قسط 11 ماہِ کناں

800 64 24
                                    

رومائزہ کی ہتھیلیاں وحشت سے عرق آلود ہوگئیں۔کلائی دبوچے وہ لڑکا خباثت سے تک رہا تھا۔اسے اسکی نظروں سے الجھن ہونے لگی۔وہ کتنے دن سے اس فارم ہاؤس میں تھی نا میران کی نگاہوں میں اس نے یہ حوس اور خباثت کے رنگ دیکھے نا ہی کسی ملازم کی ہر ایک سر جھکائے رکھتا تھا۔رومائزہ نے جبڑے بھینچ کے اسے دیکھا اور دوسرے ہاتھ کا مکہ بنا کہ اسکے منہ پہ جڑ دیا۔وہ لڑکا اس حملے کے لیے بلکل تیار نہ تھا۔منہ پہ پڑتے گھونسے کی تکلیف پہ اس نے روما کی کلائی چھوڑ کے اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔رومائزہ نے گھور کے باقی ان دو کو دیکھا۔
"راستہ چھوڑ دو ورنہ برا حال کردونگی۔"اس نے کھلی دھمکی دی۔
"اتنی ہمت....."وہ لڑکا واپس اسکی طرف بڑھا رومائزہ پہلے ہی تھکن کا شکار تھی پھر بھی اس نے بچاؤ کی پوری کوشش کی پنجے سے اس لڑکے کو پیچھے دھکیلا دیا۔
اکیڈمی میں پریکٹس کے دوران اس نے تمام داؤ پیچ جو سیکھ رکھے تھے انکا بخوبی استعمال کیا۔اچھے سے ان لڑکوں کی ہڈیوں میں مصالحہ بھرا۔
اس لڑکے نے جب پوری قوت سے اسکی دونوں کلائیاں گرفت میں لیں تو وہ لرز اٹھی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔جو بھی کرنا تھا اب خود نے ہی کرنا تھا،اس ہمت نہ ہاری ٹانگ گھما کے اسکے پیٹ پہ مار کے خود کو چھڑایا۔پر وہ ایک تھی مقابل تین۔
ایک سے خود کو بچاتی تو دوسرا سامنے آجاتا فرار کے راستے بند ہوگئے تھے دل بیٹھے جارہا تھا۔پیچھے سے جب لڑکے نے اسکا منہ بند کرنے کی کوشش روما کے میں منہ پہ ہاتھ رکھا تو اسے لگا بس اب وہ ہار جائیگی اسے سانس رکتی محسوس ہوئی خون رگوں میں جمنے لگا اسکا ماسک چہرے سے اتر کے وہیں کہیں گر گیا تھا۔
آنکھیں بند ہونے لگیں۔
                          ★ ★ ★
   گھنٹہ بھر بعد حلیمہ بی کی آنکھ کھلی۔سوٹ کی میچنگ کا ہرا دوپٹہ سر پہ ڈالتی ہوئی وہ اٹھ بیٹھیں۔وضو کیا عشاء کی نماز ادا کی رومائزہ کے خیال آنے پہ اسکے پاس جانے کا ارادہ ہوا۔پر اس سے پہلے شوگر کی دوائیاں لینے کے لیے مسہری کے سرہانے کی دراز کھولی۔مخصوص گولیاں نکال کر انھوں نے دراز پہ رکھ دیں۔بس اسی اثناء میں انکی نظر سفید کاغذ پہ پڑ گئی۔ماتھے پہ شکنوں نے جگہ لی دوائیاں ایک طرف کرتے انھوں نے تہہ شدہ کاغذ کھولا اور جوں جوں وہ پڑھتی گئیں چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑتا گیا۔
کاغذ انکے ہاتھ سے پیروں میں گرا تھا وہ فوراً ننگے پیر رومائزہ کے کمرے کی طرف دوڑیں۔
"رومائزہ بچے..."
دھڑکتے دل سے انھوں نے پکارا کوئی جواب نا ملنے پہ پورا کمرہ کھنگالا،کھڑکی کھول کے دیکھی شاید باہر ہو۔وہ خط پہ ہرگز یقین نہیں کر پارہی تھیں۔پورے فارم ہاؤس میں تلاشنے کے بعد وہ باہر گارڈز کے پاس آئیں جو شطرنج کھیلنے میں مصروف تھے۔لان خوب روشنیوں سے روشن تھا جیسے دن نکلا ہو۔
"میڈم گھر سے باہر نکل گئیں اور تم لوگوں کو پتا ہی نہیں ہے۔"حلیمہ بی ان سب کو کھیل میں مگن دیکھ کر سر پہ جا کہ برس پڑیں۔گارڈز ہڑبڑا اٹھے۔دو تین فوراً لان کے دوسرے حصے میں پہنچے اور زخمی گارڈ کو بازو سے پکڑ کے گھسیٹتے ہوئے ان کے سامنے لائے گارڈ کی حالت دیکھ انھوں نے نفی میں سر ہلایا۔وہ لڑکی قابو سے بلکل باہر تھی۔باقی گارڈز اندر سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے پہنچے انکے پیچھے ہی حلیمہ بی پہنچیں۔
رومائزہ کی قسمت اچھی تھی اندر سیکورٹی مین بھی باقی گارڈز کے ہمراہ تھا۔سیکیورٹی مین نے گھبرا کے کرسی سنبھالی اور کیبورڈ پہ تیزی سے انگلیاں چلانے لگا۔حلیمہ بی کی نظریں ہی ان سب کو دہلا کے رکھ چکی تھیں۔اندھیرے کے باعث باہر کا منظر دھندلا تھا۔اسکرین پہ فارم ہاؤس کے سامنے والی پٹی پہ کسی ہیولے کی جنبش سی محسوس ہوئی۔اور لان کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں وہ کلیئر فرار ہوتی نظر آئی تھی کس طرح اس نے گارڈ کے سر پہ وار کیا اور دیوار پھیلانگی....
"وہ تم سب کی موجودگی کے باوجود یہاں سے فرار ہوگئیں کس طرح تم لوگ کام کرتے ہو!جاؤ ڈھونڈو انھیں اور خالی ہاتھ مت لوٹنا!"شہادت کی انگلی اٹھا کے وارن کرتی وہ اندر دوڑی تھیں۔
                            ★ ★ ★
دائم کے جانے بعد میران فریش ہونے کے لیے بنگلے چلے آیا۔شاور لے کر باہر نکلا تھا فون کی بیل بجنے لگی۔ڈریسر سے اس نے ہلکی آسمانی رنگ کی شرٹ نکال کے گردن سے اتاری اور ٹیبل کے پاس آیا۔حلیمہ بی کا نمبر دیکھ تھوڑی تشویش ضرور ہوئی اس نے کال ریسو کی فون کان سے لگایا بائیاں بازو آستین سے گزار کے بیڈ پہ بیٹھ گیا۔
"اسلام و علیکم،،حلیمہ بی سب خیریت ہے؟"اسکے پوچھتے ہی حلیمہ بی بولنا شروع ہوئیں۔
"وعلیکم السلام...رومائزہ بھاگ گئی۔"وہ ایک ہی سانس میں بولی۔میران کو بتانے سے وہ خود بھی ڈر رہی تھیں پر آگاہ تو کرنا تھا۔وہ اسکے غصے سے اچھی طرح واقف تھیں خبر سنتے ہی میران کا چہرہ تن گیا۔وپ بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"کیا کہہ رہی ہیں کیسے نکل گئی وہ؟"اس نے فوراً پیروں میں جوتے ڈالے اور واپس کمرے سے باہر نکلا۔
"میں سو رہی تھی اس نے گارڈ کو بھی زخمی کردیا۔لان کے دوسرے حصے میں اس وقت کوئی پہرے دار نہیں تھا اسی کا فائدہ اٹھایا اور دیوار پھلانگ گئی۔"
"مجھے ڈر ہے آگے زولفقار سائیں کی زمینیں ہیں انکے آدمی انکو....یا کچھ اور نا ہوجائے۔"وہ ہڑبڑائی ہوئی تھیں۔
"پاگل کردے گی یہ لڑکی!آرہا ہوں میں۔"حلیمہ بی تو غصے سے بچ گئی تھیں پر ملازموں کی خیر نہیں تھی۔
"حد کرتی ہو تم بے وقوف لڑکی۔مل جاؤ اس بار چھوڑونگا نہیں تمھیں۔"
جبڑے بھینچے غصے سے پھولی ناک کے ساتھ وہ لمبے ڈگ بھرتا گاڑیوں کی پارکنگ کی طرف آیا۔
گارڈ نے دروازہ کھولا اس نے ہاتھ اٹھا کے اشارتاً منع کیا اور اس سے چابی لے کر وہاں سے نکل گیا۔ساتھ ہی اس نے عزیز کو فون لگایا تھا جو کسی کام کے سلسلے میں باہر ہی تھا۔
                            ★ ★ ★
  سرد ہوائیں جسم یخ کر رہی تھیں۔ٹھنڈ ہڈیوں میں گھستی چلی جارہی تھی۔سانس بند ہونے سے سر بھی گھومنے لگا اس لڑکے کی گرفت بہت مضبوط تھی وہ خود کو چھڑا نہیں پارہی تھی۔
دور سے کالی ہیلِکس پہیوں کی رگڑ کے ساتھ رکی،چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ان چاروں کی توجہ اس گاڑی پہ مبذول ہوئی۔
  رومائزہ نے ہاتھ پیر پھر ہلانے جھلانے چاہے اور اگلا منظر دیکھ اسکی اپنی روح فنا ہوئی تھی۔تیش کے عالم میں غضبناک تیور لیے جب میران خاکی چادر بازو پہ درست کرتے گاڑی سے اتر کے انکی طرف بڑھا۔روما کی ہی جان صرف خشک نہ ہوئی ان تین لڑکوں نے بھی اپنا گلا تر کیا۔گرفت جیسے ہی ڈھیلی پڑی رومائزہ نے پوری آنکھیں کھولیں میران کو دیکھ ویسے ہی ہوش جاگ گئے تھے۔اس نے کہنی اس بلڈر لڑکے کے منہ پہ ماری اور جارہانہ انداز میں پلٹ کے لات مار کے اسے دور کیا تھا۔
میران نے اسکی ساری کاروائی اپنی آنکھوں سے دیکھی پر یہ وقت اس کی بہادری سے متاثر ہونے کا نہیں تھا۔وہ تیزی سے اس لڑکے کی جانب بڑھا اور اسکا گریبان جکڑ کے بنا کچھ کہے ہی منہ ہی منہ پہ مکے برسا دیے۔اسکی شولہ بار نظروں کا سامنا رومائزہ کر نا پائی۔ان لڑکوں پہ غصہ اسے بھی بہت تھا باقی دو کو روما نے خوب مارا۔اور وہ خود کو بچا رہے تھے۔ہاں وہ میران کو پہچان گئے تھے آگے بڑھنے کی کسی میں جرت نہیں تھی۔اتنے میں تین کالی ہیلکس ایک ساتھ وہاں آرکیں سات آٹھ گارڈز ان میں سے نیچے اتر آئے میران کا چہرہ غصے سے لال ہوچکا تھا اس نے جھٹکے سے اس لڑکے کا گریبان چھوڑا اور ایک قہر آلود نگاہ ان سب پہ ڈالنے کے بعد رومائزہ پہ ڈالی۔اس نے سہم کر نظریں جھکا لی تھیں اپنے ہاتھ جھاڑے بدحواسی کے عالم سے باہر نکلی جو ان لڑکوں کے مارنے سے ہوا تھا۔میران کی سرد نظریں اس پہ جمی تھیں پھر اس نے گارڈز کو دیکھا۔
