قسط 18 خسارہ

430 46 14
                                    

                             ★ ★ ★
دلِ گمشدہ!کبھی مل زرا
مجھے وقت دے میری بات سن
میری حالتوں کو تو دیکھ لے
میرا حال پوچھ،بتا مجھے
میرے کس گناہ کی سزا ہے یہ؟
تو جنون ساز بھی خود بنا
مری وجہِ عشق یقین ترا
دلِ گمشدہ؟یہ وفا ہے کیا؟؟؟
اسے کس ادا میں لکھوں تو بتا
اسے قسمتوں کا ثمر لکھوں..؟
یا لکھوں میں اسکو دغا،سزا...؟
دلِ گمشدہ...دلِ گمشدہ
    رفتہ رفتہ یہ بیس دن پر لگا کے اڑ گئے۔آج وہ اٹلی سے واپس آرہا تھا۔صبح گیارہ بجے کی فلائٹ تھی۔ڈریسنگ فارمل تھی،سفید شرٹ پہ نیوی بلو کورٹ زیب تن کیا تھا۔جہاز کے دروازے تک پہنچ کے اس نے کورٹ کے بٹن کھول دیے۔کھلی فضاء میں سانسیں اندر اتاریں۔لبوں پہ پرتپش مسکراہٹ پھیلی تھی۔جسم میں سرشاری دوڑ گئی۔ماتھے پہ بکھرے بال چلتی ہوا کی وجہ سے تھوڑے اڑ رہے تھے۔وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا اور ساتھ ہی عزیز سے ہم کلام تھا۔
واپس آکے اسکا ارادہ رومائزہ سے فوراً نکاح کرنے کا تھا۔اب مزید وہ انتظار نہیں کرسکتا تھا۔
چھنچھاتی دھوپ کی تپتی کرنیں اسکے سرخ و سفید پاک چہرے پہ پڑ رہی تھیں۔میران نے آنکھوں پہ سن گلاسز چڑھا لیے۔
اور ائیرپورٹ سے وہ اپنی منزل کی طرف گاڑی میں بیٹھ کے بنگلے کیلئے روانہ ہوگیا۔زولفقار جاہ اسی کے منتظر تھے۔فرید نے ناشتے کے لوازمات سے ٹیبل سجا دی تھی۔ڈرائیور نے گاڑی پارکنگ میں روکی۔اسی کے پیچھے ہی تین چار حفاظتی گاڑیاں بھی رکی تھیں۔
کوٹ کندھے پہ ڈال کے وہ گاڑی سے اترا۔آگے سیاہ ہیلکس کھڑی تھیں۔یہ اسکی اپنی پسندیدہ گاڑی تھی جو اسکے ذاتی استعمال میں رہا کرتی تھی۔ایک نگاہ اسے بخشتا وہ سیڑھیاں چڑھ کے بنگلے کے اندر مخصوص چال چلتا ہوا داخل ہوا۔
ملازم اسکے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔سب کے سلام کا اجتماعی طور پہ جواب دیتا وہ اندر داخل ہوا۔زولفقار جاہ ہالف وائٹ کرتا شلوار میں ملبوس اس کو اندر آتا دیکھ کھڑے ہوگئے۔پر جوشی سے اسکا استقبال کیا۔موسم کافی بدلہ بدلہ تھا۔ٹھنڈ بھی ختم ہورہی تھی بہار کا موسم لگ چکا تھا۔
    "وہاں کے معاملات اب کیسے ہیں؟"ناشتے کے بعد لاؤنچ میں دونوں باپ بیٹا بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور دونوں کے صوفوں کے پیچھے شمس اور عزیز کھڑے تھے۔میران وہی اپنے شاہانہ انداز میں صوفے سے کمر لگائے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔
"سب انڈر کنٹرول ہے۔مینیجر کی لاپرواہی کی وجہ سے نقصان ہورہا تھا۔اکاؤنٹس میں گھپلا تھا۔اور پھر اسکے ساتھ اچانک حادثہ ہوگیا۔مینیجر تو اب ٹھیک ہے اور اس نے جو اٹلین کمپنی کے ساتھ معاہدہ طے کیا تھا میں نے ختم کردیا ہے۔اسی کی وجہ سے نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔"
زولفقار نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔وہ پیر ہلارہا تھا۔پھر انگوٹھے سے پیشانی رگڑی۔
