قسط 9 گمان

742 64 15
                                    

میران نے آہستہ سے اٹھنے کی سعی کی مراد نے فوراً آگے بڑھ کے اسے بٹھانے میں مدد کی تھی میران اسکی پہل دیکھتا گیا۔کندھے میں درد کی شدت بڑھنے پر کچھ دیر پہلے ہی نرس پین کلر دے کر گئی تھی۔میران کے پیچھے تکیہ سہی کرکے مراد دور ہوا اسکے عمل پہ میران کی نظریں اسی پہ جمی رہیں۔
"اسلام و علیکم،آئی ایم اے_ایس_پی مراد دمیر۔"بینچ کھینچ کر اس نے میران کے بیڈ کے قریب کرلی اور کف کہنیوں تک چڑھا کر بیٹھتے ہوئے اپنا حوالہ دیا۔
"وعلیکم السلام،تعارف کی ضرورت نہیں آئی نو یو ویری ویل!"میران کے کہنے پہ مراد کے ہونٹوں پہ پرسرار سی مسکراہٹ رینگ گئی میران نے پر سوچ نگاہ سے اسے دیکھا۔
"کیسے ہوا یہ سب؟"مراد نے ماتھا رگڑے سوال کیا میران نے حیرت کا تاثر دیا۔
"کمال ہے ابھی ایک آفیسر کو انویسٹیگیشن کے دوران سب بتایا ہے،کیا وہ معلومات کم پڑ گئی؟"اسے دیکھتے ہوئے میران نے انگلیاں بھنوؤں پہ پھیریں۔
"میں تفتیش کے لیے نہیں آیا بلکہ آپکی خیریت جاننے آیا ہوں۔"لب ملاتے اس نے نرم لہجے میں بتایا میران نے سر ہلایا۔
"آپکو کیا لگتا ہے کس نے یہ حرکت کی ہے؟"
"یہ تمھارا کام ہے پتا لگاؤ۔"گلاس اٹھایا تھا اور اسکی نوک پہ انگلی پھیر رہا تھا لہجے میں لاپرواہی تھی۔
"نام لونگا تو شاید آپ برا مان جائیں..."مراد نے ہنستے ہوئے بات کہی میران نے نفی کی۔
"زولفقار صاحب۔"مراد کے کہنے پہ میران کھل کے ہنسا۔
"ایک شخص جو کل عدالت سے ہر الزام سے بری ہوا ہے اور وہ طاقت کے پیچھے بھاگتا بھی ہے،پھر چند معاملات میں باپ بیٹے کے درمیان اختلافات بھی چل رہے تھے،ایک دن پہلے انکا پاور میں آنا اور بھی کئی باتیں ہیں جو ان پہ شک کرنے پہ مجبور کر رہی ہیں۔"مراد نپے تلے لفظوں میں بنا تمہید باندھے مدعے کی بات کرنے پہ آیا۔عزیز مراد سے اتفاق کر رہا تھا۔
"تمھارا اشارہ منی لانڈرنگ کی مخبری کی جانب تو نہیں۔"
"ہاں بلکل.."
"تم کو لگتا ہے وہ خبر میں نے ہی تم تک پہنچائی تھی؟"میران کے ماتھے کی سلوٹیں نمایاں ہوئیں مراد نے لب بھینچے۔
"کہہ سکتے ہیں...پر مجھے معاملہ کچھ اور لگ رہا ہے۔آپ مجھ پہ بھروسہ کر سکتے ہیں۔شاید آپکی مدد کرسکوں۔"
"مدد تو تم سے ہی لونگا آخر تم خود چل کر میرے پاس آئے ہو،اے ایس پی مراد بنا مقصد کے یوں ہی خیریت دریافت کرنے آجائے بات ہضم نہیں ہوتی۔اور عزیز بھی تو ٹھیک نہیں تو...."
"چھوٹے سائیں۔"عزیز منمنایا۔اس نے اتری شکل بنا لی تھی میران نے اسے گھورا۔
"سائیں یقیناً آپ جانتے ہیں کس نے یہ سب کیا ہے تو اس آفیسر کو اس بارے میں کیوں نہیں بتایا؟"عزیز کو اب یقین ہو چلا تھا میران کوئی بات پوشیدہ رکھے ہوئے ہے۔مراد نے بھی اسے دیکھا۔
"وہ مجھے قابلِ اعتماد نہیں لگا تھا۔"میران نے آہستگی سے لب ملائے گلاس سائیڈ دراز پہ واپس رکھا۔
"پتا ہے جب دشمن کڑوی باتوں کی بجائے مٹھاس لہجے میں اتار لے اور آپکا ہمدرد بن جائے اس وقت اسکے شر سے بچنا چاہیے۔۔"میران نے گردن ہلکے سے گھماتے ہوئے کنپٹی دبائی مراد کا تجسس بڑھ رہا تھا۔
"اجمل خان!"
عزیز نے چونک کے سرد پن سے کہا میران نے بھنوو اچکا کے اسے دیکھا۔مراد نے میران کے تاثرات دیکھے۔میران نے مراد کی طرف چہرہ کیا لبوں پہ مسکراہٹ آگئی تھی۔مراد نے سمجھتے ہوئے سر جھکایا۔
"ان کو اس سے کیا حاصل ہونا تھا؟"مراد کے زہن میں لاتعداد سوال امڈ آئے۔کمرے میں سنسنی سی خاموشی تھی۔بس ان تین نفوس کی گفتگو ہی خاموشی کو توڑتی۔
"وہ جو حاصل کرنا چاہتا تھا اسے ہوا نہیں!پچھلی دو ملاقاتوں میں جس طرح اس آدمی نے مجھ سے ملنساری دکھائی اور بابا کے خلاف باتیں کیں مجھے زولفقار جاہ سے محتاط رہنے کا کہتا گیا...یہ سب اس نے اپنے مفاد کے لیے کیا اس سب میں اسی کا فائدہ تھا!تمھاری طرح ہر ایک کو لگا بابا کا ہی یہ کارنامہ ہے!مجھے بھی لگا تھا پر اتنا میں جانتا ہوں وہ اس حد تک کبھی نہیں گرینگے!خان نے ہمم باپ بیٹے کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی!بلکہ سیدھا مجھے مروانا ہی چاہا جو اسکا منصوبہ کامیاب ہو نہ سکا...اسکے بعد الزام زولفقار جاہ پہ لگتا اور یوں اے_پی جماعت پستی کی جانب چلی جاتی۔"وہ ہنوز سامنے دیکھے بول رہا تھا۔
  "الیکشن قریب ہے!اسکو سیٹ جاتی دکھائی دے رہی ہے کچھ تو کرتا ہی!بابا کے ساتھ دشمنی تو پہلے ہی اسکی تھی...بس وہ موقعے کی تلاش میں تھا سانپ بھی مرجاتا لاٹھی بھی نا ٹوٹتی اس نے وہ چال چلی۔"
"سوچ لیں کہیں محض الزام ثابت نا ہوجائے۔۔"مراد کو اب بھی زولفقار پہ ہی شک تھا وہ آدمی اقتدار کی خاطر کچھ بھی کرسکتا تھا بیٹے کو مروانے بھی کوئی مشکل بات نا تھی۔
"تم بھی اتنا جانتے ہو مجھے مروانے کے لیے حملہ نہیں ہوا،،(گاڑی کی حالت یہی بیان کر رہی تھی)دوسری صورت یہ کہ ٹارگٹ کلرز نے کام سہی طرح نہیں کیا۔ونڈ اسکرین سے گولیاں چلتیں تو تم میری قبر پہ اس وقت فاتحہ پڑھ رہے ہوتے صرف شیشے ٹوٹنا تعجب کی بات نہیں؟....میرے باپ کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہونا تھا بابا کے ساتھ پچھلے اختلافات محض ایک اتفاق ہیں،میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اجمل خان کا کام ہے وہ ہم سب کو الجھانا چاہ رہا ہے!
باقی تمھیں معلوم یہی کرنا ہے کہ کس کا ہاتھ ہے اور حملے کی وجہ کیا تھی۔پولیس والے ہو اچھے سے جانتے ہو کیسے ڈیل کرنا ہوگا۔
   پرانی دشمنی کا اس نے یوں بدلہ لیا مجھ پہ حملہ کرواکر...پر اب اس سب کا حساب اسکو دینا ہی ہوگا!"میران نے پختہ ارادے سے پتھریلے انداز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔مراد اسے کچھ سوچتا ہوا دکھائی دیا۔
"ٹھیک ہے میں میڈیا سے پتا کرلونگا۔"وہ میران کا اشارہ اچھے سے سمجھا تھا اور تدبرانہ طور پہ گھنٹوں پہ ہتھیلی جما کے بولا۔اگر اجمل خان اس سب کے پیچھے تھا تو چینل والوں کو بھی جھوٹی خبریں چلانے کے لیے اس نے پیسے کھلائے ہونگے،ایسے ہی تو میڈیا پر یقین طور پہ خبریں نشر نہیں کرسکتا۔۔کوئی اندازے لگا رہا تھا کوئی من گھڑت کہانیاں سنا رہا تھا۔بس انکی جماعت کا نام خراب کرنا اول مقصد تھا۔
میران نے سر اثبات میں ہلایا۔
"اور پھر اسکے بعد کیا ہوگا؟"
"تم صرف پتا کرو آگے کیا کرنا ہے وہ میرا کام ہے۔امید ہے یہ بات صرف ہم تین تک محدود رہے گی۔"
آخر میں مسکرا کے اس نے باور کردیا تھا۔
"اجمل خان سے اتنی کیا دشمنی جو وہ اس حرکت تک چلا گیا؟"مراد نے آئبرو اچکائی چہرے پہ سوال رقم تھا....میران نے سانس فضا کے سپرد کی...بالوں میں ہاتھ پھیرا..کشادہ سینا کسرتی بازو،سفید صاف رنگت،کھڑی ناک تنے ہوئے نقش اور چہرے پہ ہلکی سی داڑھی اسے مکمل جاذب شخص بناتی تھی!
