قسط 16 محراب

515 60 11
                                    

                          ★ ★ ★
رش پہ جگہ جگہ راکھ اور کئی جلی ہوئی سگریٹ پڑیں تھیں انھیں پینے والا بھی خیالوں میں غرق قریبی بامبو کی کرسی پہ بیٹھا،جوتوں میں قید پیر میز پہ رکھے سیگریٹ سے بنتے مرغولے اڑا رہا تھا۔
مرکزِ نگاہ آسمان جب کہ سوچِ مرکز..
رومائزہ شنواری!
ٹہھروں نا گلی میں تری وحشت نے کہا تھا
میں  حد  سے گزر جاؤں محبت نے کہا تھا
    اسکے دل میں ٹھیسیں اٹھ رہی تھی۔رومائزہ کی آنکھوں میں بے اعتنائی زہن سے نکلتی نہیں۔اس ظالم کے لفظ دل میں چبھ رہے تھے۔اس لڑکی سے محبت نہیں عشق تھا اور وہ اس سمندر کی گہرائی میں پورا ڈوب گیا تھا۔اسکی چاہ اسکا حصول ہی اسکا اگلا قدم تھا۔فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا اب وقت عمل کا تھا۔
غصہ بھی بہت تھا پر اب تھم گیا تھا زہن میں اسکا سراپا لہراتے ہی لبوں پہ خوبصورت مسکراہٹ بکھری۔
زیرک انداز سے اس نے چاند پہ نظر ڈالی۔آنکھوں کے گرد بل پڑنے لگے،نظریں کچھ عجیب سی تھیں زہن میں جیسے کچھ چل رہا ہو۔
گویا رومائزہ کی بے اعتباری کا جواب دینے کی سوچ...!
گویا مستقبل کو سوچ کر آجانے والی لبوں پہ مسکراہٹ۔
میز سے پیر ہٹا کے کرسی سے کھڑا ہوا اور چھت کے کنارے پہ جاکے ایک ہاتھ کی ہتھیلی دیوار پہ جما کے اس نے باغ پہ نظر گھمائی۔
دھند کی بدولت منظر میں دھندلاہٹ تھی۔
پلر کے ساتھ ہی عزیز شمس کے ساتھ کھڑا تھا۔وقفے وقفے سے اسکے لب ہل رہے تھے۔میران نے نگاہ پھیر لی۔موسم میں میٹھی میٹھی چاشنی تھی،ٹھنڈی ہوا جسم کو چھوتے ہوئے وجود میں لگی آگ کو ٹھنڈا کر گئی تھی۔
دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں جو سیگریٹ جکڑ رکھی تھی نیچے پھینکی اور زمین پہ دیکھتے ہوئے سیگریٹ کو پیر سے مسل دیا۔جبڑے کس گئے۔چہرے پہ سنجیدگی قائم تھی۔اس نے آنکھیں بند کرکے گہری سانس اندر اتاری روح میں الگ قسم کی تقویت سرائیت کر گئی۔پلکیں اٹھا کر اس نے سانس باہر چھوڑا اور حسبِ عادت ناک انگلی کی پشت سے رگڑ کر چھت سے نیچے کی طرف بڑھ گیا۔
                           ★ ★ ★
ایک دن کے وقفے سے اگلے دن نیمل آفس گئی تھی۔کچھ پیپرز اس نے فائل کوور میں رکھے اور اپنے کیبن سے نکل کے دائم کے آفس کی جانب بڑھ گئی۔چہرہ اور اندازِ چلن پر اعتماد تھا۔وہ دروازے کے باہر آرکی۔
دروازے پہ تختی لگی تھی دائم علی کے نام کی۔ ایک بار اس نے زیرِ لب پڑھی۔
"مے آئی کم ان سر؟"آنکھیں چڑھا کے اس نے پوچھا۔
"یس کم ان۔"کچھ دیر بعد اندر سے بھاری مردانہ آواز آئی۔وہ شیشے کے پار سے اچک کے دیکھ چکی تھی کہ وہ ٹیبل کے کنارے پہ ٹک کے بیٹھا موبائل فون پہ کسی سے بات کرنے میں مصروف ہے۔لاک گھما کے وہ اندر آگئی۔دائم کا چہرہ داہنی دیوار پہ کھڑکی کی طرف تھا۔جہاں سے دھوپ اسکے چہرے پہ پڑ رہی تھی اور پھر گزرتے ہوئے نیمل پر..
اس نے چہرہ پھیر کے نیمل کو دیکھا جو فائل کوور ٹیبل پہ رکھ رہی تھی۔وہ مزید آگے ہوا دھوپ اسکی پشت پہ رک گئی۔کان سے فون ہٹا کے ٹیبل پہ رکھ دیا۔
"ریزائن دینے آئی ہیں کیا؟"وہ اسی پوزیشن میں بیٹھا مخاطب ہوا بس فرق یہ تھا کہ وہ اسکی طرف مڑ گیا تھا۔نیمل نے دانت پیسے۔
"نو سر۔یہ ریکارڈز میں نے پڑھ لیے ہیں سب ٹھیک ہیں۔"
"اوکے۔ایک کام کریں ان دو فائلز کو بھی ایک بار پھر چیک کرلیں۔"اس نے اپنی سربراہی کرسی کے پاس رکھی دو فائلز اور اٹھا کے اسکے سامنے کیں۔نیمل کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"سر..."
"جی؟کوئی مسئلہ ہے آپکو؟"
"آف کورس!یہ پچھلے سال کے ریکارڈز ہیں۔"اس نے پہلا صفحہ پلٹ کر سر اٹھایا۔
"آپکو جو کہا ہے وہ کریں۔اور بہت نان پروفیشنل انداز ہے کام کرنے کا آپکا۔یہ دیکھیں اور سیکھیں!"وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کوٹ درست کرتا اسکے سامنے ہی اپنی ریوالونگ چئیر پہ بیٹھ گیا نیمل کا چہرہ اتر گیا تھا۔
وہی جانتی تھی ان موٹی فائلز میں کتنی متھا ماری کرنی پڑے گی۔
"مجھے آج پانچ بجے تک آف چاہیے۔"ہمت کرکے اس نے کہہ دیا۔دائم کے تاثرات آج کافی بدلے بدلے تھے۔
"ابھی آپکو جوائن کیے دن ہی کتنے ہوئے ہیں؟کبھی آپ کو لیوو کبھی ہالف ڈے اور کبھی ریزائن!"اوہ تو طنز مار رہا تھا۔
"میں آپکے طعنے سننے کی سیلری نہیں لیتی۔"اسکا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔دائم کہنیاں ٹیبل پہ جمائے اسے دیکھنے لگا۔
"یہ ریکارڈز شام تک کمپیوٹر پہ چڑھادیں پھر آپ جاسکتی ہیں۔آپکو ایکسپیرینس نہیں ہے آہستہ آہستہ سب سیکھ جائیں گی۔"اسکے چہرے پہ صرف سنجیدگی تھی۔نیمل نے ہاتھ میں پکڑی فائل دیکھی اور حلق میں اٹکی گٹھلی سٹک لی۔جب وہ پہلا انٹرویو دینے آئی تھی اس نے بتادیا تھا اسے جاب کا بلکل ایکسپیرینس نہیں ہے۔انٹرویو بھی خاص نہیں گیا تھا پھر بھی اسے جاب مل گئی تھی۔جس پہ خوش ہونے کے ساتھ تھوڑی حیرت بھی ہوئی تھی۔
"آپ میری مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔"سرخ کانوں سے دھواں نکل رہا تھا۔
"آپکو کام کرنا بھی ہے کہ نہیں؟یا صرف اپنے ایڈوینچر کے لیے آپکو میرا ہی آفس ملا؟"اب کی بار دائم کے لہجے میں غصے کی جھلک عیاں ہوئی۔
"مجھے کام کرنا ہے پر آپ کئی دنوں سے مجھ سے یہی سب کروا رہے ہیں۔میں پاگل دکھتی ہوں جو ری ریڈ فائلز پھر پڑھتی جاؤں!"
