قسط 20 بے رخی

469 46 7
                                    

                          ★ ★ ★
صبح ہوتے ہی انوش اور عائشے ہسپتال پہنچی تھیں۔زرپاش صاحبہ نے بھی ساتھ چلنے کا کہا تھا پر عائشے نے انھیں روک لیا کہ جب وہ گھر آجائیگی تب مل لیے گا۔رات کو ہی مراد نے سفیر سے نمبر شئیر کیا تھا۔سفیر نے رومائزہ کے ہوش میں آنے کی اسے خبر کردی تھی۔
ڈیوٹی پہ جانے سے پہلے مراد عائشے کو ہاسپٹل چھوڑتا ہوا گیا تھا۔سفیر سے بھی اس نے ملاقات کی تھی۔
      ہوش میں آنے کے بعد سے وہ ہنوز کمرے کی چھت کو تک رہی تھی۔جینے کی جیسے چاہ ہی نہیں بچی۔وہ اب تک کیوں زندہ تھی..!
"سفیر بھائی وہ چلے گئے میں نے انھیں دیکھا بھی نہیں۔کتنی بد نصیب ہوں نا میں،اس سے بہتر تھا میں ہی مرجاتی۔"درد برداشت کرتے اس نے آنکھیں میچ لیں۔اسے پرائیویٹ روم میں منتقل کردیا گیا تھا۔انوش اور عائشے اسکے پاس کھڑی تھیں۔اسکی بات سنتے ہوئے سفیر کاؤچ سے اٹھ کے اسکے پاس آیا۔
"جو اللہ کو منظور وہی ہوا ہے۔روما تم اسٹریس مت لو طبیعت خراب ہوجائیگی۔"
اس نے اسکے چہرے پہ آئے بال پیچھے کیے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔وہ ٹھنڈے مزاج کا بندہ تھا۔انوش لب کاٹتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔رومائزہ نے اٹھنے کی کوشش کی انوش نے آگے بڑھ کے اسے سہارا دیا۔انوش کا ہاتھ اسکی کمر کو سہارا دیے ہوئے تھا۔کندھوں کو ریشمی بال چھو رہے تھے۔نلکیاں ہاتھوں کی وجہ سے اسکی گود میں ہی آگئیں۔سفیر اسکے پاس ہی بیٹھ گیا۔
"سفیر بھائی۔مجھے بابا کے پاس جانا ہے۔"
وہ اس سے لگ کے رونے لگی۔ان دونوں کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔سفیر اسکے بالوں پہ ہاتھ پھیرتا رہا۔آنکھ سے آنسو پھسل کے رومائزہ کے بالوں میں جذب ہوگیا۔اسے اپنا حوصلہ ختم ہوتے محسوس ہورہا تھا۔وہ بھی چاچو کے ساتھ زیادہ وقت گزار نہیں سکا تھا۔جس دن وہ ان سے ملنے آیا تھا اسی دن انکی حالت خراب ہوئی۔سفیر کی فیملی پاکستان شفٹ ہورہی تھی۔اپنے بھائی کی طبیعت کا سن کے غضنفر شنواری دوڑے دوڑے ہسپتال پہنچے تھے۔وہ آخری وقت میں انکے ساتھ تھے۔شنواری صاحب کے دوست میاں حسن بھی تھے۔دونوں بھائیوں میں جو بھی ناراضگی تھی دونوں نے ختم کر دی،ایک دوسرے کی خطاؤں کو معاف کردیا تھا۔پر شنواری صاحب اتنی ہی زندگی لکھوا آئے تھے۔اپنے بچھڑوں سے ملنے کے بعد بیماری کی زد میں آکے دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔انکا جنازہ تو شنواری ہاؤس سے ہی اٹھا تھا۔سفیر اور غضنفر صاحب کو بعد میں پتا چلاکے وہ گھر سیل کر چکے ہیں۔وجہ یہی سنی تھی کہ شہر بدل رہے ہیں۔رومائزہ غائب تھی اسکی یہ خبر ملی تھی کہ کشمیر گئی ہے۔پر اس سے کسی کا کوئی کانٹیکٹ نہیں تھا۔وہ لوگ تھوڑا پریشان بھی ہوئے تھے۔سوئم کے بعد غضنفر اپنی اہلیہ کے ساتھ واپس سڈنی روانہ ہوگئے تھے۔وہ اپنا سارا بزنس پاکستان میں شفٹ کر رہے تھے۔سڈنی کا انکا آخری چکر تھا۔تمام کاروباری معاملات نپٹا کر انکی اب واپسی ہونی تھی۔سفیر کو رومائزہ جب سڑک پہ بے یارو مددگار ملی،اسے کافی حیرت ہوئی تھی۔اچانک اسکا کشمیر سے آجانا اور پل پر سے ملنا۔اسکی غیر ہوتی حالت دیکھ وہ بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہوا تھا۔
    انوش نے رومائزہ کا ہاتھ تھام لیا۔اس نے سوچا بھی نہیں تھا جب وہ اپنی دوست سے ملے گی تو کس حالت میں ہوگی۔وہ تو اسی کھلکھلاتے ٹمٹماتے چہرے کی منتظر تھی۔
"روما جان تمھیں بہت یاد کیا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس انتظار کے بعد تم ہمیں یوں ملو گی۔"سفیر نے رومائزہ کو واپس لٹادیا۔انوش اسکے پاس بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی سفیر روم سے باہر جاچکا تھا۔وہ بغیر کچھ کہے آنسو بہاتی رہی۔میران کا دھوکہ،بابا کی موت سب نے اسے جھنجھوڑ کے رکھ ڈالا تھا۔
       شام تک اسے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔سفیر بل کی ادائیگی کرنے ریسپشن گیا تھا۔وہ چونکا۔ریسپشنسٹ نے اسے پیمنٹ کرنے سے روک دیا۔
