قسط چہارم (دشتِ رنگ)

993 54 22
                                    

                            ★ ★ ★
وہ تینوں اور انعم صاحبہ اسکی شادی کی تیاریوں کے لیے خوب بازاروں کے چکر کاٹ رہی تھیں۔اسکی شادی کی خبر سننے کے بعد رومائزہ اور انوش کی خوشی کا پارا ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔
شادی سادگی سے ہوگی یہ فیصلہ دونوں خاندانوں کے درمیان طے پایا تھا۔آج اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر روما اور انوش بھی انکے ساتھ چل دی تھیں۔خریداری میں کافی وقت لگ چکا تھا حتی کہ سورج کے ڈھلنے پر چاند اسکی جگہ قابض تھا۔
بازار کی رونقیں اپنے عروج پہ تھیں۔
  انعم بیگم کسی دکان پہ شادی کے ملبوسات دیکھنے میں مصروف تھیں اور وہ تینوں باہر لگے چوڑیوں کے اسٹال پہ جم چکی تھیں۔
اسٹال زرد رنگ کی بتیوں سے روشن تھا جس سے چوڑیوں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔
"پاگل لڑکی لال رنگ کی چوڑیاں لو اور تھوڑی فینسی لو یہ کیا عام سی پہن لیں۔"رومائزہ نے عائشے کی کلائی سے گولڈن رنگ کی چوڑیاں اتار کر واپس اسٹال پہ رکھ دیں جو اس نے ٹرائل کے لیے پہنی تھیں۔
"یہ لو،انکل ایک خوبصورت سا شادی کے حساب سے سیٹ بنادیں جو بہت اوور بھی نا ہو اور نا ہلکا.."رومائزہ نے دکاندار کو چوڑیاں منتخب کرکے دیں پیچھے سے انعم بیگم آگئیں۔
   "بے وقوفوں یہ سیٹ میں اندر پہچان کی دکان سے بنواتی اور یہ سوٹ کی میچنگ کا بنے گا۔"وہ اپنی تیز رفتار میں بولیں دکاندار کے ہاتھ تھم گئے رومائزہ نے دکاندار کی اتری شکل دیکھی اور پھر ان دونوں کی۔
"اچھا آنٹی آپ وہیں سے بنوالیں،مجھے یاد نہیں رہا جوڑے کی میچنگ کی چوڑیاں بنتی ہیں۔"اسکی بات سن کے دکاندار واپس چوڑیاں جگہ پہ رکھنے لگا تھا۔
"ارے آپ بنائیں،یہ مجھے چاہیے!"اس نے نرمی اور رمق زدہ آنکھوں سے کہا۔دکاندار واپس اپنے کام میں لگ گیا۔
"تم کس خوشی میں لے رہی ہو یہ؟تمھاری شادی تھوڑی ہے۔"انوش کی بات پہ وہ مسکراہٹ روک نہ سکی۔
  "ہاں تو میری بیسٹ فرینڈ کی شادی ہے میں تو یہی پہنوں گی بلکہ ایک کام کرو تم بھی ایک ایسا ہی سیٹ بنوالو۔انکل ایک سیٹ اور بنادیئے گا۔"وہ فوراً بولی انوش اسکی پھرتی کے آگے نانا کرتی رہ گئی پر اس نے اسکی ایک نا سنی الٹا اسکے بازو کو دبوچ کے اسے ہی خاموش کروادیا انعم بیگم کو اس لڑکی پہ تعجب ہوا تھا۔جو چیز اسے پسند آتی وہ فوراً خرید لیتی جتنی انکی شاپنگ نہیں ہوئی تھی اس سے زیادہ چیزیں رومائزہ نے خرید لی تھیں۔
"پانی کی طرح پیسہ اڑاتی ہے یہ لڑکی۔"انعم صاحبہ کے منہ سے بے ساختہ چلتے چلتے نکلا،عائشے نے آنکھیں دکھا کر انکو گھورا۔
"کیا ہوگیا امی اب ہم بہت سوچ سنبھل کر پیسے نکالتے ہیں اسکا مطلب یہ تھوڑی کہ ہر ایک ایسا ہی کرے سب کا لائف اسٹائل الگ ہوتا ہے مجھے تو حیرانی ہوتی ہے میں اسکی دوست کیسے ہوسکتی ہوں ورنہ میں نے امیر زادیاں بڑی مغرور دیکھی ہیں دوست بھی اپنے لیول کی بناتی ہیں۔پر روما سب سے مختلف ہے۔"عائشے نے فوراً طرف داری کی تھی۔
اگر روما اپنی بلوچن کی بات سن لیتی تو غش کھا کے مرجاتی اور انوش کو تو گہرا صدمہ لگنا تھا۔وہ عائشے بلوچ جو کبھی ان دونوں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا کرتی تھی پیٹھ پیچھے انکے حق میں لڑنے کو دوڑ پڑتی ہے۔
اچھے دوستوں کی یہی تو نشانی ہوتی ہے وہ صرف زبان سے نہیں اپنے عمل سے اس رشتے کو مزید گہرا کرجاتے ہیں۔
"اچھا چلو اپنا روما نامہ بند کرو اور یہ شاپر پکڑو۔"انعم بیگم نے زبردستی اسکو شاپر تھمادیا۔
"میں دلہن ہوں میں کیوں پکڑوں؟"
"یہ گھر جاکر میری جوتی اچھے سے بتائے گی۔"وہ اسے سناتی ہوئی چوڑیوں کی دکان میں داخل ہوگئیں۔
     "روما میں تو سوچ رہی ہوں لگے ہاتھ تمھاری شادی کی بھی تیاری کرلیتے ہیں۔"انوش اسٹال پہ چوڑیاں دیکھتے ہوئے بولی۔
"ایک کام کیوں نہیں کرتے تینوں دوستیں ایک ساتھ ایک ہی دن شادی کرلیں۔پر خیر میرا تو شادی کا کوئی ارادہ نہیں اور تم سے پتا نہیں کون شادی کرے گا۔"
"کوئی آئے گا فلک جیسا جو روز شادی کے بعد مجھے پھول لاکر دیا کرے گا۔"
"ہاں پھر تم ان پھولوں کا گلدستہ بنا کے بیچ دینا اچھا منافع ہوگا!"