"لے جاؤ ان تین کمینوں کو اور آئیندہ یہ نظر نا آئیں۔"نظروں سمیت وہ انتہائی سرد انداز میں بولا کہ رومائزہ کو بھی جھرجھری آگئی۔اب میران ان کے ساتھ کیا کرتا رومائزہ کو تشویش ہوئی کیا انکو ماردیتا؟رحم کے قابل بھی نہیں تھے...پھر؟
اگر وہاں رومائزہ کی جگہ کوئی اور لڑکی بھی ہوتی تو میران انکے ساتھ یہی سلوک کرتا۔کچھ گارڈز نے اسکے حکم پہ عمل کرتے ان تینوں کو ضبط کیا اور گاڑی میں بٹھا کے لے گئے۔رومائزہ سب دیکھ رہی تھی۔اسکی زبان تو تالو سے جا چپکی تھی۔
     وہ واپس وہیں کھڑی تھی۔پھر وہی فارم ہاؤس کی قید دکھائی دی!بھاگنے کا نتیجہ دیکھ کر تو ذہن ہی ماؤف ہوگیا تھا۔میران نے غصیلی نگاہ گارڈز پہ ڈالی اور سرخ بھبھوکا چہرہ لیے رومائزہ کی طرف بڑھا اور بنا کچھ کہے اسکی کلائی جکڑی اور گاڑی میں بٹھا کے دروازہ لاک کردیا اور گھوم کے ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا۔وہ اسے دیکھ رہی تھی پر کچھ بول نہیں پائی اور نا ہی کوئی مزاحمت کی تھی۔میران کی یہ خاموشی کسی طوفان کی آمد کا پتا دے رہی تھی۔
حلق میں گھٹلی بھر کے معدوم ہوئی۔جبڑے بھینچے،ماتھے کی تنی ہوئی رگیں،میران کی نظریں سامنے روڈ پر جمی تھیں اسٹیئرنگ پہ ہاتھ کی گرفت سے اسکے غصے کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔روما نے کھڑکی سے باہر دیکھا ساری خالی زمینیں تھیں جس راستے سے وہ اسے فارم ہاؤس لے کر پہنچا تھا پورا راستہ خاموشی سے طے گیا۔
       گاڑی فارم ہاؤس کے دروازے پہ رکی پیچھے ہی گارڈز کی دو گاڑیوں نے بریک لگایا تھا۔سیکورٹی گارڈ نے دروازہ کھولا میران گاڑی اندر پارکنگ تک لے گیا۔
تقریباً وقت دس کے قریب تھا۔لان بتیوں سے روشن تھا میران نے شال اتار کے گاڑی میں پھینکی چابی مالی کی طرف اچھالی اور خود اتر کے گھوم کر رومائزہ کی جانب آیا اور دروازہ کھول کے اسے بازو سے پکڑا تھا۔میران کے تیور ہی الگ تھے وہ رومائزہ کو کبھی ہاتھ نہیں لگاتا تھا بہت کوئی مجبوری میں جب وہ یہاں پہلی بار آئی تھی تب ہی بس اسے اس طرح جکڑا تھا..اور اب جب اسکا ہاتھ جلا تھا وہی تھاما تھا۔کوئی حق تھوڑی رکھتا تھا پر رومائزہ کی حرکت پہ وہ خود پہ قابو نا کرسکا تھا نرمی سے چلنے والی وہ چیز تھی ہی نہیں۔
   اس نے رومائزہ کو گاڑی سے اتارا۔روما نے اسکی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کی تھی پر میران نے نظریں نہیں ملائی۔اسکا انداز ایک دم برف کی مانند سرد تھا۔لمبے ڈگ بھرتا اسے اندر لے گیا اور لاؤنچ میں جاکے اسکا بازو آزاد کیا اور پھنکارا۔وہ بازو کی تکلیف پہ ہاتھ سے بازو رگڑنے لگی۔
"منع کیا تھا نا بھاگنے کی کوشش مت کرنا!اگر مرنے کا زیادہ شوق ہے تو میرے ہاتھوں مرجاؤ۔"دونوں ہاتھ ملا کر اس نے ماتھے سے گزار کے سر کو چھوتے دھاڑ کر کہا۔حلیمہ بی شور سن کر فوراً کمرے سے نکل آئیں رومائزہ کو دیکھ کر دل کو تسلی ملی۔
"نہیں رہنا مجھے یہاں خود ہی مرجاؤنگی گھٹ گھٹ کے۔میرا کیا قصور ہے میں کیوں ایک جگہ بند رہوں؟؟"آنسوؤں کا گلا گھوٹ کے اس نے دبی دبی آواز میں کہا لاؤنچ کی خاموشی میں اسکی آواز باآسانی میران اور حلیمہ بی نے سنی تھی۔
"تمھیں یہاں ہر چیز کی آزادی دی ہے۔امانت ہو تم میرے پاس شنواری کی!"وہ پھر اس پہ چیخا۔
"نہیں چاہیے یہ آزادی۔اپنا گھر اپنا ہوتا ہے...کسی کو میری پرواہ نہیں بابا بھی مجھے بھول گئے۔ایک ماہ ہوگیا ہے یہاں رہتے رہتے..اپنی دنیا سے دور۔"اسکے ضبط کا آخری مرحلہ تھا وہ بری طرح چلا اٹھی میران نے مٹھی بھینچی اور اسکے قریب ہوا چہرے پہ جھکا۔
"آنکھیں کھول لو تو معلوم ہوجائے گا کس کو کتنی پرواہ ہے۔میں وقت پہ نہیں پہنچتا تو وہ لوگ تمھارے ساتھ کیا کردیتے کچھ اندازہ بھی ہے!"وہ دوگنی آواز میں غصے سے غرایا تھا ایک پل رومائزہ کو بھی اسکی شعلہ بار نگاہوں سے خوف آیا۔وہ اسکی نظروں سے اوجھل ہوجانا چاہتی تھی۔
"میں لڑ لیتی ان سے اپنے بابا کے پاس چلی جاتی۔"اس نے نظریں جھکا کے کہا میران نے سانس بھری اور استہزاء سے ہنسا۔
"سب دیکھ چکا ہوں اپنی آنکھوں سے۔"اسکے طنز پہ رومائزہ کی آنکھ سے آنسو پھسلے ڈبڈباتی آنکھوں سے اسے دیکھا پر وہ بلکل نرم نہیں پڑا۔
"تم نے میری نرمی کا غلط فائدہ اٹھایا ہے۔"میران نے افسوس سے سر ہلایا۔
"ان سے خود لڑ لیتی...!اندازہ بھی ہے وہ کون تھے...میرے باپ کے آدمی تھے میرے باپ کی زمین پہ تم کھڑی تھیں وہ شنواری کو تکلیف پہچانے کی موقع کی تلاش میں تھے اور تم خود چل کے وہاں پہنچ گئیں۔کیا ان اوباش لڑکوں کو معلوم نہیں ہوگا تمھارا!"
"دنیا کتنی خطرناک ہے تمھیں اسکا اندازہ بھی نہیں ہے۔کون کیسا ہے کیسا نہیں تم نہیں جانتی۔تمہیں کوئی بھی لولی پاپ دے کر کہیں سے کہیں بھی لے جاسکتا تھا اور تم بے وقوفوں کی طرح چلی بھی جاتیں..تمھارے دماغ کی چھوٹی سی دنیا نے کچھ ابھی دیکھا ہی نہیں ہے۔بنا سوچے سمجھے باہر نکل گئیں کچھ ہوجاتا تو...کسی کو پرواہ نہیں ہے رٹ لگا رکھی ہے یہاں سارے تمھارے لیے پاگل ہورہے ہیں دکھائی نہیں دیتا۔اوہ میں تو بھول گیا رومائزہ بی بی کو اپنے علاوہ کچھ دکھتا ہی کہاں ہے!"غصہ تھم نہیں رہا تھا وہ اس پہ برسے ہی جا رہا تھا۔
اسکے لفظوں نے روما کو جھنجھوڑ دیا۔اگر غلط ہاتھوں میں پڑجاتی تو...اندر ہی کہیں اسے ان لڑکوں سے ڈر تو محسوس ہوا ہی تھا اگر میران نا آتا تو...پر زبان پہ یہ بات لانا انا کے خلاف تھا!وہ بلکل چپ رہی۔
"حلیمہ بی جب تک معاملہ حل نہیں ہوتا یہ اپنے کمرے سے ایک قدم باہر نہیں نکالے گی۔بہت بری لگتی ہے نا تمھیں یہ قید اب رہنا ایک ہی کمرے میں۔سہی معنوں میں تمھیں قید کا اب پتا چلے گا۔"نیا فرمان جاری کرتے ہوئے اس نے نگاہیں پھر رومائزہ پہ گاڑی تھیں۔اسکے برف لہجے پہ روما کی بولتی بند ہوگئی میران کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔اسے کہاں عادت تھی اتنا غصہ سہنے کی اور یہاں بھی میران نے کبھی ایسا رویہ اپنایا نہیں تھا۔اسکے نرم لہجے کی وہ عادی ہوگئی تھی۔اسکی محبت پہ جو یقین کر لیا تھا اس وقت جیسے اندر مان ٹوٹا تھا۔
   وہ اسے تکلیف ہر گز نہیں دینا چاہتا تھا پر آج رومائزہ کی بھاگنے کی خبر سن کے جتنا وہ پریشان ہوا تھا وہ تھوڑی سمجھ سکتی تھی۔جب اسے ان لڑکوں کی گرفت میں دیکھا تھا اسکا خون کیسا کھولا تھا،جب وہ اسے مل نہیں رہی تھی اسکے دل پہ کیا گزر رہی تھی۔وہ تو بھاگتے بھاگتے نا جانے کدھر چلی آئی تھی۔گارڈز نے شہر کے راستے پہ ڈھونڈا پر وہ وہاں نہیں ملی پھر میران نے دوسرے راستے پہ گاڑی دوڑائی تھی۔وہ ایک ایک لمحہ جب وہ غائب تھی صرف چند گھنٹوں میں اسکی حالت کیا ہوئی تھی۔جو دل کے قریب ہوتے ہیں انسان لمحوں میں ان کی دوری پہ گھبرا ہی تو جاتا تھا اپنوں کا دور جانا بڑی مشکل سے انسان قبول کرتا ہے۔پھر وہ تو محبت تھی۔اور امانت بھی....
     "تم کتنی بھی زنجیریں میرے پیروں میں ڈال لو میں توڑ کے فرار ہوجاؤنگی۔"تنکتے ہوئے اس نے جواباً کہا میران نے اسے غور سے دیکھا۔
"تم کہیں بھی چلی جاؤ لوٹ کے میرے پاس ہی آؤگی تمہیں آنا پڑے گا!"
