قسط 26 راگنی

437 51 8
                                    

                           ★ ★ ★
اگلی صبح کا سورج نئی امید کی کرنوں کے ساتھ ابھرا تھا۔دمیر ہاؤس میں خوب چہل پہل تھی۔ناشتے کے بعد کافی مہمان جاچکے تھے۔زرپاش میران کو لے کر بڑی پریشان تھیں۔وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھیں آخر اسکے لیے کچھ کر جو نہیں پائی تھیں۔
دوسری طرف رومائزہ تھی اسکے لیے بھی انھیں دکھ تھا۔وہ رومائزہ کو غلط نہیں سمجھتی تھیں کیونکہ انھیں اپنا آپ اس میں محسوس ہوتا تھا۔انکے اور اسکے حالات واقعات مختلف تھے اسکے باوجود بھی۔
"یار مام اتنی پریشان کیوں ہورہی ہیں۔ڈیڈ سمجھائیں انھیں میران کوئی معمولی شخص نہیں ہے جو محبت میں ہار کر روگ لگا کے کوئی جوگی بن کے بیٹھ جائیگا۔بھول جائیگا کچھ دنوں وہ یہ سب،اسکے اپنی اتنی مصروفیات ہوتی ہیں۔اور ادھر آپ ہیں جو اپنا بی پی ڈاؤن کیے جارہی ہیں۔"
    مراد نے انکا بلڈ پریشر چیک کیا تو وہ بے حد لو تھا۔مشین ایک طرف کرتے ہوئے وہ تھوڑا برہمی سے بولا۔ارباز نے نیوز پیپر ایک طرف رکھا۔وہ ان دونوں کے کمرے میں موجود تھا۔عائشے جوس بنا کر لے آئی۔
"مام آپ جلدی سے یہ پیئیں۔"اس نے گلاس زرپاش کو تھمایا اور ٹرے تھام کے مراد کے برابر میں کھڑی ہوگئی۔مراد کے چہرے پہ تھوڑی تھوڑی خفگی تھی۔
"اچھا چلو تم غصہ مت ہو،اپنے کمرے میں جاؤ ہمارے باپ نا بنو۔"ارباز نے اسے دو منٹ میں جھاڑ دیا تو وہ سانس بھر کے انھیں دیکھتا رہ گیا۔عائشے کی مسکان گہری ہوگئی۔
"یہ پی لیں۔اور اب بلکل ٹینشن مت لیجیے گا۔ڈیڈ انکو آپ اپنے ساتھ آفس لے جائیں اچھا ہے انکا دھیان ہٹے گا۔"
مراد مشورہ دیتا بولا اور انکا ماتھا چوم کر عائشے کو ساتھ آنے کا اشارہ کرتے باہر نکل گیا۔
زرپاش نے کافی عرصہ ارباز کے ساتھ ہی بزنس رن کیا تھا۔پھر سجل کی شادی کے بعد سے وہ صرف ایک ہاؤس وائف کی ذمہ داری اپنا چکی تھیں۔
     عائشے کے اندر آنے کے بعد مراد نے دروازہ آہستہ سے بند کیا۔کل رات ان دونوں کی کوئی خاص بات ہو بھی نہیں سکی تھی۔ایک میران اور رومائزہ کو لے کر متفکر تھا تو دوسری صرف رومائزہ کے لیے پریشان ہورہی تھی۔
"تم کہاں جا رہی ہو ادھر آؤ۔کل تو میں تمھاری تعریف بھی نہیں کرسکا۔"مراد نے اسے روک کر خراب موڈ سے کہا تو وہ ہنس دی۔
"آپ بھی اچھے لگ رہے تھے۔"مراد کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اس نے کہا۔مراد مسکرایا۔
"میں سوچ رہا ہوں جب اب سب ہوگیا ہے تو کہیں گھومنے کا پلان بنائیں؟اور ابھی میرے سر پہ کسی کیس کی ٹینشن بھی نہیں ہے۔"بوجھل نگاہیں عائشے کی نوز پہ ٹک گئیں تھی۔اس نے ہاتھ بڑھا کے اسے چھوا۔عائشے جھرجھری کھا کے تھوڑے فاصلے پہ ہوئی۔
"ابھی تو میرے ایگزامز ہیں۔اسکے بعد دیکھیں گے۔"
ادائیں دکھاتی ہوئی وہ ڈریسنگ کی طرف بڑھی۔مراد نے پاس جاکے دراز سے ایک کیس نکال کے اسکے سامنے کھولا۔عائشے نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔وہ مسکرا رہا تھا۔عائشے نے واپس نگاہ باکس پہ ڈالی۔نازک سا نیک لیس اس کیس میں چمک رہا تھا۔مراد نے نکال کر اسے پہنانا چاہا۔عائشے نے بال سمیٹ کے آگے کرلیے۔مراد نے نیک لیس آہستگی سے اسکی گردن میں سجا دیا۔نیک لیس عائشے کی بیوٹی بون تک کو آرہا تھا۔مراد آئینے میں اسکا دلکش عکس دلکشی سے دیکھنے لگا۔
"خوبصورت..."کان کے قریب سرگوشی کی۔عائشے جھینپ سی گئی اور نگاہیں جھکا لیں۔مراد اسے دیکھ پرسکون سا مسرور انداز میں مسکراتا گیا۔
             ان تینوں کے ایگزامز اسٹارٹ ہوچکے تھے۔رومائزہ نے میران کے حوالے سے ہر چیز فراموش کردی۔اسکے تمام احساسات اسی رات مر چکے تھے۔وہ پیپیرز کی تیاری میں بے حد مصروف ہوگئی۔اور اب سب اسکی طرف سے پرسکون بھی تھے۔
                           ★ ★ ★
نیمل نے لیپ ٹاپ تھام کر دائم کے روم کی طرف رخ کیا۔ناک کرتی روم میں آگئی۔