مراد کے چہرے پہ اسکی حرکات دیکھ مسکراہٹ آئی تھی اتنا سب ہونے کے بعد بھی اس شخص کے اندر سکون اترا ہوا تھا۔یا وہ ایسا ظاہر کرنے میں ماہر تھا۔بالوں میں اسکا ہاتھ پھیرنا مراد کو اندازہ ہوا تھا لڑکیاں ایسے ہی اس پہ فدا نہیں تھیں۔
    کم تو مراد دمیر بھی نہیں تھا،جیپ میں جب بھی کنٹرولنگ کے لیے نکلتا تو لڑکیاں پلٹ پلٹ کر اسے دیکھتی ضرور تھیں اور خورشید انکی حرکت پہ جی بھر کے ہنس دیتا۔۔پر کیا فائدہ اب تو وہ کسی کے ساتھ مضبوط بندھن میں بندھ چکا تھا اور وہ لڑکی جس نے اسے پلٹ کر دیکھا بھی نہیں تھا جب ملی تھی تو کافی خوفزدہ بے وقوف سی محسوس ہوئی تھی۔
"تمھیں نہیں معلوم؟بس وہی پرانی دشمنی اور پھر میں درمیان میں آگیا ہمارے تعلقات بھی کچھ خاص نہیں رہے!اس شخص نے ہر بار میرے کام میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کی ہیں اے_پی کا نام خراب کرنا چاہا پر اس بار میں اسے بخشونگا نہیں۔"وہ صاف گوئی سے غصے پہ جبر کیے بولا مراد سمجھ گیا تھا انکے درمیان گہری سیاسی دشمنی تھی شیو پہ ہاتھ پھیر کے سر اثبات میں ہلایا۔
"ہمارے اسّی فیصد پولیٹشنز اقتدار اور پیسے کے بھوکے ہیں!"
"اور میرے بارے  میں کیا رائے ہے؟"وہ سنجیدہ تھا۔
"جیسے ہیں آگے بھی ویسے ہی رہیے گا۔"آنکھیں جھپک کے وہ بولا تو میران مسکرا دیا۔
یوں میران جاہ اور مراد دمیر کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔دونوں میں ایک بات کامن تھی یہ کہ دونوں ملک کے وفادار تھے!
"ایک بات کہوں...یہ دوبارہ زندگی معجزاتی طور پہ ملی ہے ورنہ حملہ جس طرح ہوا اور سارا معاملہ تسخیر کرنے کے بعد یہ بات واضح ہے یہ ٹارگٹ کلنگ تھی!قسمت اچھی تھی آپکی جو گولیوں سے بچ گئے۔"مراد اسے دیکھتے ہوئے بولا میران کے چہرے پہ مسکراہٹ ہنوز قائم تھی۔بلکل ایسا ہی تھا اسکی قسمت اچھی تھی ورنہ جتنی تعداد میں گولیاں برسائی گئی تھیں ان میں سے صرف دو ہی اسکو لگیں اور پھر وہ ڈیش بورڈ پہ گرا اسکے بعد بھی گولیاں چلیں پر....
"خیر پتا کرکے انفارم کردونگا۔اب میں چلتا ہوں۔ٹیک کئیر....اللہ حافظ!"کیپ کو الٹ کر پہنتے ہوئے وہ کھڑا ہوا میران اور عزیز دونوں کو باری باری مسکرا کے دیکھا میران نے سر کو جنبش دیتے پلکیں جھکائیں،مراد سینے پہ ہاتھ رکھ کے عاجزی سے جھکتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔
"آپ نے اسے سب بتا دیا۔کیا ہمیں اس پہ یقین کرنا چاہیے؟"
"بے فکر رہو عزیز!"اس نے اتنا ہی کہا اور آنکھیں موند لیں عزیز خاموش ہوگیا۔میران نے کچھ سوچ کر ہی مراد کی مدد لی ہوگی یہی سوچتے ہوئے وہ واپسی کے لیے اٹھ بیٹھا تھا۔
میران کا تکیہ کے پاس پڑا موبائل بپ ہوا اس نے موبائل کو چہرے کے سامنے کیا۔
چمکتی اسکرین پہ دائم کا نام درج تھا اور ایک پیغام!
"میرے بھائی اپنی نورِ نظر سے بات کرلینا کیا معلوم ایکسیڈنٹ کے بعد وہ پریشان ہوگئی ہو..."سر جھٹک کر وہ مسکرایا۔دائم علی ہنسانے کا ہنر رکھتا تھا۔نورِ نظر لفظ پڑھ کے وہ اسکی سوچ کو سلام کر رہا تھا۔اس نے موبائل رکھ کے چھت کو گھورا۔پتا نہیں وہ پریشان ہوگی بھی کہ نہیں یا اسکے مرنے کی دعائیں کر رہی ہوگی...آنکھوں میں کَرب کے ساتھ ہونٹوں پہ زخمی مسکراہٹ آگئی۔
   ڈسچارج پیپیرز بن چکے تھے میران کے بائیں جانب پلاسٹر اور سفید پٹیاں سینے سے گزر کے باندھی گئی تھیں۔دائیں جانب شیشے کے ٹوٹنے سے معمولی خراشیں آئیں تھی۔
ڈاکٹر نے اسے بیڈ ریسٹ کی ہی تلقین کی تھی،زولفقار جاہ کو ڈاکٹرز نے میران کے کندھے کی کنڈیشن کے بارے میں آگاہی دی تھی۔شام تک وہ گھر واپس آگیا۔عزیز کو بھی اس نے آرام کرنے کی سخت تاکید کردی تھی۔نیوز چینلز پہ چلنے والی بے مطلب خبریں بھی بند کروا دی گئیں تھیں۔
زولفقار جاہ میران کے کمرے سے باہر نکلے۔انکا ہاتھ لاک پر ہی تھا شمس سیڑھیوں کی طرف بڑھتا ہوا انکی طرف آرہا تھا۔وہ گرے شرٹ اور بلیک ٹراؤزر میں تھے عمر کی مناسبت زیادہ عمر والے لگتے نہیں تھے۔آج بھی جوانی کی طرح خوبصورتی تھی پر عمر کے ساتب خوبصورتی تھوڑی ڈھل چکی تھی۔سفید بالوں کو کالے رنگ سے چھپایا ہوا تھا،ہلکے گرے مکس بال نمایاں ہوتے تھے۔
آہستگی سے لاک سے ہاتھ ہٹا کے وہ شمس کی طرف بڑھے۔اور سیڑھیوں سے نیچے اترے شمس انکی تائید میں پیچھے ہی آیا۔
"کچھ پتا چلا؟"وہ نیچے لاؤنچ میں آرکے۔ہاتھوں کو پیچھے باندھ کے گردن اٹھا کے شمس سے پوچھا۔
"نہیں..."شمس کے بجھے انداز پہ زولفقار جاہ کھٹکے۔
"کیا سوچ رہے ہو؟"انکی گہری نظریں اسکے چہرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔
"آپ کل سائیں کی مخبری والی بات پہ کافی غصہ تھے..."شمس کے اتنا کہنے کی دیر تھی زولفقار سلگ اٹھے۔چٹخ کر اسے گھورا۔
"تو تم کو بھی اس واقعے کے پیچھے میرا ہاتھ لگتا ہے؟سب کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔بیٹا ہے وہ میرا کیلجے کا ٹکڑا!میرے خلاف کتنا بھی چلا جائے پھر بھی اسکے ساتھ یہ سلوک میں کبھی نہیں کرسکتا۔اکلوتا وارث ہے وہ اس سب کا!!"وہ بازو کھول کے غصے میں جذباتی ہوئے بولے صبح سے وہ خود پہ ضبط کیے ہوئے تھے غصہ کہیں تو نکلنا تھا۔
"معاف کردیں بس ایسے ہی شیطان نے خیال ڈال دیا۔"وہ نادم سا ہوگیا اسکے بے تکے جواز پہ زولفقار نے شمس کو گھورا۔
"کل میڈیا کے ساتھ پریس کانفرنس کا انتظام کرو اور فرید سے بول کے چائے کمرے میں بھجوادو۔"وہ سخت نظروں سے اسے دیکھ کر حکم دیتے کمرے میں چلے گئے شمس نے گھٹن سے سانس خارج کی۔چھوٹے سائیں سے اسے بھی الگ قسم کی انسیت تھی جب کہ میران نے کبھی عزیز کے علاوہ کسی اور کو اپنے قریب آنے نہیں دیا تھا۔
                             ★ ★ ★
احتشام شنواری تک جوں میران کے حادثے کی خبر پہنچی وہ نئی فکر میں مبتلا ہوگئے۔وہ میران سے ملنا چاہتے تھے آخر کو انکی بیٹی اسکے حوالے تھی۔ناجانے کس حال میں ہوگی!
