قسط 19 ملال

459 46 8
                                    

      اس شخص نے جھٹکے سے پورا زور لگا کے اپنی جانب اوپر کی طرف کھینچا وہ کھنچتی چلی گئی۔وہ سلامت تھی۔اسکے دونوں ہاتھ اس شخص کے کندھوں پہ تھے اور درمیان میں فاصلہ قائم تھا۔آنکھوں میں اجنبیت کی دیوار کھڑی تھی۔مقابل ماتھا سکیڑ کے اسے دیکھتا گیا۔چہرے پہ شناسائی تھی۔
"رومائزہ۔"وہ دھیرے سے نام منہ میں ہی بڑبڑایا۔اسکی گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی رومائزہ کے چہرے پہ پڑ رہی تھیں۔زرد چہرہ روشن ہورہا تھا۔قریب ہی اسکی گاڑی کھڑی تھی۔
رومائزہ نے اسے پہچاننے کی کوشش کی۔ذہن پہ زور ڈالا تھا کہ چکراتے سر کے ساتھ اسکے ہاتھوں میں جھول گئی۔وہ گڑبڑا گیا۔اسے لے کر زمین پہ بیٹھا۔اسکا سر اپنے گھٹنے پہ رکھا اور چہرہ تھپکا۔
"رومائزہ آنکھیں کھولو کیا ہوا ہے تمھیں۔"اسکے چہرے پہ فکرمندی کے تاثرات ابھر گئے۔روما کی آنکھیں بند تھیں۔اس نے وقت ضائع نہیں کیا اسے اٹھا کہ گاڑی میں بٹھایا۔
سیٹ بیلٹ باندھی۔اگنیشن میں چابی گھمائی گاڑی اسٹارٹ ہوگئی تھی۔اس نے گاڑی گھر کی جانب دوڑا دی۔
چوکیدار نے اسکے لیے دروازہ کھولا۔گاڑی اس نے باہر ہی چھوڑ دی۔رومائزہ کو اٹھاتا اندر بڑھ گیا۔
اس نے لاؤنچ میں لاکر اسے صوفے پہ لٹا دیا۔کمرے کی لائٹس کھولیں۔وہ کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی۔جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کے اس نے رومائزہ کے چہرے پہ چھڑکنا شروع کیا۔
آہستہ آہستہ رومائزہ کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں۔پر بے تاثر تھیں۔نا ہی جسم نے کوئی حرکت کی نا ہی اس کی نظروں میں جنبش ہوئی۔وہ یک ٹک چھت کو دیکھ رہی تھی۔
"رومائزہ آر یو اوکے؟"وہ اسکے پاس گھٹنے کے بل بیٹھے پوچھنے لگا۔روما نے پلکوں کی باڑ جھکا لی۔آنسو کے قطرے آنکھوں سے نکل کے بالوں میں جذب ہونے لگے۔اس شخص کو تشویش ہوئی۔اس نے اسکی بکھری حالت کا جائزہ لیا۔وہ پریشان ہوا۔جیب سے پھر موبائل نکال کے اس نے کسی کو کال ملائی۔
      رات ساڑھے دس کا وقت تھا۔انوش کمرے میں نیم اندھیرا کیے بیٹھی تھی۔لیپ ٹاپ ٹانگوں پہ رکھے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگایا ہوا تھا۔ہاتھ میں لیس کا پیکٹ تھا اور بائیں ہاتھ کی انگلی لیپ ٹاپ پہ وقفے وقفے سے چلتی۔اسکی تمام تر توجہ اسکرین پہ تھی۔منہ میں چپس ڈالی تھی کہ موبائل بج پڑا۔گھنٹی کی آواز سے خلل ہوا اس نے منہ بگاڑ کے بیڈ پہ پڑا موبائل اٹھایا اور کان سے لگا لیا۔یہ دیکھے بنا کہ اسکرین پہ کس کا نام چمک رہا ہے اور کال میسینجر پہ آرہی تھی نا کہ نمبر پہ۔
اکثر عائشے اسے اس وقت فون کرلیا کرتی تھی۔
"ہیلو..."اس نے پھر منہ میں چپس بھری۔
"انوش...میں سفیر بات کر رہا ہوں۔"دوسری پار سے مردانہ آواز گونجی۔وہ چونک اٹھی۔
"کون سفیر؟"وہ سیدھی ہوکے بیٹھی۔وہ صوفے کے گرد چکر کاٹ رہا تھا۔
"سفیر احمد۔"اس نے ماتھا رگڑا اور کرختگی سے جما جما کر کہا۔انوش جگہ پہ سے اچھل پڑی۔اسکے کھلکھلانے کی آواز مقابل نے بھی سنی تھی۔ماتھے پہ بل پڑ گئے۔
"مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے کیا تم گھر آسکتی ہو؟"
"آپ پاکستان آئے ہیں؟"اس نے حیرانی سے پوچھا۔انوش نے لیپ ٹاپ بند کردیا اور بیڈ سے اترنے لگی۔پریشانی میں سفیر سے بات ہو بھی نہیں پارہی تھی۔
"ہاں..میں ایڈریس بھیج رہا ہوں۔"
"پر میں ایسے کیسے گھر آجاؤں۔بات کیا ہے؟"سفیر نے فون دوسرے کان پہ لگایا۔چہرہ موڑ کے رومائزہ کو دیکھا جو غنودگی میں تھی۔
"رومائزہ کی حالت بہت خراب ہے میں اکیلے اسے ہینڈل نہیں کرسکتا۔ایک کام کرو تم کسی فیملی ممبر کے ساتھ آجاؤ۔تمھاری دوست عائشے بھی تو ہے اسے لے آؤ۔"انوش کے پیر اسکی بات سن کر جم گئے۔
"روما واپس آگئی؟کیا ہوا ہے سفیر اسے؟اور شنواری انکل کہاں ہیں؟"
"مجھے وہ سڑک پہ سے ملی ہے،اور چاچو کا کچھ دن پہلے ہی انتقال ہوگیا۔اب تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔وہ بہت ڈسٹرب سی لگ رہی ہے اسے کسی اپنے کی ضرورت ہے۔تم پلیز آجاؤ۔"وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا انوش کو اپنی سماعت پہ یقین نہیں آیا۔انکل اب نہیں رہے تھے؟اور رومائزہ کا سڑک سے ملنا!معاملہ سنگین تھا۔گڑبڑ ہی گڑبڑ محسوس ہوئی۔
وہ بوکھلا گئی۔
"اا آپ مجھے ایڈریس بھیج دیں میں آتی ہوں۔"اس نے کپکپی لیتے کہا۔سفیر نے لائن کاٹ دی۔انوش حواس باختہ اپنے کمرے سے نکل کے سیڑھیاں اتر کے نیچے بھاگی۔
"ممی مجھے اپنی دوست کے گھر جانا ہے۔"دروازہ کھول کے وہ ناہید کے کمرے میں داخل ہوئی۔
"بیٹا وقت دیکھا ہے!"