"مجھ پہ حق مت جمایا کرو...کچھ نہیں ہوں میں تمھاری کوئی رشتہ نہیں ہے۔"غراتے ہوئے اس نے میران کی آنکھوں میں دیکھے کہا۔حلیمہ بی ان دونوں کے مکالمے کے درمیان بولنے کی جرت کر بھی نہیں پائی تھیں۔
"فکر کیوں کرتی ہو بہت جلد اس دل کے رشتے کو حقیقی رشتے میں تبدیل کرونگا۔"پھنکارتے ہوئے وہ دوبدو بولا رومائزہ لڑکھڑا کے پیچھے ہوئی۔
"حلیمہ بی اسے لے جائیں اور نرمی سے کام نا چلے تو آپ سختی کرسکتی ہیں۔مہمان تین دن کا ہوتا ہے اسے تو ماہ ہوگیا ہے۔"وہ سکون سے طنز کے نشتر چلا رہا تھا۔رومائزہ اپنی بے بسی پہ رو دی کتنا شکوہ کرتی کتنا خود کے لیے لڑتی۔تھک گئی تھی۔
وہ حلیمہ بی پہ شکوہ کناں نظر ڈالتی الٹے قدموں وہاں سے نکل کر تیزی سے کمرے کا دروازہ کھول کر خود کو کمرے میں بند کر چکی تھی اور دروازے سے لگ کے آنکھوں سے بہتے سیال کو روکنے کی کوشش کرنے لگی۔حلق میں گویا آنسوؤں کی گٹھلی بھر کے معدوم ہوئی۔
مردوں کی جنگ تھی پر اسکا خمیازہ ایک لڑکی ذات کو بھگتنا پڑرہا تھا۔گھٹنوں کے بل بیٹھی وہ مزید سمٹتی خود کو تکلیف دینے سے روک نہیں پارہی تھی۔ان آنسوؤں پہ آج جبر کرنا بے حد مشکل تھا۔تھی تو وہ نازک گڑیا ہی پر شیرنی کی مانند دیدہ دلیر تھی۔پر آج وہ شیرنی خود کو اتنا بے بس محسوس کر رہی تھی کہ سانسیں تو تھیں پر کوئی زندگی نہیں تھی۔وہ ریزہ ریزہ بکھرتی جارہی تھی کمرے کی خاموشی میں بس اسکی ہچکیوں کا راج تھا۔
     باہر ایک وجود اور تھا جس پہ بے چینی طاری ہو چکی تھی۔میران حلیمہ بی کی طرف پلٹا۔
"چھوٹے سائیں..."حلیمہ بی مزید بولتیں اس نے انھیں خاموش کردیا۔
"آپ پہ بھروسہ کرکے اسے یہاں رکھا ہے آپ اگر لاپرواہی کریں گی تو وہ موقعے کا فائدہ ضرور اٹھائے گی۔سب جانتی ہے وہ اسے سارا علم ہے ہم اسے تکلیف نہیں دے سکتے میری محبت کا بہت فائدہ اٹھا لیا ہے اب مزید نہیں۔آئیندہ کوئی کوتاہی معاف نہیں ہوگی۔"چہرے کے تنے نقوش،لب بھینچے وہ بولا حلیمہ بی نے سر ہلایا۔
"معاف کردیں مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا وہ بھاگ جائے گی۔شام تک بلکل ٹھیک تھی ہنس بول رہی تھی مجھے علم ہی نا ہوا اسکی خوشی کی وجہ کیا ہے..."حلیمہ بی نے تھوڑی صفائی پیش کی میران سانس لیتے وہاں سے واک آؤٹ کرگیا۔
باہر عزیز گارڈز کے ہمراہ کھڑا تھا...بلخصوص زخمی گارڈ سر پہ پٹی باندھے کرسی پہ بیٹھا تھا میران کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
میران نے طائرانہ نظر ان سب پہ ڈالی عزیز تو وہاں سے ہٹ ہی گیا تھا۔
"عزیز ان سب کو فارغ کرو کسی ایسے فرد کی ضرورت نہیں جو زمہ داری چھوڑ چھاڑ کھیل میں وقت گزارے۔"میران نے شطرنج ٹیبل پہ رکھا دیکھا اس پہ نظریں جمائے بولا اور قریب جاکے ہاتھ سے اسے الٹ دیا۔اسکے غصے کے آگے بولنے کی ہمت کسی کی بھی نہیں ہوئی سارے سر جھکا کے کھڑے رہے۔عزیز نے حکم سنتے ہی سر تابعداری سے جھکایا۔
آخری نگاہ ان سب پہ ڈال کے وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ گیا تھا۔عزیز نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی مالی نے اسے چابی دی تھی۔اس نے گاڑی کے شیشے چڑھائے اور تیزی سے گاڑی وہاں سے نکال لی۔بیک مرر سے میران پہ نظر ڈالی تھی جو ضبط کے مراحل سے گزر رہا تھا۔اسکا اپنا بازو گولی لگنے کی وجہ سے درد کر رہا تھا۔پلاسٹر وغیرہ اس نے اتار دیے تھے پر ڈاکٹر نے احتیاط کی تاکید کی تھی پر اس نے اس لڑکے کو اتنا مارا تھا بازو میں تکلیف بڑھنے لگی۔
سیٹ پہ پشت ٹکائے اس نے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے آنکھیں موند لی تھیں۔
"سائیں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہاسپٹل لے چلوں؟.."
"بکواس نہیں کرو...شنواری کا پتا کرو کب پیسے دے گا اپنی بیٹی کو بھول ہی گیا ہے..."سیدھے ہوتے اس نے انگھوٹے کی نوک سے آنکھوں کے کنارے مسلے۔عزیز نے گاڑی کا رخ موڑتے ہوئے سر ہلایا۔جب سے رومائزہ میڈم اسکے سائیں کی زندگی میں آئی تھیں عزیز کو میران کی ڈانٹ اور غصہ سننے کی عادت جو نہیں تھی اب ہوگئی تھی۔
                            ★ ★ ★
گھر پہنچتے رات ہی ہوگئی تھی،عائشے تو سیدھا کمرے میں جا گھسی اور نیمل کی کلاس زرپاش صاحبہ نے لے لی تھی۔
"مام بھائی کو میں نے بتادیا تھا اب انھوں نے آپ کو کچھ نہیں بتایا یہ انکی غلطی آپ ان پہ غصہ کریں میرا کیا قصور۔"وہ بلکل مظلوم بن رہی تھی زرپاش نے اسے گھور کے دیکھا۔
"اسکو اپنے سو کام ہوتے ہیں وہ مجھے تمھاری خبریں دیتا رہے گا کیا!بہت بگڑ رہی ہو تم آنے دو تمھارے بابا کو وہی تم دونوں کی خبر لیں گے۔تینوں کے تینوں اپنے باپ پہ گئے ہیں من موجی!"وہ غصے میں بڑبڑاتی کھانا کھانے لگیں۔
یہ منظر ڈائنگ ہال کا تھا۔
"اچھا چھوڑیں یہ سب...آپکو پتا ہے میں آج کس سے ملی..."وہ خوشی کی عالم میں چہکی زرپاش کی توجہ کھانے پہ ہی رہی۔
"او ہو مام دیکھیں تو سہی...."نیمل نے پلیٹ میں چمچ رکھا اور سائیڈ رکھا موبائل ان لاک کیا اور کچھ چھیڑ خانی کرنے کے بعد اسکرین ماں کی طرف گھمائی۔زرپاش کا ارادہ سرسری سا دیکھنے کو تھا پر تصویر دیکھ کر نگاہیں ٹھہر گئیں۔ماتھے پہ لاتعداد شکنیں ابھر گئیں انھوں نے حیرت سے نیمل کو دیکھا جو کندھے چوڑے کیے بیٹھی تھی اور شان سے چاول  چمچ میں بھر کے منہ میں ڈالے تھے اور مزے سے شانے اچکائے۔جیسے کچھ جتا رہی ہو۔
"کہاں ملی تم میران جاہ سے؟"
وہ حیرت زدہ تھیں۔انکے پوچھنے پہ نیمل نے تفصیل بتائی۔
"اور یہ بھابھی کی دوست انوش ہے۔ویسے سچ بتاؤں یہ میری جیسی ہی ہے بھابھی سے بہت مختلف ہے۔اور بہت اچھی لڑکی ہے اگر آپ بھی اس سے ملیں گی تو متاثر ہوجائیں گی۔"اس نے موبائل زرپاش کے ہاتھوں میں دے دیا جو تصویر زوم کر کے دیکھنے لگیں نیمل ہنسنے لگی۔
  "میری بڑی خواہش تھی ایک بار میران جاہ سے مل لوں دیکھیں پوری ہوگئی۔الحمداللہ.."زرپاش سے موبائل لیتے اس نے کہا وہ سر ہی ہلا سکیں۔
"بس اب یہ میران نامہ بند کرو کھانے پہ دھیان دو اور آئیندہ بنا بتائے کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔"وہ دو ٹوک کہتی کھانے میں مشغول ہوگئیں۔
                           ★ ★ ★
مراد دیر رات گھر لوٹا تھا عائشے نیند کی کمی کی وجہ سے بیدار تھی اور کمرے کے چکر کاٹ رہی تھی۔اسے اتنا معلوم تھا مراد کو آئے دس منٹ ہوچکے ہیں اور وہ ماں کے کمرے میں حاضری لگانے ہی سب سے پہلے گیا ہے۔اور نیمل زرپاش کے ساتھ تھی یہ بھی اسے معلوم تھا۔
   مراد کمرے میں آیا دونوں کے درمیان کوئی خاصی گفتگو نہیں ہوئی وہ سیدھا شاور لینے باتھ روم میں گھس گیا تھا۔تھوڑی دیر میں تولیے سے بال خشک کرتے باہر نکلا تو عائشے نے نظریں جھکا لی اور بیڈ کی دوسری جانب جاکے بیٹھ گئی جہاں عموماً وہ سوتی تھی۔
وہ اپنے کام کرتا رہا ڈریسنگ کے پاس جاکے بال سنوارے سردیوں کی بدولت ہاتھ خشک ہونے کی وجہ سے لوشن بھی ہاتھوں اور چہرے پہ ملا عائشے کو شدید کوفت ہوئی۔کمرے میں ہیٹر کی وجہ سے گرمائی تھی۔رات کو مراد کے نہانے کی عادت عائشے کو بڑی چبھتی تھی۔اتنی سردی میں رات کو نہانے کی کیا تک بنتی ہے؟وہ تو ایسا مر کے بھی نا سوچے۔
اور پھر آخر کار صوفے سے شرٹ اٹھا کے اس نے وہ بھی پہن لی تو عائشے نے نظریں اٹھائیں اور کمرے میں دوڑائیں مراد کو دیکھا جو صوفے پہ لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا۔
عائشے کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھ رہے تھے وجہ تحفہ تھا!نیمل نے یقیناً وہ انگھوٹی کا باکس اسے دے دیا ہوگا تو پھر وہ کب عائشے کو دیتا وہ بے حد چین ہورہی تھی پتا نہیں کیوں..اول تو اسے مراد برا لگتا تھا کیونکہ وہ پولیس والا تھا پھر اس نے تقدیر سے سمجھوتا کرلیا بس رہ رہی تھی دن کاٹ رہی تھی۔پر آج جو انوش اور نیمل کے ساتھ دن گزارا اسے خود میں تھوڑی تبدیلی محسوس ہوئی۔اور مراد کے سرپرائز کا جو انوش نے بھانڈا پھوڑا تھا اب وہ بےصبری ہورہی تھی کہ مراد کب خاموشی توڑے گا۔
