قسط 8(دلِ گمشدہ)

1K 58 26
                                    

"میری بیوی عائشے ہے اسکے علاوہ میں کسی کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنانا نہیں چاہتا۔مام پلیز آپ میرے لیے مشکل پیدا نا کریں آپ خوش نہیں ہونگی تو ہم دونوں کو بھی خوشی حاصل نہیں ہوگی۔مہمل سے شادی میں پہلے بھی کرنا نہیں چاہتا تھا اور ہزار بار یہ بات بتا بھی چکا ہوں۔وہ خود بھی جانتی ہے میں نے اسے بار بار باور کروایا ہے کہ مجھ سے اس قسم کی کوئی امید نا لگائے۔زبردستی میں کسی کو سر پہ مصلت نہیں کرسکتا۔"آرام سے اپنی سائیڈ کلیئر کرتے ہوئے مراد نے زرپاش کے شانے تھامے اور انکی آنکھوں میں دیکھے بولا۔
     "میں آپکی ہر خواہش کا احترام کرتا ہوں اب آپ میری ایک خواہش تسلیم کرلیں۔"
التجائی لہجے میں کہتا وہ درمیان میں رکھی ٹیبل پہ ٹک گیا۔
"تمھاری اس حرکت نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی ہے۔"
"مام پلیز!"تھکن زدہ آواز میں کہتا واپس کھڑا ہوا زرپاش نے ایک نگاہ عائشے پہ ڈالی جو ہتھیلی مسل رہی تھی۔
"کمرے میں جاؤ بعد میں بات کریں گے۔"عائشے کے لیے انکے لہجے میں کوئی نرمی نہ آئی۔مراد کو کہتیں وہ سرعت سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
"مام میریج چیپٹر ہیس کلوزڈ..."پیچھے سے صدا لگا کے عائشے کو اپنے کمرے کا راستہ دکھاتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
کمرے میں آکے اس نے فوراً ہی یونیفارم شرٹ کے اوپری بٹن کھولے ہاتھ سے گھڑی اتار کے ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھی اور صوفے پہ جا بیٹھا اور جوتوں کے تسمے کھولنے لگا اسی اثناء میں اسکی نظر دروازے کے پاس کھڑی سنگھار حالت میں موجود بیوی پہ پڑی جسکی آنکھیں اشکبار تھیں۔مراد کو شرمندگی نے آن گھیرا۔
"رو مت۔رونے دھونے والی لڑکیاں مجھے ویسے بھی پسند نہیں۔"وہ بائیں پیر کے جوتے کے تسمے کھولنے میں مصروف سا عائشے کو چپ کرانے کی غرض سے بولا۔بات چپ کرانے جیسی نہیں الٹا رلانے لائق تھی۔
اسکی بات پہ عائشے کا دل مزید رونے لگا اتنی کمزور دل تو وہ نہیں تھی۔بس آج کے حالات نے اسے بہت کمزور کردیا تھا۔فوراً سب کچھ قبول کرنا بے حد مشکل تھا۔ہر شخص اسکے خلاف تھا۔
اور عائشے کو مراد کی ماں کی باتیں سن کر گہرہ صدمہ لگ چکا تھا وہ عورت اسے قبول نہیں کر رہی تھی الٹا کسی سوتن کا زکر کیے جا رہی تھی۔آخر کون تھی یہ مہمل!
مراد نے جب دیکھا وہ اب بھی آنسو بہا رہی ہے تو اٹھ کر اس کے پاس گیا۔عائشے دروازے کے آگے ہی کھڑی تھی۔مراد نے پہلے تو دروازہ بند کیا عائشے نے کانپ کے اسے دیکھا اسے قریب دیکھ کہ اسکا دل پھر بھرنے لگا۔
  "آئی کین انڈرسٹینڈ یور کنڈیشن!پر ایسے رو مت...حالات کا سامنا کرو اب جو ہے یہی ہے۔اور مام کی باتوں کو دل سے نا لگاؤ۔وہ اتنی کٹھور بن رہی ہیں پر دل کی کافی نرم ہیں۔آہستہ آہستہ تمھیں اندازہ ہوجائے گا۔۔اور وہ مہمل اسکا زیادہ مت سوچو صرف میری کزن ہے اور کچھ نہیں۔"مراد نے دل جوئی کرتے کہا نظر عائشے کے چہرے پہ ٹہھر گئی،چہرے پہ مٹا مٹا میک اپ،نم آلود ہونٹوں پہ گہری لالی واضح تھی۔آنکھوں کا کاجل آنسوؤں کی قطار میں بہتا ہوا گالوں پہ تھا،ایک پل کو یہ دیکھ کر مراد کو ہنسی آنے لگی جسے وہ اندر ہی گھونٹ گیا۔
   مراد عائشے کی آواز سننے کا منتظر تھا پر مجال ہے جو وہ لڑکی اسکے سامنے کچھ بول دیتی۔صرف نکاح کے وقت اسکی دھیمی سی آواز سنی تھی۔
مراد نے گھڑی پہ نظر ڈالی رات کے گیارہ بجے تھے،آج تھکن کافی تھی۔
"ٹھیک ہے تم بھی چینج کرلو اور کھانا لگواؤں کیا؟"دونوں کے درمیان اجنبیت کی لمبی دیوار قائم تھی عائشے نے سسکتے ہوئے سر نا میں ہلایا مراد نے سانس کھینچی۔
"فائن.."فریش ہونے کی غرض سے وہ واش روم میں گھس گیا۔اسکے جانے کے بعد عائشے نے کمرے میں نگاہ ڈالی اور گہری گہری سانسیں لیں،آنسوؤں نے نا تھمنے کی قسم کھا لی تھی،
فرنشڈ روم تھا اور اتنا بڑا تھا کہ عائشے کے گھر کا صحن بھی اتنا بڑا نا ہو۔
اکتا کے اس نے بیگ کے لیے نظر دوڑائی جو ساتھ لائی تھی۔
مراد شاور لے کر باہر نکلا وہ اب بھی پتھر کی مورت بنے وہیں کھڑی تھی۔مراد تولیہ صوفے پہ اچھال کے اسکی طرف آیا۔اور بھنوویں اچکا کے اسے دیکھا گویا پوچھ رہا ہو نکاح کے بعد دماغی توازن ہل تو نہیں گیا؟عائشے اسکی حرکت پہ گڑبڑائی۔
"میرا بیگ۔شاید گاڑی میں رہ گیا،،میں لے آتی ہوں۔"اس نے جھٹ پلٹ کر لاک پہ ہاتھ رکھا تھا مراد نے سر پیٹا۔
"کہاں چلی؟میں ہوں نا!لارہا ہوں۔"وہ بے حد سنجیدہ تھا عائشے سائیڈ ہوئی مراد کمرے سے باہر نکل گیا۔
اب جب وہ واپس آیا تو شکر وہ لڑکی جگہ سے ہل کے بیڈ تک پہنچ گئی تھی۔اور بیٹھنے کی بھی زحمت کرلی تھی۔مراد سوچ جھٹکتا ہوا اسکے پاس آیا اور بیگ بیڈ پہ رکھ کے ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔عائشے نے اسکے جانے پہ شکر کا سانس لیا اور بیگ کھولا۔زرپاش کی باتیں اسکا خون کھولا چکی تھی۔بس چلتا تو کپڑوں کو ہی چیر پھاڑ دیتی۔
جی کڑا کے کپڑے نکالے اور چینج کرنے چلی گئی۔اس نے گرم کی بجائے ٹھنڈے پانی سے شاور لے لیا تھا اور اپنی حرکت پہ رچ کے غصہ تب آیا جب باہر آکے دیکھا کمرے میں اے_سی آن تھا اور مراد بیڈ پہ دراز لیپ ٹاپ گود میں رکھے سکون سے بیٹھا تھا۔
اجنبیت،سرمہری،لاتعلقی دونوں کے درمیان کچھ زیادہ ہی تھی اور جھجھک جو عائشے کو بے حد ہورہی تھی۔
جیولری اس نے واش روم میں ہی اتاری تھی پر داہنے ہاتھ کی چوڑیاں رہتی تھیں جو اس سے اتر نہیں رہی تھیں۔باہر آکے بھی کافی دیر اس نے کوشش کی پھر تنگ آکے رہنے دیا۔
اب نئی مصیبت یہ تھی سوتی کہاں؟
بیڈ پہ؟پر مراد نے تو بیڈ شئیر کرنے کا کہا ہی نہیں۔
آخری امید صوفہ تھا،پر صوفے کے سامنے چلتے اے_سی کو دیکھ اسے جھرجھری آگئی۔
"آپ صوفے پہ سوئیں گے؟"
خاموشی کی دیوار تو ٹوٹی پر منہ سے جملہ غلط نکل گیا۔مراد نے سر اٹھا کے اسے دیکھا جو پنک کاٹن کے سوٹ میں ہاتھ مسل رہی تھی اور ٹھنڈ سے ہولے ہولے کانپ بھی رہی تھی۔
"میں بھلا صوفے پہ کیوں سوؤں؟یہ بیڈ میرا ہے۔تم صوفے پہ سونا چاہتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"
   وہ کہہ کر کافی کا سراہنے پہ رکھا مگ لبوں سے لگا کر لیپ ٹاپ پہ واپس جھک گیا۔عائشے ہونقوں کی طرح کھڑی رہ گئی۔"ویسے تو صوفہ بھی آپکا ہے۔"یہ صرف خیال تھا بولی کچھ اور ہی تھی۔
"نہیں ایسے تو صبح تک میں جم جاؤنگی۔"وہ جھٹ بولی مراد کو غصے سے دیکھا جو کافی کے گرم گرم گھونٹ بھرے جارہا تھا۔ایک کپ مزید اسکے لیے بھی لے آتا تو کیا ہوتا،پر وہ امید کیوں لگا رہی ان دونوں کے درمیان ابھی ایسا رشتہ قائم ہی نہیں تھا پھر بھی انسانیت تو زندہ ہونی چاہیے نا!