"ممی اسکی حالت بہت خراب ہے۔میں رومائزہ کی بات کر رہی ہوں۔اسکے بابا کا انتقال ہوگیا ہے۔"وہ ہڑبڑائی ہوئی تھی۔چڑھتی سانسوں کو مدھم کرتے کہا۔ناہید حیرت و افسوس کرتے اٹھ کے بیٹھیں۔رومائزہ اور انوش کی دوستی کا انہیں بھی معلوم تھا اسکول کے زمانے سے ان دونوں کی گہری دوستی تھی۔دو تین بار وہ احتشام شنواری سے بھی ملی تھیں۔
"بیٹا اکیلے کیسے بھیج دوں تمھارے ڈیڈ گھر پہ نہیں ہیں۔"
"تو آپ چلیں،اور میں عائشے کو بھی ساتھ لے کر جاؤنگی۔"وہ دروازے کے پاس کھڑی ہی گفتگو کر رہی تھی۔ناہید نے اسے دیکھا اور انوش نے انکا پلاسٹر میں چھپا پیر۔
"اچھا تم چلی جاؤ،ڈرائیور کے ساتھ جانا۔اور میری طرف سے بھی تعزیت کرلینا۔میرا پیر ٹھیک ہوگا تو میں اس بچی سے خود ملنے جاؤنگی۔اللہ اسے صبر دے،اللہ نے کتنی آزمائشیں رکھی ہیں اسکے لیے،بچپن میں ماں گزر گئی اور جوانی میں باپ۔"وہ افسوس سے کہہ رہی تھیں انوش نے سر ہلایا اور واپس اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔
          عائشے نیمل کے ساتھ واک پہ گئی تھی واپس آئے ہوئے بھی گھنٹے گزر گئے تھے۔پر ٹانگوں میں درد شدید ہورہا تھا۔وہ پیروں پہ بام لگا رہی تھی تبھی انوش کی کال آئی۔عائشے نے کال ریسیو کرکے فون کان سے لگایا۔
"جتنا مراد مجھے پورے دن کالز نہیں کرتے اس سے زیادہ تم کرلیتی ہو۔"فون کان سے لگاتے عائشے نے سر جھٹکتے کہا۔
"عائشے روما آگئی ہے اور اسکی حالت بہت خراب ہے اور پتا ہے احتشام انکل کا انتقال ہوگیا ہے۔مجھے ابھی سفیر نے بتایا وہ پاکستان آئے ہوئے روما انھی کے گھر پہ ہے۔"اسکی بات سن کے عائشے بیٹھے سے کھڑی ہوگئی۔
"دیکھا میں کہہ رہی تھی کچھ تو برا ہورہا ہے روما ٹھیک نہیں ہے پر تم مان کے نہیں دے رہی تھیں۔"
"اب ان باتوں کو چھوڑو تم ریڈی رہو میں تمھیں لینے آرہی ہوں۔"انوش نے اپنا اسکارف اٹھا کے گلے میں ڈالا۔بلو جینس پہ اس نے گھٹنوں سے اونچی نارنجی شرٹ پہن رکھی تھی۔پیروں میں سلیپر اڑس کے بیگ اٹھائے وہ کمرے سے نکل گئی۔
"ہاں ٹھیک ہے پر میں یہاں کیا بولوں؟گیارہ بجنے والے اس وقت گھر سے نکلنا مناسب نہیں۔"
"یار تم مراد بھائی سے بات کرو۔یا انھی کے ساتھ آجاؤ۔"
"ٹھہرو میں دیکھتی ہوں۔"
"میں آرہی ہوں۔"وہ تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی۔عائشے نے فون رکھ دیا۔پھر مراد کو کالز ملائیں اسکا نمبر بزی جا رہا تھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔کمرے سے نکل کے وہ زرپاش کے پاس چلی آئی جو آرام کی غرض سے کمرے میں جا چکی تھیں۔اسے رات میں کمرے میں آتا دیکھ تعجب ہوا۔
"مام ایک مسئلہ ہوگیا ہے۔میری دوست رومائزہ اسکی طبیعت بہت خراب ہے۔اسکے والد کا انتقال ہوگیا ہے وہ بلکل اکیلی ہے۔مجھے اس کے پاس جانا ہے۔اور مراد کال نہیں اٹھا رہے۔"وہ بے چارگی سے بولی۔زرپاش نے کچھ سوچا.
"انوش مجھے لینے آرہی ہے،کیا میں چلی جاؤں؟"اس نے ہچکچاپٹ سے پوچھا۔
"تمھاری دوست کو اس وقت تمھاری ضرورت ہے چلی جاؤ۔کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دینا۔مراد آئے گا تو میں اسے بھیج دونگی۔"زرپاش کا سنجیدگی اور افسوس کا ملا جلا تاثر تھا۔عائشے سر ہلا کے انکا شکریہ ادا کرتی کمرے سے باہر آگئی۔
                          ★ ★ ★
گاڑی کسی انجان ایڈریس پہ رکی تھی۔وہ دونوں اتریں۔راستے میں ہی سفیر نے انکو ویڈیو کال کی تھی۔رومائزہ کے پاس پہنچنے کے لیے دونوں مزید بے تاب ہوگئیں۔چوکیدار سے انوش نے ایڈریس پوچھا۔جب وہ مطمئن ہوگئی تو اندر بڑھ گئی۔یہ چھوٹا سا بنگلہ تھا۔دو پورشن پہ مشتمل،بیرونی حصے پہ چھوٹا سا لان تھا پھر اندر کی عمارت۔راہداری عبور کرتی وہ اندر چلی گئیں۔دل تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا۔لاؤنچ میں قدم رکھا سفیر سنگل صوفے پہ سر ہاتھوں میں دیے ہوئے بیٹھا نظر آیا،اور دوسرے صوفے پہ رومائزہ تھی۔انوش دوڑ کے اسکے پاس گئی۔سفیر نے سر اٹھایا۔عائشے مرے مرے قدم لیتی اسکی جانب بڑھ رہی تھی۔
"روما میری جان یہ کیا حالت کر رکھی ہے اٹھو نا۔"انوش اسکے ساکن پڑے وجود کو دیکھ کر رونے کو آئی۔اسکے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔آنسوؤں کے خشک ہونے سے لمبی قطار کے نشان موجود تھے۔عائشے نے گلاس اٹھا کے اسکے چہرے پہ پانی ڈالا۔سفیر صوفے سے اٹھ گیا تھا۔
"اسکو ہاسپٹل لے چلیں۔"عائشے نے پانی چھڑکتے متفکر انداز سے کہا۔انوش نے اسکے چہرے پہ سے بال پیچھے کیے اسکا ہاتھ سہلانے لگی۔روما نے آنکھیں کھول لیں۔قریب ہی اسکو جانی پہچانی آوازیں سنائی دیں تو آنکھوں کو حرکت دی۔انوش اور عائشے کے متفکر چہرے دکھائی دیے۔
"عائشے..."زیرِ لب اس نے پکارا،نقاہت بہت تھی اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔انوش نے اسے سہارا دے کر بیٹھنے میں مدد کی۔گہری گہری سانسیں لینے کے بعد وہ ہوش کی دنیا میں آئی تھی۔عائشے نے اسے پانی پلایا۔سفیر ٹیبل کھینچ کے اسکے سامنے آن بیٹھا۔
