قسط 30 حصہ دوئم

1.1K 66 15
                                    

کچھ ہی دیر میں رومائزہ کی آنکھوں سے سیلاب کا ریلا نکل گیا۔وہ اب ہچکیوں سے رورہی تھی۔میران اس سے ناراض تھا،وجہ رومائزہ کا برا رویہ ہوگا۔یا پھر میران کی محبت میں کمی آگئی۔ورنہ وہ تو کافی جتن اسکو منانے کے لیے کر رہی تھی۔باہر دیکھتے ہوئے وہ سوچتی رہی۔
       گاڑیوں کے اندر آنے کی آوازیں سنائی دیں پہیوں کی چرچراہٹ پیدا ہوئی۔زن کرکے کالی ہیلِکس اندر داخل ہوئی تھی اور اسکے پیچھے ہی دو مزید گاڑیاں...ڈرائیور نے اتر کے فوراً میران کے لیے دروازہ کھولا اور چھتری اسکے آگے کی۔
جب سے اس پہ جان لیوا حملے ہونے لگے تھے تو وہ بغیر سیکورٹی کے کم ہی نکلتا تھا۔مراد نے بھی اسے تاکید کر رکھی تھی کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ نکلا کرے۔اور اس پہ وہ کہتا تھا جب کچھ ہوگا تو یہ سیکورٹی بھی کچھ نہیں کرسکے گی۔
گارڈ سے چھتری لے کر کوٹ کندھے پہ ڈال کر انگلی کی نوک سے پکڑے ہوئے وہ سیڑھیوں تک آگیا۔پھر باقاعدہ سر کے اوپر چھپڑا تھا۔اس نے چھتری واپس گارڈ کی طرف بڑھائی اور تیز قدم اٹھاتا ہوا اطمینان سے اندر بنگلے میں داخل ہوا۔
رومائزہ اوپر کمرے سے اسکو واپس آتا دیکھ مزید بلک بلک کے رونے لگی۔دل کو اطمینان سا ہوگیا تھا کہ وہ ٹھیک ہے اور سہی سلامت ہے۔پر غصے سے پارا ہائی ہوچکا تھا۔
میران نے سکون سے لاک گھما کے مردانہ وجاہت سمیت اندر کمرے میں قدم رکھا۔ایک نگاہ خاموش بیٹھی بیوی پہ ڈالی۔دروازہ بند کرکے کوٹ بیڈ پہ اچھال کے بیڈ کے بال درست کرتا نزدیک ہی آیا تھا رومائزہ کاؤچ سے اٹھتی ہوئی غصے سے پھٹ پڑی۔
        "کہاں تھے تم میران جاہ؟کہاں تھے؟پتا بھی ہے میں کتنا پریشان ہوگئی تھی۔شادی کرلی پر بیوی کی کوئی فکر ہی نہیں۔اگر ایسے ہی رہنا تھا تو کیوں مجھ سے نکاح کیا۔پل پل بے رخی سے تڑپا رہے ہو۔آخر تم تھے کہاں!"
اسکا گریبان دبوچ کے وہ بے حد نزدیک آکر روتے ہوئے چلا کر گویا ہوئی۔میران تھم سا گیا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کیا کرے۔
حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات۔
"دیکھ کیا رہے ہو جواب دو نا۔کیوں کی شادی؟بس اتنی ہی محبت تھی جو نکاح کے بعد ختم؟"
رومائزہ نے پانی سے لبریز آنکھیں میران کی آنکھوں میں ڈال کر شکوہ کیا۔وہ سسک رہی تھی۔درمیان میں ہچکیاں بھی آتی جاتیں۔بپھک بپھک کے روتے ہوئے اس نے سر میران کے کندھے پہ ٹکادیا۔وہ برف کی مانند سرد پڑ گیا۔آہستہ سے میران نے رومائزہ کے گرد بازو حائل کردیے۔رومائزہ مزید سمٹ گئی۔میران نے حصار مضبوط کردیا۔
"ضروری کام یاد آگیا تھا اس لیے دیر ہوگئی۔"وہ حیرت پہ قابو نہیں پاسکا۔دھیرے سے بولا۔رومائزہ آکر یوں اس سے لگ جائے گی اسے امید ہی نہیں تھی۔
"بہت برے ہو تم بہت برے۔کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتے۔سب ختم ہوگیا تمھارا پیار....میری بلکل پروا نہیں چار دن سے مجھے تڑپا رہے ہو،پتا ہے میں کتنا روئی ہوں!"
اسکی شرٹ مٹھی میں دبوچے وہ سسکتے ہوئی بولی۔اسکی باتیں سن کے میران کے ہونٹوں پہ پراسرار مسکراہٹ رینگ آئی۔دل کے مقام کے قریب سے اسکی آواز سنتے ہوئے میران نے تھوڑی رومائزہ کے سر پہ ٹکادی۔گہری سانس خارج کی۔
"برا میں تو نہیں تم ہو،بلکہ بہت ظالم ہو.."رومائزہ نے سر اٹھا کے اسے دیکھا پھر چہرہ جھکا لیا۔اسکے چہرے پہ ندامت تھی۔
"ہاں میں بہت بری ہوں پاگل ہوں بے وقوف ہوں۔تمھیں میں نے اتنا غلط سمجھا۔"
آنسو آنکھ سے ٹوٹ کر گرا اور تھوڑی سے پھسل گیا۔میران نے دائیں ہاتھ سے اسکا چہرہ تھام لیا اور انگھوٹے سے آنسو صاف کیے۔اسکا دل مچل رہا تھا۔
چند لمحے اسکے بھیگے نقوش دیکھنے کے بعد سانس اندر اتار کے ایک جست میں وہ آگے بڑھا اور پورے استحقاق سے اپنی محبت کا پہلا لمس اس نے رومائزہ کی پیشانی پہ چھوڑ دیا۔رومائزہ کے آنسو پھسل گئے۔وہ پھتر کی ہوگئی،سانس لینا مشکل ہوگیا۔اور میران اندر تک سرشار ہوا تھا،عنابی لبوں پہ دلفریب مسکراہٹ گھر آئی۔
"جب تم انیس کی تھیں اور عمر اپنی بیس بتائی تھی اس وقت تک تم بہت سمجھدار تھیں سب سمجھتی تھیں۔پر بیس کی ہونے بعد سے مجھے لگتا ہے تمھاری عقل گھٹنوں میں چلی گئی ہے۔"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اور بلکل سیریس تھا پر آنکھوں کی شرارت پڑھ کے رومائزہ نے ہونٹ کچلے۔
"میں بہت شرمندہ ہوں،مجھے معاف کردو۔میں تمھارے قابل ہی نہیں ہوں۔"اس نے ہونٹ سکیڑ کے رونے والے انداز میں کہا۔میران نے لب پیوست کیے اسے دیکھا۔
"کس نے کہا میرے قابل نہیں ہو؟کب سے یہ فضول سی رٹ لگا رکھی ہے مزید کچھ کہا تو الٹے ہاتھ کا لگاؤنگا۔"
وہ تنگ آگیا تھا زچ آکر بولا۔رومائزہ نے ڈبڈباتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔
"تم ہاتھ اٹھاؤ گے؟"
"نہیں۔تھپڑ مارنا تو تمھارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔"
اس دن کے تھپڑ کا میران نے اپنی بات سے پورا حساب لیا تھا۔رومائزہ نے بے اختیار اسکے گال پہ ہاتھ رکھ دیا۔
"آئی ایم سوری،تم بدلے میں بے شک ایک تھپڑ ماردو حساب برابر ہوجائے گا پر مجھے معاف کردو۔میں بہت شرمندہ ہوں،مجھے یقین کرلینا چاہیے تھا الٹا میں نے اتنا برا بھلا کہا بد دعائیں دیں اور تمھارا بہت دل دکھایا ہے۔اسی کی مجھے سزا مل رہی ہے۔"
اسکی آنکھوں سے پھر آنسو جاری ہوگئے۔
"مجھے معافی کی طلب نہیں ہے۔نا ہی مجھے تم سے کوئی شکوہ ہے۔ہاں ایک بات پہ ضرور ہے کہ سچ جاننے کے بعد بھی تم سفیر سے ہی شادی کر رہی تھیں۔پر اندازہ ہوگیا کہ تمھاری عقل تو..."رومائزہ کی رونی سی شکل دیکھ کر خاموش ہوگیا۔
"بٹ لیٹ می سے،مجھے اپنا دل ہلکا کرنا ہے ورنہ ساری زندگی اسی گلٹ میں رہونگی۔"وہ اسے خاموش کراتے بولی۔میران نے اسے شانوں سے تھام کر بیڈ پہ بٹھایا اور خود کاؤچ گھسیٹ کے اسکے سامنے اسکے ملائم ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔
پہلے تو رومائزہ کے ہونٹ سکڑ گئے پھر اس نے بولنا شروع کیا۔وہ بس ٹکٹکی باندھ کے اسے دیکھ رہا تھا۔اس سے زیادہ خوبصورت چہرہ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔بلکہ رومائزہ شنواری کے چہرے کے علاوہ اور کوئی چہرہ آنکھوں کو بہاتا نہیں تھا۔میران اسکے ہر روپ کا دیوانہ تھا۔کسی چیز کو شدت سے چاہا تھا تو وہ رومائزہ شنواری تھی۔جو تھالی میں سجا کر اسے نصیب نہیں ہوئی تھی بہت پاپڑ بیلے تھے۔جدائی دیکھی غم سہے۔لمبا ہجر طے کیا تھا۔
         "تمھیں لگتا ہوگا میں نے کبھی تم پہ بھروسہ نہیں کیا،پر ایسا نہیں ہے۔مجھے تم پہ بھروسہ تھا۔بس زبان سے اقرار نہیں کرتی تھی۔ہاں فوراً ہی بھروسہ نہیں ہوا تھا آہستہ آہستہ ہوگیا تھا۔مجھے معلوم ہوچکا تھا میران وہ شخص ہے جو رومائزہ کی ہر صورت حفاظت کرے گا۔جسکے پاس ہونے سے مجھے ہمیشہ تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔جسکی نگاہوں میں محبت اور احترام تھا۔میں مشکور تھی تمھاری۔
ہاں اس رات تمھیں غلط سمجھا اور الزام لگا دیے،غلط میں تھی پر اسکے بعد میرا بھروسہ تم پہ مزید بڑھ گیا تھا۔
اور پتا ہے زولفقار جاہ کے مجھے روک لینے کے بعد بھی میرے دل میں امیدیں تھیں کہ تم نے یہ سب نہیں کیا ہوگا پر تم جب آئے تو تم نے اقرار کرلیا۔ظاہر سی بات ہے اسکے بعد تو میں غصہ نفرت سب کرونگی۔تم کو سچ بتادینا چاہیے تھا۔پر نہیں تم کو تو ہیرو بننے کا شوق ہے۔"
کاؤچ بیڈ سے تھوڑا نیچے تھا وہ میران کے چہرے کے قریب جھکی ہوئی کہتی چلی گئی۔اسکی گرم سانسیں میران چہرے پہ محسوس کر رہا تھا۔آخر میں لہجہ میں برہمی عود آئی وہ ہنس دیا۔
"میں بھی انسان ہوں کوئی پرفیکٹ شخص تو نہیں۔مجھ سے بھی اُس وقت غلطی ہوگئی۔میں اسی گمان میں تھا گھر جاؤگی تو شنواری صاحب تمھیں سچ بتادینگے پر وہ تو پہلے ہی انتقال فرما چکے تھے۔میں تو مطمئن تھا پر اسکے بعد نیند چین سب کچھ اڑ کے رہ گیا۔"
میران نرمی سے اسکے ہاتھ انگھوٹے سے سہلاتا رہا تھا۔رومائزہ کے آنسو اسکے ہاتھ پہ گر رہے تھے۔
"تم نے معاف کردیا نہ؟میرا یہ گلٹ ختم نہیں ہورہا کہ میں نے ایسے شخص پہ یقین نہیں کیا جس نے صرف میرا سوچا ہر طرح سے میری حفاظت کی،بابا کی اتنی مدد کی۔میں تمھیں سخت الفاظ بول کر خود بھی تکلیف میں مبتلا ہوجایا کرتی تھی۔مجھے فارم ہاؤس میں ہی تم سے محبت ہوگئی تھی پر وہ اظہار کا وقت نہیں تھا۔میں تمھاری مہمان تھی کیسے اپنا اظہار لبوں پہ لاتی تمھاری محبت کے بارے میں جاننے کے باوجود۔
میری انا اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی نا ہی مجھے گوارا تھا۔تم تو سمجھتے ہو نا وہ ٹھیک نہیں تھا۔مجھے تم سے محبت تھی اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔آج یہ بات کرنے سے میں نہیں کتراؤنگی کیونکہ مجھے اب سارے حق حاصل ہیں،بیوی ہوں تمھاری۔"
رومائزہ نے جنونی سے انداز میں کہہ کر سر میران کی پیشانی پہ ٹکادیا۔دونوں نے آنکھیں موند لیں۔
"کردو آج اس محبت کا لفظوں میں کھل کر اظہار،میرے کان ترس گئے ہیں یہ سننے کیلئے۔"وہ گھمبیرتا سے اسکی بات کے درمیان میں بولا۔روما نے سانس کھینچی۔
"سنو...میران جاہ نے رومائزہ شنواری کو اپنے عشق میں کامیابی سے گرفتار کرلیا ہے۔مجھے اس کڈنیپر سے محبت ہوگئی ہے۔تمھارے بغیر جینے کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہ سوچ ہی میری جان ہلکان کردیتی ہے۔"
وہ بھیگے لہجے میں آنکھیں موندے کہتی چلی گئی۔اسکے اظہار نے میران کی محبت کو سرخرو کردیا،طویل ہجر کے بعد آخر وہ اسے مل گئی تھی۔وہ جی جان سے نم آنکھوں سے مسکرایا۔
"یعنی یہ کڈنیپر دنیا کا سب سے برا انسان تمھیں قبول ہے!"