پر میران سے کوئی کانٹیکٹ نا ہونے کی صورت میں وہ ٹھنڈے بیٹھ گئے تھے۔
دن بدن انکی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔جتنی عمر انکی تھی نہیں اس سے زیادہ فکروں نے انکو وقت سے پہلے ہی ڈھال دیا تھا۔
انھوں نے فیصلہ کرلیا تھا فیکٹری اور اپارٹمنٹ دونوں کو بیچ کر ملنے والی رقم سے قرضا ادا کرکے دوسرے شہر شفٹ ہوجائیں گے۔آگے ہر صورت انکو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑتا پر بیٹی تو انکے ساتھ ہوتی!
بس دونوں کی فروخت کے لیے انکو ایسے خریدار کی ضرورت تھی جو انکو منہ مانگی رقم ادا کردیتا!اور اسکے لیے وقت درکار تھا!اور باقی کے پیسوں کا انتظام بھی وہ کچھ نا کچھ کرکے کر ہی لیتے!
                            ★ ★ ★
  ایک ہفتہ یوں ہی وقت کی نظر ہوا۔
حلیمہ بی اپنے کمرے میں تھیں رومائزہ باہر لان سے چکر لگا کر انکے پاس چلی آئی۔کسی کی منتظر تھی پر یہ بات زبان پہ لانا اسکی انا کو ٹھیس پہنچا رہا تھا۔بابا اسے بے حد یاد آرہے تھے انوش عائشے کو بھی یاد کرکے اسکی آنکھیں نم ہوگئیں۔
"رومائزہ کیا ہوگیا بیٹھو ادھر آؤ میرے پاس۔"حلیمہ بی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔کمرے کا دروازہ اندر کی طرف کھلا دیکھا،رومائزہ بھیگے اشک لیے کھڑی تھی انھوں نے محبت سے اسے پاس بلایا۔وہ آنسو پی کر انکے قریب بیٹھ گئی۔کسی سہارے کی ضرورت تھی جس سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کے رو دیتی۔سہارے کے روپ میں اسے ممتا چاہیے تھی۔ماں ہی تو ہوتی ہے جو بچے کو اپنے آنچل میں چھپا کے اسکی تکلیف خود میں سمیٹ لیتی ہے،جو تکلیف میں کمی کا باعث بنتی ہے۔اس نے تو چھوٹی عمر میں ہی ماں کو کھو دیا تھا پر ممتا کا احساس اسکے دل میں موجود تھا۔ماں کے زندہ ہونے کی چاہ ہونے لگتی۔
وہ حلیمہ بی کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گئی۔ان کچھ ہی دونوں میں وہ انکے بے حد قریب ہوگئی تھی۔اسکی حالت دیکھ حلیمہ بی متفکر ہوئیں۔پھر اسکے سر میں انگلیاں چلانے لگیں۔
روما آنکھیں بند کیے آنسو بہا رہی تھی۔بالوں میں انکی چلتی انگلیاں محسوس کرکے وہ مزید سمٹ کے چھوٹے بچے کی طرح لیٹ گئی۔
"کیا ہوا ہے میری بیٹی کو؟"انھوں نے محبت بھرے لہجے میں اسکے چہرے سے بال بیچھے کیے سرخ سوجی آنکھوں کو دیکھا۔
"مجھے یہاں سے باہر نکال دیجئیے میرا دم گھٹ جائیگا۔کوئی میری جان لے یا نا لے پر یہ قید مجھے ختم کردے گی۔"وہ روتی ہوئی انکے پہلو میں منہ چھپاتی بولی حلیمہ کچھ بول نا سکیں۔اب تو تسلیاں بھی ختم ہوگئی تھیں اور اسے کتنا صبر کی تلقین کرتیں۔
"میرا بچہ ایسے نہیں بولتے،سب ٹھیک ہوجائے گا اللہ پہ بھروسہ کرو!"
"کب ٹھیک ہوگا؟"اس نے سر اٹھا کے انکی آنکھوں میں دیکھا۔وہ چت لیٹی ہوئی تھی۔
"اللہ سے مسلسل یہاں سے رہائی مانگ رہی ہوں ہر وہ میری سن ہی نہیں رہا...اور کتنا صبر کروں؟"حلیمہ بی نے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا اور پھر اسے سمجھایا۔
"یہ ہم انسانوں کی فطرت ہے جب اللہ ہمیں کسی نعمت سے نوازتا ہے تو روگرداں ہوجاتے ہیں اور جب سختی مشکل وقت آتا ہے تو نا امید!یہی ہمارا امتحان ہوتا ہے کہ ساری فکریں بھلا کر توکل کیا جائے اللہ کے فیصلوں پہ راضی ہوا جائے....جب ہم بلکل بے بس ہوں اس وقت اللہ کا ساتھ ہمارے ساتھ ہوتا ہے بس وہ امتحان لیتا ہے اپنے بندے کا۔۔اور وہ کیا کہتے ہیں جس کا کوئی نہیں ہوتا اسکا اللہ ہوتا ہے!اللہ نے پہلے اچھا وقت بھی تو دکھایا ہے نا تو یہ برا وقت بھی زیادہ عرصے نہیں رہ سکے گا۔بھروسہ رکھو اللہ پر وہ اپنے بندوں پہ انکی سکت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا!"سامنے کھڑکی کو دیکھتے ہوئے وہ سمجھا رہی تھیں رومائزہ کے آنسو رک گئے پر وہ ویسے ہی چت لیٹی رہی۔
"اور پھر صبر کے بعد کیا ہوگا؟"
"معجزے ہوتے ہیں پھر،انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے!اور سمجھدار بندے شکر گزاری میں رب کے حضور ماتھا ٹکا دیتے ہیں۔"انکے لب مسکرائے۔رومائزہ کے دل میں کسی نے جیسے اطمینان گھولا تھا۔
"ایک دن آئیگا جب تم یہ باتیں یاد کرکے شکر کے ساتھ مسکراؤگی۔"انھوں نے اسکے ماتھے پہ بوسا دیا وہ سیدھی ہوئی انکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔کانچ سی بھوری نم آنکھوں میں سکون اتر چکا تھا۔اور بے شک رب کی یاد،اسکے زکر سے ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہے۔
"پریشانی کو حاوی مت کرو اسے بتاؤ تمھارا رب کتنا بڑا ہے اسکے لیے سب آسان ہے!زندگی امتحان کا ہی نام ہے سکھ دکھ آتے رہتے ہیں بس انسان کو ہمت سے کام لینا چاہیے۔کچھ بھی ہوجائے تب بھی کچھ نہیں ہوتا!"وہ کچھ سوچتے ہوئے اٹھ بیٹھی سر اثبات میں ہلایا...وہ واقعی مایوس ہونے لگی تھی اداسی دن بدن اسکے روم روم میں پھیل رہی تھی اس نے فوراً تعوذ پڑھ کے استغفار پڑھا۔وہ تو شیرنی تھی کیسے کمزور پڑتی اس نے ٹھان لیا تھا اب کچھ کرنا ہی ہوگا۔اسکو پرسکون دیکھ کر حلیمہ بی کو بھی اطمینان ہوا۔روما انھیں دیکھ کر مسکرادی۔
اور پھر شام کی چائے تھی،
حلیمہ بی اور رومائزہ کی باتیں!
                            ★ ★ ★
مراد ڈیوٹی پہ چلا گیا تھا عائشے بھی ناشتے کے بعد کمرے میں آکر بند ہوگئی۔باہر زرپاش صاحبہ کا اکیلے میں سامنا کرنے سے وہ گریز ہی کرتی تھی۔نیمل سے اسکی اچھی دوستی ہوگئی تھی اس پورے ہفتے نیمل نے عائشے کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ناشتے کے بعد نیمل یا تو اسکو اپنے کمرے میں لے جاتی یا اسکے کمرے میں چلی آتی تھی پر آج وہ جاب کے سلسلے میں انٹرویو دینے گئی تھی۔باپ کا اپنا خود کا بزنس تھا پر اس نے کسی اور کمپنی میں اپلائے کیا تھا وہ خود سے کچھ کرنا چاہتی تھی یا پھر شوق!
                             ★ ★ ★
  اجمل خان سو کر ہی اٹھے تھے اور نہایت بری خبر سے انکے دن کا آغاز ہوا۔آدھے گھنٹے بعد وہ مطلوبہ جگہ پہ موجود تھے۔جگہ آگ لگنے کی وجہ سے دھواں ہی دھواں تھی۔ہر طرف بھگڈر سی مچی ہوئی تھی فائر بریگیڈ والے آگ بجھانے کے کام میں مصروف تھے۔
غصے کے مارے انکا برا حال تھا۔بھلا وہاں آگ کیسے لگ سکتی تھی؟کسی شخص کی لاپرواہی ہی اس سب کا سبب بنی ہوگی!