"بول بول کے پریشان نہیں کرو۔جدھر مرضی سونا ہے سوجاؤ اب یہ کمرا تمھارا بھی ہے۔"مراد  نے بنا نظر اٹھائے کہا عائشے دیکھتی رہ گئی دانت کچکچانے بند کردیے اور سانس بحال کی۔کمرا تمھارا بھی ہے سن کے دل کو تسلی ہوئی تھی پر یہ جدھر مرضی سوجاؤ کیا ہوتا ہے؟سیدھا بول دیتا بیڈ پہ لیٹ جاؤ ویسے ہی وہ سردی سے مر رہی تھی۔
ہر ایک نے آج اسکا جی کلسانے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔
دوپٹہ سنبھالتی بائیں طرف آکر ایک کونے میں ہوکر لیٹ گئی۔سر کے نیچے سے تکیہ نکال کر مراد اور اپنے درمیان نا محسوس طریقے سے رکھا۔کمبل مراد کی طرف تھا اس پہ لعنت بھیج کر خود کو ململ کے دوپٹے سے ڈھانپ کر کہنیاں سر کے نیچے ٹکائے دوسری طرف رخ کیے آنکھیں موند گئی۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد مراد نے سر اٹھا کے برابر میں نگاہ ڈالی۔دھان پان سی زوجہ صاحبہ کی حرکت پہ ٹھنڈی آہ بھر سکا۔لب بھینچتے ہوئے اس نے کمبل اس پہ ڈالا تھا جو دوپٹے میں سکڑی سمٹی لیٹی تھی۔اور درمیان میں موجود تکیے کی مضبوط دیوار دیکھ کر اسکے لبوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی سر جھٹک کے اس نے لیپ ٹاپ رکھا اور لیمپ آف کرکے خود بھی سونے کے لیے لیٹ گیا۔
                             ★ ★ ★
ڈرائیور کلب کو زور سے مارتے ہی سفید بال گھومتی گھومتی مطلوبہ سوراخ میں جا پہنچی۔اس نے بائیں ہاتھ کو جینس کی جیب میں ڈالا اور مسکرا کے نظروں کا رخ مقابل کے چہرے پہ کیا۔
"مانا تم گولف کے اچھے کھلاڑی ہو پر میرے بھائی میں بھی کوئی کچا حریف ثابت نہیں ہونگا۔"یورپ سے آیا دائم میران کا یونیورسٹی دوست اپنی باری آنے پہ نشانہ لگاتے ہوئے بولا۔میران ہنس دیا اور اسے کر دکھانے کا کہا۔
ٹھاک....آواز پیدا ہوئی اور بال سیدھا گول یعنی سوراخ میں جا گری۔میران نے دبے لب مسکراہٹ روکی۔
"دیکھا.."
کلب ڈرائیور ہاتھ میں گھمائے ناز دائم سے بولا میران نے توقف سے سر ہلایا۔میران کے پاس عزیز بھی مسکراہٹ کے ساتھ کھڑا تھا۔
"نالائق لوگوں کو میں اپنا رقیب رکھتا بھی نہیں ہوں.."اسکی بات پہ دائم نے بھنوویں سکیڑ کے خفگی کا اظہار کیا۔اب وہ طنز تھا یا تعریف پر دائم کو اس سب کی عادت تھی۔
جاہ بنگلے کے ساتھ ہی قائم گولف پارک میں میران اور دائم کا گولف ٹاکرا جاری تھا۔
رات ہی دائم پاکستان واپس آیا تھا اور صبح میران سے ملنے حاضری لگا دی تھی۔یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ ان دونوں کے درمیان دوستی تھی۔گہرا تو نہیں پر اچھا یارانہ تھا۔
سفید شرٹ بلیک ٹراؤزر صبح جاگنگ کے لباس میں میران جاگنگ کے لیے باہر نکلا ہی تھا کہ دائم دروازے پہ گاڑی سے اترتا ملا۔اسے دیکھ میران کو کافی خوش گواری ہوئی پرجوش طریقے سے اسکا استقبال کیا۔اور دائم کی خواہش پہ ہی دونوں چہل قدمی کے لیے نکل پڑے تھے۔اور پھر میران کے کہنے پہ عزیز گولف کا سامان لے آیا۔عرصے بعد دائم سے کھیل میں دو دو ہاتھ کرنے کا ارادہ ہوا تھا۔
سخت مقابلے کا نتیجہ یوں تھا کہ میران کے دو گول دائم سے زیادہ ہوئے۔میران اسے لان میں لے آیا۔فرید نے آکے فوراً ٹیبل کو ناشتہ کے لوازمات سے بھر دیا۔وہ دونوں اب کرسیوں پہ منجمد کاروباری موضوع پہ گفتگو کر رہے تھے۔
"عزیز بھائی سے تمھاری کافی دوستی ہوگئی ہے۔"عزیز کو ناشتے پہ بھی موجود دیکھ دائم ہنستے ہوئے بولا۔ہمیشہ کی طرح میران کے اصرار پہ عزیز بیٹھا تھا اسکا تو یہی خیال تھا سائیں اپنے دوست کو وقت دیں پر ایسی کوئی خوفیہ باتیں نہیں تھیں جو عزیز کو وہ نظر انداز کرتا۔
"کوئی جل رہا ہے شاید۔"میران نے بسم اللہ کرتے مصروف انداز میں ناشتہ شروع کرنے کا کہا اور کیتلی سے چائے کپ میں الٹی۔
"میں بھلا کیوں جلونگا۔"دائم نے لاپرواہی سے شانے اچکادیے۔عزیز مسکراہٹ دبائے ناشتے میں لگا تھا۔میران نے چہرہ دائم کی جانب کیا۔
"تمھارا نام کس نے لیا؟"چائے کا مگ میران نے لبوں  سے لگایا کپ سے گرم بھانپ اڑتی ہوا میں تحلیل ہورہی تھی۔موسم میں ٹھنڈ اور خوشگواری کا عنصر تھا۔پیچھے درخت کی ڈالی سے دائم نے پھول توڑا اور ناک تک لے جاکہ خوشبو خود میں اتاری۔
   "ویسے ایک بات تو بتایں چھوٹے سائیں..."وقفہ،وہ عزیز کی نقل اتار رہا تھا عزیز نے میران کو دیکھا جس کے لبوں پہ مسکراہٹ آچکی تھی۔
"ہمم بولو.."
"شادی کب کروگے؟الیکشن کے بعد؟کنوارے وزیراعظم کیسے لگو گے؟کوئی خاتون اول ہے زندگی میں؟"اب کی بار میران کے چہرے کے رنگ بدلے تھے جو دائم نے فوراً بھانپ لیے تھے وہ بہت ہی آگے کا سوال کرچکا تھا۔
"تمھیں یقین ہے کہ میں ہی اگلا وزیراعظم ہونگا؟"سوال پہ سوال ہوا۔دائم نے پھول کو انگلی سے گھمایا وہ بڑی غور سے پھول دیکھ رہا تھا اور میران اسکی حرکات۔
"یقین کرتا ہوں،،لوگ تمھیں چاہتے ہیں لگتا تو ایسا ہی ہے تم مستقبل ہو!"