"ابے چل اپنے میاں کا تحفہ میں سنبھال کے رکھونگی۔"انوش نے آنکھیں جھپکائی رومائزہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"پہلے میاں تو ڈھونڈ لو...میاں کا تحفہ،استغفر اللہ!"انوش کی نقل اتارتے ہوئے اس نے کان چھوئے اور ناک رگڑی تھی اسے ڈسٹ سے الرجی شروع ہوگئی تھی۔
                            ★ ★ ★
"ڈیڈ مبارک ہو ایم_این_اے صاحب نے ارجنٹ بیس پہ اسکول کی تعمیر مکمل کروالی ہے۔"میران نے انکے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا جسکے حلیے سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ ابھی فریش ہوکر سیدھا انھی کی طرف آگیا ہے۔
ماتھے پہ گرے بال صاف ستھرے نقوش!
    زولفقار صوفے پہ بیٹھے کچھ فائلز چیک کر رہے تھے اسکو نظر اٹھا کر دیکھا جو ٹی پنک شرٹ کے ساتھ سفید ٹراؤزر میں ملبوس جیبوں میں ہاتھ ڈالے اطمینان سے انکے سامنے آن کھڑا تھا۔
"خیر مبارک۔"زلفقار نے تبسم پھیلا کر کہا۔
"میں نے آپکو کہا تھا نا یہ سب حڈ حرام ہوچکے ہیں۔دیکھ لیں زرا سی سختی پہ ایک مہینے میں اس نے کام تکمیل کو پہنچایا ورنہ یہی کام عرصے سے لٹکایا ہوا تھا پیسہ آرہا تھا پر جا کہاں رہا تھا کوئی خبر ہی نہیں تھی۔"دوسرے ہاتھ میں موجود چائے کے مگ کو لبوں سے لگاتے ہوئے سنجیدگی سے بولا پر انداز بہت کچھ جتانے کے قابل تھا۔
"تو تم مجھے یہ جتانے آئے ہو۔"انھوں نے فائل سائیڈ رکھی اور صوفے سے پشت ٹکا کر بیٹھے۔
   "جو آپ سمجھیں،،میں صرف حقیقت بتانے آیا ہوں۔"اب وہ نرم انداز میں شانے اچکاتے ہوئے بولا زولفقار جاہ نے گہری سانس بھری۔
"چھوٹے جاہ میں نے تمھیں ایک کام بولا تھا اسکا کیا بنا؟"وہ اسے شنواری کا قصہ یاد دلاتے ہوئے بولے اور واپس فائلز میں لگ چکے تھے میران نے چائے کے دو تین گھونٹ بھرے اور جیب سے ہاتھ نکال کر بولا۔
"ایوریتھنگ از ان مائے انڈر!"میران نے بھنویں چڑا کر بتایا۔پر اسکا دماغ کسی سوچ میں غرق ہوا تھا۔
"شاباش۔"زولفقار جاہ کے چہرہ کھل اٹھا تھا۔
"ایک بار سوچ لیں کیا یہی طریقہ فالو کرنا ہے!"
"اسکے پاس کھونے کو کچھ نہیں سوائے بیٹی کے اسی طرح ہمیں پیسے سود سمیت واپس ملیں گے!اگر تم یہ نہیں کرسکتے تو بتادو میں خود ہی کوئی انتظام کرلونگا۔"وہ انتہائی سفاکی سے بولتے ہوئے اسکی انا پہ بھی چوٹ کر رہے تھے۔
"نو تھینکس،،میں خود ہی دیکھ لونگا۔"وہ کہہ کر دوسرے صوفے پہ دراز ہوچکا تھا اور پھر دونوں باپ بیٹے کے درمیان سیاسی باتیں چلتی رہیں۔
اس نے ایک کوشش کی تھی زولفقار سے بات کرکے دوسرے طریقے کی پر بے سود!شنواری کی قسمت اچھی تھی جو یہ معاملہ میران جاہ کے ذمے لگ چکا تھا۔وہ اسکی بیٹی کو ہر گز نقصان نہیں پہچانا چاہتا تھا پر اسکی دھوکہ بازی پہ اپنا حساب پورا کرنے لے لیے وہ سب کچھ کرنے کے لیے راضی تھا مجبوراً ہی سہی!