انکا سیکریٹری تمام حالات سے انکو روشناس کر رہا تھا۔آگ پوری اس دو منزلہ بنے کارخانے میں پھیل چکی تھی۔اندر موجود کڑوڑوں کا مال آگ کی نظر ہوگیا تھا۔اور صرف یہ ایک کارخانہ ہی نہیں تمباکو اسمگلنگ کا ایک اور کارخانہ جو کچھ دوری پہ موجود تھا اسے بھی آگ نے لپیٹ میں لے لیا تھا۔یہ اب کوئی اتفاق تو تھا نہیں۔تیش کے عالم میں انکے ماتھے کی رگیں ابھر گئیں۔یہاں سارا کام بلیک میں ہوتا تھا اور کڑوڑوں کی منشیات تباہ ہوگئیں تھیں۔
     پاس سے فائر بریگیڈ کا ایک آدمی گزرا وہ اجمل کے پاس ٹھہرا انھوں نے بھنوو اچکا کے اسے دیکھا جسکے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ تھی۔انکے ماتھے پہ بل پڑے۔وہ مزید کان کے قریب ہوا۔اور اسکے کہے جملے پہ انکی آنکھیں پھیل گئیں منہ پہ قفل لگ گیا۔
"چھوٹے جاہ نے سلام بھیجوایا ہے۔"کان میں سرگوشی کرکے وہ پیچھا ہوا ہنوز اجمل خان کی آنکھوں میں فتح کن مسکراہٹ سے دیکھا تھا جو غصے میں مٹھیاں بھینچے رہ گئے تھے۔یک لمحے تو وہ حالات سمجھے تھے بھی نہیں۔وہ شخص فوراً آگے بڑھ گیا وہیں اسکی بائیک کھڑی تھی اور وہاں سے روانہ ہوگیا۔
اجمل خان کے چہرے کا رنگ اڑا تھا۔یعنی میران کو اپنے باپ کی جگہ اس پہ یقین ہوگیا تھا۔وہ اصل حملہ کار کو پہچان جائے گا انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔بہت سوچ سمجھ کے کئی دنوں میں میران کے گرد انھوں نے جال بچھایا تھا!
    موبائل وائبریٹ ہوا انھوں نے کھولا تو اسکرین میں میسیج موصول ہوا تھا۔پرائیوٹ نمبر تھا۔
"حساب برابر!آئیندہ اگر اے_پی جماعت کے کسی فرد کو بھی تم نے نقصان پہنچانے کی کوشش کہ تو یاد رکھنا خان میرے آدمی تمھارے خلاف مجھ پہ حملہ کروانے کے سارے ثبوت میڈیا تک با آسانی پہنچا دینگے!اور اسے دھمکی ہر گز مت سمجھنا۔اب میں اپنے راستے اور تم اپنے راستے...!"اور میران نے بہت ہی اچھے سے اجمل خان کی گوٹ دبا دی تھی،وہ میسج پڑھ کے بھنبھنا اٹھے۔مزید میسجز موصول ہوئے۔
ایک ویڈیو تھی جس میں چینل کے سی ایی او نے اعتراف کیا تھا خبریں اجمل خان کے دباؤ ڈالنے پہ نشر کی گئی تھیں۔
مراد کی مدد سے وہ حملہ کرنے والے پکڑے گئے تھے جو کہ منجھے ہوئے ٹارگٹ کلرز تھے جن کی پولیس کو تلاش تھی۔انھوں نے بھی اعترافِ جرم کر لیا تھا اور کس کے حکم پہ یہ سب کیا وہ بھی صاف وہ بتا چکے تھے۔
سیکریٹری تو اجمل خان کے چہرے کے چڑھتے اترتے رنگ دیکھ رہا تھا۔ان باپ بیٹوں کے درمیان پھوٹ ڈال کر انکو کمزور کرنا واقعی مشکل تھا۔اسے اندازہ نہیں تھا میران جاہ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی زولفقار پہ بھروسہ کرے گا،،اور فوراً اجمل کو پہچان لے گا۔
کوشش تو انھوں نے مروانے کی ہی کی تھی پر انکا حملہ ناکام ثابت ہوا تو جو پہلے وہ جال بن چکے تھے اسی پہ عمل کرکے میران کے ہمدرد بن کے ہاسپٹل پہنچ گئے تھے۔
میران کی جگہ کوئی اور ہوتا تو زولفقار جاہ کو ہی الزام دیتا۔
یہ ساری ان سب کی سیاست تھی اور اسکی آڑ میں ناجانے روز کتنے غلط کام ہوتے تھے۔میران کے پاس انکے خلاف پکے ثبوت تھے وہ چاہ کر بھی کچھ کر نہیں سکتے تھے۔اب جو تھا انکو الیکشنز پہ ہی توجہ دینی تھی۔انھی حرکات کی وجہ سے وہ عوام کا اعتبار کھو چکے تھے۔
اب وہ زرا بھی کچھ کرتے تو میران نے انکے پریخچے اڑا دینے تھے۔
                           ★ ★ ★
   پولیس نے کیس نا معلوم افراد کا حملہ کہہ کر بند کردیا۔زولفقار جاہ کو میران نے ساری حقیقت بتا دی تھی۔اول تو وہ بہت غصہ تھے پر میران کا اگلا قدم جان کے وہ پیچھے ہٹ گئے تھے۔
اس نے بھی اجمل خان کے کالے دھندوں کے مقامات پر آگ  لگوائی تھی جس کا زکر وہ میڈیا پر لا بھی نہیں سکتے تھے۔
"برخوردار لگ رہا ہے تم میرے ہی بیٹے ہو۔"وہ کافی بہتر ہوچکا تھا۔پلاسٹر مزید کچھ دن بندھنا تھا۔وہ سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تب زولفقار اسے دیکھ کر بولے وہ انکی معنی خیز بات بخوبی سمجھا تھا۔پر قبول نہیں کی تھی۔انکے جیسے وہ ہر گز نہیں تھا۔
وہ صوفے پہ آکے دراز ہوگیا زولفقار اسکے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئے۔
   "تمھاری مجھ سے کم گوئی مجھے پریشان کر رہی ہے،،ہمارا رشتہ کیا پہلے کی طرح ٹھیک نہیں ہوسکتا؟"
"اگر آپ اپنے الفاظ واپس لے لیں اور شنواری سے بلاوجہ کی دشمنی ختم کردیں تو آسانی ہوگی۔"میران کی بات پہ کچھ دیر انھوں نے سوچا تھا وہ مزید بیٹے کو دور نہیں کر سکتے تھے آخر کو اب وہی انکا وارث اور امید تھا!
میران جو پہلے بھی اتنا زیادہ نہیں بولتا تھا پر اب کچھ بولتا تو صرف کام کی بات!انکے ساتھ وقت گزارنا یہ سب ختم کردیا تھا۔وہ انکی عزت میں کمی نہیں کرسکتا تھا باپ جو تھے آخری دنیاوی رشتہ!پر باپ کے کئی چہروں کو وہ جھٹلا بھی نہیں سکتا تھا۔اسے بھی اندازہ تھا زولفقار کو اس حادثے سے کتنا فائدہ ہوا۔کچھ وقت میڈیا نے انکو اپنا نشانہ بنایا تھا پھر بعد میں ہی میڈیا نے سارا کہانی کا رخ موڑ دیا اور یہ سب اسکے باپ نے ہی پیسہ کھلا کے کیا تھا۔
  "مجھے میرے پیسے سود سمیت وہ ادا کردے معاملہ ختم ہوجائے گا۔"لگی بندھی انھوں نے بات کی۔
"نہیں!اسکے بعد آپ رومائزہ شنواری کو اپنی بہو کے روپ میں قبول کرینگے!"وہ صوفے پہ سیدھا ہوا اور دو ٹوک بولا۔
"ایسا کبھی نہیں ہوسکتا!وہ لڑکی تمھارے قابل نہیں...علوی کی بیٹی تمھارے لیے بہتر رہے گی۔"وہ اپنے طور پہ سمجھداری سے بولے میران نے انھیں دیکھا۔
"اور میری محبت اسکا کیا؟کون میرے قابل ہے میں بہتر جانتا ہوں!کسی اور کو زندگی میں شامل نہیں کرونگا سوائے رومائزہ شنواری کے!"انکی آنکھوں میں دیکھتے دھیمی آواز میں برہمی سموئے کہا اور باہر لان کی طرف بڑھ گیا۔
"اللہ اللہ،،،کیا کروں میں اس سر پھرے کا مجھے تباہ کرکے ہی اسے سکون ملے گا۔جٹ بھی میری پٹ بھی میری والا حساب چاہیے اسے۔"ٹیبل سے انگریزی اخبار انھوں نے جھڑک کر کھولا تھا۔
وہ شنواری صاحب کو مزید نقصان پہنچانے سے روک رہا تھا کیونکہ اسے علم تھا پیسوں کے باوجود بھی زولفقار جاہ انھیں بخشیں گے نہیں،،جب کہ یہ بات زولفقار نے مان لی تھی پر رومائزہ کو بہو بنانے کی بات وہ کسی صورت نہیں مان سکتے تھے۔خیر وہ خوش بہت تھے میران نے انکے پرانے دشمن کے پیر میں ایسی زنجیر ڈال دی تھی جسے توڑنا اسکے بس کی بات تھی نہیں...اور دوسرا اس ایک ہفتے میں وہ سارا کالا پیسہ باہر بھی بھیجوا چکے تھے۔انھی خوشیوں میں میران کی تلخ باتوں کو زولفقار جاہ نے سرے سے نظر انداز کیا تھا۔
                      ★ ★ ★