"سفیر بھائی آا آپ کب آئے؟"اس نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا۔جسم بے جان ہورہا تھا۔
"کچھ دن پہلے ہی آیا ہوں تم بتاؤ تمھاری حالت کیسے ہوئی؟"
"روما تم تو کشمیر گئی تھیں نا۔دیکھو سچ بتاؤ تم کہاں تھیں؟کیا ہوا ہے تمھارے ساتھ۔"عائشے نے اسکے ہاتھ تھام لیے۔عائشے کے سوال پہ اسکی جان نکلی تھی۔پر اب وہ مزید کچھ دل میں نہیں رکھ سکتی تھی۔اس نے چہرے پہ جھولتی لٹیں پیچھے کیں بھیگے لبوں پہ ہاتھ پھیرا۔
اور پھر شروع سے لے کر آخر تک ساری روادار سنادی۔
بابا کاقرض،زولفقار کی انا،اسکا اغوا ہونا،میران سے ملنا،اسکی محبت،اور پھر ایک مرد کی انا کو ٹھیس پہنچا کر اسکا عتاب!لاؤنچ میں سناٹا چھاگیا۔وہ تینوں نفوس جگہ پہ منجمد رہ گئے۔دل کٹ کے رہ گیا تھا۔مانو حلق کو آیا تھا۔
اور وہ ایسے باتیں کر رہی تھی جیسے شنواری صاحب زندہ ہوں اس نے انکی موت قبول ہی نہیں کی تھی۔
"میری گاڑی پل پہ بند ہوگئی تھی میں اسی کو اسٹارٹ کرنے کی کوششیں کر رہا تھا تب ایک لڑکی کو دیکھا۔مجھے نہیں پتا تھا وہ یہی ہوگی۔آگے دیوار ٹوٹی ہوئی تھی اور یہ چلے جا رہی تھی۔مجھے تو ہوش میں نہیں لگی اسی لیے گاڑی سے اتر کے اسے دیکھنے لگا۔اور اگر میں وقت پہ آگے بڑھ کے نہ اسے تھامتا تو یہ گرجاتی۔"سفیر نے اسے یہاں لانے سے پہلے کی کہانی صدمے کی سی کیفیت میں سنائی۔رومائزہ نے انھیں بتایا تھا وہ کالونی گئی تھی۔
"یہ سارے سیاستدان ایسے ہی برے ہوتے ہیں۔انکے پاس دل تو ہوتا ہی نہیں۔دوسروں کی زندگی سے کھیلنا انکا پسندیدہ مشغلہ ہے۔بھلا کبھی سوچا کہ میران جاہ ایسا کر سکتا ہے!ہم بے وقوفوں کی طرح رول ماڈل سمجھتے رہے اسے۔"انوش نے ہی بمشکل تنفر سے کہا۔باقی عائشے اور سفیر تو گنگ صدمے میں تھے۔
"مجھے تو اس پہ یقین کرنے کی سزا مل رہی ہے انوش۔میں اسے کبھی معاف نہیں کرونگی۔اللہ اس سے حساب ضرور لے گا۔"کہتے ہوئے وہ کھانسنے لگی۔بہت تکلیف سے گزر رہی تھی وہ۔ان تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اسے کیسے بتاتے کہ احتشام انکل اب انکے درمیان نہیں رہے تھے۔
"سفیر بھائی بابا کو بلائیں،وہ مجھے چھوڑ کے نہیں جاسکتے وہ لوگ جھوٹ بول رہے تھے۔سب میران کے ساتھ ملے ہیں۔"وہ بچوں کی طرح بولی۔سفیر میز پہ مزید سمٹ گیا۔
"رومائزہ چاچو اب نہیں رہے۔دس دن پہلے ہی انکا انتقال ہوا ہے۔"اس نے ہمت کرکے آگے بڑھ کے بتا دیا۔
"ننن نہیں وہ نہیں مرسکتے،وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔سفیر بھائی بابا کو بلائیں پلیز۔"وہ بپھر گئی۔اسکے چیخنے پہ عائشے نے اسے سینے سے لگالیا۔وہ ہاتھ چلاتی ہوئی رونے لگی۔سفیر نے اسکے شانے تھامے۔
"رومائزہ میں انکے جنازے کے وقت تھا۔تم میری بات کا یقین نہیں کروگی کیا؟اللہ کی یہی مرضی تھی۔اسے قبول کرلو۔"
    رومائزہ نے خالی نگاہوں سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔اسکے سینے پہ ہاتھ رکھ کے وہ خوب ہچکیوں سے رونے لگی پھر ماتھا انھی ہاتھوں پہ ٹکا دیا۔انوش اور عائشے کی آنکھوں میں بھی پانی تھا۔سفیر نے اسے خود سے لگا کے تسلی دی۔تسلی لفظ ہی اسکے لیے چھوٹا تھا۔اس پہ تو آسمان ٹوٹ گرا تھا۔رومائزہ نے چہرہ اٹھایا۔اسکا سر چکرایا سانس اکھڑنے لگی۔سر میں درد کی ٹھیس سی اٹھی اس نے آنکھیں میچ کے کنپٹی پہ ہاتھ رکھا۔وہ تینوں اسکی حرکت دیکھ ہی رہے تھے کہ وہ سامنے دیوار پہ لگی سینری کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ چکراتے سر کے ساتھ سیدھی پیچھے صوفے پہ جا گری۔
     انوش چیخ کر اس پہ جھکی۔سفیر نے آگے بڑھ کے اسے اٹھایا اور باہر کی طرف دوڑا۔اب وہ مزید اسکی حالت کو لے کر رسک نہیں لے سکتا تھا وہ بار بار بے ہوش ہورہی تھی یقیناً کوئی تو وجہ تھی۔
    وہ لوگ اب ہاسپٹل جارہے تھے۔انوش نے ڈرائیور کو ساتھ آنے کا ہی کہا وہ اپنی گاڑی انکے پیچھے رکھے ہوئے تھا۔سفیر نے فل اسپیڈ میں گاڑی سڑک پہ دوڑائی ہوئی تھی۔
"اگر اسے کچھ ہوا نا میں میران اور اسکے باپ کو نہیں چھوڑونگی۔یہ سب انھی کی وجہ سے ہورہا ہے۔کاش وہ ہماری روما کی زندگی میں کبھی آتا ہی نہیں۔اسکی بہار جیسی دنیا اجاڑ کے رکھ دی ہے۔"
عائشے اسکا سر گود میں رکھے بول رہی تھی۔اور مسلسل اسکے ہاتھوں کو سہلا کے گرمائش پہنچا رہی تھی۔انوش فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی پیچھے کی طرف مڑی ہوئی تھی۔
"میری سمجھ نہیں آرہا کہ چاچو نے یہ سب کیسے چھپا لیا۔کب سے قرض دار تھے اتنے مشکل حالات آگئے پر ہمیں کسی بات تک کی اطلاع نہ کی۔ایسی بھی کیا ناراضگی!"سفیر تو سب جاننے کے بعد حالات قبول نہیں کر پایا تھا۔اسے تو سب ہی قصوروار محسوس ہورہے تھے۔زیادتی تو بس اس معصوم کے ساتھ ہوئی جو ہوش سے بیگانہ بے جان پیچھے گاڑی میں لیٹی تھی۔
