔وہ شخص تمھارے لیے اتنی تڑپ رکھتا ہے مجھے اندازہ نہیں تھا۔تمھاری حالت دیکھ کر انکی آنکھوں میں جنون اترا ہوا تھا۔
تم ایک قدم بڑھاتی وہ دس قدم تمھاری طرف بڑھا دیتے۔"عائشے کے بدلے تیور پہ رومائزہ نے سر تھام لیا۔
"تم لوگ مجھے الجھاؤ مت،میرا فیصلہ نہیں بدلنے والا۔میں مزید کسی کا دل نہیں توڑونگی۔سفیر کو نہیں دیکھا بات بات پہ میرے لیے پریشان ہوجاتے ہیں!کیوں ہوتے ہونگے اندازہ ہے؟"وہ خود کو ٹھنڈا کر کے بولی۔انوش نے صبر کا گھونٹ پیا۔
"عائشے سن رہی ہو۔سفیر کے دل کی فکر ہے پر میران کا دل؟ہاں وہ تو توڑنے کے لیے بنا ہے بس۔اور خود بے شک نہ خوش رہوں پر شادی سفیر سے کرونگی۔میران سے بڑھ کے سفیر کو تم سے عشق ہوگیا ہوگا کیا؟"انوش خود پہ مزید قابو نہیں رکھ سکی۔بپھر کے بولی۔رومائزہ کاانداز سرد ہوگیا۔
"میں خود کو میران کی مجرم سمجھتی ہوں،ہمت نہیں ہوتی کہ اس سے معافی مانگ لوں۔اس نے آج بھی اپنی محبت ثابت کردی۔اسکی مضطرب آنکھیں ابھی بھی آنکھوں کے گرد گھوم رہی ہیں۔میں اسکی زندگی میں صرف مصیبتیں ہی لاؤنگی۔وہ کوئی عام شخص نہیں اسے مجھ سے بہتر کوئی اور مل جائیگی کیونکہ میں اسکے قابل ہی نہیں۔"وہ سرد مہری اندر اتار کے بولی۔انوش نے عائشے کو دیکھا۔
"تم؟میران کے بغیر خوش رہ لوگی اسکی محبت تمھیں سکون سے جینے دیگی؟محبت تو تمھیں بھی اس سے ہے؟جب ہی تم اتنا تڑپتی تھیں!"انوش بلائے طاق بولی۔
"ہاں ہے،کرتی ہوں اس سے محبت،،،اس کے ہر روپ نے مجھے مجبور کردیا تھا محبت کرنے پر۔"وہ دبی آواز میں چیخی۔عائشے نے ہاتھ صوفے پہ جمادیے۔
"تو میری جان یہی تو سوچو کیسے خوش رہو گی؟سفیر تمھیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں اسی لیے شادی کی پیش کش کی اور کچھ نہیں۔تم خود کہتی تھیں وہ ہمدردی میں آکر کر شادی کر رہے۔"انوش نے اسے سمجھانا چاہا پر وہ دل و دماغ پہ تالے لگا چکی تھی۔
"تو میرے ساتھ انکی اچھائی کا یہ صلہ دوں؟اسٹیپ بیک ڈاؤن!"رومائزہ نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔انوش بے بسی سے خاموش ہوگئی۔عائشے نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔اسے اندازہ ہوگیا تھا وہ پتھر سے سر پھوڑ رہی ہیں۔
"ٹھیک ہے میں سفیر کو بتاؤنگی تمھارے دل میں میران کی محبت اب بھی ہے،پھر انکا فیصلہ ہوگا بس!"انوش دو ٹوک بولی۔
"کیوں مجھے انکی نظر میں گرانا چاہتی ہو؟میں اپنی زبان سے نہیں پھرونگی۔سب خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوجاؤنگی۔خبردار تم دونوں نے کچھ الٹا سیدھا کیا تو بہت برا ہوگا!"