"سر آپکی پیمنٹ ہوچکی ہے۔"لیڈی مصروف سی بولی۔سفیر نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔
"میں نے پیمنٹ نہیں کی تو کس نے کی ہے؟"
اسکے پوچھنے پہ لیڈی نے شانے اچکادیے۔
"آپکو پیسے رکھنے ہونگے ایسے کیسے کوئی اور بل ادا کرسکتا ہے۔کیا مجھے بتا سکتی ہیں پیمنٹ کس نے کی ہے؟"
لیڈی نے پھر سے شانے اچکا دیے۔سفیر کو گڑبڑ کا احساس ہوا۔
"سر کسی اور ریسپشنسٹ نے پیمنٹ ایکسیپٹ کی ہے میں نہیں جانتی کون بل پے کرگیا ہے۔آپ اپنے پیسے رکھ لیں۔"وہ ایمانداری سے بولی۔سفیر کا ذہن ٹھٹکا۔
زہن میں میران جاہ کا پہلا خیال آیا تھا۔وہ سر اثبات میں ہلاتا لب پیوست کرکے نکل گیا۔
                          ★ ★ ★
وہ پہلے سے بہتر تھی۔پہلے جو نڈھالی چھائی تھی اب کم ہوگئی تھی۔گھر میں اسے الگ کمرے میں سفیر نے منتقل کیا تھا۔ساری میڈیسن وغیرہ وہیں تھیں۔باقی ضرورت کا سامان کپڑے وغیرہ انوش عائشے کے ساتھ جاکے لے آئی تھی۔دیوار میں نصب الماری میں اس نے اسکے گنتی کے چار پانچ سوٹ ٹانگ دیے تھے۔اسکا سامان تو سارا اُس گھر میں تھا اور اب ناجانے وہ کدھر بے مول ہورہا ہوگا۔
وہ بس اپنے بابا کی موت کا غم منا رہی تھی۔رو رو کے آنکھیں سوکھ گئیں تھیں۔پپوٹے بری طرح سوج رہے تھے۔
عائشے نے اسے کافی دیر سمجھایا بجھایا۔پھر وہ فریش ہونے کے لیے چلی گئی۔نہا دھو کر پنک کاٹن کے سوٹ میں باہر نکلی۔آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے تھے۔خشک لبوں پہ زبان پھیرتی وہ بالوں کو تولیے سے خشک کرتے ہوئے آئینے کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔
یہ ایک فرنشڈ روم تھا پر فرنیچر برائے نام تھا۔دیوار میں الماری بنی تھی۔ایک صوفہ بیڈ کے آگے بچھا تھا اور ایک عدد ڈریسنگ تھی۔
اس نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔اسکی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔کتنی خود پسند تھی وہ اپنی ہر چیز کا خیال رکھتی تھی۔اپنی صورت دیکھ اسے یقین نہیں آیا کہ وہ رومائزہ ہے۔
اندر اسکا دم گھٹنے لگا تو باہر چلی آئی،اشک بار بار وقفے وقفے سے بہہ رہے تھے ان پہ اسکا کنٹرول نہیں تھا۔
"مجھے یقین نہیں آرہا ہے یہ ہماری روما ہے۔اس عرصے میں پورا بدل گئی ہے۔اسکی حالت دیکھ دل تڑپ جاتا ہے۔میران جاہ نے آخر میں بہت برا کیا۔عائش محبت کرنے والے تو درگزر سے کام لیتے ہیں۔"
"اگر وہ واقعی اس سے محبت کرتا تو ایسا نہیں کرتا انوش۔"
"اللہ بہتر جانے،نظر لگ گئی ہے روما کو۔سہی کہتے ہیں مرد کی انا پہ جب بات آجائے تو وہ کچھ نہیں سوچتا سمجھتا۔"انوش اور عائشے ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے اسی کے متعلق گفتگو کر رہی تھیں۔وہ دونوں کے درمیان میں آکے بیٹھ گئی۔
عائشے نے اسے گلے سے لگالیا اور انوش نے بھی چمٹنے میں دیر نہیں کی۔
"بہت مس کیا تمھیں،جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ۔"
انوش دور ہٹی تو عائشے نے بھی اسے چھوڑا۔وہ خاموش سی رہی۔آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا وہ دونوں بے بس سی ہوگئیں۔
"روما کسی کے بھی جانے سے زندگی نہیں رکتی ہمیں جینا پڑتا ہے۔تمھارے ساتھ جو کچھ ہوا ہم میں سے کوئی اسکا ازالہ نہیں کرسکتا۔تم نے بہت کچھ خود پہ جھیلا۔جتنی پہلے ہمت کی اب بھی کرنی ہوگی۔اب تم واپس آگئی ہو نا،قید سے آزاد ہو اب جیو زندگی اپنی مرضی سے۔"
"انوش بابا کسی نہیں تھے۔وہی تو میری زندگی تھے،میرے سائباں تھے۔آزاد کرنے سے پہلے اس نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔وہ شخص محبت کا دعوے دار تھا مجھے بھی اپنی محبت کی لپیٹ میں لے چکا تھا۔اس نے ایک بار بھی اپنے فیصلے پر نہیں سوچا۔بابا اسی کی وجہ سے مرے ہیں۔اس نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا بلکل خالی ہاتھ کردیا۔"
"میران اللہ کرے تم مرجاؤ مرجاؤ مرجاؤ۔اللہ تم سے ہر ایک چیز چھین لے جو تمھیں عزیز ہے۔"
وہ شدت سے درد سے بال نوچتی چیخ اٹھی۔انوش نے اسکے ہاتھ تھامے۔اسے قابو میں کرنا ہی تو بے حد مشکل تھا۔