                             ★ ★ ★
وہ آئی سی یو میں زیر علاج تھی۔وہ تینوں راہداری میں بچھی بینچز پہ بیٹھے ڈاکٹر کے باہر آنے کے منتظر تھے۔انوش گھٹنوں پہ کہنیاں جمائے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھی،ہاتھوں پہ چہرہ ٹکایا ہوا تھا دل ہی دل میں اس کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی۔نرس انجیکشن لینے کے لیے باہر نکلی۔سفیر فوراً کھڑا ہوا۔
"پیشنٹ کو ہوش آیا کیا؟کیا ہوا ہے اسے؟"
"مسٹر وہ کافی اسٹریس میں ہیں۔یہی وجہ ہے انکا زہن سہی طرح کام نہیں کر رہا۔آپ لوگ دعا کریں باقی اللہ بہتر کرے گا۔"
نرس عاجزی سے بتا کر نکل گئی وہ واپس جگہ پہ بیٹھ گیا۔
انوش کی نگاہیں سفیر کے چہرے پہ تھیں۔اس بندے سے رومائزہ کے ذریعے ہی اسکا رابطہ ہوا تھا۔وہ سڈنی کا رہائشی تھا۔احتشام انکل اور اسکی فیملی کے معاملات بہتر نہیں تھے پر سفیر اور رومائزہ ایک دوسرے کے کانٹیکٹ میں تھے۔اور یہ بات شنواری صاحب کے علم میں بھی تھی۔رومائزہ اور سفیر کی اچھی دوستی تھی۔سفیر اسکے بھائیوں کی طرح تھا۔کافی سال پہلے ہی میسینجر پہ ہی وہ اسے ملا تھا۔اکثر وہ یونی میں ہوتی تھی تو اسے ویڈیو کال کیا کرتی تھی۔اسی طرح وہ عائشے اور انوش کو بھی جان گیا تھا۔انوش سے ایک دو بار اسکی پرسنل اکاؤنٹ پہ بات چیت بھی ہوئی تھی۔یہی وجہ تھی جو اس نے اسے میسینجر کی مدد سے باآسانی کانٹیکٹ کر لیا تھا۔
   سفیر نے سر اٹھا کے اسے دیکھا۔انوش افسردہ دکھائی دی۔وہ تو مرد تھا خود پہ قابو کیے ہوئے تھا پر وہ دونوں تو اسکے مقابلے جذبات دکھانے میں کمزور تھیں۔عائشے جگہ سے اٹھی اس نے مراد کو کال ملائی تھی۔اسکا دل بیٹھے جا رہا تھا۔دوسری گھنٹی پہ ہی مراد نے کال اٹھا لی۔
"عائشے کہاں ہو تم؟"
وہ شاید ابھی گھر آیا تھا اور زرپاش سے ملا نہیں تھا جو اسے بتا سکتیں کہ عائشے دوست کے ہاں گئی ہے۔جب فری ہوکے اس نے عائشے کی کالز دیکھیں تو اسے کال بیک کی پر وہ اٹھا نہیں رہی تھی۔
اسکا موبائل سائیلنٹ بیگ میں پڑا تھا۔
"مراد میں سٹی ہاسپٹل (فرضی نام) میں ہوں۔میری دوست کی کنڈیشن بہت خراب ہے۔آپ یہاں آجائیں مجھے آپکی ضرورت ہے۔"وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔مراد پریشان ہوگیا۔
"اچھا رکو بس میں آتا ہوں۔پریشان مت ہونا۔"اس نے فون رکھ دیا۔وہ آنسو پوچھتی واپس بیٹھ گئی۔
دس پندرہ منٹ بعد وہ وہاں حاضر تھا۔اسے دیکھتے ہی عائشے اس سے لگ کے رونے لگی۔انوش نے سرد آہ بھری۔
"شادی شدہ ہونے کا فائدہ تو ہے کہ میاں کے کندھے پہ سر رکھ کے رو لو۔ادھر تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔"اتنے نازک حالات میں بھی انوش کی زبان بے اختیار پھسل گئی۔سفیر اسکے برابر میں ہی کھڑا تھا۔چونک کے اسے دیکھا۔اسکے دیکھنے پہ وہ سٹپٹا گئی اور نفی میں سر ہلانے لگی۔
"مراد اسے کچھ ہوگا تو نہیں؟وہ میری سب سے اچھی دوست ہے میں اسے بلکل کھونا نہیں چاہتی۔"مراد نے اسے شانوں سے تھام لیا۔سفیر اور انوش ان دونوں کی طرف آگے بڑھے۔اس نے سفیر کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔انوش اسکا تعارف کرانے لگی۔
"یہ سفیر ہیں۔رومائزہ کے فرسٹ کزن۔اور یہ اے ایس پی مراد دمیر جو کہ عائشے کے ہسبنڈ بھی ہیں۔"اب وہ سوچ میں پڑ گئی کہ مراد کو رومائزہ کے بارے میں مزید بتائے کہ نہیں۔اسکے ساتھ جو حادثہ ہوا اسکی خبر کرنی چاہیے تھی کہ نہیں۔ابھی تو اس نے سوچ ترک کردی رومائزہ کی ٹینشن سر پہ سوار تھی۔
"عائشے چپ ہوجاؤ رو رو کہ خود کو ہلکان مت کرو۔اللہ سے دعا کرو وہ اسے صحت دے گا۔"مراد نے عائشے کا سر کندھے سے ہٹا کر اسے سیدھا کھڑا کیا۔
"اسے ہوا کیا ہے؟"وہ سفیر سے مخاطب ہوا۔
"یہ تو ڈاکٹرز ہی بتائیں گے۔اسٹریس کی وجہ سے دماغ سہی طرح کام نہیں کر رہا۔اس کے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور یہ خبر بھی اسے اب پتا چلی اسکے بعد سے ہی وہ ہوش میں نہیں آرہی۔"سفیر متفکر سا جیبوں میں ہاتھ ڈالے کہہ رہا تھا۔
"انکے انتقال کے وقت وہ ساتھ نہیں تھی کیا؟"
مراد کے ماتھے پہ شکنیں ابھر آئیں۔سفیر کے بولنے سے پہلے ہی عائشے بول اٹھی۔
"وہ کشمیر گئی ہوئی تھی،اس سے کانٹیکٹ نہیں تھا وہ آ بھی نہ سکی۔ہمیں بھی انکل کے بارے میں اب پتا چلا ہے۔انکل بہت اچھے تھے۔روما سے بہت پیار کرتے تھے۔انکی شیرنی تھی وہ۔"
بات کو سنبھالتے ہوئے عائشے نے بتایا۔مراد مطمئن نہیں ہوا تھا۔پر مزید سوال جواب کرنے کا یہ سہی وقت نہیں لگا۔عائشے کی سنائی کہانی بڑی کمزور تھی۔وہ پولیس والا نا ہوتا تو شاید یقین کر بھی لیتا۔
آئی سی یو کی جلتی بتّی بجھ گئی۔وہ چاروں دروازے کی طرف مڑے۔ڈاکٹر باہر نکل آیا چہرے سے ماسک ہٹایا۔