وہ کافی دیر اسے بیڈ سے پشت ٹکائے دیکھتی رہی مراد کو عائشے کی نظریں خود پہ جمی کافی دیر پہلے ہی محسوس ہوگئی تھیں پر وہ ہنوز اپنے کام میں لگارہا تھا۔
"زیادہ ہی اچھا لگ رہا ہوں تو یہاں آکے دیکھ لو،تمھارا اپنا شوہر ہوں شکل کی بہتر کوالٹی دیکھنے کو ملے گی۔"جب پانی سر سے گزر گیا تو مراد نے بھی عاجز آکے کہا۔پولیس والا تھا اتنی دیر کسی کی نظروں میں رہنا برداشت نہیں ہوا۔اسکی بات پہ عائشے جزبز سی ہوگئی۔
"آپکو تھوڑی دیکھ رہی ہوں۔اندھیرے میں آپ تو کیا آپکی شکل بھی نہیں دکھ رہی۔"وہ ناخن چباتے خفت مٹاتے ہوئے بولی۔کمرہ نیم روشن تھا۔عائشے کی جانب کا لیمپ روشن تھا اور مراد کے لیپ ٹاپ کی اسکرین۔
"جب ہی کہہ رہا ہوں ادھر آجاؤ۔"اس نے صوفے کے برابر میں اشارہ کیا عائشے دانت پیستی رہ گئی۔آج وہ اسے سہی میں پولیس والا لگا تھا وہی جو اسے زہر لگتے تھے اور وجہ بہت ساری تھیں ایک وجہ یہی جو مراد نے ایسی بات کردی تھی۔
"میں تو آنا نہیں چاہتی پر آپکی خواہش ہے بار بار کہہ رہے پاس بلارہے ہیں تو ٹھیک ہے آجاتی ہوں۔"وہ ہوبہو جتاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی پاس بیٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اس نے اٹھ کے رضائی کھولی تھی اور واپس بیٹھ گئی مراد کے ہونٹ مسکراہٹ میں بدل گئے اور جب وہ بیڈ پہ لیٹ گئی تو مسکراہٹ گہری ہوگئی۔مراد پہ آج کل ورک لوڈ کافی تھا۔اس نے شاید ٹکٹس بک کروائی تھیں۔لیپ ٹاپ بند کرکے اپنی جگہ پہ چلا آیا اور بیٹھ گیا۔عائشے کی طرف اس نے گردن موڑی جو اسی کی طرف کروٹ لیے لیٹی تھی۔آنکھیں بند تھیں۔
"صبح جلدی اٹھ کے کچھ سامان پیک کرلینا..."ٹانگیں بیڈ پہ رکھتے مراد نے رضائی خود پہ ڈالی۔وہ فلحال بیٹھا ہی تھا.عائشے کی پٹ آنکھیں کھل گئیں۔
"کیوں؟کہیں جارہے ہیں کیا؟"
"ہاں سوات دو دن کے لیے۔"
"پر کیوں؟"وہ اٹھنے لگی تھی کہ مراد کی اگلی بات پہ منہ پہ قفل لگ گیا اور شرمسار سی ساکت رہ گئی۔
"ہنی مون پہ نہیں لے کر جارہا جو اتنے سوال جواب۔ضروری کام ہے اس لیے جارہا ہوں۔اور تم اپنا سامان بھی پیک کرلینا وہاں سردی زیادہ ہوگی۔تمھاری وہاں ضرورت تو نہیں ہر یہاں چھوڑنا مجھے مناسب نہیں لگ رہا تو تم میرے ساتھ ہی چلو گی۔"اسکا حکمیہ اٹل انداز تھا عائشے ساکن سی کیفیت میں اسکو دیکھتی رہ گئی پھر زرا سنبھلی۔
"اور پلیز کروٹیں کم لیا کرو...مجھے صبح ڈیوٹی پہ جانا ہوتا اسکے لیے فریش رہنا لازمی ہے۔ایک رات کو انسان سو کے سکون حاصل کرتا اس میں بھی تم پورا بیڈ ہلا کے رکھ دیتی ہو۔"اسکی بات پہ عائشے کا منہ کھلا کا کھلا اور آنکھیں پھٹی رہ گئی اور وہ اب بھی خاموش نا ہوا مزید بولا۔
"خود تو چاہو دن میں بھی سوجاتی ہوگی ہم پورے دن کام میں لگ کے خجل خوار ہوتے ہیں ایک رات نصیب ہوتی اس میں بھی بیگم صاحبہ کو سکون نہیں ہوتا۔"وہ تیز آواز میں ہی بڑبڑارہا تھا جیسے ساری بھڑاس نکالی ہو۔عائشے کو اسکے طنز پہ غصہ آنے لگا۔کیا آدمی تھا کبھی اتنا اچھا اور کبھی طعنے دے کر ہی مار دے ایسا۔
"ٹھیک ہے پھر کل خود ہی دو دن کے لیے باہر چلے جائیے گا۔اور آرام سے نیند پوری کر آئیے گا میں وہاں نہیں ہونگی تو آپ بلکل ڈسٹرب نہیں ہونگے۔"رضائی کھینچتے عائشے نے کروٹ بھی بدل لی۔اب مراد کی طرف اسکی پیٹھ ہوگئی مراد جو چت لیٹ چکا تھا عائشے کی طرف مڑا اور بازو پکڑ کے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔
"تم سے پوچھا نہیں میں نے تم کو حکم دیا ہے۔اول تو شوہر کا حکم ماننا بیوی کا فرض ہے اور میں نے صرف ساتھ چلنے کا کہا ہے!اب بنا چوں چراں کیے سوجاؤ اور سونے دو...پتا نہیں کتنا بولتی ہو۔"مراد نے طاقت لگا کے رضائی کھینچ کے خود پہ ڈالی عائشے بھن کے رہ گئی۔
وہ بول رہی تھی یا مسلسل وہ طنز کے تیر برسا رہا تھا۔حد تھی...
                        ★ ★ ★
دیر رات اس نے بنگلے میں قدم رکھا تھا زولفقار صاحب کو جب معلوم پڑا کہ آج پھر وہ بغیر سکیورٹی کے نکل گیا انھوں نے گارڈز پہ بے حد غصہ کیا تھا۔دونوں بار وجہ وہ لڑکی رومائزہ شنواری تھی۔ناجانے اس میں ایسا کیا تھا جو میران کو اسکے علاوہ اور کوئی دکھتی نہیں تھی۔وہ اپنے دوست کی بیٹی سے اسکا رشتہ کرنا چاہ رہے تھے پر رومائزہ کے ہوتے ہوئے یہ کرنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔
ان کو خبر مل گئی تھی وہ لڑکی بھاگ گئی ہے۔فارم ہاؤس کے گارڈز میں سے ہی کوئی ایک انکا پالتو تھا جس نے خبر دی تھی۔اور وہ انکے آدمیوں کے چنگل میں پھنس بھی چکی تھی اور پھر وہاں میران آگیا۔
میران نے رات کا کھانا کھایا۔سونے سے پہلے اس نے لیپ ٹاپ کھولا تھا۔انگلیوں کو حرکت دی اور تھوڑی دیر میں فارم ہاوس کے باہر کا منظر اسکے سامنے تھا۔
وہ اس لڑکی کی بہادری دیکھ رہا تھا کیسے اس نے گارڈ کو بے ہوش کیا اور مہارت سے دیوار پھلانگ کے بھاگی تھی۔فوٹیج دیکھ وہ عش عش کر اٹھا۔اسکی محبت کوئی معمولی لڑکی نہیں تھی۔آج میران نے اس پہ بلکل ترس نہیں کھایا تھا اور سخت فرمان جاری کردیے تھے۔پر اب غصہ کافی حد تک ٹھنڈا ہوچکا تھا۔
رومائزہ کی بھیگی آنکھوں کی پرچھائی نظروں میں گھوم گئی اسکا ہر درد وہ ختم کردینا چاہتا تھا پر وہ لڑکی بہت پتھر دل بن رہی تھی۔اسکے جذبات کی قدر کرتی پر قبول نہیں کرتی تھی۔کچھ مغرور سی بھی تھی وہ۔خیر دل میں دھڑکنے لگی تھی نخرے تو پھر برداشت کرنے ہی تھے بس اب جلد از جلد اسے حاصل کرنے کی خواہش تھی۔ایک بار اس نے پھر اسکرین دیکھی باریک سی مسکراہٹ ہونٹوں پہ در آئی۔
"میری شیرنی.."مسکراہٹ روک کے لقب دیتے
اس نے لیپ ٹاپ بند کردیا اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔
    وہ ساری رات میران کے انتظار میں جاگتے رہے تھے جب اسکی گاڑی کی آواز آئی بالکونی میں جاکے اسے اندر بڑھتے دیکھا تب بستر پہ جاکے لیٹے۔اب جب اگلی صبح وہ آفس میں شمس سے کل رات کے واقعے پہ گفتگو کر رہے تھے میران نک سک سا تیار انکے آفس میں آیا۔بیٹے کو سامنے خوبرو دیکھ کر انکے جسم میں  غرور و سرور کی سرشاری سرائیت کر جاتی تھی۔ایسا نہیں تھا کہ انکو میران سے محبت نہیں تھی۔پر میران کے علاوہ انکو اپنے کالے دھندوں سے بھی محبت تھی۔
یہ انکی آفس کی عمارت تھی۔وہ چلتا ہوا گلاس وال تک آیا کھڑکی کھول کے اس نے ٹھنڈی ہوا کے اندر آنے کا راستہ بنایا۔وہ بہت پرسکون دکھائی دے رہا تھا۔
"آپکے آدمیوں نے اچھا نہیں کیا۔"سیگریٹ انگلی میں دبا کر وہ گھوم کے انکے سامنے میز کے دوسری طرف ریوالونگ چئیر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔شمس پہ نگاہ ڈالنا بھی گوارا نہیں کی تھی۔
"وہ تم سے خود رہائی چاہتی ہے تو کیوں قید کر رکھا ہے؟تمھارے قابل نہیں وہ۔"وہ سیدھے ہوکے بے تاثر انداز میں بولے میران نے کوئی تاثر نا دیا۔نظریں ان پہ جمائیں۔
"زولفقار صاحب اپنی انا کو ختم کردیں۔اس جنگ میں اکیلے رہ جائیں گے چھوڑ دیں یہ سب۔وہ لڑکی بے قصور ہے جو اتنا سب برداشت کر رہی وجہ ایک آپ اور دوسرا اسکا اپنا باپ ہے۔میں اسے بس بڑے نقصان سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں۔"رومائزہ اسکے لیے کیا تھی اسکی گواہی وہ دینا ضروری نہیں سمجھتا تھا۔مختصر سی اس نے بات کہی اور کھڑا ہوگیا۔
"اور ہاں اگر یہ پالتو کتے زیادہ جمع ہوگئے ہیں تو نکال دیں ایسے مرنے کے لیے انکو میرے کاموں میں ٹانگ اڑانے کے لیے نا چھوڑا کریں۔"وہ آرام سے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا جیبوں میں ہاتھ ڈال کر باہر نکل گیا۔پیچھے کمرے کا ماحول گرم ہوگیا تھا۔
زولفقار جاہ نے شمس کو دیکھا۔
"اس پولیس والے کے کیا حال چال ہیں؟"
"نئے کیس میں پھنسا ہے پر وہ چھوٹے سائیں سے تعلقات اچھے بنانے کی سہی کوششوں میں ہے۔"
"میران کو کچھ عرصے کے لیے باہر بھیجنا پڑے گا۔اٹلی کی لیدر فیکٹری میں نقصان ہورہا ہے۔اپنے دادا کے کاروبار کے لیے وہ لازمی وہاں جائیگا۔"تسلی سے سرہلاتے انھوں نے لمحوں میں پلان بنالیا تھا۔نقصان تھا؟یا کروایا جائے گا!