        رومائزہ رات نو بجے گھر پہنچی تھی اس نے احتشام صاحب کے لیے ایک گرم شال اپنی پسند کی خریدی تھی جو احتشام کو بھی پسند آئی تھی پھر وہ باقی کی شاپنگ بھی دکھانے بیٹھ گئی باپ بیٹی میں ہلکا پھلکا مذاق جاری تھا۔
"میں سوچ رہا ہوں اب آپکے لیے بھی کسی اچھے سے لڑکے کو ڈھونڈوں اور پھر اسی کے ساتھ آپکو رخصت کرادوں۔"احتشام صاحب نے نچلا لب دبائے مصروف انداز میں کہا رومائزہ نے تلملا کے سر اٹھایا۔
"ہاں ہاں کردیں،آپ سے اب میں برداشت نہیں ہورہی نا۔کہیں بوجھ تو نہیں سمجھنے لگے مجھے؟"وہ غصہ پیتی ہوئی مشکوک نظروں سے انھیں دیکھتے ہوئے بولی تو احتشام ہنس دیے۔
"میں چاہتا ہوں اپنی زندگی میں ہی تمھارا فرض پورا کردوں زندگی کا کیا بھروسہ آج اوپر ہیں کل اس زمین کے نیچے۔"انکا انداز اب انتہا کا سنجیدہ ہوچکا تھا مسکراہٹ کہیں غائب ہوچکی تھی۔
"کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ،،بس مجھے تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔میں بتارہی ہوں آپکو چھوڑ کے کہیں نہیں جاؤنگی۔"وہ تڑپ کے انکے کندھے سے لگی تھی احتشام صاحب نے اسکے گرد حصار باندھا۔
"تو پھر مجھے کوئی گھر داماد ڈھونڈنا پڑے گا۔"انھوں نے پرسوچ انداز میں شرارت سے کہا۔
"بابا...."
رومائزہ چڑ کر انکا بازو ہٹاتی دور ہوئی۔
"اچھا کچھ نہیں کہتا بس اپنا خیال رکھنا۔۔اور اب جاکے سوجاؤ۔"اسکا سر تھپتھپاتے واش روم میں بند ہوچکے تھے رومائزہ کا دل کہیں مٹھی میں قید ہوا۔
ایک باپ کا سایہ ہی تو اسکے سر پہ تھا ورنہ اسکے علاوہ دو دوستوں کے اور تھا کون اس دنیا میں!جو رشتے دار تھے وہ بھی ملک سے باہر تھے۔احتشام صاحب کی باتوں سے اسکا دل سہم گیا تھا۔
پھر خود کو کمپوز کرکے اپنا سامان اٹھا کر کمرے میں چل دی تھی پر دل اب کسی انجانے خوف کے زیرِ اثر بے چین راہ پہ گامزن ہوچکا تھا۔
                             ★ ★ ★
یہ بدھ کا دن تھا معمول کے مطابق آج موسم میں تپش تھی۔اجلاس کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔میڈیا کے نمائندے طے شدہ جگہ پر پہنچ چکے تھے۔
اے_پی جماعت کے تمام اراکین اجلاس میں موجود تھے۔عوام ایک جم و غفیر کی تعداد میں موجود تھی۔میڈیا کے اہلکار تمام فوٹیج براہِ راست نشر کرتے نظر آرہے تھے۔عوام کی تعداد دیکھ کر اس بات کا اندازہ با آسانی لگایا جاسکتا تھا کہ اے_پی جماعت اب بھی اپنے فل پاور میں ہے ایک دو کیس کھل جانے سے انکے چاہنے والوں میں کمی نہیں آئی تھی بلکہ تعداد میں مزید اضافہ ہوا تھا اور اس سب کا سبب واحد میران جاہ تھا۔
لوگ گھروں میں ٹی وی کھولے بیٹھے سب براہِ راست دیکھ رہے تھے۔کچھ دیر میں زولفقار جاہ اور میران کی آمد ہوچکی تھی اور یہ منظر اپوزیشن کو خاصا ہضم نہیں ہوا تھا۔
جماعت کے اراکین نعرہ بازی کرتے تھک نہیں رہے تھے۔کچھ دیر میں زولفقار جاہ نے مائیک سنبھال کر بولنا شروع کیا۔
وہ اب بھی اپنی شاندار اور بارعب شخصیت سے مقابل کو چاروں شانے چت کرنے کی قابلیت رکھتے تھے۔گرے سوٹ بوٹ میں کافی خوبرو معلوم ہورہے تھے۔
"اسلام و علیکم۔امید کرتا ہوں سب خوش باش ہونگے...آج آپ سب کو کسی خاص وجہ سے بلایا گیا ہے۔"انھوں نے مائیک لبوں کے مزید قریب تر کیا۔