"ہر چیز فوراً نہیں ملتی ایک عمر کانٹنی پڑتی ہے۔"کرسی پہ پشت ٹکائی۔
"تو تم نا امید ہو۔۔واقعی؟"
"میں نے جنرل بات کی..انسان کو امید اتنی وابستہ نہیں کرلینی چاہئے کے منزل نہ ملنے پہ ٹوٹ جائے۔صرف مقصد زہن میں رہنا چاہیے اور اسکے فرائض جو ادا ہر صورت کرنے ہیں!"
"جناب آپ نے بہت ہی بھلی بات کہی پر ماننا پڑے گا موضوع بدلنا کوئی آپ سے سیکھے۔پر میں بھی دائم علی ہوں اور اپنا کیا سوال بھولتا نہیں۔تو بتائیے کوئی خاتون اول...؟"وہ گھوم پھر کے وہیں آیا تھا،میران پہ عش عش کرتا آخر میں آنکھیں چھوٹی کیے اس نے واپس پوچھا۔عزیز تو بس میران کے چہرے کے رنگ دیکھ رہا تھا اور بہت محظوظ ہوا تھا۔
"فلحال کوئی نہیں۔"وہ اس بارے میں بات کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔
"میں مانتا ہی نہیں۔"اس نے دونوں جانب نفی میں سر ہلایا۔
"سائیں جھوٹ تھوڑی بولیں گے۔"عزیز نے مداخلت کی۔
"تمھارے سائیں جھوٹ بے شک نا بولیں پر اعتراف نہیں کریں گے۔"جتاتے ہوئے وہ واپس میران کی طرف مڑا۔
"یار بتاؤ..یہ تم میں اتنی تبدیلیاں ایسے ہی نہیں آگئیں۔بہت بدل گئے ہو تم۔کوئی تو ہے اپنے بھائی سے چھپاؤ گے۔بس اتنی ہی دوستی تھی؟"وہ اب اسکا دل پسیجنے لگا۔میران نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"ہاں ہے وقت آنے پہ مزید بتاؤنگا پر اسکے علاوہ تم مزید اس بارے میں کوئی سوال نہیں کروگے۔"دو ٹوک کہتے وہ جیبوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا ہوگیا۔
"عزیز مبارک ہو۔مجھے یقین ہے تم کو سب معلوم ہوگا پھر بھی مبارک باد رکھو۔کیسا ہو اخبار کے پہلے صفحے پہ خبر چھپی ہو کہ میران جاہ کو انکی خاتون اوّل مل گئی۔"دونوں ہاتھوں کو ایل شیپ میں اٹھائے میران کے پیچھے کھڑے ہوکے اس نے لہک لہک کر کہا۔میران نے اسے گھورا۔
"تمھیں جانا نہیں؟"
"اب تم مجھے دفع ہوجانے کا کہہ رہے ہو تو ہونا ہی پڑے گا۔"جلدی جلدی ٹیبل سے مگ اٹھا کہ دائم نے گھونٹ بھرے۔
"ایسا بھی کچھ نہیں کہا۔"میران نے جیب سے ہاتھ نکالا اور انگلی کی پشت سے عادتاً ناک رگڑی۔
"بھابھی تمھاری یہ سنجیدگی ختم نا کرسکیں،ایک ملاقات ہی کروادو اس بارے میں تفصیلاً ان سے بات کرونگا۔"
دائم تو بس اب دیکھنا چاہتا تھا کون ہوگی جو میران جاہ کا دل گھیر چکی ہے۔یونیورسٹی کے عرصے میں بھی کئی لڑکیاں آئیں تھیں پر محض گفتگو کے علاوہ میران نے کسی کو اپنے قریب آنے نہیں دیا۔
    "آپ نے بڑی جلدی بھابھی بنا دیا۔ابھی تو انکو منانا باقی ہے۔"عزیز کے منہ سے بے ساختہ پھسلا میران نے  اسے آنکھیں دکھا کر مٹھی بھینچی۔اب تو دائم نے اس کا اس معاملے میں پیچھا نہیں چھوڑنا تھا۔
"جینٹل مین ایسے ہی تم باقی سب بھی اگل دوگے۔"دائم نے عزیز کے شانے پہ ہاتھ جمایا۔میران سر جھٹکتا رہ گیا۔
دائم ایک مچیور بندہ تھا ہر ہنسی مذاق کرتے رہنا اسکی طبیعت کا اہم حصہ تھا۔
"اب تم بتانا نہیں چاہتے الگ بات ہے۔پر جب وہ مان جائیں تو میں ضرور ملونگا۔میں بھی تو دیکھوں کس نے میرے دوست کو محبت میں گرفتار کرلیا۔"
"محبت کہاں سے آگئی؟"میران چونکا اور ہنس کے اس سے پوچھا۔دائم نے آگے بڑھ کے اسکے دل کے مقام پر انگلی جمائی۔
"یہاں سے۔زکر کرتے ہی جناب آپکی آنکھوں کا رنگ بدلا ہے۔پسندیدگی کی انتہا یعنی محبت۔"ٹیبل پہ کپ واپس رکھ کر اس نے کرسی پہ ٹنگا کوٹ اٹھا کے کندھوں پہ اوپر سے ڈالا۔
"پھر ملیں گے.."
غیر امیدی جواب موصول۔
دائم میران سے بغل گیر ہوا پھر عزیز سے۔اسکا کندھا تھپکا اور کان میں بولا۔
"بھابھی مان جائیں تو بتانا ضرور...اپنے لیے بھی کوئی ڈھونڈ لو کب تک اس بے مروت آدمی کے چکر میں خوار زندگی گزارو گے۔"اسکی قریبی سرگوشی پہ عزیز ہنسا اور سر ہلایا۔میران اسے الوداع کرنے دروازے تک گیا تھا۔
"تم چاہو تو میں ان سے مل کر تمھاری اچھائیاں بیان کرکے تمھارا کام آسان کرسکتا ہوں۔"گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بھی وہ باز نا آیا۔
"میرج بیورو کھول لو میرے بھائی۔"گاڑی کی چھت پہ ہاتھ جمائے میران نے کہا تو دائم کا قہقہہ مار کے ہنسا۔
"ضرور سوچونگا!تمھاری نظر میں میرے لیے کوئی ہو تو بتانا۔"آنکھ دبائے اس نے چابی گھمائی۔میران پیچھے ہوا۔
"دائم علی پیچھا چھوڑ دو اس ٹاپک کا۔"
"جو حکم سرکار!"مشکوریت سے سر خم کیا۔
"اللہ حافظ۔"ہاتھ بلند کرکے اس نے سلام کیا اور دائم کی گاڑی کے جانے بعد خود بھی اندر چلا آیا۔
دائم سے ملنے کے بعد مزاج میں کافی سرشاری آئی تھی۔ہفتے کا دن تھا سیاسی کاموں سے چھٹی لے کر آج اس نے خاص کام کرنے تھے۔
عزیز کو چند ہدایتیں کرکے وہ اندر چلا گیا۔
                            ★ ★ ★
"حلیمہ بی کیا بنا رہی ہیں؟"مٹھاس سے بھرپور آواز لیے وہ کچن میں داخل ہوئی۔حلیمہ بی نے اس پہ نگاہ ڈالی جو آسمانی رنگ کے سوٹ میں دلکشی کا روپ دھارے ہوئے تھی۔اور بڑے ہی خوشگوار انداز میں مخاطب ہوئی تھی۔
"پلاؤ بنارہی ہوں۔آج سائیں کے دادا کی برسی ہے۔"انھوں نے یخنی میں چمچ چلاتے اسے دیکھے کہا جو کشمکش کا شکار تھی۔
"کیا ہوا کوئی بات ہے؟بابا کی یاد آرہی ہے کیا؟"
"وہ تو آتی رہتی ہے۔وہ مجھے کیک بیک کرنے کا دل چاہ رہا تھا۔"پڑھائی تو ہو نہیں رہی تھی فراغت میں اس سے رہا نہیں جارہا تھا۔کب تک پینٹنگ میں خود کو مصروف کرتی کبھی اس سے بھی دل اچاٹ ہوجاتا۔
اسکی جھجھک پہ حلیمہ بی نے خوش دلی سے اسے قریب کیا۔
"سامان موجود ہے اگر بنانا ہوتا ہے تو بنا لیا کرو۔اور مزید کچھ منگوانا ہو تو بتادینا میں گارڈز کو بول دونگی۔"وہ پیار سے بولیں انھیں خوشی ہوئی تھی کہ وہ کچن میں آکے کچھ بنانے کی خواہش مند تھی۔حلیمہ بی اور میران خود بھی یہی چاہتا تھا رومائزہ یہاں رہ کر بھی نارمل زندگی ہی گزارے اسکی چہرے پہ دکھتی اداسی دونوں کو قابلِ برداشت نہیں تھی۔
"شکریہ۔آپکو بیکنگ آتی ہے؟"
"نہیں پر تم سکھاؤگی تو میں ضرور سیکھ جاؤنگی۔"بی نے پتیلے کو ڈھکن سے بند کرکے اسکی طرف رخ کیا۔
"ضرور اب میں آپکی استاد ہوں اور آپکو میری بات ماننی پڑے گی۔"رومائزہ نے پرجوشی سے کہا حلیمہ بی کو اسکو نارمل دیکھ کر تسلی ہوئی۔امید یہی تھی وہ میران کے لیے بھی نرمی اختیار کر ہی لے گی۔
"ایسی کوئی بات نا کردینا جسکا مجھے اختیار نا ہو.."وہ پہلے ہی باور کرا گئیں اسکا کچھ بھروسہ بھی نہیں تھا۔
"آہاں کتنا یقین ہے آپکو مجھ پہ۔پر ابھی آپ بس سامنے بیٹھ جائیں اور بتائیں سامان کہاں ہیں پھر ہم بیکنگ کلاس شروع کرتے ہیں۔"حلیمہ بی کو کاؤنٹر کے دوسرے جانب رکھی ایک چھوٹے پلر پہ ٹکی ریوالونگ چئیر پہ بٹھاتے بولی۔
"ہیو آ سیٹ میم!"اور ایپرن پہن کر بالوں کا جوڑا بناتی کچن میں آگئی۔
حلیمہ بی اسکو چیزوں کی ہدایت کرتی گئیں اس نے سب کاؤنٹر پہ لا کر جما کردیا تھا۔
"ویسے تو مجھے کچھ بنانا نہیں آتا پر بیکنگ کا بچپن سے شوق تھا تو سیکھ لی۔اب جب تک یہاں ہوں آپکو بیکنگ ایکسپرٹ بنا کر جاؤنگی۔"
باؤل میں مطلوبہ مقدار کے حساب سے اس نے میدا ڈالا تھا۔
"مجھے یاد تو کروگی نا!"