"مر گئے میرے بابا۔میران تمھاری وجہ سے مر گئے۔کیا تم مجھے معاف نہیں کرسکتے تھے۔اتنی بڑی سزا کوئی دیتا ہے۔تم نے اپنی انا کو تسکین دی صرف و صرف۔"انوش کے بازوؤں پہ ہاتھ مارتے وہ مسلسل روتے ہوئے بول رہی تھی۔سفیر اسی اثناء میں گھر آیا۔اسکی چیخوں کی آواز پہ گھبراتا ہوا تیزی سے اندر داخل ہوا۔
"رومائزہ میں نے کہا ہے نا خود کو تکلیف مت دو صبر کرو،ہم تمھیں نہیں کھو سکتے خدا کے لیے ہمت کرو۔"انوش کے دور ہوتے ہی سفیر نے اسے شانوں سے تھاما تھا۔
"اب مزید صبر نہیں ہوتا ڈھائی مہینوں سے صبر ہی تو کرتی آئی ہوں کیا ملے مجھے؟بابا کی موت کی خبر؟مجھے بابا کے پاس جانا ہے۔"وہ ہوش کھو رہی تھی روتے پیٹتے بولی۔الٹا خود کو کوسنے لگی تھی جب زیادہ ہی اس نے خود کو کوسا تو سفیر اس پہ دھاڑا۔انوش اور عائشے بھی کانپ کے رہ گئیں۔
"بلکل منہ بند بہت اول فول بک لیا۔چپ کرکے بیٹھو،خانساماں نے تمھارا کھانا بنا دیا ہے دوائی لینے سے پہلے کھانا کھاؤگی۔بلکل حلق سے آواز نا نکلے۔"سفیر نے آنکھیں دکھا کر اسے گھورا۔وہ ہچکیاں لینے لگی۔عائشے تو کچن کی طرف بڑھ گئی۔
سفیر کے بیٹھنے کے اشارے پہ وہ بیٹھ گئی۔
"بابا سے ملنا ہے۔انکی قبر پہ جانا ہے۔"اس نے ہچکیوں کے درمیان کہا۔
"ہاں چلیں گے پہلے تم ٹھیک ہوجاؤ۔"وہ صوفے پہ دراز بیٹھا پیر ہلارہا تھا۔انوش کی نگاہیں گاہے بگاہے اس پہ اٹھتیں۔
"مم میں بلکل ٹھیک ہوں۔کل لے چلیں نا۔"گیلے بالوں کو کان کے پیچھے اڑس کے وہ بولی سفیر سر ہی ہلا سکا۔
کھانے کے بعد وہ دونوں اسے کمرے میں لے گئیں۔اسے دوائیاں کھلائیں۔روما کا زہن ابھی صرف ایک ہی چیز سوچ رہا تھا اور اس سے ذہنی دباؤ بڑھتا۔اسکا دھیان ان خیالات سوچوں سے ہٹانا تھا۔انوش بیڈ پہ اسکے سامنے گرنے کے انداز میں لیٹی۔عائشے صوفے پہ بیٹھی اس کی طرف مڑی ہوئی تھی۔
"روما عائشے کی شادی ہوگئی ہے۔"انوش نے مسکرا کے بتایا۔رومائزہ خوشی کی خبر سن کے مسکرا بھی نہ سکی۔
"تو وہ ارغن بھائی تھے؟"بے حد دھیمی آواز میں حیرت سے پوچھا۔وہ یقیناً مراد کو ارغن سمجھ بیٹھی تھی۔عائشے نے چیخ مار کے استغفار پڑھا۔
"اوہ ہاں تمھیں تو پتا ہی نہیں عائشے کے نکاح پہ کیا فلم ہوئی۔ارغن ایک مجرم تھا۔لڑکیاں بیچنے کا کاروبار کرتا تھا۔شکر عائشے بچ گئی۔اسکے نکاح سے پہلے ہی مراد بھائی آگئے تھے۔کیا ہیرو کی طرح اینٹری ماری انھوں نے.."وہ فخر سے بتا رہی تھی....رومائزہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"مراد بھائی اے ایس پی ہیں۔وہ ارغن کو اریسٹ کرنے آئے تھے۔اور پھر عائشے کا نکاح ان سے ہی ہوگیا۔ماشاءاللہ سے عائشے اپنے سسرال میں بہت خوش ہے۔"
انوش کے بتانے پہ رومائزہ پھیکا سا مسکرادی۔عائشے کو اشارے سے اپنے پاس بلا لیا اور اسے خود سے لگا لیا۔وہ صرف اسے محسوس کر رہی تھی بولنے کی ہمت بلکل نہیں ہورہی تھی۔دل ہی نہیں تھا کہ کچھ بولے۔بے جان سی تو ہوگئی تھی۔بابا پہ سے زہن ہٹتا تو میران یاد آجاتا۔دل اسکا بھی ٹوٹا ہی تھا۔وہ بھی نئی منزل کی جانب چل پڑی تھی۔خواب بھی دیکھ ہی لیے تھے،بس منزل بے نام تھی۔اور یہ بات اس نے ابھی سب سے ہی چھپائی تھی۔
     "اپنی شادی پہ میں نے تمھیں اتنا یاد کیا۔میری زندگی شادی کے بعد پوری طرح بدل گئی ہے،تم کو اتنا یاد کیا کہ تم سے باتیں شئیر کروں اور اس پھول جھڑی کو اکیلے بہت برداشت کیا ہے۔"اشارہ انوش کی جانب تھا،انوش نے ناک چڑھا کے نظر انداز کیا۔
"میرے لیے یہ ایک زبردستی کا رشتہ تھا،پر آہستہ آہستہ سمجھ لگ گئی کہ میں اللہ کے فیصلے کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔مراد بہت اچھے شوہر ثابت ہوئے انھوں نے میرا نظریہ بدل دیا اور میرے سسرال والے بھی بہت اچھے ہیں.."وہ مسکراتے ہوئے بتانے لگی۔
"ہاں خاص کر تمھاری نند نیمل۔"انوش جتا کر بولی رومائزہ دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی۔
"جینے کے لیے عائش بدلنا تو پڑتا ہی ہے۔"اس نے مدھم سا کہا۔
"تم نے دوائی لی ہے نا اب نیند آرہی ہوگی۔سوجاؤ۔ہم بھی بس گھر جائینگے۔"
"تم دونوں نے مشکل وقت میں میرا بہت ساتھ دیا،پریشانی اٹھائی ہے۔شکریہ۔"وہ اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔
"اپنے پاس رکھو اپنا یہ شکریہ۔"انوش اسے ٹہکوہ مار کے اٹھ گئی۔رومائزہ بستر پہ لیٹ گئی۔اسکی آنکھیں بند ہورہی تھیں۔اداسی کا فسوں قائم تھا۔
"کوئی ایک رک جاؤ میرے پاس۔مجھے اکیلے پن سے خوف آرہا ہے۔"عائشے نے پر امید نظروں سے انوش کو دیکھا۔وہ پلکیں جھپک گئی۔
"تم پریشان مت ہو میں تمھارے پاس ہوں کہیں نہیں جارہی۔"انوش اسکے سرہانے بیٹھ گئی۔عائشے کو باہر ڈرائیور لینے آگیا تھا۔وہ اپنی چیزیں سمیٹ کر الوداعی کلمات کہتی نکل گئی۔
    رومائزہ سو گئی تھی۔انوش نے اسکے چہرے کو کافی دیر دیکھا۔اسکا دل اسے گم سم سا دیکھ کر ٹوٹ سا جاتا۔وہ بولتی ہوئی اچھی لگتی تھی یوں خاموش نہیں۔
اس نے ناہید کو کال ملائی اور اپنے یہاں ٹھہرنے کی اطلاع دی۔اول تو ناہید صاحبہ اسے انکار کر رہی تھیں۔پر اس نے انھیں راضی کرلیا کہ صرف ایک دن کی بات ہے رومائزہ کو اسکی ضرورت ہے کوئی عورت ہی اسکی دیکھ بھال کرے گی۔ذہنی طور پہ وہ بہت پریشان ہے اسے اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا۔
                            ★ ★ ★
میران اپنے کام نپٹا کے بنگلے آگیا تھا۔کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ پہ سر جھکائے کام میں مصروف تھا۔وہ شہر کی ایک اہم خراب سڑک واپس بنوارہا تھا۔آج ہی اس نے آرڈر پاس کروایا تھا۔اس نے آرکیٹیکچر کو سختی سے تاکید کی روڈ ڈالنے کے لیے سامان بلکل اے ون استعمال ہوگا۔یہ سڑک کوئی تیسری چوتھی بار بن رہی تھی۔ایک بار بارش ہوجانے سے ہی سارا روڈ اکھڑ جاتا تھا۔روز ہزاروں لوگوں کا اس روڈ سے گزر ہوتا تھا۔بعض اوقات حادثات کا بھی سامنا کرنا پڑجاتا تھا۔
شمس دروازہ ناک کرتا اجازت طلب کرکے اندر آیا۔
"چھوٹے سائیں اے ایس پی مراد آپ سے ملنے آیا ہے۔"شمس نے اپنا تجسس چھپا کر بتایا۔میران نے بھنوویں اچکائیں۔
"میں نے ہال میں اسے بٹھادیا ہے۔آپکا انتظار کر رہا ہے۔"اپنی بات مکمل کرکے اس نے نظریں جھکا لیں۔
"میری لائیبریری میں بٹھا دو...میں آرہا ہوں۔"شمس نے عجیب نظروں سے اسکا فرمان سنا پھر سر ہلا کے نکل گیا۔
شمس اسے اوپر لائیبریری میں بٹھا کر چلاگیا۔مراد نے اندر آکے لمبی سانس اندر اتاری۔اس نے جاہ بنگلے میں آج قدم رکھ ہی لیا تھا۔یہ بڑی سی لائیبریری تھی جسکی اونچی دیواریں تھیں،کتابوں سے بھرے شیلف چھت چھو رہے تھے۔درمیان میں فانوس ٹنگا تھا اور ہر دیوار پہ بلب لگے تھے۔ہر چیز شاہانہ تھی۔وہ ایک نرم و ملائم گدی والی کرسی پہ بیٹھا تھا۔جب پوری
لائیبریری کا جائزہ اس نے لے لیا تو نظر ایک طرف گئی جہاں کا دروازہ کھلا تھا اور اندر بھی لائیبریری کا شاید دوسرا حصہ تھا۔اسے تجسس ہوا ایک بار اس نے باہر کی طرف دیکھا۔کوئی نہیں آرہا تھا۔وہ اٹھ کے بغیر قدموں کی چاپ پیدا کیے اندر بڑھ گیا۔اندر آفس بنا تھا۔بڑی سی ٹیبل بچھی تھی اور اسکے ساتھ ایک ریوالونگ چئیر رکھی تھی۔ادھر بھی کتب سے بھرے شیلف تھے۔کھلا کشادہ کمرہ تھا۔عین سامنے والی دیوار پہ شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں جو بند ہی رہا کرتی تھیں۔پر وہاں سے باہر کا منظر دکھتا تھا۔رات کا وقت تھا چاند کی ہلکی سی روشنی اس حصے میں گر رہی تھی۔اس کمرے میں صرف ایک بلب جل رہا تھا نیم اندھیرا تھا باقی پورا بنگلا روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔
کمرے میں سب کچھ نارمل تھا پر ایک چیز جس پہ اسکا ذہن اٹکا۔ایک پینٹنگ اسٹینڈ کھڑا تھا جس پر لال ریشمی کپڑا ڈال کے رکھا ہوا تھا،وہ میران کی ٹیبل کے ہی قریب تھا۔کھڑکیوں کے نزدیک اسکی ٹیبل تھی درمیان میں وہ بورڈ کھڑا تھا۔
مراد کو ناجانے کیوں لگا جو وہ جاننے آیا اسکا جواب اس پردے کے پیچھے ہے۔تیز دھڑکتے دل کے ساتھ آگے بڑھا اور لال پردے کو مٹھی میں جکڑ لیا۔ویسے تو غیر اخلاقی حرکت تھی پر شک کا کیڑا اسے یہ حرکت کرنے پہ مجبور کر رہا تھا۔اور یہ تو اسکا فرض تھا انویسٹیگیشن کرنا۔
پر سوچ نگاہوں سے ایک ہی جھٹکے میں اس نے پردہ الٹ دیا۔وہ حیرت زدہ رہ گیا،حیرت سے سامنے دیکھنے لگا۔
یہ کسی لڑکی کی آدھی شکل کی پینٹنگ تھی،اتنی شباہت!جانا پہچانا چہرہ تھا جیسے ابھی نظروں سے گزرا ہوا۔مراد کے ذہن میں جھماکا ہوا۔