شمس کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ در آئی زولفقار صاحب ہنس دیے۔
کیونکہ بہت سے کام تھے جو میران کی غیر موجودگی میں ختم کرنا ضروری ہوگئے تھے۔
                          ★ ★ ★
   حلیمہ بی رات سے رومائزہ کے کمرے کا دروازہ کھٹکا کھٹکا کے تھک گئی تھیں پر اس نے دروازہ نہیں کھولا۔انھوں نے کچھ دیر اسے اکیلے چھوڑنا ہی مناسب سمجھا تھا۔ساری رات انکی جاگتی آنکھوں میں گزر گئی۔فجر ادا کی سورج نکلا انھوں نے ناشتہ بنایا۔کمرے سے چابیوں کے گچھے سے مطلوبہ چابی نکالی اور روما کے کمرے کا دروازہ کھولا۔چابی کی آواز پہ اسکے وجود میں جنبش ہوئی۔وہ زمین پہ بیڈ سے پشت ٹکائے گھٹنوں کے بل بیٹھی ساری رات روتی رہی تھی۔
حلیمہ بی نے دروازہ اندر کی جانب دھکیلا اور اندر قدم رکھے پورا کمرا صاف ستھرا پڑا تھا بس ایک وہی بے جان سی سکڑی سمٹی ٹھنڈے فرش پہ بکھری حالت میں پڑی تھی۔رومائزہ نے سر اٹھا کے دیکھا سرخی میں مائل،آنسوؤں کے دھبوں سے بھرا بھرا چہرا سوجے ہوئے آنکھوں کے پپوٹے۔اسکی حالت پہ انھیں دکھ ہوا وہ اسکے پاس آئیں پنجوں کے بل بیٹھیں۔چہرے پہ چپکے بال پیچھے کئے ہاتھوں سے ہی اسکا چہرہ صاف کیا تھا اس نے آنسو پہ قابو پاتے افسوس و غم کے ملے جلے تاثرات سے انھیں دیکھا۔اور جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ ان سے ناراض تھی۔ہونا تو حلیمہ بی کو چاہیے تھا وہ اسکے اقدام پہ خفا ہوئی بھی تھیں پر رات میران جو اس پہ اتنا برسا تھا اسکے آگے حلیمہ بی نے اپنی ناراضگی بھلا دی تھی۔
"اب کیوں محبت کا احساس دلا رہی ہیں۔جب کل آپکی ضرورت تھی آپ ایک لفظ بھی میری حمایت میں نہیں بولیں۔ہاں بولتی بھی کیوں آپ تو اسی کی ملازم ہیں اسی کا کہا مانیں گی چاہے وہ دوسروں کی زندگی کے کچھ بھی فیصلے کرتا پھرے۔بلکہ مجھے معاف کردیں آپکے سائیں کے خلاف بہت بکواس کر رہی ہوں۔"دبے دبے غراتے لہجے میں اس نے غصہ ظاہر کیا اور آخر میں تمسخر سے معافی مانگتے ہنسی۔
"میرا بچہ میں تم دونوں کے درمیان کیا بولتی۔مجھے اتنی چھوٹ حاصل نہیں ہے۔"
"ساری چھوٹ آپکو حاصل ہے وہ سب کچھ آپکو بتاتا ہے۔میں اندھی نہیں ہوں میں نے دیکھا ہے کتنی آپ سے محبت کرتا ہے کتنا اسے آپکا خیال ہوتا ہے۔جب بھی آتا ہے میرے ساتھ ہمیشہ آپکی بھی خیریت دریافت کرتا ہے۔باقی ملازموں کے ساتھ اسکا ایسا رویہ نہیں۔آپکو وہ ماں کی طرح سمجھتا ہے اور آپ بھی بیٹا سمجھتی ہیں۔چھوٹے سائیں چھوٹے سائیں کرنا میرے سامنے ایک بہانہ ہے۔"وہ بیڈ پہ بیٹھتی پھٹ پڑی حلیمہ بی تحمل سے سنتی رہیں پھر سانس بحال کی۔
"میں چلی گئی تھی پھر اس نے واپس مجھے یہیں لاکر پھینک دیا۔اور میں اسکا کوئی حکم نہیں مانوں گی کمرے میں بند رہوں...ہنہہہ..ہوتا کون ہے مجھ پہ فیصلے تھوپنے والا۔آپ اسے روک سکتی تھیں پر آپ نے اسے نہیں روکا مجھے آپ سے یہی شکایت ہے۔"
"کیوں روکتی ان کو؟انکا فیصلہ ٹھیک تھا تم بھاگ نکلی سزا تو دیتے نا!اندازہ بھی ہے تمھاری فکر میں کتنا پریشان ہوئی ہوں۔اگر وہ بیٹوں کی طرح ہیں تو تم بھی بیٹی جیسی ہو۔
بہت غصہ آیا تھا تمھاری حرکت پہ...میرے بھروسے کو تم نے ٹھیس پہنچائی ہے۔"وہ اسے دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔روما کے اعصاب ڈھیلے پڑے۔
"میں ڈر گئی تھی اگر وہ نا آتا تو عزت بچاتے بچاتے مر جاتی۔"
ان غلیظ نظروں سے اسے خوف ہی تو آیا تھا۔دوسری طرف میران کی نگاہیں زہن میں گردش کرنے لگیں جہاں ہمیشہ عزت و احترام ہوا کرتا تھا۔اور اسکے علاوہ محبت یا پھر غصہ!
"میں نے لڑنے کی بہت کوشش کی پھر بھی..."سر جھکائے وہ خاموش ہوگئی حلیمہ بی اپنی بات مکمل کرکے کمرے سے نکلنے لگی تھیں پر اسکے دھیمے نم لہجے پہ قدم رک گئے وہ پلٹیں اسکے پاس واپس آئیں۔اکیلا کیسے چھوڑ سکتی تھیں۔اسے خود سے لگالیا وہ لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی اسکے بالوں پہ بوسہ دیا اسکے پاس ہی بیٹھ گئیں۔
"سوری..."پھر خاموشی میں آواز پھیلی حلیمہ بی نے اسکے بالوں پہ ہاتھ پھیرا۔
"کل بہت ستایا ہے تم نے...اب بھول جاؤ جو ہوا غلطی تمھاری تھی۔"اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے  کھڑا کیا۔ساری رات جو وہ روئی وجوہات ایک میران کا لہجہ اور دوسرا ان لڑکوں کے ساتھ  ہوا حادثہ تھا۔انکی نگاہیں یاد آتے ہی پورا جسم اسے جلتا ہوا محسوس ہورہا تھا جیسے کسی نے جسم میں انگارے بھر دیے ہوں۔
"وہ کیا کرے گا ان کے ساتھ؟"
"وہ ایسے درندوں پہ رحم نہیں کریں گے جو کسی لڑکی کی عزت خراب کرنے کے درپے تھے۔"انکا لہجہ سرد ہوگیا تھا۔
"مار دے گا؟"اسے حیرانی ہوئی حلیمہ بی خاموش رہیں۔
رومائزہ نے اپنا جلا ہوا ہاتھ آگے کیا جسکے زخم بلکل تازہ تھے اور چھالے پڑے تھے۔حلیمہ بی سر پکڑے رہ گئیں۔
"پاگل لڑکی کیا کرتی ہو تم۔رات سے تکلیف برداشت کر رہی ہو۔"وہ فوراً کریم اور پٹی لے آئی تھیں اور اسکے ہاتھ پہ لگانے لگیں۔وہ انکے خیال کرنے پہ جی بھر کے مسکرائی۔
"ہاں تو مجھے غصہ تھا اس لیے نہیں بتایا۔جب ان موالیوں سے دو دو ہاتھ کیے اس وقت تو بس میرا ضبط تھا۔اور اس نے جب بے دردی سے ہاتھ پکڑے تھے اتنی جلن ہورہی تھی مجھے۔اور جب چھلانگ لگائی تب بھی ہاتھوں کے بل ہی گری تھی۔سب سے زیادہ اس ہاتھ پہ ظلم ہوا ہے۔"وہ دکھی انداز اپنا کر بولی۔
"خود ہی الٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہو بہت لاپرواہ ہو۔"
"نہیں بھئی میں اپنا بہت خیال رکھنے کی کوشش کرتی ہوں خود ہی دیکھ لیں۔"اس نے اشارہ چہرے کی طرف کیا۔حلیمہ بی نے اسکی شکل دیکھی۔
"روتی شکل لگ رہی ہو بلکل۔"انکی بات پہ وہ ہنس دی۔
"شکر میں نے مارشل آرٹس سیکھ لی تھی بچپن سے ہی شوق تھا دیکھیں کتنا کام آیا یہ سب سیکھنا۔ہر لڑکی کو چاہیے اپنی حفاظت کے لیے کراٹے سیکھ لے۔"وہ مسلسل بولے جا رہی تھی۔زیادہ بول کر بھی وہ اپنی تکلیف کو چھپانے کی کوشش کیا کرتی تھی۔حلیمہ بی تو بس اسکی سننے کے لیے رہ گئی تھیں۔پٹی کرکے وہ فارغ ہوئیں۔۔رومائزہ نے ہاتھ الٹ پلٹ کر دیکھا۔
"تھینک یو۔"
"اب شاباش فریش ہو لو ناشتہ بن گیا ٹھنڈا ہوجائیگا۔ٹیبل سیٹ کر رہی ہوں تم فٹا فٹ آجاؤ۔"مسکرا کر کہا تو اس نے سوجی ہوئی بڑی آنکھوں سے انھیں دیکھا۔
"اس نے منع کیا ہے آپ حکم عدولی کریں گی؟"اسے حیرت ہونے لگی۔
"اگر وہ میرے بیٹے ہیں تم میری بیٹی ہو۔آخری فیصلہ ماں کا ہوتا ہے چلو جلدی سے آؤ۔"
"وہ آپ سے ناراض ہوجائیگا۔"
"نہیں ہونگے۔البتہ اگر تم انکی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتی تو میں ناشتہ یہیں لے آتی ہوں۔"روما نے فوراً نفی کی۔
"ایسا نہیں ہے۔میں آپکے کہے بغیر خود باہر نکل آتی۔کیوں مانوں اسکی بات آیا بڑا کڈنیپر بنا پھرتا ہے۔"آخر میں بڑبڑاتی ہوئی وہ واش روم میں گھس گئی حلیمہ بی ہنستی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئیں۔اور رومائزہ شنواری کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا۔
                              ★ ★ ★
مراد فریش ہوکر کمرے سے باہر نکل گیا تھا اسے لگا عائشے اٹھ جائیگی پر جب وہ آدھے گھنٹے بعد واپس آیا تو وہ اب تک رضائی میں دبکے سو رہی تھی۔اس نے سانس خارج کی گھڑی دیکھی۔دس بجے تھے۔اور دو بجے انکی فلائٹ تھی۔سر جھٹکتے وہ اسکے پاس آیا۔
آج وہ پہلی بار اسے خود سے اٹھا رہا تھا اسے خود بھی سمجھ نہیں آیا کیا بولے۔
"سنو..."سرہانے کھڑے اس نے مخاطب کیا پر وہ ٹس سے مس نا ہوئی مراد نے چہرے پہ ہاتھ پھیرا اور اسے بازو سے جھنجھوڑا۔
"بیگم صاحبہ اٹھ جائیے دیر ہورہی ہے۔"ایسے بے دردی سے جھنجھوڑنے پہ وہ بوکھلا کے اٹھ بیٹھی۔آنکھیں ڈھنگ سے کھل بھی نہیں پائی تھیں اس نے انگلی سے آنکھیں رگڑ کے مراد کو دیکھا جو اسکے سر پہ قریب ہی تیور چڑھائے کھڑا تھا۔
"کیا آپ کو طریقے سے جگانا نہیں آتا؟"
"تم ہی بتادو کس طریقے سے جگاتا!"عائشے پہ نظریں ٹکائے اس نے پوچھا۔
"آواز دے دیتے میں جاگ جاتی۔"خود پہ سے رضائی ہٹاتے ہوئے وہ بولی۔
"یہ طریقہ فیل ہوچکا تھا پھر مجھے اپنا طریقہ آزمانا پڑا۔فٹافٹ تیاری کرو دو بجے کی فلائٹ ہے۔زیادہ کچھ نا بھرنا بس گرم کپڑے رکھ لو دو دن کے حساب سے۔"مسہری سے اٹھ کے اسکے روبرو کھلے بالوں میں کھڑی تھی۔وہ زیادہ تر اسے جگائے بنا ہی نیچے چلا جاتا تھا عائشے خود نیمل کے ساتھ ٹیبل پہ آجاتی تھی۔شادی کی پہلی صبح کے بعد اس نے آج اسے جاگنے کے فوراً بعد دیکھا تھا۔پتا نہیں کیوں وہ اسے اچھی لگنے لگی تھی۔
اس پہ سے نظریں ہٹائے وہ بالکونی کی طرف بڑھ گیا عائشے شانے اچکاتی فریش ہونے چلی گئی۔ایک ہی سوٹ کیس میں ان دونوں کا سامان آسانی سے آگیا تھا۔مراد سوٹ کیس لے کر باہر چلا گیا۔عائشے اپنی تیاری میں لگی رہی۔
اس نے انوش کو فون ملایا ہوا تھا۔
  "کب تک واپس آؤگی؟"بے چینی سے پوچھا۔
"بس دو دن میں..."آئینے میں اپنے سراپے پہ اس نے نگاہ ڈالی اور انگلیوں کی مدد سے سر میں آڑھی مانگ نکال لی۔وہ مکمل تیار ہوچکی تھی۔
"لڑکی ایک بات بتاؤ.."انوش جامعہ میں بیٹھی کینٹین میں موجود کافی کا گھونٹ بھرتے بولی۔اردگرد کی دنیا میں خوب شور تھا عائشے سے بات کرنے کے لیے اس نے پرسکون سا کونا اپنے لیے تلاش کیا تھا اور وہیں ٹک گئی۔سچ تو یہ تھا رومائزہ اور عائشے کے بغیر جامعہ میں بلکل اسکا دل نہیں لگتا تھا۔
"اسٹڈیز کب کنٹینیو کروگی؟یونی آنے کا کب کا ارادہ ہے آنا بھی ہے کہ نہیں؟"وہ اکھڑے تیور لیے بولی عائشے نے لب بھینچے۔
"مجھے نہیں پڑھنا مزید کچھ بھی۔سسرال کی جھنجھٹیں دیکھوں یا اپنی پڑھائی!"اسکے بے نیاز صاف سے انکار پہ انوش کی آنکھیں باہر آئیں اسے خوب غصہ چڑھا۔
"عائش دماغ دہی بیچنے چلا گیا ہے؟سسرال والے تم سے کون سی چکی پسواتے ہیں۔اور تم تو پہلے دن سے ہی شادی کے بعد بھی پڑھنا چاہتی تھیں پھر یہ اب کیا ہوا؟"انوش نے فون کان کی دوسری طرف لگایا۔
"پہلے حالات کچھ اور تھے اب حالت نے رخ بدل لیا ہے۔میرا دل سب سے اچاٹ ہوگیا ہے۔پڑھ کر میں نے کونسا جھنڈے گاڑ لینے ہیں۔"اسکا بجھا لہجہ انوش کے زیرِ غور تھا اسے اندازہ نہیں تھا عائشے پڑھائی سے یوں منہ موڑ لے گی۔وہ زہین لڑکی تھی جب روما اور انوش اسے ملی تھی ابتدا کے دنوں میں تو کتابوں میں ہی اسکا سر ہوتا تھا۔ان دونوں کے علاوہ اسکی کبھی کسی سے دوستی نہیں ہوئی تھی۔
"ہاں دفع ہوجاؤ تم بھی۔روما سے تو میں بات نہیں کرونگی سکون سے کشمیر میں بیٹھی ہے تمھاری بھی شادی ہوگئی تم بھی مجھے بھول جاؤ گی۔ویسے بھی میرا نعم البدل تم کو نند کی صورت میں مل گیا ہے۔اور میں دیواروں سے ٹکرے مارتی پھروں بس۔اللہ حافظ!"