"میں آپکو بھولونگی ہی نہیں۔ایک آپ ہی تو ہیں میری تنہائی کی دوست۔ویسے میری دو دوستیں اور ہیں بہت یاد آتی ہے انکی۔ایک کا کل نکاح تھا۔"وہ حلیمہ بی کو بتائے بغیر چیزیں ڈال رہی تھی۔حلیمہ بی بس اسکی کاروائی نوٹ کر رہی تھیں۔اور اسکی ہمیشہ کی طرح مسلسل زبان چل رہی تھی۔وہ ایسے ہی نان اسٹاپ بولنا شروع ہوتی تھی۔اندر کی گھٹن کم کرنے کا اسے بہترین ہتھیار یہی لگتا تھا۔
"دوستوں کے نام تو بتاؤ۔"چینی کے کھلے ڈبے کو انھوں نے بند کیا روما نے انڈا توڑ کے ڈالا۔
"عائشے اور انوش..."وہ دھیمی سی مسکرائی۔
"عائشے کی شادی کی مجھے بہت خوشی تھی پر...خیر جو ہم سوچتے ہیں وہی سب تو ہو نہیں سکتا اسی کا نام زندگی ہے۔"
"جو مل جائے اس پہ شکر اور جو نا ملے اس پہ صبر کرلینا ہی مسلمانوں پر فرض ہے۔اس جہاں میں نہیں تو اگلے جہاں میں تمھیں وہ سب ملے گا جسکی تمھیں یہاں تلاش ہے۔"
"وہاں سکون تو ملے گا نا؟"باؤل میں موجود بیٹر کو  مشین سے پھینٹنے سے پہلے اس نے سر اٹھا کے کہا۔حلیمہ بی کی نگاہوں کا مرکز اسکا چہرہ ہی تھا۔
"انشاء اللہ۔اور نا امید کیوں ہوتی ہے۔سکون تمھیں یہاں بھی ملے گا۔اللہ اپنے بندے کی سکت سے زیادہ اس پہ بوجھ نہیں ڈالتا۔نا امیدی گناہ ہے اور یہی تمھاری آزمائش۔"چئیر سے اٹھ کے وہ اسکے پاس آگئیں روما نے مشین بند کی انھیں دیکھا۔
"روز اسی آس پہ جی رہی ہوں کہ یہ قید جلد ختم ہونے والی ہے،،ایک ایک دن کٹتا جارہا ہے۔"مشین ایک طرف رکھ کے کاؤنٹر صاف کیا۔
"جس کو تم قید سمجھ رہی ہو وہ تمھاری بھلائی کے لیے ہے۔انسان کی عادت ہے وہ چیزیں دیر سے سمجھتا ہے تم بھی ایک دن سمجھ جاؤ گی۔تمھیں لگتا ہے کڈنیپ کرکے یہاں رکھا گیا ہے نہیں..تمھارے لیے رکھا گیا ہے تمھیں اس جنگ میں کوئی نقصان نا پہنچ سکے۔مجھے اندازہ ہے چھوٹے سائیں کی تمھارے لیے نرمی دیکھ کر زولفقار سائیں کو کتنا غصہ ہوگا انکے سینے میں دل نہیں سیاہ پتھر ہے!"رومائزہ خاموشی سے کام میں مصروف حلیمہ بی کو سن رہی تھی۔اسکی پشت انکی جانب تھی حلیمہ بی کی نظریں اسکی حرکات پہ ٹکی رہیں۔
  وہ بھانپ چکی تھیں کہ وہ سنتی ہے اپنا کوئی ری سیکشن نہیں دیتی خاص کر چھوٹے سائیں کے حوالے سے۔
                          ★ ★ ★
     آنکھوں میں روشنی پڑنے سے اسکی نیند میں خلل ہوا،،دھیرے دھیرے ذہن بیدار ہوا۔وہ اٹھ کے بیٹھ گئی اردگرد نظریں دوڑائیں۔کمرا روشنی میں نہایا ہوا تھا کمرے میں ٹھنڈ کا امتزاج نا ہونے کے برابر تھا۔
بیڈ کی دوسری سائیڈ خالی تھی،یعنی وہ اس سے پہلے ہی جاگ چکا تھا۔
نظروں کو تھوڑی اور زحمت دی تو ڈریسنگ پہ جا رکیں۔وردی میں ملبوس ڈریسنگ کے سامنے وہ بال سیٹ کر کے اب کف لنکس بند کر رہا تھا۔
عائشے کچھ دیر جوں کی توں اسے دیکھتی رہی پھر کمبل ہٹا کے بیڈ سے اتری۔وہ تو رات دوپٹہ اوڑ کے سوئی تھی کمبل دیکھ کر مراد کی مہربانی پہ زیادہ کچھ نا ہی سوچا پھر بھی دل میں ننھی پھوار پھونٹی تھی۔
"گڈ مارننگ.."اسے اٹھتا دیکھ مراد کف بند کرتے ہوئے اسکی طرف پلٹا۔وہ دونوں کے درمیان اجنبیت دور کرنا چاہتا تھا۔
"ہممم..."عائشے سر ہلا گئی۔سمجھ بھی نہیں رہا تھا کیا ری ایکٹ کرے۔
"تم ریڈی ہوجاؤ ناشتے کے بعد میں تمھیں تمھاری امی کے گھر چھوڑدونگا۔"مراد اسکی چوڑیوں سے بھری کلائیاں دیکھتے ہوئے بولا۔اس نے عائشے کے دل کی بات کردی تھی وہ خود گھر جانا چاہتی تھی۔
"تھوڑی عقل ہے؟رات کو چوڑیاں پہن کر کون سوتا ہے؟ساری رات انکی چھن چھن سے نیند خراب کی ہے تم نے میری..."دھیمے پر غصیلے انداز میں مراد نے کہا عائشے نے بھنوویں سکیڑیں بس اب اسکا ضبط ختم ہوچکا تھا۔
"کوشش کی تھی رات کو اتارنے کی پر اتری ہی نہیں،،اور میں بھی تو سورہی تھی آپ کی ہی نیند خراب ہوئی بس.."تیزی سے بول کر بس مراد کی نظروں سے اوجھل ہونا چاہا تھا۔مراد نے اسکی داہنی کلائی تھام لی۔اور ایک نگاہ اس پہ ڈالی۔
  "رات کو بول دیتیں ایک بار..."اب وہ سرخ چوڑیاں اسکی کلائی سے اتار رہا تھا عائشے نے اٹکی سانس کے ساتھ اس پہ نگاہ ڈالی۔
"مجھے آپکے ایک اور احسان کی ضرورت نہیں تھی!"