     "میں نے جب اس جماعت کی بنیاد ڈالی تھی تو یہی مقصد تھا کہ آپ لوگوں کی خدمت کرسکوں اور ہم نے یہ کیا ہم پہلے ایک چھوٹی سی تعداد میں تھے رفتہ رفتہ ہماری جماعت اراکین سے بھرتی گئی اور مضبوط ہوگئی۔ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ آپ سب کو سہولیات فراہم کریں...تیس سالہ عرصے میں بے غرض ہوکر ہم نے خود کو ملک کے وقف کردیا!"لوگوں کو اپنی باتوں سے متاثر کرنے کے تو وہ کلاکار تھے پورے پنڈال میں ایک بار پھر شور میں تیزی آئی وہ مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے مسکرارہے تھے۔
"اور اب آپکو یہ خاص خبر بھی بتادوں۔میں جانتا ہوں آپ سب میران جاہ سے کافی محبت کرتے ہیں اور محبت کرنے کی اہم وجہ یہی ہے کہ یہ ایک ذمہ دار انسان ہے۔اس نے جو زمہ داری اٹھائی اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔میں سمجھتا ہوں اب میرا بیٹا اس قابل ہے کہ اقتدار سنبھال سکے..تو میں اس اہم مقصد کی ذمہ داری اپنے بیٹے کو سونپتا ہوں اے_پی جماعت اور ملک کا روشن مستقبل میران جاہ ہوگا۔"
انکے جوشیلے انداز پہ عوام میں شور کا تہلکا مچ گیا۔تمام کیمروں نے میران پہ فوکس کیا تھا جو زولفقار جاہ کے شانہ بشانہ کھڑا تھا۔سفید کرتا شلوار پہ گرے واسکٹ زیب کیے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے پشاوری چپل میں پیر قید کیے ہوئے کسی ریاست کا مغرور شہزادہ ہی لگ رہا تھا۔
"تو وزیر اعلی صاحب آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگلا الیکشن آپ کی بجائے میران جاہ لڑیں گے؟"اینکر پرسن نے شور کا زور ٹوٹنے کے بعد بلند آواز میں تجسس بھرے انداز میں پوچھا۔
"ہاں بلکل۔"
وہ دو لفظ بولے۔اینکر نے پھر میران سے سوال کیا تھا جو شانے چوڑے کیے ہاتھ پیچھے کو باندھے قابلِ دید مطمئن انداز میں کھڑا تھا۔
"مبارک ہو میران صاحب۔کیا آپ اس ذمہ داری کے لیے تیار ہیں؟"اینکر اپنے پروفیشنل انداز میں ہی بولا میران کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ گھل گئی۔
"ہاں بلکل تین چار سال اسی کی تیاری تو کی ہے۔اقتدار بے شک کسی کے بھی ہاتھ میں ہو میں اپنے فرائض سے کبھی انکاری نہیں ہونگا۔میرے لیے عوام اور اسکی خدمت سب کچھ ہے۔اللہ نے مجھے اس کام کے لیے چنا ہے میں کبھی اس سے رخ نہیں موڑ سکتا یہ اللہ کا کرم سمجھتا ہوں جس نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میں اپنے ملک کا نمائندہ بنوں اور اپنی عوام کی خدمت کرسکوں۔"
وہ صاف انداز میں گویا ہوا اسکے انداز میں وطن کی محبت جھلک رہی تھی۔اینکر پرسن مسکراہٹ روک نہ سکا۔میران نے پہلے ہی اپنی ایمانداری سے لوگوں کے دل فتح کر لیے تھے۔لوگ اس فیصلے سے بے حد خوش تھے زولفقار جاہ کی جگہ کوئی اور ایماندار شخص ملک کی زمہ داری اٹھانے کا دعویدار ہے۔
"بیسٹ آف لک سر۔"اینکر تھبز اپ کا نشان دکھاتے ہوئے پیچھے ہوگیا تو باقی اینکرز نے سوال جوابوں کی برسات کردی تھی۔میران ایک بعد ایک سوال کا پرسکون انداز میں جواب دیتا رہا۔
وہ ہر ایک کو اپنا جواب دے کر متاثر کر رہا تھا اسکا انداز آنکھیں سب اسکے لفظوں کی سچائی کا ثبوت دیتی تھیں مقابل بات قبول کرنے سے انکار کرہی نہیں پاتا تھا۔
     سورج ڈھلنے کا وقت تھا جب شنواری صاحب کو انکی بیٹی نے کال ملا کر بتایا تھا کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ قریبی پارک تک جا رہی ہے اور جلد ہی آجائیگی۔
اجلاس کے ختم ہوتے ہی عزیز نے اپنے لوگوں کو کام پہ لگا دیا تھا۔وہ لوگ عصر کے بعد سے ہی الرٹ ہوچکے تھے اور شنواری کے گھر پہ نظر رکھے ہوئے تھے۔
اسکی بیٹی اکثر شام میں گھر سے باہر نکلتی تھی اس بات کی انھیں خبر تھی۔