"سر یہ پروجیکٹ آپکو دیکھنا چاہیے۔"وہ لیپ ٹاپ سامنے رکھے اسکے قریب ہی کھڑی ٹیبل پہ جھکی ہوئی تھی بڑی خوشگواری سے گویا ہوئی۔دائم نے تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کے اسے فرصت سے دیکھا۔یہ لڑکی اب زیادہ خوبصورت لگنے لگی تھی۔
"مس نیمل آپکا یہ کام نہیں ہے آپ صرف اکاؤنٹس پہ نظر رکھا کریں۔"
وہ تھوڑا جتا کر بولا تو اس نے دانت پیس لیے۔وہ منہ پھلائے جانے لگی دائم نے تیزی سے ہاتھ پکڑ کے اسے روک لیا۔نیمل نے پلٹ کر گھور کے اسے دیکھا۔
دائم نے ہاتھ نیچے آہستہ سے چھوڑ دیا اور کوٹ کے بٹن بند کیے۔
    "چائے پینے چلیں؟"
    "میرا دل نہیں چاہ رہا۔"وہ منہ بنا کر بولی۔ناراضگی کا اظہار ہی تھا۔
    "میرا تو چاہ رہا ہے۔"
وہ مسکراہٹ چھپا کر بولا۔
   "ہاں تو جائیں پی لیں۔لازمی ہے اپنی ایمپلائے کو ساتھ لے کر جانا۔"
خاصے جتاتے ہوئے انداز میں نیمل نے دوبدو کہا۔
   "آہ ہاں!اپنی بیوی کو لے کر جاؤنگا۔"اسکے قریب ہوکر اس نے سرگوشی کی۔نیمل نے مکہ اسکے کندھے پہ جڑ دیا۔
"فضول ڈرامے بازی مت کیا کریں....بہت برے لگتے ہیں۔بھائی کل آپکا انتظار کر رہے تھے اور آپ آئے ہی نہیں۔"وہ شکوہ کناں نگاہ اس پہ ڈال کر بولی۔
"میں نے اسے انفارم کردیا تھا،میں بزی تھا اسی لیے نہیں آسکا۔"اسکے بال جو چہرے کو چھو رہے تھے دائم نے آہستہ سے کان کے پیچھے اڑستے ہوئے چہرہ اسکے قریب کیا۔نیمل نے شرما کر پلکیں بچھا لیں۔
"رموٹ اٹھا کے دینا زرا۔"کان کے قریب اسکی اس سرگوشی پہ نیمل سر تا پیر تلملا گئی۔سر اٹھا کر دیکھا،نیمل کے ہاتھ کے قریب ایل سی ڈی کا رموٹ پڑا تھا۔اسکے سامنے پٹخ کر وہ جانے لگی۔
"آئی لو یو میری جان۔"وہ دلفریبی سے بولا۔اس کے اظہار پہ وہ سرخ ہوگئی۔مسکراہٹ لبوں پہ رینگ گئی۔نکاح کے بعد اسے اظہار سننے کی عادت ہوچکی تھی۔وہ روز اظہار کرتا تھا اور وہ مسکرا دیتی تھی۔
   اسکے جانے کے بعد دائم نے ایل سی ڈی آن کی۔آج بڑا خاص دن تھا۔میران کا آج دوسرا اجلاس تھا۔اسکا پہلا اجلاس بہت کامیاب ہوا تھا۔اور اپوزیشن بھی عوام کی ریلیاں دیکھ کر سکتے میں آگئی تھی۔سب کو لگا تھا اے پی جماعت نے پاور اب کھودی ہے۔پر  میران نے واپس سب کو جمع کیا۔لوگ اس سے خوش تھے وہ سب کی پریشانی سنتا تھا اور انکی ہر طرح سے مدد کرتا تھا۔مقصدِ حیات اب بس یہی بچا تھا۔
اسکرین پہ جلسے کے مناظر چل رہے تھے۔دائم پرسکون سا ہوکے بیٹھ گیا۔اور پھر ایک نگاہ نیمل جو پروجیکٹ دکھانے لائی تھی اس پہ بھی ڈالی۔
         اپوزیشن جماعت کے لیڈرز اپنے بنگلوں اور کوٹھیوں میں بیٹھے اس کو سن رہے تھے۔اجمل خان کو اسکی پچھلی حرکت یاد آئی تھی جو میران نے اسکے کاروباری اڈوں پہ آگ لگوا دی تھی۔اسے اندازہ ہوگیا تھا اسکے پیچھے کوئی بڑے لوگوں کا ہاتھ ہے جب ہی اس واقعے کے بعد اجمل خان نے اس سے الجھنا چھوڑ دیا تھا اور میران کے پاس اسکے خلاف ثبوت بھی تھے اگر وہ بدلہ لینے کی کوشش کرتا تو میران نے ایک باری میں اسکے نام کا جنازہ نکال دینا تھا۔
پر اجلاس میں ہجوم دیکھ حسد ضرور ہوئی تھی۔
   لاؤڈ اسپیکر میں جماعت کا نغمہ بج رہا تھا۔جگہ جگہ جھنڈے لہرائے جا رہے تھے۔اور میران عوام سے مخاطب تھا۔
وہ خطاب کرکے نیچے اترا اور پارکنگ کی طرف عزیز سے باتوں میں میں محو گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا۔گارڈز اسکے آس پاس نہیں تھے۔آنکھوں سے سن گلاسز اتار کے عزیز کو پکڑادیے۔اسکی گاڑی الگ ہی جگہ کھڑی تھی اور جس کے ایک طرف ٹینکرز لگائے ہوئے تھے۔باقی اطراف سے راستہ کھلا تھا۔
اچانک ہی اس شور مچاتے ماحول کو چیرتی ہوئی گولی کی آواز گونجی۔عزیز چیخا تھا۔
"سائیں.."اس نے فوراً اپنی بندوق نکال کے راستے کی طرف کھڑے شخص پہ جس نے گن تان رکھی تھی اسکا نشانہ لیا،نشانہ چوک گیا وہ اجنبی وہاں سے فرار ہونے لگا۔
  اس شخص کا نشانہ چوکنے کی وجہ سے میران کے گولی نہیں لگ سکتی تھی۔میران نے گن عزیز سے جھپٹ کر اس شخص کے پیروں کی طرف نشانہ لیا۔گرم لوہا اسے گھٹنے میں پیوست ہوتا محسوس ہوا۔عزیز اسکی جانب لپکا وہ لڑکھڑا کے درد کی شدت سے نیچے جا گرا۔سیکورٹی گولی کی آواز پہ الرٹ ہوگئی تھی۔سیکورٹی کے انتظامات مراد دیکھ رہا تھا وہ وہاں موجود تھا۔فوراً ادھر پہنچا اور اس شخص کو گریبان سے پکڑا۔