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟"آئبرو اچکائے عائشے کے چہرے پہ نگاہ جمائی۔اس نے ہمت کی۔
"شادی کرکے احسان ہی تو آپ کر چکے ہیں،،اگر آپ شادی نا کرتے میں تو کنواری ہی مر جاتی نا۔ترس کھا کرلی شادی،،جب کہ آپ پہلے سے ہی کسی اور سے کمیمٹمینٹ میں تھے!"وہ دبے دبے غصے میں بولی مراد کی اسکی کلائی پہ گرفت بڑھ گئی۔لب بھینچ کے اس نے عائشے کو دیکھا۔
وہ محمل والی بات کو کہاں لے گئی تھی۔
   "تم سے شادی کا فیصلہ میرا اپنا تھا۔کسی پہ میں نے احسان نہیں کیا!اور ترس کھانا ہوتا تو اس طرح کے کئی کیس پہلے بھی سولوو کر چکا ہوں۔اب تک تم تیسری یا چوتھی بیوی ہوتیں میری!
اور رہی بات کمیمٹمینٹ کی تو ایسا کچھ نہیں!
مراد دمیر اپنے کہے سے پیچھے نہیں ہٹتا محمل کو میں نے کبھی جھوٹی امید دلائی ہی نہیں جس پہ تم شور مچا رہی ہو۔اور آئیندہ امید کرونگا عائشے دمیر تم ایسی فضول گوئی بلکل نہیں کروگی۔"جبڑے بھینچ کے اس نے عائشے کا ہاتھ دبا کر آخر کی بچی چوڑیاں بھی اتار کر ڈریسنگ پہ پٹخ دیں۔عائشے کھلے منہ سے دیکھتی رہ گئی۔
"عائشے دمیر نہیں عائشے بلوچ ہوں میں!"
وہ غرا کے بولی۔عائشے کی جانب سے بہت شرافت دکھائی جا چکی تھی اب وہ اپنے موڈ واپس لوٹ آئی تھی۔مراد نے استہزایہ اسے دیکھا۔
وہ تو اسی دھوکہ میں رہا تھا سیدھی سادھی بیوی مل گئی جسکی زبان میکے ہی رہ گئی تھی۔اس نے تو پہلی ملاقات میں بھی مراد سے زیادہ بات چیت نہیں کی تھی۔ساری بحث انوش کر رہی تھی الٹا عائشے اسے گھبرائی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔اسے وہ ڈرپوک دبو سی ہی سمجھا تھا پر عائشے بلوچ تو نکلی ہی انار بمب تھی جو شادی کے بعد پھٹا تھا!
    "لڑکی کل رات میرے نکاح میں آئی ہو بھول گئی ہو کیا؟"مراد نے جتاتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کے اپنی جانب کھینچا عائشے کی آنکھیں باہر نکلنے کو آئیں وہ بازو چھڑاتی پیچھے ہوئی۔
"آپکا احسان یاد ہے مجھے۔پر مجھے بلوچ نام اپنے نام کے ساتھ لگا پسند ہے تو یہی لگے گا!"گردن تان کے اس نے مراد کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔کوئی کہہ سکتا تھا یہ رات والی ہی عائشے ہے!مراد تو اسکے بدلے تیور پہ حیراں ہوا تھا۔
"نام کا جو مرضی تم کرو!پر دل و دماغ میں میرے نام کی مہر لگا لو عائشے مراد دمیر!"اسکے چہرے پہ جھکا چبا چبا کے بولتا بیڈ کی طرف پلٹ گیا۔عائشے کا جی کلس گیا پیر پٹختی واش روم میں گھس گئی۔
   وہ فریش ہوکر باہر نکلی۔دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔فرق کسی کو بھی نہیں پڑتا تھا کہ اگلا اسکے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا۔مسئلہ یہ تھا شادی کے پہلے دن ہی لڑائی ہوگئی تھی آگے زندگی ساتھ کیسے گزرے گی اسی کی فکر مراد سے زیادہ عائشے کو تھی۔
پتا نہیں کیا سوچ کے اسے بیاہ دیا گیا تھا۔
رات تو وہ سوچ چکی کہ امی بابا سے کچھ دن ناراضگی کا اظہار کرے گی پر گھر والوں کے بنا رہا ہی کہاں جارہا تھا۔چڑیا کی طرح گھر جانے کے لیے پھڑپھڑا رہی تھی۔یہاں کونسا ساس باہر اسکے ناشتے کے لیے منتظر بیٹھی ہونی تھیں۔ابھی تو انکا سوچ کر ہی حلق کڑوا ہوگیا تھا۔
    دیوار میں لگی بڑی سی نصب اسکرین کھلی تھی۔مراد شوز پہنتے ہوئے خبریں سن رہا تھا۔
شاید کوئی اچھی خبر نہیں تھی مراد کے تاثرات بھانپ کر عائشے یہی اخذ کر سکی اور ڈریسنگ ٹیبل کے پاس جاکے بال سلجھانے لگی۔
اسکرین پہ کورٹ کے باہر کا منظر چل رہا تھا،،نیوز کاسٹر مسلسل پرجوش آواز میں پیچھے بولے جارہا تھا۔نیچے واقعے کے متعلق شہ سرخیاں آتی جاتیں۔
اہم خبر!
"وزیر اعلی زولفقار جاہ کرپشن کیس کے الزامات سے عدالت کی جانب سے مکمل طور پہ بری الزمہ کردیے گئے۔پچھلے جھوٹے ثبوتوں پر عدالت کی نئی کاروائی کا فیصلہ۔"مراد نے غور سے یہ سطر پڑھی اور ریموٹ کو مٹھی میں بھینچ لیا۔
عائشے شیشے میں سے اسکے تاثرات دیکھ رہی تھی۔
کورٹ سے نکلتے ہوئے زولفقار جاہ اور انکے وکیل کی کلپ بار بار اسکرین پہ چلائی جارہی تھی۔یہ خبر ہر نیوز چینل کی زینت بنی ہوئی تھی۔زولفقار جاہ ہر قسم کے الزام سے بری ہوچکے تھے۔انکی حکومت کو اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔
    ایک اہم فیصلہ میران کو لے کر جو انھوں نے کچھ دن پہلے ہی کیا تھا اس پہ اب افسوس تھا۔میران کو اقتدار دینے کا یہ وقت سہی نہیں تھا بعد میں بھی دیا جاسکتا تھا پر پچھلے سارے عرصے میں انکی حکومت پہ تلوار لٹک رہی تھی اسی کی مناسبت انھوں نے فیصلہ کیا تھا۔
میڈیا سے زولفقار کی گفتگو بھی سب چینل والے سنا رہے تھے۔وہ بے حد خوشی سے میڈیا سے مخاطب تھے۔مراد نے ریموٹ سے ٹی وی بند کیا اور جوتے پہننے کے لیے جھک گیا۔صاف پتا چل رہا تھا وہ غصہ ضبط کر رہا ہے۔زرا سی لاپرواہی سے وہ ثبوت اکٹھے نہ کرسکا اور اب یہ شیطان سیاستدان واپس سروں پہ مصلت ہوجانے تھے۔تسمے باندھ کر وہ کھڑا ہوا عائشے کو دیکھا جو ہلکی پھلکی سی تیار ہوئی اسی کو دیکھ رہی تھی۔مراد نے نظروں سے ہی باہر چلنے کا کہا عائشے سر ہلاتی اسکے پاس دروازے تک آگئی۔ناجانے اسکی سانسوں کی رفتار میں کیوں تیزی بڑھی گئی تھی۔شاید ساس کا خوف تھا!مراد نے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔کیا شکل پہ کمال اطمینان تھا عائشے حیرت زدہ سی اسکی شکل تکتی ہوئی سر جھکا گئی۔
دھوپ چھاؤں سا شخص تھا۔کچھ دیر پہلے اس پہ غصے سے ابل پڑا تھا اور اب گھر والوں کے سامنے جانے سے پہلے اس طرح اسے حوصلہ دے رہا تھا۔
                           ★ ★ ★
ناشتے کی ٹیبل مختلف اشیاء سے بھری پڑی تھی۔شہوار جاہ کی برسی کا بھی دن تھا۔
حقیقت کا چہرہ بھی بہت عجیب تھا۔انکے جانے کے بعد ہی زولفقار جاہ کی پوری طرح کایا پلٹی تھی اور آج بھی انکی برسی کا ہی دن تھا جس دن وہ الزامات سے بری ہوئے!