"اچھا ٹھیک ہے جیسا تم چاہو۔"
اسکی دھمکی سن کے عائشے نے اسے ٹھنڈا کرتے کہا..."اس چہرے کو ہم بس خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔چاہے وہ سفیر کے ساتھ ہو یا میران۔مجھے تمھاری خوشی میران میں لگتی ہے۔اسے دیکھ کر تمھاری آنکھوں میں رمق آجاتی ہے۔پر اپنے بارے میں تمھیں زیادہ بہتر معلوم ہوگا۔"
عائشے عاجزی سے کہہ کر خاموش ہوگئی۔آگے بڑھ کے اسکے گلے لگی اور کھڑی ہوگئی۔رومائزہ گنگ بیٹھی رہی۔
"انوش اسکا خیال رکھنا،گھر پہ سب فکر مند ہونگے میں جارہی ہوں۔"
انوش کو تاکید کرتی وہ باہر آگئی۔سفیر اسے چھوڑنے جارہا تھا۔
انوش رومائزہ کو کمرے میں لے گئی۔دونوں کے درمیان خاموشی رہی۔انوش لائٹس آف کرکے باہر آگئی۔اسکے جاتے ہی رومائزہ کی آنکھوں سے نمی باہر نکلی۔
اپنا دل مار کے وہ بلکل خوش نہیں تھی۔بس سب ہورہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ایک طرف خود کو میران کے لائق سمجھتی بھی نہیں اور دوسری طرف اسکی محبت میں سلگ رہی تھی۔کیسے ختم ہوتی یہ محبت؟سفیر سے نکاح کرکے؟کیا واقعی ہوجاتی؟وہ۔خوش رہ لے گی؟یہ سب بھلا پائے گی؟
                ____________________
عائشے کے گھر آنے کے بعد سب کو سکون آیا تھا۔سب سے مل کر وہ کمرے میں آگئی۔انعم اسکے پاس تھیں۔ماں کے آغوش میں خوب آنسو بہائے گئے تھے۔
"امی مجھے بہت افسوس ہے میں نے میران کو بہت غلط سمجھا۔"
"کوئی بات نہیں بیٹا،غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔آپ تو دل صاف ہوگیا ہے نا۔"انعم اسکا ماتھا چوم کر بولیں۔
"مجھے افسوس ہے کہ میں انکے اور رومائزہ کے لیے کچھ کر نہیں سکتی۔رومائزہ مانتی ہی نہیں،اور میران خود بھی دوری برت رہے۔روما غلط کر رہی ہے۔میں نے دیکھا ہے وہ اس سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ہر لڑکی کی خواہش ہوتی کوئی اسے بے پناہ چاہے اتنی ہی عزت دے۔"
عائشے نے کہتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔انعم اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتی رہیں۔رات کے آٹھ بج رہے تھے۔اسے مراد کی واپسی کی خبر مل چکی تھی وہ اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔
دروازے کی آواز پہ اٹھ بیٹھی۔مراد نے بیگ ایک طرف رکھا اور اندر آیا۔چہرہ تھکن آلود تھا۔سفید پتلون پہ سیاہ شرٹ پہن رکھی جسکے ہالف سیلوز ہونے کی وجہ سے مراد کے آدھے کسرتی بازو نمایاں ہورہے تھے۔عائشے کو آنکھوں کے سامنے سلامت دیکھ اس نے رب کا شکر کیا۔
"اسلام و علیکم.."
انعم کو سلام کرتا اندر آیا اور متفکر سا عائشے کے برابر میں بیٹھا۔انعم عائشے کی خیریت بتا کر کمرے سے نکل گئیں۔عائشے خاموش تھی،سر جھکائے بیٹھی تھی۔
انعم کے جانے کے بعد مراد نے تڑپ سے عائشے کو خود میں بھینچ لیا۔عائشے کا دل بے ہنگم انداز میں دھڑکا اطمینان سے اس نے مراد کے کندھے پہ سر رکھ دیا۔مراد اسکی خوشبو محسوس کرنے لگا۔وہ خوب مراد کی شرٹ آنسوؤں سے بھگو رہی تھی۔
"اتنی دیر کوئی کرتا ہے؟پتا ہے میں کتنا ڈر گئی تھی۔"مراد کے گرد اس نے گرفت بڑھادی۔وہ مسکرانے لگا۔
"آگیا ہوں نا آئیندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ارغن کو تو میں دیکھ لونگا خبیث انسان نے میری بیوی پہ گندی نظر ڈالی،ٹکڑے ٹکڑے ہی ہونگے اسکے۔"عائشے کے بال سہلاتے وہ کہنے لگا۔عائشے نے سر اٹھایا۔