لہجے کی پراسراری پہ روما نے سر جھکایا۔
"ہاں یہ شخص قبول ہے جس کو میں نے سب سے زیادہ ستایا ہے،پھر بھی اسکی محبت میں کمی نہیں آئی۔"
میران اسکی پلکوں کی جھکی باڑ دیکھتا رہ گیا۔مبھم سا ہنسا اسکی جھکی تھوڑی اٹھا کے چوم لی۔وہ آنکھیں بند کر گئی۔
"تم ابتداء سے میرے لیے بہت خاص ہو اور اس اظہار کے بعد تو دل کر رہا ہے صدقے میں اپنی جان دے دوں۔"محبت کے جذبے سے چور انداز میں وہ بولا۔رومائزہ دور ہٹ گئی۔
"شٹ اپ پلیز.."وہ کلس کر بولی۔میران کا قہقہہ بلند ہوا۔یہ جملہ اسکا تکیہ کلام جو بن چکا تھا۔
"اب یہ مرنے مرانے کی بات کی تو اچھا نہیں ہوگا۔"اسکے انداز پہ وہ کھل کر ہنسا۔
"قربان..."وہ دلکشی سے ہنستا ہوا کھڑا ہوا اور اسے اٹھ کے گلے سے لگالیا۔رومائزہ نے ہاتھ اسکے بازو سے لگادیے۔
"مم معاف کردیا نا؟"
"مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں۔اور تمھاری معافی کی بلکل ضرورت نہیں۔میں تمھاری پوزیشن بخوبی سمجھتا ہوں بلکہ اب شکریہ ادا کرنا ہے میری زندگی میں آنے کا۔اور معافی مجھے تم سے مانگنی ہے میں بابا سے تمھیں بچا نہیں سکا،مجھے خود تمھیں گھر چھوڑ کے آنا چاہیے تھا۔"
اسکا ماتھا چوم کر وہ دور ہوا۔مسرور سی نگاہیں اس پہ مرکوز تھیں۔رومائزہ کے چہرے پہ حیا کے رنگ بکھر گئے۔
"پر اس میں تمھاری غلطی تھوڑی ہے،غلط میں تھی۔میران میں بابا کی موت کا سن کر بہت دلبرداشتہ ہوگئی تھی میرے اندر جینے کی خواہش نہیں رہی تھی،کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اس لیے جب تم نے سچ بتایا تو یقین نہیں کرسکی۔بھروسہ کرنا مشکل لگ رہا تھا۔پر تمھیں سخت الفاظ کہہ کر سکون میں میں بھی نہیں تھی۔"
اسے دیکھتے ہوئے رومائزہ نے کہا۔میران اب بھی مسکرا رہا تھا۔
"بے قصور ہم دونوں تھے،غلط تو بس حالات تھے۔ہمارے ملنے کی ٹائمنگ بہت غلط تھی۔"
اسکی بات پہ رومائزہ نے سر ہلادیا۔
"سچ جاننے کے بعد بھی سفیر سے شادی کیوں کر رہی تھیں اس بات کا جواب تو دو۔"
وہ اسکے منہ سے سننا چاہتا تھا۔سائیڈ ٹیبل سے سگریٹ کی دبی اٹھائی پھر رومائزہ کا سانس کا مسئلہ یاد آکر ڈبیہ واپس وہیں رکھ دی۔رومائزہ اسکی جانب پورا گھوم گئی۔لفظ تولنے لگی۔
"تمھیں پتا تو ہے۔بس دماغ خراب ہوگیا تھا۔میں بڑے پاپا اور سفیر بھائی کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔اور تم سے شرمندہ بھی تھی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی کہ تمھیں مخاطب کرکے اپنے رویے کی معافی مانگوں۔"
اس نے بے چارگی سے کہا۔میران نے رسٹ واچ اتار کے ٹیبل پہ رکھ دی۔سفیر کے ساتھ بھائی لگا سن کے دل کو سکون مل گیا تھا۔
"تم نے میرا نیا پرندہ اڑایا ہے؟"
"ہاں۔"وہ بنا ہچکچائے بولی۔
"کیوں؟"لاتعداد شکنیں میران کے ماتھے پہ ابھریں۔
"تاکہ تم مجھ پہ غصہ کرو اور بات کی شروعات ہوسکے۔"آنکھیں چراتے رومائزہ نے جواز پیش کیا۔میران نے مسکراہٹ دبائی۔
"جس دن غصہ دیکھ لیا نا تو دوبارہ وہ روپ دیکھنے کی خواہش نہیں بچے گی۔"
وہ ہنس دیا۔اسکی ہلکی پھلکی ہنسی رومائزہ کے دل میں اتر رہی تھی۔
"میں آل ریڈی کئی بار دیکھ چکی ہوں۔"وہ جتا کر بولی۔
"کندھا ٹھیک ہوگیا تمھارا؟"اب وہ دونوں بلکل نارمل ہوچکے تھے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نا ہو اور بے حد بے تکلفی ہو۔
"بڑی جلدی یاد آگیا۔چار دن سے تو خیر خبر تک نہیں پوچھی۔"وہ شکوہ زبان پہ لے آئی۔"ویٹ ایک منٹ باتوں باتوں میں ایک چیز بھول گئی۔تم مجھ سے اگر ناراض نہیں تھے تو یہ سب کیا تھا؟یہ چار دن کس بات کی خاموشی تھی؟"
رومائزہ نے آنکھیں سکیڑ کے پوچھا۔میران اسکے مقابل آیا۔گہرا سانس فضا کے سپرد کیا۔
"تمھیں اس رشتے کا احساس دلانا چاہتا تھا۔وہ جو تم بے وقوفی کر چکی تھیں اس کا احساس۔تمھیں اس محبت کا احساس دلانا تھا جو تم کرتی تو ہو پر زبان پہ نہیں لاتیں۔سب کی خوشی کی خاطر اپنا دل مار رہی تھیں۔اور جب سامنے سے سفیر کہہ رہا ہے وہ نکاح نہیں کرسکتا تب بھی محترمہ کو عقل نہیں آئی۔"
اب کی بار رومائزہ کو محسوس ہوا کہ اسے یہی بات بری لگی تھی۔
"اول تو تمھیں اندر اٹھ کے جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی فوراً قبول ہے بول کر نکاح کا جشن مناتیں،پر اندر پورا گھنٹہ برباد کرکے سب کی بات مان لی۔"رومائزہ نے نچلا لب بھینچا۔
"یعنی ناراض تھے!میں بہت شرمندہ تھی۔"
      "ہاں اس بات پہ ناراض تھا،بہت شکریہ آپ نے نکاح کرلیا ورنہ میں کنوارا ہی دنیا سے رخصت ہوجاتا۔"اسکے اکھڑے لہجے سے معلوم ہورہا تھا اسے یہ بات کتنی بری لگی تھی۔
"میں نہیں ہوتی تو کوئی اور اس جگہ آجاتی۔"
"ہنہہ..میرے جذبات کو کھیل سمجھ لیا ہے کیا؟میں ایسے ہی آنے دیتا۔"
"تو پھر یہ خاموشی؟"روما کا سوال اب بھی وہی تھا۔
"خاموشی کی وجہ یہ نہیں۔میں تمھیں وقت دینا چاہتا تھا۔پر مجھے بعد میں احساس ہوگیا کہ تمھیں وقت کی نہیں محبت کی ضرورت ہے تمھارے الٹے سیدھے کارنامے مجھے ستانے کے لیے محظوظ کر رہے تھے۔میں دیکھنا چاہتا تھا میری محبت میں ہماری بیگم کیا کر کرسکتی ہیں کیونکہ اس راہ میں کوئی حد مقرر نہیں۔"
رومائزہ بیڈ کی پائینتی سے جا لگی۔میران فاصلے پہ کھڑا پیچھے ہاتھ باندھے اسکی آنکھوں میں دیکھتا بولا۔
"یو ور ہرٹنگ می۔اتنا نظر انداز کوئی کرتا ہے بھلا؟"
"اور وہ جو تم چھ مہینوں سے کرتی آئی ہو وہ کچھ نہیں؟میری چار دن کی نظر اندازی سہہ نہ سکیں۔میں نے زبان سے شکوہ تک نہیں کیا۔"
"تب میں تمھاری بیوی نہیں تھی۔اب میں بیوی ہوں۔اور تم کیا مجھ سے بدلہ لے رہے تھے؟"آنکھیں پھیلائے رومائزہ نے حیرت سے پوچھا۔
"کہا نا نہیں..بس دیکھ رہا تھا بی بی سرکار اپنے سائیں کیلیے کیا کچھ نہیں کرینگی۔محبت کی خاطر سرکار کس حد تک گزر سکتی ہیں؟کیا انھیں بھی ویسا ہی عشق ہے جو مجھے ان سے ہے۔"
وہ گہری نگاہوں سے ماحول کے فسوں پہ طاری ہوتا بولا۔رومائزہ اسکے لفظوں میں کھو گئی۔دم سادھے اسے دیکھتی رہی۔
"رومائزہ شنواری کا جنون ابھی تم نے دیکھا ہی کہاں ہے میران جاہ۔"مبہوت ہوکر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔میران ہنسنے لگا۔
"تھینک یو فار ائیوری تھنگ،مسٹر جاہ۔"رومائزہ کے مسکرا کے کہنے پہ میران کے دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔
"مجھے یقین نہیں ہورہا ہے تم میرے پاس ہو۔قسم سے ہار چکا تھا سب کچھ اللہ پہ چھوڑ دیا تھا۔"وہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولا۔
"اگر تم تکلیف میں تھے تو ادھر بھی اذیت کم نہیں ہورہی تھی۔"
رومائزہ نے دل کے مقام پہ انگلی رکھی۔وہ پھیکا سا مسکرایا۔
"میں بہت مشکل میں گھر چکی تھی۔سمجھ نہیں آرہا تھا ان حالات سے کیسے باہر نکلوں۔"رومائزہ نے سر جھکا کر کہا۔
"آئی رئیلی لو یو.."میران آنچ دیتے لہجے میں کہتا اسکے قریب آیا۔"بی بی سرکار۔"
"لو یو ٹو مسٹر سی ایم۔"رومائزہ ہنستے ہوئے بولی۔میران قہقہہ روک نہیں سکا۔
"صبح شام میں اس چہرے کو دیکھنے کا خواہشمند ہوں۔"اس نے بوجھل لہجے میں کہا۔
"ساری زندگی پڑی ہے دیکھنے کے لیے۔"
اسکی آنکھوں میں شرارت  دیکھ کر وہ بولی اور بیڈ پہ پڑا میران کا کوٹ اٹھایا۔کچھ وزنی سا محسوس ہوا۔آنکھیں چھوٹی کرکے اس نے جیبوں کی تلاشی لی۔
"تو یہ کھلونا تم ساتھ لے کر گھومتے ہو؟مجھے بھی چلانا سکھاؤ۔"کوٹ کی جیب سے اس نے گن نکال کر کوٹ واپس رکھ دیا۔
"اس دن تم نے چلائی تو تھی اب مزید کیا سیکھنا ہے؟"اس کے ہاتھ سے گن لے کر فوراً میران نے ریگزین خالی کیا۔وہ دیکھتی رہی۔
"وہ نشانہ غلط لگ گیا تھا۔ورنہ مارنا تو اس غنڈے کے سیدھا کھوپڑی میں تھا۔"وہ چبا چبا کر تنفر سے بولی۔میران حیرت میں مبتلا ہوگیا۔
"کیوں؟"
"کیونکہ وہ تمھیں گولی جو مارنے لگا تھا۔حشر نا بگاڑ دیتی میں اس..کک کا۔"رومائزہ نے دانتوں تلے زبان دبا کر آنکھوں کے ڈیلے گھمائے۔
"کوئی مجھے تکلیف دے تو تمھیں برا لگتا ہے؟"وہ پوچھے بنا رہ نہیں سکا۔رومائزہ کچھ نہیں بولی۔
پر سچ یہی تھا،وہ میران سے نفرت کی دعویدار تھی پر پتا نہیں کیوں اسے تکلیف میں دیکھ کر خود بھی عجیب سی کیفیت سے دوچار ہوجاتی تھی۔دل میں دبے محبت کے جذبات اسے نفرت بھی سہی طرح کرنے نہیں دیتے تھے۔
سفیر نے جب اسکی اور اپنی منگنی کا جھوٹ میران سے کہا تھا اس وقت بھی اسے اچھا محسوس نہیں ہوا تھا اور ہمیشہ سے ہی ایسا تھا وہ جذبات میں آکے بہت کچھ بول جاتی پر بعد میں اسے برا لگتا تھا۔
"تت تم یہ بتاؤ گن چلانا سکھاؤ گے کہ نہیں؟"اس نے بات ٹالنی چاہی وہ مبھم سا مسکرا کے سر ہلا گیا۔
"تھینک یو۔اچھا تمھیں ایک چیز دکھانی ہے میرے ساتھ چلو۔"
ماحول کی سنجیدگی بڑھتے دیکھ وہ پرجوشی سے اسکا ہاتھ تھام کے اسے زبردستی ساتھ لے کر کمرے نکلی۔میران کو حیرانی ہوئی اسے کیا دیکھنا تھا؟پھر جب وہ لائیبریری تک پہنچا تو سمجھ گیا۔
رومائزہ کو لائیبریری کا اتا پتا بھی نہیں تھا اسے فوراً عزیز پہ شک ہوا یقیناً اسی نے اسے یہاں کا رستہ دکھلایا ہوگا۔
اسکو بازو سے تھامے وہ آفس میں لے آئی۔میران نے جیبوں میں ہاتھ ڈال کے مسکراہٹ کو روکے رکھا اور بے حد سنجیدگی سے رومائزہ کو دیکھتا رہا جیسے ناجانے وہ کیا دکھانے والی ہو۔رومائزہ نے آگے جاکے پینٹنگ  پہ سے کپڑا ہٹایا۔اور گہری نگاہوں سے میران کے تاثرات کا جائزہ لینے لگی۔
"اب تم مجھے اسکی کہانی سناؤ۔کب بنوایا یہ اور کس لیے۔"آنکھوں میں شرارت لیے بہت سیریس انداز میں پوچھا۔
"عزیز نے تمھیں بتایا ہے!"
رومائزہ نے واپس اسکا بازو تھام لیا۔وہ اسکی بے تکلفی پہ حیرانی کے ساتھ خوش تھا۔جہاں وہ ہاتھ لگانے تک نہیں دیتی اور نا ہی میران نے اپنی حدود پار کی تھیں،پر اب وہ خود اسکے قریب آکر اسے پاگل کرنے پہ تلی بیٹھی تھی۔وہ جان لیتی کہ میران کے دل میں اسکا کیا مقام ہے تو مغرور ہوجاتی۔
"اچھا ان پہ غصہ نہیں کرو۔"اس نے فوراً ٹوک دیا۔
"خبر تو اسکی ضرور لونگا میرا سرپرائز اس نے خراب کرکے رکھ دیا۔میں نے اٹلی جانے سے پہلے یہ شروع کروائی تھی۔تمھیں شادی کے بعد گفٹ کرنے کا ارادہ تھا۔"اسکے تیور بگڑ گئے تھے پھر مسکراتے ہوئے اسکا شفاف چہرہ نظروں میں سما کر بولا۔
"پھر درمیان میں مجھے لگا میں یہ کبھی تمھیں نہیں دکھا سکونگا پر آج اسکی مالکن اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک پہنچ ہی گئی۔"
"خوبصورت ہے نا۔تمھیں پسند آئی؟"غیر ضروری شانے پہ بکھرے بال بار بار رومائزہ کے منہ کو آرہے تھے۔میران نے آہستہ سے انھیں کان کے پیچھے کیا۔وہ مسکرانے لگی۔
"یہ بہت خوبصورت تحفہ ہے۔پر حقیقت میں میں زیادہ خوبصورت ہوں۔"آنکھیں بڑی کیے رومائزہ نے کہا۔
"Self Obsessed!"
میران نے جھک کے آنکھیں موند کر اسکی ناک سے ناک مس کی۔رومائزہ گھبرا کر فاصلہ قائم کرنے لگی۔
"ویسے تم بھی کم نہیں ہو۔اور زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں!"تعریف قبول کرکے وہ دھمکی آمیز انداز میں گویا ہوئی۔اور اسکے سینے پہ سر ٹکادیا۔اسکی قربت کا احساس اسے بے حد سکون فراہم کر رہا تھا۔اس نے بس اپنے محرم کے آگے اپنا آپ کھولا تھا۔
اور رومائزہ کی یہی باتیں میران کو پسند تھیں۔
"میری ایک بات مانو گے؟"تھوڑی اسکے کندھے پہ جما کے اس نے سر اونچا کیا،میران کی آنکھوں میں دیکھا۔
"فرمائیے۔"دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوئے میران نے اسکے گال چھوئے۔
"حلیمہ بی کو یہیں بلا لو پلیز،تم سارا دن باہر ہوتے ہو میں اکیلی بے زار ہوجاتی ہوں۔دیکھو منع مت کرنا ورنہ میں بات نہیں کرونگی پہلے ہی بتادوں۔"
"اتنی خطرناک دھمکی دی ہے انکار کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔"وہ سنجیدہ ہوچکا تھا۔رومائزہ کھلکھلا دی۔اسکی کھنکتی ہنسی پہ میران نے اسکے گرد بازو حائل کیے۔
"تھینک یو۔"میران نے مسکراتے ہوئے سکون کا سانس لے کر اسکے گرد حصار مضبوط کردیا۔رومائزہ اسکے کندھے پہ سر رکھے گہرا سا مسکرا دی۔
                          ★ ★ ★
مہینوں بعد وہ دونوں پرسکون اور گہری نیند میں سوئے تھے۔باہر سے خوب پرندوں کے چہچہانے کی آوازوں سے وہ اٹھ چکی تھی۔گلاس وال پہ پردے برابر تھے۔رومائزہ نے اٹھ کر انکو سمیٹ دیا۔کمرہ روشن ہوگیا۔اس کی آنکھ تقریباً نو بجے تک کھل گئی تھی وہ فریش ہوکر واش روم سے باہر آئی۔گیلے بال چہرے کے اردگرد چپک چکے تھے۔اس نے ہاتھوں سے بالوں میں والیم پیدا کیا۔پھر بیڈ پہ میران کی طرف بڑھ گئی۔
تھوڑی خالی جگہ تھی وہ وہیں بیڈ پہ میران کے قریب ٹک گئی۔اسکے سوتے ہوئے چہرہ پہ نگاہ ڈالی۔کتنا معصوم سوتے ہوئے وہ لگتا تھا،چہرے پہ بے حد کشش تھی۔روما کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔
"میران عزیز بھائی بلانے آئے تھے۔"
اس نے ہلکا سا میران کا بازو جھنجوڑا۔میران نے کسمسا کے کروٹ بدل لی۔اسکے سفید کسرتی بازو کمفرٹر کے باہر تھے۔
"میران اٹھ جائیں وہ آپکا انتظار کر رہے ہیں۔"وہ بے جا نرمی لہجے میں سموئے بولی۔میران نے چونک کے آنکھیں کھول لیں....کروٹ سیدھی کی اور اسے دیکھے گیا۔
"کیا بولا ہے تم نے؟"خمار آلود نگاہیں اس نے رومائزہ کے سوجے پپوٹوں پہ ڈالیں۔
"عزیز بھائی ویٹ کر رہے ہیں۔"
"اسکے ساتھ کیا بولا ہے؟"وہ بے قراری سے پوچھنے لگا۔رومائزہ کے لبوں پہ شرارت تھی۔
"وہی جو آپ نے سنا۔"
"نا کرو یار میں دیوانہ ہوجاؤنگا۔"وہ کمفرٹر خود پہ سے ہٹاتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"ممی بھی بابا کو ایسے ہی پکارتیں تھیں،اور بابا نے مجھے ایک بار کہا تھا شوہر سے تم تم کرکے بات نہیں کرنا تمیز سے مخاطب کرنا۔"
میران نے اسکے اتنے قریب بیٹھنے پہ پھر اسکی گھنی لمبی جھکی ہوئی پلکیں دیکھی تھیں۔بالوں کی آبشار سینے پہ پھیلی تھی۔سفید چہرے کے گال لال ہورہے تھے۔عنابی لب گلابی تھے۔
"تمھارے بابا کے اقوال پہ کتاب ہی لکھ دینی چاہیے۔کچھ زیادہ ہی وہ نہیں کہا کرتے تھے؟"میران بھنویں اچکاتا سوال کرتے ہوئے بولا۔
"ویری فنی۔"خفگی سے اس نے چہرہ پھیر لیا۔میران بیڈ سے اترا۔رومائزہ نے گردن گھما کر اسکی چوڑی پشت کو دیکھا وہ ڈریسنگ روم میں گیا تھا۔وہ واپس آیا کچھ چیزیں اسکے ہاتھ میں تھیں جو سب رومائزہ کے برابر بیڈ پہ رکھ دیں اور خود اسکے قدموں کے قریب پہلوں میں پنجوں کے بل ٹک گیا۔
وہ کیا کرنے لگا تھا؟رومائزہ تو بس دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی۔لال سرخ لمبی ڈبیہ کا کوور اس نے کھولا،جس میں ایک پازیب چمک رہی تھی۔میران نے پازیب ہاتھ میں لی۔رومائزہ اسے سانس روکے دیکھتی رہی۔وہ لو دیتی نگاہوں سے اسکے سراپے پہ نگاہ ڈالنے کے بعد پیر پہ جھکا۔پاؤں پہ میران کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتی وہ کانپ گئی۔آہستہ سے میران نے پنجا اٹھا کے اپنے گھٹنوں کے اوپر ٹکادیا۔
اپنے ٹھنڈے پیروں پہ اسکا گرم لمس محسوس کرکے رومائزہ نے بیڈ شیٹ مٹھی میں جکڑ لی۔
میران نے جھک کے سات قریب قریب ہیروں سے جڑی سلور پازیب اسکے پیر میں سجا دی۔وہ گنگ رہ گئی تھی۔دل بس باہر آنے کو تھا۔
سانس مزید تب اٹکی جب میران نے پائل کو انگھوٹے سے چھوا اور آہستگی سے سہلانے لگا۔ 
       بڑی فرصت سے اسکے پیر میں دمکتی پازیب کو وہ مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔اسکی آنکھوں کی تپش کی وہ تاب نہیں لاسکی۔اوپر سے ٹخنے پہ میران کی انگلیوں کا لمس اسے موم کر رہا تھا۔
"کیا ہے یہ؟"وہ بمشکل رندھی ہوئی آواز میں بولی۔میران نے اسکے لبوں پہ انگلی رکھ دی۔
ایک باکس مزید اٹھایا۔رومائزہ کی آنکھوں میں اس بار حیرت تھی۔میران نے باکس میں سے انگھوٹی نکال کر اسکا ہاتھ گود میں سے اٹھایا تھا۔وہ اس انگھوٹی کو کیسے نہیں پہچانتی۔
"یہ تمھارے پاس کیسے؟"
"اگر یاد ہو تو تم نے بڑی ہی بے دردی سے فارم ہاؤس میں اسے اتار کے پھینکا تھا۔"
وہ مسکرا کر اسے یاد دلاتے ہوئے بولا۔میران نے اجازت مانگی تو روما نے سر ہلایا۔بڑی محبت سے اس نے انگھوٹی رومائزہ کی انگلی میں واپس ڈال دی اور جھک کے عقیدت سے اس پہ بوسا دیا۔روما کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا کر رہ گئی۔
"مم میران عزیز بھائی بلا..."بہانے بناتی وہ اسے دور ہونے کی جستجو کرنے لگی۔کل رات تو وہ بڑی بے تکلفی دکھا چکی تھی اور اب اسکا شرمانا للجھانا بند نہیں ہورہا تھا۔میران اسکی کیفیت پہ مسکراہٹ کو دبا گیا۔اور اسکے کانوں کے قریب جاکے اس نے سرگوشی کی۔
"روم...