    زولفقار صاحب ٹیبل پہ موجود میران کے منتظر تھے۔جاگنگ کے لباس میں ہی وہ اپنے کمرے سے نکلا تھا۔فرید کے اطلاع دینے پہ ڈائننگ ایریا کی طرف بڑھ گیا۔
"اسلام و علیکم..."سلام کرتے ہوئے زولفقار صاحب کی دائیں جانب کی کرسی کھینچ کر بیٹھا گیا۔ناشتے پہ نگاہ ڈالی خوشی میں کافی اہتمام کیا ہوا تھا۔وہ تو ناشتہ دائم کے ساتھ کرچکا تھا باپ کی خوشی میں شریک ہونے کے لیے بیٹھ گیا تھا۔
"وعلیکم السلام..۔کافی مصروف ہوگئے ہو شکل دیکھنے کو آنکھیں ترسنے لگی تھیں۔"زولفقار نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کہ کہا وہ رسمی مسکرایا۔
"اتنی اہم زمہ داری میرے کاندھوں پہ ہے اسکو پورا کرنا آسان بھی تو نہیں۔خیر بہت مبارک ہو آپکو۔"کرسی پہ کمر ٹکائی زولفقار نے اسے دیکھا شنواری والے واقعے کے بعد سے وہ کافی بدلا بدلا محسوس ہورہا تھا۔وہ میران نہیں جو باپ کے لیے جان چھڑکتا تھا ہر خوشی میں خوش ہوتا۔اب ایسا محسوس ہوتا وہ مروتاً انکا سامنا کرتا ہو۔پر یہ انکی صرف سوچ تھی چند معاملات پہ اسے جاہ سے بے شک اختلاف تھا اور انھی کے زکر پہ وہ زیادہ کچھ کہتا نہیں تھا۔
  ایک شنواری اور دوسرا انکی کرپشن!کیس بند ہوگیا تھا پر اسے تو معلوم تھا باپ کے کالے دھندے کا!اور یہی چیز اسکی بے سکونی کا ذریعہ بن رہی تھی۔
"دادا جان کی برسی ہے میں نے مزار پہ بھی کچھ انتظامات کروائے ہیں۔خود جاؤنگا بھی۔"بازو پہ ہاتھ پھیرتا ہوا وہ بولا زولفقار صاحب نے سر ہلایا۔میران کا انداز دیکھ کر انکی خوشی میں گویا بھنگ ہی پڑی تھی اور میران بھی یہ نوٹ کرچکا تھا۔
"جو تمھیں بہتر لگے،،رحان علوی نے بیٹی کے رشتے کی پیش کش کی ہے۔ویسے تو یہ پیش کش ہماری جانب سے ہونی تھی پر پہل اسی نے کردی۔"چائے کا گھونٹ لیتے انھوں نے بے نیازی سے کہا میران نے ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کے مٹھی بھینچی اور انھیں دیکھتا آرام سے کھڑا ہوگیا۔
   "میرا جواب بھی آپکو معلوم ہوگا۔خود بول کر آپکی خوشی ہرگز خراب کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہوں۔اللہ حافظ!"وہ مزید ٹہھرا نہیں تیار ہونے کی غرض سے سیدھا کمرے میں چلاگیا تھا۔
ناشتہ کرکے زولفقار صاحب لان میں تشریف لے گئے۔پارکنگ کی طرف شمس گاڑی سے اترا زولفقار صاحب اسی کے انتظار میں تھے۔
"صبح بخیر،مبارک ہو سرکار آپ جیت گئے۔اللہ آپکا سایہ ہم سب پہ ہمیشہ سلامت رکھے۔"شمس ہاتھ باندھے سر جھکائے جی حضوری کیے اپنا فرض ادا کر رہا تھا۔
"ادھر آؤ شمس۔"انھوں نے اسے گلے لگایا۔وہ کوئی نوکر نہیں تھا انکا خاص آدمی تھا!
"یہ سب تمھاری وجہ سے ہی ہوا بہت محنت کرتے ہو تم۔"اسکا کندھا تھپکاتے ہوئے وہ پیچھے ہٹے۔
"میرا فرض ہے جی...کچھ بتانا تھا۔"
"ہاں کہو.."ناشتے کے بعد زولفقار نے سگار جلائی اور موسم سے لطف اندوز ہونے لگے۔
"آپکے کہنے پہ بہت پتا کیا کہ اے ایس پی کو یلدیز کی خبر کیسے لگی اس پر کچھ ہاتھ نا لگا۔"شمس زولفقار جاہ کو دیکھتا ہوا بولا زولفقار نے دھواں اڑایا۔
"پتا کرو شمس ہوگا کوئی غدار یہ بات صرف گنے چنے لوگوں کے علم میں تھی جو قابل اعتبار ہیں۔اے ایس پی تک بات کیسے پہنچ گئی!"
"سائیں مجھے معاف کردیے گا پر اس بارے میں صرف چھوٹے سائیں اور ہم ہی جانتے تھے۔"شمس کی بھی ہچکچاہٹ صاف تھی زولفقار صاحب نے گہری سانس بھری۔
"اس لڑکے کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔مجھے برباد کرکے چھوڑے گا۔کیس پہلے ہی حل ہوجاتا تو مجھے کوئی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔جو کیس عرصے سے چل رہا تھا اب جاکے فوراً بند ہوگیا۔حد ہے.."غصے میں غراتے ہوئے انکا چہرہ سرخ پڑ گیا۔
"سائیں اس شنواری نے بھی کچھ رقم ادا کی کردی ہے۔"
"سہی،،وقت آنے دو پھر اسے بھی بتاؤنگا زولفقار جاہ کیا چیز ہے۔سب کے سب اوقات بھول گئے ہیں۔"وہ پھنکارے۔
"اور وہ اے ایس پی!اسکا کیا؟وہ شکست کے بعد سکون سے بیٹھے گا نہیں جوان خون جوش ضرور مارے گا اسکی بھی خبر رکھنا!"
"اسکی جانب سے خوشخبری ہے..کل رات ہی اس کا نکاح ہوا کسی کیس کے سلسلے میں مجرم پکڑنے گیا تھا لڑکی رخصت کرکے گھر لے آیا۔"شمس کا انداز طنز سے بھرپور تھا اب کی بار زولفقار جاہ بلند قہقہہ ہنس دیے۔
"بہت بہتر کچھ وقت وہ اسی سب میں مصروف رہے گا اسی دوران کسی اور کے ذریعے پیسے باہر بھیجوانے ہونگے۔"
"اور ہاں اے ایس پی کو مبارک باد لازمی دینا!"وہ انگلی اٹھا کے باور کراتے ہنس کر اندر کی طرف بڑھ گئے شمس سر ہلاتا رہ گیا۔
                         ★ ★ ★
شہوار جاہ کی قبر پہ حاضری کے بعد وہاں کے گاؤں میں کھانا تقسیم کرنے کی ہدایتیں کرتا وہ داتا گنج بخش کے مزار کے لیے روانہ ہوا تھا۔
لمبی قطار میں گاڑیوں کا پروٹوکول اسکے آگے پیچھے تھا۔گاڑیاں زولفقار صاحب کے اصرار پہ ہی گئیں تھیں وہ ان علاقوں میں ہر گز اسے ایسے ہی بھیجنے کا سوچ نہیں سکتے تھے۔پروٹوکول بھی ضروری تھا میران کو انکی بات ماننا پڑی۔نکلنے سے پہلے انکی عام انداز میں گفتگو ہوگئی تھی گلے مل کر ہی وہ بنگلے سے نکلا تھا۔
   دن کے ساڑھے تین بجے تھے۔سورج سوا نیزے پہ تھا ماحول میں اسکی تپش سے ٹھنڈ میں کمی آئی تھی۔میران کی گاڑی کی کھڑکی پہ سورج کی کرنیں پڑ رہی تھیں۔وہ کالا چشمہ لگائے کہنی کھڑکی سے ٹکائے گاڑی کی پچھلی نشست پہ سفید کرتا شلوار اور شانوں پہ کالے رنگ کی گرم چادر پھیلائے ہوئے تھا۔گھر سے باہر عموماً اسکا لباس کرتا شلوار ہی ہوتا تھا خاص کر سفید رنگ میں!
