قسط 15 ساون

619 54 8
                                    

                           ★ ★ ★
دھوپ کھڑکی سے گرزتے سیدھی بیڈ پہ گر رہی تھی۔کئی کتابیں بیڈ پہ پھیلی تھیں اور وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے انوش سے باتوں میں محو تھی۔
"مبارک ہو تم کو۔"فون کی دوسری پار سے انوش کی خوشگوار آواز سنائی دی۔عائشے نے اسے اتنا بتا دیا تھا کہ مراد اور اسکے درمیان سب ٹھیک ہوگیا ہے۔
"اب باقی گھر والوں کی ٹینشن مت لینا تم۔ آہستہ آہستہ وہ سب بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔میں نے کہا تھا نا کہ مشکل وقت گزر جائے گا۔"منہ میں گول گپہ رکھتے اس نے کہا۔عائشے اسکی آواز پہ بدمزہ ہوئی۔
"پہلے کھالو پھر بول لینا۔یہ بتاؤ سر نے جو اسائمنٹ دیا ہے کب تک جمع کروانا ہے؟"
"ایک ہفتے کا ٹائم دیا ہے آرام سے بنا لیں گے۔اچھا تم وہ بات بتاؤ جو تم یونی میں بتانے لگی تھیں۔"اس نے پھر گول گپے کے پانی میں گول گپہ ڈبویا تھا اور منہ میں رکھا۔عائشے اسکے یاد دلانے پہ سوچ میں پڑ گئی۔
"میری بات کو سیریس لو گی اور غصہ بلکل نہیں کروگی!"اس نے انگلی اٹھا کے کہا جیسے انوش فون کے پار نہیں سامنے بیٹھی ہو۔
"تمھاری بات پہ ڈیپینڈ کرتا ہے۔چلو بتاؤ،کہیں محمل کی بات تو نہیں؟"اس نے اچھنبے سے پوچھا۔
"نہیں،اسکو تو میں اب خود ہینڈل کرلونگی۔میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔ابھی کچھ دن پہلے سوات جب گئی وہاں۔"وہ ناخن چبانے لگی۔
"تو؟"انوش نے آنکھیں چڑھائیں۔عائشے نے سانس فضا کے سپرد کی۔اس نے رومائزہ اور انوش کو اپنے بچپن کا حادثہ نہیں بتایا تھا نا ہی وہ اس خواب کا ابھی اس سے ذکر کرنے والی تھی۔اسکا بھیانک ماضی صرف اسکا شوہر جانتا تھا۔اسے معلوم تھا اگر وہ بتا بھی دیتی تو اسکی دوستیں اسکے ساتھ کھڑی ہوتیں۔پر وہ ماضی کو ادھیڑنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
عائشے نے کچھ دیر سوچا۔یہ دوسری رات کا خواب تھا جو وہ بری طرح حواس باختہ سی اٹھی تھی۔
"یار میں نے ایک بہت برا خواب دیکھا تھا۔اور تمھیں پتا ہے میرے خواب تقریباً سچائی کا روپ دھار لیتے ہیں۔"
"کوئی آستانہ لگا کے بیٹھ جاؤ تم۔یار بتا بھی دو کیا دیکھا.....اور رہنے دو تمھارے خواب سچ ہوجاتے ہیں۔"اسکی نقل اتار کے انوش نے کہا عائشے نے تیوری چڑھائی۔
"ہوا تھا جو شادی والی رات دیکھا تھا ایسا ہی تھا کہ وہ روغن مجھے چھوڑ رہا ہے۔اور دیکھو کیا ہوا تھا۔"
"اتفاق بہن اتفاق!اکثر ہوجاتا ہے اللہ سگنلز دے دیتا ہے۔اچھا چلو اپنا خواب سناؤ۔"
"یار مجھے لگتا ہے روما کسی مشکل میں ہے۔"
"واٹ؟"
"میں نے اسے ایک بند کمرے میں دیکھا اور ایک جھری میں سے سفید روشنی آرہی تھی اور وہ روشنی کسی شخص کے چہرے پہ پڑ رہی تھی۔وہ جس کرسی پہ بیٹھی تھی اسکے پیچھے کوئی کھڑا تھا۔اور وہ...."اس نے سٹکی نگلی۔
"بولو..."انوش کو تجسس ہوا۔
"وہ پتا ہے کون تھا!میران جاہ۔"اس نے ناخن چبائے دوسری پار انوش کا بری طرح قہقہہ گونجا۔عائشے نے دانت پیس کے فون دیکھا۔
"یار میں سیریس ہوں بہت۔اسکے بعد سے یہ سوچ کے میرا دل بھی خراب ہوتا ہے۔روما سے کوئی کانٹیکٹ نہیں ہمارا پتہ نہیں وہ کیسی ہو۔انکل بھی زیادہ کچھ نہیں بتاتے۔"
"یار عائشے کیا ہوگیا وہ صرف ایک خواب ہے۔"
"ہاں تو ایسا خواب کیوں آیا۔چلو آگیا پر میران جاہ ہی کیوں نظر آیا۔وہ ایک مشہور سیاستدان ہے ہم غریبوں کے خواب میں اس طرح کیوں آئے گا؟"
"تمھارے خواب میں آنے کیلئے اسے ٹیکس دینا ہوگا؟یار ایسا ہوجاتا ہے۔سوات جانے سے پہلے ہماری میران جاہ سے ملاقات ہوئی تھی نا۔وہی تمھارے ذہن میں ہوگی جب ہی ایسا خواب آیا۔"
"نہیں انوش۔میرا دل نہیں مانتا۔مجھے شادی سے پہلے بھی خواب ہی آیا تھا اور ویسا ہی ہوا۔"
"عائشے ہم جو سوچ رہے ہوتے اکثر وہی سب ہمیں خواب میں دکھتا ہے۔میں نے تم کو ایک لڑکی کے اغوا ہونے ناول کی کہانی سنائی تھی تم نے سب ایمیجن کرلیا ہے اور کچھ نہیں۔الٹا سیدھا مت سوچو۔میں احتشام انکل سے ملنے جاؤنگی....روما کی خیریت پوچھنے بسس۔"
"اچھا..."اسکا اتنا سمجھانے پہ وہ خاموش ہوگئی پر دل کو تسکین نہیں ملی تھی کچھ بھی برا ہونے سے پہلے اسکا دل عجیب وسوسوں کا شکار ہوتا تھا۔جس دن اسکا نکاح تھا خواب دیکھنے کے بعد وہ ذہنی کشمکش کی شکار تھی۔پر انعم بیگم نے اسے سمجھا بجھا دیا تھا کہ تھکن کی وجہ سے الٹے سیدھے خواب آجاتے ہیں اور اب چند دن تک وہ اپنے معاملات میں الجھ کر یہ خواب بھول گئی تھی پر چونکہ مراد اور اسکا تعلق مزید بہتر ہوگیا تھا الٹی سیدھی سوچیں سوچنے کو ختم ہوگئی تھیں تو رومائزہ والا خواب بے وقت یاد آنے لگتا۔
     انوش نے فون رکھ دیا تھا کافی دیر کے مراقبے سے وہ باہر نکلی۔رومائزہ کو لے کر فکر مند وہ بھی ہوئی تھی۔"اففف...اللہ ہم تینوں دوستوں کی حفاظت فرما۔"خیالوں کو جھٹک کے وہ واپس گول گپوں میں لگ گئی تھی۔
                            ★ ★ ★
زرپاش نے عائشے کو کچن میں بلایا تھا اب وہ گھر داری سیکھ رہی تھی۔زرپاش اسے ہدایتیں کر رہی تھیں اور اسکا سر مسلسل اثبات میں ہل رہا تھا کہتے ہوئے۔"جی آنٹی..اوکے آنٹی...سہی سہی....میں سمجھ گئی آنٹی۔"
آلو گوشت کے لیے پیاز فرائی کرکے انھوں نے پین ایک طرف کیا تھا۔عائشے نے سنہری بھوری پیاز الگ ڈش میں نکالی اور گرم تیل والا پین سنک میں ڈال کے اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے پانی کا نل کھول دیا۔گرم تیل میں پانی گرنے کی دیر تھی پانی کا ناچ شروع ہوگیا،سب دھواں اڑاتا شور مچاکے چھلکنے لگا۔عائشے چیخ مار کے پیچھے ہٹی۔زرپاش بھی گھبرا کے اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔سنک میں پڑے پین کو دیکھا نل سے پانی بہتا پین میں گر رہا تھا اردگرد دھواں جمع ہوگیا۔پین جب ٹھنڈا ہوا زرپاش صاحبہ نے جاکے نل بند کیا ایک نظر عائشے پہ ڈالی جو ہکا بکا ڈانٹ سننے کے لیے تیار کھڑی تھی۔اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا تیل میں پانی گرنے سے ایسا تہلکا کچن میں مچ جانا ہے۔پتا تو تھا گرم تیل میں پانی گرنے سے کیا ہوتا ہے پر اس وقت بے دھیانی میں کچھ سوجا ہی نہیں۔