میری خزاں سی زندگی میں بہار بن کے آنے لیے شکریہ!"لبوں پہ خوبصورت سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔رومائزہ نے آنکھیں میچ لیں وہ دور ہوگیا اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ کمرے میں نہیں تھا۔
اسکی محبت پہ وہ اب مغرور ہورہی تھی۔میران کی محبت کے رنگ اسکے چہرے پہ پھیلتے گئے۔دل میں اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔اس نے انگھوٹی کو چھوا۔پھر پتھر ہوا پیر اٹھا کے پازیب دیکھی جو اسکے صاف ٹخنوں پہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔اس میں کوئی موتی اور گھنگر نہیں تھے جو شور مچاتے۔وہ میران کے خیالوں میں کھو گئی۔یہ احساس اتنا خوبصورت تھا کہ وہ اس کے نکاح میں ہے اور اسکے پاس ہے۔اور دونوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے۔
"رومائزہ وضو کر آؤ۔"
پندرہ منٹ بعد وہ گیلے ہاتھ پیر لیے باہر آیا۔رومائزہ اب تک اسی جگہ پہ بیٹھی مسکرا رہی تھی اس کی آواز پہ چونک کے مڑی۔
"کیوں؟"ماتھے پہ شکنیں پڑ گئیں۔
"شکرانے کے نفل ادا کرنے ہیں۔"میران نے دو جاء نماز آگے پیچھے کرکے بچھادیں۔اور اسکا منتظر کاوچ پہ بیٹھ گیا۔وہ تیزی سے وضو کے لیے سر ہلا کر اٹھ گئی اور واش روم میں جا گھسی۔
گیلے چہرے کے گرد اس نے سفید دوپٹا باندھ لیا۔
میران کی امامت میں اس نے نماز ادا کی۔دونوں کے ایک ساتھ سجدے میں جاتے اور ایک ساتھ سر اٹھاتے۔
سلام پھیر کے دعا کے لیے ہاتھ کھڑے کرلیے۔
"میرے رب تیرا بے حد شکر گزار ہوں جو تو نے مجھے رومائزہ شنواری سے نواز دیا۔"میران سرشاری سے دل میں رب سے مخاطب ہوا۔رومائزہ ترچھی نگاہ اس پہ وقفے وقفے سے ڈال رہی تھی۔
وہ رب کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا،آزمائشوں سے نکل کر بل آخر اسکی زندگی میں سکون آگیا تھا۔صبر کا انعام اسے میران جاہ کی صورت میں مل گیا تھا۔وہ میران کی پاک محبت سے واقف تھی بلکہ وہ محبت نہیں عشق کی منزل طے کرچکا تھا۔
اگر میران نے زندگی میں کسی لڑکی کو چاہا تو وہ رومائزہ احتشام شنواری تھی جو اب اسکی بیوی تھی اور رومائزہ اگر کسی کی محبت میں گرفتار ہوئی تھی تو وہ میران ہی تھا۔وہ احساسات زبان پہ لانے سے ڈرتی تھی۔
اس نے فیصلے خود کی بجائے رب پہ چھوڑ دیے تھے۔اس نے تو اللہ سے اچھے کی امید لگائی تھی تو وہ کیسے خالی ہاتھ لوٹا دی جاتی۔ان دونوں کی منزل ایک ہوگئی تھی اس خیال سے ہی خون سوا سیر ہوجاتا تھا۔
         وہ بے حد پرسکون دکھائی دے رہا تھا۔دعا کے بعد دونوں کھڑے ہوگئے۔رومائزہ نے جاء نماز صوفے پہ رکھ دی اور دوپٹے کی گرہ کھولنے لگی۔میران کے مقابل آنے پہ گرہ پہ اسکا ہاتھ ٹھہر گیا سر جھکا کے وہ مسکرائی۔
"بل آخر مجھے میری نورِ نظر مل گئی۔"اسکی بات پہ رومائزہ جی جان سے مسکرائی۔
"مجھے بھی آپ مل گئے۔میں بہت خوش ہوں۔"
"تمھارا یہ انداز بہت جان لیوا ہے۔یہ روپ کہاں چھپایا ہوا تھا؟"
وہ انگلیوں کی پشت اسکے گالوں پہ چلا رہا تھا۔یہ سب بہت خواب ناک تھا۔کمرے میں سورج کی روشنی پھیلی تھی عجیب سا فسوں رونما تھا۔رومائزہ لمحے کے اثر ہوش کھو رہی تھی۔
"میں نے یہ سب کچھ اپنے محرم کے لیے سنبھال کر رکھا تھا۔ازل سے میں نے یہی سوچ رکھا تھا محبت کا اظہار صرف محرم سے کرونگی۔اب تم میرے محرم ہو میرے اس روپ کے حقدار بھی تم ہی ہو۔"
اسکی شیو کو چھوتے وہ بولی۔دونوں لمحے کی خوبصورتی میں کھو  گئے۔نگاہوں میں نگاہیں، گہرائی مسکراہٹیں،اطمینان سے بھرے دل!
"نیا سفر مبارک ہو۔اس سفر کو آخری سانس تک ساتھ نبھانا ہے۔"میران نے آگے بڑھ کے اسکے ماتھے پہ مہر ثبت کی۔
"میران مجھے بابا بہت یاد آتے ہیں،وہ ساتھ ہوتے تو بہت خوش ہوتے۔"وہ نم آنکھوں سے بولی۔میران نے باری باری اسکی آنکھیں چومیں۔
"انکی مغفرت کی دعا کیا کرو اللہ انھیں اچھے مقام پہ رکھے۔تمھیں خوش دیکھ کر آج وہ وہاں بہت خوش ہونگے۔"میران نے آہستہ سے اسے قریب کرکے اسکا سر اپنے کندھے پہ رکھا دیا رومائزہ نے آنکھیں موند لیں۔
                         ★ ★ ★
آسمان پہ روئی کے ہالے پھیلے ہوئے تھے۔موسم سرد تھا۔وہ دونوں دریا کنارے چائے کا کپ تھامے ایک دوسرے کے قریب بیٹھے تھے۔عائشے نے سر مراد کے کندھے پہ ٹکایا ہوا اور مراد نے اسکے شانے پہ بازو پھیلایا رکھا تھا اور وہ گھونٹ بھر رہی تھی۔
جب وہ پچھلی بار سوات مراد کے ساتھ آئی تھی تو اس نے گھومنے کی خواہش کی تھی اس وقت مراد نے کہا تھا اسے پھر یہاں لے آئیگا۔اب وہ دونوں پھر آچکے تھے اور خوب گھوم پھر رہے تھے۔
"مراد آپکو سردی نہیں رہی؟"عائشے نے سر اٹھایا۔
"تمھیں لگ رہی ہے تو بتاؤ؟"مراد نے بھنوویں اچکا کر پوچھا۔
"نہیں میں تو بس پوچھ رہی تھی۔مجھے ایک بات بتائیں ہم نارتھرن ایریاز میرے سیمسٹر اسٹارٹ ہونے سے پہلے گھوم لینگے نا؟"
"اگر تم نے پھر مجھ سے یہ سوال کیا تو عائشے میں تمھیں واپس لاہور لے جاؤنگا۔آنے کی ضد لگائی تھی جانے کی بھی جلدی مچارہی ہو۔مجھے بڑی مشکل سے چھٹیاں ملی ہیں پلیز انھیں انجوائے کرو اور کرنے دو۔"آخر میں اس نے چائے کا گھونٹ بھرا۔
"آپکو پتا ہے رومائزہ اور میران کی صلح ہوگئی ہے۔"
"مبارک ہو،آخر میرے بھائی کی زندگی میں بھی بہار لوٹ آئی۔"
وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔یہ خوش خبر سن کے دل کو سکون مل گیا تھا۔گردن عائشے کی جانب کی نگاہیں بھٹک کر اسکی ڈائمنڈ کی نوز پن پہ جا ٹھہریں جو اس نے پچھلی رات اسے تحفہ دے کر پہنائی تھی۔وہ اسکے چہرہ پہ ہلکا سا جھکا۔
"کیا کر رہے ہیں کچھ تو خیال کریں۔"اسے دور دھکیل کر عائشے نے فوراً اردگرد فٹافٹ دیکھا۔
"تم ہی بتاؤ کیا کر رہا تھا؟بیوی کے ساتھ گھومنے پھرنے نکلا ہوں اب کیا تمھیں دیکھ بھی نہیں سکتا!"وہ چڑ کے بولا تو عائشے ہنس دی۔
"ہم کراچی بھی جائیں گے۔"عائشے نے واپس اسکے کندھے پہ سر رکھ دیا۔
"اچھا۔"
"اسلام آباد بھی جائیں گے۔"
"اچھا.."
"اور میں پنڈی بھی دیکھونگی۔"
"اور کچھ؟"
"ترکی بھی جائیں گے۔"اس نے آنکھیں پٹا کر کہا۔
"ہاں سب جگہ جائیں گے فلحال کھڑی ہو،کچھ کھا لیتے ہیں مجھے بھوک لگ رہی ہے...تم نے تو میرا دماغ کھا کر پیٹ بھر لیا ہے۔"
"بلکل اب تو میٹھے میں طنز بھی سرو کردیا آپ نے۔"وہ سیخ پا ہوئی۔
"اب کیا دس گھنٹے لگاؤگی اٹھنے میں؟جلدی اٹھو۔"پتھروں پہ سے اسے اٹھنے میں مراد نے مدد کی اور اسے تھام کر گاڑی کے پاس آگیا۔وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔بیگ میں عائشے کا فون بج رہا تھا۔اس نے فون نکال کے نام پڑھا۔
"انوش کالنگ"لکھا آرہا تھا مسکرا کے اس نے کال ریسوو کی اور مراد ںے گاڑی اسٹارٹ کرکے سڑک پہ دوڑا دی۔
      رومائزہ،میران اور عائشے،مراد ان چاروں کا ایک خوبصورت سفر شروع ہوچکا تھا۔
درحقیقت زندگی کی کہانی اب ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے شروع ہوئی تھی۔یہ ان چاروں کی ہیپی اینڈنگ نہیں ہیپی اسٹارٹنگ تھی جسے اختتام تک انھوں نے ہیپی ہی رکھنا تھا۔
                        ★ ★ ★
کچھ دن بعد
وہ دونوں چھت پر چلے آئے تھے۔رومائزہ نے شام کی ٹھنڈی ہوا خود میں اتاری۔میران کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔رومائزہ پوری چھت کے چکر کاٹنے لگی۔
"تم چل چل کر تھکی نہیں جو یہاں بھی واک شروع کردی؟"سبز رنگ کے جوڑے میں اسے چھت کی دیواروں کے پاس چلتا ہوا دیکھ کر میران نے اپنے پاؤں ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا۔
"پتا ہے میں بچپن میں چھت کے لیے ترستی تھی۔ہمارے اپارٹمنٹ میں اس طرح کی چھت نہیں ہے۔بارش کے دوران تو میرا دل مچل جاتا تھا۔صرف بالکونی میں کھڑے ہوکے بھیگا کرتی تھی۔"
بڑے افسوس سے اس نے بتایا اور آسمان کو دیکھنے لگی۔کالے بادل آسمان پر چھائے ہوئے تھے۔
"لگتا ہے تم تھک گئے ہو۔"وہ اسکے پاس آتے ہوئے بولی جو آنکھیں موندے سر کرسی ہی پشت پہ ٹکا کر بولا تھا۔
وہ دونوں صبح سے ساتھ باہر نکلے تھے۔میران نے اسے شہوار جاہ کے نام پہ بنوایا پورا پارک دکھایا۔اسکے بعد وہ شاپنگ پہ گئے اور پھر وہ اسے ہاسپٹل کی تعمیر دکھانے کیلئے لے گیا۔
رومائزہ بڑی دلچسپی سے اسکے ساتھ اسکا ہاتھ تھامے جگہ جگہ جارہی تھی اور چیزوں کے بارے میں روشناس ہوتی گئی۔
   مسلسل چلنے کی بدولت میران کے پیر دکھنے لگے تھے۔وہ پچھلے دو دن سے خاصا مصروف چل رہا تھا۔وہ اپنا ہر کام شیڈول کے مطابق کرتا تھا۔کسی ایک چیز کا اثر دوسرے کام پہ نہیں ہونے دیتا تھا۔
رومائزہ نے میران کے ماتھے پہ گرے بال دیکھے پھر اسکے قدموں کی طرف نگاہیں گئیں۔فرش بلکل صاف تھا وہ اسکے قدموں کے قریب پہلو میں بیٹھ گئی اور آہستہ سے ہاتھ بڑھا کے میران کے پیر دبانے شروع کیے۔وہ دونوں ہی ننگے پیر اوپر آئے تھے۔روما نے اسکے پنجے کو آہستہ سے دبایا پھر مخملی گداز ہاتھوں سے پنڈلیاں دبانے لگی۔اسے اونگ آگئی تھی پیروں پہ جب کسی کے ہلکے پھلکے زور کا احساس ہوا تو آنکھیں کھول لیں۔
"کیا کر رہی ہو تم؟"رومائزہ کو پیر دباتے دیکھ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا اور پیر سمیٹ کے نیچے گرالیے۔
"پیر دبا رہی ہوں..."وہ معصومیت سے بولی۔
"کس نے کہا پیر دبانے کو؟"میران نے سخت انداز میں بھنوو اچکا کر پوچھا۔
"کسی نے بھی نہیں۔پر کیا ہوگیا تم تو کرنٹ کھا کر ایسے پیچھے ہوگئے جیسے کسی اچھوت نے چھو لیا ہو۔تمھارے پنجے چل چل کر سوج گئے ہیں.."وہ فکر مندی سے اسکی معلومات میں اضافہ کرتے بولی۔
"دور ہٹو فوراً اوپر بیٹھو۔"اسکے نیچے بیٹھنے پہ وہ غصہ کرتا بولا۔
"مسئلہ کیا ہے؟بیوی ہوں میں تمھاری۔"وہ تنک کر بولی۔
"بلکل بیوی ہو نوکرانی نہیں۔آئیندہ پیر مت دبانا بلکہ ہاتھ بھی مت لگانا۔"جب رومائزہ خود سے فرش پہ سے نہ اٹھی تو میران نے اسکا بازو پکڑ کے کھڑا کیا۔اسکی بات پہ رومائزہ کے ماتھے پہ شکنیں پھیل گئیں۔
"نوکرانی کی کیا بات؟تم ایک بیوی سے اسکا حق چھین رہے ہو۔تمھاری خدمت گزاری کرنا میرا فرض ہے۔"میران کی آنکھوں میں دیکھ کر ڈٹ کے اس نے کہا۔
"مجھے نہیں پسند میری بیوی میرے پیر دبائے۔بس بات ختم۔تمھاری جگہ وہاں نہیں یہاں ہے۔"پیر کی طرف اشارہ کرنے کے بعد میران نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنے دل کے مقام پہ رکھ دیا۔رومائزہ کا قہقہہ بلند ہوا۔
"ڈائیلاگ مارنے میں آپکا کوئی ثانی نہیں۔ٹھیک ہے اگر بات برابری کی ہے تو ایک کام کرتے تم میرے پیر دبا دو میں تمھارے پاؤں دبا دیا کرونگی۔کیسا؟"
"شٹ اپ..نیچے چلو بادل برسنے والے ہیں۔"وہ اسے گھور کے بولا تو رومائزہ بارش کی خبر پہ پھیل گئی۔
"نہیں اب تو گرمیاں لگ چکی ہیں اور آج میں بارش میں بھیگنے سے خود کو روک نہیں سکتی۔تم کو جانا ہے تو چلے جاؤ۔"وہ اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی جستجو کرتی بولی۔
"روم چلو بیمار پڑجاؤگی۔۔"وہ سختی سے بولا۔
"کیا نازک کلی سمجھ رکھا ہے جو بیمار پڑونگی۔دیکھو کتنا اچھا موسم ہورہا ہے کوئی پاگل ہی ہوگا جو اس سے دور جائے۔"
موسم سے لطف اندوز ہوتے اس نے کہا۔میران سانس بھر کے رہ گیا۔
"نازک کلی تو تم ہو!یاد نہیں پچھلی بار کیسا بخار چڑھا تھا۔"وہ اسے فارم ہاؤس کی بارش یاد دلاتے بولا تو رومائزہ نے آنکھیں چھوٹی کرلیں۔تیز ہوا چلنے لگی۔بس بادل برسنے کی علامت مل گئی تھی۔
      "وہ تو سردیوں کی بارش تھی نا!"وہ آنکھیں پٹا کر بولی۔میران اسے ساتھ لے کر زبردستی چلنے لگا۔پر وہ ہلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