"شدید اسٹریس ہونے کی وجہ سے پیشنٹ کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے۔انھیں کسی چیز سے الرجی بھی ہے یہی وجہ ہے کہ انھیں سانس لینے میں دشواری ہورہی۔دل کی دھڑکن بہت کم ہے۔"وہ پروفیشنل انداز میں گویا تھے۔انوش نے انکی بات کاٹی۔
"اسے ڈسٹ الرجی ہے۔سانس لینے میں مسئلہ ہوجاتا ہے اور فلو وغیرہ بھی ہوتا ہے۔"
"ڈاکٹر وہ ٹھیک تو ہوجائے گی نا؟"عائشے نے بڑی امید سے پوچھا۔
"انھیں باقاعدہ ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے وہ ملے گی تو ٹھیک ہوجائینگی۔ذہنی سکون دینا ہوگا ایسی کوئی بات نا کی جائے جس سے وہ ڈسٹرب ہوں۔"وہ اپنا اسٹیتھو اسکوپ ہلا رہے تھے۔
"ہوش کب تک آئیگا؟کیا ہم مل سکتے ہیں؟"
سفیر نے سینے پہ ہاتھ پلیٹ کر پوچھا۔
"ذہنی دباؤ سے انکی حالات خراب ہوئی ہے۔انھیں پرسکون رکھنے کیلئے انجیکشن لگا دیے گئے ہیں۔جب تک انکا اثر رہے گا وہ ہوش میں نہیں آئینگی۔اس طرح ذہن بھی پرسکون ہوگا۔اور معذرت ابھی آپ ان سے نہیں مل سکتے۔"
"پریشان مت ہوں علاج ہوگا تو وہ ٹھیک ہوجائینگی۔"ڈاکٹر صاحب سفیر کی پیٹھ تھپتھپکا کے اپنا فرض پورا کرکے نکل گئے۔
                          ★ ★ ★
       میران رات کو بنگلے لوٹا تھا۔زولفقار جاہ اس کے انتظار میں جاگتے رہے۔وہ اپنے بیٹے کی حالت سے بخوبی واقف تھے اور فکر مند بھی تھے۔وہ سیڑھیاں چڑھ کے اوپر جارہا تھا۔پیچھے سے انکے مخاطب کرنے پہ رک سا گیا۔
"کب تک چلے گا چھوٹے جاہ یہ سب؟میں تمھیں اب مزید تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔تم پہ کئی ذمہ داریاں عائد ہیں انکی فکر کرو،چھوڑ دو اس محبت کو اس میں کچھ نہیں رکھا۔"
وہ مہرون نائٹ گاؤن میں سیڑھی کا پلر تھامے کھڑے تھے۔میران پلٹ کے نیچے اترا۔
"اوہہہ،محبت کی بات کون کر رہا ہے جس نے گل کی محبت میں کبھی کسی کو شریک نہیں کیا۔آپ محبت کے بارے میں اچھے سے جانتے ہیں یہ چھوڑی نہیں جاتی۔میں بھی نہیں چھوڑ سکتا۔جب تک سانسوں کی ڈور چل رہی ہے میری محبت بھی مجھ میں سرائیت کرتی رہے گی جس دن ڈور کٹی اس دن محبت آزاد۔"اس نے دو انگلیوں کو اڑا کے کہا۔
"اور میں اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہوں کسی چیز سے منہ نہیں پھیرنے والا۔کیا اتنا کمزور سمجھ رکھا ہے میران کو!"وہ طنزیہ گویا ہوا۔زولفقار سر جھٹک کے رہ گئے۔
اسکے تن میں آگ سی لگی تھی۔بس وہ خود پہ قابو کیا ہوا تھا۔آنکھوں کے گوشے سرخ ہورہے تھے۔
"تم اکیلے آئے ہو عزیز نہیں آیا کیا؟"زولفقار نے ویسے ہی سوال کرلیا تھا جیسے بات کا رخ بدل رہے ہوں۔
"نکال دیا اسے۔"وہ سنجیدگی سے بولا۔زولفقار نے حیرت سے اسکے چہرے کو دیکھا۔
"وہ تمھارا سب سے قریبی آدمی ہے۔"
"آپ بھی ایسا چاہتے تھے۔کھٹکتا ہی تھا وہ آپکو بھی۔"وہ بلا طاق بولا۔
"اس کے ہونے سے مجھے اطمینان رہتا ہے۔تم سے وہ وفادار ہے۔کیوں نکالا اسے؟"انھوں نے کڑے تیور لیے پوچھا۔میران نے مٹھی بھینچ لی۔
"وہ میرے اور رومائزہ کے معاملے کے بیچ میں آیا۔اس نے مجھے فیصلے سے روکا نہیں..مسئلہ یہ نہیں!اس نے خود بھی یہی چاہا کہ اسے روک لیا جائے۔اسے اس چیز کا کوئی حق حاصل نہیں۔مجھے اب اسکی ضرورت نہیں۔"
اس نے درشتگی سے کہا۔باپ کی مونچھوں کے تلے لبوں پہ تبسم پھیلی۔
"یہ تمھارا معاملہ ہے۔تمھیں کوئی بھی کام ہو شمس سے کہہ دینا۔پریشان مت ہو سب ٹھیک ہوجائیگا۔"اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر وہ کمرے میں چلے گئے۔میران انکی پشت دیکھتا رہا۔
"سب تو ٹھیک ہوگا ہی۔"اس نے خود کو یہ بات جیسے باور کرائی اور کمرے کی جانب اوپر بڑھ گیا۔شرٹ اتار کے اس نے کرتے سے تبدیل کرنی تھی۔پھر شاور ہی لینے چلا گیا واپس باہر آیا تو وہ کرتا شلوار میں تھا۔گیلے بال ماتھے پہ گرے سے اس نے تولیے سے خشک کرکے تولیہ ایک جانب رکھا اور فون کی طرف بڑھا۔
"سائیں میں اسکے گھر گیا تھا تو معلوم ہوا شنواری نے گھر بیچ دیا۔اور وہ مر چکا ہے۔میڈم آج کالونی گئیں تھیں پر وہاں سے نکل گئیں۔اب معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔وہاں کے لوگوں سے اتنا ہی میں معلوم کرسکا۔"مقابل ایک ہی جست میں کہتا چلا گیا تھا۔میران نے سانس کھینچی۔
"انا للہ وانا الیہ راجعون.."زیرِ لب وہ پیشمانی سے بڑبڑایا۔ماتھے پہ ہاتھ رکھا جو گزرتا ہوا کنپٹی تک آیا تھا۔
"رومائزہ کہاں گئی یہ پتا کرو فوراً۔مجھے ہر حال میں اسکا پتا چاہیے۔"وہ غصے سے دھاڑا۔آخری امید بھی جیسے شنواری صاحب کے مرنے پہ دم توڑ گئی تھی۔اسے معلوم تھا شنواری صاحب ہی اسکی مدد کرسکیں گے رومائزہ کو منانے میں پر اب وہ نہیں رہے تھے۔اور سب کا قصور وار وہ اسے ہی ٹہھراتی۔نفرت کم ہونے کی بجائے بڑھ ہی گئی ہوگی۔
اسے اسکی نفرت کی اتنی پرواہ نہیں تھی اسکی جان کی تھی کہ بس وہ سلامت ہو۔وہ جانتا تھا وہ لڑکی لاپرواہ بھی بہت ہے۔موبائل پھر بجا اس نے کال اٹھائی اور غصے میں مخاطب ہوا۔