آج بھی وہ بلو جینس پہ گٹھنوں سے تھوڑی اونچی بلیک شرٹ میں ملبوس چہرہ ماسک سے چھپائے گھر سے باہر نکلی تھی۔
"لڑکی کتنا بھی خود کو چھپا لو ہماری نظروں سے اوجھل تم نہیں ہوسکتیں۔"الیاس نامی شخص نے کہا جو اپنے گروپ کا سربراہ تھا اسکی نظریں اس لڑکی کے تعقب میں تھیں۔
الیاس نے اسکی گاڑی کو کالونی سے نکلتے دیکھا اور اسکے تعقب میں اپنی گاڑی لگادی۔
پارک کا راستہ تھوڑا ویران جگہ سے ہوکے گزرتا تھا۔
ڈرائیور گاڑی چلارہا تھا جب کہ وہ موبائل میں مصروف میسجز کے ریپلائے دے رہی تھی تب ہی ڈرائیور نے اچانک گاڑی کو بریک لگایا تھا۔
لڑکی نے چونک کے سر اٹھایا تو سامنے کالے رنگ کی گاڑی نے انکا راستہ روکا تھا۔
"میم آپ نیچے بیٹھ جائیں گاڑی سے باہر مت نکلیے گا۔"ڈرائیور نے مقابل گاڑی میں سے چند باؤنسرز کو اترتا دیکھ سنبھل کر فوراً کہا۔ان غنڈوں نے آگے پیچھے سے گاڑیاں لگا دی تھیں فرار کے راستے سب بند ہوچکے تھے۔وہ اس سے پہلے چھپتی الیاس نے قریب پہنچ کر ڈرائیور کو باہر نکلنے کا کہا۔ڈرائیور کی سانس بھی حلق میں اٹکی تھی وہ پھر بھی بہادری سے باہر نکلا۔
    "کیا مسئلہ ہے کیوں راستہ روکا ہے ہمارا؟"
ڈرائیور کے کہنے کی دیر تھی الیاس نے ایک تختہ اسکے سر پہ مارا وہ دور جاکے گرا اور وہیں اسکا بے ہوش وجود ڈھ گیا اندر بیٹھی لڑکی اندر تک کانپ گئی تھی اور دروازے کا لاک گھماتی بنا سوچے سمجھے ڈرائیور کی خاطر باہر نکل آئی۔
"یہ کیا کردیا تم لوگوں نے۔"وہ منہ پہ ہاتھ رکھے لرزتی ٹانگوں کے ساتھ ڈرائیور کی جانب بڑھنے لگے تھی کہ الیاس نے اسکا بازو دبوچا۔
"اچھا ہوا چڑیا خود ہی باہر آگئی..اے لڑکی چپ چاپ ہمارے ساتھ چلو ورنہ۔"الیاس اسے گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھا اس نے پوری قوت لگا کہ خود کو چھڑایا اور بھاگنے کے پر تولے پر وہ دوسرے غنڈوں کے چنگل میں پھنس چکی تھی۔
"چھوڑو مجھے.."وہ خود کو چھڑانے لگی۔
"مسئلہ کیا کیوں لے کر جا رہے ہو میں نے کیا بگاڑا ہے تمھارا؟"وہ خود کو چھڑانے کی سعی کرتی پھپھڑاتے لبوں سے اپنی بات کہہ رہی تھی ان میں سے چند لڑکے ہنسے۔
  "تم آرام سے ہمارے ساتھ چل لوگی تو فائدہ تمھارا ہے ورنہ ہمیں زبردستی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔اے لڑکے اسے فوراً گاڑی میں ڈال۔"الیاس اپنی بندوق سے اشارہ کرتے ہوئے بولا اسکی آنکھوں میں خوف و حراس اتر آیا اور پھر غصے کے بل چلائی تھی اور برابر والے لڑکے کے منہ پہ مکہ رسید دیا تھا۔یکدم تو وہ بھی اسکی فنکاری پہ حیران ہوا تھا کس طرح اس نے خود کو چھڑایا تھا۔
"میں نے کہیں نہیں جانا چھوڑ دو مجھے ورنہ.."خود کو چھڑا کر اس نے اپنے مارشل آرٹس کے داؤ پیچ مارے تھے۔وہ اپنا دفاع خود کرسکتی تھی پر وہ غنڈے بھی کوئی کچے کھلاڑی نہیں تھے اس کم عمر لڑکی کو انھوں نے فوراً قابو کر لیا تھا۔
   اسکے منہ پہ کالا کپڑا ڈال کے ہاتھ پیر باندھ کے گاڑی میں بیٹھا چکے تھے وہ مسلسل مچل رہی تھی پر پرواہ کسے ہونی تھی۔الیاس کے حکم پہ وہ سب وہاں سے نکل کر عزیز کے بتائے ایڈریس پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگئے۔
سڑک خالی ہوچکی تھی بس ڈرائیور کا بے ہوش وجود وہاں لاورثوں کی طرح پڑا رہ گیا تھا۔
                            ★ ★ ★
"میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا زولفقار جاہ اپنے بیٹے کو مہرے کی طرح استعمال کرے گا۔دیکھو جماعت کی بقاء کے لیے اب اسکو سربراہ بنارہا ہے۔"