یہ فائل جو اسے ملی تھی ایک بار وہ پہلے ہی پڑھ چکی تھی۔اب کی بار اسکے لہجے میں سختی آگئی۔
"بی ہیو یور سیلف آپ میرے آفس میں کھڑی ہیں۔اگر ایسے ہی کام کرنا ہے تو اپنے بابا کے آفس میں کام کریں۔میں اپنے کام میں کوتاہی برداشت نہیں کرتا۔فائلز پڑھوانے کا مقصد یہی تھا کہ آپ طریقہِ کام جان جائیں۔امید کرتا ہوں اب تک آپ سمجھ گئی ہونگی سب!"وہ لفظ جما جما کے بولا نیمل کو کہاں کسی کی اتنی سننے کی عادتیں تھیں۔
اسکی آنکھوں میں پانی بھر گیا۔دائم یک دم گڑبڑا اٹھا۔اور ٹشو پیپر کا باکس اسکی طرف بڑھا دیا۔نیمل نے ٹشو کھینچ کے آنکھوں کا پانی صاف کیا۔
"سوری وہ دھوپ کی وجہ سے پانی آگیا۔"دائم کا متفکر انداز یک دم ٹھنڈا پڑا اس نے کھڑکی سے آتی دھوپ کو دیکھا۔
"مجھے سارا کام سمجھ آگیا ہے اگر آپ مجھے اس قابل سمجھیں تو اسکے علاوہ وہ کام دے دیں جس لیے مجھے ہائر کیا گیا ہے!"وہ آنکھیں جھپکا کر بولی۔دائم نے موبائل سائیڈ بٹن سے کھول کے وقت دیکھا۔
"شیور۔شام پانچ تک آپ جاسکتی ہیں۔پر کام مکمل کرکے۔"اپنی بات مکمل کر اس نے لب ملا لیے۔نیمل کی شکل اتر گئی۔وہ دل ہی دل میں اسے کوس رہی تھی۔جب وہ واپس نا مڑی تو دائم نے سوال کیا۔
"کیا کوئی خاص کام ہے؟"لہجے میں بے چینی سی تھی۔
"ہاں سسرال والے آرہے ہیں۔"وہ بے چارگی سے بولی دائم کے پیروں سے زمین کھسکی۔بھونچکا کے اٹھ کھڑا ہوا۔
"آر یو اینگیجڈ؟"اس نے حیرت چھپا کے پوچھا نیمل نے چونک کے اسے دیکھا۔
"نو سر۔میرے بھائی کے سسرال والے آرہے ہیں۔گھر میں دعوت ارینج ہے بس اسی لیے جلدی جانا ہے۔"اس ںے تفصیل سے بتایا تو دائم کو سانس آئی۔
"تو پھر ٹھیک۔اے ایس پی صاحب کے سسرالی؟"
"جییی سر!"جی پہ زور دیتے کہا جانے کے لیے پلٹی تھی دائم نے چاکلیٹ باکس اسکی طرف بڑھایا اس نے انکار کردیا۔
"تیھنکس۔پر مجھے چاکلیٹ نہیں پسند۔"کہتے ساتھ بھی اس نے گولڈن فوائل میں پیک دو چاکلیٹ بالز اٹھا لیں۔
"جب ہی اتنی کڑوی ہو۔"وہ بڑبڑایا اور باکس اپنے سامنے رکھ کے ایک چاکلیٹ خود نے بھی اٹھائی۔
"آپ نے کچھ کہا؟"
"نہیں۔"اسکی نگاہ اسکی مٹھی میں قید چاکلیٹ پہ تھی نیمل نے جیسے اسکی سوچ پڑھی ہو۔
"یہ فلزہ اور ادھیم کے لیے!"مسکرا کے بتا کر وہ پلٹ گئی۔دائم بس اسکے سحر میں جکڑ گیا تھا۔
کتنا ہی اسکے سامنے سخت رہتا پر نرمی آہی جاتی تھی۔نیمل کے جانے کے بعد اس نے ریپر کھول کے چاکلیٹ بال منہ میں رکھ لیا۔
                               ★ ★ ★
     "سر آپ نے مجھے بلایا؟"بزنس مینجر شہزاد صاحب اسکے آفس میں آئے تھے۔انگریزی میں مخاطب ہوئے تھے۔میران نے سر اٹھایا۔
"جی،آپ نے اٹلی کی ٹکٹس کنفرم کردیں؟"جواباً اس نے بھی انگریزی میں ہی استفسار کیا شہزاد صاحب گڑبڑائے۔وہ واپس لیپ ٹاپ پہ جھک گیا تھا تیزی سے انگلیاں حرکت میں تھیں۔
"آئی ایم سوری سر میں بھول ہی گیا۔"
"ٹھیک ہے آپ دو ٹکٹس بک کروادیں۔"اس نے مصروف سے انداز میں کہا شہزاد صاحب 'اوکے سر' کہتے سر اثبات میں ہلا کے آفس روم سے باہر نکل گئے۔
                           ★ ★ ★
انوش شنواری ہاؤس کے دروازے پہ پچھلے دس منٹ سے کھڑی تھی پر اندر سے کوئی رسپانس نا ملا۔وہ انکل اور رومائزہ کی خیریت دریافت کرنے آئی تھی۔
اس نے احتشام انکل کو کال ملائی گھنٹی جا رہی تھی پر کوئی کال اٹھا نہیں رہا تھا۔اس وقت کالونی میں بھی سناٹا تھا۔تھک ہار کے وہ واپس اپنی گاڑی کے پاس آگئی۔آگے سیٹ پہ ڈرائیور بیٹھا تھا۔پچھلی سائیڈ کا دروازہ کھولا سامنے سیٹ پہ چاکلیٹس اور کافی چیزیں رکھی تھیں اسکے ذہن میں کچھ دیر پہلے کا منظر گھوم گیا۔یونی سے آف کے بعد وہ مال گئی تھی اور تب کسی سے اسکا سامنا ہوا تھا۔بے اختیار سوچ تھی جھٹک کے وہ واپس بیٹھ گئی۔
   ہاتھ میں اشیاء سے لیس باسکٹ پکڑے وہ بل پیمنٹ کے لیے کاؤنٹر کے پاس آگئی۔لمبی قطار بنی دیکھ اسے کوفت ہوئی تھی۔درمیان میں ہی کہیں جگہ بنا کے وہ گھس گئی۔کسی کی نظروں کے عقاب سے بچ کے وہ یہاں آئی تھی۔
جب کاؤنٹر پہ اس نے پیسے بڑھائے تو برابر والی لائن میں وہی پروقار سا بندہ آفس ڈریسنگ میں کھڑا تھا۔
اس نے انوش کو دیکھ کر سمائل پاس کی اس نے لب پیوست کرلیے۔پیمنٹ پے کر کے وہ باہر کی طرف بڑھ گئی اسکے قدم اچانک رکے جب وہ راستے میں حائل ہوا۔انوش کی بڑی آنکھیں مزید پھیل گئیں۔دائم جیب میں ہاتھ ڈالے اسکے ساتھ چلنے لگا وہ پریشان ہورہی تھی۔
پہلی ملاقات کچھ خاص نہیں تھی اس لیے اس سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی۔پہلے انوش میٹل ڈیٹیکٹر سے گزری اسکے پیچھے دائم۔مال کے دروازے کو دھکیلتی وہ باہر نکلی سیڑھیاں اتر رہی تھی تب بھی وہ اسکے پیچھے تھا۔وہ تیوری چڑھا کے اسکی طرف پلٹی تھی۔
"کیا مسئلہ ہے لڑکی کو چھیڑ رہے ہو،ابھی شور مچا کے سب کو بلا لونگی۔"اس نے غصے سے کہا دائم کو جیسے فرق نا پڑا۔
"میں یہ بات پروف کردونگا میں نے کوئی چھیڑ خانی نہیں کی۔صرف ساتھ ہی تو چل رہا ہو۔"
"کیوں بھئی کیوں چل رہے ہو؟"وہ جھنجھلا کے بولی۔
"کیونکہ میں میران کا بھائی ہوں۔"
"اوہ کین یو پلیز شٹ آپ؟سگے بھائی نہیں ہو۔خیر آئی ڈونٹ کئیر۔میرے راستے میں اب مت آنا ورنہ میرے شوز ہی تمھارے لیے کافی ہیں۔"دائم نے بے ساختہ اسکے پیروں کی طرف دیکھا۔سفید موٹے اسنیکرز تھے بے ساختہ اسے جھرجھری سی آگئی۔
"مجھے تمھارا نمبر چاہیے۔"بغیر بات لمبی چوڑی کیے وہ مدعے پہ آیا انوش نے بھنوو اچکائی۔وہ چونکی ضرور تھی۔
"زیرو تھری ٹو ون جب ملاؤ تب بند۔منہ توڑدونگی اگر آئندہ نمبر مانگا تو۔"زبان کی لگام اس نے ڈھیلی چھوڑ دی۔
"مادام مجھے آپکی ہیلپ چاہیے اس لیے نمبر مانگ رہا ہوں۔"
"اور مجھے آپکی کوئی ہیلپ نہیں کرنی!ایدھی سینٹر نہیں کھول رکھا میں نے۔"وہ صاف منع کرتی سیڑھیاں اتر گئی اور فٹ سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔دائم چبھتی نگاہ سے اسے دیکھتا رہ گیا تھا پھر سر جھٹک کے نفی میں سر ہلاتا پارکنگ میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
                   ___________________
"میں نے انھیں بہت سمجھایا تھا گھر کے کام وغیرہ سیکھ لیں پر ہماری صاحبزادی نے بھی قسم کھائی ہوئی تھی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہی کچن میں قدم رکھیں گی۔پر عائشے ہیں ہونہار چیزیں جلدی پک اپ کرلیتی ہیں۔"انعم آنٹی زرپاش کو بتا رہی تھیں جو مسکرا کے سن رہی تھی۔