اس نے تلملا کر کال منقطع کردی عائشے ماتھا مسلتی گم سم سی پلٹی۔بے ساختہ نظریں جھک گئیں۔مراد اسے بلانے آیا تھا اور لاک پہ ہاتھ ٹکائے اسی کی جانب متوجہ تھا۔
"چلو.."وہ سر ہلاتی اسکے پیچھے ہولی۔انوش کو ناراض چھوڑ کے جانے کا اسکا بلکل دل نہیں تھا۔تبھی موبائل وائبریٹ ہوا۔
"مجھے آکے شرافت سے منا لینا اور عقل تو میں اب تمھاری ٹھکانے لگا کے رہوں گی۔"اسکا میسج پڑھ کے اسکے ہونٹوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی جو مراد سے چھپی نہیں تھی۔مراد کے دیکھنے پہ عائشے کے ہونٹ سکڑے وہ لاؤنچ میں سب سے ملنے کے لیے آگیا تھا۔سجل بھی صبح ہی آئی تھی اور ساتھ مہمل کو بھی لے آئی تھی۔اسکا ایک رشتہ بے شک نا ہوا پر بھانجی ہونے کا دوسرا رشتہ تو برقرار تھا۔
"کام کے سلسلے میں جارہے ہوگے..."مراد زرپاش سے مل رہا تھا تب مہمل کی آواز اسکے کانوں میں پڑی عائشے بخوبی اسکا طنز سمجھی تھی۔مہمل کو دیکھ اسکا خون کھولنے لگا تھا اپنی تزلیل وہ بھولی تھوڑی تھی۔مراد سے جب وہ مخاطب ہوئی عائشے نے دانت پیسے اسے دیکھا۔
"چڑیل.."
"دو دن کی چھٹی ہے سوچا عائشے کو باہر لے جاؤں زہن بھی فریش ہو جائے گا۔"عائشے پہ نگاہ ڈالتے اس نے مسکرا کر کہا اور ماں کے سر پہ بوسا دیا نیمل کی طرف بڑھا جو موبائل میں لگی ہنسی دبا رہی تھی۔دوسری طرف عائشے نے بھی مہمل کے بھونچکائے چہرے کے اڑے رنگ دیکھ کر لب کترتے ہنسی دبائی۔زرپاش صاحبہ اس حوالے سے واقف تھیں پر مراد کے سچ چھپانے پہ کچھ نہ بولیں۔وہ گھر میں سکون کی خواہشمند تھیں۔
"بیگم کے لیے تم نے ٹائم نکال لیا اور ایک ہم جو فیملی ویکیشنز پہ تم کو چلنے کا بولتے اس وقت تمھارے پاس وقت کی قلت ہی رہتی تھی۔"سجل نے اسکے کندھے پہ ہاتھ مارتے شکوہ کیا تو وہ ہنس دیا۔ان بہن بھائیوں کی گفتگو مہمل کو بلکل نہ بھائی اس نے دانت کچکچاتے عائشے کو دیکھا۔وہ مہمل جتنی حسین نہیں تھی پھر بھی مراد اپنی بیوی کے علاوہ کسی پہ نظر نہیں ڈالتا تھا۔نفرت بھری نگاہیں اس نے عائشے پہ جما رکھی تھیں۔عائشے بھی ڈھیٹوں کی طرح مراد کی اوٹ میں کھڑے اسکی آنکھوں میں دیکھے گئی۔
سجل نے بس ایک نظر ہی عائشے پہ ڈالی تھی اور واپس جگہ پہ بیٹھ گئی۔زرپاش اور سجل کا رویہ عائشے کے لیے مراد سے پوشیدہ نہیں تھا۔اسے معلوم تھا وہ دونوں عائشے کے ساتھ زیادتی کر رہی ہیں۔
فلحال بات نکالنے کی فرصت نہیں تھی اسے دیر ہورہی تھی۔الوادعی کلمات کہتا عائشے کو آگے چلنے کا کہتے ہوا لاؤنچ کا دروازہ عبور کرگیا۔
                            ★ ★ ★
ہنجروالا گوٹھ۔
گارڈز کے ہمراہ اس نے اس گاؤں میں پہلی بار قدم رکھا تھا۔اسکے حکم پہ گاؤں میں تعمیراتی کام فوراً شروع کردیا گیا تھا۔اور آج وہ گاؤں کے دورے کے لیے ہی چلا آیا تھا۔گاؤں کا سردار اس کے پشت قدم تھا۔
میران نے اسکول اور ہاسپٹل کے تعمیر ہوتے ڈھانچے کا جائزہ لیا اور بلڈر کو کام جلد از جلد مکمل کرنے کی تاکید کی۔اور پھر گاؤں کی بیٹھک کی طرف آگیا جہاں گاؤں میں پنچایت لگا کرتی تھی اور لوگ جمع ہوتے تھے۔
   سردار کے بلانے پہ رہائشی کسان مزدور اور دیگر لوگ سبھی وہاں جمع ہوگئے۔گاؤں کے لوگ انپڑھ تھے کسی حکمران نے بھی اس گاؤں کی معاشی بحالی کے لیے کوئی کام نہیں کیا تھا۔بس کھیتی باڑی اور محنت مزدوری سے لوگ اپنا بیوی بچوں کو پال رہے تھے۔اور جو وہاں کا سردار تھا وہ بھی کم پڑھا لکھا پر رئیس آدمی تھا۔جسے دیکھ میران گاؤں کے حالات کا بخوبی اندازہ لگا چکا تھا۔
  لوگوں نے میران کے بارے میں کافی سن رکھا تھا اسے نظروں کے سامنے پاکر انکے چہرے کھلتے گلاب ہورہے تھے۔ایک نئی امید نئی کرن۔
"سائیں آپ نے گاؤں آکے اعزاز بخشا ہے۔آج تک کسی حکمران نے یہاں نگاہ نا ڈالی اور اگر کبھی کوئی آیا بھی تو ووٹ لینے کے بعد اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا آپکے بارے میں کافی سن رکھا آپ غریبوں کے مسیحا ہیں۔ہماری اب ساری امیدیں ہی آپ سے وابستہ ہیں۔"بڑی عمر کے بزرگ نے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ لیے تھے میران نے آگے بڑھ کے ان کے ہاتھ تھام لیے۔عزیز میران کے بائیں طرف کھڑا تھا۔دونوں ہی سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔
میران نے ان بزرگ کے ہاتھ سے ہاتھ نکالا پھر سن گلاسز اتار کے بارعب انداز میں مخاطب ہوا۔
"صرف میرے کام کرنے سے ترقی نہیں ہوگی اصل محنت آپ سب نے کرنی ہے۔مجھے افسوس ہے کہ میں اتنے عرصے یہاں سے بے خبر رہا پر اب میری کوشش ہے گاؤں کی بہتری کے لیے جو ہوسکا وہ کروں۔کچھ عرصے میں اسکول تعمیر ہوجائے گا آپ لوگ اپنے بچوں کو پڑھائیں!اور خود بھی تعلیم حاصل کریں۔تعلیم حاصل کرنے کی کوئی عمر مقرر نہیں ہے۔ایک باشعور قوم برے وقت کا سامنا ڈٹ کر کرلیتی ہے۔اچھے اور برے میں فرق کرنا سیکھیں۔بڑے آقاؤں کی جی حضوری سے سوائے دو روٹی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔"بولتے ہوئے اس نے نگاہ سردار پہ ڈالی جو اپنی جگہ پہ جزبز سا ہوگیا تھا۔
اسکا چاشنی جیسا نرم انداز لوگوں کو بات سننے پہ مجبور کردیتا تھا۔وہ اس طرح اپنی بات کرتا لوگوں کو حوصلہ دیتا انکی قابلیت پہ ہمت افزائی کرتا کہ اگلا فوراً عمل میں لگ جاتا اور کام نکلوانا بھی وہ بخوبی جانتا تھا۔
"کاروبار خود کرنے کی ہمت کریں۔اپنے حوصلے کو دبانے کی جگہ پروان چڑھائیں۔انسان چھوٹے قدم لیتے لیتے آخر میں چھلانگیں لگانا تک سیکھ لیتا ہے۔چھوٹے کاروبار سے شروع کریں باقی ترقی اور رزق دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔"اسکے بولنے پہ ماحول میں ایک سحر و فسوں طاری ہوگیا۔لوگ توجہ سے اسے سن رہے تھے۔میران ہشاش بشاش اعصابوں پہ نرم تاثر لیے صوفے نما گدی پہ نشست کندھوں پہ سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھا۔اسکا امید دلانا حوصلہ بڑھانا لوگوں کا خون بڑھا رہا تھا۔کچھ دیر اس نے گاؤں والوں سے مزید بات چیت کی پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
"سردار صاحب آپکے ہوتے ہوئے بھی لوگ ہر چیز سے محروم ہیں لوگوں کو بلکل اپنا ذہنی غلام بنا کر چھوڑا ہوا ہے۔"لوگوں کے جانے کے بعد اس نے سردار کی طرف چہرہ کے رخ کیا سوال کیا۔
"سرکار میں تو معمولی سا سردار ہوں میرے پاس جتنے وسائل ہیں کوشش کرتا ہوں لوگوں کو روزگار فراہم کروں۔ہمارے گاؤں میں زراعت کا کام سب سے زیادہ ہوتا اور لوگ کھیتی باڑی، مزدوری کرتے اور روزی کماتے ہیں۔"