"تم ٹھیک ہو؟"اس نے سر اٹھا کے میران سے پوچھا۔
    "میں ٹھیک ہوں پر یہ نہیں بچے گا۔بتاؤ کس نے تمھیں یہ کام کرنے کو کہا؟"میران دھواں دھار انداز میں دھاڑا تو وہ جواری شخص سہم سا گیا۔عزیز نے کسی گاڑی کی آواز پہ چونک کر سر اٹھایا اس کی نگاہ دور ایک گاڑی پہ پہنچی۔گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ موجود شخص نے اس جواری کا نشانہ لیا تھا کہ اسکی زبان بند ہی کردے۔عزیز نے لمحہ ضائع کیے بغیر ایک گولی گاڑی کی طرف چلائی جو اسکے اگلے پہیے کو جا لگی۔گاڑی چرچرائی....اور دوسرا نشانہ مراد نے اسکے ہاتھ کا لیا۔گن اس شوٹر کے ہاتھ سے نیچے گر گئی۔ڈرائیور گاڑی سنبھال نہیں سکا۔سیکورٹی گارڈ اور پولیس ادھر لپک گئی۔
"خان نے بھیجا ہے تمھیں؟وہ باز نہیں آیا!"عزیز بپھرے شیر کی مانند غرایا۔
"صاحب مجھے جانے دو مجھے بس پیسے دیے گئے تھے۔"وہ جواری رونے لگا۔
"بتا رہے ہو یا گولی تم میں اتار دوں؟"عزیز نے اسکے سر پہ گن رکھ دی۔اسکا دماغ گرم ہوچکا تھا۔عبدل بھی وہاں گھبراتے ہوئے پہنچا۔باہر افواہ پھیل چکی تھی کہ میران جاہ پہ حملہ ہوا ہے اور اسے گولی لگ چکی ہے۔اور میڈیا تو پہلے ہی موجود تھا۔
دائم یہ خبر سنتے ہی ہڑبڑا کے اٹھا تھا اور موبائل اٹھا کے تیزی میں کمرے سے نکل گیا۔
رومائزہ پیپر دے کر گھر آچکی تھی۔بتول نے کافی دیر سے نیوز چینل کھول رکھا تھا۔میران کا خطاب وہ سن رہی تھیں۔
رومائزہ لاؤنچ کے پاس سے خاموشی سے گزرنے لگی۔نیوز کاسٹر کی کان پھاڑتی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔وہ وہیں ٹھہر سی گئی اس نے اسکرین کو دیکھا۔بتول نے فوراً ایل سی ڈی بند کردی۔
"بیٹا تم آگئیں۔فریش ہوجاؤ میں کھانا لگواتی ہوں۔کتنی کمزور ہوگئی ہو ایگزامز کے چکر میں۔"
وہ اسے پیار سے پچکارتے ہوئے بولیں۔پر وہ سن ہی کہاں رہی تھی۔اسکا دماغ تو نیوز کاسٹر کی بات پہ رک سا گیا تھا۔میران کو پھر گولی لگی تھی؟کیا یہ اسکی دی بد دعاؤں کا نتیجہ تھا؟وہ تو اسے اب معاف کرچکی تھی۔ایک پل کو اسکا دل کانپ گیا۔آنکھ سے آنسو نا نکل سکے،بے چینی سی بڑھ گئی۔خیالوں کی زد میں بغیر کچھ کہے وہ کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
      "صاب مجھے معاف کردو مجھے بس پیسوں کی ضرورت تھی..."ایک ہی بات کی وہ شخص گردان کیے جارہا تھا۔نشئی جواری سا معلوم ہو رہا تھا۔مٹیالے کپڑے دھول سے اٹے بال۔میران کے اشارے پہ عزیز نے اسکا گریبان چھوڑ دیا۔
"پیسوں کی ضرورت ہے تو کوئی کام کاج کرو،کسی کی جان کی سوپاری لینا کہاں کی عقلمندی ہے؟"میران نے سرد انداز میں اسکے کندھے پہ ہاتھ جمایا۔
"میران تم رہنے دو میں خود اپنے طریقے سے اسکا منہ کھلوا لونگا۔"مراد نے جبڑے بھینچ کر کہا۔
"سائیں میں بتا رہا ہوں یہ خان کا کام ہے،خدا کی قسم میں اسکی جان اس بار اپنے ہاتھوں سے لونگا.."
"نن نہیں..مم مارگن نامی کوئی اسمگلر ہے اسکے کسی ساتھی نے مجھے صاب جی پہ گولی چلانے کے لیے پچاس لاکھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔"اس شخص کی بات پہ یقین کرتے ہوئے مراد اور میران نے ایک دوسرے کو ماتھے پہ بل لاتے ہوئے دیکھا۔
"کیوں؟سب بتا دو جو تم جانتے ہو!"عزیز نے اسکا بازو جھٹک کر کہا۔
"بدلہ بدلہ کر رہا تھا وہ،میں بس اتنا ہی جانتا ہوں۔"وہ گڑگڑاتے ہوئے صفائی دینے لگا۔
"اب اسکا اتا پتا تم ہم کو بتاؤگے..سمجھے!"مراد نے اسے گریبان سے پکڑ کے اٹھایا اور اپنے پاس آتے ہوئے حوالدار کے حوالے اسے کردیا۔اور ان باقی گاڑی سوار شوٹر اور ڈرائیور کو بھی اسٹیشن لے جانے کی تلقین کی۔پھر میران کی جانب واپس جیب میں ہاتھ ڈال کے گھوما۔
     "سائیں آپکے دشمن ہر طرف پھیلے ہیں آپ احتیاط کیا کریں۔"عبدل نے فکرمندی سے کہا۔ہرے فکر کے آثار نمایاں تھے....مراد نے سر ہلایا۔
"تم نے مارگن کو دھوکے سے ہمارے حوالے کیا، بس اس بات کا حساب پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔خدا کا شکر اس جواری کا نشانہ تمھیں لگا نہیں۔"مراد نے جیبوں سے ہاتھ نکال کے اسے سلامت دیکھ کر اسکے شانے تھام کر کہا۔