"تمھیں کہا تھا اسے گھر تک چھوڑ آنا پھر تم لوگ ایسے کیسے لوٹ کے آگئے!"وہ گارڈز پہ برہم ہوا۔انکی سٹی گم ہوگئی۔
"سائیں وہ چلی گئیں تھیں ہمیں لگا اب نظر رکھنے کی ضرورت نہیں اس لیے ہم آگئے۔"مقابل نے وضاحت دینی چاہی۔
"تم لوگوں کو لگتا بہت ہے۔اگر اسے کچھ ہوا تو میں تم لوگوں کی جان نکال لونگا۔ڈھونڈوں اسے ہر جگہ آخر وہ کہاں جاسکتی ہے۔"اس نے غصے سے دھاڑ کے فون بند کردیا۔اسکا شہر میں اور کوئی نہیں تھا جدھر وہ چلی جاتی۔
تقریباً ایک گھنٹہ اس نے انتظار کیا تھا۔وہ بے تابی سے کمرے کے چکر کاٹ رہا تھا۔آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔بے چینی سے وہ پاگل ہورہا تھا۔بالوں میں ہاتھ چلا کے اس نے بال ماتھے سے پیچھے کیے۔وارڈروب سے اس نے اپنی شال نکال کے شانوں پہ ڈالی۔پیروں میں چپل ڈال کے موبائل اور والٹ لیتا کمرے سے باہر نکل گیا۔سیڑھیاں اتر رہا تھا اس کا موبائل پھر بجا۔
"ہاں کہو کچھ معلوم ہوا میڈم کا؟"فون کان سے لگاتے ہی اس نے بڑھتی دھڑکنوں سے سوال کیا۔
"سائیں میں نے تمام دارالامان اور ہسپتالوں میں پتا کیا ہے۔"ہسپتال سن کے میران کا ماتھا ٹھٹکا۔بھنویں سمٹ کے پیشانی کی درمیان میں آگئیں،حلق میں کانٹے ابھر آئے۔
"اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ رومائزہ احتشام شنواری کے نام سے ایک لڑکی کچھ گھنٹوں پہلے ہی اسپتال منتقل کی گئی ہے۔جسکی حالت تشویشناک ہے۔"
مقابل نے بتاتے ہوئے لب تر کیے۔میران جو سیڑھیوں سے اتر رہا تھا اسکے قدم ڈگمگائے....وہ خود کو سنبھال نہیں سکا۔
"کون سا ہسپتال ہے؟"اس نے فون پہ گرفت بڑھا دی۔دوسری پار سے ہسپتال کا نام سماعت سے ٹکرایا۔وہ فون رکھ کے باہر آگیا۔اسکی جان خشک ہونے لگی۔وہ کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا جتنا یہ جان کہ ہوا کہ رومائزہ نامی لڑکی ہسپتال میں موجود ہے۔اسے سو فیصد یقین تھا وہ اسکی ہی رومائزہ ہے۔
باہر آیا تو عبدل نے گاڑی تیار کر رکھی تھی۔
"چلیں سائیں۔"اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو میران فوراً بیٹھ گیا۔
پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ ہسپتال پہنچ گیا تھا۔بھیس بدلنے کے لیے اس نے اپنی گاڑی میں رکھی پشاوری ٹوپی اور آنکھوں پہ گلاسز چڑھا لیے تھے۔رات کا تیسرا پہر تھا۔وہ ریسپشن پہ پہنچا،ریسیپشنسٹ لیڈی کو مخاطب کیا اس نے سر اٹھایا تو بغور اسے دیکھنے لگی۔اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔میران نے مشکل آسان کرتے آنکھوں سے اپنا چشمہ اتار دیا۔گراؤنڈ فلور کا یہ ہال تھا۔لوگوں کی چہل قدمی بھی کم تھی۔
میران کو دیکھتے ہی وہ لیڈی جگہ سے کھڑی ہوگئی ابھی اسکا نام لیتی میران نے اسے ٹوک دیا۔
"رومائزہ شنواری کس روم میں ایڈمٹ ہیں؟"چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔اٹھی ہوئی ناک،کشادہ پیشانی بے داغ چہرہ جہاں زمانوں کی سختی تھی۔
"وہ ابھی آئی سی یو میں ہیں."
"اور؟"اس نے لفظ پہ زور دیا تو لیڈی نے گلا تر کیا۔
"آپ انکے ریلیٹوو ہیں؟کسی غیر کو انفارمیشن دینا پالیسی کے خلاف ہے۔"ریسیپشنسٹ کو اچھنبا ہوا۔میران کی جانب سے خاموشی تھی۔
"ان کے ساتھ اور کون کون موجود ہے؟"اس نے کہنی ریسیپشن کی باؤنڈری پہ رکھ کے بات جاری رکھی۔لیڈی کا سوال سرے سے نظر انداز ہی کیا تھا۔
"فیملی ممبرز ہیں۔دوستیں اور انکے کزن۔وہی انھیں لے کر آئے۔سفیر احمد۔"میران کو دیکھتے ہوئے ہار مانتے اس نے ساری معلومات دے دی،اسے یہ معلومات نرس کے ذریعے ملی تھی،اسے وہ پیشنٹ کا خیر خواہ ہی لگا تھا جب ہی سب بتا دیا۔ریسیپشنسٹ کو یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ وہ میران جاہ سے مخاطب ہے اس کے پر کیف چہرے پہ سے نگاہیں ہٹانا اسکے لیے دوبھر ہوگیا۔اگر یہ نازک لمحہ نا ہوتا تو وہ اسکے ساتھ ضرور ایک تصویر لیتی۔
     سفیر احمد نام سن کے وہ چونکا۔آخر وہ کون تھا۔پھر میران ریسیپشن پہ تھوڑا جھکا اور اسے کچھ ہدایت کی۔وہ لیڈی سر ہلا کے وہاں سے نکل گئی۔میران نے واپس آنکھوں پہ چشمہ چڑھا لیا رخ موڑ کے کھڑا ہوگیا۔
دس منٹ بعد وہ لیڈی واپس آئی تھی اپنے مخصوص لباس میں ملبوس تھی۔اسکی شخصیت کے سحر میں کھوئی ہوئی۔وہ ٹھہر ٹھہر کے گفتگو کرتا تھا۔مقابل اسکے سحر میں جکڑ جاتا تھا۔
"آپ جاسکتے ہیں۔"
لیڈی نے سر ہلا کے اسے راستہ دیا۔اسکے سائیڈ سے ہوتا وہ نکل گیا۔ہال سے نکل کے کئی وارڈز بنے تھے اور سامنے آئی سی یو تھا۔اس نے راہداری کی جانب قدم بڑھا دیے۔وہاں کوئی ذی النفس موجود نا تھا۔بس ایک ڈاکٹر کھڑا تھا جس نے اسے اندر جانے دیا تھا۔