"پر اے ایس پی مراد کی بیوی کو بھلا وہ نقصان پہنچا سکتا تھا!"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔مراد کی نگاہیں اسکی نوز پن سے ہوکر آنکھوں کے گرد جمع پانی تک گئیں۔
"رومائزہ اور میران بھائی نے مجھے بچایا۔رومائزہ نے تو بہت کوشش کی ارغن کے آدمیوں نے اسکے ساٹھ بہت برا سلوک کیا،وہ پھر بھی ڈری نہیں،میں تو حواس ہی کھو بیٹھی تھی۔"بچوں کی طرح روتے ہوئے اس نے آخر میں اپنی ناقص حالت کا بتایا۔مراد نے اسکے آنسو صاف کرکے ماتھا چوما۔
"میری معصوم سی بیوی۔"وہ واپس اسے خود سے لگا گیا۔عائشے کے لاپتہ ہونے کی خبر سن کے اسے ایک پل چین نہیں آیا تھا۔اسے لگ رہا تھا وہ لاہور فوراً نہیں پہنچا تو کہیں پاگل ہی نا ہوجائے۔ارجنٹ فلائٹ سے وہ دوبارہ لاہور کے لیے روانہ ہوا تھا۔
اس نے جا بجا عائشے کے ہاتھ چومے وہ روتے ہوئے اسے دیکھے گئی۔
"اگر آج کچھ غلط ہوتا نا تو میں واقعی مر جاتی۔"مراد کی پیشانی کے ساتھ اس نے اپنا ماتھا ٹکادیا۔مراد ںے آنکھیں موند لی اسکا چہرہ تھاما۔
"میرے فریمز بھی ٹوٹ گئے اتنے پیار سے میں نے بنوائے تھے۔کیڑے پڑیں اس ارغن کو۔"نم لہجے میں ارغن کو بدعائیں دیتی وہ بولی۔
مراد کو باہر نیمل بتا چکی تھی عائشے کس لیے گھر سے باہر نکلی تھی۔مراد کے لبوں پہ تبسم پھیلا۔
"ان فریمز کی کیا اوقات،تم زیادہ اہم ہو۔شکر ہے سہی سلامت لوٹ آئی ہو۔"اسکا گال تھپک کر مراد نے کہا۔عائشے نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔
"بس اب سب ٹھیک ہے تم آرام کرو،مجھے ضروری کام ہے رات تک آجاؤنگا۔"اسے خود سے الگ کر وہ بیڈ سے اتر گیا۔عائشے تھکن کے مارے لیٹ گئی۔مراد نے اس پہ کمفرٹر ڈالا اور کمرے سے نکل گیا۔
                _____________________
سیاہ تاریکی کے درمیان کم والٹ کا ایک سفید بلب درمیان میں جل رہا تھا۔خاموشی کا عالم تھا۔کچھ سسکیاں اس سکون کو توڑ رہی تھیں۔
مراد اندھیرے میں ڈوبے ٹارچر سیل میں داخل ہوا۔پولیس ارغن سے اسکے مزید ساتھیوں کے بارے میں اگلوارہی تھی۔وہ نڈھال ہوکے ایک کنارے پڑا تھا۔
مراد جبڑے بھینچ کر اسکے پاس آیا اور کرسی کھینچ کے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔
"کیا سوچا اے ایس پی کی بیوی کو اٹھا کر مجھے تکلیف پہچانے میں کامیاب ہوجاؤگے۔بدلہ لوگے؟"مراد طنزیہ مخاطب ہوا۔ارغن درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا۔
"اگر میران جاہ آنے میں تھوڑی دیری کردیتا تو آج تمھاری بیوی تم سے آنکھیں تک نہیں ملا پاتی۔"ارغن کی بات پہ مراد کا خون کھول گیا۔اس نے آگے جھک کے اسکے منہ پہ مکا مارا۔
"اگر بکواس کی تو جان نکال لونگا۔میری بیوی اور بہن کو تکلیف دے کر تم نے اچھا نہیں کیا۔تمھاری جان نہیں لونگا بلکہ پل پل تڑپاؤنگا،پہلے تم پہ ہلکا ہاتھ رکھا تھا پر اب تمھیں اپنے گناہوں کی سزا ملے گی۔جتنی لڑکیوں کے ساتھ تم نے برا سلوک کیا انھیں سمگل کیا سب کاحساب ہوگا اب!"مراد پیچھے ہوا اسکی گولی لگی ٹانگ پہ اپنا بوٹ جما کر تنفر سے بولا۔ارغن چیخنے لگا۔مراد نے بوٹ ہٹایا اور حوالداروں کو ہدایت کرتا باہر نکل گیا۔