"گرم تیل سے لت پت پین پہ پانی نہیں ڈالتے۔تھوڑی تو عقل استعمال کرلیتیں۔صرف وہی کرو جو میں کہوں ورنہ کیا سے کیا کردوگی۔حد ہوتی ہے اتنا بھی معلوم نہیں۔"اسے ڈانٹتے ہوئے آخر میں وہ بڑبڑائیں عائشے کی سٹی گم ہوگئی۔باقی پھر وہ چپ چاپ انکے ساتھ لگی رہی اور تھک کے کمرے میں آکے اوندھے منہ بیڈ پہ گر گئی۔
آنٹی کی ڈانٹ دل پہ لگی تھی اس نے فوراً انعم کو فون لگایا۔چند بیلز کے بعد کال ریسیو ہوگئی تھی۔"آگئے تمھارے سسر؟اور کل کھانا کیسا بنایا؟"انعم کا سوال سنتے ہی اسکا منہ اتر گیا۔اور پھر اس نے الف سے یے تک پوری کہانی سنا ڈالی۔
"امی انھوں نے اتنا ڈانٹا ہے مجھے۔بندا تھوڑا تو لحاظ کرتا ہے۔"
منہ بسورے وہ بتانے لگی۔انعم نے فون پہ ہاتھ جمایا۔
"اس میں برا لگنے والی کونسی بات ہے؟"
"پر امی..."عائشے نے بات درمیان میں کاٹی۔
"میں تمھیں نہیں ڈانٹتی کیا؟ماں اگر اولاد کو ڈانٹ دے تو مسئلہ کیا ہے؟ماں تو ذولاد کی اصلاح ہی کر رہی ہوتی۔تم انکو ساس کے علاوہ ماں کے طور پہ دیکھو پھر تمھیں کوئی شکوہ نہیں ہوگا۔"وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں عائشے کی طرف سے کوئی جواب نا آنے پہ مزید کہا۔وہ غور سے سن رہی تھی۔
"عائشے میری سنو اب تم بیاہ دی گئی ہو اس گھر کو اپنا سمجھو ان سب کی ہوجاؤ اور انکا اپنا بنا لو۔ایسے تم بات بات پہ مجھ سے شکایتیں کروگی تو تمھارا رشتہ خراب ہوگا۔جن رشتوں میں بیٹیاں ماؤں کو درمیان میں لاتیں اور مائیں اگر سمجھداری کا مظاہرہ نہیں کرتیں تو رشتے بگڑتے ہیں۔ہم نے تم پہ اپنے گھر کے دروازے بند نہیں کیے۔پر اب اصلی گھر تمھارا وہ ہے۔تم کو جیسے میری ڈانٹ سننے کی عادت ہے میرے ڈانٹنے کا برا نہیں لگتا کیونکہ مجھے حق حاصل ہے ایسے ہی وہ بھی ڈانٹ دیں تو منہ مت پھلاؤ۔صرف اگلا ہی رشتوں کے استحکام کے لیے نہیں بدل سکتا ہمیں خود کو بھی بدلنا پڑتا ہے۔"عائشے غور سے انکی نصیحتیں سن رہی تھی جب وہ خاموش ہوئیں تو مسکرادی۔
"تھینک یو امی۔"اس نے اتنا ہی کہا انعم مسکرا دیں انکی بیٹی سمجھدار ہوگئی تھی فوراً ہی سمجھ گئی۔
"بیٹا گھر بسانے کے لیے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔شادی کے شروع کے سال تھوڑے مشکل ہوتے ہیں پر اگر لڑکیاں سسرال میں گھل مل جائیں تو باقی زندگی آسانی سے کٹ جاتی ہے۔"
"سمجھ گئی امی میں سب۔اور مجھے یہ سب پتا تھا میں نے تو بس آپکو ایسے ہی بتادیا۔"اس نے سر کھجایا انعم بیگم ہنس دیں۔
"اچھا چلو میں فون رکھتی ہوں پڑوس میں جانا ہے انیسہ کی بیٹی کی آج منگنی ہے۔تمھیں بھی وہ یاد کر رہی تھی۔"وہ گود میں کپڑے پھیلائے ہی بیٹھی تھیں۔
"اوہہہ...میری طرف سے مبارکباد دے دیجئے گا۔اللہ حافظ۔"کال منقطع کردی اور آرام سے بیڈ پہ سیدھے بیٹھ کے موبائل میں لگ گئی۔
                            ★ ★ ★
زرپاش فارغ ہوکے کمرے میں داخل ہوئیں ارباز دمیر خبریں سن رہے تھے۔زرپاش نے آتے ہی عائشے کے متعلق بولنا شروع کردیا تھا۔ارباز صاحب لب دبائے بیوی کی سنتے رہے پھر سائڈ دراز سے اپنا چشمہ اٹھا کے ناک پہ بٹھایا۔
"بہو کی اتنی شکایتیں جمع کر رکھی ہیں آپ نے....بچی ہے سیکھ جائے گی آپ اتنا غصہ مت کریں۔"ارباز نے تسلی دی زرپاش صاحبہ بیڈ پہ بیٹھ گئی تھیں۔گردن موڑ کے انھیں دیکھا۔
"غصہ نہیں بس ذکر کر رہی ہوں۔"انھوں نے تصیح کرتے کہا۔
"آپ اتنی سخت ساس بنیں گی مجھے امید نہیں تھی۔کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ وہ آپ سے ڈرتی آپکے کچھ کہنے پہ گھبرا جاتی ہے۔ایسا وہ ہمارے ساتھ تو نہیں کرتی۔"انھوں نے اسکرین سے نظریں پھیر کے انکے چہرے پہ مرکوز کرلیں۔جامنی کاٹن کے سادھے سے جوڑے میں ملبوس تھیں بھورے لال مکس بال تھے جو کیچر میں مقید کیے ہوئے تھے۔
"بلاوجہ ڈرتی ہے میں نے اسے کچھ کہا ہی کہاں ہے۔"
"خیر جو بھی ہو میں چاہتا ہوں عائشے کو وہی عزت ملے جو مراد کی بیوی ہونے کی حیثیت سے وہ ڈیزرو کرتی ہے۔اسکے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔اور آپ کا کل بھی اسکے کافی روکھا سوکھا رویہ تھا اور سجل نے تو حد کردی۔یہ لڑکی مجھے ملے تو میں اس سے بات کروں۔کل محب موجود تھا اس نے بھی نوٹ کی ہوگی یہ بات۔"وہ ذرا آگے کو ہوئے زرپاش نے لب ملا کے سامنے دیکھا پھر اٹھ کے بیڈ کراؤن کے ساتھ لگ کے بیٹھیں۔
"ہممم...آپ پریشان مت ہوں۔"
"اچھا میں کیا کہتا ہوں عائشے کے والد اور والدہ کو ڈنر پہ بلالیں؟ملاقات ہوجائے گی۔تاکہ سب جان لیں عائشے ہی اس گھر کی بہو ہے۔"انکے آخری اشارے پہ زرپاش نے گھور کے ارباز کو دیکھا۔
"میں محمل کو لے کر پریشان تھی،میری اسے ہی بہو بنانے کی خواہش تھی۔میں نے ہی اسکے دل میں مراد کا نام ڈالا اور پھر جب عائشے آئی تو مجھے برا لگا اس نے جیسے میری بھانجی کا حق مار لیا ہو۔غلطی میری بھی ہے مراد کی مرضی کے بغیر محمل کو اسکے خواب نا دکھاتی۔کیا کرتی عقل پہ محبت کا پردہ ڈلا تھا اکلوتی بھانجی بن ماں کی بچی ہے۔"
"یہ سب ٹھیک ہے پر عائشے کو اسکا حق دیا جائے۔"
"ارباز صاحب آپ نے تو مجھے ہٹلر سمجھ لیا ہے۔مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔"
"چلیں یہ تو اچھی بات ہے آپ نے دیکھا ہے وہ سب کا خاص کر آپکا دل جیتنے کے لیے کتنی محنت کر رہی ہے۔"مسکرا کر انھوں نے ٹی وی چینل تبدیل کیا۔
"ہاں یہ تو ہے۔کل جو اس نے اپنی چھوٹی سی کاوش کی مجھے پسند آئی۔اور پھر ابھی بھی میرے ساتھ لگی رہی جلد ہی سب سیکھ جائیگی۔اور عائشے کی فیملی کو مراد کی فراغت کے دن کے حساب سے ڈنر پہ بلا لینگے۔"وہ چہرا سائڈ ٹیبل کی طرف کیے ہوئے تھیں ارباز انکی آنکھوں میں دیکھ ناسکے۔انکے کہنے پہ تبسم ہونٹوں پہ جمع ہوگئی۔
                             ★ ★ ★
رومائزہ بہت اٹھلائی اٹھلائی پھر رہی تھی۔کافی دیر سے گنگنارہی تھی حلیمہ بی کی نظروں سے اسکی خوشی مخفی نہیں تھی۔