"تمھاری امانت کا ہم نے بہت دھیان رکھا ہے۔اب تم آگئے ہو تو خود سنبھال لوگے اسے۔تم سے ایک کام ہے یلدیز کے ذریعے پیسے باہر بھجوانے ہیں پر وہ مان نہیں رہی میں چاہتا ہوں تم اس سے بات کرو اور سمجھاؤ مجھے یقین ہے تمھاری بات وہ ٹال نہیں سکے گی۔"مونچھوں کو تاؤ دیا۔عزیز نے چونک کے میران پہ نگاہ ڈالی اسکے جواب کا بےصبری سے انتظار کیا تھا۔جیسے وہ منع کردے گا۔
"ٹھیک ہے میں بات کرلونگا۔"
چہرے پہ سنجیدگی قائم تھی۔عزیز نے سرد آہ بھری۔
"ڈیل کافی اچھی ثابت ہوئی ہے۔اس لڑکی کے لیے میرا بیٹا اب میرے ساتھ کھڑا ہے۔"وہ مغرور ہوئے۔میران مسکرایا۔عزیز نے اس پہ سے نظر ہٹا لی۔اسکی تمام حرکات شمس ترچھی نگاہ سے نوٹ کر رہا تھا۔
                            ★ ★ ★
شام کے وقت میران فارم ہاؤس پہنچا۔اس نے اندر قدم رکھا۔لان میں ہی کھڑا تھا۔وہاں صرف خاموشی کا راج تھا۔ماتم سا سماں،باغ میں موجود چڑیائیں جو بہت چہچہاتی تھیں آج بلکل خاموش تھیں۔اسکے قدم بھاری ہوگئے۔اندر کی طرف اٹھ نہیں پارہے تھے۔وہ جانتا تھا وہ اسکی منتظر ہوگی کیسے اسکا سامنا کرے گا۔چیخے گی چلائے گی اور پھر کیا ہوگا....؟
ان بیس دنوں میں اسکی کمی اس نے بہت محسوس کی تھی۔نگاہیں دیدار کے لیے پیاسی تھیں۔ہمت کرکے وہ اندر آگیا ساتھ عزیز اور شمس بھی تھے۔
حلیمہ بی جو دال چن رہی تھی ٹرے سائیڈ میں کردی۔ان پہ سکتہ طاری ہوگیا تھا۔انکے پہلو میں فرش پہ بیٹھی رومائزہ گھٹنوں میں سردیے ہوئے تھی۔میران کے دل میں چنگاری سی لگی۔آنکھوں میں خود بخود سرخی اتری۔جبڑے بھینچ گئے۔
                            ★ ★ ★
      "آپ نے میری امانت کا خیال رکھا مجھے اچھا لگا۔تھوڑا خیال پہلے ہی کرلیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔"بیٹھے ہوئے اس نے طنز کیا۔
"مجھے ایک بات بتاؤ تم نے ایسا کیوں کیا؟تم نے یہی سب کرنے کے لیے مجھے روکا اور خود تم نے ہی اسے اسکے باپ سے دور کردیا۔"ماتھیں پہ شکنیں لائے وہ سوال کر رہے تھے۔میران کی سانس کی رفتار مدھم پڑ گئی۔عزیز جگہ پہ گڑبڑایا تھا۔
"کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔"وہ یقیناً انجان بن رہا تھا۔
شمس نے ساری روادار سنا دی۔جوں جوں وہ اسے بیس دن پہلے پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتاتا گیا میران کا چہرہ سفید پڑتا جارہا تھا۔وہ ہکا بکا جگہ سے کھڑا ہوگیا۔
"عزیز.."وہ باقاعدہ دھاڑا عزیز صوفے کے پیچھے سے اسکے سامنے آیا۔
"اس رات آپ نے ہی مجھے حکم دیا تھا کہ میڈم اب گھر نہیں جائینگی اب کافی غصے میں تھے۔"عزیز نے بنا ہچکچاہٹ کے اسے یاد دلایا۔وہ ساکت رہ گیا اس نے آنکھیں میچ لیں۔اسے وہ رات یاد آئی پھر اپنے لفظ۔
ایک نگاہ اس نے اپنے باپ پہ ڈالی جن کے عنابی لبوں کے کونے پہ مسکراہٹ دِکھ رہی تھی۔اسے وہ منظر بھی یاد آیا جب وہ چھت پہ کھڑا تھا۔اور نیچے عزیز اور شمس باتیں کر رہے تھے۔
"میں نے تم سے یہ نہیں پوچھا کے میں نے کیا کہا تھا۔گاڑی نکالو ہم فارم ہاؤس جائینگے۔"وہ الجھا ہوا نظر آیا تھا۔عزیز سر ہلا کے چلا گیا۔
"بابا سائیں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔غصے میں آکر میں نے اتنا سخت فیصلہ تو سنا دیا تھا پر اب احساس ہورہا ہے کہ کس قدر غلط فیصلہ کرچکا ہوں۔وہ نفرت کرے گی مجھ سے۔"جلدی میں کہتا وہ پلٹ گیا۔زولفقار نے شمس کو فوراً اسکے پیچھے بھیجا تھا۔