                _____________________
        نئی صبح کاںآغاز ہوچکا تھا۔عائشے نے آنکھیں کھول کر برابر میں دیکھا مراد بے خبر سو رہا تھا۔وہ محبت بھری نگاہ ڈال کر واش روم چلی گئی۔
  زرپاش میران کی طرف سے متفکر تھیں۔کل رومائزہ کا نکاح تھا،اپنے بھتیجے کی محبت سے وہ بخوبی واقف تھیں۔وہ جانتی تھیں وہ جیتے جی مرجائے گا۔
ہنسنا بولنا تو وہ چھوڑ چکا تھا بہت کم وہ اپنے خول سے باہر نکلتا تھا۔ہر وقت خود کو مصروف رکھتا تھا۔اور ہسپتال کی تعمیر کے سلسلے میں مزید مصرفیات بڑھ گئی تھیں۔
    ناشتے کے بعد بتول نے مہندی والی کو بلوالیا تھا۔
نکاح کے لیے بس بنگلے کے لان میں ہی چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔عائشے کی فیملی اور انوش کی فیملی مدعو تھی۔بتول صاحبہ نے سب سے پہلے اپنے ہاتھ نازک سے ڈیزائن سے رچوالیے تھے۔دوپہر میں جو انھیں غضنفر کے ساتھ کسی ضروری کام سے جانا تھا اسی لیے وہ مہندی سے پہلے ہی فارغ ہوگئیں۔
انوش رات رومائزہ کے پاس ٹہھری تھی۔اکیلا چھوڑنے کا تو اسے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
رومائزہ کا مہندی لگوانے کا بلکل دل نہیں تھا بتول اور انوش نے بہت زور دیا تھا.تائی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے وہ مہندی لگوانے بیٹھی گئی پر اتنی بھری بھری مہندی اس نے نہیں لگوائی تھی۔
"سفیر نام بھی لکھ دو۔"پیچھے سے بیٹھ کے انوش نے شوشا چھوڑا روما نے بے تاثر انداز میں اسے دیکھا۔
"کچھ مت لکھنا۔ہاتھ پہ نام اچھا نہیں لگتا۔تم بس یہ پھول مکمل کرو جلدی سے۔"انوش اس سے خفا تو نہیں تھی پر مسلسل زچ کر رہی تھی۔
"روما آنٹی نے ہالف وائٹ کلر بنایا ہے لال شوخ کلر کا ڈریس بنانا چاہیے تھا...ہے نا۔"سیب چھری سے کاٹتے ہوئے اس نے کہا اور ایک سیب کی پانکھ رومائزہ کے منہ میں ڈالی۔اسے کلر سے کیا فرق پڑتا اسے تو کسی چیز کی خوشی محسوس نہیں ہورہی تھی۔بس زبردستی مسکرا دیا کرتی تھی۔
"انوش چپ ہوجاؤ،میرا سر دکھ رہا ہے۔"
"ابھی سے؟"وہ باز نہیں آئی۔رومائزہ سر جھٹک کے رہ گئی۔بڑی کوئی بد دلی سے اس نے مہندی لگوائی تھی۔
انوش نے اسے کہا اسکی شادی پہ وہ ضرور ناچے گی تو گانے لگا کر محترمہ نے اکیلے ہی محفل سجا دی تھی۔انوش کا دل اب سفیر کے نام سے دھڑکتا نہیں تھا۔اس نے تمام تر خواہشات اور چاہتوں کو سفیر کے حوالے سے دبا دیا تھا۔
وہ خود کو تکلیف دینے سے روکے ہوئی تھی۔یہ قیمتی پل جینا چاہتی تھی،آخر اسکی بہن جیسی دوست کا نکاح تھا۔اب بھلے حالات جیسے بھی تھے۔
                 ____________________
رومائزہ کا نکاح تھا یہ سوچ میران کی جان نکال رہی تھی۔وہ کسی اور کی ہونے جارہی تھی۔ایسا کیا گناہ کردیا تھا جو اتنی بڑی سزا اسے مل رہی تھی۔شاید رومائزہ کی بدعائیں ہی تھیں جو اسے لگ گئیں تھیں۔
اسکا کوئی اپنا یعنی رومائزہ خود اس سے چھینی جا چکی تھی۔وہ تھک گیا تھا،ٹوٹ چکا تھا۔
ایک بار کہہ دیتی میران مجھے تم سے محبت ہے وہ ساری دنیا سے لڑ کر اسے اپنا لیتا۔پر وہ اظہار ہی تو نہیں کرتی تھی۔صرف اسی کی خاطر اپنی محبت قربان کر رہا تھا ورنہ کہاں میران جاہ محبت سے دستبردار ہونے والا تھا!

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now