"آج تو محترمہ کے مزاج الگ چل رہے ہیں۔"سوئیٹر بنتے انھوں نے کہا۔اسکے لبوں پہ مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔
"حلیمہ بی یہ گھر جانے کی خوشی ہے۔"آنکھیں مٹکا کے وہ بولی۔
"اور کوئی وجہ؟"انکی گہری نظریں اسے کنفیوز کرنے لگیں۔
"نہیں۔اسکے علاوہ اور کیا بات ہونی ہے۔"
"وہی جس بات کو سوچ سوچ کے مسکرا رہی ہو۔بلکہ جس شخص کو سوچ کر مسکرا رہی ہو۔"
"ایسا کچھ نہیں ہے حلیمہ بی۔"اس نے سرے سے صاف انکار کیا۔
"میری آنکھوں میں دیکھنا زرا۔یہ تمھارا چہرا اچانک اتنا گلابی کیسے ہوگیا؟"انکی تجربہ کن نظروں سے وہ بچتی بچاتی کھڑی ہوگئی اور کمرے سے نکل کے اپںے کمرے میں آگئی جواب تھا ہی کہاں اسکے پاس۔
"مانا وہ ہینڈسم ہے سب کا آئیڈیل ہے تو کیا محبت ہوجائے گی اس سے؟وہ کرتا ہے نا کافی ہے میرے محبت کرنے سے کیا ہوگا....نہیں نہیں میرا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔"وہ بار بار دہرا کے ذہن نشین کر رہی تھی پر دل یہ بات اتنی آسانی سے مان لیتا کیا؟رڑی رٹائی بات قبول کرنے سے جیسے انکار کردیا تھا۔بہت بے لگام ہوگیا تھا دل۔
"مطلب میں کیسے محبت کر سکتی ہوں؟"اس نے خود سے سوال کیا۔
"کیوں تم انسان نہیں ہوکیا؟"دل سے آواز آئی۔
"پر میران سے محبت نہیں کرنی۔"وہ اٹل لہجے میں خود سے گویا ہوئی۔
"میران میں برائی کیا ہے؟اسکی غلطی یہ ہے کہ اس نے تم سے محبت کی تمھارا تحفظ کیا۔"دل نے اسکے ضمیر پہ گھونسا مارا تھا۔وہ شدید جھنجھلا گئی۔زہن یہ بات قبول کرنے کو راضی ہی نہیں تھا اسکی انا محبت لفظ ہے آڑوں آرہی تھی۔وہ اپنے اس احساس کو کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھی۔
پھر تمام سوچیں جھٹک کے اس نے خوشی سے واپس کمرے میں گول جھومنا شروع کردیا اور کھڑکی کے پاس آکے آسمان کو تکنے لگی۔
اندر کی اداسی مانو ختم ہوگئی تھی وہ سوچوں میں گم گنگناتی گئی گنگناتی گئی...فلکی تارے بھی ٹمٹما رہے تھے ہر چیز اسے خوشی دے رہی تھی۔
                              ★ ★ ★
لائیبریری سے نکل کے سیگریٹ جلاتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔کمرے میں داخل ہوا گلاس گیٹ کھول کے بالکونی میں قدم رکھا اور چاند کو تکتے اس نے کش لگائے تھے۔
"رومائزہ شنواری صرف چند دن کا مزید حجر پھر تمھارا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے پاس آنے کا بندوست ہوچکا ہے۔"سوچوں میں وہ نازک سراپا گھوما تھا۔وہی بارش میں بھیگتی جھومتی ہوئی رومائزہ...کچن میں کھلکلانے والی رومائزہ...نڈر سی رومائزہ۔وہ جی جان سے مسکرایا آنکھوں کی کشش بڑھتی گئی۔
                           ★ ★ ★
آفس ڈریسنگ میں ملبوس بلیک کوٹ کا بٹن درست کرتے وہ اپنے باس کے روم کی طرف کچھ فائلز لے کر بڑھ رہی تھی۔اجازت طلب کرکے اس نے دروازہ دھکیلا اور اندر قدم رکھا۔اندر موجود شخص کو دیکھ چونک گئی۔
"مرتضی انکل آپ یہاں..."اپنی حیرانی پہ قابو پاتے اس نے پوچھا۔
"دائم میرا بیٹا ہے۔"انکل کے اتنا کہنے کی دیر تھی اسکا دماغ تیزی سے چلا تھا۔اسکا زہن ٹھٹکا پھر رگیں تنی۔
"کیسے ہیں آپ؟"اشتعال پہ اس نے قابو کیا اور آرام سے پوچھا۔زبردستی مسکرائی۔
"میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں؟بابا واپس آگئے کیا؟"
وہ اٹھ کے اسکے مقابل آن کھڑے ہوئے۔تھری پیس سوٹ میں ملبوس ارباز صاحب کے ہم عمر ہی معلوم ہوتے تھے۔
"جی وہ آگئے۔بابا نے انسسٹ کیا تھا نا آپکو مجھے ہائر کرنے کے لیے۔"وہ بلا طاق ہمت کرکے الجھن کو پست پشت ڈال کے پوچھ بیٹھی۔مرتضی نے لب بھینچ لیے۔پیچھے سے دائم کمرے میں داخل ہوا۔نیمل اور مرتضی کو ساتھ دیکھ اسکا ماتھا ٹھٹکا چبھتی نگاہ سے نیمل کو دیکھا جو اسے گھور رہی تھی۔آنکھوں میں غصے سے سرخی اتر آئی۔
"نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں۔آپ نے اپلائے کیا تھا تو دائم نے ہائر کرلیا ہوگا۔میں تو اب کم ہی یہاں آتا ہوں دائم نے سب سنبھال رکھا ہے۔"
"مجھے نہیں پتا تھا یہ آپکی ہولنڈگز ہے اور یہ آپکے بیٹے۔"وہ صاف گوئی سے بول کے پلٹ گئی۔دائم نے باپ کو دیکھا جنہوں نے اسے اسکے پیچھے جانے کا اشارہ کیا تھا۔وہ الٹے قدموں اسکے پیچھے روانہ ہوا۔
نیمل راہداری میں ہی تھی تیز قدم لے رہی تھی،دائم اسکی جانب لپکا اور راستے میں حائل ہوا۔
"کدھر؟"
"ختم سب۔ریزائن دیتی ہوں میں۔نہیں چاہیے ایسی کوئی سفارشی جاب مجھے۔"دونوں ہاتھوں کو آپس میں جھڑک کے تالی بجا کے بولی۔وہ شدید غصے کے عالم میں تھی،دائم حیران تھا۔
"آپکا استعفیٰ میں قبول نہیں کرتا اور دو سال کا آپکے ساتھ کانٹریکٹ طے ہوا تھا بلاوجہ آپ بلکل ریزاین نہیں دے سکتیں۔فائلز جو مجھے دینے آرہی تھیں دیتی جائیں۔"اس نے سختی سے کہا نیمل نے تیور چڑھائے۔
"پہلے مجھے یہ بتائیں آپ میرے باس بات کر رہے ہیں یا ڈیڈ کے دوست مرتضی انکل کے بیٹے؟"
"باس بات کر رہا ہوں۔اپنے کیبن میں جائیں فوراً!"اس کا سخت حکمیہ انداز تھا۔
"نہیں جارہی!مجھے نہیں کام کرنا یہاں..."خونخوار نگاہوں سے دیکھتے اس نے فیصلہ سنا دیا۔وہ آگے بڑھی تھی دائم نے اسکا بازو تھام کے چہرہ قریب کیا۔
"مسٹر دائم علی بی ان یور لمٹس!"بازو چھڑا کے وہ واک آوٹ کرگئی۔لمحے کو دائم نے خود کو اس بے اختیاری پہ کوسا اور اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔
مرتضی صاحب سکون سے بیٹھے تھے دائم بالوں میں ہاتھ پھیر کے انکے سامنے صوفے پہ ٹک گیا۔"کیا ہے یہ سب؟"
"میرے دوست کی بیٹی ہے کچھ عرصہ پہلے مجھ سے ملی تھی ارباز کے ساتھ جب ہی پہچان لیا۔اسکے والد بزنس سرکل کے ہی ایک اچھے دوست ہیں زیادہ گہری دوستی نہیں پر اچھی بات چیت ہے۔اسے یہ لگ رہا ہے اسکے بابا نے سفارش کروائی اسکی۔اب بتاؤ تم کیا ایسا ہے؟"
"میں نے اپنی مرضی سے اسے رکھا ہے۔ذاتی طور پہ میں اسکے والد کو جانتا تک نہیں،مجھے اندازہ نہیں تھا یہ ان ارباز دمیر کی بیٹی ہے۔"وہ انھیں بزنس مین کے طور پہ جانتا تھا پر زیادہ نہیں نا ہی کبھی انکو روبرو دیکھا تھا۔نیمل کا معلوم تھا،اور اتنا پتا چلا تھا اسکا بھائی اے ایس پی ہے۔