"ہاں ماشاءاللہ کچن میں اب مجھے زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی ایک بار ہی سب بتایا تو یہ سمجھ گئی۔اور کھانا بنانا بھی سیکھ جائیگی۔پہلی کوشش بھی بری نہیں کی تھی۔"یہ لفظ زرپاش کے تھے؟عائشے کی سماعت کو یقین نہیں آیا وہ سن رہ گئی دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔وہ دونوں سامنے بڑے صوفے پہ ساتھ بیٹھی تھیں اور عائشے سنگل صوفے پہ۔جینٹس حضرات باہر لان میں تھے۔مراد تو اسکے مطابق پتا نہیں کدھر مصروف ہوتا تھا آج بھی اسے عائشے نے تاکید کی تھی جلدی آنے کی۔وہ اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔چہرے پہ ہلکا سا میک اپ اور لال نیمل کی خریدی ساڑھی میں ملبوس تھی۔انعم تو اسے دیکھ کر واری جارہی تھیں۔
نیمل نے ہی اسے کہا تھا وہ ساڑھی پہن لے۔جب عائشے نے انکار کردیا تو اس نے زرپاش کے منہ سے یہ بات کہلوادی۔انکے ایک بار کہنے پہ بنا چوں چراں کیے اس نے ساڑھی پہن لی تھی۔ہاتھ میں مراد کی پہنائی انگھوٹی تھی۔بہت سادھا سی تیار ہوئی تھی بس آنکھوں کا میک اپ لائٹ سموکی تھا شانوں پہ سیاہ بال کھلے تھے۔
انعم بہت خوش تھیں انکی بیٹی کافی اچھے طریقے سے رہ رہی تھی انکو اسکے علاوہ اور کسی چیز سے کیا سروکار۔عائشے نے انکو سسرالی معاملات سے بے خبر ہی رکھا تھا۔زرپاش صاحبہ بھی انعم سے مل کر خوش تھیں دونوں خواتین کی آپس میں کافی بن رہی تھی۔اور زرپاش کے منہ سے اپنے لیے جھڑتے پھول دیکھ عائشے حیرت میں مبتلا تھی۔ایک تو انکا گفتگو کا انداز بہت ڈیسنٹ تھا جو اسے بہت متاثر کرنے لگا تھا جب کہ اسکی ماں کا بھی سلیقہ مند انداز تھا۔
عائشے صرف انکی باتیں سن کے مسکرا رہی تھی لاؤنچ میں مراد یونیفارم میں ملبوس داخل ہوا۔اس نے سلام کیا اور انھی کے درمیان آگیا۔اس نے سر جھکایا انعم نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔وہ عائشے کے برابر والے صوفے پہ جاکے بیٹھا گیا انعم اور زرپاش سے کچھ مکالمات کا تبادلہ ہوا۔پھر عائشے کو روم میں آنے کا کہہ کر اٹھ گیا۔
عائشے کمرے میں گئی اسے ڈر تھا آج بھی اسکے آنے سے پہلے اس نے کپڑوں کا انبار باہر نا لگا دیا ہو۔
"آپ فریش ہوجائیں میں آپکے کپڑے نکال دیتی ہوں۔"اسکے آگے سے ہی وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھنے لگی۔مراد نے اسے بازو سے پکڑ کے روکا اور اسے اپنے سامنے کیا۔
"کیا پہنا ہے یہ؟"اس نے ناسمجھی سے مراد کو دیکھا لب تر کیے۔
"ساڑھی ہے۔"اسکی آنکھوں میں دیکھتے بولی۔
"کپڑے ختم ہوگئے ہیں جو یہ پہن لی؟ساڑھی ہی رہ گئی تھی کیا پہننے کو۔"وہ اسکے چہرے پہ تھوڑا سختی سے جھکا عائشے گڑبڑائی۔کچھ کہنے کے لیے اس نے لب کھولے تھے کہ مراد بول اٹھا۔
"اچھی لگ رہی ہو۔"کان میں کہہ کر وہ دور ہوگیا۔عائشے نے سانس بحال کی۔ایک پل کو اس نے عائشے کی جان نکال دی تھی بری طرح وہ چڑی اسکے ہاتھ پہ مکہ مار کے اپنا بازو چھڑایا مراد ہنستا ہوا پلٹ گیا اور وہ اسکے کپڑے نکال کے واپس باہر چلی گئی۔
    کھانے کا دور چلا اس سے فارغ ہوکے سب لاؤنچ میں ہی واپس آگئے۔معین اور انعم سے مل کر دمیر فیملی کافی خوش تھی۔عائشے اور زرپاش کے درمیان کچھ ہچکچاہٹ تھی اگر وہ ختم ہو جاتی تو عائشے کہہ سکتی تھی اب سب نارمل ہوگیا ہے۔پر وہ کافی حد تک زرپاش کو متاثر کرچکی تھی۔
"مراد کی بڑی بہن اور ہے سجل...میں نے انوائیٹ کیا تھا پر کچھ مصروفیات کی وجہ سے وہ آ نہ سکی۔"زرپاش اور انعم سے ہی باتیں کر رہی تھی۔مرد حضرات کے درمیان سیاسی موضوع چھڑا تھا۔
نیمل اور عائشے دونوں موبائل میں سر دیے ہوئے تھیں۔نیمل نا جانے اسے کیا دکھا رہی تھی جس پہ عائشے کا ہنس ہنس کے برا حال ہوگیا تھا کافی دیر اس نے اپنی ہنسی پہ کنٹرول کیا تھا۔ہنسنے سے اسکی آنکھوں میں پانی تک آگیا۔مراد نے چونک کر اسے اتنا ہنستے دیکھا ساتھ میں بہن بھی ہنس رہی تھی اس نے واپس چہرہ پھیر لیا۔
"بھابھی جان اتنا مت ہنسیں آنسوؤں سے آئی شیڈ خراب ہوجائیگا۔"نیمل نے اسے ٹوکا کیونکہ آئی میک اپ اسی نے کیا تھا عائشے نے بس آنکھوں پہ لائنر لگا کے چھوڑ دیا تھا۔وہ محترمہ بہت دیر سے ان کیل کانٹوں سے لیس مراد کو پریشان کر رہی تھی۔ہاں وہ زچ ہی ہورہا تھا۔اے ایس پی کو اسکی بیوی نے چاروں شانے چت کردیا تھا۔نکاح کے وقت اسکے گمان میں بھی نہیں تھا وہ اسکا یوں عادی ہو جائے گا!
     "نیمل تم دیکھ رہی ہو امی اور آنٹی کی باتیں ختم نہیں ہورہی ہیں۔"عائشے نے ٹشو کی نوک سے آنکھوں کے گرد بھرا پانی صاف کیا۔نیمل اسکی بات پہ ہنسنے لگی آنکھیں چھوٹی کیے دونوں خواتین کو دیکھا۔
"مام کو آپکی فیملی بڑی پسند آئی ہے۔میری مام بری نہیں ہیں بس حالات ایسے بن گئے اور انھوں نے آپکے ساتھ زیادتی کردی۔"نیمل کے کہنے پہ عائشے نے لب بھینچ لیے۔
"مام ہم بھی بیٹھیں ہیں ہمیں بھی گفتگو میں شامل کرلیں۔"وہ بول ہی پڑی عائشے نے اسے گھورا۔زرپاش کی سماعت سے اسکی بات گزری انھوں نے اطمینان سے دیکھا۔
"آپکو موبائل پہ کھی کھی کھی کرنے سے فرصت مل جائے تو ضرور۔"انکا جواب سن کر عائشے ہنسی دبانے لگی نیمل نے آنکھیں چڑھا کے اسے دیکھا۔
"ہنسیں آپ پھنسوں میں۔واہ بھئی۔"ابھی وہ شکوہ بھری نظروں سے کہہ رہی تھی کسی کی پرجوش آواز لاونچ میں گونجی۔
"اسلام و علیکم خالہ۔"محمل اندر صوفوں کے پاس آئی۔تینوں خواتین کے چہرے پہ سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔
"امی کو دیکھو زرا کیسے خوش ہوکے اس چڑیل سے مل رہی ہیں۔اللہ اللہ یہ کرنے کیا آئی ہے۔"انعم بیگم کے مصافحے پہ سوچ میں بڑبڑارہی تھی۔مراد باتوں میں مصروف رہا تھا محمل پہ توجہ ہی نہیں ڈالی۔
"کیسے آنا ہوا بیٹا؟"خالہ اپنی بھانجی پہ نچھاور ہی ہوجاتی تھیں وہ مسکرائی۔
"کیا میں آ نہیں سکتی۔مجھے نہیں پتا تھا آپکے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں۔پر مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے کچھ دکھانا ہے۔"زرپاش اسکو بتاتیں کہ عائشے کی فیملی آئی ہے وہ پہلے ہی اپنی بات مکمل کرکے خاموش ہوئی۔ایک نگاہ اس نے عائشے کو دیکھا...عائشے کو اسکے تیور بھلے نہیں لگ رہے تھے۔پچھلی بار وہ ویسے ہی دھمکی دے کر گئی تھی جسے عائشے نے رتی بار سیریس نہیں لیا تھا۔
"بعد میں دکھا لینا۔"نیمل نے عائشے کا ہاتھ تھامے کہا محمل کے چہرہ اب بے تاثر تھا اس نے اسکا ہاتھ دیکھا جو عائشے کے ہاتھ پہ تھا۔