"چلو اب پتا تو چل جائیگا اور کون اسکے ساتھ ملوث ہے۔"میران نے لب پیوست کرلیے۔
"اب چلو اس سے پہلے میڈیا کے نمائندے یہاں پہنچیں اور سوالوں کی بارش کردیں۔"مراد انھیں کہتا میران کے ہم قدم گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔اس نے اسکی گاڑی کے ساتھ مزید سیکورٹی کی گاڑیاں لگوادی تھیں۔
     میڈیا پہ میران کو گولی لگنے کی جو جھوٹی افواہ اڑی تھیں مراد نے اسکی تردید کردی۔اور ایک نا معلوم شخص کا حملہ بتا کر اس معاملے کو ختم کر دیا۔
                           ★ ★ ★
غضنفر صاحب ڈنر کے بعد کمرے میں چلے گئے۔وہ خبریں ہی سن رہے تھے۔بتول کچن سمیٹ کر فارغ ہوئیں تو اندر آگئیں۔وہ سونے کے لیے لیٹ چکی تھیں۔غضنفر شنواری نے ٹی وی کی آواز دھیمی کردی تھی۔
"کیا سوچ رہے ہیں آپ؟"کافی دیر انھیں یک ٹک بیٹھے دیکھ بتول نے پوچھ لیا۔
"میں حیران ہورہا ہوں میران جاہ کو لے کر۔اچھا بھلا انسان ہے،پر اس نے ہماری بچی کے ساتھ کتنا غلط کردیا۔اگر حفاظت اسکی اپنے باپ سے کر رہا تھا تو وہی کرتا نا،درمیان میں اپنی انا کی ایک ٹھیس پر سب پاش پاش کردیا۔اسکے کس روپ پہ انسان بھروسہ کرے۔"
"غضنفر صاحب نیتوں سے واقف اللہ ہی ہے آپ سوچنا چھوڑ دیں۔جو ہونا تھا ہوگیا۔خیر رومائزہ کے ایگزامز کے کچھ دن بعد نکاح کی تاریخ رکھ لیتے ہیں تب تک سفیر بھی اٹلی کے وزٹ سے واپس آجائیگا۔"سر کے نیچے رکھا تکیہ انھوں نے درست کیا۔غضنفر نے داڑھی پہ ہاتھ پھیرا اور پرسکون ہوئے۔
"ہاں یہی مناسب ہے۔رومائزہ کے ایگزامز کے بعد آپ تیاری کرلیے گا۔سفیر کو بھی ہفتہ دو ہفتہ واپسی میں شاید لگ ہی جائے گا۔"انھوں نے ٹی وی بند کرکے رموٹ سرہانے رکھ دیا۔
"کیا تیاری سب سادگی سے ہوگا۔رومائزہ کو ساتھ لے جاؤنگی اسی کی پسند سے اسکا جوڑا خرید لونگی۔"وہ کمفرٹر کھولتے ہوئے بولیں۔
"اور آپ نے اپنے بیٹے کے نکاح کے لیے تیاری نہیں کرنی؟"
"ضرور،میرا اکلوتا بیٹا ہے۔اسکی شادی پر میں سارے ارمان پورے کرونگی۔ابھی تو سادگی سے نکاح کرلیتے ہیں۔"خوشی سے مسکرا کر انھوں نے کہا۔کمفرٹر اوپر تک خود پہ ڈال لیا۔غضنفر بھی سائڈ لیمپ بند کرکے آنکھیں موند گئے۔
   ۔      زندگی اپنی ڈگر پہ چل رہی تھی،وہی روز صبح وہی شام...دو پیپرز تو ہوچکے تھے اب وہ تیسرے کی تیاری میں بے حد مصروف تھی۔سفیر بزنس ٹرپ پہ اٹلی جا رہا تھا۔رومائزہ نے اسکے لیے براؤنی بیک کی تھی۔اور وہ اسٹاریج باؤل میں پیک کرکے اسکے سامان میں رکھ دی تھی۔
"یہ ادھورا اسکیچ کیوں لے کر جارہے ہیں؟"
اس نے جب سفیر کا بیگ کھولا تو اوپر ہی شیٹ پڑی تھی۔وہ حیرانی سے بولی۔ہاں اس دن کے بعد سے اسے سفیر کے اسکیچ کو مکمل کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔
"یاد کے طور پہ کہ ایک حسین لڑکی میرا اسکیچ بنارہی تھی۔"وہ مزاحقہ خیز انداز میں بولا۔رومائزہ بھی ہنس دی۔
"پھر تو مجھے یہ مکمل کردینا چاہیے تھا۔ایک کام کریں اسے یہیں چھوڑ جائیں ایگزامز کے بعد فارغ ہوجاؤنگی۔آپکے اس پوز کی پکچر بھی میرے پاس سیو ہے تو اسے فراغت ملتے ہی میں مکمل کردونگی....کیسا۔"اس نے جھٹ پٹ اپنا ارادہ بتایا تو سفیر نے خوشی خوشی شیٹ باہر نکال کے صوفے پہ رکھ دی۔
"تھینک یو سو مچ۔"وہ مسکرایا۔
"تھینک یو سے کام نہیں چلے گا۔اٹلی میں کچھ دن بعد ایگزیبیشن لگنے والی ہے اور وہاں بہت بڑے بڑے آرٹسٹس کی پینٹنگز سیل ہوتی ہیں۔تو آپکو میرے لیے کوئی ایک اچھی سی لانی ہوگی!"کمر پہ ہاتھ رکھے دوسرا ہاتھ کی شہادت کی انگلی اسے دکھا کر وہ بولی۔
"جو حکم،ویسے بھی ساری زندگی آپکا حکم ہی ماننا ہے۔"وہ ہنس کر بیگ کو بند کرنے لگا۔رومائزہ کے لبوں پہ جو مسکان کے دیے جل رہے تھے مبھم پڑ گئے۔اس نے اس بات پہ کوئی جواب نہیں دیا۔
"چلو اپنا،ممی کا اور ہمارے ابا حضور کا خیال رکھنا۔اور اچھا سا اسکیچ بنا کر پیٹنگ مکمل کرنا۔میں ہینڈسم سا لگوں۔اپنے کمرے کی بیڈ کے سامنے والی دیوار پہ پھر یہ پینٹنگ لگاؤنگا۔"