"اور وہ بے وقوف ریزائن دے کر گئی ہے۔"وہ طنزیہ بولا۔
"وہ غلط فہمی کا شکار ہے ارباز صاحب اسے سمجھا دیں گے۔"اسکے چہرے پہ رقم پریشانی کو بھانپ کے انھوں نے کہا۔
"ویسے ماشاءاللہ سے اسکی بیٹی ہے بہت پیاری ہءم"دائم پہ نظریں جما کے کہا جس نے گھڑی میں وقت دیکھا تھا۔
"پیاری تو وہ ہے پر اٹیٹیوڈ بہت ہے۔"بے ساختہ اسکے منہ سے پھسلا مرتضی نے اسے گھورا تو باپ بیٹے ہنس دیے۔سر پہ ہاتھ پھیرتا وہ کھڑا ہوا اور ٹیبل کی طرف جاکے کچھ فائلز اٹھائیں۔
                             ★ ★ ★
    نیمل کے آنے کا وقت ہوچکا تھا عائشے کمرے سے باہر نکلی۔ابھی راہداری میں ہی تھی محمل اسے زرپاش کے کمرے کی طرف بڑھتی دکھائی دی۔محمل نے اس دیکھ قدم روک لیے اور اسکی جانب بڑھی۔عائشے کی بھنوویں چڑھی۔محمل پاس آکے رک گئی۔اس نے سر تا پیر عائشے کا جائزہ لیا اور تمسخر سے ہنسی۔عائشے طمانیت سے مسکرانے لگی اسکی مسکراہٹ مقابل کے دل میں لگی آگ میں اضافی کر گئی تھی۔
"بہت خوش نظر آرہی ہو۔اپنی دو نمبر ڈرامے بازیوں سے سب کو اپنا دیوانہ بنا لیا ہے پر یہ سب زیادہ عرصے نہیں چلے گا۔مراد تمھیں خود اس گھر سے دھکے مار کے نکالے گا!"وہ غرور سے مخاطب ہوئی عائشے نے دانت پیسے۔بظاہر پرسکون ہی رہی۔
"میرا تو نہیں پر تمھارا وہ دن قریب ہے جب تمھیں یہاں سے دھکے دے کر نکالیں گے۔پتا ہے کس سے بات کر رہی ہو!اس گھر کی اکلوتی بہو ہوں میں مراد کی بیوی!اور میرے شوہر مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر عائشے نے چبا چبا کر کہا محمل کلس گئی۔اسکی چہرے پہ مراد کی دی محبت کے رنگ نمایاں تھے۔محمل کا ہاتھ فضا میں اٹھا تھا۔اس سے پہلے وہ عائشے کے چہرے تک سفر کرتا عائشے نے اسکا ہاتھ جکڑ کے جھٹک دیا اور غصیلی نگاہ سے اسے دیکھا ایک لمحے محمل بھی ڈر گئی تھی۔
"آئیندہ ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کرنا!میں نے پچھلی بار لحاظ کیا تھا کہ تمھارا اس گھر سے تعلق ہے مراد کی کزن لگتی ہو۔بڑی سمجھ کے عزت بھی دی اور آگے بھی دے دیتی پر تم نے اپنے ہاتھوں سے عزت گنوائی۔آئیندہ ہاتھ اٹھایا توڑ کے رکھ دونگی!"
اس نے کھلی دھمکی دی تھی۔چہرے پہ کسی ڈر کے آثار رقم نہیں تھے۔
"مجھے تمھاری عزت کی ضرورت بھی نہیں۔بہت گھمنڈ آگیا ہے تم میں تو،اسے میں توڑ کے رہونگی۔جس شوہر پہ تم ناز کر رہی ہو وہی جب تم سے چہرہ موڑے گا تب تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگا۔"عائشے کے کٹھور لہجے سے اسکے تن میں طوفان سا مچا تھا۔اپنا جواب دے کر وہ زرپاش سے ملے بغیر چلی گئی تھی۔عائشے نے سر جھٹکا۔کیا اسکی دھمکی کو سیریس لینا چاہیے؟کوئی احتیاطی تدابیر لوں کیا؟مجھے مراد پہ یقین ہے وہ اس لومڑی کے کہے میں کبھی نہیں آئینگے،،خود کو تسلی دے کر وہ کچن کی طرف بڑھ گئی۔
      دمیر ہاؤس میں فلحال سناٹا چھایا تھا۔اور یہ سناٹا ختم کرنے والی بس آگئی تھی۔خراب موڈ کے ساتھ وہ گھر میں داخل ہوئی اور لاؤنچ میں چلی آئی۔زرپاش اور ارباز ابھی کمرے سے باہر نکلے تھے رعائشے نے محمل کی آمد کا ان سے ذکر نا کرنا ہی مناسب سمجھا تھا۔
"ارے لڑکی کیا ہوا ہے اتنا غصہ کس بات کاچڑھا ہے؟"نیمل کے آکے بدتمیزی سے بیگ صوفے پہ پھیکنے پہ زرپاش نے سختی سے کہا۔اس نے ایک نگاہ باپ کو دیکھا جو انجان بنے بیٹھے تھے۔
"ڈیڈ آپ نے میرے ساتھ بہت غلط کیا ہے۔میں اپنی محنت سے کچھ کرنا چاہتی تھی پھر بھی آپ نے سفارش لگا دی۔آپ نے جان بوجھ کے مجھے سلور ہولڈنگز میں جاب کا کہا تھا نا!کیونکہ اسکے اونر آپکے دوست ہیں مرتضی انکل!"وہ میں بولے گئی عائشے اسکی بلند آواز سن کے کچن سے لاؤنچ دوڑی چلی آئی۔
"بیٹا میں نے صرف آپکو کمپنیز کے نام بتائے تھے۔میں چاہتا تھا جس جگہ کام کرو وہ محفوظ ہو۔اور اتفاق سے وہیں تمھیں ہائر کرلیا گیا۔"انھوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی پر غصے میں عقل پہ تالے پڑجاتے ہیں اور نیمل کا دماغ بھی کام کرنا بند کرچکا تھا۔
"میں نے اب ریزائن دے دیا ہے...میں اب کہیں اور اپلائی کرونگی!"صوفے پہ ٹکتے کہنیاں گھٹنوں پہ گرا کے اس نے فیصلہ بتادیا۔ارباز نے گہری سانس بھری۔
مراد ڈیوٹی سے آف کر آیا تھا لاؤنچ میں قدم رکھا تھا نیمل کی بات پہ چونک کے اسکے پاس پہنچا اور برابر میں بیٹھ گیا۔
"کیا ہوا ہے بھئی کیوں شور شرابہ مچایا ہوا ہے؟"نیمل کے کندھے پہ بازو پھیلا کر اس نے استفسار کیا۔زرپاش نے نفی میں سر جھٹکا۔اس نے عائشے کو دیکھا جو شانے اچکا گئی تھی۔اور پھر نیمل نے خود ہی ساری کہانی سنا ڈالی۔
"ڈیڈ کہہ تو رہے ہیں انھوں نے تمھاری جاب کے سلسلے میں ان سے کوئی بات نہیں کی۔ایسے تو ڈیڈ کافی لوگوں کو جانتے ہیں تم کہیں بھی جاؤگی وہاں کا مالک ہوسکتا ہے ارباز دمیر نام سے روشناس ہو۔"
مراد نے اسے پیار سے کہا اس نے سر اٹھایا۔
"بھائی میرا انٹرویو اتنا خاص نہیں گیا تھا مجھے امید نہیں تھی وہ ہائر کرلیں گے پھر بھی انھوں نے ہائر کیا۔ہاؤ از ڈیٹ پاسیبل!ڈیڈ نے ہی ان سے بات کی ہوگی نا۔"
"نیمل کنٹرول یور سیلف!ارباز جب منع کر رہے ہیں تو اسکے باوجود تم یقین نہیں کر رہی ہو۔"زرپاش کے ڈانٹنے پہ اسکے بل ڈھیلے پڑے۔ڈیڈ کو دیکھا جو اب بلکل خاموش تھے۔
"انھوں نے کوئی تو قابلیت تم میں دیکھی ہوگی جو متاثر ہوگئے۔اس لیے ہائیر کرلیا۔اور تم بلاوجہ ریزائن دے آئی ہو صرف غلط فہمی کی بنا پہ۔"مراد نے اسے خود سے لگاتے مزید کہا۔اسکی نظریں ارباز صاحب پہ جمیں تھیں۔اب وہ کچھ بول کیوں نہیں رہے تھے وہ اٹھی اور انکے پاس پیچھے سے انکے کندھے پہ سر رکھ دیا۔
"آئی ایم سوری ڈیڈ۔میں نے بدتمیزی کی ہے آپ دونوں سے۔غصے میں مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آیا اور آپکا یقین بھی نہیں کیا۔رائی کا پہاڑ بنا کے بیٹھ گئی اور ریزائن بھی دے دیا۔"انکے کندھے پہ تھوڑی جمائے رکھی تھی ارباز دمیر مسکرادیے اور اسکا دائیں ہاتھ سے چہرہ تھپکا۔