   پارکنگ میں جیسے کھلبلی سی مچ گئی تیزی سے دو تیں گاڑیاں بنگلے کا دروازہ عبور کرتی راستے پہ نکل گئیں۔
                             ★ ★ ★
  آہٹ پہ رومائزہ نے سر اٹھایا۔سامنے میران مجرموں کی طرح کھڑا تھا،اسکا سفید پڑتا چہرہ دیکھا۔وہ جگہ سے اٹھی اور اسکے مقابل جا کھڑی ہوئی۔ایک دم اسکا ہاتھ اٹھا تھا اور خاموشی کی دیوار توڑتا ہوا نیچے واپس آیا۔ماحول میں اچانک اسکے تھپڑ کی گونج گونجی تھی۔میران ٹھنڈا پڑ گیا۔وقت وہیں ٹہھر گیا۔حلیمہ بی جیسے ہوش کی دنیا میں واپس آئیں۔رومائزہ پھنکارتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی۔
"اب مجھ پہ اور غصہ آرہا ہوگا نا۔اب اس غصے میں آکے تم میرا گلا دبا دو۔"وہ جگہ پہ جامد رہ گیا۔اسکے ہاتھ کا لمس اسکے گال پہ تھا۔شمس بگڑے تیور کے ساتھ روما کی طرف لپکنے لگا عزیز نے اسے روکا۔
"اس لڑکی کی اتنی ہمت کہ سائیں پہ ہاتھ اٹھائے۔"شمس کی آنکھوں میں تیش تھا۔عزیز نے پھر بھی اس کو روکا۔
"یہ ان دونوں کا معاملہ ہے چپ کر کے کھڑے رہو۔"اس نے تنبیہہ کی۔شمس خاموش ہوگیا۔
"دباؤ میران میرا گلا دبا دو۔"بھپری ہوئی وہ چلائی۔
"چپ کیوں ہو،کچھ کہو گے نہیں کیا؟مل گیا سکون اپنی انا کو تسکین پہنچا کے؟میں تو ایک کھلونا ہوں جو دل میں آتا ہے ہر ایک میرے ساتھ اپنی مرضی کرتا ہے۔نا ہی تو میرے کوئی جذبات ہیں نا کوئی اہمیت۔"رومائزہ کا چہرہ آنسوؤں سے خشک تھا۔میران لا جواب کھڑا تھا۔وہ اسے اس حالت میں دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔اسے اپنے غصے کا اب احساس ہورہا تھا اور ندامت۔رومائزہ کے قہر کو آج وہ روکنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔
"بتاؤ میں کیسے کسی پہ یقین کر سکتی ہوں؟اس دن نہیں کیا مجھے غلطی کا احساس ہوا۔میں نے معافی مانگی پر تم نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا لی۔پھر میں نے تم پہ ہی بھروسہ کیا۔میری نظر میں تمھارے لیے عزت بڑھ گئی اور میرا اصل قصور یہی تھا تم پہ یقین کرنا۔سب پاش پاش کردیا تم نے میران۔"
"میری غلطی تھی جو تمھاری محبت کو سچ سمجھتی رہی۔فریبی محبت ہے یہ!میری غلطی جو تمھاری جانب راغب ہونے لگی دل نرم پڑگیا اور....."اسکا وجود ڈھیلا پڑ گیا۔لفظوں کو غصے سے ادا کرتے روانی میں وہ اعتراف کرنے لگی تھی۔جسم سے جان نکل رہی تھی۔تھوڑا پیچھے ہوئی۔میران کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
اس نے ہمیشہ اسکے اعتراف کا انتظار کیا پر اسے یوں سننے کو ملے گا ایسا تصور بھی نہیں کیا تھا۔
"بتاؤ میں کیسے تم پہ یقین کروں،کہہ دو تم نے نہیں کیا یہ سب۔کہو۔"سینے پہ اسکے ہاتھ مار کے اسے دھکیلنے کی کوشش کی۔میران کے لب پیوست ہوگئے۔اس نے اسکی نگاہوں میں دیکھا جہاں کرب ہی کرب تھا۔سانس لیتے اس نے سر اثبات میں ہلایا۔حلیمہ بی کو جو تھوڑی بہت امید تھی آج وہ بھی اسکے اعتراف کرنے پہ ختم ہوگئی۔انھوں نے افسوس سے اسے دیکھا وہ ان سے نظریں نہیں ملا سکا تھا۔وہ دل برداشتہ ہوگئیں۔
اسکے اقرار نے رومائزہ کے دل میں خنجر ہی گھونپا تھا۔وہ اسکے منہ سے سننا چاہتی تھی۔