پچھلا ہفتہ اس نے آرام کرتے گزار دیا اب دوبارہ کام کا دباؤ بڑھ چکا تھا۔طبیعت میں بحالی دیکھ کر اس نے کاروباری اور سیاسی ذمہ داریاں واپس دیکھنا شروع کردیں۔اس دوران اسے رومائزہ سے ملنے کی تڑپ اٹھتی تھی جسے وہ ایک ہفتے سے دبائے ہوئے تھا۔اسے نہیں معلوم تھا وہ اسکی منتظر ہوگی کہ نہیں اسکے لیے تھوڑی بہت ہی دل میں فکر جاگی ہوگی کہ نہیں..پر وہ چاہتا تھا ایسا ہو۔
اس نے فارم ہاؤس میں قدم رکھا تھا۔دبے قدموں سے وہ اندر آیا یا جوتوں نے شور پیدا کرنے کی گستاخی کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
دل جو رومائزہ کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا اسے سنبھالے قدم اٹھاتا لاؤنچ میں آیا۔
وہ صوفے پہ ایک کہنی سر کے نیچے ٹکائے اردگرد سے بے نیاز خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی تھی...گہرے بھورے بال چہرے کو چھو رہے تھے...مخملی ہلکا کمبل اسکے اوپر اسے ڈھانپے ہوا تھا۔دوپٹے کا سفر سر سے گلے تک قائم تھا۔
صوفے کے قریب پینٹنگ اسٹینڈ کھڑا تھا ٹیبل پہ پینٹ کلرز بکھرے تھے،،کچھ سفید کاغذ،اور ایک ماسک۔
شفاف معصوم چہرہ نظروں میں سموتے وہ ٹرانس کی کیفیت میں صوفے کے قریب گیا تھا۔
ملاقات کے طویل انتظار پہ اتنے حسین منظر کی دید اسے ملے گی یہ دیکھنے کے لیے وہ صدیوں بھی انتظار کرلیتا۔وہ پنجوں کے بل اسکے قریب بیٹھا نرمی سے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔نئے سرے سے اسے سرشاری نصیب ہوئی الگ ہی مسکراہٹ چہرے پہ گھل آئی۔
میں راز تجھ سے کہوں
ہم راز بن جا زرا
کرنی ہے کچھ گفتگو
الفاظ بن جا زرا
گہری سانس فضا میں بحال کی پیچھے ہوا اور دوسرے صوفے پہ ٹک گیا۔دوپٹہ ڈھیلا سا سر پہ ٹکا تھا اس سے نکلتی رومائزہ کے ریشمی بالوں کی کچھ لٹیں آنکھوں کو چھوتی تھوڑی تک آرہی تھیں۔میران نے انھیں پیچھے کرنے کی غرض سے بے اختیار ہاتھ بڑھایا پھر ٹھہر گیا۔مٹھی واپس بھینچ کے ہاتھ پیچھے کرلیا۔
فضا میں عجیب سی خوشبو پھیلی تھی اس نے خود میں اتاری وہ کئی پل جامد اسے دیکھتا رہا جیسے یہ منظر پھر اتنی جلدی کبھی نصیب ہو یا نہیں۔
   رومائزہ کی نیند میں خلل ہوا اس نے کروٹ لینے کی کوشش کی تو یاد آیا وہ صوفے پہ بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی۔چہرہ ملتے ہی وہ اٹھی سامنے میران کو موبائل میں مصروف دیکھ کر چونک گئی۔بے ساختہ اس نے آنکھیں مسلیں۔میران نے اسکو جاگتے دیکھا موبائل بند کردیا اور اسکی جانے توجہ مبذول کرلی۔وہ حیران تھی..
کمبل ڈھلک کے نچلے حصے پہ گر گیا تھا۔
"تم کب آئے؟"ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ اور گہرے نیلے رنگ کی جینس...پیر مہنگے ترین جاگرز میں قید تھے۔ماتھے پہ چھوٹی سی پٹی چسپاں تھی چہرہ ہنوز تر و تازہ دکھائی دیا۔آج وہ اسے پہلے سے زیادہ شاندار اور دلکش شخصیت کا حامل شخص محسوس ہوا۔
"جب تم اردگرد سے بے نیاز نیند میں تھیں۔"آنچ دیتا لہجہ،خوبصورت آواز،چہرے پہ نرمی...لبوں پہ مسکراہٹ!ایک بازو پہ پلاسٹر بندھا تھا۔دوسرے ہاتھ کے کسرتی بازو ہالف سلیوز کی وجہ سے جھلک رہے تھے۔
اسکے جواب پہ رومائزہ نے خود پہ غور کیا۔سر سے دوپٹہ اترا نہیں تھا۔اذانیں ہورہی تھیں اور اسکے بعد اسے خود کو بھی معلوم نا ہوا کب آنکھ لگ گئی۔اسکا زہن کمبل کی جانب گیا اس نے میران کو دیکھا۔
"حلیمہ بی کہاں ہے؟"اس نے سوال کیا۔
"وہ نماز پڑھ رہی ہونگی..."طویل خاموشی۔
وہ چاہتا تھا وہ سوال کرے اسکی خیریت دریافت کرے،وہ پوچھنا چاہتی پر ڈر تھا وہ خوش فہمی میں مبتلا نا ہوجائے۔بلا آخر دل و دماغ دونوں میں سے ایک کی جیت ہوئی۔
"کیسے ہو؟"لب دانتوں تلے دباتے ہاتھ سے اس نے اسکے بازو کی طرف اشارہ کیا تھا۔
"الحمدللہ..."جواب پہ وہ سر ہلا گئی اور نماز کا کہتی وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلی آئی۔
شکر تھا کہ وہ ٹھیک تھا اسکے دل کو بھی تسلی ہوئی۔
"چھوٹے سائیں آپ آگئے۔کتنا ڈرا دیا تھا آپ نے...اب زخم کیسا ہے تکلیف زیادہ تو نہیں؟"حلیمہ بی رومائزہ کے اطلاع دینے پہ دوڑی چلی آئی تھیں۔اسکے دوسرے بازو کو تھام کر محبت بھرے انداز میں گویا ہوئیں۔
"حلیمہ بی میں ٹھیک ہوں پریشان نا ہوں بیٹھے یہاں۔"انھیں اپنے ساتھ بٹھایا وہ کبھی اسکا چہرہ ہاتھوں میں لیتیں تو کبھی اسکے بال پیچھے کرتیں۔انکی محبت پہ وہ مسکرا دیا وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی تھیں۔وہ بڑا ہوگیا تھا پر انکی محبت میں کمی نہیں آئی تھی نا انداز تبدیل ہوا۔
"وہ دیکھ لے گی تو کیا سوچے گی چھوٹے بچے کی طرح آپ مجھے ٹریٹ کر رہی ہیں۔"وہ محبت سے انکے ہاتھ تھام کے بولا۔
"اب میں لاڈ کرنا چھوڑ نہیں سکتی اسکے سامنے کب سے آپ کے ساتھ ملازم اور نوکر والا حساب چلا رہی ہوں ہر اب بہت ہوگیا۔میں آپکو دیکھنے آنا چاہتی تھی کیا کرتی دل کو چین نہیں آرہا تھا پر رومائزہ کی وجہ سے آ نہیں سکی۔"وہ تفصیل سے بتاتی ٹیبل پہ بکھرا رومائزہ کا سامان سمیٹنے لگیں۔
"وہ ٹھیک تھی؟"اس نے ناک رگڑتے گردن کمروں کی جانب موڑ کے پوچھا حلیمہ بی نے سامان رکھا اور مسکرا کر صوفے پہ بیٹھ گئیں۔
"دو ہفتے سے بہت پریشان نظر آرہی تھی،اس رات بھی خبر سن کے حواس باختہ سی کمرے میں بند ہوگئی تھی..."وہ اسکی آنکھوں میں دیکھے بولیں میران کا چہرہ کھل اٹھا پیاسے کو جیسے پانی نصیب ہوا تھا۔اسے یہ جان کے اچھا لگا کہ وہ اسکے لیے پریشان ہوئی تھی۔دھیرے دھیرے ہی محبت کی چنگاریوں نے اسکے دل میں بھی پھوٹ جانا تھا۔
"اپنے بابا کو بہت یاد کرتی ہے..."حلیمہ بی نے بتایا میران نے سرد آہ بھری۔
"بس تھوڑا وقت اور..."وہ منتظر تھا شنواری صاحب قرضا لوٹا دیں تو وہ آگے کچھ کرے۔
اپنی مصروفیات سے فرصت ملتی نہیں تھی کہ وہ اس معاملے کو حل کرنے کے بارے میں شنواری صاحب سے ملاقات کرتا۔پر عزیز کو بھیج کر رومائزہ کی خیریت کا علم دے دیا تھا جس پہ وہ میران کے مشکور تھے۔
   وہ صوفے پہ کمر کی پشت جما کر حلیمہ بی سے بات چیت کرتا رہا۔گاہے بگاہے اسکی نظر دروازے پہ پڑتی کہ وہ باہر نکل آئے۔نا جانے کونسی نماز تھی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ چہرے کے گرد دوپٹہ لپیٹے ہی کمرے سے باہر نکلی تھی اور کچن کی طرف رخ کیا میران کی بھنوویں سمٹ آئیں۔
وہ مزید کچھ سوچتا رومائزہ کی دلخراش چیخ گونج اٹھی۔حلیمہ بی اور وہ دونوں ہی کچن کی طرف بھاگے تھے۔
"کیا کر لیا لڑکی۔"حلیمہ بی فوراً اسکی طرف لپکیں جو گرم دودھ سے جلا ہاتھ جھلا رہی تھی تکلیف سے پیر زمین پہ ٹک نہیں رہے تھے۔حلیمہ بی نے اسکا ہاتھ سنک کی طرف کیا اور ٹھنڈے پانی کی بوتل الٹ دی۔میران انکی برق رفتاری دیکھ رہا تھا۔چولہے پہ پتیلا آڑھی حالت میں پڑا تھا جسکا دودھ رومائزہ کے ہاتھ پہ گرا تھا میران کو اس پہ سخت غصہ آیا تھا پر دبا گیا۔