"یہ بات تو پہلے دن سے ہی طے تھی پر زولفقار نے بڑی چالاکی سے کام لیا ہے۔اب تم اپنے بارے میں سوچوں اب تو خطرے کی گھنٹی صاف بجتی نظر آرہی ہے ایک کڑی اپوزیشن کا تمھیں سامنا کرنا پڑے گا۔"یہ کسی اپوزیشن لیڈر کے بنگلے کا ہال تھا جہاں دو نفوس بیٹھے ٹی وی پہ نشر ہوتے اجلاس کو دیکھ کر گفتگو کر رہے تھے۔
"ان باپ بیٹے کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔جب تک انکے درمیان دراڑ نہیں آئیگی یہ کمزور نہیں پڑیں گے۔"اجمل خان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
"اور یہ کام اتنا آسان نہیں۔"
انوار سیٹھ نے پتے کی بات کہی اجمل خان بے ساختہ ہنسا۔
"ایسا ہوگا جب زولفقار اپنے بیٹے کو مروانے کی کوشش کرے گا زولفقار کو اچھے سے جانتا ہوں میں،وہ کب کیا سوچتا ہے کس طرح بازی پلٹتا ہے سب کا علم ہے۔میران اپنے باپ کے کہے پر چلتا ہے پر ایسا زیادہ عرصہ چلے گا نہیں اس نے ابھی سے اپنے رنگ دکھانے شروع کردیے اور زولفقار کو جب اس بات کا اندازہ ہوگا وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔"
اجمل خان نے ہاتھ کی پشت سے ٹی وی بند کردیا اور انوار کو دیکھا جو اجمل خان کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔نا جانے اس خان کے دماغ میں کیا چل رہا تھا یہ تو وقت ہی سہی طرح بتائے گا۔
                             ★ ★ ★
اجلاس کے بعد زولفقار کے کسی قریبی نے دعوت کا احتمام کیا تھا اور دعوت کا مہمان خصوصی میران تھا ہر ایک کی نظریں اس مغرور شہزادے پہ ٹکی تھیں جو ضرورت سے زیادہ بولنا گناہ سمجھتا تھا۔
  اس تقریب میں دوست احباب اور بزنس سے تعلق رکھنے والے سب ہی لوگ مدعو تھے۔
یہ دن میران کے لیے خوشی کا باعث بنا تھا۔
شروع سے ہی اسکی چاہ تھی اپنے ملک کے لیے وہ سب کرے جس کی بنا پہ ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دے کر اسے حاصل کیا تھا۔
اقتدار میں آکے وہ سب کچھ کرسکتا تھا جسکا ابھی اسے اختیار نہیں تھا۔اور ملک کو خود پریزنٹ کرے گا اس سے بڑی بات اور کیا ہونی تھی۔وہ مقابل کی بات کا جواب دے کر خاموش ہوجاتا پر دھیمی مسکراہٹ گویا اسکے لبوں پہ قائم رہی تھی۔
عزیز کی بات سننے کے لیے وہ معذرت کرتا ہوا زولفقار اور انکے دوستوں کے درمیان سے اٹھا تھا۔اور وہ دونوں تھوڑی خاموشی والی جگہ پہ آگئے۔
"سائیں اس لڑکی کو اٹھوالیا ہے۔"عزیز نے جیسے نظریں چرائیں تھیں میران نے گہری سانس بھری لبوں پہ مزید تبسم کے گہرے رنگ پھیل گئے۔
"بہت خوب۔"اسکا لہجہ ایسا تھا جیسے کچھ فتح کرلیا ہو۔
"سب خیریت ہے؟"ان دونوں کو منظر سے غائب دیکھ کر وہ ڈھونڈتے ہوئے انکے پیچھے آئے تھے میران نے انکی جانب رخ موڑا۔
"سب ٹھیک ہے۔آپکا کام ہوگیا شنواری کی بیٹی اب ہمارے قبضے میں ہے۔"وہ تمسخر سے کہتا موبائل میں لگ چکا تھا۔
"بہت خوب۔عزیز شمس کو بلاؤ اب زرا شنواری صاحب کو خبر دے دی جائے۔"انکا قہقہہ جملے کا حصہ بنا تھا۔
"مجھے الیاس نے بلایا ہے مجھے وہاں جانا ہوگا۔"عزیز نے میران کو آگاہ کیا میران نے تاسف سے سر ہلایا۔
"میں ساتھ چلونگا۔"
"تمھیں جانے کی کیا ضرورت ہے؟یہ سارا اہتمام تمھارے لیے ہے تم کہیں نہیں جا رہے۔"زولفقار نے اسے روکنے کی کوشش کی پر ناکام ہوئے تھے۔
"آپ معذرت کرلیے گا کہہ دیجیے گا ضروری کام تھا جانا پڑا۔"وہ مزید رکنا نہیں چاہتا تھا لمبے ڈگ بھرتا اپنا واسکٹ کندھے پہ ڈالے پارکنگ میں آگیا تھا عزیز بھی اسکے پیچھے فوراً لپکا۔