اس نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جس میں ہیرے کی اسکی دی انگوٹھی اب بھی تھی۔اس نے اب تک اتار کے نہیں پھینکی تھی۔شاید دل میں امیدیں اسکے بھی زندہ تھیں۔
غصے میں اس نے انگھوٹی زبردستی کھینچ کے انگلی سے نکال کے اسکے سامنے پھینکی تھی۔انگوٹھی ماربل پہ گھومتے گھومتے گر گئی۔میران کا دل بند ہوا۔اس نے نزدیک آکر اسے تھامنا چاہا۔
"ہاتھ مت لگانا مجھے!میں نے کہا تھا مر جاؤنگی پر تم سے شادی نہیں کرونگی۔نہیں کرونگی میں نکاح۔تم جھوٹے ہو دھوکے باز ہو فریبی ہو۔"اسکی آنکھوں سے آنسوؤں ٹوٹ کے پھسلنے لگے وہ اسکے قدموں میں بیٹھتی چلی گئی۔میران جھٹکے سے پیچھے ہوا۔
"سنبھالو خود کو،میں غصے میں تھا۔"وہ اتنا ہی بول سکا۔رومائزہ نے اسکی بات کاٹی۔
"تو غصے میں آکے کچھ بھی کروگے۔تمھیں یہ اختیار کس نے دیا کہ کسی کا بھی اعتبار اپنے پیروں تلے روند دو؟کسی کی زندگی کے فیصلے کیسے کر سکتے ہو تم!اب غصہ نہیں آرہا کیا؟"میران گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔اس نے اسکی تھوڑی اٹھانے کی سعی میں ہاتھ بڑھایا تھا جسے وہ بری طرح جھٹک گئی تھی۔اگر وہ اسے یہاں روکنے کی غلطی نا کرتا تو اسے یقین تھا رومائزہ آرام سے نکاح کرلیتی۔
"نہیں۔کوئی حق نہیں مجھ پہ تمھارا۔"لہجہ انتہائی سخت تھا میران نے مٹھی بھینچ لی۔
"مجھے معاف کردو۔"
"تم نے معاف کیا تھا؟"وہ دوبدو بولی۔میران کو اس وقت بے حد ںے بسی محسوس ہوئی۔
"میرے بابا کو اتنا مجبور کردیا کہ وہ مجھے بیچ راستے میں چھوڑ گئے۔تم میری تکلیف سمجھ ہی نہیں سکتے۔تم نے مجھ سے کبھی محبت کی ہی نہیں۔یہ صرف تمھارا جنون اور ضد تھی۔تم ہو تو ایک جاگیر دار ہی اپنی غلام ہی تو سمجھ رکھا ہے مجھے.."اس نے ٹھنڈے ہاتھ فرش پہ جما کے رکھ دیے،وہ بکھر گئی تھی۔میران نے کالر کا بٹن کھولا۔اسکا دم گھٹنے لگا۔
"محبت کرنے کا دعوہ کرتے تھے نا۔مبارک ہو تمھاری انا محبت کے آڑے آکے جیت گئی۔بکھر گئی ہوں میں،پوری طرح توڑ دیا ہے تم نے۔اعتبار لفظ سے یقین ہی اٹھ گیا ہے میرا۔"آنسو کی بوند فرش پہ گری۔میران نے جبڑا کَس لیا۔
"اٹھو،تم گھر جا رہی ہو میں خود چھوڑ کے آؤنگا۔"
"اب اس سب کا کیا فائدہ....وقت تو نکل گیا۔گھر تو میں جاؤنگی پر جو تمھارے دماغ میں مزید فطور چل رہا ہے اب میں وہ ہونے نہیں دونگی۔اور تمھارے ساتھ تو ہر گز نہیں جاؤنگی۔"آنسوؤں سے تر چہرہ اس نے ہاتھ سے صاف کرتے کہا۔پیر اسکے بے جان ہورہے تھے۔وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔میران کی ملامتی نگاہوں نے اسکا جائزہ لیا۔
یہ وہ رومائزہ شنواری کہاں تھی جسے وہ چھوڑ کے گیا تھا۔آنکھوں کے گرد ہلکے،کمزور پڑتا جسم۔
میران کی نگاہ فرش پہ پڑے اسکے دوپٹے پہ گئی۔اسکی رگیں تنی تھیں فاصلے پہ ہی اسے عزیز اور شمس محسوس ہوئے تھے۔اس نے دوپٹہ اٹھا کر اسکی پشت سے گزار کے اسکے شانوں پہ پھیلا دیا اور اسکے پلو تھامنے کے لیے چھوڑ دیے۔وہ چبھتی نگاہ سے اسے دیکھتی رہی۔
"اس سارے ڈھونگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا تمھیں۔"اس نے پلو تھام لیے۔میران نے لب پیوست کیے۔چہرے کے تاثرات پتھریلے تھے۔پر آج اس نے اس پہ زرا غصہ جو کیا ہو۔کیونکہ اس بار غلط وہ تھا رومائزہ نہیں۔