"مرتضیٰ صاحب نے فون کرکے مجھے سب بتادیا تھا۔انھوں نے ریزائن قبول ہی نہیں کیا اور ایسے منہ بولے ریزائن مانا جاتا بھی نہیں۔تمھارے باس نے کہا ہے تم کل سے واپس جوائن کروگی۔"اسکو ہاتھ سے پکڑ کے صوفے کے پیچھے سے انھوں نے سامنے کیا وہ خوشی سے گلے لگ گئی۔عائشے انھیں دیکھ مسکرا رہی تھی اور مراد کے برابر میں بیٹھ گئی وہ وردی میں ملبوس تھا۔نیمل نے واپس مراد کے برابر میں جگہ سنبھالی۔
"ہوگیا مسئلہ حل؟"مراد کے ٹہکوہ مارنے پہ وہ لڑک گئی تھی۔
"بھائی کیا کر رہے ہیں.."وہ اٹھ کے بیٹھی اور گھور کے بولی۔
"عائشے جاؤ چائے بنا دو۔"مراد نے آہستہ آواز سے کہا۔
"میں بنادیتی ہوں۔"نیمل فٹ بولی۔
"میں نے اپنی بیوی سے کہا ہے تم بیٹھی رہو یہاں!"اسے ٹوک کے بیٹھے رہنے کا کہا۔عائشے منمنائی۔
"میں اچھی چایے نہیں بناتی۔"
"ہاں بھابھی ابھی اچھی چائے بنانا سیکھ رہی ہیں میں بنا دیتی ہوں آپکو مسئلہ کیا ہے؟"
"میری بیوی زہر بھی پلائے گی تو پی لونگا تم کو چائے بنانے کا کیا اتنا شوق چڑھا ہے؟عائشے تم کچن میں جاؤ۔"وہ تینوں ایک ہی صوفے پہ بیٹھے کھسر پھسر کرنے میں مصروف تھے۔ارباز اور زرپاش نے اپنے بچوں کو ہنستے ہوئے دیکھا اور واپس اپنی باتوں میں لگ گئے۔
"یار بھائی یہ آج بتا دیں شادی کے بعد کہاں سے آپ نے ڈائلاگ مارنا سیکھ لیے ہیں؟یوں بیوی کی محبت میں لٹو ہو جائینگے ایسی بھی امید نہیں تھی۔یار ایسے کرنجی ڈائیلاگز مت مارا کریں۔"
"بہت زبان چل رہی ہے تمھاری بتاؤں ابھی!"مراد نے اسے گھورا وہ دونوں نند بھابھی دبی دبی ہنسی سے ہنسنے لگیں۔
"مام ایک کپ چائے ملے گی۔"اس نے اچانک انکو مخاطب کیا اسکی فرمائش پہ زرپاش کی نظریں مراد سے اٹھ کے عائشے کی طرف بڑھیں۔
"ہاں میں بنا دیتی ہوں۔"زرپاش پلکیں جھپک کے اٹھنے لگیں کہ عائشے درمیان میں بول پڑی۔
"آنٹی آپ بیٹھیں....میں سب کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں۔"مراد کے یوں کہنے پہ وہ شرمندہ سی ہوگئی۔بیوی کے برابر میں موجود ہوتے ہوئے بھی وہ ماں سے فرمائش کرتا اچھا لگا تھا کیا!
"مراد کے لیے بنادو باقی بس اب کھانا لگے گا۔اور ہاں میں سوچ رہی ہوں کہ ایک دو دن میں تمھارے امی بابا کو ڈنر پہ بلالیں۔"کافی خوشگواری انکے لہجے میں امڈ آئی تھی عائشے کی سماعت کو یقین کرنا مشکل ہوا۔
زرپاش نے مراد کی طرف نظر گھمائی۔
"ہاں یہ اچھا آئیڈیا ہے دونوں فیملیز ایک دوسرے سے مل لینگی!"وہ راضی تھا عائشے نے بھی فٹ ہاں میں سر ہلایا اور خوشی سے چائے بنانے کے لیے بھاگ گئی۔
"ایسے کوئی چائے کے لیے بیوی کو پھنساتا ہے!"نیمل افسوس سے کہتے عائشے کی مدد کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"الائچی لازمی ڈلوانا!"آخر آخر میں بھی مراد نے تاکید کی۔
"نہیں بھائی اس میں اب زہر ہی ڈلے گا!"
                              ★ ★ ★
"حلیمہ بی ایک بات بتائیں یہ سب پینٹینگز یہیں رہ جائیں گی آپ انکا کیا کریں گی؟کباڑے میں تو نہیں ڈالیں گی نا؟"وہ پینٹنگ کا سارا سامان سمیٹ رہی تھی حلیمہ بی اسکی برق رفتاری پہ سر ہلاتی رہ گئیں۔
"تم چاہو تو یہ سب ساتھ لے جاؤ۔"
"نہیں میں کچھ لے کر نہیں جاؤنگی،،بادل دیکھیں کتنے زوروں سے برس رہے ہیں۔"بجلی کی کڑک پہ اسکا دھیان کھڑکی جانب مبذول ہوا۔حلیمہ بی نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔لان کی لائٹس روشن تھی رات کا وقت تھا برسات زور و شور سے ہورہی تھی۔
"پتا ہے دو ہفتے میں سے دو دن تو گزر گئے۔بس اس دن کا انتظار ہے جب گھر جاؤنگی۔اپنا کمرہ ہوگا اپنا بستر اپنی چیزیں۔اور میرا موبائل وہ تو میران کے پاس ہے۔اپنے سائیں کو کہہ دیے گا میرا موبائل لوٹا دے۔"کمرہ صاف کرکے وہ فارغ ہوئی اور بیڈ کے کنارے پہ بیٹھ گئی ہاتھ بھی میٹریس کے اردگرد جما لیے۔حلیمہ بی بار بار گھڑی دیکھ رہی تھیں جیسے کسی کی منتظر ہوں۔رومائزہ نے انکے اس عمل پہ تفتیشی نگاہ سے دیکھا دماغ نے ایک میسج چھوڑا تھا۔اسکے لب کھل گئے۔
اتنے میں باہر سے اسے گاڑی کے ہارن کی آواز بھی آئی۔کان جیسے باہر ہی لگے ہوں۔وہ اچھل کے اٹھی۔حلیمہ بی نے چونک کے اسے دیکھا۔
"کیا ہوا تمھیں؟"
"شاید میران آیا ہے.."خوشی سے اسکے پیر زمین پہ ٹک نا سکے۔
"سائیں کے آنے کی بڑی خوشی ہورہی ہے۔"انھوں نے معنی خیزی سے کہا۔
"ہاں آج پہلی بار بڑی خوشی ہورہی ہے۔شاید وہ مجھے آج گھر چھوڑوادے۔بابا نے پیسے ادا کردیے ہوں!کیونکہ وہ پورے ہفتے بعد آتا ہے اتنی جلدی تو نہیں۔"میران کے متعلق اسے ساری خبریں تھیں۔خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی حلیمہ بی کو وہیں بیٹھا چھوڑ اپنی بات مکمل کرکے کمرے سے نکل کے بھاگی۔دوپٹہ بھی گلے میں آڑا ترچھا پڑا تھا۔وہ لاؤنچ میں آئی تو وہاں کوئی ذی نفس موجود نا تھا۔شاید وہ ابھی باہر ہی تھا۔اتنی تیز بارش میں آیا تھا بے وجہ تو وہ نہیں آتا۔
رومائزہ لاؤنچ سے نکل کر راہداری کے پاس گئی گلاس وال سے جھانکا تھا وہ دروازے کے پاس عزیز کے ہمراہ کھڑا باتوں میں مصروف تھا۔
رومائزہ کو تو پر لگ چکے تھے وہ بس اندھا دھن دروازے کی طرف لپکی۔خوشی اسکے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی دل مسلسل دعا کر رہا تھا کہ جو وہ سوچ رہی ہے میران اسی کام کے لیے آیا ہو۔
آزادی آزادی!
خوشی سے بڑھتے اسکے قدم یک دم دروازے کے پاس ہی رک گئے وہ دروازے کی اوٹ میں ہوگئی۔
چہرے کا رنگ اڑا تھا،،لمحوں میں!
بادل گرجے اسے کپکپی آئی۔
باہر بارش کا شور بھی موبائل کی آواز کو دبا نہیں سکا تھا۔وہ دم سادھے ساکت نظروں سے میران عزیز اور عزیز کے ہاتھ میں موجود موبائل کو دیکھ رہی تھی جس میں کوئی ویڈیو پلے تھی۔وہ مزید آگے بڑھ نہیں پائی۔دروازے پہ اسکی انگلیوں کی گرفت مضبوط ہوگئیں۔
"سائیں مجھے معاف کردیں آئندہ کبھی ایسی غلطی نہیں کرونگا۔یہ ظلم نا کریں...."کوئی شخص مسلسل روتا ہوا اسکے پیروں میں پڑا التجا کر رہا تھا پر مقابل پتھر وجود میں کوئی حرکت نا ہوئی اسکے چہرے کا پتھریلا پن بتارہا تھا اس سے کسی قسم کے رحم کی توقع نا کی جائے۔
"رحم کے تم قابل نہیں ہو...تمھیں تمھاری اوقات معلوم ہونی چاہیے..."