اس نے سختی سے مٹھی بھینچ لی۔کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تو وہ پردہ واپس ڈال کے باہر آگیا اور جگہ پہ بیٹھ گیا۔
میران اندر آیا تو وہ کرسی پہ بیٹھا تھا۔
مراد کی نظروں میں اسکے لیے نفرت تھی۔اسے طفیل کی بات میں سچائی معلوم ہوئی۔کسی لڑکی کی پینٹنگ کا اسکے پاس ہونا اس بات کا ایک ہی مطلب تھا... کیونکہ اسے پینٹینگز کا اتنا شوق نہیں تھا صرف ایک ایک ہی پینٹنگ تھی بس اسکے پاس۔
اور وہ لڑکی کون تھی یہ بھی وہ جان گیا تھا۔اب تو سوالوں کی لمبی لسٹ تھی اور اسکے جواب اسے آج چاہیے تھے۔وہ سوچ کے آیا تھا اس سے صاف دو ٹوک بات کرے گا۔اسے میران میں بے حد دلچسپی تھی اور یہی چیز زولفقار جاہ کو کھٹک رہی تھی۔
میران سلام کرتا ہوا اندر آیا اور اسکے سامنے والی لال مخملی گدی کی کرسی پہ بیٹھ گیا۔صوفے نما کرسیاں تھیں۔
"خیریت ہے اے ایس پی؟"اسکی نظریں مراد کا جائزہ لے رہی تھیں۔وہ یونیفارم میں تھا۔مراد نے سانس خارج کی۔
"میران صاحب مجھے کچھ سوالات کے جواب چاہیے۔"سنجیدہ اور دو ٹوک لہجے میں اس نے کہا۔
"اور یہ سوال میری پرسنل لائف کے متعلق ہیں۔"میران نے سانس بھر کر سنجیدگی سے اسکے چہرے پہ نگاہ جما لی۔مراد پر اعتماد تھا۔
"سنو آفیسر مجھ میں زیادہ دلچسپی مت لو!"
"اور اگر یہ بات کسی اور کے متعلق ہو اور اسکی کڑی آپ سے ملتی ہو پھر تو میں سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں۔میں چاہوں تو اپنی ٹیم کے ساتھ بنگلے میں داخل ہوتا پر ابھی صرف میں آپ سے معلومات لینے آیا ہوں۔میں جس میران کو جانتا ہوں وہ آپ نہیں ہیں۔"
"اے ایس پی تم مجھے جانتے ہی نہیں ہو۔"وہ تمسخر سے پھنکارا۔
"جانتے تو آپ بھی مجھے نہیں۔"وہ استہزایہ دوبدو بولا۔میران کے چہرے کی مسکراہٹ مزید پھیل سی گئی۔
"تمھیں جو کرنا ہے کرو۔میرے پاس فالتو وقت نہیں کے تمھارے سوالوں کے جواب دیتا پھروں۔تم تو سر پہ ہی چڑھ گئے۔لوگوں کو اوقات میں رکھنا بھی میں جانتا ہوں۔شمس..."
"جی سائیں۔"وہ باہر ہی کھڑا تھا اندر چلا آیا۔
"صاحب کو چائے پانی پلا کر رخصت کرنا۔مجھے ضروری کام سے باہر جانا ہے۔"آستین کے کف کہنیوں تک فولڈ کرتے کھڑا ہوگیا۔مراد کا چہرہ تذلیل کے احساس سے سرخ پڑگیا۔میران اٹھ کے مغرور چال چلتا باہر نکل گیا۔شمس مراد کے پاس بڑھا اور چائے کا پوچھا۔مراد نے قہر آلود نگاہ اس پہ ڈالی اور واک آؤٹ کرگیا۔شمس کا قہقہہ لائیبریری میں گونجا تھا۔
وہ اس سے بات کرنے آیا تھا پر اب سوچ لیا تھا میران جاہ کو اپنی طاقت دکھائے گا۔اسکا گھمنڈ اب وہ توڑ کے رہے گا۔
                           ★ ★ ★
اگلا دن تھا سفیر رومائزہ کو شنواری صاحب کی قبر پہ لے آیا۔وہ قبر پہ جھکے پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی۔گلاب کی پتیوں کو قبر کی مٹی سمیت مٹھی میں بھینچ لیا تھا۔گھنٹہ بھر اس نے رو کے دل کا غبار نکالا تھا۔سفیر اسے ساتھ لگاتا اپنے سہارے سے گاڑی تک واپس لایا تھا۔یہ منظر جب دو نگاہوں نے دور سے دیکھا تو اسکے تن بدن میں آگ لگی تھی۔بس چلتا تو وہ ہر چیز تہس نہس کردیتا۔
سفیر نے رومائزہ کی جانب کا دروازہ کھولا اسکے بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کرتا گھوم کے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آیا۔اس نے گاڑی اسٹارٹ کردی۔کوئی شعلہ بار نگاہوں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔اور پھر اسکی گاڑی کے جانے کے بعد آنکھوں پہ چشمہ لگاتے اس نے بھی گاڑی اسٹارٹ کردی۔
سفیر نے رومائزہ کو گھر چھوڑا اور خود کسی ضروری کام کا کہتا وہاں سے نکل گیا۔
      میران نے آفس میں قدم رکھا تو سیکریٹری کچھ فائلز لے کر اسکے پاس آئی۔بزنس کے متعلق اس سے ڈسکس کر رہی تھی وہ اسے ضروری ہدایتیں کرتا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔عزہ اسکی کرسی کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھی موجود ملی۔سیکریٹری نے اسکے آنے کی اطلاع کردی تھی۔اسے دیکھ میران کا مزید موڈ بگڑا تھا،شدید کوفت ہوئی۔عزہ اسکے اندر آنے پہ جگہ سے اٹھ گئی۔میران زبردستی بھی مسکرا نہ سکا۔اپنی کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا۔