"تم چاہو تو بہت کچھ کرسکتے ہو پورے گاؤں کے اختیارات تمھارے حوالے ہیں۔اگلی بار جب یہاں میں قدم رکھوں تو لوگوں کے زہن مجھے غلامی میں نہ جکڑے ملے۔"سنجیدگی سے سردار کو دیکھتے وہ بولا۔سردار نے سر ہلایا میران اٹھ کھڑا ہوا۔اتنے میں ایک گارڈ اس بچے خضر اور اسکی بڑی بہن انعمتہ کو لیے وہاں آیا۔میران نے اسے پہچانتے ہی مسکراہٹ پیش کرتے اسکے بالوں پہ ہاتھ پھیرا اور انگلیاں چلائیں تو وہ بچہ ہنس دیا۔پچھلی بار مزار پہ وہ جتنی بری حالت میں ملا تھا اس دفعہ کافی توانا محسوس ہوا۔
خضر اسے اپنے چھوٹے سے مکان تک لے آیا تھا۔میران نے باہر سے ہی کچے مکان کا معائنہ کیا۔
"سائیں آپ سے ایک بات کہنی تھی..."اس نے ہچکچا کے سر جھکا لیا میران نے اسکی تھوڑی اٹھائی۔
"بولو میں سن رہا ہوں۔"
"ہم شہر میں رہنا نہیں چاہتے،یہاں ہمارے دوست بھی ہیں اور گاؤں والے بھی ہمارا شہر میں دل نہیں لگتا۔اور اب آپ اسکول بھی بنوارہے ہیں ہم یہاں ہی اپنی پڑھائی شروع کردیں گے۔"
"پہلے تو تم خوش تھے اب کیا ہوا؟"
"گاؤں یاد آتا ہے۔ہڈیوں کو آرام کی عادت نہیں ہے یہاں پہ کام بھی کرتا رہونگا تو دل لگا رہے گا۔اور ابھی رحیم چچا بھی بتا رہے تھے وہ آدمی بھی شہر چلا گیا ہے تو اب مجھے اپنی بہن کے لیے کوئی خوف نہیں ہم آرام سے یہاں رہ سکتے ہیں۔"
اسکی ننھی آنکھوں میں خوشی کے فوارے پھوٹ رہے تھے وہ یہاں رہنا چاہتا تھا میران کو انکار کرنا مناسب نہیں لگا۔اس نے عزیز کو دیکھا عزیز نے سر اثبات میں ہلا کے ایک گارڈ کو مخصوص اشارہ کیا تھا۔
"چلو ٹھیک ہے جیسا تم چاہو۔اپنا اور اپنی بہن کا خیال رکھنا۔"ایک نظر انعمتہ پہ بھی ڈالی۔اتنے میں ایک خاتون وہاں آگئیں جو ان دو بچوں کا مسلسل نام لے رہی تھیں ان سے ملیں۔
"یہ فرحین مائی ہیں میرا اور انعمتہ کا بہت خیال رکھتی ہیں۔"خضر نے انکا تعارف کروایا میران نے مسکرا کے انھیں نظروں میں ہی گویا سلام کیا۔
"بھلا ہو آپ جیسے لوگوں کا۔ان دونوں کے غائب ہونے کی وجہ سے خاصی پریشان تھی پر ابھی اسکے مکمل واقعہ بتانے پہ دل کو تسلی ہوئی ہے۔بہت شکریہ آپکا جو ان دو بچوں کا خیال کیا۔"وہ بے حد مشکوریت سے بولیں۔میران چونکہ ہنجروالا آرہا تھا تو اس نے خضر کو بھی دارالامان سے بلوالیا تھا وہ اسکے ساتھ اسکا گاؤں دیکھنا چاہتا تھا پر خضر کو لانے میں گارڈ نے دیر کردی تھی۔اور پھر جب وہ آیا تو پہلے کچھ گاؤں والوں سے ملا جو اسکے اپنے ہی تھے۔والدین نے تو پہلے ہی ساتھ چھوڑ دیا تھا پر انکے جانے کے بعد چند لوگ تھے جو ان دو بہن بھائیوں کے قریبی بن چکے تھے جن سے کوئی خون کا رشتہ تک نا تھا۔بس غریب ہی غریب کا ہمدرد تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے گھر کے باہر ہی قریبی لوگ جمع ہوگئے۔میران کے چہرے پہ مسکراہٹ راج کر رہی تھی۔ان سب کے محبت نچھاور انداز پہ اس کے تراش لبوں پہ گہری تبسم بکھری نظروں میں فتح کن تاثر سمیت اس نے عزیز کی نظروں میں دیکھا جسکے چہرے پہ بھی پراسرار سی مسکراہٹ کا عکس تھا وہ سر جھکا گیا۔نا جانے دونوں کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔
"شہر سے تمام اچھے ٹیچرز کو یہاں پڑھانے کے لیے راضی کرو جو جتنا معاوضہ مانگے اسے دینگے پر وہ شخص قابل ہو!لوگوں کے ذہن کی نشونما کرسکے۔"گاڑی میں بیٹھتے چادر درست کرتے اس نے عزیز سے کو ہدایت دیتے کہا۔عزیز سر ہلاتے ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
                           ★ ★ ★
رات میں میران زولفقار کے کمرے میں داخل ہوا۔
وہ کمرے میں موجود نہیں تھے واش روم سے پانی گرنے کی آواز آئی۔وہ صوفے پہ بیٹھ گیا۔نظر بیڈ پہ پڑے موبائل کی چمکتی اسکرین پہ گئی۔اسکی بھنوویں سکڑیں وہ اٹھ کھڑا ہوا نظر واش روم کے دروازے پہ ڈالی اور بیڈ کی طرف قدم بڑھاتا آیا۔
اسکرین پہ نگاہ ڈالی......
دروازہ کھلنے کی چرچراہٹ پیدا ہوئی دروازہ کھلتا دیکھ وہ واپس جگہ پہ سکون سے بیٹھ گیا۔
"کیسے ہو شیر بیٹے؟"البتہ اگر وہ لومڑ بھی کہہ دیتے تو غلط نا ہوتا۔وہ باہر سے شاید ابھی ہی آئے تھے اور فریش ہونے کے لیے چلے گئے تھے۔
انکو ہنستے دیکھا تو وہ بھی مسکرا دیا۔
"پہلے سے کافی بہتر ہوں...آپ بتائیں کچھ نئی تازی۔"میران نے ناک انگلی کی پشت سے رگڑی۔بلو شرٹ بلو ٹروزار میں ملبوس شانوں پہ سیاہ گرم چادر پھیلائی ہوئی تھی ماتھے پہ بال بکھرے ہوئے وہ بہت وجیہہ محسوس ہورہا تھا۔
"تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے..."
"جی شروع کریں آپ نے کب سے تمہید باندھنا شروع کردی۔"وہ اسکے برابر ہی میں بیٹھ گئے۔اور چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔
"تبھی سے جب ہمارے درمیان رنجشیں پیدا ہوئیں۔خیر میں چاہتا ہوں ہمارے تعلقات بہتر ہوجائیں اسکے لیے مجھے جو کرنا ہوگا میں کرونگا۔"وہ حتمی انداز میں بولے صبح والی بدمزگی انھوں نے بھلا دی تھی اور اسے حیرانی میں ہی تو مبتلا کردیا تھا۔
"پھر آپکو کیا کرنا ہے وہ آپ اچھے سے جانتے ہیں شنواری کے معاملے میں اپنی انا کو کچلنا ہوگا۔اور میری شادی کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہیں لائیں گے خوشی خوشی رومائزہ شنواری کو اس گھر کی بہو تسلیم کریں گے۔"صوفے سے پشت ٹکاتے کہنی صوفے کے بازو پہ جما کے وہ مطمئن سا ہوتے بولا۔
"بہت بہتر...میں تمھاری بات مان لیتا ہوں پر تم کو بھی میری ایک بات ماننی ہوگی۔"
"ہاہہہہ..."فضا میں اسکا قہقہ خارج ہوا ہنستے ہوئے اسکی آنکھوں کے گرد کی کھال پہ بل پڑے۔بڑے جاہ نے اسے ہنستے دیکھا تو انکے لبوں کے کناروں پہ بھی مسکراہٹ نے رنگ بکھیر دیے۔
"بلکل...زولفقار جاہ بنا مقصد کے کسی کو اپنا بخار تک نا دیں اور یہاں آپ خود چل کر آئے میرے پاس میں سمجھ ہی گیا تھا کہ آپکو کچھ بڑا ہی مجھ سے چاہیے ہوگا..اگر آپ میری بات مان لیں گے تو میں بھی آپکا ہر کہا مان لونگا۔"
وہ اب سیدھا ہوا کمرے میں خاموشی ہوئی باہر اوس گر رہی تھی۔اسے معلوم تھا اسکا باپ اس سے محبت تو کرتا ہے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ میران کے لیے بھی اسکا باپ اتنی اہمیت رکھتا تھا۔وہ جانتا تھا جاہ صاحب کسی صورت اسے خود سے دور نہیں کرینگے۔وہ غلط کام کرتے رہے میران نے کبھی انھیں روکا نہیں پر جب بات اسکی محبت پہ آئی تو گھر میں فساد ہی کھڑا ہوگیا تھا۔
رات کی تاریکی تھی سناٹے میں سرگوشیاں!
صوفے پہ بیٹھے دو وجود..جملوں کا تبادلہ۔
دس سے پندرہ منٹ گزرے..باہر اوس گرتی رہی۔
گھڑی کی ٹک ٹک بڑھتی رہی۔
ایک بلند قہقہہ..
"تو پھر ڈیل ڈن!فخر ہے مجھے تم پہ۔"اور یہ زولفقار جاہ نے چھوٹے جاہ کو سراہا تھا۔
دونوں کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی۔دونوں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
دو چہرے،ایک جوان دوسرا عمر رسید۔
مصافحہ... مضبوط گرفت تھی۔
سودا بازی!!محبت کی؟بلکہ عشق کی۔
رگوں میں ایک ہی خون...چہرے دو!