     آئی سی یو کا دروازہ اندر کی طرف دھکیل کر اس نے بڑھتی دھڑکنوں کے ساتھ اندر قدم رکھا۔سامنے منظر دیکھ اسکی روح فنا ہوئی۔اردگرد مشینوں کی ٹوں ٹوں جاری تھی۔وہ اردگرد سے بے خبر نیند کی وادی میں کھوئی ہوئی تھی۔ہاتھوں سے نلکیاں گزر رہی تھیں۔ناک پہ نیبولایئزر لگا تھا سر پہ پلاسٹک کا ہئیر کیپ تھا۔وہ قدم بڑھاتا اسکے پاس آگیا۔لفظ منہ میں خاک ہوگئے۔کیا حال ہوگیا تھا اس بہادر سی لڑکی کا۔میران اسکے بیڈ کے نزدیک کھڑا تھا۔اس نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔بے ساختہ اسکی آنکھ سے آنسو نکل کے رومائزہ کے سفید لباس پہ گرا۔بے خودی میں اسے کئی پل دیکھے گیا۔سفید رنگ اس پہ خوب کھلتا تھا پر آج میران کو وہ رنگ اس پہ بے حد برا لگ رہا تھا۔اسکا دل سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگا۔رومائزہ کے زرد پڑتے ہونٹوں کو دیکھا جو ہمیشہ لال گلال ہوا کرتے تھے۔
"ٹھیک ہو جاؤ میں خود کو کبھی معاف نہیں کرسکونگا۔مجھے معاف کردینا رومائزہ....ایسا لگ رہا ہے میری سانسیں تنگ ہوگئی ہیں۔"روما کے پاس کھڑے ہوکر اسکے تکیہ کے پاس ہاتھ رکھے اس پر تھوڑا جھک کر کہا۔وہ نیند کی گہرائیوں میں تھی۔اسکو محسوس تک نہیں کرسکتی تھی میران کے چہرے پہ کرب کی ضربیں تھیں۔دل خواہش کر رہا تھا کہ وہ اس سے باتیں کرے پر وہ تو ہر چیز سے بے خبر چت لیٹی تھی۔ہوش میں ہوتی میں تو میران کو اپنے اتنا پاس برداشت بھی کہاں کرتی..وہ محویت سے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے دیکھتا رہا۔
ڈاکٹر یحییٰ اندر داخل ہوا تو اس نے آنسو اندر اتارلیے اور شال درست کرتا پیچھے ہاتھ باندھے کے انکی جانب پلٹا۔
"کیا ہوا ہے اسے؟یہ ہوش میں کیوں نہیں ہے؟"
اسکے چہرے پہ فکر کے تاثرات نمایاں ہوئے۔
"نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے۔ہم نے ٹریٹمنٹ دے دی ہے دوائیوں کے زیرِ اثر ہیں صبح تک ہوش آجائیگا۔ٹریٹمنٹ کے دوران یہ غنودگی میں تھیں مسلسل اپنے بابا کو پکار رہی تھیں۔باپ کی موت کا گہرا صدمہ لگا ہے۔"
ڈاکٹر سفید کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھا۔میران نے سانس لی،ہوا میں اکسیجن کی کمی ہوگئی تھی۔
"اسے ٹھیک کرو،بہتر سے بہتر علاج دینا۔جتنے دن یہاں رکھنا ہے رکھو پر یہ مکمل طور پہ صحت یاب ہونی چاہیے۔"گردن موڑ کے میران نے رومائزہ کا چہرہ دیکھا تھا۔
"سر آپ کا ان سے کیا رشتہ ہے؟"ڈاکٹر اپنی حیرانی نہیں چھپا سکا۔
"اٹس نان آف یور بزنس،جتنا کہا ہے اس پہ عمل کرو۔کسی بھی چیز کی ضرورت ہو اس نمبر پہ مجھ سے کانٹیکٹ کرلینا۔"اس نے رومائزہ کے پیروں کی طرف رکھی ٹیبل پہ سے فائل اٹھائی۔قلم ڈاکٹر کی شرٹ کی جیب سے نکال کے فائل میں سے ایک کاغذ نکال کے نمبر لکھ کر اسے تھما دیا۔
"اور میرے آنے کی خبر کسی کو نہیں ہونی چاہیے!"میران رومائزہ کی طرف پلٹا۔ڈاکٹر کی جانب اسکی پشت تھی۔
"سر یہ ٹھیک ہوجائینگی زیادہ پریشانی کی بات نہیں بس ہر قسم کی ڈسٹربنس سے دور رکھنا ہوگا انھیں۔دل کمزور ہوگیا ہے جگر کم کام کر رہا جسکی وجہ سے خون کی کمی ہورہی ہے۔ہم نے ایک بوتل خون چڑھا دیا ہے۔"ایک ہاتھ پہ دوائیوں کی نلکی لگی تھی اور دوسرے سے خون پہنچایا جا رہا تھا۔
"خون کس نے دیا ہے؟"پیشانی پہ بل سے پڑے۔
"انکے کزن نے،انھی کا بلَڈ میچ ہوا ہے۔"
ڈاکٹر نے سر کھجایا۔میران کا جبڑا بھینچ گیا۔ریسیپشنسٹ لیڈی نے ڈاکٹر کو میران کے آنے کی اطلاع فوراً کردی تھی۔اور میران سے ملاقات کے بعد ڈاکٹر کو اندازہ ہوگیا تھا پیشنٹ میران جاہ کے لیے بہت خاص تھی،ویسے تو ہاسپٹل کا قائدہ تھا کسی غیر کو بنا پہچان کے مریض کی اتنی انفارمیشن نہیں دی جاتی تھی۔پر سامنے وزیر اعلی کا بیٹا کھڑا تھا جسے دیکھ لیڈی سے لے کر ڈاکٹر تک کی زبان فر فر سب کچھ اگلتی گئی تھی،ریسپشنسٹ نے اسکی ہدایت پہ سفیر لوگوں کو راہداری سے اٹھا کے ویٹینگ ائیریا میں بھیج دیا تھا۔
     ڈاکٹر اسے اپنے کیبن میں لے گئے۔وہاں بیٹھ کے اس نے تھوڑی دیر ان سے گفتگو کی۔ڈاکٹر نے چائے مانگا لی تھی۔میران کا درد سے سر پھٹ رہا تھا۔اسے کل ایک ضروری کام سے بھی جانا تھا۔سوچیں زہن پہ سوار تھیں۔اس نے کپ لبوں سے لگالیا۔دروازہ ناک ہوا۔ڈاکٹر نے 'کم ان' کہا تو باہر موجود شخص اندر چلا آیا۔
"ڈاکٹر یحییٰ رومائزہ کو ہوش کب تک آئے گا؟فجر ہونے کو ہے۔"
"مسٹر سفیر آپ پریشان مت ہوں دو تین گھنٹے تک وہ ہوش میں آجائیں گی۔اور آپ لوگ بھی گھر جاسکتے ہیں عملہ ہے انکی دیکھ بھال کرنے کے لیے انھیں جیسے ہی ہوش آئے گا ہم آپ کو انفارم کردیں گے،تب آپ آجائیے گا۔"ڈاکٹر نے اطمینان سے اسکی آسانی کے لیے کہا۔سفیر میران کی پشت پہ کھڑا تھا۔وہ میران کا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا۔ڈاکٹر کی کرسی کے داہنی پشت پہ دیوار میں شیشہ نصب تھا۔چائے کا کپ میران نے ہونٹوں سے لگا رکھا تھا۔شیشے میں اس نوجوان کا عکس دیکھا۔پچیس چھیبس سالہ لڑکا تھا۔خوب شکل و صورت تھی،سیاہ بال تھے اٹھی ہوئی ناک،باریک ہونٹ،فارمل ڈریسنگ،ڈیسنٹ سا بندہ لگا تھا۔میران نے گہری نظروں سے اسکا جائزہ لیا۔