اسکے بیٹھتے ہی کچھ شور سا برپا ہوا۔ایک نوجوان بنا اجازت کے دروازہ کھولتا اسکے کمرے میں آیا اور پیچھے ہی سیکریٹری اسے آنے سے روک رہی تھی۔
"سوری سر۔میں نے انھیں روکا بھی پر یہ اندر گھسے چلے آئے۔"
اس نے گھبراتے ہوئے بتایا۔میران نے سرہلا کے اسے جانے کا اشارہ کیا۔وہ واپس پلٹ گئی۔میران تیور چڑھاتا اٹھ کے اسکے سامنے آیا۔
"رومائزہ سے آج کے بعد سے دور رہنا۔اور یہ ہاسپٹل کے بل کے پیسے۔وہ کوئی لاوارث نہیں جو تم نے بل پے کردیا۔اسکے اپنے ابھی زندہ ہیں۔"سفیر نے چبا چبا کے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔میران نے اسکی دھمکی کو خاطر میں نہ لا کر ناک پہ سے گویا مکھی اڑائی۔سفیر نے جیب سے پیسے نکال کے آگئے بڑھائے۔میران نے ہاتھ پیچھے باندھ لیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
"اب تم میری بات سنو آئیندہ اسکے قریب مت جانا۔بے شک اسکا خیال رکھو پر اپنی حدود میں رہ کر!"وہ انتہائی پرسکون کھڑا تھا۔سفیر کلس گیا۔ایک قدم مزید آگے بڑھا کر فاصلہ کم کیا۔
"اگر وہ مجھے روکتی نہ تو میں تمھیں کورٹ تک لے جاتا۔"سفیر نے افسوس سے کہا۔میران کا قہقہہ بلند ہوا۔
"اس سے پوچھا نہیں اس نے ایسا کیوں کیا؟"اسکی آنکھوں کی تپش اتنی تھی سفیر زیادہ دیر ان آنکھوں میں دیکھ نہیں پایا۔نظریں گھما لیں۔سانس خارج کی۔
"وہ تمھاری شکل ہی نہیں دیکھنا چاہتی اس لیے۔میری کزن سے تم اب دور رہنا۔وہ شاید ڈرتی ہے کہ تم ہمیں نقصان نا پہنچادو پر میں نہیں ڈرتا۔"
اسکی بات سن کے میران نے استہزاء سے ناک رگڑ کے اسے دیکھا۔سفیر نے لب پیوست کرلیے۔شمس دروازہ کھلا دیکھ اندر آیا تھا۔
سفیر نے لفافہ ٹیبل پہ اچھال دیا۔عزہ نے چونک کے ٹیبل پہ پڑا لفافہ دیکھا اور پھر میران کی پشت جو اسکی طرف تھی۔سفیر تنفر سے بھری نگاہ ڈال کر واک آؤٹ کرگیا۔میران کے لبوں پہ طنزیہ مسکراہٹ سج کر واپس سمٹ گئی۔اس نے غصہ پی لیا۔
"شمس یہ پیسے خیرات کردو۔"
انھیں بنا دیکھے ہی اس نے حکم سنایا شمس لفافہ اٹھا کے نکل گیا۔وہ گہری سانسیں لے کر خود کو نارمل کر رہا تھا۔سفیر کو رومائزہ کے اتنے پاس دیکھ کر اسکے بدن میں کانٹے سے لگ گئے تھے۔آج تک وہ اسکے اتنے قریب نہیں گیا پھر یہ سفیر احمد کون تھا کس حق سے اتنا بے تکلف ہوا تھا۔اسکی رگیں تن گئیں۔
"آپ اس لڑکی کے لیے اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں۔اگر وہ آپ سے محبت کرتی تو آپکو سمجھتی آپکے کیے احسانات پہ مشکور ہوتی۔"وہ یک دم جگہ پہ منجمد ہوگیا جب عزہ کے ہاتھ کی گرمائش اسے کندھے پہ محسوس ہوئی۔میران جھٹکے سے پلٹا اور اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔عزہ کی زبان چلتے چلتے رک گئی۔ میران کی غضب نگاہوں سے اسے خوف آیا۔
"گیٹ لاسٹ فرام ہیئر!"وہ دبے دبے غصے میں بولا۔عزہ نے منمنا کے اسے دیکھا۔
"میں آپکو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی میران۔"وہ اسکی طرف بڑھنے لگی۔میران نے قدم پیچھے لیا۔
"شٹ اپ۔اور آئیندہ میرا سامنا مت کرنا۔"
"آپکو میری محبت نظر نہیں آتی؟"وہ غصے سے چلائی۔
"یہ محبت نہیں ہے ضد ہے۔"
"تو آپ بھی تو یہی کر رہے ہیں وہ لڑکی آپکا ساتھ چاہتی نہیں تو کیوں اسکے پیچھے پڑے ہیں۔ایسا کیا ہے جو اسکے علاوہ کوئی دکھتا نہیں۔"وہ بھی زبان درازی پہ اتر آئی۔میران نے اسکے چہرے کے نقوش دیکھے۔
"میرے سامنے اپنا اور میرا موازنہ مت کرنا۔جانتی ہو اس نے کبھی خود سے مجھے اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش نہیں کی۔"
وہ پھنکارتا ہوا درشتگی سے بولا۔
بس ایک ہی جملے کی مار تھی عزہ۔میران گھوم کے اپنی کرسی کی طرف چلا گیا۔وہ سکتے میں کھڑی رہ گئی۔وہ واضح کر چکا تھا کسی صورت اسے نہیں اپنائے گا پھر بھی وہ بار بار میں راستے میں رکاوٹ بن رہی تھی۔صبر کا گھونٹ پی کر وہ نکل گئی۔اسکے جانے کے بعد میران نے ہنکارا بھرا اور سگریٹ جلا لی۔
        عزہ کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی دائم اسکے پاس حاضر ہوا۔