میران نے اسکا کالر دبوچ کے اسکا چہرہ اٹھایا اور اپنی خون میں لیس آنکھیں اسکی آنکھوں میں گاڑ دیں۔رومائزہ تاثرات نہیں دیکھ پائی تھی پر اس آدمی کی سسکیاں اور تڑپ دیکھ کر اسکے بدن میں جھرجھری دوڑ گئی۔دور سے ہی وہ دیکھ سکتی تھی جیسے اسے بہت پیٹا گیا ہو۔ہونٹ سے خون رس رہا تھا۔چہرے پہ ہاتھ سے پڑنے والی مار کے نشان تھے۔
"سائیں میں نے کچھ نہیں کیا چھوڑ دیں معاف کردیں مجھے۔ایک موقع اور دے دیں.."وہ آدمی مزید سسکا۔میران نے اسکی گردن پہ ہاتھ جمادیا۔رومائزہ کے چہرے پہ درد نمایاں ہوا۔
میران نے اسے دور پھینک کے گن نکالی تھی وہ آدمی ساکن نگاہوں سے اسے دیکھتا گیا اور روما اسکرین پہ ساکن نظروں سے دیکھے گئی۔ایک بار اس نے سامنے کھڑے میران کو دیکھا جس کے چہرے پہ بروقت سکون تھا۔کسی پہ تشدد کرنے کے بعد وہ کیسے سکون میں ہوسکتا تھا؟
عزیز نے ویڈیو اسٹاپ کی۔میران نے اسے کچھ ہدایت کی تھی۔
"یہ کمال سردار کو دکھانا اسے اندازہ ہوجائے کہ میران جاہ کون ہے!اور اسکے بعد یہ ویڈیو ڈیلیٹ کردینا کسی کے ہاتھ نا لگے۔"میران نے سختی سے تاکید کی رومائزہ نے پھٹی نظروں سے اسے دیکھا۔کسی پہ ظلم اسے برداشت ہوتا ہی کہاں تھا۔
میران اتنا ظالم کیسے ہوسکتا تھا اسے یقین نہیں آیا۔
عزیز نے پھر ویڈیو چلا دی۔وہ آدمی بہت منتیں کر رہا تھا اسے چھوڑ دیا جائے اسکی غلطی نہیں پر میران نے اسکی ایک نہیں سنی تھی۔ایسا بھی اس نے کیا کردیا ہوگا؟غداری؟تو اس پہ اتنی بڑی سزا بنتی تھی کہ اسے ماردیا جائے؟اسکا دماغ ناجانے کیا کیا سوچنے لگا تھا۔
"سائیں نہیں.."آخری بار وہ آدمی چلایا۔
"منہ بند رکھو اپنا.....مجرم ہو تم...آئندہ ایسی غلطی کرنے کا کوئی سوچے گا بھی نہیں!سزا کی شروعات میں تم سے کرونگا۔رحم لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے!"
اس نے چبا چبا کر غصے سے پھنکارتے گن تان لی تھی۔اور پھر ایک فائر ہوا تھا اور روما منہ پہ ہاتھ رکھ کے پیچھے ہوئی۔دروازے کے ساتھ رکھا گلدان اسکے ٹکرانے سے زمین پہ گرا میران اور عزیز دونوں چونکے عزیز نے موبائل بند کرکے فوراً جیب میں ڈالا۔
میران کی نگاہ رومائزہ کی طرف اٹھی وہ سانس بھر کر رہ گیا۔وہ ساکن کھڑی ساکت نظروں میں خوف و حراس لیے اسے دیکھ رہی تھی۔الٹے قدموں اندر بھاگی حلیمہ بی گلدان ٹوٹنے کی آواز پہ کمرے سے نکل کے آئی تھیں رومائزہ بھاگ کر آتے دیکھا تو ٹھٹھک گئیں اسکے تاثرات ہی اب بدل گئے تھے۔گئی تو بڑی خوش خوش تھی اب چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑگیا تھا۔
"حلیمہ بی اس نے اسے ماردیا۔"وہ کھوئی کھوئی سی انگلی کے اشارے کی مدد سے بولی۔حلیمہ بی سمجھ نا سکیں۔
"حلیمہ بی مم میران نے اس آدمی کو ماردیا وو وہ رحم کی بھیک مانگ رہا تھا پر اس نے ایک نا سنی گولی چلادی....وہ مر گیا۔"اب وہ چلا اٹھی تھی حلیمہ بی نے اسے بازو سے سنبھالا ناجانے وہ کیا دیکھ آئی تھی۔میران تبھی تن فن کرتا اندر آیا تھا وہ وہ کچھ بولتا اس سے پہلے وہ چلا اٹھی۔
"کس قدر ظالم انسان ہو تم۔میں تو تم کو ایک اچھا اور رحم دل شخص سمجھتی تھی جو میرے لیے اتنا کچھ کر رہا تھا پر تم نے سب غلط ثابت کردیا۔سب اچھا بننے کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے نا!"
"دل ہے کہ پتھر ہے؟تم کیسے کسی کو مار سکتے ہو؟"اسکے قریب جاکر بلند آواز سے چیخی۔میران نے ضبط سے مٹھی بھینچی۔
"اپنی بکواس بند کرلو تم!"اس پہ نظریں جمائے کہا اور اپنے شانے جھاڑے۔
"بکواس نہیں ہے یہ سچ ہے۔اپنی آنکھوں سے دیکھ آئی ہوں تم نے گولی چلائی تم نے اسے مارا پیٹا۔قاتل ہو تم!مجھے میرے گھر بھیجو اور جو خواہشات تم نے ذہن میں میرے حوالے سے پال رکھی ہیں بھول جاؤ۔میں کبھی کسی قاتل کی بیوی نہیں بنونگی نا ہی اسکی دی ہوئی چھت قبول ہے!مجھے میرے گھر بھیجو!"اس نے آگے بڑھ کے میران کا گریبان جکڑ لیا تھا اسکے زہر بھرے لفظ میران کے غصے کو ہوا دے گئے۔وہ کافی اسکی بکواس سن چکا تھا۔اسکی ذات پہ وہ ہمیشہ ایسے ہی بنا سوچے سمجھے نشتر چلا دیا کرتی تھی۔سوچنے سمجھنے کے لیے دماغ کا استعمال اس نے جیسے کبھی کیا ہی نا ہو،جنون تھا صرف ایک میں نہیں دونوں میں!اور ایک میدان میں دو تلواریں بھلا کیسے رہ سکتیں ہیں؟
میران نے اسے دیکھا جسکی نگاہوں میں پچھلی بار والی کوئی نرمی نہیں صرف بے اعتباری تھی۔باہر بجلی کے کڑکنے اور بادلوں کے گرجنے کے ساتھ اسکے دل میں بھی چھن سے کچھ ٹوٹا بس آواز صرف وہی سن سکتا تھا۔
"اتنی بے اعتباری پچھتاؤگی تم اب!کسی کو صفائی دینے کا میں پابند نہیں ہوں جو سمجھنا چاہتی ہو سمجھو۔اور یہی قاتل کڈنیپر دنیا کا سب سے برا انسان تمھارا شوہر بن کے رہے گا۔"
لفظوں پہ زور دیتے اس نے کہا۔لب و لہجے میں جنون ضد واضح تھی ایک پل رومائزہ کا روم روم کانپ گیا۔بادلوں کے گرجنے کی آواز آئی۔میران کی اشتعال بھری نگاہیں جسم جھلسا رہی تھیں۔وہ ضبط کر رہا تھا بلکل نہیں چاہتا تھا کوئی نقصان کر بیٹھے۔
"مر جاؤنگی پر تم سے نکاح نہیں کرونگی۔یہاں سے جانے کے بعد پلٹ کے تمھاری شکل بھی نہیں دیکھونگی!"وہ مزید چہرہ اسکے قریب کیے غرا کے بولی۔ماتھے پہ پسینے کی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں۔میران نے جھٹکے سے اسکی کلائی دبوچ کے اپنا گریبان چھڑایا۔
"اچھا پھر تم دیکھتی جاؤ کیسے میں تم پہ قبضہ کرونگا۔نہ میرے نہ ہی اپنے الفاظ بھولنا مت!"انداز میں صاف وارننگ تھی۔
"کیا کروگے زبردستی نکاح کروگے!"وہ پھنکاری میران بنا جواب دیے پتھریلی نگاہوں سے اس دیکھتا باہر کی طرف پلٹ گیا۔روما تیش کے عالم میں کھڑی رہ گئی۔
حلیمہ بی غصے سے اسکی طرف بڑھیں اور بازو سے کھینچ کے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔
     "پاگل ہو کیا تم....بنا بات جانے اس قدر فضول بکواس کردی جھوٹے الزام لگائے ہیں تم نے ان پر!انھوں نے کسی کا قتل نہیں کیا وہ آدمی اس سزا کا حق دار تھا ایک معصوم لڑکی کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی۔اس نے اسکی زندگی جہنم بنا رکھی تھی...."حلیمہ بی آج پہلی بار شدید غصے میں اس سے مخاطب ہوئیں تھیں۔روما بے یقینی سے انھیں دیکھے گئی دل پہ جیسے کسی نے ہتھوڑا مارا تھا قدم لڑکھڑائے۔
"اتنی بے اعتباری کی مجھے تم سے امید نہیں تھی۔تمھیں معلوم نہیں ہے کیا وہ انصاف پسند ہیں کسی کے ساتھ برا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے!وہ برے ہیں صرف بروں کے ساتھ ایسے لوگوں کے لیے حد درجہ تک برے ہیں!"