"عزیز میڈم کو انکے گھر چھوڑ آؤ۔"
اسکے حکم کے تابع عزیز باہر کی طرف بڑھنے لگا مگر رومائزہ نے اسکے پیروں میں زنجیریں ڈال دی تھیں۔
    "نہیں انکے ساتھ بھی نہیں جاؤنگی۔سب میرے دشمن ہیں۔میں خود چلی جاؤنگی۔"اسکا پتھریلا چہرہ ہر نرمی سے پاک تھا۔حلیمہ بی اب اٹھ کے اس کے پاس آئیں۔
"میران جاہ تمھارے اور میرے راستے جدا ہیں۔کوشش بھی مت کرنا پھر میری زندگی میں آنے کی۔یا تو تمھیں جان سے ماردونگی یا خود مرجاؤنگی۔سب ختم۔"
اسکے قریب جاکے اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے اس نے حتمی فیصلہ سنا دیا۔صرف فیصلہ نہیں تھا میران کی موت کا فرمان تھا۔اس نے نفی میں سر ہلایا۔"اب صرف نفرت ہے مجھے تم سے۔بے حد!"کہتے ساتھ وہ اسکے سائیڈ سے گزر گئی۔میران نے کڑے ضبط سے آنکھیں موند لیں وہ جیسے اسکی سانسیں چھین کر جا رہی تھی۔
"حلیمہ بی اسکے ساتھ گارڈز بھیجیں۔"ان سے بنا نظریں ملائے اس نے کہا۔رومائزہ کے پیچھے ہی وہ گئی تھیں۔
آج پھر اس نے یہ دہلیز پار کی پر جذبات بدل گئے تھے۔
محبت نرمی سب ختم ہوگئی تھی۔احساسات مر چکے تھے۔اب صرف نفرت تھی جو اسکا تن من جلا رہی تھی۔حلیمہ بی کے اسرار پہ وہ گارڈ کے ساتھ جانے پہ راضی ہوگئی تھی۔ایک بار اکیلے بھاگنے کا انجام بھی ذہن میں بری یاد بن کر آیا تھا۔وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔حلیمہ بی نے گارڈز اور ڈرائیور کو مخصوص تنبیہہ کی تھی۔
اسکے جانے کے بعد میران اپنی جگہ سے ہل نا سکا تھا۔
"چھوٹے سائیں آپ نے نہ صرف اسکا دل توڑا ہے میرا بھرم بھی ٹوٹا ہے۔ان دنوں میرے پاس اسکو دینے کے لیے تسلی کے لفظ تک نہیں تھے۔کس منہ سے اسے صبر کرنے کا کہتی۔آپ نے ثابت کردیا ہے آپ زولفقار سائیں کے ہی بیٹے ہیں۔سخت اور پتھر دل۔"وہ اسکے مقابل کھڑی ہوگئیں۔میران شدید پریشان تھا۔وہ عزیز کی طرف گھوما۔
"تم نے اسکے بعد ایک بار بھی مجھ سے پوچھا؟میں نے تم کو پہلے ہی کہہ دیا تھا جانے سے پہلے اسے گھر بھجوادینا اس پہ تم نے سو سوال کیے تھے۔اور یہاں فوراً تم نے عمل کرلیا۔غصے میں آکے میں تو بکواس کرگیا تھا۔تم ہی مجھے روک لیتے۔"وہ عزیز پہ دھاڑ رہا تھا۔شمس اور عزیز دونوں ہی جذبذب ہوگئے۔رومائزہ کے الزامات سن کے اس دن عزیز کو غصہ بے حد آیا تھا۔اور اس نے بھی کچھ سوچا سمجھا نہیں تھا اور شمس کو اس بارے میں خبر کردی تھی۔اور ایک دن کے وقفے سے ہی وہ اٹلی گئے تھے۔
"سائیں اسکا کیا قصور،یہ مردوں کی انا ہی ایسی ہوتی ہے کچھ سوچتی سمجھتی نہیں۔اسکو بھی میں اچھے سے سمجھتی ہوں۔"انھوں نے عزیز کی طرف اشارہ کیا۔وہ نادم سا کھڑا تھا۔
"اب پچھتانے سے کیا فائدہ۔"حلیمہ بی نے طنز کیا۔میران نے خالی خولی نگاہوں سے انھیں دیکھا۔جہاں ہمیشہ اسکے لیے پیار تھا آج وہ آنکھیں بے تاثر تھیں۔
"سائیں کیوں پریشان ہوتے ہیں۔آپ اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں کرلیے گا آپ کو کون روکے گا۔"
"شمس دفع ہوجاؤ یہاں سے۔"وہ بری طرح سے دھاڑا۔عزیز نے مداخلت کی۔اس نے اسے بھی نکل جانے کو کہا تھا۔