  مزار پہ پہنچ کر اس نے سیدھا اندر حاضری لگائی تھی۔بزرگ کی قبر کے پاس فاتحہ پڑھی اور باہر صحن میں نکل آیا۔مزار پہ الگ ہی آج ہجوم جمع تھا۔اسکے گرد سخت سیکورٹی تھی لوگ اسکو پہچان کر خوشی سے اسکے قریب آتے۔پر گارڈز کی مقرر کردہ حدود سے آگے کوئی بڑھ کے مل نہیں پاتا۔کوئی دعائیں دیتا تو کوئی بوڑھی مائی اسکی نظر اتارتی۔وہ مسکرا کر سب کے پیار کا جواب دیتا رہا۔موسم کو دیکھ اس نے شال اب پیچھے گردن سے گزار کے ڈالی ہوئی تھی۔
بہت اچھا لگ رہا تھا!
دلکش!
مزار پہ عموماً لنگر ہوتا رہتا تھا پر آج خصوصی کیا جارہا تھا۔کافی دیر میں لوگوں کا ہجوم اسکے پاس سے کم ہوا اور وہ آگے بڑھا تھا۔
ہر ایک کے ہاتھ میں لنگر کی تھیلیاں تھیں زیادہ تر غرباء ہی اسے نظر آئے۔سیڑھیوں سے اتر رہا تھا نظر ایک بچے پہ پڑی جو چپ چاپ سامنے دیوار کو نقطہِ نظر بنائے ہوئے بیٹھا تھا۔میران کے قدم ٹہھر گئے۔جہاں ہر فرد بھاگ دوڑ میں مشغول تھا وہاں یہ بچہ سب سے الگ تھلگ سوچ میں غرق دکھا۔
ناجانے میران کے دل میں کیا سمائی وہ اسکی طرف بڑھ گیا۔عزیز سب سنبھال رہا تھا میران کا گارڈز کو وہیں ٹھہرنے کا کہنے پر اسکے ساتھ ہی چل دیا۔
وہ بچہ دیوار سے کمر ٹکائے گھٹنے موڑے اداس سا بیٹھا تھا۔میران نے عزیز کو دیکھا پھر بچے کے پاس گھٹنے کے بل پنجے جما کر بیٹھ گیا۔
میران کو دیکھ وہ بچہ وہ فوراً سیدھا ہوا۔
کافی کمزور سا بچہ تھا۔
"کیا سوچ رہے ہو؟تم نے کچھ لیا نہیں؟"اس بچے کو خالی ہاتھ دیکھ کر اسکے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیر کے میران نے استفسار کیا۔وہ سر جھکا گیا۔
"نہیں۔آپ وڈے سائیں کے بیٹے ہو نا جی۔"اس نے پہچانتے ہی دھیمے سے کہا میران نے سر ہلایا۔اس بچے کے چہرے پہ خوشی دوڑ گئی میران کے لبوں پہ یہ دیکھ ہلکی سی مسکراہٹ در آئی۔
"آپکے پاس بہت طاقت ہوگی آپ میری مدد کریں گے؟"وہ کافی ڈر کے بولا میران نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کے تسلی دی وہ اس بچے کو غور سے دیکھ رہا تھا جو کافی پریشان سا محسوس ہوا۔یقیناً کچھ اہم بات تھی۔
"تم کو پیسے چاہیے کیا؟"عزیز جو پیچھے کھڑا تھا بچے کو دیکھتا بولا۔بچے نے نا میں سر ہلایا میران کو بھی اب تشویش ہوئی۔
"میری بہن....."اس نے اتنا ہی کہا اور آواز لڑکھڑا گئی میران اس بچے کے قریب ہوا جو میلے کپڑوں میں تھا۔
"آرام سے بتاؤ پوری بات جب ہی تو میں مدد کرسکوں گا۔"اس نے بچے کو پچکارا۔
"پاس ہی میرا گوٹھ ہے وہاں میں اور میری بڑی بہن رہتے ہیں۔ہم محنت مزدوری کرکے گزارا کر لیتے ہیں پر۔۔"وہ بچہ بتانے میں جھجھک رہا تھا گھبرا رہا تھا۔
"پہلے مجھے اپنا نام بتاؤ۔"میران نے اسکے بازو تھام لیے۔
"خضر۔"
"نام اتنے بہادروں والا اور ایسے ڈر رہے ہو۔۔صاف صاف بتاؤ ہچکچاؤ مت ورنہ ہم مدد کیسے کریں گے۔"نرمی سے اس نے بچے کو سمجھایا وہ سرہلانے لگا۔
"گوٹھ میں ایک آدمی رہتا ہے پہلے میں اسکے ہاں کام کرتا تھا پھر چھوڑدیا۔وہ میری بہن کو پسند کرتا تھا اور کہتا تھا اسے لے جائیگا مجھے بہت غصہ آتا تھا میں نے وہاں سے کام چھوڑ دیا پر اس نے میری بہن کا پیچھا نہیں چھوڑا۔اور..."وہ پھر رک گیا میران نے اسے گھورا تو اسکے رعب سے بول پڑا۔
"اس نے میری بہن کے ساتھ گھر میں گھس کے زبردستی کرنے کی بھی کوشش کی بہت پریشان کرتا ہے اسکو۔"وہ سات سالہ بچہ جیسے تیسے بول گیا۔اسکی یہ بات سن کر میران کا خون کھول اٹھا شریانیں تنگ گئیں۔
"میں چاہتا ہوں آپ ہماری مدد کریں۔اس سے جان چھڑا دیں تاکہ ہم دونوں سکون سے رہ سکیں۔"اس بچے کی آنکھوں میں ایک آس تھی پانی کے ننھے قطرے تھے۔میران نے اسے گلے لگایا اور پیٹ تھپکی۔
"تم واقعی بہادر ہو،تمھاری بہن کہاں ہے؟"
"آتی ہی ہوگی لنگر لینے گئی تھی۔"سر کھجاتا وہ بولا تھوڑی ہی دیر میں ایک کم عمر لڑکی اس بچے کے پاس آکر بیٹھی تھی۔میران کو دیکھ کر اس نے بچے سے اسکا پوچھا۔
"چھوٹے سائیں ہیں جی یہ۔ہماری مدد کریں گے۔"وہ چہک کر امید سے بتانے لگا میران مسکرایا اس لڑکی کو دیکھا جو بمشکل سولہ سال کی ہوگی۔کافی خوبصورت تھی اوبھرے ہوئے چہرے کے نقوش پرکشش گلابی چہرہ۔آدھا معاملہ وہ ویسے ہی سمجھ گیا تھا۔جس چہرے پہ خوشی کی رمق ہونی چاہیے اس بچی کے چہرے پہ ویرانیت تھی۔اسے بے ساختہ رومائزہ یاد آئی تھی۔میران نے فوراً خیال جھٹکا۔
"عزیز ان دونوں کی حفاظت کی ذمہ داری اب تمھاری ہے۔دونوں کو شہر لے چلو اور اس آدمی کو جلد از جلد تلاش کرو۔"اس بچے کے مطابق وہ آدمی گوٹھ سے باہر گیا ہوا تھا۔میران نے عزیز کو حکم دیا اور کھڑا ہوا ان دونوں بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھا اس لڑکی کو مسکرا کے دیکھا۔
"ابھی ان آنکھوں نے دنیا دیکھنی ہے ان میں اداسی اچھی نہیں لگ رہی،،اپنا اور اپنے بھائی کا خیال رکھنا۔کچھ بھی چاہیے ہو تو عزیز کو بتادینا۔اور یہاں کوئی اسکول تو ہے نہیں شہر جاکے اب اسکول میں اچھے سے پڑھائی کرنا!"
وہ ان بچوں کا مستقبل خراب ہوتے ہر گز نہیں دیکھ سکتا نا ہی باقی بچوں کا۔۔یہ ایک کیس اسکی آنکھوں کے سامنے آیا تھا ایسے کئی اور ہونگے۔اب وہ اس گوٹھ میں کام کروانے کا ارادہ کرچکا تھا۔اسکول اور ہسپتال کی تعمیر غریب عوام میں تعلیم و شعور کا پھیلاؤ!