"جیسے ہیں نا ویسے ہی لگینگے۔میں کوئی ہیرے موتی توڑ کے آپکی خوبصورتی بڑھانے کے لیے نہیں لگا سکتی۔"وہ اپنے پرانے انداز میں تڑخ سے جواب دیتے بولی پھر زبان دانتوں میں دبا کر آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا۔
"گھور کیا رہے ہیں؟فلائٹ مس ہوجائیگی جلدی کریں۔تائی امی آپکا بیٹا واپس جارہا ہے..."بتول کو آواز لگا کر اس نے مسکراہٹ کانوں تک لمبی کرنی چاہی۔
"حد ہے۔"سفیر ہنس کے بیگ اٹھا کر لاؤنچ سے باہر نکلا۔بتول نے اپنے لاڈلے پہ دعائیں پڑھ کے پھونکیں۔
"مما بال خراب ہوجائینگے یار۔"سفیر نے گاڑی کی ڈگی میں بیگ رکھ کر بالوں پہ ہاتھ پھیرا۔
"بہت بری بات ہے،ماں کی دعائیں ہر وقت لینی چاہیے۔ماں کی قدر کریں جس کے پاس نہیں ہوتیں ان سے پوچھیں کہ..."اپنی بات پہ غور کرتے ہوئے اسکی چلتی زبان اچانک رک گئی۔ناز کے خیال پہ اسکا چہرہ بجھ گیا تھا۔سفیر اور بتول نے یہ فوراً اسکے اندر ابھرتی تبدیلی بھانپ لی تھی۔
"بلکل... شادی کے بعد تم اسکے سہی طرح کان کھینچنا،پاکستان آکر یہ بہت بدتمیز ہوگیا ہے۔"بتول نے اسکی اداسی مٹاتے ہوئے کہا تو وہ مسکرانے لگی۔ماں سے گلے لگ کر وہ گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی اس چھوٹے سے پورچ سے باہر نکال دی۔
وہ دونوں ہنستے مسکراتے باتیں کرتی ہوئیں اندر آگئیں۔پھر رومائزہ تیاری کا کہہ کر کمرے میں چلی گئی۔
دوپٹہ ایک طرف رکھ کے وہ بیڈ پہ منہ کے بل گرنے والے انداز میں لیٹ گئی۔کتاب کھینچ کر منہ کے قریب کرلی۔
یہ مجھے چین کیوں نہیں آتا؟
ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا؟
                           ★ ★ ★
"انوش تمھاری پیپر کی تیاری ہوگئی؟"ناہید اسے شام سے ادھر ادھر منڈلاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔اور اب وہ بلند آواز میں گانے لگا کر بیٹھی بریانی کھا رہی تھی۔چہرے پہ کسی قسم کی ٹینشن کے اثرات نمایاں نہیں تھے۔
"آف کورس مام۔بریانی کھائینگی؟"اس نے آنکھیں پٹا پٹا کر پوچھا۔ناہید برہمی سے سر جھٹک کے پاس ہی دوسرے صوفے پہ بیٹھ گئیں۔
"فیوچر کو لے کر تھوڑی سیریس ہوجاؤ۔بڑی ہوگئی ہو کب تک یہ نان سیریس بی ہیووئیر رہے گا؟"
"فیوچر کونسا بھاگے جارہا ہے سوچ لونگی۔"وہ انھیں ٹال کر چکن کی بوٹی سے تلوار بازی کرتے ہوئے بولی۔
"انوش.."
"کیا ہوگیا بھئی کیوں ہماری صاحبزادی کو ڈانٹ رہی ہیں؟"گلزار صاحب فریش ہوکر لاؤنچ میں آئے اور اپنی زوجہ کو بیٹی پہ غصہ ہوتے دیکھا تو خاموش نہ رہ سکے۔
"بس بابا دیکھیں نا،انکو ہر وقت مجھ سے مسئلہ رہتا ہے....پنجے جھاڑ کے میرے پیچھے لگی رہتی ہیں۔بریانی کھا رہی ہوں اس پہ بول رہی ہیں کہ نان سیریس ہوں۔بھلا یہ اس بات کی کیا تک؟سیریس رہ کر میں نے کیا اکھاڑ لینا۔بے فکر رہیں فیلئیر نہیں رہونگی،پر ابھی تو چل رہنے دیں نا۔"
باپ کی حمایت ملتے ہی وہ ان سے لگ کر بیٹھ گئی۔گلزار صاحب اسکے برابر میں دراز ہوگئے اور بازو انوش کے پیچھے صوفے کی پشت پہ پھیلا دیا۔
"زبان دیکھیں اسکی کتنی لمبی ہوگئی ہے،اور کیسی فر فر چلتی ہے۔سمجھائیں اسے اب ایگزامز کے بعد گھر داری سیکھ لے۔"
"آااا...بابا کیا واقعی بہت لمبی زبان ہوگئی ہے میری؟"چمچ پلیٹ میں رکھ کے انوش نے منہ کھولا۔ناہید سر پیٹنے لگیں گلزار کا فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا۔
"انسانوں والی حرکتیں کرلیا کرو!لڑکیاں ایسے منہ پھاڑتی اچھی نہیں لگتیں.."انوش کے مسلسل مذاق پہ ناہید نے اسے ڈپٹا۔
"آپ لسٹ دے دیں جن میں لکھا ہو لڑکیاں کونسے کام کرتے اچھی لگتی ہیں پھر میں وہی کیا کرونگی۔"وہ آنکھیں پٹا پٹا کر بولی۔ناہید نے سختی سے گھورا۔
"بس بھی کریں آپ بھی پیچھے ہی پڑ جاتی ہیں اسکے،سیکھ لے گی گھرداری بھی....کونسا ابھی ہم اپنی بیٹی کو بیاہ رہے ہیں۔ہماری بچی ہونہار بہت ہے جلدی سیکھ جائیگی۔"
"بلکل۔"انوش خوب چوڑی ہوئی اور آنکھیں جھپکا کر بولی۔گلزار صاحب ہنس رہے تھے۔اور ناہید اسکے پھوڑ پن پہ پریشان!