      "کڈنیپر...بھیگنے دو نا۔"وہ منمنائی۔ہوا سے بال اڑ کے اسکے چہرے پہ آرہے تھے۔تیزی سے موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ کرنے لگیں۔
"آہہ...میران رک جائیں پلیز۔"چہرہ اوپر کیے بارش کی بوندوں کو خود پہ محسوس کرتے ہوئے اس نے کہا۔میران کی گرفت اسکی التجا پہ ڈھیلی پڑ گئی۔
بارش تیز ہونے لگی روما ہاتھ چھڑا کے دور ہوئی اور دوپٹہ شانوں پہ پھیلائے گول گھومنے لگی۔
وہ سفید شرٹ اور بلیک ٹراؤزر میں ملبوس تھا۔
ہوا سے اڑتے بال اب بھیگ کر اسکے کشادہ ماتھے پہ گر گئے تھے۔جیبوں میں ہاتھ ڈال کر رومائزہ کی کھنکناہٹ اور اسکا بارش میں گنگنانا لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سنتا رہا۔
گیو می سم سن شائن
گیو می سم رین
گیو می ایندر چانس ٹو گرو اپ ونس اگین
گنگناتی ہوئی وہ بھیگا سراپا لیے میران کو اکیلا کھڑا دیکھ اسکے پاس آئی۔
"آؤ نا کڈنیپر گھول گھومو،بہت مزا آئیگا۔"
"پاگل ہوگئی ہو کیا؟یہ سب لڑکیوں کے چونچلے ہیں۔"رومائزہ کی فرمائش پہ وہ بدک کر بولا تو وہ کھلکھلادی۔
"بس بہت ہوگیا اب شرافت سے چلو تمھیں پتا ہے مجھے بارش خاص پسند نہیں۔"اسے آنکھیں دکھا کر کہا۔
"بہت احسان کیا آپ نے اتنا بھی بھیگ کر۔"منہ بسور کے وہ سر جھکا کے کھڑی ہوگئی۔میران نے اسکے جھکے سر کو دیکھا۔پیچھے ہاتھ باندھ لیے۔
وہ دونوں چھت کے بیچ و بیچ کھڑے پورے بھیگ چکے تھے۔بارش کے قطرے تھوڑے سے پھسل کے پیروں میں گر رہے تھے۔ہر سوں نمی اور مٹی کی سوندھی خوشبو مہک رہی تھی۔
"روٹھ گئیں کیا؟"
رومائزہ کی تھوڑی اٹھا کر میران نے پوچھا وہ منہ پھلائے کھڑی رہی۔کچھ پل اسے یونہی دیکھنے کے بعد میران نے اسکا ہاتھ تھام کر اوپر دیکھا۔رومائزہ مسکرانے لگی۔
"بارش اللہ کی طرف سے رحمت ہے۔اور انسان خود رحمتوں سے منہ نہیں موڑ سکتا.."اسکے بھیگے وجود کو دیکھ کر رومائزہ نے معنی خیزی سے کہا۔
"جسکی اتنی ضدی بیوی ہو پھر اسکی اپنی کہاں چلتی ہے۔"وہ سرینڈر کردینے والے انداز میں بولا۔
"ہاہاہا..جب شوہر نخرے اٹھائے گا تو بیوی نخرے اٹھوانے سے کیوں باز آئے؟بے فکر رہو تمھیں کوئی فلو نہیں ہوگا۔اور اگر ہوا بھی تو جاہ صاحب کی طبیب رومائزہ ہے نا،میں میڈسن دے دونگی۔"اسے کھینچتی ہوئی وہ چھت کی دیوار تک لے آئی۔
وہ بارش کی وجہ سے خوش تھی تو بس میران کی کیا مجال جو اف بھی کردیتا۔وہ دونوں باغ کے ہریالے منظر کو ساون کی نظر ہوتا دیکھنے لگے۔
"تمھارے لیے ایک سرپرائز ہے۔"
میران کی گھنی مڑی ہوئی پلکوں سے بارش کی بوند گری۔وہ رومائزہ کے برابر میں کھڑا سرگوشیانہ انداز میں بولا۔
"کیا ہے بتاؤ؟"چہک کر اس نے پوچھا۔
"شیر دیکھا ہے کبھی؟"دلچسپی سے رومائزہ کے چہرے کے بھیگے نقوش دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔بالوں کی لٹیں منہ اور گردن پہ چپک گئیں تھی عنابی لبوں پہ پانی کی بوندیں جمع تھیں۔
"ہاں نیشنل جیوگرافی چینل پہ بہت بار دیکھا ہے۔اور ہاں چڑیا گھر میں بھی دیکھا ہے۔پر شیر کا کیا؟"میران نے اسکے شانے پہ بازو ٹکا دیا۔
"شیر کے بچے کل واپس آرہے ہیں۔"
"واٹ؟"رومائزہ نے جھٹکے سے گردن اسکے چہرے کی طرف موڑی میران نے سرہلا کے یقین دلایا۔۔
"پالتو ہیں وہ؟"سٹکی نگل کے اس نے پوچھا۔
"میرے اپنے ذاتی پالتو شیر کے بچے ہیں وہ۔بیمار ہوگئے تھے تو میں نے کچھ عرصے پہلے ہی ٹریٹمنٹ کے لیے بھجوا دیے تھے۔اب وہ ریکور ہو چکے ہیں تو کل انکی واپسی ہے۔"
اسکی خوف زدہ آنکھوں میں دیکھ کر میران نے بتایا۔رومائزہ کو حیرت ہوئی۔
"کیا وہ دو ہیں؟"میران نے سر کو جنبش دی۔
"تمھیں ڈر نہیں لگتا؟"رومائزہ نے پھر سوال کیا۔
"نہیں۔ایک شیرنی کے ساتھ رہ کر سارا ڈر نکل گیا ہے۔"وہ ہنس کر بولا رومائزہ نے اسکی بات تعریف سمجھ کر قبول کی۔
"تمھیں تو شیر سے ڈر لگتا ہوگا!"وہ پورے وثوق سے بولا۔رومائزہ کا سہما ہوا انداز اسے محظوظ کر رہا تھا۔پر اسے وہ نڈر ہی اچھی لگتی تھی۔
"ہاں ظاہر سی بات ہے۔مجھے جانور اور پرندے پسند ہیں پر خطرناک چیزوں سے دور ہی رہتی ہوں۔کیا واقعی میں شیر کے بچے یہاں آئیں گے؟"میران نے پہلی بار رومائزہ کے چہرے پہ ڈر کے تاثرات دیکھے تھے۔
"ہاں..پر تم ڈرو مت میں ہوں نا۔"
"اجنبی لوگوں پہ وہ بس ہلکا سا پنجا مارتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔"اسے قریب کرتے اس نے کہا۔رومائزہ کو جھرجھری آگئی۔
"ڈرا کر کہہ رہے ہو ڈرو نہیں۔انھیں وہیں رہنے دو اگر تم پہ انھوں حملہ کردیا تو؟اب تو وہ بڑے ہوگئے ہونگے۔دیکھو وہ جنگلی جانور ہے اس سے دور ہی رہنا چاہیے اور تم انھیں پال رہے ہو۔"وہ بے پناہ معصومیت سے کہتی میران کے دل کے تار چھیڑ گئی۔وہ گہرا مسکرایا۔
"میری جان بس بس گھبراؤ مت۔وہ پنجرے میں رہتے ہیں کھلے نہیں گھومتے۔"اسکی بھیگی لٹ کو انگلی پہ لپیٹ کے کہا۔رومائزہ کی سٹی گم ہوگئی چپ چاپ وہ بارش میں کھڑی بھیگتی رہی۔
                            ★ ★ ★
نیا سیمسٹر اسٹارٹ ہوچکا تھا،رومائزہ جامعہ سے واپس آکر کچھ گھنٹے سو گئی.پانچ بجے اسکی آنکھ کھلی۔عصر پڑھ کے اس نے سٹڈی ٹیبل کی طرف رخ کیا۔کمرے کی گلاس وال کے ساتھ اس نے سٹڈی ٹیبل سیٹ کروائی تھی۔اور اسی دیوار کے درمیان میں ایل سی ڈی کے اوپر کچھ فاصلے پہ دو پینٹنگز لٹکا دی تھیں۔ایک رومائزہ کی اور دوسری وہ جو رومائزہ نے میران کی خود اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی۔اسے مکمل کرکے فریم کرواکے اس نے دیوار پہ لگادیا تھا۔باقی کمرے میں اتنی تبدیلی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی سب کچھ پہلے سے ہی بخوبی سیٹ تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے بیٹھ کے اس نے اسائمنٹ بنایا تھا۔پھر نوٹس بند کرکے دوپٹہ اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔اوپر پلر کے پاس جاکر اس نے نیچے ہال میں جھانکا۔
میران وہاں موجود تھا پر اکیلا نہیں۔اسکے کچھ مہمان ساتھ بیٹھے تھے۔ٹیبل کھانے کے لوازمات سے بھری تھی۔رومائزہ نے بے زاری سے منہ بنایا اور وہیں ٹہھر گئی۔
اسکے وہاں کھڑے رہنے کے آدھے گھنٹے بعد مہمان گئے تھے۔
میران صوفے سے پشت ٹکائے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے فائلز بڑی توجہی سے پڑھ رہا تھا۔رومائزہ صوفے کے پیچھے سے گلا کھنکار کے اسکے پاس آئی۔میران نے سر اٹھایا۔
مہرون رنگ کے لان کی کرتی شلوار اس نے پہن رکھی تھی۔رنگ برنگی پرنٹڈ دوپٹہ دونوں شانوں پر پھیلایا ہوا تھا۔بال کندھے سے تھوڑے نیچے کمر چھو رہے تھے۔
"میں ان روز روز کے مہمانوں سے بہت تنگ ہوں جب دیکھو کوئی نا کوئی آیا ہوتا ہے۔"بال نزاکت سے پیچھے اڑس کے منہ بنا کر وہ صوفے کے دوسرے کنارے پہ بیٹھ گئی۔میران نے فائلز رکھ دیں۔
"عادت ڈال لو۔فارن منسٹر تھے وہ،تم آجاتیں۔"وہ سنجیدگی سے بولا رومائزہ نے ہونٹ کچلے۔
"سنو۔"
"ہاں..."وہ فائل رکھ کے جیب سے موبائل نکال چکا تھا۔
"تم نے کہا تھا ہنی مون ٹرپ پہ جائیں گے میرے سیمسٹر شروع ہونے سے پہلے اب تو سیمسٹر بھی شروع ہوگیا۔"وہ اسکی بات یاد دلانے لگی۔
"تمھیں پتا تو ہے الیکشنز سر پہ ہیں....بلکل وقت نہیں ہے کہیں باہر جانے کا۔"
میران نے آرام سے اسے اپنی مشکل بتائی۔رومائزہ کا چہرہ اتر گیا تھا۔اسکی بیوی ہونا آسان بات نہیں تھی اور وہ ایک مہینے میں اچھے سے سمجھ گئی تھی۔
وہ اس سے محبت بے شک بہت کرتا تھا پر اپنی ذمہ داریاں اسکی وجہ سے پست پشت نہیں ڈالتا تھا،اور یہ بات وہ خود بھی سمجھتی تھی۔اور اسکی یہ عادت اسے پسند بھی تھی۔
"چلو ٹھیک ہے۔وہ مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔"اسکا انداز بدلتے ہی میران کے کان کھڑے ہوئے۔
"فرید کو چائے بول دو کمرے میں لادے....وہیں بات کرتے ہیں۔"فائل اٹھا کر اسے کہتا وہ کمرے کی طرف اوپر بڑھ گیا۔
رومائزہ کچن میں آئی تو حلیمہ بی اور فرید رات کے کھانے کی تیاری کر رہے تھے۔
"کچھ چاہیے بی بی سرکار؟"فرید کے پوچھنے پہ رومائزہ کا دل کیا سر فریج میں مار دے۔اپنا نہیں اسکا۔
"مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی،پہلے اپنی بی بی سرکار کی عادت چھڑائیں تب بات کرونگی۔"نخرے سے کہہ کر اس نے ساس پین اٹھایا۔
"کیا ہوا موڈ کیوں خراب ہے میری بیٹی کا؟"حلیمہ بی نے پیار سے پوچھا۔
"کچھ نہیں بس ممی بابا یاد آرہے تھے۔"وہ اداسی سے بول کر پین میں پانی ڈال کر چولہے پہ رکھ چکی تھی۔
"یہ چائے چھوٹے سائیں کیلیے بنارہی ہو کیا؟"حلیمہ بی کے پوچھنے پہ اس نے سر ہلایا۔
"پر ابھی تو انھوں نے مہمانوں کے ساتھ چائے پی ہے۔"فرید فوراً بولا۔
"پتا نہیں پھر دوبارہ کس لیے بنوائی ہے۔ارے یار دیکھیں باتوں کے چکر میں چینی کی جگہ نمک ڈال دیا میں نے۔"رومائزہ نے سر پہ ہاتھ مارا۔سارا خراب موڈ اڑن چھو ہوگیا تھا۔
"کوئی بات نہیں آپ یہی چائے سائیں کو پلادیں وہ قسم سے آپکو کچھ نہیں کہیں گے۔آپ فرید تھوڑی ہیں جو غلطی پہ ڈانٹ کھاتا رہتا ہے۔"
فرید نے ہنسی کا گلا گھونٹ کر کہا۔رومائزہ نے گھور کے اسے دیکھا۔
"ہائے رے اسکی خوش فہمیاں۔"حلیمہ بی کے قریب وہ بڑبڑا کر رہ گئی۔پھر اس نے پتی اٹھا کے وہ بھی چھڑک دی۔حلیمہ بی نے اسکی حرکت ابرو اچکا کر دیکھی۔
"ویسے فرید سہی کہہ رہا ہے آج تو حلیمہ بی آپکے سائیں کو یہی چائے پلاؤنگی۔اور نام فرید کا استعمال ہوگا کیونکہ انھوں نے مجھے یہی کہا کے فرید کو بولو کہ..."
وہ شرارتی لہجے میں ساس پین ہلانے لگی۔فرید نے بات اچک کی۔
"بی بی سرکار یہ ظلم تو نہ کریں،وہ مجھے کاٹ کھانے کو آئیں گے۔"فرید کے خوفزدہ لہجے کو دیکھ کر رومائزہ ہنس دی۔
"ویسے آپ لوگ بہت ہی ان سے ڈرتے ہیں۔وہ کچھ کہتے تو ہیں نہیں۔"
"وہ کہتے نہیں بس گھورتے ہیں اور پتا لگ جاتا ہے انکو یہ بات پسند نہیں آئی۔"فرید فوراً بولا تھا۔
"تم باتیں کم کرو،بڑے جاہ کا کھانا تیار ہوگیا تو جاؤ شمس کو دے دو۔"حلیمہ بی نے اسے کہا۔فرید ہنڈیا میں چمچ چلا کر انکے کھانے کی ٹرے سجانے لگ گیا۔
                           ★ ★ ★
"کیا خود چائے بنانے بیٹھ گئی تھیں؟"اسکے آتے ہی میران نے سیگریٹ ایش ٹرے میں پھینک کر بالکونی کا دروازہ کھول دیا اور بالکونی میں چلا آیا۔
"میرے آنے پہ بھی آپ سگریٹ کیوں پھینک دیتے ہیں؟پیتے رہا کریں یہ زہر۔"
آنکھیں پٹا پٹا کر کہتی وہ چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کے باہر بالکونی میں اسکے پاس چلی آئی۔وہ ریلنگ پر ہاتھ جمائے کھڑا تھا اسکی بات سن کر نچلا لب کاٹا۔
"تم سے ڈر کر نہیں پھینکتا یہ سیگریٹ۔"وہ دوبدو بولا۔
رومائزہ کی موجودگی میں اس نے سیگریٹ چھوڑ دی تھی وہ خیال رکھتا تھا اسکی وجہ سے رومائزہ کو تکلیف نہ ہو۔اور اب سیگریٹ کم ہی پیتا تھا۔رومائزہ نے بس ایک بار ہی اسے ٹوکا تھا اسکے بعد کبھی نہیں۔
"کاش میرے ڈر سے ہمیشہ کیلیے چھوڑ دیں کیا بات ہوگی۔کم از کم محبت میں ہی چھوڑ دیں۔پتا نہیں ایسا کونسا مزہ ہے جو اس سیگریٹ سے ملتا ہے۔"
"پی کر دیکھ لو پتا چل جائیگا۔"اسکی طرف مڑ کے وہ اطمینان سے بولا۔رومائزہ نے بھنوویں اچکا کر اسے دیکھا۔پھر کمرے میں گئی اور سیگریٹ اٹھا کر لے آئی۔
"سہی کہہ رہے ہو،پی کر ہی پتا چلے گا۔"رومائزہ نے ڈبی سے ایک سیگریٹ اسکے سامنے نکال کر لائیٹر سے جلا دی۔پہلے تو تحمل سے میران اسے دیکھتا گیا جب اس نے سلگتی ہوئی سگریٹ ہونٹوں کے قریب کرلی تو میران نے اسے چھین کر دور پھینکی۔
     "دماغ خراب ہے تمھارا؟مرنے کا زیادہ شوق ہے۔پتا ہے سانس کا مسئلہ ہے پھر بھی حرکتوں سے باز نہیں آتیں۔"میران کے لہجے میں سختی آگئی اسکا بازو دبوچا۔وہ ہنسی روکے کھڑی رہی۔
"آئیندہ اس حرکت کا سوچا بھی تو اپنے ہاتھوں سے میں تمھاری جان لونگا."