"ہاں تم رہ گئے تھے بس۔کہو جو کہنا ہے۔"
اس نے سخت بے زاری سے کہا،دائم ٹیبل پہ تھوڑا جھکا۔
"یار مجھے اے ایس پی کی بہن پسند ہے۔وہ میری ایمپلائے بھی ہے پہلی بار جب دیکھا تھا تب سے ہی پسند ہے۔اور وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے۔"دائم کا انداز ایسا جیسا کوئی بڑا راز کھول رہا ہو۔میران کا سگریٹ والا ہاتھ ہوا میں رک سا گیا۔
"تو پھر مسئلہ کیا ہے؟"اس نے سیگریٹ لبوں سے لگالی اور کش بھر کے چھوڑا۔
"مسئلہ میرا سالا ہے وہ مراد۔دو محبت کرنے والوں کو دور کر رہا ہے کباب میں ہڈی بنا ہے۔سالا رشتے پہ راضی ہی نہیں ہورہا۔تم ہی بتاؤ مجھ میں کوئی ایسا عیب ہے جس کی بنیاد پہ وہ اپنی بہن دینے سے انکار کر رہا ہو۔"وہ بچوں کی طرح تپا ہوا اسے بتا رہا تھا۔میران نے ایش ٹرے میں سیگریٹ جھاڑ کے اسے دیکھا۔
"جس طرح تم سالا سالا کر رہے ہو اس نے یہ تمھارے منہ سے سن لیا ہوگا۔"وہ بے زاری سے آنکھیں چڑھاتا بولا۔
"یار میں تمھارے پاس اپنا مسئلہ لے کر آیا یوں تم مجھے ہی طعنے سنانے لگے۔بیس دن تڑپ تڑپ کے میں نے تمھارا انتظار کیا ہے۔میرے بھائی کچھ مدد کردو۔سمجھاؤ اس بد دماغ اے ایس پی کو میں اسکی بہن سے محبت کرتا ہوں اور ہمیشہ خوش رکھونگا۔"دائم التجا کرنے لگا میران کو اس پہ ترس آیا تھا۔
"یہ دعوے جو تم میرے سامنے کر رہے ہو اے ایس پی کے سامنے جاکر کرو۔وہ اپنی بہن کا ہاتھ ایسے ہی تو کسی کو نہیں دیگا۔ثابت کرو اسے کے تم سے زیادہ کوئی اسکی بہن کا خیال نہیں رکھ سکتا،تم سے زیادہ اسے چاہ نہیں سکتا۔"وہ سیدھا سیدھا حل بتارہا تھا۔دائم جگہ پہ بدمزہ ہوا۔
"اگر تم میرا فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہو تو یہ بات زہن سے نکال دو کہ میں اس سے بات کرونگا۔میری شکل دیکھ کر تو اس نے کبھی اپنی بہن تمھیں نہیں دینی۔"وہ طنزیہ دائم کو حقیقت سے روشناس کرانے لگا۔دائم سمجھ نہیں سکا۔
"میرے بھائی انتظار کرو،جلد بازی نا کرو کونسا لڑکی بھاگے جا رہی ہے۔"میران اسے اطمینان دلاتا بولا۔دائم نے ناک سکوڑی۔
"تمھارے یہ پرسکون انداز ہی مجھے پسند ہے۔زندگی کی بجی پڑی ہو پر میران جاہ کے اطمینان کے لیول کا کیا کہنا۔"وہ ہنکارتے ہوئے بد مزگی سے بولا۔میران سمجھ ناسکا وہ تعریف کر رہا تھا یا طنز؟تعریف ہی تھی رومائزہ والے واقعے سے بے خبر تھا جانتا ہوتا تو شاید طنز ہی کرتا۔
"مجھے تمھیں ایک ضروری بات بتانی ہے اور میں امید کرونگا تم اسے کہیں نشر نہیں کروگے۔"وہ سنجیدگی سے کرسی ہلکی سی گھما کر بولا دائم کے لبوں پہ مسکراہٹ سج گئی۔دائم نے آنکھیں گھمائیں تو میران سانس بھر کے رہ گیا۔
                            ★ ★ ★
سفیر آفس سے آیا رومائزہ کچن سے پانی کا گلاس ہاتھ میں لیتی نکلی تھی۔وہ جس نے پانی اپنے لیے بھرا تھا سفیر کو دیکھ اسکی طرف بڑھا دیا۔وہ صوفے پہ سر ٹکا کے چھت گھور رہا تھا۔ماحول میں خاموشی طاری تھی حتی کہ دلوں کی دھڑکن سنی جا سکتی تھی۔
رومائزہ اسکا انداز نوٹ کر رہی تھی۔اس نے گلاس لے کر لبوں سے لگا لیا۔وہ تھکا ہوا پریشان سا محسوس ہوا تھا۔گلاس ٹیبل پہ رکھ کے اس نے رومائزہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ اپنا جامنی دوپٹہ سنبھال کر اس سے تھوڑا فاصلے پہ بیٹھ گئی۔
"شکر تم کمرے سے باہر تو نکلیں۔"رومائزہ انگھوٹا بائیں ہاتھ کی انگلی سے رگڑتے ہوئے رکی۔چہرہ بے تاثر تھا۔
"پانی پینے آئی تھی۔"اس نے حلق تر کیا۔سفیر نے سانس بھر کے سر ہلایا۔وہ بہت خاموش مزاج ہوگئی تھی صرف ہاں،ہوں میں اسکی طرف سے جواب موصول ہوتے تھے۔تنہائی پسند ہوگئی تھی۔اور یقیناً بند کمرے میں روتی ہی رہا کرتی تھی۔
"روما جو چلا گیا وہ لوٹ کے نہیں آسکتا پر جو ہے اس کے لیے جینا پڑتا ہے۔"
"کچھ نہیں رہا میرے پاس،سب چھوڑ کے گئے۔پہلے ماما،پھر بابا اور..."(جس سے شاید محبت ہوگئی وہ بھی دھوکہ دے گیا۔)آخری لفظ ادا کرنے سے پہلے اس نے لب سی لیے صرف خیال میں سوچ ہی سکی۔یہ سوچ اسے اذیت میں مبتلا کردیتی تھی۔اسکی محبت صرف اذیت یی بن کے رہ گئی تھی۔میران جاہ نے جتنی شدت سے اسے چاہا تھا اتنی ہی شدت سے توڑ کے رکھ دیا۔