فارم ہاؤس کے در و دیوار اس حادثے کے گواہ تھے۔حادثہ ہی تو تھا جو سب برباد کر چکا تھا۔میران صوفے پہ پریشان سا بیٹھ گیا۔حلیمہ بی نے ناگواری سے اسے دیکھا اور کچن میں چلی گئیں۔اس نے سر اٹھایا اسکے سامنے پانی کا گلاس رکھا تھا۔اس نے ایک سانس میں اندر لگی آگ کو بجھانے کے لیے پانی گٹا گٹ پی لیا۔آگے اب کیا کرنا تھا وہ یہی سوچ رہا تھا۔سب سے پہلے تو شنواری صاحب سے اسکا ملنے کا ارادہ تھا۔وہ اپنی محبت کو دور جاتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ضد تھی ضد ہی سہی۔رومائزہ شنواری سے محبت بے پناہ تھی،اسے بھولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
                            ★ ★ ★
مراد کو فارم ہاؤس کا ایڈریس پتا لگ گیا تھا۔اس نے وہاں چھاپہ مارنے میں دیر نہیں کی۔اپنی جیپ نکالی اور کچھ حوالداروں سمیت وہاں کے لیے روانہ ہوگیا۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کرکے آخر وہ منزل کو پہنچ گیا تھا۔اسکا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔باہر گارڈز نے اسے روکنے کی کوشش کی پر وہ بنا کچھ سنے ہی اندر کی طرف بڑھتا گیا۔کافی عالیشان فارم ہاؤس تھا۔کسی عام شخص کا تو نہیں ہوسکتا تھا۔یہ جگہ ہر ایک کہ علم میں تھی بھی نہیں اسے بھی ایڈریس معلوم کرنے میں کافی مشکل پیش آئی تھی۔اسی میں وقت لگا تھا۔
حوالدار باہر کی طرف پھیل گئے اور ایک حوالدار اسکے ساتھ اندر آگیا۔اندر بلکل سناٹا تھا۔ایک خاتون اسکے پاس چلی آئیں۔
"جی فرمائیے کیسے آنا ہوا؟"انھوں نے اپنے سر کا دوپٹہ درست کیا۔
"اماں جی ہمیں یہاں کی تلاشی لینی ہے۔خبر ملی ہے یہاں ناجائز کام ہوتے ہیں۔آپ پلیز کاپریٹ کریں۔"وہ کہتا آگے بڑھنے لگا۔
"ایک منٹ آفیسر،آپکو کس نے کہا یہاں ناجائز کام ہوتے ہیں؟میں یہاں کی مکین ہوں اور ادھر میرے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا۔"وہ کاٹ دار لہجے میں مخاطب ہوئی۔
"جو بھی ہے تلاشی تو ہم لیں گے۔"اس نے حوالدار کو اشارہ کیا اور انکو تلاشی کے وارنٹ دکھائے۔تب جاکے وہ خاموش ہوئی تھیں۔حلیمہ بی سمجھ گئیں تھیں وہ کیوں آیا ہے۔کافی دیر اسے غور سے دیکھتی رہیں چہرے پہ کسی کی شبہات تھی۔اس چہرے پہ سے وہ نگاہ ہٹا نہیں سکیں۔حوالدار ناکام لوٹ آیا۔تین حوالدار مزید اندر آئے۔
"سر کونا کونا چپا چپا چھان مارا ہے پر کچھ نہیں ملا۔نا ہی ایسے سوراخ جو شک پیدا کریں۔"
"ہاں تو یہاں ایسا کچھ ہوتا ہی نہیں تو کیسے کچھ ملے گا۔آفیسر آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔آپکو کسی نے خبر ہی غلط دی ہے۔"انکے سخت لہجے پہ مراد نے کنپٹی سہلائی۔
"میں معذرت چاہتا ہوں آپکو تکلیف ہوئی۔پر یہ ہمارا کام ہے چھان بین کرتے رہنا۔"وہ لب ملا کے کہتا حوالداروں کو اشارہ کرتا نکل گیا۔
اسکے جانے کے بعد حلیمہ بی نے کھل کے سانس لی۔
اسکے آنے سے پہلے ہی میران گیا تھا اور تو اور اگر یہاں رومائزہ موجود ہوتی تو قیامت برپا ہوجانی تھی۔
                             ★ ★ ★
       مراد کشمکش کا شکار جیپ میں بیٹھ گیا حوالدار نے جیپ سڑک پہ دوڑا دی۔یہ بھی تو ہوسکتا تھا اس لڑکی کو اس نے یہاں سے پہلے نکال لیا ہو۔یا پھر طفیل نے جھوٹ کہا۔
"سر طفیل کہیں جھوٹ تو نہیں کہہ گیا؟"