میران کے بیٹھتے ہی عزیز نے گاڑی سڑک پہ دوڑا دی تھی اور چند لمحوں میں سیاہ رنگ کی گاڑی ہوا میں دھواں تحلیل کرتی منظر سے روپوش ہوگئی۔
یہ نئے باب کا آغاز شروع ہونے جا رہا تھا،،میران جاہ کی تقدیر بھی اس وقت تمسخر سے ہنسے لگی تھی۔
    شمس نے زولفقار کو کال ملا کر دی تھی۔
شنواری جو فیکٹری میں موجود تھا پہلے تو سوچتا رہا کال ریسیو کرنے کے بارے میں،کئی دنوں سے اسے کوئی کال یا دھمکی موصول نہیں ہوئی تھی پر آج پھر سے شمس کا کال کرنا انکو تشویش میں مبتلا کر رہا تھا۔
زولفقار صاحب گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھے کال ریسیو ہونے کا انتظار کر رہے تھے بیل مسلسل بج رہی تھی۔
"میں نے کہا تھا نا آئیندہ کال مت کرنا۔"کال ریسیو ہوتے ہی زولفقار جاہ کے کانوں میں شنواری کا جملہ پڑا وہ دل کھول کر ہنس دیے۔
  "ہاں بلکل شنواری آج کے بعد اب ہم تمھیں کال نہیں کرینگے،،پر تمھیں شاید اسکی ضرورت پڑ جائے۔تم نے پیسے لے کر وعدہ کیا تھا سات سال میں لوٹا دو گے پر تم تو نے سب کھا پی کر ایک کردیا۔تمھیں کیا لگا ہم اتنی آسانی سے تمھیں بخش دینگے۔ہم سے الجھنے کا انجام شاید تم جانتے نہیں ہو۔زرا گھر جاکے دیکھ لینا تمھاری بیٹی موجود ہے کہ نہیں ویسے نام کیا ہے اس پری کا؟"
زولفقار نے سیدھا مدعے کی بات مکمل کی۔شنواری صاحب اسکی بات پہ دنگ رہ گئے۔
"خبردار مزید کچھ کہا!!مطلب کیا ہے اس بات کا؟کیا کیا ہے میری بیٹی کے ساتھ؟"وہ اشتعال سے چیخے اور والٹ اور کیز اٹھا کر باہر گاڑی کی طرف لپکے۔
"پیسے دے دو اور بیٹی لے جاؤ۔ہمیں تمھاری بیٹی سے کوئی سروکار نہیں ہے ہمیں صرف اپنی رقم چاہیے۔یاد رکھنا زولفقار جاہ دھوکہ دینے والوں کے لیے عذاب ثابت ہوتا ہے اور تم میرے ساتھ پیسوں کا جھول کرنے لگے تھے۔"تنفر سے کہہ کر زولفقار نے کال کاٹ دی تھی اور پشت پیچھے ٹکا کر بیٹھ گئے انداز میں غرور صاف جھلک رہا تھا شنواری انکے سامنے چیونٹی کی مانند تھا جسے وہ مسل چکے تھے۔
         شنواری صاحب رش ڈرائیونگ کرتے ہوئے گھر پہنچے تھے تمام راستے وہ دعا کرتے آئے تھے انکی بیٹی گھر میں سہی سلامت موجود ہو انھیں زولفقار جاہ کے لفظوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔اپنے جگر کے ٹکڑے کا دور ہوتے سوچنے پہ انکی سانس اٹک گئی تھی۔
منزل پہ پہنچتے ہی انھوں نے گاڑی ایک طرف لگائی اور کالونی کا دروازہ تیزی میں کھول کر اپارٹمنٹ کی جانب بڑھے۔
لاک میں چابی گھمائی دروازہ ہلکا سا دھکیلا جو کھلتا چلا گیا۔ماحول کی خاموشی انھیں بہت کچھ باور کرا رہی تھی۔وہ قدم گھسیٹتے ہوئے لاؤنچ تک پہنچے وہاں یک دم سناٹا تھا جب کہ اس وقت وہ یہاں بیٹھی مووی یا ڈرامہ لگائے بیٹھی ہوتی تھی۔وہ الٹے قدموں اسکے کمرے میں پہنچے جہاں خاموشی کا راج تھا۔
اسے وہاں نا پاکر نعمت بی کو آوازیں دیں جو اپنے گھر کو جانے لگی تھیں۔
"نعمت بی روما کہاں ہے؟"
"صاحب وہ تو ابھی نہیں آئیں شام کو گھر سے نکلی تھیں ڈرائیور کے ساتھ مجھے لگا آپکو معلوم ہوگا۔میں تو بس اب جانے لگی تھی۔"وہ وضاحت دیتے ہوئے بولیں شنواری صاحب کمرے میں ٹہلتے ہوئے کنپٹی سہلارہے تھے پھر اسکے کمرے سے باہر نکلے اور نیچے لاؤنچ میں ہی آئے تھے کہ ڈرائیور اپنے ٹوٹے پھوٹے وجود کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
"احسن میری بیٹی کہاں ہے؟"وہ اسکا گریبان پکڑ کے دھاڑے اس بات کی پرواہ کیے بنا کے اسکے داہنے ہاتھ میں پلاستر بندھا ہے اور سر بھی پٹیوں میں جکڑا تھا۔