اسکے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
نماز سے پہلے ہی حلیمہ بی دودھ ابال کر چولہا بندھ کر گئی تھیں رومائزہ کو لگا ٹھنڈا ہوگا اس نے بنا کسی چیز کی مدد سے یونہی ایک ہاتھ سے کھسکانے کی کوشش کی تھی جو گرم تھا اور بیلنس بگڑنے کی صورت میں اسی کے ہاتھ پہ لڑک گیا۔
"حلیمہ بی آرام سے..."ہچکی لیتے رومائزہ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔وہ اسکے ہاتھ پہ ہلکے ہاتھ سے جیل لگا رہی تھیں جو دونوں جانب سے ہی جلا تھا۔جیل کے لگانے سے تکلیف کی شدت بڑھ رہی تھی۔آنسو آج قابو میں نہیں آئے۔میران سامنے پلر سے ٹیک لگائے غصہ ضبط کیے اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ اسکی پتھریلی نظریں خود پہ محسوس کر چکی تھی۔اور اس سے مسلسل نظریں چرا رہی تھی۔
ایک بار مزید جب وہ سسکی تو میران سے رہا نہیں گیا حلیمہ بی کو کہہ کر وہ خود انکی جگہ پہ بیٹھ گیا اور اسکی کلائی تھام کے دھیمے ہاتھ سے جیل لگانے لگا کہ اسے تکلیف نا ہو وہ پہلے ہی بڑی مشکل سے تکلیف برداشت کر رہی تھی میران کو پاس دیکھ کر دل بھی ڈوبنے لگا،اس نے آنسو روک لیے تھے۔میران نے سر جھٹکا مجال تھا وہ لڑکی اپنی دو گز کی انا کو ختم کردیتی اسے معلوم تھا اسے جلن ہورہی ہے پر چپ چاپ سہہ رہی ہے۔
   "ضرورت ہی کیا ہے ہر کام میں ٹانگ اڑانے کی؟"
"تو بھوکی مارجاتی!"وہ غصے میں لال ہوکر ہاتھ کی تکلیف بھولنے لگی۔میران نے جیل لگا کے اب فرسٹ ایڈ باکس میں سے پٹی نکالی اور اسکے نرم گداز ہاتھ کے گرد لپیٹنے لگا۔
"اتنا مت جھکو تمھارے بھی کندھے پہ زخم ہے کہیں..."نادانستہ طور پہ بولتے بولتے وہ چپ ہوگئی آنکھیں میچ لیں میران جو خاصے بگڑے موڈ سے بیٹھا تھا اسکے نادانستہ کہے ادھورے جملے پہ اس نے ہنس کے رومائزہ کا چہرہ دیکھا جسکے رنگ اڑ گئے تھے،زبان ہی تو اسکی بے لگام تھی پر کبھی دل جیتنے والی بات کر دیا کر دیتی تھی!
"تم نے میری فکر کی.."وہ اسکے ہاتھ پہ جھکے یقیناً مسکرا رہا تھا غصہ جیسے تھم گیا۔
"نہیں۔مجھے اپنے ہاتھ کی فکر ہے تمھاری طرح تو ہوں نہیں گولیاں کھانے کے بعد بھی جسے فرق نا پڑے۔"چٹخ کر وضاحت کر دی تھی۔
"اچھا لگا تمھارا فکر کرنا،،میں یہی سوچ رہا تھا مرا کیوں نہیں تمھاری بد دعائیں اتنی بے اثر تو نہیں..گولیوں تک تو لے گئیں قبر تک بھی لے ہی جاتیں۔"میران بینڈیج کرتا سنجیدگی سے بولا اسکی بات پہ رومائزہ نے سکتے کی حالت میں اسے دیکھا۔کیسے مرنے مرانے کی بات کر رہا تھا آنسؤں کی بہتی لکیریں اسکے گالوں پہ بن چکی تھی،وہ ڈرتی نہیں تھی پھر بھی ایسا موضوع چھیڑنے سے گریز ہی کرتی آئی تھی۔
"تم کو ڈر نہیں لگتا مرنے سے؟"میران نے سر اٹھا کے اسکی بڑی آنکھوں میں دیکھا جن میں جواب کی طلب تھی۔
"اس چیز سے کیا ڈرنا جو برحق ہے۔کسی سنگ دل پہ مر مٹا ہوں اسکے دور جانے سے ڈر لگتا ہے۔"سیاہ آنکھیں بھوری آنکھوں سے ٹکرائیں وقت گویا تھم سا گیا۔میران اسکی نظروں میں دیکھتا رہا رومائزہ نے گردن دوسری جانب موڑ لی۔
"ویسے کافی خود پسند لگتی ہو۔"وہ مبھم سا مسکرایا۔
"ہاں ہوں۔جب تک میں خود سے محبت نہیں کرونگی کوئی دوسرا کیسے کرے گا۔"
"تو پھر ان محبت کرنے والوں پہ نظرِ کرم بھی کردو۔"بے حد نرمی سے بولا تھا اشارہ اپنی جانب ہی تھا وہ پھیکا سا مسکرادی اسکا دل توڑنے کا فلحال کوئی خاصا ارادہ تھا نہیں۔اسی لئے خاموشی ہی بہتر سمجھی۔
"میں مریضِ عشق بنتا جارہا ہوں تمھارا!"میران نے سرد آہ بھرتے ہوئے دل کی بات دل میں ہی رکھی،کاش وہ سمجھ سکتی اپنی قدر و قمیت میران کی نظروں میں۔
یاد آتے ہیں،اف گناہ کیا کیا محسن
ایک محبت کرلی،،دوسرا تم سے کرلی
"تم کو گولیاں لگیں تو بہت تکلیف ہوئی ہوگی نا؟"وہ اپنا درد مکمل طور پہ بھلا چکی تھی اسکی تکلیف جاننے کی جستجو تھی۔اسے پتا تھا اسکا تو بس ہاتھ جلا ہے وہ تو گولیاں سہہ چکا ہے۔
"ہاں...چوٹ چھوٹی ہو یا بڑی تکلیف تو ہوتی ہی ہے۔"آخری گراہ باندھ کے رومائزہ کا پٹی میں لپٹا ہاتھ اب میران کے ہاتھ میں تھا آہستہ سے اس نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا رومائزہ نے بھی آرام سے ہاتھ گود میں رکھ لیا۔
"ویسے کیا کرتے پھرتے ہو جو لوگوں نے تمھاری جان لینے تک کی کوشش کی؟"وہ جواب چاہتی تھی۔
"میں کچھ نہیں کرتا۔اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔"
"ہاں سب خود ہوجاتا ہے۔ویسے کس نے کیا تھا یہ؟تمھیں تو پتا چل گیا ہوگا نا۔"اسکے تجسس بھرے انداز پہ میران نے ہنسی کا گلا گھونٹا اور بنا کسی نرم تاثر کے اسے دیکھا۔
"تمھیں کیوں بتاؤں بی بی سرکار تھوڑی ہو جو ہر بات تمھارے علم میں ہونی چاہیے۔"اسکے طنز سے بھرے جملے پہ وہ ششدر رہ گئی۔
"افسوس ہوا تھا سن کر پر اب نہیں ہے۔بہت ہی اچھا ہوا تم ہو اس قابل۔اور کوئی انٹرسٹ نہیں ہے مجھے تمھاری ذاتی زندگی میں۔"وہ ہر چیز کی وضاحت کرتے غصے میں خاموش ہوگئی۔
"اور کچھ انوسٹیگیٹ کرنا ہے تو کرلو۔"
"مجھے بس گھر بجھوادو۔"وہ پھر ضدی اٹل انداز میں امید سے بولی میران کی نظریں اسکے چہرے کے گرد دوپٹے پہ ٹھہر گئیں۔
"فلحال نہیں۔"وہ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔اسکے پیچھے ہی رومائزہ کے ہاتھ میں جلن کے باعث آنکھوں سے آنسو پھسل گئے۔
"کڈنیپر کہیں کا..."وہ بڑبڑا اٹھی۔حلیمہ بی کچن سمیٹ کے فوراً اسکے لیے شربت بنا کر لے آئی تھیں۔
"رو رو کے خود ہلکان کر لیا ہے۔خبردار جو اب کچن میں مجھے نظر بھی آئیں!"وہ اسے ڈانٹ رہی تھیں روما نم آنکھوں سے ہنس دی۔
"آؤنگی بار بار آؤنگی!"وہ بھی ڈھیٹ تھی۔
"یہ پیو پھر میں کھانا لگاتی ہوں۔"اسکے دوپٹے کی گراہ ڈھیلی ہونے سے دوپٹہ بھی ڈھیلا ہوکے کندھے چھونے لگا تھا۔حلیمہ بی نے کھانا لگایا میران بھی ٹیبل پہ موجود تھا۔رومائزہ اسی حالت میں داہنے ہاتھ پہ طوطا پالے بائیں ہاتھ سے کرسی کھینچتی ہوئی بیٹھ گئی اسکے برابر میں حلیمہ بی آبیٹھی تھیں۔
  سیدھے ہاتھ پہ پٹی بندھی تھی اب کھاتی کونسے ہاتھ سے سوچ کر ہی اسے غصہ آیا۔
میران تو کھانا شروع کرچکا تھا اور اسے بھی شروع کرنے کا اشارہ کیا تو دھیان اسکے ہاتھ پہ گیا۔اس نے ہنسی روک لی تھی۔رومائزہ نے بے بسی سے حلیمہ بی کو دیکھا۔
"میں کھلا دیتی ہوں کوئی بات نہیں۔"
"نہیں میں بعد میں کھالونگی۔"شرم کے مارے وہ اٹھ کے لاؤنچ میں آگئی تھی میران نے جلدی کھانا مکمل کیا حلیمہ بی کو اسے کھانا کھلانے کا کہہ کر باہر لان میں چلا آیا۔