                           ★ ★ ★
شادی کے بعد پہلی دفعہ وہ شوہر کے ساتھ شہر سے باہر جا رہی تھی۔اور حیران کن بات یہ تھی کوئی خورشید نامی شخص نے ائیرپورٹ پہ انھیں جوائن کیا تھا۔کونسا وہ ہنی مون منانے جارہے تھے جو اکیلے جاتے۔
مراد نے اسے خورشید کے متعلق آگاہ کردیا تھا کہ وہ اسکا رائٹ ہینڈ ہے۔
انکی بزنس کلاس سیٹس بک تھیں۔وہ پہلی بار جہاز کا سفر کرنے کو تھی۔تھوڑی نروس تھی تھوڑی پرجوش۔مراد نے اسے کھڑکی والی سیٹ دی تھی خود درمیان میں بیٹھا جب کہ خورشید مراد کے بائیں ہاتھ کی طرف بیٹھا تھا۔
جہاز نے جب پرواز پکڑی عائشے کی جان سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگی۔وہ ہولے ہولے لرز رہی تھی مراد نے بے اختیار اسکے ٹھنڈے ہاتھ پہ اپنا گرم رکھ دیا۔جسکی حرارت سے عائشے کچھ پرسکون ہوئی تھی۔نا اس نے ہاتھ اسکے ہاتھ سے باہر نکالا تھا نا مراد نے اسکا ہاتھ چھوڑا نرمی سے ہتھیلی کی پشت سہلاتا رہا تھا جب تک اسکی آنکھ نا لگ گئی۔
"محترمہ جاگ جائیے۔"
مراد نے ہلکے سے اسے آواز دی تو وہ نیند سے بیدار ہوگئی۔نیند میں ڈوبی نگاہوں سے اسے دیکھا۔بے اختیار مراد اس بھنور میں ڈوبا۔مراد کے کندھے پہ عائشے کا سر ڈھلکا تھا وہ جھٹ پٹ سیدھی ہوئی لب کاٹتے ہوئے اس نے مراد سے نظریں چرا لیں۔مراد کی زندگی کا یہ سب سے حسین منظر تھا وہ بے اختیاری میں اسے دیکھتا رہا چہرے پہ چمک در آئی۔اسکی لونگ اس شفاف چہرے پہ خوب دمک رہی تھی۔
"سوات اتنی جلدی آگیا؟"سیٹ بیلٹس کھولتی وہ بولی۔خورشید ان دونوں سے پہلے ہی جہاز سے اتر گیا تھا۔
"ہم سات سمندر پار کہیں نہیں گئے سوات آئے ہیں۔چھ گھنٹے کی فلائٹ تھی جو پانچ گھنٹہ تم نے سو کے گزار دی۔"اسکے ساتھ ہی وہ اٹھا تھا اور باہر نکلا۔اسکے طنز سننے کی عائشے کو عادت ہوگئی تھی۔منہ بناتے وہ سب سنتی رہی۔
ائیرپورٹ سے انھوں نے ایک گاڑی لی تھی۔آہستہ آہستہ وہ آبادی کی جگہ پہ آگئے۔عائشے کو اچانک گھبراہٹ سی محسوس ہونے لگی۔ٹھنڈ اس قدر تھی کہ اس نے گرم سوئٹر پہ ایک جیکٹ سر پہ ٹوپا ہاتھوں میں دستانے تک چڑھا لیے تھے۔گاڑی کی کھڑکی سے باہر وہ سوات کے لوگ اور انکے مکان دیکھ رہی تھی۔سبز پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا یہ علاقہ تھا۔پہاڑوں کی چوٹیاں برف کی چادروں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔گاڑی ایک پُل سے گزری جسکے نیچے سے نہر بہہ رہی تھی۔اس نے فٹ موبائل نکال کے یہ منظر موبائل میں سیو کر لیا تھا۔مراد نے ترچھی نگاہ اسکے موبائل پہ ڈالی اور سانس لیتے پشت ٹکا کے بیٹھ گیا۔
گاڑی بلآخر ایک جگہ رک گئی۔وہ دونوں باہر نکلے مراد نے اپنا سامان اٹھایا اور خورشید کو الوداع کہتا عائشے کے ہمراہ آگے بڑھ گیا۔
"یہ کہاں جا رہے ہیں؟"عائشے نے چلتے ہوئے مراد کی طرف گردن موڑے استفسار کیا۔تقریباً رات نو بجے کے قریب کا وقت تھا۔
  "اسکا یہاں ایک دوست رہتا ہے وہ وہیں اسٹے کرے گا۔اگر تم ساتھ نا ہوتی تو میں بھی اسکے ساتھ رہ لیتا اب بھی اس نے آفر کی تھی پر میں نے انکار کردیا۔"اس نے تفصیل سے بتایا۔وہ ایک چھوٹے سے کاٹیج کے سامنے آرکے۔جسکے گرد تاروں پہ بتیاں روشن تھیں۔عائشے نے غور سے اس کاٹیج کو دیکھا اسکی گھبراہٹ بڑھنے لگی۔
مراد نے دروازہ کھولا اور اسے اندر آنے کا کہا وہ خالی ذہن کے ساتھ مرے مرے قدم لے کر اندر آگئی پر جیسے جیسے اندر کا منظر دیکھتی گئی اسے سانپ سونگھتا گیا۔اسکا چہرہ زرد پڑ رہا تھا۔مراد لاؤنچ میں ہی بیٹھ گیا عائشے سانس روکے کاٹیج کا اندرونی حصہ دیکھنے لگی۔مراد نے جب تک روشن دان میں لکڑیاں جلائیں تب تک وہ پورا کاٹیج گھوم آئی تھی اور خاموش سی مراد کے پاس بیٹھ گئی۔مراد نے اسکے چہرے کے آتے جاتے رنگ بھانپ لیے تھے اسے تشویش ہوئی۔
"کیا ٹھنڈ لگ رہی ہے؟"وہ متفکر سا بولا۔
"ہنہہہ....نہیں۔"اسکی آواز پہ جیسے وہ خیالوں سے باہر نکلی مراد کو دیکھا جسکی نظریں اسی پہ ٹکی تھیں۔
"شاید نیند کی وجہ سے تھوڑی گھبراہٹ ہورہی ہے۔سوجاؤنگی تو ٹھیک ہو...."مراد نے اسکی بات درمیان میں اچک لی۔
"کتنی نیند ہے تمھاری؟ابھی پانچ گھنٹے تم فلائٹ میں سو گئی اب بھی تم کو نیند آرہی ہے؟"اسکی نیند سے وہ تنگ آکر بولا۔
"میرا مطلب یہ نہیں تھا بس تھوڑی تھکن ہورہی ہے۔"وہ بنا کوئی غصہ ظاہر کیے آرام سے بولی۔مراد کو خاصی حیرت ہوئی اتنی شرافت کی اپنی بیوی سے امید تھی ہی کہاں۔
"سوچا تھا باہر جاکے کھانا کھا لینگے پر تمھارا دماغ ہلا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔تم فریش ہوجاؤ میں کھانے کے لیے کچھ لاتا ہوں۔"کاٹیج کے اردگرد ہی بازار قائم تھا آتے ہوئے عائشے نے دیکھا بھی تھا۔
"آپ باہر مت جائیں۔"وہ سہم کر بولی۔
مراد کا ماتھا سکڑا۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔"وہ مزید صفائی میں بولی۔
"پر مجھے بھوک ہے۔کوئی مسئلہ ہے کیا؟مجھے بتا سکتی ہو۔"عائشے کی باتیں اسکے چہرے کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں وہ اسے گھبرائی ہوئی معلوم ہوئی۔
"اندر روم میں چلی جاؤ۔میں تھوڑی دیر میں آرہا ہوں۔"مراد اسکی آنکھوں میں جھانک کر بولا اور اسکے چہرے کے گرد بالوں کو اس نے نرمی سے سمیٹ کے پیچھے کیا،گال تھپتھپایا اور کوٹ واپس پہن کر باہر نکل گیا۔دروازہ بند ہونے کی کھٹاک سی آواز پہ عائشے ہل کے رہ گئی۔آنکھیں ڈبڈبائیں۔
"اپنی بھوک کی فکر ہے بس..."جی کڑاتے وہ سامان لے کر بیڈ روم کی طرف بڑھ گئی۔اس نے سامان باہر تو نہیں نکالا تھا۔بس کچھ کپڑے نکال کر فریش ہونے چلی گئی۔
   تھوڑی دیر میں مراد واپس آگیا تھا اس نے کچن میں کھانے کے بیگز رکھے اور اسکے بعد فوراً فریش ہوا۔کاٹیج کا درجہ حرارت باہر سے زیادہ تھا۔وجہ کمرے میں ہیٹرز کا چلنا اور باہر روشن دان کی آگ سے بھی گرمائی بڑھ رہی تھی۔بھوک عائشے کو بھی لگی تھی اور کھانے کی خوشبو پورے گھر میں پھیل کر اس تک پہنچ رہی تھی۔مراد سے جھوٹ بول کے وہ پچھتا رہی تھی۔
"باہر آجاؤ کیا کمرے میں بیٹھی رہو گی۔کھانا نہیں کھانا تو مت کھاؤ کم از کم مجھے کمپنی ہی دے دو۔"وہ نہا کر نکلا تھا گیلے بال ماتھا چھو رہے تھے بلیک شرٹ بلیک ٹراؤزر پہ اسکی شخصیت مزید نکھری نکھری نظر آرہی تھی۔جس پہ اس نے ایک ہلکی جیکٹ اوپر سے پہن لی تھی۔
عائشے گلابی رنگ کے جوڑے میں ملبوس تھی مراد نے اسے دیکھا اور اسے وہ رنگ بے حد پسند آیا۔
وہ دونوں ٹیبل پہ ساتھ ہی موجود تھے مراد مزے سے کھا رہا تھا جھوٹے منہ اس نے عائشے کو کچھ کھانے کا نا بولا۔وہ دل ہی دل میں اسے کوس رہی تھی۔ایویں اسے یہ پولیس والا زہر نہیں لگتا تھا۔
تلی ہوئی مچھلی،،پلاؤ اور میٹھے میں ربڑی اسکے سامنے رکھی تھی۔
"تم نے صبح کا ناشتہ کیا ہوا ہے حیرت ہے تمہیں بھوک نہیں لگ رہی۔کھاتی پیتی نہیں ہو کیا؟"اسکی صحت پہ چوٹ کرتے وہ بولا تو عائشے تلملا گئی۔
"آپ کو اپنے کھانے سے فرصت مل جائے تو دوسروں کو دیکھیں۔مجھے تب بھوک محسوس نہیں ہوئی تھی پر اب تو لگ رہی ہے..."مراد کا پلاؤ سے بھرا چمچ منہ کے قریب ہی رک گیا اس نے سنجیدگی سے عائشے کو دیکھا۔
"تو میں تمہیں کھانے کی دعوت دوں؟تمھارے سامنے کھانا رکھا ہے نکال کے کھا لو۔کوئی مہمان تو تم ہو نہیں بیوی ہو میری۔یا پھر میں اپنے ہاتھ سے کھلاؤں؟"اسنے جیسے یاد دہانی کرائی تھی اور پھر چمچ منہ میں بھر لیا۔عائشے نے خفگی سے نظریں ہٹا لیں اور پلیٹ اٹھا کے سامنے رکھی اور پلاؤ نکالا۔کیوں اس سے وہ اچھی امید لگاتی تھی اسے خود پہ ہی غصہ چڑھا۔
کھانے سے فارغ ہوکے عائشے نے برتن سمیٹے۔کھانے میں استعمال ہونے والے برتن سب ڈسپوزبل تھے برتن دھونے کی کوئی جھنجھٹ ہی نہیں تھی۔وہ فارغ ہوکے کمبل اوڑھ کے لیٹ گئی تھی۔گیارہ بج رہے تھے نیند کا نام و نشان اسکی آنکھوں میں نہیں تھا۔
"تم سوجاؤ گھبرانا مت۔مجھے کام ہے آنے میں دیر ہوجائے گی جاگتی مت رہنا..!"آرام سے تاکید کرتے ہوئے اس نے بیگ سے کچھ نکالا تھا جو عائشے کی نظروں سے اوجھل رہا وہ انگلیاں مڑوڑتی اسے دیکھنے لگی۔
"ٹھیک ہے۔"اسے ٹکر ٹکر دیکھتے اس نے کہا اور سر خم کرلیا۔
"تم ٹھیک ہو؟"
"جی.."اب کی بار عائشے نے چہرہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔وہ چاہتی تھی مراد اسے یہاں اکیلا نا چھوڑے پر اسے روک بھی نہیں پائی تھی۔اور وہ اسے پریشان دیکھ  کر رکا بھی نہیں۔
                          ★ ★ ★
دیر رات مراد جب واپس آیا اس نے سب سے پہلے بیگ میں مخصوص شے واپس رکھی۔
"بابا امی....چھوڑو مجھے۔"اسکا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا اور وہ سوتے میں زیرِ لب مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔مراد کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی وہ اسکے قریب آیا اور سننے لگا۔
وہ خوف سے لرز رہی تھی ماتھے پہ پسینہ نمودار تھا۔پر ایسا کونسا خوف جو نیند میں بڑبڑانا شروع کردے۔وہ مسلسل اپنے امی بابا کو پکار رہی تھی۔
"مراد نہیں...."جملہ نکلنے کی دیر تھی مراد نے اسے جگانے کی کوشش میں جھنجھوڑ ہی ڈالا۔
"عائشے اٹھو..."اس نے اسکا کندھا جھنجھوڑا وہ پھر بھی بڑبڑاتی گئی اور اچانک اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولی تھیں۔سانس کہیں دور جا اٹکی جسم کا سارا خون سمٹ کر چہرے پہ آیا وہ سرخ ہورہی تھی۔پھٹی پھٹی نگاہوں سے چھت کو گھورا۔مراد نے اپنی جگہ بنائی اور اسکے ساتھ بیٹھا۔عائشے نے لاشعوری میں اسے دیکھا اور گنگ سی تکتی گئی آنسو ٹوٹ کے آنکھ سے پھسلا تھا جسم اب بھی خوف سے لرز رہا تھا۔
         جاری ہے.....

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now