"اچھا چلو مجھے بتاؤ آگے آپ نے کیا سوچا ہوا یے۔اسٹیڈیز کے بعد کیا ارادہ ہے؟"
"شادی کا ہی ارادہ ہوگا۔بس ہر وقت کہانیاں پڑھ والو اور سیر سپاٹے کروالو۔"ناہید نے خوب اسکی عادات پہ چوٹ کی۔انوش نے رونی شکل بنائی ہونٹ سکیڑے۔
"بابا دیکھیں انھیں۔بلکہ آپ تو شادی کے دن سے ہی دیکھ رہے ہیں۔آپ تو دیکھ دیکھ کر بھی پککک مطلب تھک گئے ہونگے۔"وہ باپ کے ساتھ مل کر ماں کو خوب چھیڑنے لگی۔ہمیشہ یہی ہوتا تھا وہ باپ بیٹی ایک طرف ہوجایا کرتے تھے اور ناہید کو خوب پریشان کرتے تھے۔جب وہ روٹھ جاتیں تو انوش ان سے جاکے چمٹ جاتی اور منا کر ہی انکو دم لیتی تھی۔یہ اب معمول سا ہوگیا تھا۔
"ایسے جواب اسکے منہ پہ رکھا ہوتا ہے پر آپکو لاڈلی کی غلطی کبھی دکھتی ہی کہاں ہے۔"وہ شکوہ بھرے لہجے میں بولیں۔
"مام میں ابھی شادی نہیں کرونگی بلاوجہ آپ ٹینشن لیتی ہیں۔"
"تو کب کروگی؟"
"پتا نہیں۔"لہجہ کچھ عجیب سا ہوا پھر اس نے خود کو نارمل کیا۔
"اوکے اوکے۔اب میں بلکل سیریس ہوکے بتاتی ہوں کہ کیا کرونگی۔"اس نے چمچ چاولوں میں چلایا پھر پلیٹ جھک کے ٹیبل پہ رکھ دی۔وہ دونوں ٹانگیں صوفے پہ آلتی پالتی مار کے بیٹھی ہوئی تھی۔سبز ٹی شرٹ کے ساتھ جینس پہنی تھی۔
"میں بریانی کا ریسٹورنٹ کھولوں گی۔وہ بھی بابا کے نام سے...گلزار بریانی ریسٹورنٹ!"لہک لہک کر اس نے ہاتھ اوپر کیے اور ایل شیپ میں انگلیاں کرکے بتایا۔گلزار ہنس پڑے اور ناہید کو بھی وہ ہنسنے پہ مجبور کر گئی تھی۔
"چپ کرکے کھانا لو اب.."ناہید نے گھور کے اسے کہا تو وہ معصومیت کا لبادہ منہ پہ چڑھا کے بریانی پہ ٹوٹ پڑی۔
                            ★ ★ ★
مراد گیارہ بجے تک گھر لوٹا تھا۔عائشے پڑھنے میں مصروف تھی۔ان دونوں کی آج کل بات چیت سہی طرح ہو بھی نہیں پارہی تھی۔وہ کھڑکی کے پاس کھڑے پڑھتے پڑھتے خیالوں کی دنیا میں جا چکی تھی۔
"کیوں پریشان ہو؟"مراد نے آکر اسے اپنے حصار میں لیا۔اور گردن اسکے کندھے پہ ٹکا دی۔
"پتا نہیں۔"عائشے نے سر کتاب پہ جھکا لیا۔
"سارے جہاں کی ٹینشنز اپنے سر پہ لینے کا تمھیں زیادہ شوق نہیں؟اپنے پیپر کی فکر کرو،پر نہیں تم کو ٹینشن لینی ہے۔"
اسکی کی بے جا ٹینشن لینے کی عادت پہ وہ چوٹ کرتا ہوا بولا۔
"کچھ بھی...!میں بس یہ سوچ رہی ہوں ہم گھومنے کہاں جائیں گے!"وہ اسکی طرف گھومی مراد کے بازو اسکے اردگرد ہی تھے۔
"تو پھر کہاں جانے کا ڈیسائیڈ کیا ہے؟"
"سوات۔پہلے تو ہم بس ناشتہ کرنے ہی باہر نکلے تھے پر اب پورا گھوم کے آئیں گے۔سارے نارتھرن ایریاز گھومیں گے۔"وہ مراد کا پرتپش مسکراہٹ سے بھرا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی۔
"ویری گڈ،نائس ڈریمنگ۔ناؤ گو ٹو بیڈ اینڈ سلیپ،ریڈ ان دا مارننگ!"عائشے کے ہاتھ سے کتاب لے کر مراد نے ایک طرف رکھ دی اور تحکم سے بول کر لائٹ آف کرکے سونے کے لیے لیٹ گیا۔
                           ★ ★ ★
     رومائزہ تیسرا پیپر دے کر گھر آئی تھی۔لاؤنچ میں غضنفر کے ساتھ وکیل کو بیٹھا دیکھ چونک کر انکے پاس چلی آئی۔کندھے سے بیگ اتار کے ایک طرف رکھ دیا۔اسکے استفسار سے پہلے ہی تایا ابو اسے خود مخاطب کر چکے تھے۔
"بیٹا یہ آپکے اپارٹمنٹ کے پیپیرز لے کر آئے ہیں۔"
غضنفر نے آہستہ سے کہا۔رومائزہ نے نا سمجھی سے وکیل کو دیکھا جو فل ٹپ ٹاپ ڈریسنگ میں ملبوس بیٹھا تھا۔
"میڈم یہ شنواری ہاؤس کے دستاویزات ہیں۔میران صاحب وہ اپارٹمنٹ آپکے نام گفٹ کر رہے ہیں۔یہ آخری تحفہ سمجھ کے رکھ لیں۔انکا کہنا ہے یہ گھر پہلے دن سے ہی آپکا تھا اور آپکا ہی رہے گا۔آپ کے دستخط کی ضرورت ہے۔آپ پڑھ کے مطلوبہ جگہ سائن کردیے گا۔"
وکیل پیشہ ورانہ انداز میں مخاطب ہوا،باقی گفتگو وہ غضنفر سے بھی کر چکا تھا۔وہ مزید رکا نہیں غضنفر سے مصافحہ کرکے نکل گیا۔روما پیپیرز گود میں ڈالے بیٹھی رہی۔وہ ہکا بکا پریشان ہوگئی تھی۔اسے نے پریشانی سے سر اٹھا کے بڑے پاپا کو دیکھا۔
"بڑے پاپا مجھے اسکی طرف سے کسی قسم کا کوئی تحفہ نہیں چاہیے۔آخر یہ ثابت کرنا کیا چاہتا ہے؟پہلے گھر چھین لیا اب ماہان بن کر واپس کر رہا ہے۔"
کاغذ میز پہ پھینک کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔اپارٹمنٹ کا منظر جھماکے کی صورت میں آنکھوں میں گھوما۔
"کول ڈاؤن بیٹا،یہ گھر میرے بھائی کی نشانی ہے۔میران جاہ یہ تمھارے حوالے ہی کرنا چاہتا ہے نا تو پھر ہم اس سے خرید لیں گے۔سفیر آجائے پھر میں یہ معاملہ دیکھتا ہوں۔"اسے پچکارتے ہوئے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔رومائزہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"واقعی خرید لیں گے؟"وہ چہکی۔
"بلکل۔۔"وہ مسکرائے روما نے تشکر بھری نگاہوں سے انھیں دیکھا اور ان سے لگ گئی۔
"تھینک یو تایا ابو۔آپکو پتا نہیں ہے یہ گھر میرے لیے کتنا اہم ہے،خاص سے بھی زیادہ خاص ہے۔ممی اور بابا دونوں کی حسین یادیں وہاں ہیں۔"رومائزہ نے ان سے الگ ہوکر بتایا۔
"پیپرز کیسے جا رہے ہیں آپکے؟"
"الحمدللہ بہت اچھے۔اب تو بس دو رہتے ہیں،پھر نیا سمسٹر شروع ہوگا۔"