اسکے جانے کے بعد رومائزہ نے سکون سے حلیمہ بی کے ہاتھ سے کھالیا تھا۔اور پھر سونے کے لیے لیٹ گئی۔میران نے شاید رات ٹہھرنا تھا اگلی صبح اسکو آسلام آباد جو جانا تھا۔
                           ★ ★ ★
"عائشے تم نے بلو فائل اٹھائی ہے؟"الماری کھنگالتے ہوئے مراد کی آواز کمرے میں آئی پر جواب موصول نا ہوا۔
"منہ میں زبان ہے کہ نہیں؟"کمرے کے ساتھ ہی الگ راہدری میں ڈریسنگ ائیریا تھا جہاں الماری رکھی تھی اور دیگر چیزیں۔
"میں نے بھلا کیوں دیکھی ہوگی؟آپکی فائل ہے آپکو معلوم ہونا چاہیے کہ کہاں ہے۔"وہ شانے اچکاتی صوفے پہ بیٹھ رہی ٹی وی آن تھا۔مراد نے سر جھٹکا۔
"میں جا رہا ہوں واپسی دیر رات تک ہوگی تم سوجانا..جاگتی مت رہنا۔"بیڈ کی سائیڈ دراز پر رکھا موبائل اٹھا کر اسے تاکید کرتا وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔
"میں بھلا الو ہوں جو ساری رات جاگتی رہونگی انکے انتظار میں!"عائشے گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے بڑبڑائی۔نو بجے تھے مراد ایک گھنٹے پہلے ہی پولیس اسٹیشن سے آیا تھا اور اب پھر کہیں جا رہا تھا پر فارمل ڈریسنگ میں۔
اسکے پرفیوم کی خوشبو نے کمرہ مہکا دیا تھا خوشبو عائشے کے دماغ پہ چڑھنے لگی۔
"کسی دن جن چڑھا کے لے آئیں گے۔"وہ بڑبڑائی تھی کہ نیمل دروازہ دھکیلتی تیزی میں اندر گھسی۔
"ڈئیر بھابھی جان کیسی ہیں؟"
"کچھ ہوا ہے کیا؟"اسکے رویے پہ عائشے کا دماغ ٹھٹکا۔
"آج تو دمیر ہاؤس کا تاریخی دن ہے۔محمل آئی ہے مام کے پاس کمرے میں ہے۔"نیمل نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے تسلی سے بتایا عائشے کو سانپ سونگھ گیا۔
"تو پھر اب؟تمھارے بھائی بھی نہیں ہیں ابھی تو..."وہ پریشانی سے گویا نیمل بازو کھولتی کھڑی ہوئی۔
"بھولی بھابھی جان مجھے لگتا یے وہ جان کر آپ کو اکیلا چھوڑ گئے تاکہ آپ محمل کا سامنا خود کریں۔"اس نے آنکھ دبائی۔
"محمل تمھاری بھی تو کزن ہے تم کو اس سے ہمدردی نہیں ہوتی جیسے سب کو ہے؟"
"سوری...میں اپنے بھائی کے ساتھ ہوں۔بے شک وہ میری کزن ہے پر میرے بھائی نے کبھی اس سے محبت کا دعوہ نہیں کیا۔وہ خود ہی آسمان میں اڑ رہی تھی۔"نیمل نے لاپرواہی سے شانے اچکا دیے۔
"آنٹی نے اسکو ہمارے رشتے کا بتادیا؟"عائشے نیمل کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی نیمل نے نفی میں سر گھمایا۔عائشے نے آہ بھری۔
"لگتا ہے کوئی آرہا ہے.."اسکے کان کھڑے تھے محمل کی ہیل کی ٹک ٹک پہچان کر نیمل ڈریسنگ ائیریا میں چھپ گئی عائشے کو جب تک کچھ سمجھ آتا اتنے میں دروازہ کھلا۔
کوئی غیر لڑکی تھی یعنی محمل!
عائشے نے ہمت نا ہاری۔محمل کسی انجان لڑکی کو یوں مراد کے کمرے میں پاکر چونک اٹھی۔
آڑھی مانگ سے نکلنے کھلے بال سینے پہ پھیلے تھے،شارٹ جامنی رنگ کی شرٹ اور ٹخنوں سے اوپر جینس ہاتھ میں نفیس سا کلچ تھا اور پیر گورے چٹے پینسل ہیل میں مقید!اور مغرور پر اعتماد انداز۔
"کون ہو تم اور اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟"محمل تو مراد سے ملنے اسکے کمرے میں آئی تھی پر یوں جوان لڑکی کو پاکر دھچکا لگا تھا اور مزید دھچکا عائشے کے بولنے پہ لگا۔
"آپ کون ہیں جو ہمارے کمرے میں یوں گھسی چلی آئیں؟"عائشے سینے پہ ہاتھ باندھ کے تئیں چڑھاتی بولی محمل کا پارا ہائی ہوا وہ آگے بڑھی اسکا بازو دبوچا۔
"کیا بکواس کر رہی ہو؟مراد کہاں ہے؟مراد کون ہے یہ لڑکی!"وہ چیخی عائشے نے پوری طاقت لگا کے اپنا بازو چھڑایا محمل نے حیرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا جو قد میں اس سے چھوٹی تھی پرنٹڈ پھول دار قمیض شلوار زیب کیے شان سے اسکے سامنے کھڑی تھی۔
عائشے نے ایک نگاہ اس خوبصورت لڑکی پہ ڈالی جسکی خوبصورتی کے آگے عائشے کچھ نہیں تھی۔یک دم اسے کم تری کا احساس ہوا تھا۔نیمل اندر سے خاموشی توڑتی باہر نکلی۔
   "بھابھی تیار ہوجائیں بھائی ورنہ غصہ کریں گے...ارے محمل تم کب آئیں؟"نیمل کے ہاتھ میں ایک لال رنگ کا جوڑا تھا جو اس نے صوفے پہ ڈالا تھا اور محمل کو دیکھ کر خوشی دکھلاتی اسکے گلے لگی۔وہ کمال اداکارہ بھی تھی!محمل تو اسکے بھابھی لفظ پر سن ہوگئی۔
"نیمل کیا بول رہی ہو؟کون ہے یہ؟"وہ غصے میں ابل پڑی۔
"یہ عائشے بھابھی مراد بھائی کی وائف۔"محمل کے سامنے نیمل کا کہنا تھا عائشے کی روح سرشار ہوگئی۔وہ اب پر اعتماد تھی۔
"کیا بکواس ہے یہ؟خالہ..."وہ پیر پٹختی انگاروں پہ چلتی کمرے سے نکل کر زرپاش کو پکارنے لگی باہر لاؤنچ میں اس نے سہی تماشہ لگا دیا تھا۔زرپاش اسی وقت سے ڈر رہی تھیں کیسے وہ اپنی لاڈلی بھانجی کو سنبھالتیں انکے بیٹے نے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا تھا۔
وہ صوفے پہ زرپاش کے ساتھ لگی رو رہی تھی،جس شخص سے بچپن سے محبت کرتی آئی تھی وہ اسکے ساتھ ایسا کرے گا سوچا بھی نہیں تھا اب دل تو ٹوٹا تھا۔عائشے کو دیکھ کر اسکا خون کھولنے لگتا بس چلتا تو اسے مراد کی زندگی سے دھکے مار کے نکال دیتی۔وہ اسکے وجود کو اپنی قہر برساتی نگاہوں سے چھلنی چھلنی کر رہی تھی۔عائشے نیمل کے ساتھ ہی کھڑی رہی۔
"تم نے میرے مراد کو اپنے جال میں پھنسایا ہوگا!"زرپاش کے پاس سے اٹھ کر وہ بدحواسی کے عالم میں عائشے کی جانب لپکی عائشے اس حملے کے لیے بلکل تیار نہیں تھی۔محمل نے مٹھی میں اسکے بال جکڑ لیے نیمل عائشے کے بال اسکی گرفت سے چھڑانے لگی۔
"پلیز لیو می.."عائشے بوکھلاتی ہوئی خوف کے اثر بولی۔زرپاش بھی اٹھ کے محمل کے پاس آئیں بس اتنے میں مردانہ آواز کانوں میں پڑی۔
"محمل سٹاپ اٹ!لیو مائے وائف!"مراد حکم دلی سے کہتا پاس آیا اور غصے میں محمل کو دیکھ کر اس نے عائشے کے بال آزاد کروائے اور پھر ماں کو دیکھا جو خود محمل کے عمل پہ ساکت تھیں۔
   "مام مجھے بلکل اس رویے کی امید نہیں تھی کہ میرے پیٹھ پیچھے میری بیوی کے ساتھ یہ سلوک ہوگا۔"اس نے نرمی سے عائشے کو سنبھالا تھا اور نظروں میں نیمل کو عائشے کو کمرے میں لے جانے کا کہا۔وہ غصے میں محمل کی طرف پلٹا۔
"مراد تم میرے ساتھ یہ کیسے کرسکتے ہو؟میں محبت کرتی ہوں تم سے،بچپن سے..تم کیسے کسی ایری غیری کو بیوی بنا کر لے آئے۔میں مرجاؤنگی تمھارے بغیر۔"روتے ہوئے وہ شکوہ کناں ہوئی مراد نے کنپٹی سہلائی۔
"میں تمھارے جذبات کی قدر کرتا ہوں پر میں نے کبھی تمھیں اس نظر سے نہیں دیکھا!آخری بار دہرا رہا ہوں محمل نا پہلے میری زندگی میں تھی نا آئیندہ ہوگی۔"
"مام سنبھالیں اپنی بھانجی کو آئیندہ اگر اس نے میری بیوی کو نقصان پہنچایا تو مجھ سے نرمی کی توقع ہر گز مت رکھیے گا!"