"نہیں...اماں جی کا اتنا کانفیڈنٹ ہونا بتا رہا ہے وہ لڑکی یہاں تھی،انھیں میرے آنے کی خبر تھی۔پر اصل بات کیا ہے وہ ابھی تک پردے میں ہے۔"مراد نے ہاتھ ٹانگ پہ رکھ لیا تھا۔
"سر انشاء اللہ یہ پردہ ہم ہٹا دینگے۔"حوالدار پر امیدی سے بولا۔مراد نے سر اثبات میں ہلایا۔
"میران اب تم سے ملنا پڑے گا تب ہی مجھے میرے سوالوں کے جواب ملیں گے۔"سوچوں کے گھیرے سے وہ باہر نکلا۔موبائل کی گھنٹی بجی۔اس نے کال ریسوو کی۔
"کہو۔"فون کان سے لگا لیا۔سب کے درمیان عائشے کا نام لینے سے اس نے گریز کیا تھا۔
"مراد آپ کب آئینگے؟"
"کیوں کیا کام ہے؟"وہی روکھا سوکھا انداز۔عائشے تلملا گئی۔اپنی ڈیوٹی کے وقت یہ آدمی بلکل ہی بدل جایا کرتا تھا۔
"بات کرنی ہے آپ سے۔"وہ منمنائی۔
"اگر وہی دائم علی والا ٹاپک ہے تو مجھے کچھ نہیں سننا۔"اس نے صاف انکار کیا۔
"آپ کو میری بات سننی پڑے گی۔"وہ ڈھٹائی سے ضدی انداز میں بولی۔مراد نے سڑک کے پار دیکھا۔
"فون رکھ رہا ہوں...گھر آکے بات کرونگا۔"فون کٹ کردیا۔ادھر وہ ہیلو ہیلو ہی کرتی رہ گئی۔
"نو چانس۔"نیمل اسکے سامنے بیٹھی تھی۔عائشے کے کہنے پہ اسکا چہرہ بجھ گیا۔دائم کے پرپوزل کے بعد وہ تھوڑا سخت ہوگیا تھا۔
"تمھیں دائم پسند ہے نا؟"عائشے نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔نیمل نے سر ہلادیا۔
"یہ بات آپ کسی کو نہیں بتائیں گی آپ کے پاس میرا یہ راز رہے گا۔پتا نہیں کب کیسے میرا دل انکی جانب راغب ہوگیا۔میں نے اس بات کو خود سے بھی بہت چھپا رکھا تھا۔"آڑھی مانگ سے نکلے بال اس نے دوسری طرف کیے۔
"اگر دائم میں کوئی خرابی نہیں ہے تو میں مراد کو راضی کرنے کی پوری کوشش کرونگی۔"اس نے نیمل کو جیسے یقین دلایا۔وہ مسکرادی۔
"اچھا چلو اٹھو۔صبح سے میرا دل خراب ہورہا ہے۔باہر واک پہ چلتے ہیں۔"دوپٹہ تکیے کے اوپر سے اٹھا کر وہ کھڑی ہوگئی اور اسے بھی زبردستی کھڑا کرلیا۔
                           ★ ★ ★
یہ چند گھنٹوں کا سفر اسے بے حد طویل لگا تھا۔اس بار گھر جانے کے لیے کوئی بے تابی نہیں تھی۔اسے تو اپنے باپ سے بھی جواب لینے تھے کیوں اسے آدھے راستے میں چھوڑ کے چلے گئے؟بیٹی سے زیادہ اور کیا ضروری تھا!
اس نے اپنا حلیہ تک درست نہیں کیا تھا۔بکھری ہوئی حالت میں بیٹھی تھی۔الجھے ہوئے بھورے بال،سیال سے خشک آنکھیں شانوں پہ دوپٹہ پھیلا جسے آگے سے پلوؤں سے تھاما ہوا تھا۔
اس نے باہر نگاہ ڈالی جانا پہچانا راستہ بلآخر آہی گیا تھا۔وہی رستے جہاں وہ دوڑی دوڑی پھرتی تھی۔
"بس یہیں روک دو۔"اپنے گھر سے کچھ فاصلے پہ اس نے گاڑی روکنے کا کہا۔ڈرائیور نے اسپیڈ سلو کردی۔
"آپکو گھر تک چھوڑ کے آنے کا حکم ہے۔"
"میرے پیر سلامت ہیں میں خود چلی جاؤنگی۔"وہ کاٹ کھانے کو آئی۔گارڈ کے اشارے پہ ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔
"ٹھیک ہے۔"
وہ گاڑی سے اتر گئی۔گارڈ اور ڈرائیور دونوں کی نگاہوں نے اسکا تعاقب کیا۔پھر گاڑی سے اتر کے اسکے پیچھے چل دیے۔وہ چلتے چلتے کالونی کے دروازے پہ پہنچ گئی تھی۔نا چاہتے ہوئے بھی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں۔اسے تو لگتا تھا وہ کبھی یہاں واپس نہیں لوٹ سکے گی جیسے امید ہی ہار گئی تھی۔زندہ لاش بن کے اس نے بیس دن کاٹے تھے۔