ایک بار پھر اسکے دل پہ جیسے کسی نے مکہ مارا۔باہر کڑاکے کی بجلی کڑکی وہ مزید پیچھے کی طرف لڑکھڑائی آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی حلیمہ بی پہ اسے یقین تھا۔دروازے سے ایک چھوٹا بچہ اور ایک لڑکی تب ہی اندر داخل ہوئے حلیمہ بی انھی کی منتظر تھیں۔اسے زیادہ دیر مزید سمجھنے میں نہیں لگی وہ اندھا دھن ہی دروازے کی طرف لپکی۔
میران نے غصے میں عزیز سے گاڑی کی چابی لی تھی اور اسے کچھ کہا۔عزیز نے پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھا وہ دم سادھے کھڑا تھا۔بارش نے میران کے ساتھ عزیز کو بھی مکمل بھیگو دیا تھا۔رومائزہ باہر آئی تو وہ گاڑی میں بیٹھ ہی رہا تھا۔
"میران..."اس نے آواز دی پر وہ ٹھہرا نہیں بارش کی باریک بوندیں ہوا کے دباؤ سے اسکے چہرے پہ پڑنے لگیں وہ چھپڑے کے نیچے جا کھڑی ہوئی۔عزیز نے اسے باہر دیکھا نظریں جھکا لیں تمام گارڈز نے چہرہ پھیر لیا تھا۔وہ اندر میڈم کے زہر بھرے لفظ چھوٹے سائیں کے لیے سن آیا تھا۔اس لڑکی پر غصہ اسے بھی آیا تھا۔کیسے بنا تصدیق کیے وہ الزام لگا سکتی تھی۔پر اسے کچھ بولنے کا حق حاصل نہیں تھا۔
"میران آئی ایم سوری میں غلط سمجھی۔میری غلطی ہے۔میران!"وہ بلند آواز سے چیخی پر میران نے جیسے کان سیسہ پلاکے بند کردیے تھے گاڑی میں بیٹھا زور دار آواز میں گاڑی کا دروازہ بند ہوا تھا۔جبڑا بھینچا ہوا تھا،رگیں تنی ہوئی تھیں اس نے گاڑی اسٹارٹ کردی وہ پیچھے چلاتی رہ گئی سوری کرتی گئی پر اس نے ایک ناسنی گارڈز نے دروازہ کھول دیا اور گاڑی حدود سے باہر نکل گئی۔وہ بے ساختہ ٹھنڈے فرش پہ گرنے کے انداز میں بیٹھی۔
"آئی ایم سوری میران میں بہت بے وقوف ہوں معاف کردو مجھے۔"وہ زیر لب شکستہ لہجے میں بڑبڑانے لگی۔اسے کوئی ہوش نہیں رہا تھا کہ کہاں بیٹھی ہے اسے اپنے لفظوں پر شرمندگی نے آن گھیرا۔حلیمہ بی کو اس پہ غصہ تھا پر اسکو سنبھالنے کا کام انکا تھا وہ باہر آئیں۔وہ گنگ بیٹھی اب تک مین دروازے کو تک رہی تھی حلیمہ بی نے بازو سے پکڑ کے اسے اٹھایا وہ انکے ساتھ کھنچتی چلی گئی۔
اندر آئی تو ان دونوں بچوں کو دیکھ اسکا ذہن بھک سے جاگ گیا اس نے تھوک نگلا۔
"وہ میران سائیں بہت اچھے ہیں انھوں نے ہماری مدد کی۔میری بہن کو اس آدمی سے بچایا ہے۔"خضر اسکے پاس آکے بولا ان دونوں کو حلیمہ بی صوفے پہ بیٹھنے کا بول گئیں تھی اسکی بہن انعمتہ بھی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی بہت کنفیوز سی نظر آرہی تھی۔
رومائزہ بمشکل مسکرائی۔اپنی ڈبڈباتی آنکھوں کا پانی اندر اتارا تھا۔
"ہاں میں ہی پاگل ہوں جو اسے غلط سمجھتی ہوں۔حلیمہ بی وہ اب کیا کرے گا شدید غصے میں آگیا ہء اور آپ نے اسکی دھمکیاں سنی ہیں نا....جب میری اتنی بکواس سن لی تو معافی بھی سن لیتا۔"اسے پہلی بار میران کے لہجے سے خوف آیا تھا کچھ تھا جو اسے ڈرا رہا تھا۔وہ بے حد شرمندہ تھی رہ رہ کر خود پہ غصہ آرہا تھا۔وہ غلط کام کہیں بھی ہوتا دیکھتی تھی تو آواز اٹھایا کرتی اور یہی کام اس نے یہاں کیا پر اصل حقیقت کچھ اور ہی تھی۔
اس بار اس نے اپنے پیر پہ خود کلہاڑی مارنے کا کام کیا تھا۔
"اب پریشان ہونے سے کچھ نہیں ہوگا تمھارا معاملہ ہے سائیں کچھ نہیں کریں گے۔انسان اگر کسی کی بارے میں سن لے دیکھ لے تو فوراً نہیں مان لیتے پہلے تحقیق کرتے ہیں۔تم نے حد ہی کردی!اتنا تو تم وقت گزار چکی ہو انکے ساتھ اب تک انکو نہیں سمجھیں!"اسے لاکر انھوں نے صوفے پہ بیٹھایا اور پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھایا۔ایک سانس میں وہ گٹا گٹ سب پی گئی۔
لاؤنچ میں بلکل خاموشی چھائی تھی۔
    عزیز باہر کھڑا تھا۔میران اور عزیز ساتھ ہی اسلام آباد جارہے تھے۔بارش کی تیزی کی وجہ سے ان دونوں کو کچھ دیر یہاں ٹھہرنا پڑا تھا۔پر میران کا ارادہ اندر جاکے کسی سے بھی ملنے کا ہر گز نہیں تھا رومائزہ سے ملتا تو دل بے قابو ہوجاتا۔خضر اور انعمتہ کو گارڈز یہاں لا رہے تھے۔
ان دونوں کی حفاظت کے لیے دورے والے دن ہی میران نے کچھ گارڈز وہاں متعین کردیے تھے۔آج جب وہ آدمی آیا تو گارڈز کے ہتھے لگ گیا تھا۔پر اس سے پہلے ہی اس نے انعمتہ کے ساتھ زبردستی کرنے کوشش کی تھی اسکے شور مچانے پہ سب جمع ہوئے تھے اور گارڈز دروازہ توڑ کے گھر میں داخل ہوئے۔خضر نے اپنی بہن کو بری حالت میں دیکھا تو اسکا جی کانپ گیا وہ انعمتہ سے لپٹ گیا تھا۔وہ بہت سہمی ہوئی تھی۔
اسکی خوبصورتی اسکے لیے خطرہ بن گئی تھی۔گوٹھ میں یہ خبر تیزی سے پھیلی تھی وہاں کا سردار معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا پر میران کے بندوں نے اسکی ایک نا سنی۔وہ آدمی بے انصافی کر رہا تھا۔
اور پھر گارڈز ان تینوں کو اپنے ساتھ ہی لے آئے۔
میران چاہتا کہ کچھ وقت وہ دونوں بہن بھائی رومائزہ اور حلیمہ بی کے ساتھ گزار لیں وہ دونوں انکو اچھے سے سنبھال لیتیں انکا مائنڈ بھی فریش ہوتا اور رومائزہ پہ اسے پورا بھروسہ تھا کہ وہ انعمتہ کو اچھے سے سمجھا لیتی اسے عورت کی طاقت کا بتاتی۔اسی لیے انھیں یہاں بھجوایا تھا حلیمہ بی کو اس نے سارے معاملے کی خبر کردی تھی۔رومائزہ کے شور مچانے پہ فوری طور پہ وہ سب سمجھنے سے قاصر تھیں پر بعد میں جیسے سب سمجھ آگیا۔پر وہ لڑکی کسی کی سن ہی کہاں رہی تھی اور اب پچھتا رہی تھی۔
اچھا خاصا موڈ تھا سب بیڑا غرق کیا تھا اس نے اپنا بھی اور میران کا بھی۔میران کا سوچ سوچ اسکا دل لرز رہا تھا وہ خاموش نہیں بیٹھتا۔پتہ نہیں اسکے ساتھ کیا کرے گا،ایک ڈر یہ تھا کہ ہمیشہ کے لیے یہیں نا روک لے۔اس نے اسکی ذات پہ انگلی اٹھائی تھی کوئی بھی شخص کیسے اتنا برداشت کرسکتا تھا۔پھر اس کے دل نے ملامت کی کہ وہ ایسا ہرگز نہیں کرے گا۔
"اب تم اپنے گلٹ سے باہر نکل آؤ دیکھو مہمان آئے ہیں۔"حلیمہ بی نے اسکا دھیان سوچوں سے ہٹانے کی کوشش کی وہ پھیکا سا مسکرادی۔
وہ لڑکی اپنے ساتھ ہونے والے آج کہ واقعہ سنا رہی تھی۔زیادہ عمر کی نہیں تھی رومائزہ سے چار پانچ سال چھوٹی معلوم ہورہی تھی۔