"سر کچھ غنڈوں نے راستہ روکا تھا اور وہ انکو اغوا کرکے لے گئے۔میں نے میڈم کو منع کیا تھا باہر نہیں نکلیے گا پر میرے بے ہوش ہونے کے بعد کیا ہوا اسکا مجھے علم نہیں۔"ڈرائیور ساری بات دہراتا ہوا سر جھکائے کھڑا رہا شنواری صاحب اسکا گریبان چھوڑ چکے تھے۔
"صاحب پولیس کمپلین کریں پولیس ہی بی بی جی کو ڈھونڈنے میں مدد کرے گی ناجانے کس حال میں ہونگی وہ۔۔"نعمت بی کا مشورہ سن کے انھوں نے فوراً کمیشنر صاحب کو کال لگائی تھی پر سب بے کار تھا سب زولفقار صاحب کے پیسوں سے بک چکے تھے۔
اب سوائے زولفقار صاحب کی بات ماننے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔پر پیسوں کا انتظام بے حد مشکل تھا چھوٹی رقم ہوتی تو وہ ادا فوراً کردیتے شنواری صاحب سر پکڑے صوفے پہ ڈھے گئے۔
  "آپ پریشان نہ ہوں اللہ سب بہتر کرے گا بی بی صاحب ٹھیک ہونگی وہ کسی کا برا نہیں کرتی کوئی انکے ساتھ بھی برا نہیں کرسکتا اور وہ بہت بہادر بھی ہیں۔"نعمت بی تسلی آمیز لہجے میں کہتی ڈرائیور کے ساتھ باہر آگئیں۔پیچھے پورا گھر سناٹے میں ڈوب چکا تھا۔
                            ★ ★ ★
حال!!
یہ کوئی چھوٹی سی بستی معلوم ہورہی تھی،،
عزیز نے گاڑی میدان میں روکی اور میران کے ہم قدم اسے راستہ بتاتے ہوئے تنگ گلیوں سے لے کر کسی پرانی کوٹھی میں لے آیا تھا۔
میران اپنی مغرور چال چلتے ہوئے عزیز کے ساتھ کوٹھی میں داخل ہوا۔ایک لڑکی نے عزیز کو کمرے کی جانب اشارہ کیا۔
"سائیں میں سوچ رہا ہوں آپ اندر نہ جائیں آپ کو وہ دیکھ لے گی تو آپ سے بلاوجہ نفرت کرے گی۔"عزیز نے دروازے کے قریب پہنچ کر کہا۔
"مجھے اسکی نفرت کی پرواہ نہیں اسکو میرا شکر گزار ہونا چاہیے زولفقار صاحب کے ہاتھ لگتی تو چلتی سانسیں گنتی بس۔۔"وہ کہہ رہا تھا جبھی اندر سے دوسری لڑکی نے دروازہ کھولا تھا شاید وہ انکی آہٹ محسوس کر چکی تھی۔
میران کی نظریں جیسے ہی کمرے کے درمیان کرسی پہ بیٹھی اس لڑکی پہ پڑیں جو مسلسل ہاتھ پیر چلانے کی کوشش کر رہی تھی آنکھوں کے پپوٹے سوج کے لال ہوچکے تھے غلافی گال بڑی آنکھیں بکھرا ہوا وجود،،لمحے کے ہزارویں حصے میں اسکا دماغ چونک اٹھا۔
آنکھیں دھوکہ نہیں دے رہی تھیں کمرے کا منظر حقیقت تھا وہ پہچاننے میں کیسے غلطی کرسکتا تھا اس چہرے کو تو وہ لاکھوں کروڑوں میں بھی جان لیتا۔وہ خود حیرت کے مارے خود پہ ضبط کیے پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔وہ اسکی بات سن چکی تھی یکدم دل میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔
میران خود ہکابکا اس منظر کو قبول کرنے کی سعی کر رہا تھا گویا زمین تنگ ہوئی تھی یا آسمان،ہاں وہ آسمان سر پہ گرنے اور زمین کے تنگ ہونے کی مثال بن چکا تھا۔
اس نے پلٹ کر عزیز کا گریبان جکڑا تھا اور گرج دار آواز میں دھاڑا۔
"عزیز یہ کس کو اٹھا لے آئے ہو؟"اسکی آنکھیں یکدم سرخ ہوچکی تھیں ماتھے پہ ننھے آبی قطرے نمودار تھے دماغ سائیں سائیں سنسناہٹ کا شکار ہوا ماحول میں گویا گرمی سی پیدا ہوگئی تھی۔

Ehmm...
Or ab kia hoga🙂?
Sawal tha k mask girl kon hai or q mask lagati hai..
Aik jawab mil gaya hoga or mask q lagati hai wo bhi mene aj ki or pichli qist mai de rkha hai..(agr apka dehan gaya hu tu)

Kher ab apny tabsre comment mai lazmi karein..(it's a kidnapping based novel..yes you know!)
Don't forget do vote and comment..

عشقِ متشکرمDonde viven las historias. Descúbrelo ahora