"ہیں اچھا۔کیسے لیں گے آپ میری جان؟"وہ باز نہیں آئی۔
"روم!.."اسکے غصے سے مخاطب کرنے پہ رومائزہ کا قہقہہ چھونٹ گیا۔
"تم میری جان لو یا نہ لو ایک سیگریٹ کا کش لگا کر میں نے تمھاری جان لے لینی ہے۔"ہونٹوں پہ رقص کرتی مسکراہٹ کے ساتھ وہ معنی خیزی سے بولی۔
"ٹھیکہ لے رکھا ہے نا تم نے مجھے پریشان کرنے کا!"میران خفگی سے بولا اسکے بازو پہ گرفت نرم کردی اور اسے قریب کیا۔رومائزہ بلش کرنے لگی۔
"بتاؤ کیا بات کرنی ہے؟"
"پرامس کرو میری بات مانو گے۔"
"ایسا کچھ نہیں ہورہا۔پہلے تم بتاؤ پھر دیکھیں گے۔"
"جاہ..."وہ منمنائی۔میران کے دل کی رفتار اسکے جاہ پکارنے پہ بڑھ گئی۔یہ لفظ اس نے ہتھیار کے طور پہ سنبھال کر رکھا تھا۔جب اسے بات منوانی ہوتی تو وہ جاہ کہہ کر ہی مخاطب کرتی تھی۔اور مقابل چاروں شانے چت ہوجاتا تھا۔
"مسز جاہ میں آپکے کسی قسم کے جھانسے میں نہیں آنے والا۔"اس بار وہ خبردار تھا۔
"بابا جو پیسے چھوڑ کے گئے ہیں نا۔"رومائزہ نے تہمید باندھی۔میران کا ماتھا ٹھٹکا۔
"تو؟"
"آپ نے کاغذات بھیجے تھے اپارٹمنٹ کے تو میں سوچ رہی ہوں ان پیسوں سے اپارٹمنٹ آپ سے خرید لوں۔"اسکی بات سن کر میران نے سانس بھر کر خارج کی۔لب ملائے اوپر نیلے آسمان کو دیکھا پھر نگاہیں اسکے چہرے پہ ڈالیں۔وہ بلکل سنجیدہ ہوگیا تھا۔
"تمھیں اسکی قیمت پتا ہے کیا ہے؟"
"ہاں،تین چار کڑوڑ تھی۔"
"پر اب میں اسے زیادہ قیمت پر بیچونگا۔"
"اوہ۔۔"رومائزہ نے ہونٹ گول کیے۔
"دس کروڑ سے تو کم ہی قیمت ہوگی نا۔"عام انداز میں کہہ کر جیسے بات ٹالی۔
"نہیں پندرہ!"
"واٹ!"وہ جھٹکا کھا کر پیچھے ہوئی۔
"کتنے مین ہو تم،اپنی بیوی کو اتنا مہنگا بیچو گے۔اتنی تو اسکی قیمت بنتی بھی نہیں۔کہاں سے لاؤنگی میں مزید پانچ کروڑ۔"وہ سکتے کی کیفیت میں غصہ کرتے ہوئے بولی۔
"تو تمھیں کیا لگتا ہے میں اپنی بیوی کو اپارٹمنٹ بیوچونگا!سیریسلی۔"وہ طنز کرتے بولا۔
     "اپنے بڑے پاپا سے اسکے پیپرز لے کر آؤ۔بہت ٹال لیا یہ معاملہ اور فوراً ان پہ سائن کرو۔وہ اپارٹمنٹ میں تمھیں تحفے میں دے رہا تھا!وہ تمھارا ہی ہے.."
برہمی سے لفظوں پہ زور دے کر کہا۔رومائزہ نے سر جھکا لیا۔
"تو پھر میں اتنے سارے پیسوں کا کیا کروں؟"
وہ جھنجھلا کر بولی۔اور ریلنگ پہ ہاتھ جمادیے۔میران نے اسکے اردگرد اپنے بازو ریلنگ پہ رکھ دیے۔
"چیریٹی کردو۔"وہ صاف بولا۔رومائزہ نے گردن گھما کر اسکو دیکھا۔
"اتنے سارے پیسے؟"
"مرحومین کی طرف سے جتنا صدقہ خیرات کی جائے کم ہی ہوتی ہے۔اور تم تو اپنے بابا کے لیے کروگی۔"
رومائزہ اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھتی گئی۔انگلی کے پورے اسکی شیو پہ پھیرنے لگی۔وہ مبھم سا مسکرایا۔
"ان پیسوں سے مسجد یا مدرسہ تعمیر کروادینا چاہیے۔یہ سب سے بیسٹ آپشن ہے۔"وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی۔میران نے آہستگی سے اسے خود سے لگایا۔
"بہت سارے گاؤں ایسے ہیں جہاں مسجد مدرسے نہیں تم وہاں ان پیسوں سے مسجد بنوادو۔"
میران کو اسکی آواز سینے کے قریب سے سنائی دی۔اسکی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
"ٹھیک ہے جو آپکا حکم۔"اسکے سر پہ اس نے ٹھوڑی ٹکا دی وہ کھلکھلا کر مسکرائی۔میران نے اسکی ہنسی خود میں سمیٹی۔
"ایک بات اور پوچھنی ہے۔"
"ہمم.."اسکی گردن پہ پھیلے بالوں پہ میران نے نے ہاتھ پھیرا۔
"یونیورسٹی تین دن کے لیے ناران کاغان کی ٹرپ پر لے کر جارہی ہے۔"آنکھیں بڑی کیے رومائزہ نے سر اٹھا کے دھیرے سے بتایا۔
"اور تمھیں انکے ساتھ جانا ہے۔"میران نے باغ کی طرف نگاہ ڈال کر کہا۔
"ہاں۔تو پھر چلی جاؤں؟"وہ پرجوشی سے بولی۔
"میرے ساتھ چلنا۔"
"آپ کو فرصت ہی کہاں۔"وہ روٹھ کر بولی۔اور چور نگاہ اس پہ ڈالی۔وہ کالی شلوار قمیض میں تھا۔
وہ بہت خوبصورت تھا،یا پھر اسکا شوہر تھا اس لیے خوبصورتی مزید محسوس ہونے لگی تھی۔
"عائشے کو بھی مراد بھائی نے پرمیشن دے دی۔جب کہ وہ ابھی گھوم کر آئی ہے پھر بھی!"ادا سے کہتے ہوئے نے میران کو پسیجا۔
"چلو ڈرامے بازی بند کرو۔"وہ ہنستے بولا۔
"تو پھر چلی جاؤں نا؟"
"ہاں،انکار بھلا کیوں کرونگا۔بس خیال سے جانا اور احتیاط کرنا۔"
"آہ میران تھینک یو،کڈنیپر آئی لو یو سو مچ۔"خوشی سے ہنستے ہوئے اس نے میران کے جیل سے سیٹ کیے سارے بال بگاڑ دیے وہ ہنس کے رہ گیا۔
"ساری چائے ٹھنڈی ہوگئی ہو گی اب۔"
کمرے میں آتے ہوئے اس نے کہا اور کپ کی طرف بڑھا۔رومائزہ خاموشی سے لب دبائے ہنسی روکے بالکونی میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔میران نے کپ اٹھا کر منہ کے قریب کیا تو وہ ہاتھ پیچھے باندھ کر پاس چلی آئی۔
اسے معلوم تھا جتنی وہ چائے کی شوقین ہے اس سے کئی زیادہ میران کو چائے کی چاہ تھی۔
میران نے گھونٹ بھرا۔اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں گھونٹ اندر اتارنا دوبھر ہوگیا۔
"کیا ہے یہ؟"وہ حیرت اور غصے سے بولا۔
"نمکین چائے۔کیسی لگی؟"
وہ ہنس کر کہتی ہوئی ڈریسنگ کی طرف بھاگی۔
"میں بتاتا ہوں کیسی لگی۔"
حساب برابر کرنے کے لیے میران اسکے پیچھے ہی اٹھ کر اسکی جانب لپکا۔
پھر ایک ساتھ دونوں کے کھلکھلانے کی آوازیں،پیار کا نغمہ،قہقوں کی آواز ڈریسنگ روم سے کمرے میں آنے لگی۔
                              ★ ★ ★
چار سال بعد۔۔
"سلطاننننن..."بیڈ کی چادر پانی سے نہائی دیکھ عائشے چیخ اٹھی کہ در و دیوار بھی دہل گئے۔پورے کمرے میں ننھے فتنے کو اس نے تلاشا۔جب تلاش کے بعد بھی وہ نہ ملا تو کمرے سے باہر نکلی۔
"مِنی بھالو(بھاگو) مت۔"ڈھائی سالہ سلطان اولجلول سی حالت میں منتہیٰ کے پیچھے لان میں بھاگتے ہوئے چلا رہا تھا۔
"مامی پلیز مجھے بچائیں۔سلطان مجھ پہ مٹی ڈال رہا ہے۔"عائشے کو تن فن لان میں آتے ہوئے دیکھ کر منتہیٰ فوراً اسکے پیروں سے جا چمٹی۔عائشے نے اسے تھپکا۔
"سلطان میں نے ٹھنڈے پانی سے نہلا دینا ہے اگر آپکی شرارتیں کم نا ہوئیں تو۔"منتہیٰ کو ایک طرف کر کے عائشے دوپٹہ کمر پہ کس کے اسکے پاس آئی جو معصوم بنا مجرموں کی طرح کھڑا تھا۔
نین نقوش سب اسکے اپنے باپ مراد پہ گئے تھے۔عائشے کو تو کہیں سے وہ اپنا بیٹا نہیں لگتا تھا۔
     "ممی یہ دھوٹ بول رہی ہے۔دھوٹییی کہیں کی۔"سلطان نے انگلی اٹھا کر منتہیٰ کی طرف اشارہ کرتے اپنی صفائی میں کہا۔
"مامی دیکھیں یہ مجھے آپی نہیں بول رہا۔"منتہیٰ فوراً شکایت کرنے پاس آئی۔
"ہش..اشٹے اوے فام مائے مام.."منتہیٰ کو دھکا کر سلطان نے اسے دور جھٹکا۔عائشے کی آنکھیں پھٹ گئیں۔
"سلطان بیٹے نو۔سے سوری ٹو ہر۔منتہی آپ سے بڑی ہے۔بابا کو پتا چلا آپ نے منتہیٰ سے بدتمیزی کی ہے تو خفا ہونگے۔"عائشے نے پیار سے اسے سمجھانے کی کاوش کی....وہ ہنسنے لگا۔عائشے کو اسکی ہنسی کھٹکی۔
اور وہ بلکل سہی چونکی تھی لمحے میں سلطان نے مٹھی میں قید مٹی اوپر اچھالی جو اسکے ساتھ عائشے کے سر پہ بھی گری۔عائشے نے دانت پیس کے اسے چھوٹے عذاب کو دیکھا۔
"کچھ تو اپنے نام کا بھرم رکھو۔اتنا بھاری نام میرے بیٹے کا رکھ دیا ہے دماغ پہ اثر تو ہونا ہی ہے نا۔"وہ غصہ کرتی اسکے کان کھینچ کر بولی۔
"میلا نام تو بڈی نے رکھا ہے۔ان شے آپکی شکایت لگاؤنگا۔"میران کا حوالہ دیتے وہ دھمکا کر بولا۔
"اندر چلو بتاتی ہوں تمھیں۔سب مٹی مٹی کر دیا۔اتنی مٹی سے کیا محبت ہے؟"عائشے کا غصہ تھمنے کو نہیں تھا۔اسکے مٹی میں اٹے کپڑے جھاڑ کے وہ کھڑی ہوئی۔
"ممی اٹش سو ٹیسٹی لائک چاکلیٹ.."وہ ہاتھ چاٹ کر بولا۔
"مامی یہ مٹی کھاتا ہے۔"منتہیٰ چلائی۔عائشے نے سر تھام لیا۔
     "سلطان کہاں سے اتنی گندی حرکتیں سیکھ لی ہیں؟بیٹا مٹی نہیں کھاتے یہ چاکلیٹ نہیں جو چاٹ چاٹ کر آپ کھاتے ہو۔"عائشے تنگ کر رو دینے کو تھی۔سلطان نے اسے پریشان دیکھا تو پیروں سے لپٹ گیا۔
"شوری ممی۔ہمیں دعوت پہ جانا ہے چلیں نا تیار ہوتے ہیں۔میں بلتل تنگ نہیں کرونگا۔"وہ پیار سے بولا تو عائشے کی ممتا جاگ گئی پھر اسکی حرکت یاد آتے ہی جذبات اندر دفن ہوگئے۔
"تیار تو میں کرونگی پر اس سے پہلے ٹھنڈے پانی سے نہلاؤنگی یہی آپکی سزا ہے۔کمرے کی کیا حالت کرکے آئے ہو؟کل گلاس توڑا...آج گن سے پورا بیڈ گیلا کردیا اور مٹی بھی کھانے لگے ہو۔بہت شرارتیں بڑھ گئی ہیں اب بابا کی بجائے میں بڈی سے بات کروں گی وہی آپ سے نمٹ لینگے۔"عائشے اسے خوب دھمکانے لگی۔سلطان کی ہوا خشک ہوگئی۔
"کیا ہوا۔کیوں میرے شیر پہ غصہ کر رہی ہو؟"مراد ارباز کے ساتھ گاڑی سے اتر کے لان میں آیا۔دادا کو دیکھ سلطان ان سے لپٹا۔
     "دادو ممی ڈانٹ رہی ہیں۔کہہ رہی ہیں ٹھنڈے پانی سے نہلاؤنگی۔"
بنا توتلے پن کے اس نے عائشے کی درست شکایت کی۔ارباز ہنسنے لگے۔منتہی ماموں کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئی۔مراد اسکے بال پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔
"ڈیڈ یہ بہت شرارتی ہوگیا ہے میرے سنبھالے نہیں سنبھلتا.."عائشے نے سلطان کو گھور کے کہا۔وہ رونے کی ایکٹنگ کرنے لگا عائشے کا منہ کھل گیا۔مراد نے سلطان کو گود میں اٹھا لیا۔
"یہ شیر نہیں چوزا ہے جو مٹھی کھاتا ہے۔"عائشے نے بھی فٹ دینی اسکی پول کھول دی۔سلطان نے زبان دانتوں تلے دبائی۔منتہی ہنسنے لگی۔اسکے اسکول کی دو دن کی چھٹی تھی تو وہ صبح ہی محب کے ساتھ آئی تھی وہ اسے یہیں چھوڑ کے چلا گیا تھا۔
سلطان کی پیدائش کے بعد دمیر ہاؤس میں مزید رونقیں بحال ہوگئی تھیں۔
سلطان کوئی عام بچہ نہیں تھا۔وہ سب کے احساسات سمجھتا تھا۔سب کی سنتا تھا اور کرتی اپنی تھا۔مراد تو کہتا تھا وہ بلکل میران پہ گیا ہے۔اور عائشے اس بات سے ایگری کرتی تھی۔
بس میران کبھی اتنا شرارتی نہیں رہا تھا اور سلطان نے ساری حدیں مکا دی تھیں۔
عائشے سارا دن اس میں لگی رہتی۔سلطان کے بعد تو اسے دن گزرنے کا پتا نہیں چلتا تھا۔
الٹی سیدھی حرکتیں کرکے وہ خوب عائشے کو انٹرٹین کرتا تھا۔
"سلطان مٹی میں بہت جرمز ہوتے ہیں۔یہ کوئی کھانے کی چیز ہے جو آپ کھاتے ہو؟بیمار پڑ گئے تو ڈاکٹر انجیکشن لگائے گا۔"مراد نے اسکے گال چوم کر کہا۔
"اوتھے بابا آئیندہ نہیں تھاؤندا۔"
"ہاہاہا۔"سلطان کی میٹھی میٹھی باتیں ہنسنے پہ مجبور کردیتی تھیں۔عائشے بھی مراد کے ساتھ مسکرانے لگی۔وہ مراد کی گود سے اتر کے دادا جان کے ساتھ منتہی کو منہ چڑا کے اندر بھاگ گیا۔
عائشے اسکی حرکت پہ ہنس دی۔
"میرا ایک بیٹا تم سے نہیں سنبھلتا حیرت ہے۔"مراد اسکے گرد گھیرا تنگ کرکے بولا۔
"زرا جاکے کمرے کا دیدار تو کریں پتا چلے گا اس افلاطون کو سنبھالنا کتنا مشکل ہے۔زرا سی نظر ہٹاؤں تو یہ کام بگاڑ دیتا ہے۔جب سے اسے چلنے آیا ہے اس نے مجھے چلا چلا کر ہلکان کردیا ہے۔بہت تھک گئی ہوں میں مراد۔"کمر میں درد کی بدولت اس نے کمر پہ ہاتھ رکھا۔مراد دلچسپی سے سنتا گیا۔