"یہ عائشے کی امی ہیں اور وہ والد صاحب ہیں۔"
زرپاش نے انکا تعارف کروایا محمل چونک گئی۔اس نے بے یقینی سے خالہ کو دیکھا۔یعنی وہ عائشے کو بہو تسلیم کر چکی تھیں گھر میں دعوتیں چل رہی تھیں۔اس لڑکی نے اسکا حق مارا تھا اور اب خالہ اسی کے گن گاتیں سوچ کر وہ سلگ گئی۔بدلہ بدلہ اندر بس یہی لفظ سرائیت کرنے لگا تھا۔
"یہ میری بھانجی محمل ہے۔"انھوں مسکرا کے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھا انعم نے پلکیں جھپکائیں۔بے حد خوبصورت لڑکی تھی وہ۔
محمل جس ارادے سے آئی تھی مہمانوں کو دیکھ اس نے ارادہ ترک کیا تھا،پر یہ جاننے کے بعد کے عائشے کی فیملی بھی موجود ہے اسکے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ رینگ گئی۔یہی اچھا وقت تھا۔
اس نے موبائل نکالا سب واپس باتوں میں محو تھے پر عائشے کا دھیان اسی پہ تھا اسکی سانسیں اٹک گئی تھیں۔محمل نے فون آن کرکے موبائل زرپاش کے سامنے کیا۔
اسکے موبائل سامنے کرنے پہ وہ چونکیں پر جب اسکرین پہ دیکھا تو انکا دم سن ہوگیا۔یک دم ماحول میں خاموشی چھائی تھی۔اور پھر محمل نے اپنا زہر اگلنا شروع کیا۔
"یہ ہے آپکی بہو کی اصلیت۔اس نے مراد کو بھی ایسے ہی پھنسایا ہوگا۔یہ دیکھیں یہ لڑکا کیوں اسکے اتنا قریب آتا ہے۔"وہ تصویریں ایک بعد ایک دکھارہی تھی۔زرپاش کچھ بولنے کے قابل نا رہیں۔انعم اور معین کے چہرے کا رنگ اڑا سب جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔عائشے نے بے اختیار مراد کو دیکھا۔
انعم نے موبائل اسکے ہاتھ سے جھپٹ کے تصویریں دیکھیں انکے پیر لڑکھڑائے۔معین کے دل پہ بوجھ بڑھ رہا تھا۔اور پھر آہستہ آہستہ محمل نے سب کو یہ تصویریں دکھا دیں۔
نیمل کے ہاتھ میں موبائل تھا عائشے نے قریب ہوکے تصویریں دیکھیں۔کسی میں ہمایوں نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا ایسے ہی اتنی ٹائمنگ میں تھوڑی بہت حرکت ہوتی دو تین اور تصوریں تھی۔ایک میں وہ بلکل اسکے چہرہ پہ جھکا محسوس ہو رہا تھا۔عائشے کا سر گھوم گیا۔
"میری بیٹی ایسی نہیں ہے یہ جھوٹی تصوریں ہیں۔"انعم نے فوراً عائشے کی طرف داری کی وہ سن کھڑی تھی تصوریں اصلی ہی تھیں۔اسکے رونگھٹے کھڑے گئے۔کوئی بھی یہ تصوریں دیکھتا تو وہی مطلب نکالتا جو محمل نے نکالا تھا۔
"آنٹی یہ ساری اصلی تصوریں ہیں۔پوچھیں اپنی بیٹی سے یونی میں کیا گل کھلاتی پھرتی ہے۔اتنا اچھا سسرال مل گیا ہے آزادی کا غلط فائدہ اٹھا رہی ہیں محترمہ۔"وہ طنز کے تیر برسا رہی تھی۔عائشے کی عزت سب کے درمیان اس نے دو کوڑی کی کردی تھی۔کسی کے پاس بولنے کو کچھ نا تھا صرف محمل تھی جو بولے جارہی تھی۔
"امی میں نے کچھ نہیں کیا۔بابا۔"اس نے بڑی آس سے انھیں دیکھا اور یقین دلانا چاہا آواز ڈگمگائی تھی۔محمل نے نیمل کے ہاتھ سے فون لے لیا۔
"عائشے یہ سب کیا ہے؟"زرپاش نے سختی سے پوچھا وہ کانپ گئی۔
"کیا یہ سچ ہے؟"
عائشے نے آنسو اندر اتارے۔وہ نفی میں سر ہلاتی رہی۔
"یہ کیا بتائے گی۔یہ لڑکا ہمایوں ہے اسکا کلاس فیلو اور دونوں کا اف فئیر..."
"بکواس بند کرو اپنی۔"نیمل اس پہ چیخی اسکا جملہ ادھورا رہ گیا۔
"میری بہن مجھے خاموش کرواکے کیا ملے گا اپنی بھابھی کے کرتوت کیسے چھپاؤگی؟"وہ تمسخر سے بولی۔عائشے صوفے پہ گری تھی۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا وضاحت دے۔ہمایوں قریب تھا اسکے۔اس نے موقعے کیسے فائدہ اٹھایا۔
مراد جو کافی دیر سب کی سن رہا تھا محمل کی طرف بڑھا اور موبائل لیا۔
عائشے نے آس بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔اسکے تصویریں دیکھنے کے بعد اسے مراد کا غصہ بھی دیکھنے کو ملتا۔اسے محمل کا منصوبہ کامیاب ہوتے نظر آرہا تھا۔وہ کہہ گئی تھی اسے گھر سے نکلوا کے رہے گی۔کاش وہ مراد کو یہ سب بتادیتی۔
کیا وہ یقین کر لیتا ان تصاویر پہ؟'اللہ پلیز میری عزت بچالے۔'
مراد نے اسکرین کو دیکھا پھر عائشے کو جو رو رہی تھی۔بہت آس لیے مراد کو دیکھ رہی تھی جیسے شوہر پہ بھروسہ ہو وہ شک نہیں کرے گا وہ اس وضاحت نہیں مانگے گا وہ تو اس سے محبت کرتا ہے اور محبت کرنے والے یقین کرتے ہیں۔کیا وہ اپنی عائشے کو جانتا نہیں تھا؟
"کیا ہے یہ؟"اس نے غصے سے پوچھا عائشے کے دل پہ بوجھ بڑھا وہ مزید کچھ سن نا سکی۔ سنسنی سی جسم میں دوڑ گئی محمل نے فتح کن مسکراہٹ اس پہ اچھالی۔
"مم مراد ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"اس نے اٹک اٹک کے کہا۔مراد کے یوں پوچھنے پہ اسکا مان غرور دونوں ٹوٹے تھے۔اس نے شکوہ کناں نظر اس پہ ڈالی۔مراد کے تاثرات بے حد سخت تھے جبڑا بھینچا ہوا پتھریلا انداز۔
"بس ٹھیک ہے میری بیوی نے کہہ دیا ایسی کوئی بات نہیں تو پھر نہیں ہے۔مجھے اسکی وضاحت کی ویسے بھی ضرورت نہیں۔ان تصویروں کو غور سے دوسرے رخ سے دیکھو تو معلوم ہو دونوں کے درمیان کافی فاصلہ ہے۔"اس نے ایک نگاہ عائشے کے ہاتھ پہ ڈالی جو گرم کافی گرنے سے جلا تھا۔سفید بائیں ہاتھ پہ باریک سی پٹی بندھی تھی۔
"ہاتھ کیسے جلا تمھارا؟"اب کی بار مراد کے لہجے میں بے حد نرمی تھی۔عائشے کو ڈھارس ملی۔
"کافی کر گئی تھی اسی لیے ہمایوں مدد کے لیے.."
"بس بہت ہے۔سن لیا سب نے۔اب تم بتاؤ یہ تصویریں تمھارے پاس کیسے آئیں؟عائشے کو پھنسانے کے لیے تم نے یہ حرکت کی ہے؟"وہ سیدھے اور کڑک انداز میں مخاطب ہوا چند لمحوں میں عائشے کا خون بڑھا تھا محمل گڑبڑا گئی۔عائشے نے مسکراتی ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھا۔اللہ نے اسکا مان نہیں توڑا تھا اسکے شوہر کو اسکے لیے ڈھال بنادیا تھا۔نیمل کچن میں گئی اور پانی لے کر آئی عائشے کو پلایا اسکی کمر سہلائی۔
اس سارے معاملے میں ارباز دمیر بھی خاموش تھے۔
"محمل جواب دو کیوں کیا یہ سب!"انھوں نے غصے سے کہا زرپاش صدمے کی حالت میں تھیں۔
"اس نے یہ سب کیوں کیا جواب ہم سب جانتے ہیں۔تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی پہ گھٹیا الزام لگانے کی۔معافی مانگو عائشے سے!"مراد کے برہم حکمیہ انداز پہ محمل کانپ کے پیچھے ہٹی۔وہ عائشے کو صوفے سے اٹھا کر اپنے ساتھ لایا اسے شانوں سے تھام لیا۔وہ اسی کے رحم و کرم پہ کھڑی تھی۔دل تو کیا تھا اس چڑیل کو گنجا کردے۔
"معافی وہ بھی اس سے۔مائی فٹ!"اس نے تنفر سے پھنکارا۔