ان کے پاس سے فاصلہ بنا کر اس نے صوفے پہ پڑا بیگ اٹھا کے کندھے پہ ڈالا۔
"چلو جاؤ کچھ دیر آرام کرو۔کھانا کھا لینا۔"اسے ہدایت کرتے وہ آفس کے لیے نکل پڑے۔رومائزہ بھی پرسکون سی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔اپارٹمنٹ کا سن کے آج اسے خاصا اطمینان ہوا تھا۔ایگزامز کے جھمیلوں میں وہ میران اور اسکی آخری ملاقات سب فراموش کر چکی تھی۔تھوڑی ڈسٹرب ہوتی بھی تھی تو گھر والوں پہ یہ بات عیاں نہیں کرتی تھی۔
             شمس ہسپتال سے لوٹا تھا...عزیز نے میران کو اسکے بیٹے کی بیماری کے حوالے سے آگاہ کردیا۔میران نے کہا تھا اس بچے کا علاج وہ خود کروائے گا۔اگر علاج پاکستان میں ممکن نہ ہوا تو باہر بھیجوائے گا۔پر اسکا یہیں علاج ممکن تھا ٹریٹمنٹ جاری تھی پر بیماری پہ حاوی ہونے کے لیے وقت درکار تھا۔
میران کھانا کھا کر فارغ ہوا۔
"سائیں چائے پئیں گے؟"فرید نے جی حضوری
کرتے پوچھا۔وہ سر اثبات میں ہلا کر جواب دیتا لان میں چلا گیا۔اس نے واپس آکر اب تک زولفقار سے بات نہیں کی تھی۔وہ آتا ہی دیر رات کو تھا اور پھر صبح ہوتے ہی چلا جاتا۔زولفقار اس پہ برہم تھے وہ خود بھی اس سے ملنے نہیں آئے تھے۔
میران باہر آگیا کھلے آسمان کے نیچے زیادہ پرسکون رہتا تھا۔اس نے آنکھیں موند لیں تو ہمیشہ کہ طرح کی نازک سراپا آنکھوں کے گرد لہرایا۔وہی سفید گھیردار پیروں کو چھوتی فراک میں ملبوس سراپا،مہندی سے سجے ہاتھ گجروں سے لیس کلائی۔
کھلکھلاتا ہوا چہرہ،رمق زدہ قاتلانہ نگاہیں...ایک پل کو اسکا شدت سے دل کیا تھا ان گجروں کی خوشبو خود میں اتارے۔اس نے جھپاک سے آنکھیں کھول لیں۔چہرہ بے تاثر ہی رہا۔
اٹھ کر تو آگئے ہیں تیری بزم سے آخر،
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
       وہ اسکی زندگی سے تو نکل آیا تھا پر اپنی زندگی سے اسے نکالنا ناممکن تھا۔اسکی یادیں سوچوں پہ قابض رہتیں،خیالوں کی ملکہ بن چکی تھی وہ۔رومائزہ شنواری!
پہلے ہی دن سے اس نے ایک خوبصورت یاد کی طرح میران کے دل میں ڈیرہ ڈالا ہوا تھا۔
    "تم ایک ہینڈسم،خوب شکل،امیر کبیر اربوں کی جائیداد کے مالک ہو۔تم کو مجھ سے بہتر اور کوئی چاہنے والی مل جائیگی۔"
ایک وقت کبھی رومائزہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پتھر دلی سے کہا تھا۔میران اسکی آنکھوں کے بھنور میں ڈوبتا مدھم سا ہنسا۔قدم بڑھا کے اسکے نزدیک آیا اور اسکی گہری بھوری آنکھوں میں جھانکا۔
"پر میری زندگی کا قیمتی اثاثہ تم ہو،مجھے تم سے محبت ہے،تمھاری طلب ہے۔لوگ مجھ سے زیادہ میرے پیسے سے پیار کرتے ہیں وہ یہ عیش و عشرت یہ دولت دیکھتے ہیں۔اور بات رہی ہینڈسم ہونے کی بے شک وہ تو میں ہوں پر ایسا دل نہیں چاہیے جو ہر ایک پہ فدا ہو جائے۔
میری خواہش صرف تم تک محدود ہے،اور مجھے کسی کی تمنا نہیں ہے۔"بڑے ہی ٹھہرے ہوئے انداز میں مسرور مسکراہٹ کے ساتھ اس نے جواب دیا تھا۔
"پھر تم پتھر سے سر پھوڑ رہے ہو۔"وہ جواباً چٹخ کر بولی۔
میران اسکے خیال سے باہر نکلا۔
بے خودی میں وہ مبھم سا مسکرایا پھر مسکراہٹ جیسے سمٹ گئی۔اگلا خیال جو اسکی شادی کا آیا تھا۔چند دن بعد وہ کسی کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہونے جارہی تھی۔کاش وہ کسی میران ہی ہوتا۔رومائزہ کا کسی اور کا ہوجانا یہ بات اتنی تکلیف دہ تھی کہ وہ برداشت نہیں کرپاتا تھا۔دل پسلیاں توڑ کے باہر آنے پہ بضد ہوجاتا تھا۔دل و دماغ میں جنگ چھڑ جاتی تھی۔
    تمام ملازمین بڑی انمہاک سے کاموں میں مصروف تھے۔مالی اس بڑے سے باغ کو پانی سے نہلارہا تھا۔ماحول میں نمی آگئی ہریالی بھیگ گئی۔مٹی کی خوشبو محسوس ہوتی بڑی اچھی محسوس ہورہی تھی۔وہ کافی دیر کھڑا وہاں کے نظارے دیکھتا رہا۔اسے معلوم تھا رومائزک کو یہ قدرتی مناظر کی خوبصورتی بے حد پسند تھی۔اکثر وہ انھیں یونہی دیکھتا رہتا تھا۔
     فرید نے تھوڑی دیر بعد چائے پیش کردی۔
گھونٹ در گھونٹ اس نے اپنے اندر اتارے۔تبھی مین گیٹ کھولا گیا تھا۔عزیز نے گاڑی پورچ میں لاکر روکی اور اپنا ٹمٹماتا چہرہ لیے اسکے پاس آیا۔میران نے گھونٹ لے کر کپ لبوں سے دور کیا۔
"سائیں اے ایس پی صاحب نے مارگن کے ساتھیوں کو بھی پکڑ لیا ہے۔سلام بھیجوایا ہے انھوں نے آپکو۔"
وہ خوشی سے بتارہا تھا....میران نے سر ہلانے پہ ہی اکتفاء کیا۔اسکی اس قدر خاموشی بنگلے میں موجود ہر فرد کو کھٹکتی تھی۔اس نے بولنا چھوڑ دیا،اپنی سنجیدہ رہنے کی عادت سے کچھ لوگوں کو وہ مغرور بھی بہت لگتا تھا۔
"سائیں کب تک اس طرح رہیں گے؟"
عزیز کی زبان بھی رکتی نہیں تھی۔کئی بار وہ اسے کھری کھری سنا چکا تھا پھر بھی وہ یہ سوال کرنے سے باز نہیں آتا تھا۔میران نے چائے کا گھونٹ بھرا۔
"اسکے جواب نہیں ہے میرے پاس۔"عزیز نے غور سے اسکا نکھرا ہوا چہرہ دیکھا جس پہ کسی قسم کی خوشی کی رمق نہیں تھی۔سرد اور سنجیدہ تاثرات تھے۔بال ماتھے کو چھو رہے تھے۔شاید میران کو اندازہ نہیں تھا اس طرح وہ مزید خوبصورت لگتا ہے،سنجیدگی لاپراوہی اس پہ ہی تو جچتی تھی۔مغرور سی آنکھیں..