"اسے اکیلا چھوڑ کے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"وہ ڈاکٹر کی جانے کی بات کا سنتے انکار کرتے بولا۔
"کہنے سے مراد یہ کہ ایک دو بندے رک جائیں باقیوں کو بھیج دیں۔بلاوجہ یہاں رش لگانے کا کیا مقصد۔آپ یہیں ٹھہر جائیں۔"ڈاکٹر کی نگاہ میران کی چہرے تک گئی۔ڈاکٹر کی بات سن کے اسکے چہرے پہ ناپسندیدگی کے تاثرات ابھر آئے تھے۔ڈاکٹر صاحب نے بہت کچھ بھانپ لیا تھا وہ میران کے ساتھ اسی لیے کارپوریٹ بھی کر رہے تھے۔
"ٹھیک ہے۔تھینک یو۔"
وہ کہتا پلٹنے لگا۔میران نے کپ ٹیبل پہ رکھا اور کمر کو کرسی سے ہٹا کے آگے ہوا۔سفیر کی اس کی پشت پہ نگاہ گئی اور پھر وہ سر جھٹک کے باہر نکل گیا۔فجر کی اذانوں کی آوازیں کئی مسجدوں سے آنے لگیں۔اسکے دل کو سکون پہنچ رہا تھا۔کافی دیر سے جو بے چینی تھی اس میں افاقہ ہوا اور چائے پی کر میران بھی وہاں سے نکل گیا تھا۔
                          ★ ★ ★
سفیر نے انوش،عائشے اور مراد کو گھر بھیج دیا تھا۔ناہید کو انوش نے ہاسپٹل میں رومائزہ کی کنڈیشن کے بارے میں اطلاع کردی تھی۔فجر کے وقت ہی وہ گھر پہنچی۔بابا دیر رات کو آئے تھے اس نے انکو بھی ساری کہانی سنائی۔رومائزہ کا اغوا ہونا اس بات کا اس نے پردہ ہی رکھا تھا۔
صبح یونیورسٹی جانا تھا۔پر اس نے تو جانے کا ارادہ ترک کرلیا تھا تھوڑی دیر سکون لینے کے لیے کمبل تان کے سو گئی۔
      مراد بیڈ پہ بیٹھا اسے کافی دیر سے دیکھ رہا تھا جو دعائیں مانگتے ہوئے مسلسل رو رہی تھی۔دعا سے فارغ ہوکے اٹھی اس نے جاء نماز تہہ کرکے صوفے پہ رکھ دی۔رونے سے آنکھوں کے پپوٹے سوج گئے تھے۔مراد اٹھ کے اسکے پاس آیا۔دوپٹہ چہرے پہ لپٹا تھا گرہ ڈھیلی ہوگئی تھی۔مراد نے ناٹ ٹھیک کی اور اسے آہستہ سے خود سے لگا لیا۔
"خدا کے لیے اپنی آنکھوں پہ رحم کرلو۔کتنا رو لیتی ہو تھکتی نہیں ہو کیا!"عائشے اس سے لگے کھڑی تھی۔مراد نے اسکے سر پہ بوسا دیا۔
"مراد مجھے ڈر لگ رہا ہے۔وہ بہت تکلیف میں ہے بلکل اکیلی رہ گئی ہے کیسے سب برداشت کرے گی۔"
مراد کے دل کی بڑھتی دھڑکنوں کی گونج وہ سن رہی تھی۔عائشے خود کو مضبوط ظاہر کرتی تھی پر اتنی مضبوط نہیں تھی۔
"وہ اکیلی نہیں ہے ہم سب اسکے ساتھ ہیں۔"مراد نے اسکا چہرہ اٹھایا۔چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔مراد کے کہنے پہ اسے ڈھارس ملی۔
"میں کل بھی اسکے پاس جاؤنگی۔"اس نے نم آنکھوں سے کہا۔
"ہاں چلی جانا۔اب چل کے سو لو۔"وہ جاکے بیڈ پہ لیٹ گیا۔اسے خوشی ہوئی تھی مراد اس مشکل وقت میں اسکے ساتھ تھا۔اسکی دوستی کو سمجھ رہا تھا۔
وہ بھی جاکے بستر پہ لیٹ گئی۔مراد نے اسکی جانب چہرہ کیا کہنی سر کے نیچے رکھ لی۔
"اب مجھے سچ بتاؤ تمھاری دوست کے ساتھ کیا ہوا ہے؟کوئی حادثہ ہوا ہے؟تھیں لگتا ہے میں تمھاری اس بھونڈی سی کہانی پہ یقین کرلونگا تو عائشے یہ خیال دماغ سے نکال دو۔"
اسکے لہجے میں سختی در آئی تھی۔انداز ایسا جیسے کسی ملزم سے پیش آرہا ہو۔عائشے اپنی جگہ پہ سمٹ گئی۔وہ مراد کے اسی سوال سے بچ رہی تھی اسے یقین تھا وہ اس ضرور پوچھے گا۔
"میں نے بتایا تو ہے وہ کشمیر میں تھی آخری وقت میں اپنے بابا کے پاس نہیں تھی نا ہی انکا چہرہ دیکھا....یہ صدمہ ایک اولاد کے لیے کم ہے کیا؟"اس نے مراد کی آنکھوں میں دیکھے یقین سے کہا۔اس بات پہ تو وہ مطمئن تھا لیکن کشمیر والی بات پہ اسے گڑبڑ محسوس ہورہی تھی۔
"تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔باپ کی موت کا صدمہ تو ضرور ہے پر اسکے علاوہ بات کچھ اور بھی ہے۔"
"اے ایس پی صاحب یہی بات ہے۔ہاں بہت عجیب سا سین ہوا ہے پر حقیقت یہی ہے۔"
رومائزہ کی مرضی کے بغیر عائشے کوئی بھی خود سے قدم نہیں اٹھانا چاہ رہی تھی۔اگر مراد کو معلوم پڑ جاتا اتنا عرصہ وہ میران کی حفاظت میں تھی اور پھر میران نے ہی اسے خود روک کرلیا،وہ تو الگ طوفان برپا کردیتا۔ہوئی تو آخر وہ کڈنیپ ہی تھی،حقیقت تھوڑی بدل جانی تھی۔
"ٹھیک ہے مت بتاؤ۔اگر مجھے پتا چلا کچھ تو تم اپنی خیر منا لینا۔"اسے ٹینشن میں ڈال کے وہ کروٹ لے کر لیٹ گیا۔
"لو بھلا اب ناراض ہوگئے ہونگے۔"وہ دل میں بڑبڑائی۔
"کچھ ہوگا تو پتا چلے گا نا۔"کہتے ہوئے اس نے کمبل منہ تک چڑھا لیا۔
                              جاری ہے...
RAMZAN MUBARAK
parh k comment mai review lazmi dena hai..agy story mai kafi turns aany waly hain..
Vote lazmi karein..

Khushkhabar yeh hai k Eid py InShaAllah novel mukammal hojaye ga..Abhi almost 12 episodes baki hain jo Ramzam mai lagatar 2 3 din k waqfy se mai publish krongi ❤️

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now