"محمل زبان سنبھال کے بات کرو۔"پیچھے سے زرپاش کی آواز آئی۔اسکے دل میں کچھ ٹوٹا اسے اپنی خالہ سے یہ امید نہیں تھی اسے لگا کہ وہ اسکا ساتھ دینگی۔
پر اس گھر کے لوگ مراد پہ بھروسہ کرتے تھے۔خاص کر زرپاش اپنے بیٹے پہ اعتماد سب سے زیادہ رکھتی تھیں جو وہ کہہ دیتا تھا پھر وہی ہوتا تھا۔کاش وہ اسکی محمل سے شادی نا کرنے کی بات بھی مان ہی لیتیں۔
"میں نے تمھیں آج تک صرف مام کی وجہ سے برداشت کیا ہے آئندہ یہاں بھٹکنے بھی مت آنا۔"
"تم اس دو کوڑی کی لڑکی کے لیے مجھے اتنا سنا رہے ہو۔"غصے سے وہ چلائی سب ہی فریقین اس بدتمیز بد اخلاق لڑکی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
"بکواس بند کرلو!میں عورت پہ ہاتھ اٹھانے کا قائل نہیں ہوں مجھے مجبور مت کرو۔دو کوڑی کے وہ لوگ ہیں جو ایسی گری ہوئی حرکتیں کرتے ہیں اور تم نے اپنی حیثیت سب پہ واضح کردی۔میری بیوی کے خلاف ایک لفظ بولنے کی جرت مت کرنا۔"اسکی دھاڑ پہ وہ خاموش ہوگئی۔
"تمھیں کیا لگا الٹی سیدھی تصاویر دکھا کے سب کو اپنے قابو میں کرلوگی۔تم سب کو بے وقوف بنا سکتی ہو محمل بی بی پر اے ایس پی مراد کو نہیں۔بھول گئیں تھیں کیا اسکا شوہر کون ہے!"اس نے جیسے باور کردیا آنکھوں سے مراد کی شعلے برس رہے تھے۔بس چلتا تو محمل کو لمحوں میں منظر سے غائب کردیتا۔
"واہ اے ایس پی صاحب مزا ہی کرا دیا آپ نے۔"نیمل دل میں اسے داد دے رہی تھی۔محمل مزید کچھ بولتی نیمل نے اسکا بازو پکڑا اور کہا۔
"محمل چلو یہاں سے ورنہ برا ہوگا."وہ زبردستی سے لاؤنچ سے باہر لے گئی۔مراد نے اسکا موبائل صوفے پہ پھینک دیا۔عائشے نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
"انکل آنٹی آئی ایم رئیلی سوری۔جو بھی ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا۔مجھے عائشے کے کردار پہ پورا یقین ہے۔آپ نے اپنی بیٹی مجھے سونپی ہے اسکی حفاظت میرا فرض ہے۔میں معافی چاہتا ہوں اس سب کے لیے۔"وہ معین صاحب کی طرف ہلکا سا بڑھا۔انعم فوراً عائشے کے پاس آئیں۔
"اس لڑکی نے حد پار کردی ویسے۔پر ہمیں پتا چل گیا ہماری بیٹی ایک سمجھدار فیملی کا حصہ ہے۔آپ لوگوں نے اس پہ یقین کیا۔اگر بیٹا تم نا ہوتے تو شاید ہم بھی تصاویر پہ یقین کرلیتے۔"انھوں نے اسے گلے لگالیا کیونکہ تصویریں سچی تھیں اور کوئی ایڈیٹنگ نہیں ہوئی تھی۔بس اینگل ایسا تھا کہ تصویر کا مطلب کچھ اور نکل رہا تھا۔
"ہاں ہمارا بیٹا بہت ہونہار آفسر ہے۔"ارباز صاحب نے ہنستے ہوئے ماحول کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔زرپاش عائشے کے پاس آئیں۔اسکے سر پہ ہاتھ رکھا عائشے نے چونک کے انھیں دیکھا پھر نظریں جھکا لیں۔وہ اس سے بولیں کچھ نہیں تھیں۔
"عائشے بیٹا آپ بلکل پریشان مت ہونا آپکا جو مقام ہے آپکی عزت ہے اس پہ کوئی آنچ نہیں آئی۔"ارباز دمیر کی طرف سے ملی تسلی اس کے لیے بہت تھی۔
"اب ہم بھی چلتے ہیں کافی دیر ہوگئی ہے۔"
انعم نے میاں کے کہنے پہ سر ہلایا عائشے کو پیار کیا۔
"تم خوش قسمت ہو جسے اتنا اچھا شوہر ملا ہے۔جسے تمھاری وضاحت کی ضرورت نہیں تم پہ بھروسہ کرتا ہے۔اسکا دیا بھروسہ ہمیشہ سنبھال کے رکھنا۔اور آئندہ احتیاط تم بھی برتنا!"
عائشے نے سر ہلایا ان سے گلے لگی پھر بابا سے۔ارباز اور مراد انکو باہر تک چھوڑ آئے تھے۔نیمل محمل کو اپنے کمرے میں لے گئی تھی۔جو بھی تھا اسکی کزن تھی۔وہ چاہتی تھی وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائے۔پر اسکی حرکت پہ نیمل کو شدید غصہ چڑھا تھا کمرے میں جاکے اس نے خوب اسے کھری کھری سنائی تھیں۔ان دونوں کی آواز بلند ہوئیں تو زرپاش سر پہ ہاتھ مارتیں کمرے کی طرف بڑھیں ارباز صاحب لائبریری کی جانب جا چکے تھے۔سب ایسے ہوگئے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔
"تھینک یو۔"وہ نم آنھوں سے مراد کا ہاتھ تھامے بولی۔مراد مسکرادیا۔
"یہ تو میرا فرض تھا۔پر ایک شکوہ ہے۔اپنے لیے تم آواز نہیں اٹھاتی ہو۔آج ایک تھپڑ اسکے منہ پہ مارنا بنتا تھا۔میں نہیں مار سکتا تھا پر تم ماردیتیں۔اس نے اتنے جھوٹے الزام لگادیے پر محترمہ کو رونے سے فرصت ملے تو کچھ کریں۔"تھوڑے غصے سے اس نے کہا عائشے کو دیکھا جو منہ بنائے کھڑی تھی۔پھر اس نے اسکا ماتھا چوما اور اسکی نظروں میں دیکھا نگاہیں نرم چاشنی سی تھیں۔
"بہادر بنو!"عائشے ہنس دی۔
"آپ کو برا نہیں لگا اس نے میرا ہاتھ واقعی پکڑا تھا۔"
"وہ مدد کی غرض سے بڑھا تھا۔"
"میں نے ہاتھ جھٹک دیا تھا پر پتا نہیں کیسے کسی نے اتنی جلدی تصویریں بنا لیں۔وہ صرف ٹیبل پہ بیٹھا انوش اور میرا دماغ کھارہا تھا۔ہماری اس سے کوئی دوستی وغیرہ نہیں ہے۔"عائشے نے بات کلئیر کردی مراد نے توقف سے سینے پہ ہاتھ باندھ کے اسے دیکھا۔آنکھوں کا میک سارا بہہ کر نیچے آگیا تھا اسے ہنسی آگئی عائشے اسے گھورنے لگی۔کمرے سے آتے شور پہ دونوں چونکے اور وہاں لپکے۔
"خالہ آپ نے مجھے بلکل پرایہ کردیا۔آپ نے ہی مجھے مراد کے خواب دکھائے تھے اور اب آپ ہر چیز سے بری الذمہ ہوگئی ہیں۔"
    "میری غلطی تھی میں مانتی ہوں۔پر مراد نے شادی اپنی مرضی سے بنا بتائے کی ہے!اور میں تمھاری وجہ سے عائشے کے ساتھ برا سلوک نہیں کرسکتی۔میں نے تمھیں اپنی اولاد سے بڑھ کے محبت دی پر تم نے ایک پل کو ہماری عزت کا نہیں سوچا سب کے سامنے نیلام کردی۔تم نے زرا لحاظ نہیں کیا عائشے کے گھر والے موجود ہیں اور اتنی گھٹیا حرکت کی ہے میں نے تمھاری یہ تربیت تو نہیں کی تھی۔"
زرپاش صاحبہ غصے سے کہہ رہی تھیں۔عائشے اور مراد اندر آئے۔نیمل بھی وہی کھڑی تھی۔
"آپکی محبت کا میں کیا کروں گی اپنی بات تک پہ تو آپ قائم رہ نا سکیں۔آپ پہ مجھے کبھی اعتبار کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔آپ اس قابل ہی نہیں۔"وہ نہایت بدتمیزی پہ اتر آئی عائشے اسکے لفظوں پہ ششدر تھی اس نے زرپاش کو دیکھا جن کے چہرے پہ صرف افسوس اور ندامت تھی۔
وہ آگے بڑھی اور زور دار تھپڑ محمل کے منہ پہ جڑ دیا۔محمل نے بے یقینی سے منہ پہ ہاتھ رکھے اسے دیکھا۔اپنی ماں کے لیے اسکے منہ سے بکواس سن کر جو ان دونوں بہن بھائیوں کو تیش آیا تھا عائشے کے تھپڑ سے ٹھنڈے ہوئے مسکراہٹ لبوں پہ رینگ گئی۔
"کیا بکواس لگا رکھی ہے۔جو منہ میں آتا ہے بکے جاتی ہو۔بن ماں کی بچی ہو آنٹی نے تم کو ماں کتنا پیار دیا وہ سب تمھیں یاد نہیں؟"عائشے شدید غصے سے بولی۔اسکے لہجے نے محمل کو مزید چونکا دیا۔
"تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پہ ہاتھ اٹھانے کی۔"محمل کا ہوا میں اٹھتا ہاتھ عائشے نے جکڑ لیا۔
"محمل بی بی میں نے کہا تھا آئیندہ ہاتھ مت اٹھایا توڑ بھی سکتی ہوں میں یہ ہاتھ۔سمجھی!"اسکی آنکھوں میں دیکھتے چبا چبا کر کہا۔زرپاش نے بے تاثر سی محمل پہ نگاہ ڈالی آج اس نے ساری حدیں پار کردی تھیں۔
"تمھاری اصلیت میں سب کو بتا کے رہونگی"
"میری چھوڑو تم اپنی اصلیت سب کو دکھا چکی ہو۔"عائشے نے جھٹکے سے اسکا جکڑا ہاتھ چھوڑ دیا۔
"کیا دھمکی دے کر گئیں تھیں مجھے گھر سے دھکے دے کر نکلواؤگی۔"عائشے نے اسکا جیسے بھانڈا پھوڑا۔زرپاش کی آنکھیں پھیل گئیں محمل کے چہرے پہ کسی قسم کی شرمندگی نہیں تھی۔
"محمل چلی جاؤ بس،کہیں تمھاری دھمکی الٹا تمھارے گلے کا ہار نا بن جائے!"نیمل گویا ہوئی وہ غصے سے ان سب کو دیکھتی پلٹ گئی۔مراد سے ٹاکرا ہوا۔
"تمھارا ثبوتوں سے خالی موبائل صوفے پہ پڑا ہے لیتی جانا۔"مراد ماتھے پہ آنکھیں چڑھا کے کہتا اسکے سائیڈ سے نکل کر زرپاش کے پاس بڑھ گیا وہ پیر پٹخ کے وہاں سے نکل گئی۔شاید انکی زندگی سے بھی۔
عائشے کافی بہادری دکھا چکی تھی اس نے ہڑبڑا کے ان تینوں کو دیکھا جو رشک سے اسے دیکھ رہے تھے۔
"تم نے تو میری بات بڑی سیریس لے لی فوراً عمل۔"مراد نے پیچھے بچھے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔عائشے کنفیوز سی ہوگئی زرپاش اسکے پاس بڑھیں اور خود سے لگا لیا۔
"مجھے معاف کردینا میں نے تمھارے ساتھ بھی نا انصافی کی ہے۔"وہ شرمندہ سی بولیں۔اپنے برتاؤ پر بھی انھیں شرمندگی نے آن گھیرا تھا۔
"آنٹی آپ معافی مانگ کے مجھے شرمندہ کر رہی ہیں میں آپکی کنڈیشن سمجھ سکتی ہوں۔آپ بڑی ہیں ڈانٹتے ہوئے پیار کرتے ہوئے اچھی لگتی ہیں معافی مت مانگیں۔"اس نے زور سے انھیں بھینچ لیا وہ مسکرانے لگیں پھر دور ہوئیں۔
"تمھارے والدین نے بہت اچھی پرورش کی ہے تمھاری،ہمیشہ خوش رہو۔"عائشے جی جان سے مسکرائی۔
اسے جو کمی محسوس ہوتی تھی زرپاش نے آج پوری کردی تھی۔عائشے نے کبھی ان سے زبان درازی نہیں کی جو وہ کہتیں وہی کرتی۔اور آج جب انکے بچے بھی بول نا پائے تو وہ انکے حق میں بولی تھی۔محمل کے لیے وہ خود کو بھی قصور وار سمجھتی تھیں۔
"ہاں مجھے آنٹی نہیں مام کہا کرو جیسے مراد اور نیمل کہتے۔"
"جی آنٹی..سوری مام۔"وہ ہنس دی۔اسکے ہاتھ میں ہلکی ہلکی جلن ہورہی تھی پر پرواہ کسے تھی اب۔
"میرے خیال سے اب جب سب ٹھیک ہوگیا ہے ہمیں موو آن کرلینا چاہیے۔"مراد پیچھے بیٹھا بولا زرپاش نے سر ہلایا۔
"ہم نے تو پہلے دن ہی سب تسلیم کرلیا تھا۔اب زرا سجل آپی کو بھی انکی چہیتی کا کارنامہ سنا دوں.۔"اسکے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ لپکی۔
"تم نے سب ریکارڈ کیا ہے؟"عائشے نے حیرانی سے پوچھا نیمل نے مؤدب انداز میں سر جھکا لیا۔زرپاش نے اسے گھور کے منع کیا پر وہ ریکارڈنگ بھیج چکی تھی۔
"کل سجل آپی بھی آئینگی اب دوڑی دوڑی.."وہ آنکھ دبا کے ہنس دی اور موبائل ایک طرف رکھا۔زرپاش نے ان تینوں کو گلے لگالیا۔
                  ___________________
"میں تمھاری کبھی نہیں ہوسکتی بھول جاؤ مجھے۔"
"کوئی ممکن بات کرو!
کوشش کی تھی بھلانے کی پر ہار ملی۔ہار کے بھی تمھاری محبت میں جیت گیا تمھیں پالینے کے بات جیت مکمل ہوجائے گی۔"
"تمھاری ضد ہے اور کچھ نہیں۔"
"مجھے اپنی محبت کے قصیدے نہیں سنانے جو سمجھنا ہے سمجھو"
"ڈائیلاگز ہیں یہ بس"میران نے ضبط کرکے اسکا بازو پکڑ کے رخ اپنی طرف کیا۔
"محبت کرنے والوں کی زبان تم سمجھ نہیں سکتیں۔زہن میں بٹھالو تمھاری تمام راہیں میران جاہ کی طرف ہی آئیں گی۔یہ دنیا ہی رکاوٹ ہے نا یہی لوگ ہمیں ایک کریں گے۔"وہ چپ ہوگئی میران کو اپنی بے اختیاری کا احساس ہوا تھا اس نے اسکا بازو آزاد کردیا۔وہ شخص اسے لفظوں میں مات دے دیتا تھا ضمیر اسکی محبت کے چیتھڑے اڑانے کا حق دیتا بھی نہیں پھر بھی بہت کچھ بول کر اسے خود سے بدظن کرنے کی کوشش کرتی تھی۔پر وہ بھول رہی تھی وہ میران تھا جو اسکی محبت میں اسے مکمل پور پہ پڑھ چکا تھا۔
"انشاء اللہ اب ملیں گے تو تمھیں بی بی سرکار کے روپ میں دیکھوں گا۔"
"وہیں رہنا کبھی مت آنا!"
یک دم رومائزہ نے خیال جھٹکا۔اب تو اسے خود سے بھی ڈر لگ رہا تھا اسکا دل کس جانب چل پڑا تھا۔
آج وہ اپنے گھر واپس جارہی تھی۔خوشی سے اسکے پیر زمین پہ نہیں ٹک رہے تھے۔ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی۔اسے لگا تھا میران اس سے ملنے آئے گا پر وہ نہیں آیا۔اسے اسکی جانب سے ڈر بھی لگا تھا پر حلیمہ بی نے اسے کافی پرسکون کردیا تھا۔وہ سب ایک جذباتی عمل تھا۔اس نے سوچ لیا تھا جب بھی اگر میران سے ملاقات ہوئی تو اپنے رویے کی معافی ضرور مانگے گی۔آخر اس نے اسکے لیے اتنا کچھ کیا اور الٹا وہی اس پہ شک کر بیٹھی غلطی اسکی تھی جس پہ وہ دل سے شرمندہ تھی۔
"آپکے چھوٹے سائیں نہیں آئیں گے؟"سر پہ اسکارف لینے کے بعد اس نے اپنے شوز پیروں میں ڈالے۔وہ اسی لباس میں تھی جس میں وہ یہاں آئی تھی۔اس نے سرسری سا پوچھا۔
"وہ نہیں آئیں گے،مصروف ہیں آج وہ۔"حلیمہ بی اسکی تیاری دیکھ رہی تھی جسکے چہرے پہ مسکراہٹ رقم تھی۔
"جلدی کرو باہر عبدل تمھارا انتظار کر رہا ہے۔"وہ صوفے سے کھڑی ہوئیں رومائزہ نے جوتوں کے لیس باندھ لیے تھے۔انکے ہیچھے ہی وہ کھڑی ہوئی ان سے ملی گلے بھی لگی۔حلیمہ بی کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں رومائزہ کی آنکھوں میں بھی نمکین پانی ابھر آیا۔
"آپ نے میرا بہت خیال رکھا ہے اللہ آپکو اسکا اجر دے گا۔"وہ ان سے دور ہٹی دونوں نے نم آنکھیں پونچھیں۔
"آگے فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے سائیں اٹلی سے واپس آکے نکاح کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔"
"حلیمہ بی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا کروں۔"وہ بے بس سی گویا ہوئی۔وہ مسکرادیں۔
"اتنا یاد رکھنا وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور یہ سب تمھارے لیے کیا تم انکے لیے بہت خاص ہو تمھارے لیے اپنے بابا سے بھی انھوں نے اختلاف کیا ہے۔"انھوں نے اسے سمجھایا وہ سر ہلا گئی۔
"جو دل میں چل رہا ہے اسے قبول کرلو."اس نے چونک کے سر اٹھایا اور پھر آگے بڑھ گئی۔