اسکے نقوش دیکھنے سے فرمت ملی تو عزیز نے سانس بحال کی۔
"جواب ہوگا بھی کیسے آپ خود انکے خیالوں کی زد سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔"
"عزیز..."اسکی حقیقت افشانی پہ وہ برہم ہوا تو عزیز نے چہرہ جھکا لیا۔اتنے میں شمس ان کے درمیان آگیا۔میران کو مخاطب کرنے کی اب اس میں ہمت بچی نہیں تھی۔
"کیسا ہے تمھارا بیٹا؟"اس کے تمام گناہوں کو فراموش کرکے میران نے فکر مندی سے پوچھا۔
"علاج ہورہا ہے،روز وہ نئی تکلیف سے گزرتا ہے۔چھوٹی سی جان آخر کتنا درد برداشت کریگی۔"وہ غمزدہ تھا۔میران نے تسلی دینے کے لیے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھا اور پھر واپس اندر کی طرف پلٹ گیا۔شمس نے ندامت سے جھکا سر اٹھا کے عزیز کو دیکھا۔
                             ★ ★ ★
بتول اور غضنفر اپنے کسی جاننے والے کی عیادت کے لیے تھوڑی دیر پہلے ہی روانہ ہوئے تھے رومائزہ گھر میں اکیلی تھی۔پیپر کی تیاری مکمل ہوچکی تو وہ فارغ ہوکر پینٹنگ کا سامان لاؤنچ میں لے کر بیٹھ گئی۔اسٹینڈ اس نے سیٹ کردیا تھا۔پھر اسٹول لا کر رکھا۔اس نے برش اٹھایا ہی تھا ملازمہ آکر اسے پیغام دینے لگی۔
"باجی باہر آپ سے کچھ لوگ ملنے ہیں۔آپ جاکے دیکھ لیں۔"
رومائزہ کو تھوڑی حیرت ہوئی اس سے بھلا کون ملنے آسکتا تھا اور کوئی انجان؟وہ برش ایک طرف پینٹ کلرز کے ساتھ رکھ کر دوپٹہ شانوں پہ پھیلا کر باہر نکلی۔لان سے گزر کے وہ مین گیٹ تک آن پہنچی۔
"کون آیا ہے؟"دھوپ کی شدت سے اس نے ہاتھ ماتھے پہ رکھ کے چوکیدار سے پوچھا۔
"بیٹا بار بار آپ کا نام لے رہے ہیں کہ آپ سے ملنا ہے۔اجنبی لوگ ہیں۔"چوکیدار نے بتاتے ہوئے دروازہ کھولا۔جوں جوں دروازہ سرکتا گیا باہر کامنظر صاف ہوگیا۔
ایک مہذب سی عمر رسیدہ خاتون سر پہ دوپٹہ اوڑھے اچھے پوشاک پہنے اسکے سامنے کھڑی تھیں۔بے ساختہ رومائزہ کی انھیں دیکھ کر بانچھیں کھل گئیں۔
"حلیمہ بی۔"وہ خوشی سے چِلّا کر گیٹ سے باہر نکلی اور انکو خود میں سمالیا۔
"شکر تم مجھے بھولی نہیں۔"وہ ان سے دور ہٹی تو حلیمہ بی نے مسکرا کر کہا۔کتنے دن بعد یہ چہرہ انھیں واپس دیکھنے کو نصیب ہوا تھا۔اسکے جانے کے بعد وہ تنہا ہوگئی تھیں اور وہ یاد بھی بہت آتی تھی۔اسکی فکر بھی انکو ستائے رہتی۔
"آپکو کیسے بھول سکتی ہوں میں،اندر آئیں نا آپ.."انکا ہاتھ تھامے وہ گھومی پر اسکے قدم جیسے رک گئے۔اس نے گردن ہلکی سی بائیں جانب کی تو سکتے میں آگئی۔حلیمہ بی کا تھاما ہوا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھونٹ گیا۔
سامنے عزیز،عبدل اور شمس کھڑے تھے۔اور ساتھ میں ایک بڑی عمر کے آدمی بھی تھے۔بابا کے دوست۔میاں حسن!
وہ پتھر سی ہوگئی۔
                        جاری ہے.....
Mazeed sirf 4 episodes rehti hain..
Do episodes mai kafi chezain samati jayengi:)wo parh k pta chaly ga..qk unko na likhti tu kahani adhori or namukammal lagti..jese bhagai ja rhi hu..

Har chez ka tareeka hota hai isi hisab se hum ending py jayengy..
Or un mai kuch khas waqiyat bhi paish aany waly hain..or agy ki qisto mai wadde wadde jhatky hongy..🤡

Don't forget vote and comment

عشقِ متشکرمWo Geschichten leben. Entdecke jetzt