"کوئی بات نہیں۔بڑا ہوگا تو سدھر جائیگا۔اب جلدی سے تیار ہو کہیں دیر نا ہوجائے۔"تیزی میں اسکا ماتھا چوم کر وہ آگے بڑھ گیا۔عائشے نے اسکی پشت گھوری اور پیچھے لپکی۔
وہ دوپہر میں جلدی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر آیا تھا۔اسکی وردی پہ اسٹارز اب مزید بڑھ گئے تھے۔ان چار سالوں میں اس نے کئی مافیاز کو بے نقاب کیا تھا۔اور مجرموں کو سزا دلوائی تھی۔
      سلطان کے آنے کے بعد وہ دونوں مکمل فیملی ہوچکے تھے۔خوش تھے بے حد مطمئن تھے۔مراد ڈیوٹی پہ سارا دن رہا کرتا تھا اور پیچھے عائشے سلطان میں مصروف رہا کرتی تھی۔اسکی اسٹڈیز مکمل ہوتے ہی سلطان کی پیدائش کی خوشخبر دمیر فیملی کو موصول ہوئی۔
وہ دادا اور دادی کی آنکھوں کا تارا تھا۔سجل اور نیمل بے حد اس پہ پیار لٹاتی تھیں،وہ تھا ہی اتنا پیارا گول مٹول بڑی آنکھوں اور سرخ ہونٹوں والا۔سڑک پہ چلتے لوگ رک کر اسے پیار کرنے لگ جاتے تھے۔کبھی کوئی اسے مفت میں چیز دلا دیتا تو کبھی وہ پڑوسیوں کے گھر پایا جاتا۔
سلطان دمیر چلتی پھرتی ایک فلم تھا۔
نیمل اور دائم رخصتی کے بعد ابروڈ شفٹ ہوگئے تھے۔چھ ماہ پاکستان میں اور چھ ماں یورپ میں انکے گزرتے تھے۔فلحال وہ خوشحال یورپ میں دائم کے ساتھ تھی۔کچھ دنوں کے بعد چھ ماہ کیلیے اسکی واپسی قریب تھی۔
                           ★ ★ ★
سنا ہے میرے دل پہ تیرا
کہیں نا کہیں نام لکھا ہے
      پچھلے آدھے گھنٹے سے میران کے انتظار میں وہ تیار ہوچکی تھی۔وہ ہمیشہ سے دیر کردیتا تھا۔اپنے کاموں میں وہ وقت کا پابند تھا پر جب بات کسی دعوت یا پارٹی کی آتی تو میران کو دیر ہوجاتی۔اور وہ کوئی لمبا چوڑا بہانا پیش کرنے کی بجائے اسے سچ بتا کر منا لیا کرتا تھا۔
ان پچھلے چار سالوں میں رومائزہ کی زندگی میران کے ساتھ مزید خوبصورت ہوگئی تھی۔وہ اپنے تمام دکھ بھلا چکی تھی جیسے وہ حادثات زندگی میں پیش آئے ہی نہ ہوں۔اور شکر کرتی تھی کہ سفیر سے شادی نہیں ہوئی کیونکہ وہ اسکے ساتھ کبھی خوش نہیں رہ پاتی۔یہ سب تو پرانی باتیں تھیں۔
وہ تو میران کے عشق میں بہت آگے نکل آئی تھی۔اگر میران جنون تھا تو وہ انتہا تھی۔
اسے بلکل نہیں پسند تھا کوئی میران کو غلط نگاہ سے دیکھے۔پر بے چاری کو صبر کا گھونٹ پی کر رکھنا پڑتا تھا۔وہ لوگ جہاں جاتے لڑکیاں میران کی دیوانی بنی تصوریں لینے چلی آتی تھیں۔
کمرہ اے سی کی ٹھنڈک سے چل تھا۔لال ساڑھی پہنے بھورے بالوں کو ایک کندھے پہ آگے کی طرف ڈالے ڈریسنگ کے آئینے کے سامنے وہ گنگناتی ہوئی چوڑیاں پہن رہی تھی۔
میران نے لاک گھمایا اور آہستہ سے اندر داخل ہوا۔
"جاہ اتنی دیر کوئی کرتا ہے؟آپ ہمیشہ لیٹ آتے ہیں۔"چوڑیاں چھوڑ کے وہ اسکی آمد کی خوشبو پہ پلٹ کر بولی۔ایک دم میران اسکے کیل کانٹوں سے لیس تیاری کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔سرخ ساڑھی میں وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
اسکے مزید شکوہ کرنے سے پہلے میران نے آگے بڑھ کے گلابوں کا بکے اسکے سامنے کردیا۔
"سوری.."رومائزہ نے بکے توقف سے لے کر تھام لیا۔گلابوں کی خوشبو اندر اتار کے مسکرائی۔میران نے اسکے کندھے پہ ڈھلے بال پیچھے کردیے۔وہ زیادہ دیر رومائزہ کو روٹھنے نہیں دیتا تھا۔اسے منانے کے ہر بار نئے نئے سے طریقے اسکے پاس ہوتے تھے۔
ایک نگاہ رومائزہ کے نو خیز سراپے پہ نگاہ ڈال کر وہ آگے بڑھا اور ڈریسنگ سے سرخ کانچ کی چوڑیاں اٹھا کر اسکی کلائی تھام کے اسے پہنانے لگا۔وہ بکے ایک طرف رکھ کے اسکے قریب آگئی۔
"کس نے کہا ہے تمھیں اتنا حسین لگنے کو؟ڈو ہیو اینی آئیڈیا ہاؤ مچ یو آر لوکنگ گارجییس!"چوڑیاں پہناتے ہوئے وہ پرتپش سا ہنسا۔رومائزہ کے ہونٹوں پہ ناز سے مسکراہٹ پھیل گئی۔روما نے چوڑیاں اسکے کان کے پاس لے جاکر کھنکھائیں۔
"میں تو شروع سے ایسی ہی ہوں۔کیسی لگ رہی ہوں؟"بائیں ہاتھ سے ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے آئینے میں اپنے عکس پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔
"قربان..."وہ دھیمے سے بولا۔رومائزہ کی نگاہ شیشے کے پار سے بیڈ کراؤن کے اوپر دیوار میں نصب فریمز پہ گئی۔
ایک انچ کے بارڈر والے چار سے پانچ فریم دیوار میں نصب تھے۔جن میں نکاح کی میران کے ساتھ اسکی تصویر تھی۔ایک تصویر جب وہ میران کے ساتھ ہنزہ گئی تھی۔وہاں کے تقافتی کڑھائی والے لباس کے ساتھ اس نے چوڑی ماتھا پٹی اور ٹوپی پہن کر کسی دکان کے آگے کھڑے تصویر کھنچوائی تھی۔
سورج کی روشنی میں اسکا رنگ خوب کھل رہا تھا بھوری آنکھوں کی چمک تصویر میں واضح تھی۔سرخ عنابی لب کھلکھلا رہے تھے۔
ایک تصویر میں میران رومائزہ کے پینٹنگ اسٹینڈ کے پاس کھڑا اسے پیٹنگ کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
ایک تصویر میں رومائزہ فاکسی (شیر کے بچے) سے ڈرتے ہوئے میران کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔
اور ایک تصویر میں وہ دونوں نزدیک کھڑے تھے۔میران حسب عادت نک سک سا تیار سفید کرتے پہ کالی چادر ڈالے ہوئے تھا اور رومائزہ نے لال قمیض شلوار کے ساتھ سر پہ دوپٹا لیا ہوا تھا۔اور دونوں کے اردگرد کسی اسکول کے بچے کھڑے تھے۔
     چوڑیاں پہنا کر وہ اسکی انگھوٹی پہ انگلی پھیرتا پیچھے ہوا۔رومائزہ تصوروں کے خیالات کی زد سے باہر نکلی۔
"سفیر بھائی کا گفٹ؟"ڈریسنگ کے کنارے ہاتھ رکھ کے اس نے پوچھا۔میران نے جیب سے ایک شیشے کا باکس نکال کر اسکی جانب بڑھایا۔
روما نے آہستہ سے کِھلتے لبوں کے ساتھ باکس کھول کر سونے کا سکہ ہاتھ میں لیا۔جس پہ سفیر نام لکھا تھا۔
"شکر لے آئے۔مجھے لگا بھول ہی نا گئے ہوں۔"سکہ واپس رکھ کے باکس بند کرکے اس نے ٹیبل پہ رکھ دیا۔وہ جانے لگی تو میران نے اسے اپنے قریب کیا۔رومائزہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"بہت خوبصورت لگ رہی ہو کہیں میری ہی نظر نا لگ جائے۔"آنچ دیتے لہجے میں کہہ کر وہ پیچھے ہٹا۔رومائزہ کا قہقہہ بلند ہوا..
"یہ جملہ روز سننے کی عادت ہوگئی ہے....میران صاحب کوئی نئی بات کریں۔"آئینے میں خود کو آخری ٹچ اپ دیتے اس نے کہا۔اور لپ اسٹک کا شیڈ مزید گہرا کرلیا۔
"خوبصورتی کو خراج تحسین دینا فرض ہے۔"سرشاری سے اسکے گال سے انگلیاں مس کر کے اس نے کہا تو وہ گہرا مسکرائی۔
"عشقِ متشکرم۔۔(ممنون ہوں میں تمھارے عشق کی)"آنکھیں اسکی آنکھوں میں گاڑھ کے وہ بولی۔اور واپسی پلو ٹھیک کرنے لگی۔میران فرصت سے اسے دیکھتا رہا۔
یہ اسکی محبت تھی جو وہ اسکے نکاح میں آکر اسے نصیب ہوئی تھی۔
اپنی محبت کی منزل 'نکاح' کا سفر وہ چار سال پہلے ہی کر چکا تھا اور اس سفر کو ان دونوں نے ساتھ میں مزید خوبصورت بنادیا تھا۔
"اچھا اب جاؤ جلدی سے تیار ہو ہم لیٹ ہورہے ہیں۔انوش بہت غصہ کرے گی اگر دیر کی تو۔"
رومائزہ اسے واش روم کا دروازہ دکھاتے ہوئے بولی۔میران سر میں ہاتھ پھیرتا تیار ہونے چلا گیا۔
دس منٹ بعد وہ کالے کرتے شلور میں تیار ہوئے گیلے بالوں کے ساتھ باہر نکلا۔رومائزہ پیروں میں ہیلز ڈال کر صوفے پہ دراز موبائل میں مشغول تھی۔
موبائل رکھ کے فوراً اسکے پاس آئی۔وہ بال سیٹ کر رہا تھا۔رومائزہ اسکا دایاں ہاتھ تھام کر آستین کے کف لنکس بند کرنے لگی۔پھر کچھ سوچ کر انھیں کھول کر کہنیوں تک فولڈ کردیا۔میران اسکی کاروائی خاموشی سے آئینے میں سے دیکھ رہا تھا۔پھر وہ گھوم کر اسکے بائیں طرف آئی اور اسکا ہاتھ بالوں میں چلتا روک کے کف فولڈ کردیے۔میران نے ہئیر برش دوسرے ہاتھ میں پکڑ کے بال سیٹ کرلیے۔اور خود پہ پرفیوم چھڑکا۔
     "چلو بس ہوگئے تیار۔اب چلو۔"اسکی چادر بیڈ پہ سے اٹھا کر اسکے گلے میں ڈال کر بولی۔آج کل موسم ٹھنڈا ہوچکا تھا سردیوں کی ابتدا تھی۔
"صبر تو کرو۔کیا ننگے پیر جاؤنگا؟"
اسکی جلد بازی دیکھ کر وہ صوفے کے  قریب رکھے جوتے اٹھا کر بیڈ کے پاس لایا اور وہیں ٹک کر پہننے لگا۔رومائزہ سے مزید صبر نہیں ہورہا تھا وہ بار بار گھڑی میں بجے پانچ دیکھ رہی تھی۔عائشے نے میسج کیا تھا وہ لوگ وہاں پہنچ گئے اسکے بعد سے اسکی بے تابی مزید بڑھ گئی۔
دروازے پہ دستک ہوئی میران نے جوتے پہن کر دروازہ کھولا۔بختو کھڑی تھی۔
"چھوٹے سائیں نیچے مہمان آپ سے ملنے آئے ہیں۔"بختو نے اندر جھانک کر کہا۔میران نے لب دبا کر روما کو دیکھا جو سانس روکے اسے نفی میں سر ہلاتے دیکھ رہی تھی۔
"بختو انکو بولو سائیں مصروف ہیں نہیں مل سکتے۔"وہ اسے گھور کے بولی۔بختو نے حکم کے تابع سر ہلایا۔اور اپنی خوبصورت سی بی بی سرکار کی بلائیں لی۔
"کوئی ضرورت نہیں۔تم جاؤ میں آرہا ہوں۔"حکم دلی سے کہہ کر میران نے دروازہ بند کردیا۔پلٹ کر روما کو دیکھا جو غصے سے لال ہوکر بیڈ پہ بیٹھ گئی تھی۔
"ڈونٹ میران جاہ ڈونٹ۔جاؤ تم مہمانوں کے پاس۔مجھے تو عادت ہوگئی اس سب کی۔"دانت پیس کر کہتی وہ ٹی وی کھول کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگ کر بیٹھ گئی۔میران نے سانس بھری۔
پھر باہر چلایا گیا۔وہ بند دروازہ گھور کے رہ گئی۔
غصے میں تکیہ اٹھا کے بیڈ پہ ہی پھینکا۔لال نیل پالش سے رنگین ناخن میٹریس پر جمادیے۔
تقریباً دیڑھ گھنٹہ میران کو واپس آنے میں لگا۔
ساڑھے چھ ہورہے تھے اور رومائزہ کا خون جل کر سیاہ ہوگیا۔
      وہ اندر داخل ہوا تو رومائزہ چوڑیاں اتار کے بے دردی سے پھینک رہی تھی۔وہ سر تھام کے پاس چلا آیا۔روما کا چہرہ غصے سے سرخ پڑ چکا تھا۔
"چلو..."چوڑیاں بیڈ پہ سے اٹھاتے ہوئے وہ آرام سے بولا۔رومائزہ نے خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"نہیں جارہی میں اب۔میری میکے سے آئی دعوتوں میں آپ ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔"اسکے پہلو سے اٹھتی وہ چینج کرنے کیلئے جانے لگی۔
میران کی نگاہ اسکے چوٹی میں بل زد بالوں پہ گئی۔اس نے کھلے بال تک چٹیا میں مقید کردیے تھے۔میران نے سانس بھری۔
آہستہ سے چٹیا کے بل کھول کر بال رومائزہ کی کمر پہ پھیلا دیے۔ان چاروں سالوں میں رومائزہ کے بال بڑھ کر کمر سے نیچے تک آگئے تھے۔
"کیوں کھولا انھیں؟بہت لمبے ہوگئے ہیں مجھ سے نہیں سنبھلتے انھیں اب میں چھوٹے کراؤنگی۔"اب وہ میران کا غصہ دلانے لگی تھی۔
"خبردار جو بالوں کو قینچی لگوائی۔"وہ چوڑیاں اسکے ہاتھ میں ڈال کر کلائی پہ سخت گرفت کرکے غصہ دبا کر بولا۔رومائزہ دیکھتی رہ گئی۔
"ایسے حکم جب جھاڑتے ہو تو زہر لگتے ہو۔"
"میں تمھیں زبان کٹوانے کی اجازت دے سکتا ہوں پر بالوں کی نہیں!"اسکی لمبی زبان پہ خوبصورتی سے طنز کیا گیا۔
میران کو لمبے بال پسند تھے اور رومائزہ کو چھوٹے۔سارا سال اسی بات پہ جنگ چھڑی رہتی تھی۔
"جاہ..."