وہ دروازے پہ کھڑی تھی اس نے پلٹ کر فارم ہاؤس نہیں دیکھا تھا۔پارکنگ میں گاڑی کھڑی تھی گارڈز اسکے منتظر تھے۔
اس نے دھیرے دھیرے قدم اٹھائے۔دروازے سے پورا باغ دکھتا تھا اس نے نظر گھمائی۔ہریالی ہی ہریالی تھی۔دل کی رفتار نے تیزی پکڑ لی تھی۔دروازے پہ گارڈز کھڑے تھے جن کے سر جھکے تھے۔مالی بابا اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ایک دو بار ہی انکی اس سے بات ہوئی تھی۔وہ چھپڑے کے نیچے سے باہر نکلی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
"میران جاہ میں جا رہی ہوں تم نے میری جان اور عزت دونوں کو محفوظ رکھا ہے۔شکریہ تمھارا۔"پہلی سیڑھی سے اتری۔
"تم نے اپنا وعدہ پورا کیا مجھے تم پہ یقین ہے۔پچھلی غلطی پہ مجھے معاف کردینا میں نے واقعی بہت غلط الزامات لگادیے تھے۔"دوسری اور آخری سیڑھی سے اتری۔دل سے جیسے بوجھ اترا تھا من ہلکا ہوا قدموں میں تیزی آگئی وہ پارکنگ کی طرف بڑھی گارڈ نے دروازہ کھولا۔حلیمہ بی اسکے پیچھے کھڑی تھیں وہ بے اختیار ایک بار پھر انکے گلے لگی اور بنا پیچھے مڑے گاڑی میں بیٹھی گئی۔آنکھ سے آنسو ٹوٹ کے پھسل کے تھوڑی کے نیچے گرا۔دیڑھ ماہ کا صبر تھا یہ جو ایسے بہہ نکلا۔خوشی کے موتی آنکھوں میں ٹمٹمارہے تھے۔
حلیمہ بی نے دروازہ بند کردیا۔گاڑی کے کالے شیشے چڑھے تھے وہ اندر اسے دیکھ نہیں سکیں۔ڈرائیور نے جیسے ان سے اجازت طلب کی حلیمہ بی سر ہلایا تو ڈرائیور نے گاڑی ایگنیشن میں چابی گھما کر اسٹارٹ کردی۔عبدل نامی گارڈ انکے ساتھ جارہا تھا۔وہ آگے ہی بیٹھا اور پھر ڈرائیور نے گاڑی ریورس گئیر پہ ڈال کے باہر نکال لی۔
حلیمہ بی گاڑی کو دروازے سے نکلتا دیکھ رہی تھی۔پھر وہ گہرا کتھئی رنگ بیرونی دروازہ بند ہوگیا۔ماحول میں سکوت طاری ہوگیا انکا دل جیسے ڈوبا۔
گزرے دنوں میں انھوں نے اسے ماں جتنا پیار دیا تھا بیٹی کی طرح اسے رکھا تھا۔بہت قریب ہوگئی تھی وہ۔اسکی تکلیف پہ وہ بھی تڑپ اٹھتی تھیں۔آج اسے اسکے صبر کا پھل مل گیا تھا۔اس جنونی سی لڑکی کو انھوں نے کیسے سنبھالا تھا وہی جانتیں تھیں۔وہ ان سے اپنے آنسو چھپاتی تھی پر وہ اسکی کیفیت سب جان لیتی تھیں۔
وہ اپنی نم آنکھیں پونچھ کر اندر کی طرف پلٹ گئیں۔
                ____________________
یہ اگلا دن تھا عائشے بھنبھناتی ہوئی ہمایوں کے سر پہ پہنچی جو لائیبریری میں بیٹھا کتابوں میں چھپا موبائل یوز کر رہا تھا۔انوش عائشے کے ہم قدم تھی۔
عائشے نے لائیبریری کے رولز کا لحاظ کیے بغیر اسکی ٹیبل پہ اپنا رجسٹر پٹخا تھا۔ہمایوں نے اچھنبے سے سر اٹھایا۔عائشے کی حرکت پہ وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔
"کیا بے شرم شخص ہو تم..انتہائی گرے ہوئے انسان ہو۔بلکہ تم انسان ہو کہ بھی نہیں؟"عائشے کا پارا ہائی تھا اسکے اونچا بولنے پہ آس پاس کی ٹیبلز پہ بیٹھے طلبہ ڈسٹرب ہونے لگے تھے۔کچھ نے سر اٹھا کہ اسے دیکھا اور اسے خاموش رہنے کی تلقین کی۔
بیگ گود میں رکھ کے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔انوش کمر پہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی مسلسل پیر ہلارہی تھی جیسے آج تو ہمایوں کا فیصلہ کرکے رہے گی۔
"کیا ہوگیا کیوں تم دونوں مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی ہو؟"
"تمھیں نہیں پتا!زلیلوں والی تم نے کل حرکت کی ہے نا۔بتاؤ محمل چڑیل نے تم کو وہ سب کرنے کے لیے کتنے پیسے دیے تھے؟"اب یہ محمل چڑیل کون تھی؟اور کون سے پیسے کاہے کے پیسے!ہمایوں کے تاثرات عجیب سے ہوئے۔
"بھولا پن تو دیکھو کیسے ٹپک رہا ہے پر کرتوت انتہائی!!"انوش دھیمی آواز میں دانت کچکچاتی غرائی۔
"میری بہنوں مجھے بتادو میں نے کیا کیا ہے!"اب کی بار وہ بول اٹھا وہ بلکل سمجھ نہیں پارہا تھا وہ دونوں کس بارے میں اس سے جواب طلب کرنے آئی تھیں۔
"کل تم نے کہا تھا تم کبھی ہمیں تنگ نہیں کروگے نا ہی روما کو!پھر تم کافی دیر ہماری ٹیبل پہ بیٹھ کے ہمارا سر کھاتے رہے۔تم نے کافی بھی منگوائی اور پھر وہ گر گئی تو تم میری مدد کے لیے بڑھے اور ہاتھ پکڑا تھا۔"عائشے ایک سانس میں کھینچ کر بولی اور سب یاد دلایا۔
"تو مدد کرنے میں کیا برائی تھی!"اس نے تیور چڑھائے۔
"سنو ہمایوں سعید یہ بتاؤ تم نے یہ سب کس کے کہنے پہ کیا؟"
"بات کیا ہے یہ بتاؤ میں نے قسم سے کچھ نہیں کیا اور یہ محمل کون ہے؟"
"تمھیں واقعی محمل کو نہیں جانتے؟"انوش نے بھنوو اچکائی۔
"نہیں بھئی۔آج تک محمل نام کی کسی لڑکی تک سے ٹاکرا نہیں ہوا۔"عائشے نے گردن اوپر کرکے انوش کو دیکھا اس نے آنکھ جھپکی۔
"تم نے کل عائشے کی مدد کی۔تم ہماری ٹیبل پہ یوں بیٹھے تھے اس بات کا کسی نے فائدہ اٹھایا اور تمھاری اور عائشے کی تصویریں لی اور انکو غلط بات کو رخ دے دیا۔"
"استغفر اللہ۔محمل نامی لڑکی نے۔پر یہ ہے کون؟"وہ سمجھتے ہوئے سر ہلانے لگا۔
"چڑیل ہے چڑیل!"عائشے نے آنکھیں بڑی کرکے منہ بگاڑ کے بتایا۔انوش کا قہقہہ چھونٹا۔
"اوہ تو تم لوگوں کو لگا کہ..."
"ہاں ہمیں وہی لگا۔سچ بتاؤ تم اسکے ساتھ ملے ہوئے تو نہیں؟ہم ڈین سے کمپلین کردینگے!"
"معاف کرو بھئی مجھے۔مجھے یہ سب کرکے کیا ملے گا۔اور تم تو اے ایس پی کی بیوی ہو تم پتا کروالو کس نے اسکو تصویریں کھینچی!"
"او گاڈ ہاں وہ مسکان وہ کسی محمل نامی لڑکی کا زکر کر رہی تھی کچھ دن پہلے اسکے منہ سے میں نے سنا تھا میں کینٹین جارہا تھا تب وہ اپنی دوست کو کچھ بتا رہی تھی۔"ہمایوں کو جیسے ہی یاد آیا تو بول پڑا۔عائشے اور انوش کا ماتھا سکڑا۔
"کنفرم کرلو پھر ہم اسکی ڈین سے شکایت کریں گے۔"عائشے نے جیسے فیصلہ سنا دیا۔ان دونوں نے سر ہلایا۔انوش نے ایک نظر ہمایوں کو دیکھا اب دشمنوں سے مدد لینی پڑ رہی تھی۔
ہمایوں اپنا سامان سمیٹ کے اٹھ کھڑا ہوا۔اسکے جانے کے بعد ان دونوں نے سانس خارج کی۔
"اگر یہ مسکان کی حرکت ہوئی تو میں اسے یونی سے نکلوادونگی۔اتنی گری ہوئی حرکت کی ہے اس نے۔لوگوں کو کچھ خدا کا خوف ہی نہیں رہا۔اگر تمھارے سسرال والے سمجھداری سے کام نہ لیتے تو..."اسے جھرجھری آگئی۔
"پر انوش محمل کی اس حرکت سے میری انکے درمیان مزید عزت بڑھ گئی ہے۔جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔سب نے اسکا اصلی روپ دیکھ لیا۔اس سے اب جان چھوٹ گئی۔"عائشے مطمئن تھی۔
"ہاں پر میں اس مسکان کو ایسے ہی نہیں چھوڑنے والی!"