"سائیں سورج ڈھلنے لگا ہے ہمیں چلنا ہوگا۔"عزیز کے کہنے پہ میران نے سر ہلایا۔
عزیز نے ان بچوں کو شہر بھیج دیا تھا باقی میران کا ارادہ گوٹھ کا چکر لگانے کا تھا پر ڈھلتے سورج کو دیکھ اس نے فیصلہ ترک کیا اور عزیز کو فارم ہاؤس جانے کا کہا۔اس نے ساری محافظ گاڑیاں واپس روانہ کروادی تھیں۔
مزار کا فاصلہ بنگلے اور فارم ہاوس دونوں سے ہی دور تھا۔
کافی دن بعد اس نے رومائزہ سے ملنے کے لیے وقت نکالا تھا اور اسے معلوم تھا شہوار جاہ کی برسی پہ حلیمہ بی بھی اسکی منتظر ہونگی۔
    عزیز گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور میران نے میوزک سسٹم میں غزلیں لگا دی تھیں۔وہ آنکھیں موندیں سیٹ پہ پشت ٹکائے بیٹھا تھا۔
عزیز نے اس پہ نگاہ ڈالی اطمینان سے بھرپور مسکراہٹ اسکے چہرے پہ  آگئی۔اسے بھی اندازہ تھا میڈم سے ملنے کے لیے چھوٹے سائیں کا دل کس تیزی سے دھڑک رہا ہوگا۔
بے بس اتنے ہیں تیرے عشق میں
ترس سے جاتے ہیں گفتگو کے لیے
وہ بھی اس کی طرح محبت پہ یقین نہیں کرتا تھا پر میران کو دیکھنے کے بعد اسے محبت سے خوف آتا تھا انسان کو نا ملے تو گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے۔
مزار سے کچھ دور تک گاڑی پہنچی تھی علاقہ سنسان تھا اردگرد جنگل سا موجود تھا۔
اچانک گولیوں کا شور اٹھا۔بیک وقت میران اور عزیز چونکے تھے۔عزیز نے اسپیڈ بڑھا دی۔
پہلے گولی ٹائر پہ ہی لگی تھی۔گاڑی لڑکھڑاتی اس سے پہلے عزیز نے بریک مار کے روکا۔
اندھیرا بڑھ چکا تھا پر اندازہ لگایا جاسکتا تھا کس طرف سے فائرنگ شروع ہوئی ہے۔
"سائیں آپ جھک جائیں۔"عزیز گاڑی سے اترنے لگا۔
"عزیز پاگل مت بنو،،اپنی گن نکالو۔"میران نے اپنی گن لوڈ کر کے اپنی جانب سے بھی جھاڑیوں کی طرف فائرنگ شروع کردی تھی۔
پر شاید شوٹرز پورے اہتمام کے ساتھ طاق لگائے بیٹھے تھے۔ہر جانب سے شیشوں پہ گولیاں چلیں۔وہ دو اندھیرے میں کتنے نشانے لگا سکتے تھے۔
ڈرائیونگ سیٹ کا شیشہ توڑ کر گولی عزیز کے کندھے میں جا لگی۔وہ درد سے کراہ اٹھا پھر بھی اس نے اپنی جانب سے فائرنگ روکی نہیں تھی درد کی لہر بڑھتی گئی۔شیشے کے ٹوٹنے سے دونوں کے زخم آئے تھے۔
    اور پھر شوٹرز کا نشانہ بلکل سہی جگہ جا لگا۔دو گولیاں چلی تھیں جو سیدھا میران پر وار کر گئیں۔اب انکی گاڑی میں سے گولیاں چلنی بند ہوگئیں۔
اور پھر باہر بھی یک دم سناٹا چھا گیا ہر طرف تاریکی پھیل گئی۔اردگرد آبادی میں گولیوں کی آواز پہ شور برپا ہوا۔اور پھر گولیوں سے چھلنی چھلنی گاڑی نیوز چینلز کی زینت بنی تھی!
گولیوں کے شور پہ میران کی بھیجی سیکورٹی کی گاڑیاں الرٹ ہو کر وہاں کو روانہ ہوئیں گارڈز جو سوچ رہے تھے دعا تھی وہ نا ہی ہوا ہو ورنہ انکو زولفقار جاہ کے غضب سے خوف آرہا تھا۔
                             ★ ★ ★
کیک بیک ہوچکا تھا کریم کی ٹوپنگ کرکے اس نے اسے کافی دیر پہلے ہی فریز کردیا تھا۔حلیمہ بی مغرب پڑھنے کمرے میں گئی تھیں۔آج اسکے موڈ میں معمولی سی خوشگواری تھی جیسے کچھ بدلاؤ آیا ہو۔
اس نے وقت دیکھا اور کمرے سے نکل کر کچن میں آگئی۔فریج سے چاکلیٹ کیک نکالا۔اسے ٹرے میں رکھ کے لاؤنچ کی طرف آئی۔ٹی وی اسکرین آن تھی۔سرسری سی اسکی نظر نیوز چینل پہ پڑی اور پھر وہیں جم گئیں۔
کیک کی ٹرے لڑکھڑاتی اس سے پہلے ہی اس نے کیک ٹیبل پہ رکھ کے ریموٹ اٹھا کے آواز کھولی تھی۔
"ناظرین خبر دیتے چلیں وزیر اعلیٰ کے بیٹے میران جاہ کی گاڑی پہ نا معلوم افراد کا فائرنگ سے حملہ!ذرائع کے مطابق اطلاع ملی ہے کہ اس وقت انھیں اسپتال لے جایا جا چکا ہے۔"اینکر تیزی میں بول رہی تھی اور یہ وہ لمحہ تھا جو رومائزہ کی سانسیں مدھم ہوئیں وہ گنگ ہوگئی سماعت پہ یقین نہیں آیا تھا۔
منظر پہ میران کی گاڑی تھی جو گولیوں سے بھونی جا چکی تھی۔سڑک پہ گرا خون البتہ میران اور عزیز میڈیا کی کووریج میں نا آسکے تھے ایمبولینسز میڈیا سے پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔
جائے وقوعہ جگہ پہ نیوز کاسٹر کھڑا تفصیل بتا رہا تھا پولیس نے جگہ کو زیر تفتیش لے لیا تھا۔لوگوں کا شور بہت تھا اور وہ مزید سب دیکھ نہ سکی کان شور سننے کے قابل نہ رہے۔سن ہوتے دماغ کے ساتھ آنکھوں کے سامنے اسکرین بھی دھندلیا گئی منہ پہ ہاتھ رکھ کہ وہ لڑکھڑائی۔قدم بے جان ہوگئے۔
ریموٹ صوفے پہ پھینکا اور الٹے قدموں اپنے کمرے میں بھاگی تھی زور دار آواز سے اس نے دروازہ بند کیا اور بیڈ پہ بیٹھ کے گہری گہری سانسیں لینے لگی۔
جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور منہ سے لگا لیا۔یہ اچانک کیا ہوگیا تھا اسکو گولی کیسے لگ سکتی تھی۔وہ ہاتھ بیڈ پہ جمائے کانپتے ہوئے آگے پیچھے حرکت کیے سانس لے رہی تھی۔کیا اسکی بد دعاؤں میں اتنا اثر تھا کہ وہ اس طرح...نہیں نہیں۔اس نے خود کو کوسا اب تو وہ اسے معاف کر چکی تھی۔
"اللہ اس پہ رحم کردے۔"آنسو ٹوٹ کے رومائزپ کی آنکھ سے گرا۔وہ اسے کہتی تو دشمن تھی پر اسے مرتے دیکھنا قبول بھی نہیں تھا۔
نا میران سے نفرت رہی تھی نا ہی محبت ہوئی وہ درمیان کی راہی تھی اور نا ہی اتنی پتھر دل تھی جتنا ظاہر کرتی تھی،،دل چیخ اٹھا کئی خراشیں روح میں لگی تھیں۔
حلیمہ بی نے اسکو اس طرح جاتے دیکھا وہ بھی پریشان ہوگئیں اور نیوز دیکھنے کے بعد انکا بھی رومائزہ سے مختلف حال نہ ہوا۔
                          جاری ہے.......

Extremely sorry for late episode..

Ab ap log comments ki taraf rukh krein..sb k sb comments kia krein mujhy maza ata hai hosla barhta hai..🤝
Must tell me how's the episode??
Don't forget vote!!
Sb reviews dena wrna meeran ko mardongi..lol

"KIA MEERAN KO WRITER MARNY KA IRADA RKHTI HAIN?
JANIYE AGLI EPISODE MAI!!"

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now