"کیا ہوا جان؟"
"بہت دیر کردی آپ نے۔"بگڑے موڈ سے اس نے سر جھکا لیا۔
"روم جان بے فکر رہو تمھارا بھائی تمھارے بغیر کیک نہیں کاٹے گا۔"اسکے بالوں کی لٹوں کو پیچھے کرتا وہ آرام سے بولا۔
"اب خود سے چلنا ہے یا میں اٹھا کر لے کر جاؤں؟"ڈھٹائی سے اسے کھڑا دیکھ وہ صبر کا کڑوا گھونٹ پی کر بولا۔
"خود نے دیر کی ہے غصہ بھی مجھ پہ کر رہے ہیں۔نہیں جاؤنگی میں کہیں۔"منہ لٹکا کر وہ اسے دھکیل کر جانے لگی۔پھر خود نے ہی سکے کا باکس ٹیبل سے اٹھا کر اسے دیکھا۔
میران نے نظروں سے ہی اسے چلنے کا کہا تو وہ دروازے کھول کر باہر نکل گئی۔میران گہری سانس خارج کرتا اسکے پیچھے ہی کمرے سے نکلا۔
     جانے سے پہلے وہ زولفقار کے کمرے میں گیا تھا۔رومائزہ دور کھڑی خاموشی سے دیکھتی رہی۔انکی حالت میں اتنا سدھار آیا تھا کہ وہ اٹھ سکتے تھے پر چل پھر نہیں سکتے تھے۔اور ایک ہاتھ انکا بلکل کام نہیں کرتا تھا۔یہ بھی کرشمہ ہی تھا ورنہ ڈاکٹرز تو صاف جواب دے چکے تھے۔انکا کمرہ کم وہ ایک ہاسپٹل کا وارڈ زیادہ لگتا تھا۔پاس ہی انکی ویل چئیر رکھی تھی۔
رومائزہ ان سے بہت کم مخاطب ہوتی تھی۔اور میران نے بھی اس پہ زور نہیں ڈالا تھا۔وہ دونوں انکا خیال رکھتے تھے۔
چار سال بستر سے لگے بہت تھے۔اب تو وہ خود بھی اکتا چکے تھے۔شاید اس طرح انکے گناہ دھل جاتے۔پر یہ سزا کسی جیل کی چار دیواری سے زیادہ بھیانک تھی کہ وہ ایک ایک چیز کیلیے کسی دوسرے کے محتاج ہوگئے تھے۔
      "خوش رہو دونوں۔سلطان کو میری طرف سے پیار کرنا۔"بیڈ کے کراؤن سے کمر ٹکائے ہاتھ اٹھا کر وہ بولے۔میران مسکرا کے کھڑا ہوگیا۔
"اپنے نواسے کو یاد کر رہے ہیں۔ہوسکا تو واپسی میں اسے لے آؤنگا۔اب آپ آرام کریں۔شمس بتارہا تھا آپ دوائیاں سہی طرح نہیں لے رہے۔بابا کیوں پریشان کرتے ہیں۔اگر دوائی نہیں لینگے تو مزید جام پڑ جائینگے۔"انھیں لٹاتا ہوا وہ بولا۔
"اچھا اب جاؤ بہو کھڑی انتظار کر رہی ہے۔"رومائزہ کو گم سم کھڑا دیکھ کر انھوں نے کہا۔روما پھیکا سا مسکرادی۔میران اٹھ کے چلا گیا۔زولفقار نے دونوں کی پشت دیکھ کر آنکھیں موند لیں۔
وہ دونوں ایک ساتھ بہت اچھے لگتے تھے جیسے ایک دوسرے کے لیے بنے ہوں۔اس لڑکی کو جسے کسی زمانے میں بہو نا بنانے کیلیے اتنی سازشیں کی اس لڑکی نے انھیں دل بڑا کرکے فوراً معاف کردیا تھا۔وہ چار سال سے ازیت کے کڑے مراحل سے گزر رہے تھے۔موت بھی نا آتی،روح جسم کا ساتھ چھوڑتی تو شاید دوسری دنیا میں کچھ سکون انھیں میسر ہوجاتا۔ناجانے مزید کتنی سانسیں اور اس عمر بھر محتاجگی کے ساتھ لکھی تھیں۔
انھیں ان چار سالوں میں اپنے ایک ایک ظلم کا احساس ہوا تھا۔بس دن رات وہی سب سوچتے رہا کرتے تھے۔
                             ★ ★ ★
      "آہ میرا ببر آگیا۔"وہ دونوں باغ میں آئے۔عبدل نے فاکسی اور ببر کو کھلا چھوڑ دیا جو میران سے آکر چمٹ گئے۔میران نے بیٹھ کر انھیں خوب پیار کیا۔رومائزہ تو دور پیچھے ہوگئی۔
"عبدل بھائی ایسے فاکسی کو مت چھوڑا کریں ابھی میری جان نکل جاتی۔"
"سرکار آپ چار سال سے یہی بول رہی ہیں پر کچھ نہیں ہوا۔"حلیمہ بی انیکسی سے باہر نکل کر آئیں تو عبدل کی بات پہ مسکرا دیں۔
فاکسی خوب میران کی گردن میں منہ دے رہا تھا اور رومائزہ کی جان ہلکان ہو رہی تھی۔
"جاہ پلیز دور ہو جائیں اگر اس نے حملہ کردیا تو...مجھے بیوہ نہیں ہونا...استغفر اللہ۔"
فاکسی کا ڈر رومائزہ کے اندر بری طرح بیٹھ چکا تھا۔
فاکسی اور ببر جب آئے تب رومائزہ اس قدر نہیں ڈرتی تھی۔
       میران کی غیر موجودگی میں وہ ایک دن کھلے فاکسی کے پاس چلی گئی۔فاکسی شرارتی سا تھا۔عبدل کے ہمت بڑھانے پہ اس نے فاکسی کو خوب پیار کیا۔فاکسی مزے سے اسکی گود میں آگیا تھا اور اسکے منہ سے چمٹنے لگا۔رومائزہ کو وہیں سے الجھن ہوئی۔وہ اسے دور ہٹانے لگی تو فاکسی نے اچانک حملے کرتے ہوئے اسکی گردن پہ پنجا مار دیا۔بس وہ دن تھا اور آج کا دن تھا رومائزہ کی فاکسی سے اور نا ہی ببر سے بنتی تھی۔وہ دونوں اسے دیکھ پاس آنے کی کوشش کرتے پر وہ دور بھاگتی تھی۔
"ادھر تو آؤ۔دیکھو کچھ نہیں کریگا۔"فاکسی کی گردن پہ ہاتھ پھیر کر اس نے کہا۔
"کیوں اپنی اکلوتی بیوی کو شیر کے اتنے بڑے بچے کے حوالے کرنا چاہتے ہیں؟دیکھیں یہ اب بچے نہیں رہے پلیز انھیں کسی کو دے دیں۔"اسکی آنکھیں خوف و حراس کے اثر میں تھیں۔میران کھڑا ہوگیا۔اسکے اشارے پر عبدل فاکسی اور ببر کو لے گیا۔
"ایک تو اتنی ڈرپوک بیوی ملی ہے..."وہ اٹھ کر اسکے پاس آیا۔روما نے اسکے طنزیہ تیر پہ دانت پیسے۔
"اگر میں نے اپنی بہادری دکھا دی تو ہوش ٹھکانے لگ جانے ہیں۔شیر کے بچے کوئی پالنے والی چیز ہیں؟میں اب انھیں گھر سے باہر نکال دونگی بتا رہی ہوں۔"وہ بھنوویں چھڑا کر بولی۔
"چھوٹے سائیں سرکار اتنا کہہ رہی ہیں تو بات مان لیں۔"
حلیمہ بی اسے بی بی سرکار کہہ کر ہی اکثر بلایا کرتی تھیں۔اب تو رومائزہ نے اس بنگلے کے طور طریقوں کو قبول کرلیا تھا۔یہ سب بہت مختلف تھا۔اس نے کبھی ایسی زندگی تصور نہیں کی تھی پر اب عادت پڑ گئی تھی اور اسے اچھا بھی لگنے لگا تھا۔جاہ خاندان ایک جاگیردانہ بنیاد پہ مبنی تھا۔
طور طریقے پچھلے ہی چلے آتے تھے۔پر کافی چیزیں میران نے ختم کردی تھیں جو بلاوجہ اور فضول لگا کرتی تھیں۔
       "حلیمہ بی آپکی سرکار کا بس چلے تو بلیاں پال کے بیٹھ جائے۔چلو تمھیں اب دیر نہیں ہورہی۔حلیمہ بی کو دیکھ کر فورا ان سے چمٹ گئیں۔"اسے ساڑھی پہ شال اوڑھے دیکھ میران نے اوپر تا نیچے معائنہ کر کے کہا تو وہ حلیمہ بی کے گلے لگ کر اسے ناک چڑھا کے دیکھتی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
"تو آپ ہی بتا دیں سی ایم صاحب میں کیا کروں؟"وہ تپ کر کہتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
"آپ صرف معصوم شیروں سے ڈرتی رہیں اور ہم سے محبت کریں۔"میران دلفریبی سے مسکرا کے خود بھی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
"ببر اور فاکسی سے محبت نا کرلوں سی ایم صاحب!"وہ چٹخ کر بولی۔
"انھی سے کرلیں زندگی میں سکون آجائے گا۔انکی بھی اور میری بھی۔"وہ ناک کی اٹھان انگلی کی پشت سے ہلکا سا رگڑ کے بولا۔رومائزہ نے دانت پیس لیے۔
ہاں وہ صوبے کا وزیر اعلیٰ الیکشن کے بعد بھی منتخب رہا تھا۔وزیر اعظم کا خواب اب تک اسکی آنکھوں میں باقی تھا۔اتنا اسے بھی اندازہ اتنی آسانی سے اتنی بڑی ذمہ داری اسے نہیں مل سکتی۔ایک عمر کاٹنی پڑتی ہے تب جاکے انسان کو یہ اقتدار ملتا۔وہ اپنی سیٹ سے مطمئن تھا اور اپنے خطے میں ہر قسم کی اس نے سہولیات فراہم کی تھیں۔
عزیز کی شادی ہوچکی تھی وہ تقریباً اب بزنس سنبھالتا تھا۔شمس کا بیٹا صحت یاب ہوگیا تھا۔
اس نے زولفقار کے بعد خود جو میران کے آگے خدمت میں پیش کردیا تھا۔شمس سیاست میں اسکی مدد کرتا تھا۔عزیز،شمس اور عبدل میران کے قریبی بندے تھے۔
                           ★ ★ ★
      "ماہی سب کچھ سہی چل رہا ہے نا؟گیسٹس کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟"انوش بیگی جینس پہ پنک کلر کا ٹاپ پہنے آدھے بالوں کا جوڑا بنائے اور باقی کرلز کرکے کھلے چھوڑے گھوم رہی تھی۔
جی بلکل آپ انوش گلزار دا پارٹیز آرگنائزر سے مل رہے ہیں۔جنھوں نے یونیورسٹی کے بعد اپنے بابا کے ساتھ بزنس سنبھال لیا تھا۔
"یس میم ایوریتھنگ از فائن۔سب کو ڈیکوریشن بہت پسند آرہی ہے۔اور سفیر سر آپکو ڈھونڈ رہے تھے۔"
"ہاں انکو تھینکس کہنا ہوگا نا آخر انکی سالگرہ پر میں نے چار چاند جو لگادیے۔ایک کام کرو اس ڈی_جے کو بولو تھوڑے اچھے گانے لگائے....کسی کا بریک اپ نہیں ہوا جو ارجیت کے گانے بجا رہا ہے۔"
ماہی کا کندھا تھپکا کر کہتی وہ جھومتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
کسی گارڈن میں بڑے پیمانے پہ سفیر نے تقریب منعقد کی تھی اور اسے ہوسٹ انوش کر رہی تھی۔اس نے گلزار ڈیزائنرز کو ہائیر کیا تھا۔
سب ہی جانتے تھے انوش سے بہتر پارٹی آرگنائزر اور کوئی نہیں۔وہ لوگوں کے ایونٹس کو یادگار بنادیا کرتی تھی۔
پہلے وہ لوگوں کی پسند اور ناپسند جانتی تھی اسی حساب سے چیزیں ڈزائن کرتی۔
      "میرے بھائی اتنی دیر تم نے آنے میں لگا دی۔سب خیریت تو ہے؟"رومائزہ سفیر اور مراد سے مل کر عائشے کے پاس جا چکی تھی۔اسکے جانے کے بعد مراد نے پوچھا۔
"سب خیریت ہے۔جنم دن مبارک ہو تمھیں۔خوب چمک دھمک رہے ہو آج۔"سفیر کو سوٹ بوٹ میں دیکھ میران نے ہنستے ہوئے کہا اسکی آنکھوں کے گرد گڈے جمع ہوئے تھے۔
"یہ سب انوش نے کہا تھا۔ورنہ میں کہاں ایسی ڈریسنگ کرتا ہوں۔"وہ کوٹ درست کرتے بولا۔
"یہ لڑکی  اپنے کام کو لے کر بلکل پاگل ہے۔"
انوش کی تلاش میں میران نے نظر دوڑائی۔
"سالی صاحبہ اب ایسے ہی نظر نہیں آتیں انھیں بہت کام ہوتے ہیں۔ویسے مجھے اسکے لیے بہت خوشی ہے کہ وہ اتنی کامیاب ہوگئی۔"مراد طمانیت سے بولا۔میران نے متفق ہوتے سر کو جنبش دی۔سفیر سب سمجھ رہا تھا۔
      "خیر مجھے عائشے پہ رشک ہے جو سلطان کو سنبھالتی ہے۔آخر کہاں ہے میرا بھتیجا؟"میران نے موضوع تبدیل کیا۔
"عائشے کے پاس ہی ہے۔اور سفیر تم کب شادی کر رہے ہو؟"مراد کے سوال پہ سفیر نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ شانے اچکا دیے۔
"میاں عمر نکل جائیگی شادی کرلو۔چار سال بہت ہوگئے ہیں۔"میران نے بیرے کو اشارے سے بلا کے سوفٹ ڈرنک کا گلاس ٹرے سے اٹھایا تھا۔سفیر مسکرانے لگا۔
"ابھی تک دل میں کسی کو دیکھ کر ایسی گھنٹیاں بجی نہیں جو میں شادی کی شہنائی بجا لو.."میران نے ایک گلاس سفیر کی طرف بڑھایا اسے تھام کر وہ آنکھوں میں شرارت لیے بولا۔جس پہ وہ دونوں ہنسے تھے۔جیسے وہ کچھ جانتے ہی نہیں ہوں۔
سفیر مراد اور میران ان تینوں کی آپس میں کافی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔
وہ تینوں ایک دوسرے سے کھل کر ہر بات کا اظہار کرلیا کرتے تھے اور ایک دوسرے پہ بھروسہ بھی کرتے تھے۔
سفیر ان دونوں کو وہیں چھوڑ مزید مہمانوں سے ملنے چلا گیا۔
           وہ چاروں سلطان کے ساتھ کھڑے تھے۔اور سلطان کی کسی بات پہ رومائزہ روٹھ کے دور چلی گئی تھی۔
"وہ مجھے دانت رہی تھیں۔"میران کے گھورنے پہ سلطان نے فٹ کہا۔
"اور میں مار لگاؤنگا۔"میران سنجیدگی سے بولا۔
"اب سختی کا کیا فائدہ آپکے بے جا پیار نے اسکو بہت بگاڑ دیا ہے۔سارے الٹے سیدھے کام یہ کرنے لگا ہے۔پوچھیں اب تو مٹی بھی کھانا شروع ہوگیا ہے۔اس دن سرف دیکھا تو سونگھ کر چاٹ لیا۔ٹوتھ پیسٹ یہ نگل جائے۔انسان ہے کہ..."عائشے مراد کے پاس آکر غصے سے بولتے بولتے رک گئی۔مراد نے اسے کمر سے تھام لیا۔
سلطان کی نگاہیں گردن سمیت اپنے کارنامے سن کر جھکتی چلی گئیں۔یہ ساری شرارتیں ایک طرف تھیں وہ جانتا تھا میران اسے ان پہ صرف سمجھائے گا پر بدتمیزی پہ سخت قدم اٹھا سکتا تھا۔
"بڈی روم رو رہی ہونگی۔میں شوری بول دونگا۔بچہ ہوں زبان شے نکل گیا۔"اس نے معصومیت سے لب سکیڑ کے  کہا۔میران کے سنجیدہ تاثرات سلطان کو ڈرا رہے تھے۔
مراد نے سر خفت سے جھٹکا۔میران سلطان کو گود میں لیے مصنوعی تالاب کے نزدیک لے گیا جہاں وہ ہاتھ باندھے کھڑی اسی کی منتظر تھی۔
مراد اور عائشے دور سے ان تینوں کو دیکھتے رہے۔
     "کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے سلطان ہمارا نہیں انکا بیٹا ہے۔"عائشے نے مراد کے کندھے پہ سر ٹکا کر کہا تو وہ ہنسنے لگا۔
"انھی کی اولاد ہے وہ۔ہم تو غلطی سے اسکے اصلی ماں باپ ہیں۔"
"اللہ رومائزہ اور میران بھائی کی جھولی بھی اولاد کی خوشی سے بھردے۔"مراد کے ساتھ عائشے صوفے پہ بیٹھ کر ان تینوں کو دور جاتا دیکھ دھیرے سے دعا دیتے بولی۔
"آمین۔"مراد اسکے برابر میں ہی ٹک گیا۔
"پتا ہے کل سلطان مجھے کہہ رہا تھا کہ ایک چھوٹی بہن چاہیے۔"مراد نے شرارت سے کہا عائشے نے گردن جھکا لی۔
"میرے بیٹے کا نام لے کر اپنی خواہش نا بتائیں۔"
مراد اسکی بات پہ ہنس دیا۔ٹیبل پہ گلاب کا پھول پڑا دیکھا تو مراد نے اٹھا کے عائشے کے بالوں میں سیٹ کردیا۔وہ جھینپ کر مسکراتے ہوئے اسکے پاس سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"یار عائشے جاؤ تو مت..چار سال ہوگئے پر تمھارا شرمانا وہیں کا وہیں ہے۔"مراد نے اسے روکا۔
"مجھے مام بلا رہی تھیں....آپ بیٹھ کر انتظار کریں۔"اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ آزاد کرکے آنکھیں پٹا پٹا کر کہتی وہ سیکنڈز میں غائب ہوئی تھی۔
                            ★ ★ ★
میران کی کلون کی مہک پہچان کر وہ ناراض سی پلٹی۔سلطان کو نظر انداز کرکے میران کو دیکھا تھا۔
"بڈی انھیں بولیں نا مدھ سے بات تل لیں۔"
"روممم.."
میران کی گود میں چڑھے سلطان نے رومائزہ کے دونوں گالوں پہ ہاتھ رکھ لیے۔وہ ٹکر ٹکر خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔
"شوری روم۔اب کسی شے بھی بدتمیزی نہیں کرونگا۔"آنسو سے لبالب نادم نگاہیں اس نے رومائزہ کی آنکھوں میں ڈالیں۔رومائزہ کا دل موم ہونے لگا۔
"ممی کو تنگ کروگے؟"
"بلتل نہیں۔"
"مٹی کھاؤگے؟"
"نہیں.."فوراً نفی میں سر ہلایا۔
"تو پھر آجاؤ میرے پاس۔"میران کی گود سے لے کر اپنی گود میں لیا اور چٹاچٹ اسکے بھرے بھرے گال چومے۔میران ہنستے ہوئے دیکھ رہا تھا اور رومائزہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اسکے نزدیک آگیا۔
"بڈی کہہ رہے تھے اگر آپکو ناراض کرونگا تو مجھے مار پڑے گی۔"اب وہ میران کی اس سے شکایت کرتے ہوئے بولا۔رومائزہ نے اسکے ہاتھ تھام لیے۔
"بڈی تو آپ سے بہت پیار کرتے ہیں پر آپ اس پیار کا غلط فائدہ اٹھانے لگے ہو۔"
وہ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر کے انھیں درست کرنے لگی۔
"آپکو پتا ہے آپ انار جیسی لگ رہی ہیں ریڈ ریڈ۔"سلطان نے اسکی گہری لپسٹک پہ ہاتھ مارا۔میران ہنسنے لگا۔
"روم روزانہ نیا فروٹ بن کر نکلتی ہیں۔"میران نے لقمہ دیا۔
"رئیلی؟"سلطان کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"کل آپ ایپل جیسی بننا۔تھیک ہے!"وہ کھلکھاتے ہوئے بولا۔"ہاں بھئی تھیک ہے.."رومائزہ نے اسی کے انداز میں نقل اتار کر جواب دیا۔
"آج میں آپ تے پاس رکونگا۔تھیک ہے بڈی؟ہم مووی بھی دیکھیں گے۔"چہک کر اس نے رومائزہ کی گردن پہ سر رکھا وہ لڑکھڑا کے اسے سنبھالتی ہنسنے لگی۔
"آرام سے بچے کہیں روم کو گرا مت دینا۔"میران نے سلطان کی پیٹھ تھپکی۔سلطان نے سر اٹھا کے رومائزہ کے بال کھنیچے اس نے منہ کھول کے اسے گھورا۔
     "پھر شروع شرارتیں...آؤ سفیر انکل کے پاس چلتے ہیں کیک کٹ کریں گے۔"اسے نیچے اتار کے نیچے رکھا سلطان نے رومائزہ کی انگلی تھام لی اور لڑک لڑک کے کودتا ہوا میران اور رومائزہ کے درمیان چلنے لگا۔
                          ★ ★ ★
سیریمنی سے فارغ ہوکے عائشے اور رومائزہ انوش کے پاس آئیں اور اسے پیچھے سے دونوں نے جالیا۔
"ہائے اللہ چڑیلیں چمٹ گئیں۔"آسمان دیکھ کر وہ ہنستے ہوئے ان دونوں کو خود میں بھینچ کر بولی۔
"آئیندہ ہم تم سے فیملی کی کوئی پارٹی آرگنائز نہیں کراویں گے۔تم عید کا چاند بن جاتی ہو مجال ہے جو شکل بھی آکر دکھا دو۔"رومائزہ نے اسکی پیٹ پہ مکہ جڑتے کہا تو وہ کراہ کر اسکی طرف پلٹی۔
"ماشاءاللہ تم دونوں تو پوری بجلیاں گرا رہی ہو۔"ایک ساڑھی اور دوسری کو فل گھیردار فراک میں دیکھ انوش نے رشک بھرے انداز سے کہا۔
"تم دونوں کو ایسے لشکارے مارکر تیار ہوتا دیکھ میرا بھی دل کرنے لگتا شادی کرلوں۔کم از کم میرا میاں میری تعریف تو کردیگا۔دوستیں تو جھوٹے منہ تعریف بھی نہیں کرتیں.."