"اچھا مت چھوڑنا۔انوش تمھیں پتا ہے میں روما کو آج سب سے زیادہ مس کر رہی ہوں۔تم دونوں کے آنے سے میری دنیا بدل گئی ہے۔آج میں مکمل ہوں اور وہ نہیں ہے یہاں،وہ خواب بھی میرے ذہن سے جاتا نہیں۔"
عائشے خواب کے اثر میں کھوئی کھوئی بول رہی تھی۔وہ اپنے دل کے احوال کے علاوہ ان سے ہر بات شئیر کرتی تھی،کیونکہ ہر چیز بتانے کے لیے نہیں ہوتی کچھ آپ صرف دل تک ہی رکھیں تو زیادہ بہتر ہوتا ہے جیسے وہ لوگ اسکے لیے کتنی خاص تھیں ان سے محبت تھی۔انکے لیے وہ ایک غلط لفظ برداشت نہیں کرسکتی تھی۔وہ سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی انوش نے ناخن چباتے ہوئے اس پہ نگاہ ڈالی۔
"پتا نہیں اسکی خالہ کو کیا ہوگیا ہے جو اتنا لمبا روک لیا۔مجھے لگا تھا ہفتہ دو ہفتے تک آجائیگی۔یہاں دوسرا مہینہ چل رہا ہے۔اسکے گھر گئی تھی احتشام انکل گھر پہ نہیں تھے نعمت بی نے بھی دروازہ نہیں کھولا تھا۔"اسکے چہرے پہ فکر و پریشانی صاف واضح تھی۔
"امید ہے وہ ٹھیک ہی ہوگی اپنی ننجا کا کوئی بھلا کچھ بگاڑ سکتا ہے کیا!"انوش نے دونوں کے درمیان ٹینشن کم کرنے کے لیے ہنستے ہوئے کہا۔یہ شاید دوستی تھی جو وہ تینوں محسوس کرنے لگی تھیں۔خون کا رشتہ نہیں تھا پر دلی رشتہ بن گیا تھا۔
"عائش تمھیں پتا ہے میں تمھارے لیے بہت خوش ہوں۔"ٹیبل پہ سر جھکائے انوش نے ہلکے سے کہا عائشے کے ہونٹوں پہ تبسم بکھر گیا۔وہ سر ہلا کہ رہ گئی۔
کون تھی وہ ایک مڈل کلاس عام لڑکی؟جسے دوستوں کی محبت نے زندگی جینا سکھایا،،پھر شادی کے بعد جس نے زندگی سے کئی سبق سیکھ لیے!مراد جیسا ہمسفر مل گیا جس نے یقین کرنا سیکھایا۔اور پچھلی رات کے واقعے سے تو اسے شوہر پہ غرور سا ہوگیا تھا۔
کافی دیر وہ دونوں ساتھ بیٹھے باتیں کرتی رہی تھیں پھر جب کلاس کا ٹائم ہوا تو لائیبریری سے اٹھ گئیں۔
                  __________________
گاڑی سڑک پہ رواں دواں تھی،پچھلے دس منٹ سے وہ خالی زمینوں کا سفر طے کر رہے تھے جہاں کسی قسم کی آبادی نا تھی۔البتہ فاصلے پہ کہیں درخت نظر آتے تو کہیں مکمل ہری گھاس،کچھ باغات تھے تو آگے جاکے بنجر زمین۔اتنا اسے سمجھ لگ گئی تھی لاہور سے باہر کا یہ علاقہ ہے۔اچانک گاڑی رکی۔اس نے چونک کے گارڈ کو دیکھا جو اسکی طرف چہرہ موڑ کے پلٹا۔
"گاڑی کیوں روکی ہے؟"
"میڈم آپکو اترنا پڑے گا۔"عبدل نے نظریں جھکا کے کہا اس نے نا سمجھی سے اسے دیکھا پھر باہر۔
"کیا مطلب ہم گھر جا رہے ہیں نا،"اس نے گھبراہٹ چھپاتے کہا۔
"جی،آپ اتریں مجھے جو چھوٹے سائیں سے حکم ملا ہے اسی کی تابعداری کر رہا ہوں۔"اسکی نظریں گارڈ کے چہرے پہ جمی تھیں۔عزیز کے بعد میران کا سب سے قریبی بندہ تھا وہ۔سیکورٹی کے وقت وہی اسکے سب سے پاس ہوتا تھا۔
رومائزہ اس کی بات پہ پریشان ہوئی تھی اسکی نظریں گارڈ سے ہوتے ہوئے سامنے ونڈ اسکرین پہ پڑی۔سامنے ایک گاڑی رکی ہوئی تھی جس میں سے گرے شرٹ بلیک پینٹ میں ملبوس احتشام شنواری چہرے کی بڑھی داڑھی پہ ہاتھ پھیر کے گاڑی سے اترے تھے۔اس کے چہرے پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔فوراً سے وہ گاڑی کے لاک پہ لپکی اس نے ہینڈل گھمایا پر دروازہ کھل نہیں سکا۔اس نے الجھ کے گارڈ کو دیکھا۔ڈرائیور نے آگے سے گاڑی آن لاک کی۔رومائزہ نے پھر جب ہینڈل پہ قوت لگائی تو دروازہ کھلتا چلا گیا وہ گاڑی سے اتر کے دوڑتے ہوئے شنواری صاحب سے جا لگی۔
"میرا بچہ آگیا۔"شنواری صاحب نے اسکے ماتھے پہ پیار کیا وہ نم آنکھوں سے ہنسنے لگی۔اتنے دن بعد اپنے باپ کو دیکھا تھا چہرہ کتنا اتر ہوا تھا کافی کمزور ہوگئے تھے۔اسکی فکر اور قرض چکانے کی ٹینشن سے ہی انکی یہ حالت ہوئی تھی۔
"احتشام صاحب میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔"انکا چہرہ ہاتھوں میں لیے وہ انگریزی کے فقروں میں بولی۔
"میں نے بھی اپنی روما کو بہت یاد کیا۔"انھوں نے اسکے سر کے بال سہلائے۔
"آپ مجھے لینے آئے ہیں۔"
اس نے انکا ہاتھ تھام لیا۔وہ مسکرا رہے تھے۔
"چلیں؟باقی باتیں گھر جاکے کریں گے۔"روما نے پوچھا۔اور انکے ساتھ ہولی۔شوز کے لیس کھل کے اسکے پیروں میں آنے سے اسکے قدم لڑکھڑائے۔احتشام کے ہاتھ میں سے ہاتھ نکال کر وہ لیس باندھنے کے لیے جھکی۔احتشام صاحب گاڑی کے دروازے پہ پہنچے پلٹ کے اسے دیکھا جس نے ٹھہرنے کا اشارہ کیا۔انھوں نے سانس بحال کی۔وہ اٹھی۔احتشام شنواری گاڑی میں بیٹھے۔اس نے قدم بڑھائے گارڈ نے گاڑی کا دروازہ بند کردیا۔وہ گھوم کر دوسرے دروازے کی طرف جانے لگی۔عبدل نے آگے بڑھ کے ہاتھ بڑھا کے اسکا راستہ روکا رومائزہ نے کھلے منہ سے اسے دیکھا،وہ نفی میں سر ہلا رہا تھا۔روما کے گلے میں گٹھلی معدوم ہوئی آنکھوں میں حیرت ابھرنے لگی۔
"میں بابا کے ساتھ اسی گاڑی میں جاؤنگی۔"اسے لگا شاید وہ اسے دوسری گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ رہا ہو۔
اسے کچھ غلط محسوس ہوا،چھٹی حس نے تیزی سے کام کیا اس نے پلٹ کے دیکھا۔
"بابا.."نو ریسپانس گاڑی کا دروازہ بند رہا اسکا دل بند ہورہا تھا۔
"آپ واپس فارم ہاؤس چلیں گی۔مجھے سائیں کی طرف سے یہی حکم ملا تھا آپکے والد سے ملوادوں۔"روما کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے اس نے پھر پوچھا گارڈ نے بات دہرادی۔روما پہ گویا قیامت ٹوٹی تھی وہ جگہ پہ جم گئی خون سرد ہوگیا،سانس جو لی وہ بحال نہ ہوسکی۔عبدل کا چہرہ سنجیدگی سے بھرپور تھا۔پھر وہ نفی میں گردن گھماتی پیچھے ہوئی اور شنواری صاحب کی جانب گاڑی کے دروازے کی طرف لپکی۔کالے شیشے چڑھے تھے اندر بس تاریکی نظر آرہی تھی۔اس نے شیشہ پیٹنا شروع کردیا۔اتنے میں دو لڑکیاں تیسری گاڑی سے اتر کے اس کے پاس آئیں۔
"بابا یہ پتا نہیں کیا کہہ رہا ہے مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مجھے بچا لیں۔"اپنے ہاتھوں کی پرواہ کیے بغیر وہ بری طرح شیشہ پیٹ رہی تھی ان دونوں لڑکیوں نے اسے قابو میں کیا اور گاڑی پہ سے ہٹایا۔ڈرائیور نے گاڑی دوڑا دی وہ حواس باختہ چلانے لگی۔سمجھ ختم ہوگئی تھی۔اس نے غصے سے ان دونوں کو جھٹکا۔انکے چہرے پہ نظر پڑی یہ جانے پہچانے چہرے تھے۔وہی لڑکیاں تھیں جو اسے پہلے بھی اپنے ساتھ لائی تھیں۔
انھوں نے اسے واپس بازوؤں سے پکڑ لیا۔رومائزہ مچل رہی تھی قابو سے بلکل ہی باہر ہوگئی۔
"لڑکی ہم تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتے ہمارے لیے مشکل مت پیدا کرو۔"ایک لڑکی اسکے کان میں اسے سمجھاتے ہوئے بولی وہ سن ہوگئی۔
"چلو.."عبدل نے چلنے کا کہا اسکا وجود سن ٹھنڈا پڑ گیا۔اس نے بے ساختہ سر آسمان کی جانب اٹھایا...اللہ یہ سب اسکے ساتھ کیا ہورہا تھا،کیوں ہورہا تھا۔
"میران ایسا کچھ نہیں کرسکتا تم جھوٹ بول رہے ہو مجھے چھوڑ دو اسے پتا چل گیا تو وہ تم لوگوں کو نہیں چھوڑے گا۔"اس نے بازو چھڑانے کی کوشش کی پر ناکام ہوئی۔اسکے کانوں میں عجیب سی ہنسی گھلی۔وہ سیدھی ہوئی۔ان کی گاڑی کے برابر ایک اور گاڑی کھڑی تھی۔پہلے نہیں تھی شاید اسی ہنگامے کے دوران آئی تھی۔اسکے پہیوں کی چرچراہٹ رومائزہ نے سنی تھی۔
کالی پراڈو میں سے سفید کرتے میں زیب کوئی نفس اترا۔جس کی ہنسی اسکے کان کے پردے سے ٹکرائی تھی۔یہ ہنسی اس وقت اسے بے حد بری لگی تھی جیسے اسکی حالت اسکی بے بسی پہ کوئی ہنس رہا ہو۔

                                  جاری ہے.....
Episode der se ayi mazrat..
Pr literally last episode py thanda response dekh kr mera dil nhi kr rha tha episode dene ka.

Ap log vote krein or comments..
Story se mutalliq baat kia krein..just aik lafZ likh kr side hojaty yeh review nhi hota..

Acha response ayega tabhi episode jaldi mily gi..:)
BTW Novel Half complete hochuka hai...

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now