"خالہ...."اسکی دھتکار ملنے پہ وہ واپس زرپاش سے فریاد کرنے لگی۔زرپاش بھی بے بس تھیں۔
مراد ان دونوں کو چھوڑ کے کمرے کی طرف ڈگ بھرتا چلا گیا۔
"محمل بچے صبر کرو،مراد تمھارے نصیب کا پھول تھا ہی نہیں...اللہ نے اس سے بہتر کچھ سوچ رکھا ہوگا۔"پیار سے بہلا کر اسے گلے لگایا وہ روتی رہی عائشے کے لیے نفرت دل میں بھڑک رہی تھی۔
مراد کے کمرے میں آنے سے پہلے عائشے کو نیمل نے پانی پلایا تھا اور اسکی پیٹ سہلائی۔وہ رو رہی تھی۔سسرال میں یہ سب بھی دیکھنے کو ملتا ہے کیا؟یہی سوچ مارے جا رہی تھی۔
مراد کے آنے پہ نیمل وہاں سے سر جھکاتی رفو چکر ہوگئی۔اس نے غصے میں کمرے میں چکر کاٹے۔آیا تو وہ فائل لینے کی غرض سے تھا اسے یاد آگیا تھا سائیڈ دراز میں ریڈ فائل کے نیچے بلو فائل رکھی تھی۔پر گھر آیا تو منظر کچھ اور ہی بیان ہورہا تھا۔وہ مظلوم بنے سب برداشت کر رہی تھی!
"کوئی اتنا بے وقوف کیسے ہوسکتا ہے؟تم کو چاہیے تھا اپنے بال چھڑاتیں اور اسے رکھ کے ایک دیتیں!"مراد لب بھینچے سرد پن سے وہ بولا۔عائشے سسکتی رہی۔شوہر کا مشورہ سن کے حیرانی نہیں ہوئی تھی اگر انوش یا رومائزہ بھی ہوتیں تو وہ بھی یہی کہتیں۔
"برائی کا جواب برائی سے نہیں دیا جاتا۔"
"ٹھیک ہے پھر اگلی بار اسکے ہاتھوں گنجی ہوجانا!یہ تم مظلوم بن رہی ہو بلاوجہ۔سیلف ڈفینس نام کی چیز سے واقف بھی ہو کہ نہیں؟زبان تو بہت چلتی ہے تھوڑی عقل بھی چلا لیا کرو۔پولیس والے کی بیوی اتنی بے وقوف نہیں ہوسکتی!"وہ پھر اسے بے وقوف ہی سمجھ رہا تھا۔
"جتنے لیکچرز دینے ہوں پلیز کل دیے گا ابھی میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے۔"وہ پوروں سے سر دبانے لگی۔مراد کو احساس ہوا تو خاموش ہوگیا پھر پین کلر نکال کے اسے دی جو چپ چاپ وہ کھا چکی تھی اور پھر کمبل کھینچ کر لیٹ گئی۔محمل کا حملہ کرنا اسے بہت برا لگا تھا سوچ سوچ کر اسکی انکھیں نم ہوئے جاتیں۔مراد کو کام سے باہر جانا تھا پر ارادہ ترک کرکے خود بھی لیٹ گیا۔
                           ★ ★ ★
ساری رات وہ کروٹیں بدلتی رہی تھی اسکی بے چینی پر مراد بھی ڈھنگ سے سو نا سکا تھا۔صبح آٹھ بجے مراد کی آنکھ کھلی عائشے کا ہاتھ اسکا بازو چھو رہا تھا اس نے گردن موڑ کے اسے دیکھا۔وہ مراد کی جانب کروٹ لیے سو رہی تھی۔
شکل سے بہت معصوم لگ رہی تھی پر اس زبان کا کیا جو منٹ منٹ پر چل پڑتی اور جہاں چلنا تھا وہاں چلی نہیں!اپنے حق میں وہ آواز اٹھا ہی نہیں پارہی تھی اور مراد کو یہی بات بری لگی تھی اسکی بیوی کو مضبوط ہونا تھا۔
مراد نے اسکے چہرے پہ سے بال ہٹائے کچھ پل اس پہ جھکے دیکھتا رہا اسکی لونگ توجہ راغب کرنے کا ذریعہ بنی تھی پھر وقت کا احساس ہوا تو وہ فریش ہونے کے لیے اٹھ گیا۔
                            ★ ★ ★
پچھلے دنوں کی نسبت آج دل بہت ہلکا پن محسوس کر رہا تھا۔جیسے آزادی نصیب ہوئی ہو،وہ دن گزارنا نہیں جینا چاہتی تھی!
فریش ہوکر واش روم سے باہر آئی ڈھیلا سا بالوں کا جوڑا بنایا اسکے بال زیادہ لمبے نہیں تھے۔جمائی روک کر نظر کمرے پہ ڈالی۔کمرہ پینٹنگ کے سامان سے بکھرا ہوا تھا کوئی دیکھ لیتا تو پورا پھوہڑ ہی سمجھتا۔
اس نے تمام تر چیزیں اپنی جگہوں پہ ترتیب سے رکھ دیں۔ٹیبل پہ کچھ کاغذ پڑے تھے اٹھاتے ہوئے وہ زمین پہ بکھر گئے رومائزہ نے وہ اٹھا کے واپس ٹیبل پہ رکھ دیے آخری کاغذ اٹھایا تو نظر پچھلی طرف پڑی۔رومائزہ نے بھنوویں سکیڑ کے غور سے دیکھا۔اسکی دھڑکنوں میں تیزی در آئی۔
پینسل سے خوبصورت سا نام لکھا تھا،پر ادھورا یا پھر لکھنے والے نے ٹ اتنا لکھنا ہی پسند کیا تھا۔
"روم"در حقیقت وہ پینٹنگ شیٹ تھی چھوٹے سائز کی۔جس پہ رومائزہ نے دو ہاتھوں کا مصافحہ کرنے کا نامکمل نقشہ کھینچ رکھا تھا۔اور اسکے پچھلے حصے پہ ایک کونے پہ 'روم' نام درج تھا۔
یہ وہی کاغذ یعنی شیٹس تھیں جو میران کے آنے پہ اس نے لاؤنچ سے اٹھا کر کمرے میں رکھ دی تھیں۔
اسکا زہن روم لفظ پہ ٹک گیا تھا۔کوئی اس طرح بھی اسکے نام سے ایک لفظ اور نکال لے گا اسے خیال بھی نہیں آیا تھا۔اسے یہ اچھا لگا ہونٹوں پہ مسکراہٹ آگئی۔
"روم"کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑائی پھر زہن جھٹکا۔ناممکن!
وہ تمام شیٹس اٹھا کے اس نے کونے میں رکھ دیں۔اپنا حلیہ درست کیا اور کھڑکی کھول کے لان کا منظر دیکھ کر پرسکون ہوئی۔
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کمرا سرد کر گئے تھے۔رومائزہ نے ٹھنڈ سے بچنے کے لیے شال اوڑھ لی تھی۔آسمان کو تکتے وہ گنگنانا شروع ہوئی۔
A broken heart is all that's left
I'm still fixing all the cracks
Lost a couple of pieces when
I carried it, carried it, carried it home
I'm afraid of all I am
My mind feels like a foreign land
Silence ringing inside my head
Please, carry me, carry me, carry me home

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now