"ببل گم کا چلتا پھرتا ریپر لگ رہی ہو تم۔"عائشے نے اسکا جائزہ لیتے کہا۔انوش نے ناک سے مکھی اڑائی۔
"چلو آج کہہ تو رہی ہو شادی کرنے کا دل کرتا ہے۔بتاؤ پھر میں تمھارے لیے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈوں؟"روما نے آنکھ دبا کر پوچھا۔
"میں تو چاہتی ہوں کوئی سالار سکندر ہی مجھے ڈھوندتے ہوئے آئے۔"
"انوش شٹ اپ پلیز۔پک گئی ہوں میں سالار سکندر کا نام سن سن کر۔"
"عائشے تم میرے کرش کو ایسے نہیں بول سکتیں۔"وہ مصنوعی غصہ کرتے بولی۔
"تم دونوں کے پاس میری شادی کے علاوہ کوئی ٹاپک نہیں؟ہر ایک نے میرا قسم سے سر کھالیا ہے۔یار میں ایسے خوش ہوں۔جب شادی ہونی ہوگی ہوجائے گی۔میں چاہتی ہوں کوئی آئے جو ڈنکے کی چوٹ پہ میرے اماں ابا سے رشتہ مانگے۔اور مجھ سے محبت کرے۔"وہ صاف بولی۔ان دونوں نے سر تھام کے اسے دیکھا اور آنکھیں جھپک لیں۔
"اللہ کرے کوئی اب آجائے تمھارے عشق میں گرفتار تڑپتا ہوا اور تمھارے قدموں میں بیٹھ جائے۔تبھی ہم تمھاری شادی کا لڈوں کھا سکیں گے۔"
انوش نے شادی کا معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیا تھا وہ ایسے شخص کا ساتھ چاہتی تھی جو اس سے محبت کرے اسے سپورٹ کرے۔
"میران بھائی جیسا کوئی مل جائے لائف سیٹ ہوجانی ہے۔جیسے وہ تمھیں سپورٹ کرتے ہیں اور تمھارے ساتھ پائے جاتے ہیں۔"رومائزہ کو چھیڑ کر وہ بولی۔
"میران نایاب ہے۔"رومائزہ نے فٹ کہا۔
"اوہو دیکھو تو سہی عائشے...بی بی سرکار کیسے اپنے سائیں ہیں محبت کی میں بول پڑیں۔"لب دبائے انوش نے شرارتی نگاہوں سے اسے دیکھا جو مسکرا رہی تھی۔
"پہلے اس نے مجھے یرغمال کیا تھا اور اب میرے دل کو بھی یرغمال کرچکا ہے۔"وہ ہنستے ہوئے بولی۔
"بس چپ ورنہ مجھے شدید سنگلز والی فیلنگز آجائیں گی۔"
"توبہ....چلو یار ایک تصویر تو لو۔"رومائزہ نے موبائل کا فرنٹ کیمرہ آن کیا اور ہاتھ اونچا کرکے ان تینوں کے ساتھ سیلفی لینے لگی۔وہ دونوں اسکے دائیں بائیں آکر چہرہ جوڑ کے مسکرا کر موبائل میں دیکھنے لگی۔اور یوں ایک دوستی کی ایک مزید نشانی اپنے پاس موبائل میں سیو کرلی۔عائشے کے ساتھ ان دونوں کی دوستی کو چھ سال ہوچکے تھے۔اور وہ مزید ایک دوسرے کے قریب آگئی تھیں۔
      عائشے ایک ہاؤس وائف تھی اور اسے ہاؤس وائف رہنا خوشی خوشی قبول تھا۔
انوش تو بزنس وومین ہوچکی اور اور رومائزہ اس نے میران کی بے جا سپورٹ پر سوشل ورکنگ شروع کردی تھی۔ساتھ ہی اسکا پینٹنگ کا مشغلہ جاری رہتا۔اسٹڈیز کے دوران اس نے خطاطی بھی سیکھی اور پینٹنگ میں مزید مہارت حاصل کرلی۔
اسکی پیٹنگ اب مہنگی قیمت پر سیل ہوتی تھیں۔رنگ بکھیرنے کی وہ ملکہ کہلائی جاتی تھی۔
وہ میران کے ساتھ اکثر منظرِ عام پر ہوا کرتی تھی پر ہمیشہ چہرہ ماسک کے پیچھے چھپا کے رکھتی تھی اسے اسکرین پہ آنا کچھ خاص پسند نہیں تھا۔
اسکی ذات میں بہت بدلاؤ آچکے تھے۔ایک باشعور سلیقہ مند عورت کی طرح اس نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں اور خود کو ان میں ڈھال لیا تھا۔وہ بنگلے کو بھی دیکھتی اور گلنار ہاسپٹل (جو میران نے گل کے نام پہ تعمیر کروایا تھا) کی ہیڈ تھی۔
                         ★ ★ ★
مہمانوں کے جانے کے بعد گارڈن خالی ہوگیا۔غضنفر فیملی بھی جا چکی تھی۔سفیر سب کو سی آف کرکے آیا۔
انوش کرسی پہ بیٹھے چکن اسٹیک کھا رہی تھی۔کھانے پہ کبھی جو اس نے کمپرومائز کیا ہو۔
سفیر اسے ڈھونڈتا ہوا اسکے پاس پہنچا۔اور ایک کرسی کھینچ کے اسکے مقابل آن بیٹھ گیا۔انوش نے چونک کے سر اٹھایا۔آخر کار انوش صاحبہ سے ملاقات ہوگئی تھی۔
"آپ نے کھانا کھا لیا؟اور ارینجمنٹس کیسی لگیں؟"انوش نے اسکی موجودگی میں پلیٹ ایک طرف ٹیبل پہ رکھ کے نگاہیں سفیر پہ ڈال کے پوچھا۔سفیر نے پلک جھپک کر جواب دیا۔
"شرماؤ مت کھاتی رہو۔"کالر لوز کرتے وہ بولا۔عجیب قسم کی خاموشی ان دونوں کے درمیان حائل تھی۔انوش نے آنکھوں کے ڈیلے گھومائے۔
"لگ رہا ہے تھک گئی ہو۔"اسکے چہرے پہ بجے بارہ دیکھ سفیر مبھم سا ہنس کر بولا۔وہ مسکرادی۔
"تھوڑا تھوڑا۔اس تھکن میں مزہ موجود ہے۔رات کو جب تھک کے لیٹو تو احساس ہوتا ہے کہ ہاں بھئی محنت کی ہے پھر ساری تھکن اڑن چھو ہوجاتی۔"پاس رکھے اسٹینڈ فین کی ہوا سے اسکے بال اڑ کے بار بار چہرے پہ آرہے تھے۔سفیر لب دبائے دیکھے گیا۔مسکرا کے اپنی ہتھیلی رگڑی۔
"تم نے شادی کیوں نہیں کی؟"بنا تمہید کے وہ مدعے پہ آیا۔انوش ٹھٹھک کر سیدھی ہوئی۔
"کوئی خاص وجہ نہیں۔آپ نے بھی تو نہیں کی۔"عام سے انداز میں کہا۔
"ہاں میں تو کسی کے انتظار میں ہوں۔"
"کس کے انتظار میں؟"انوش کو تجسس ہوا۔
"انتظار کچھ نہیں ہوتا۔اگر کوئی پسند ہے تو دل کی بات اس سے کر ڈالیں کبھی پتا چلے اسے کوئی اور اڑا لے جائے۔"انوش اسکی آنکھوں میں دیکھ کر  مشورہ دیتی بولی۔سفیر کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
"اور اگر اس نے میری پیش کش قبول نہیں کی تو؟"
"کیوں نہیں کرے گی؟ہمارے منڈے میں کوئی کیڑے لگے ہیں کیا؟اچھے خاصے خوش شکل ڈیسنٹ سے انسان ہیں آپ۔میں بات کروں اس سے کیا؟"وہ فوراً بے تابی سے بولی۔
"تم تو میری دوست ہو بھلا تمھیں میری برائیاں کیسے نظر آنی۔"وہ دونوں کہنیاں گھٹنوں پہ جما کر بیٹھ گیا۔نگاہیں انوش پہ مرکوز تھیں۔
"جی نہیں۔خیر ایک دوست ہونے کی حیثیت سے یہی مشورہ دونگی ان معاملات میں دیر نہیں کرتے۔جائیں کہہ دیں اس لڑکی سے....ایک منٹ پہلے یہ تو بتائیں وہ ہے کون؟"اپنی لاشعوری کا اسے خیال آیا۔آخر نام تو پوچھ لیتی جس کے لیے وہ بحث کر رہی تھی۔
سفیر نے کچھ وقت لیا۔لبوں پہ زبان پھیری۔
"انوش گلزار۔"ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سرسری سے انداز میں بولا۔انوش کی آنکھیں پھیل گئیں۔لب کاٹے وہ سیدھی ہوئی۔چہرے کی ساری شوخی غائب ہوگئی تھی۔سفیر نے سانس بھری اور پاکٹ سے ایک خوبصورت سی انگھوٹی نکالی۔
انگھوٹی سفیر کے ہاتھ میں تھی۔انوش یک ٹک ساکن نظروں سے دیکھے گئی۔
     "کیا مطلب؟"
دل کی بے ہنگم شور مچاتی دھڑکنوں کو خاموش کراکے اس نے پوچھا۔
     "اتنی عقلمند تو تم ہو،سمجھتی ہو میں کیا کہہ رہا ہوں۔"
     "پر.."انوش نے احتجاج کے لیے لب کھولے۔یہ چیپٹر تو وہ کئی سال پہلے بند کر چکی تھی۔اب سفیر کیوں کھول رہا تھا۔سفیر کو کبھی معلوم نہیں ہوا تھا انوش اسکے لیے کیا فیلنگز رکھتی تھی۔
"کیا پر؟بتاؤ مجھ میں کوئی برائی ہے؟"سفیر نے اسے لاجواب کردیا۔ایک ہاتھ انوش کے سامنے پھیلایا۔اور دوسرے میں انگھوٹی موجود تھی۔وہ اسکے جواب کا منتظر تھا۔انوش گہری سوچ میں چلی گئی۔
"یہ بات آپ میرے مام ڈیڈ سے کریں۔"
وہ صاف صاف بولی۔
"کرچکا ہوں۔اجازت ہے انکی طرف سے۔ناہید آنٹی تو چاہتی ہے جلد از جلد شادی ہو۔وہ تو کہہ رہی تھی یہ لڑکی بوڑھی ہوکر ہی شادی کرے گی۔"ماحول کی سنجیدگی کو ختم کرتے اس نے شرارتی نگاہوں سے کہا۔
"کوئی نہیں۔ابھی میں بلکل جوان ہوں۔"سفیر کے ہاتھ میں انگھوٹی کو دیکھ کر کہا۔سفیر اسے دیکھے گیا۔انوش نے بیگی جینس پہ پنک کلر کا ٹاپ پہنا تھا آدھے بالوں کا جوڑا بنائے اور باقی کرلز کرکے کھلے چھوڑ رکھے تھے۔
"میں سوچ کے جواب دونگی۔"اسکی لوو دیتی نظروں سے گھبرا کر وہ کھڑی ہوگئی۔سفیر چونک کر اسکے ساتھ ہی کھڑا ہوا۔
"ٹھیک ہے یہ انگھوٹی رکھ لو۔جس دن اسے پہن لوگی مجھے جواب مل جائیگا۔"وہ اطمینان سے بولا۔
"اور قیامت تک میں نے یہ نہیں پہنی تو؟"آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلنجنگ انداز میں کہا تو وہ ہنس دیا۔
"میں انتظار کرونگا۔"
"میں تمھیں پسند کرتا ہوں۔"ایک قدم بڑھا کے وہ قریب آیا۔انوش کی ہتھیلی پہ انگھوٹی رکھ دی۔وہ سناٹے میں کھڑی تھی۔دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔
"آپ مجھے پریشان کر رہے ہیں۔"اسکے قریب آنے پہ انوش نے نیچے دیکھ کر کہا۔
"میں منتظر ہوں۔"سفیر نے اسکی تھوڑی اٹھائی۔انوش کا منہ کھل گیا۔
"لمبا انتظار کرواؤنگی میں۔"
"ڈھائی سال سے کر رہا تھا اب بھی کرلونگا۔"وہ فاصلے پہ ہوگیا۔انوش نے انگھوٹی مٹھی میں بھینچ لی اور مسکراہٹ روکتی ایک نگاہ اس پہ ڈال کر آگے بڑھی۔
"بس اب انتظار کریں۔سوچ سمجھ کر میں جواب دونگی۔وقت سے پہلے امید مت باندھیے گا،سفیر احمد۔"جانے سے پہلے وہ پلٹ کر بولی۔سفیر نے دل کے مقام پہ ہاتھ رکھ کے سر خم کیا۔
یہ وہ چار سال پہلے والی نان سیریس انوش گلزار نہیں تھی جو عشق اور محبت پہ یقین کرکے خود کو انکے نام کردینا چاہتی تھی۔ہاں ہنسی مذاق اب بھی اسکی طبیعت کا حصہ تھا۔کہانیاں بھی وہ پڑھتی تھی۔پر پہلے کی طرح ان افسانوی باتوں سے یقین اٹھ گیا تھا۔اسے احساس ہوگیا تھا زندگی میں صرف محبت ہی سب کچھ نہیں۔انسان کو اپنے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔
سفیر نے اسے اپنی ٹیم کے پاس جاتے دیکھا۔اور کچھ ہی لمحوں میں وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی۔
ایک نگاہ اس نے پھر اپنی انگلی کے پوروں کو دیکھا پھر مسکراتا ہوا سر میں ہاتھ پھیر کے نکل گیا۔
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
                              ★ ★ ★
      رومائزہ کی طبیعت کچھ دنوں سے بوجھل سی ہورہی تھی آج میران اسے چیک اپ کیلئے ہاسپٹل لے گیا تھا۔لیڈی ڈاکٹر ںے رومائزہ کا چیک اپ کیا۔وہ بے چینی سے انکے جواب کا منتظر تھا۔
ڈاکٹر نے پہلے تو تمہید باندھی پھر میران کی بے چینی پہ ہنستے ہوئے اسے دیکھا۔
"مبارک ہو میران صاحب۔آپ بابا بننے والے ہیں۔"
ڈاکٹر نے گہری مسکراہٹ سے بتایا تو وہ ٹھنڈا پڑگیا۔بے یقینی سے رومائزہ کو دیکھا جو دوپٹہ ٹھیک کرتی بیڈ سے اتر رہی تھی۔وہ ہنسنے لگی۔میران کے چہرے پہ زبردست قسم کی مسکراہٹ جمع ہوگئی۔اسکا نکھرا ہوا روپ دیکھا۔
"تھینک یو ڈاکٹر۔"وہ کھڑا ہوا اور رومائزہ کو خود سے لگالیا۔کان ترس گئے تھے ان دونوں کے اس خوشخبری کیلیے۔چار سال کم تو نہیں تھے۔وہ مسکرا کے اسکے کندھے پہ سر ٹکا گئی۔میران نے بغیر ڈاکٹر کا احساس کیے اسکا ماتھا چوما۔
اور ان دونوں کی نگاہیں ٹھاٹھیں مارتے محبت کے طوفان سے ٹکرائیں۔اور آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ کر مسکراتے چلے گئے۔
                                      ختم شد!!!
Un tamam logo ka shukriya jo is journey mai sath rhy..

Yeh novel mai apni aik piyari si dost k naam krti hun..jiski khuwahish pr mene isy likha..
Wo chahti thi Romaiza yani usky naam ki heroin hu..
She is real Romaiza Azher!but wait..novel's story is totally based on fiction!ayeshy anoosh or romaiza urfi rumi Meri doston k naam jo mene utha k rkh diye

Anoosh or rumi ka shukriya bhi ada krongi..dono ny Meri bht help ki..yeh mukhtasr sa plot tha likhny bethi tu bara hogaya..qk behn ko sb achy se likhna tha.. kuch ghltiyan zaror hongi maaf kriye ga unhy..

Wattpad ny bht khon jalaya nera.. audience sari pdf py shift hogai..isky masly hi alag hain..kher sb ny bht piyar dia..bht shukriya..
EID MUBARAK ♥️
Must vote and comment..

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now