"یہ زندگی ہے تمھارے پاس،تم خود ہو۔اپنے لیے جینا ہوگا۔صبر سے کام لو۔"وہ اسکی طرف گھوما تھا۔رومائزہ انگھوٹا رگڑنے میں مصروف رہی۔
"جب صبر آجائے گا تو سوچونگی ابھی تو میں اس درد سے باہر نہیں نکلنا چاہتی۔بابا کا چہرہ ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔وہ چلے گئے میں نے انکو دیکھا تک نہیں۔کتنی تکلیف میں ہونگے وہ۔"اس نے سر اٹھا کے سفیر کی آنکھوں میں دیکھا۔لہجہ درد سے بھیگا تھا۔سفیر خاموش ہوگیا۔کیسے ایک اولاد کو باپ کی موت کا غم منانے سے روک سکتا تھا۔وہ اٹھنے لگی۔
"آپ پریشان لگ رہے ہیں،کیا کوئی بات ہے جو میرے علم میں ہونی چاہیے؟کچھ چھپا رہے ہیں آپ.."آگے بڑھ کے اس نے ٹیبل سے گلاس اٹھایا اور سفیر کی طرف پلٹی۔جواب کا انتظار کر رہی تھی۔سفیر نے کنپٹی کو چھو کر چہرہ ہاتھوں سے رگڑا۔
"شنواری ہاؤس میران نے ہی خریدا ہے۔"
سفیر کی بات مکمل ہوئی تھی کہ رومائزہ سکتے میں گئی۔گلاس چھوٹ کے زمین پہ گرا۔سفیر کھڑا ہوا۔وہ سر ہلانے لگی۔کنپٹی میں درد کی ٹھیسیں بڑھنے لگیں اس نے قدم پیچھے کی طرف لیا۔
"رومائزہ میں بتانا نہیں چاہتا پر چھپانا بھی غلط تھا۔میں اپارٹمنٹ گیا تھا۔رہائشی نے مجھے یہی بتایا کہ اس اپارٹمنٹ کا مالک وہ نہیں میران ہے۔میں نے کاغذات کی کاپی بھی دیکھی اس پہ میران کے ہی دستخط تھے۔"
اسے مکمل بات سے آگاہ کرتے ہوئے وہ آگے بڑھنے لگا،رومائزہ نے انگلی کے اشارے سے روکا اور صدمے کی حالت میں ہچکی لیتی مرے مرے قدم اٹھا کر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
دروازہ بند کرکے وہ اسی سے لگ کے بیٹھتی چلی گئی۔گھٹنوں میں سر دے کر کافی دیر تک روتی رہی۔اسکی ہچکیوں کی آواز اسکے کمرے کے باہر کھڑا سفیر سن رہا تھا۔اسے رومائزہ سے بے حد ہم دردی تھی۔وہ اسکو ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتا تھا۔وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
      تو میران جاہ نے اس سے اسکی بچپن کی یادیں،بابا کی آخری نشانی تک خرید لی؟بلکہ چھین لی۔وہ نہیں جانتا تھا کیوں چاچو نے اسے ہی گھر سیل کیا میران تو بیس دن یہاں تھا ہی نہیں۔یا پھر میران نے جانے سے پہلے ہی رومائزہ کے ساتھ اس اپارٹمنٹ کا بھی سودا کیا تھا!
وہ اسکے لیے پریشان ہورہا تھا۔
      دوسری طرف وہ میران سے کی نفرت میں سلگ رہی تھی۔سب ہی کچھ تو چھین چکا تھا،اسے بھی زندہ کیوں چھوڑا!یہ مشکل بھی آسان کردیتا۔وہ اذیت کے مرحلے سے گزر رہی تھی۔زہن بار بار باور کروارہا تھا خود کشی حرام ہے۔پھر بھی سوچ ایک نقطے پہ ٹھہرے جاتی۔زخموں پہ جیسے اس بار نمک مرچ چھڑک گیا تھا۔بیڈ کے سرہانے پلیٹ میں سیب اور چھری پڑی تھی رومائزہ کی نظریں اس پہ جم گئیں۔
      سفیر کو اسکی حالت کی سنگینی کا احساس ہوا اور اپنی غلطی کا بھی اسے اسٹریس سے دور رکھنا تھا اسے اندازہ نہیں تھا وہ اتنی جذباتی ہوگی اس اپارٹمنٹ کو لے کر،شاید کوئی اور خریدتا تو اسے اتنا دکھ نہیں ہوتا پر یہ معاملہ سرے سے ہی الگ تھا،اسکی قیمتی چیز اس شخص کے پاس تھی جس سے وہ نفرت کرتی تھی۔
سفیر لاک گھماتا اندر داخل ہوا۔اور سر پکڑ کے رہ گیا۔دروازے سے آگے ہی اسکا بے جان وجود پڑا تھا۔جامنی دوپٹا زمین پہ پڑا ہوا تھا اسکا دایاں بازو سر کے نیچے تھا۔اور دوسرا ہاتھ پیٹ کے اوپر سے گزر رہا تھا۔پلکوں کی باڑ جھکی ہوئی تھی،بھورے بال اوندھے منہ پہ گرے ہوئے تھے۔اور ہاتھ کے قریب ہی چھری پڑی تھی۔سفیر کو اچانک ہی اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا،آنکھیں پھیل گئیں۔اس نے تیز تیز سانسیں لیں،بوکھلاتا ہوا اس کی طرف جھکا۔
خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے
میں یوں بھی پھول تھا،آخر مجھے بکھرنا تھا
                                            جاری ہے.....

Short episode ka rona dalny ki bajaye review de dia karein🤡

Is py review do agli longgg episode dongi 🤝
Must vote and don't forget to write Your's precious feedback in comments 🌜

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now