"سائیں نے اس آدمی کو جان سے نہیں مارا صرف پیر پہ گولی ماری تھی کہ جن پیروں پہ چل کے وہ مجھ تک پہنچا تھا۔وہ بہت برا آدمی تھا جو ویڈیو آپ نے دیکھی اس میں خضر اور میں بھی تھوڑی فاصلے پہ کھڑے ہیں۔میران سائیں بہت غصے میں تھے اور غصہ بلکل جائز تھا وہ درندہ اسی قابل تھا اس نے میرے علاوہ بھی کئی لڑکیوں کے ساتھ برا سلوک کیا ہے۔حد درجے تک زندگی عذاب کردی تھی۔وہ گوٹھ سے چلا گیا تھا کل رات ہی واپس آیا تھا اور آج اپنی حوس مٹانے کا اس نے پورا ارادہ کیا ہوا تھا۔" انعمتہ خاموش ہوگئی۔بارش بھی ہلکی ہوگئی تھی روما کو گھٹن ہونے لگی وہ گلاس وال کے پاس چلی گئی پر سن وہ انعمتہ کی رہی تھی۔
"اگر آج اسے سزا ناملتی تو گاؤں میں سب کو شئے ملتی۔وہاں کا سردار ویسے ہی اپنی من مانی کرتا ہے وہ عورتوں کو اتنی عزت دیتا بھی نہیں۔وہ لوگ بے انصافی کرتے ہمارے ساتھ اور معاملہ دبا دیتے۔"خضر رومائزہ کی پشت دیکھے کہنے لگا روما پلٹی بے بسی سے حلیمہ بی کو دیکھا۔حلیمہ بی نے نظروں میں اسے پرسکون رہنے کی تاکید کی وہ سر ہلاگئی.گہری سانس فضا کے سپرد کرتی ان دونوں کے پاس آکے بیٹھ گئی۔خضر چھوٹا بچہ تھا پر اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار دکھائی دیتا تھا۔
"ہمم.."اس نے انعمتہ کو دیکھا اسکی خوبصورتی سے تو وہ سب سے پہلے مرعوب ہوئی تھی۔جان اور عزت کی حفاظت کرنا کتنا مشکل ہوگیا تھا۔انعمتہ کی عزت کو خطرہ تھا اور روما کی جان کو اور باقی وہ سوچ نہیں سکتی تھی۔وہ اتنا ضرور سمجھ گئی تھی میران جاہ عورتوں کے احترام میں کمی برداشت نہیں کرسکتا اور یہ سوچ کے اسکے لبوں کی تراش پہ ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔اسے اپنی غلطی کا فوراً احساس ہوا تھا سب جلد بازی میں ہوا تھا۔
"باجی آپکا نام کیا ہے؟"انعمتہ کی بڑی آنکھوں میں سوال رقم تھا باجی لفظ سن کے رومائزہ اچھل پڑی۔
"مجھے باجی تو مت بولو کتنا عجیب ساؤئنڈ دے رہا ہے۔"اپنا دوپٹہ درست کیا۔
"بی بی سرکار کہہ لیں؟"حلیمہ بی نے عرض کیا تو وہ انھیں گھور کے دیکھنے لگی۔
"دادیوں جیسا لگتا ہے یہ۔میرا نام رومائزہ شنواری ہے تم مجھے رومائزہ آپی کہہ سکتی ہو۔"اس نے انعمتہ کی مشکل آسان کرتے کہا۔حلیمہ بی ہنس رہی تھی کچھ دیر پہلے یہاں جو جنگ چھڑی تھی اسکے اثرات جیسے ختم ہوگئے تھے۔ماحول بلکل ٹھنڈا تھا پر کون جانے میران کے دل میں جو اس نے آگ لگائی تھی اسکا نتیجہ کیا ہونے والا تھا۔اسکے لفظوں نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا توڑ پھوڑ کے رکھ دیا تھا اسکی انا پہ وار کیا تھا۔ایک بار اس سے پوچھ لیتی کہ کیوں کیا اس نے ایسا پر اس نے ہمیشہ وہی کیا جو اسے سہی لگا چاہے وہ غلط ہی کیوں نا سوچ رہی ہو۔
یہ بے اعتنائی رومائزہ شنواری کو بہت بھاری پڑنے والی تھی۔سب ٹھیک ہوگیا تھا پر واپس بگاڑنے والی وہ تھی۔دنیا کا ہر رشتہ بھروسے پہ قائم ہے انکے درمیان بھی تو کچھ قائم ہوگیا تھا وہ بھلے ہی جذبات کو کوئی نام نہیں دے پارہی تھی پر بھروسہ کرتے کرتے کیسے کنارہ کرلیا!ایک ہی کشتی کے مسافر منزل پہ ساتھ پہنچ سکتے،ورنہ درمیان میں خود علیحدہ ہوکے ڈوبتے یا دوسرے کو ڈوبا دیتے۔
        نہایت رش ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ گھر پہنچا تھا عزیز مسلسل کالز کر رہا تھا پر اس نے ریسوو نا کی الٹا موبائل آف کردیا تھا۔جب وہ گھر میں داخل ہوا ملازم اسکو بھیگا دیکھ چونک گئے۔
کالے گھنے بال پانی سے لت پت ماتھے پہ گرے تھے اسکی دماغ کی شریانیں پھول رہی تھیں۔وہ تیزی سے قدم بڑھاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ملازنوں نے اسکے اس حالت میں آنے کی فوری خبر زولفقار جاہ کو دی تھی۔
                            ★ ★ ★
تقریباً دو گھنٹے بعد خضر اور انعمتہ کو عزیز اپنے ساتھ لے گیا تھا۔رومائزہ کو بھی حلیمہ بی نے سوجانے کا کہا پر اسکی سوئی میران کے اگلے قدم پہ اٹک گئی تھی۔
اسکے لفظ زہن میں گونج رہے تھے۔
وہ کمرے میں چلی گئی کمبل کھینچ کر سر تک چڑھالیا،کروٹیں بدلتی رہی پر نیند آنے سے قاصر تھی بمشکل ہی اسکی آنکھ لگی۔
     حلیمہ بی ہلکی سی آہٹ پہ بیدار ہوئیں انھوں نے ہتھیلی سے آنکھ مسلی تو رومائزہ انکے برابر میں بیٹھی تھی۔
"کیا ہوا؟"وہ متفکر سی گویا ہوئیں۔
"ڈر لگ رہا ہے۔"ماتھا رگڑ کے پسینہ صاف کیا حلیمہ بی نے باریک بینی سے اسے دیکھا۔
"کس سے ڈر رہی ہو؟"
"میران،اسکے لہجے میں کچھ تھا وہ اپنی تزلیل کا حساب ضرور لے گا اور حلیمہ بی اب میں تھک گئی ہوں اس سب سے۔مزید کچھ برداشت نہیں کرسکونگی۔"انکے کمبل پہ ہاتھ پھیر کر وہ کہہ کر رہی تھی۔
"لڑکی تم واقعی سر پھری ہو۔اتنا الٹا سیدھا کیسے سوچ لیتی ہو؟دماغ اور زبان دونوں کو کم چلایا کرو تم..تمھاری یہ لمبی زبان ہے اور اندھا دھن چلتا دماغ!بولنے سے پہلے سوچ لیتی تو اب پچھتانا نا پڑتا۔"
"آپ بھی ناراض ہیں نا کہ اسے اتنا کچھ بول دیا۔میں واقعی بہت شرمندہ ہوں آپ اسے بتائیے گا میں معافی مانگ رہی تھی۔"
"غصہ تو مجھے تم پہ آیا تھا پر تم سے کہاں ناراض رہ سکتی ہوں۔اب جاکے سوجاؤ اور ان فکرات سے باہر نکلو اب سب ٹھیک ہونے والا ہے۔"اسے پرسکون کرتے انھوں نے اٹھ کے اسکے چہرے پہ بکھرے بال پیچھے کیے۔وہ لب کترنے لگی۔
"اچھا ایک کام کرو میرے پاس سو جاؤ بس۔"اسکی نیند سے جاگتی خمار آلود آنکھیں دیکھ کر وہ بولیں۔انھوں نے تو مشکل حل کردی تھی وہ یہی تو ان سے کہہ نہیں پارہی تھی۔فٹ انکے برابر میں تکیے درست کرتے کمبل ڈال کے لیٹ گئی۔اس نے کروٹ لی۔حلیمہ بی کی کھڑکی سے آسمان بیڈ کے پاس سے دکھتا تھا۔
آج آسمان پہ چاند نہیں تھا صرف تاریکی اور دور دور ستارے۔سوچوں میں غرق نیند نے اس پہ مہربانی کردی اور پلکوں کی باڑ بچھ گئی۔
"تم مجھے ہر قدم ساتھ پاؤگی۔"شاید وہ اسکے خوابوں میں بھی یہ بات دہرا رہا تھا۔
                          جاری ہے.....
Must vote and comment..
Kindly give me your feedback 🤝

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now