گارڈز اسکے پیچھے کالونی تک آئے۔وہاں تو سناٹا پڑا تھا۔وہ گھر تک جا چکی تھی۔گارڈز کو تسلی ہوئی تو دونوں واپس مڑ گئے۔
چھوٹی سی راہداری کے بعد اپارٹمنٹ کا مین دروازہ تھا۔اس نے بھاری دل سے بجانا شروع کیا۔بیل بھی بجائی۔
رومائزہ کا جسم کانپ رہا تھا۔گھر کی دہلیز کے پار کھڑے بے چینی بڑھ سی گئی۔اس نے بے ساختہ دل کے مقام پہ ہاتھ رکھ کر ضبط کیا۔کچھ دیر بعد دروازہ اندر کی طرف کھلا۔کسی اجنبی کو دیکھ کر وہ چونکی۔
"جی آپ کون؟"مقابل نے سوال کیا۔رومائزہ کے ماتھے پہ ان گنت بل پڑے۔
"میں رومائزہ ہوں۔احتشام شنواری کی بیٹی۔بابا کدھر ہیں۔اور آپ کون ہیں؟"اس آدمی کو اس لڑکی کی عقل پہ شبہ ہوا۔
"میں اب اس گھر کا ملک ہوں۔شنواری صاحب آپکے والد نے یہ گھر سیل کردیا ہے۔"اس آدمی نے جیسے اسکے علم میں اضافہ کیا۔رومائزہ کا دل تیزی سے دھڑکا۔
"میرے بابا کہاں ہیں؟انھوں نے کب سیل کردیا یہ گھر؟"وہ حیران و پریشاں ہوگئی۔زولفقار جاہ نے اسے بتایا تھا میران نے انھیں اپارٹمنٹ سیل کرنے سے روک دیا تھا۔پھر اب کیوں بیچا گھر؟اب تو قرضا بھی اتر گیا تھا۔وہ کڑی سے کڑی ملانے لگی۔اتنے میں کالونی کہ ایک دو لوگ جمع ہوگئے۔
"توبہ یہ لڑکی باپ کے مرنے تک پہ نہیں آئی اب یہاں کیا لینے آئی ہے!"دو خواتین نے آپس میں گفتگو شروع کردی۔رومائزہ نے پلٹ کے انھیں دیکھا۔
"یہ کیا بکواس کر رہی ہیں آپ۔میرے بابا کہاں ہیں؟"وہ الٹا ان پہ چڑھ دوڑی۔دوسری خاتون نے بڑی مشکل سے اسے ان پہ سے ہٹایا۔شور کی آواز پہ کالونی کے مزید لوگ جمع ہوگئے۔بھیڑ بڑھتی گئی۔اب منظر یہ تھا راہداری کی بجائے وہ کالونی کے درمیان میں کھڑی تھی۔نیا مالک مکان بھی وہیں تھا۔
"بابا مجھے چھوڑ کے نہیں جاسکتے۔آپ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔"پھڑپھڑاتے لبوں سے اس نے لفظ ادا کیے۔ہونٹوں پہ انگلیاں جما لیں۔اردگرد جمع لوگ افسوس سے اسے دیکھ رہے تھے۔کسی کی نگاہوں میں ترس تو کسی کی نگاہوں میں ناگواری تھی۔
"تمھارے ناٹک پہ کون یقین کرے گا۔مجھے لگتا ہے احتشام بھائی اسی کی ٹینشن میں چلے گئے۔یہ یقیناً بھاگ گئی ہوگی وہ بے چارے اپنی عزت بچانے کے لیے کہانیاں ہی گڑھتے رہے۔"
"چچچ کیا زمانہ آگیا ہے۔اکلوتی بیٹی تھی وہ بھی جنازے میں موجود نا تھی۔"ہجوم میں طرح طرح کی باتیں بننے لگیں۔اسکے کردار کو داغ دار کہا جا رہا تھا۔یہ وہی لوگ تھے جن کے ساتھ ایک عرصہ وہ رہی۔سب بدل گئے تھے۔وہ نہیں رہے جو اس پہ جان نچھاور کرتے تھے۔کسی کی ذات پہ کیچڑ اچھالنا کیا آسان ہوتا ہے؟وہ تو بہت آسانی سے کر چکے تھے۔اسکا دل ریزہ ریزہ ہوگیا گہرا صدمہ لگا تھا۔لوگ مسلسل آپس میں باتیں کرتے رہے پر وہ اب کسی کی سن نہیں رہی تھی نا ہی اس نے اپنی کوئی صفائی پیش کی۔کیا بتاتی اغوا ہوگئی تھی؟کس مشکل میں پھنس چکی تھی؟یا کوئی امیر زادہ اس پہ دل ہار بیٹھا تھا؟بے قصور ہوکے بھی سزا کاٹ رہی تھی..!آنسوؤں کی قطار چھونٹ گئی،حلق بھر آیا۔وہ سناٹے میں کھڑی تھی۔بابا اسے اکیلا چھوڑ گئے؟اس نے انکا چہرہ تک نہیں دیکھا۔غم کی شام بہت لمبی تھی۔سورج ڈھلنے کو آیا تھا۔
   کھوئی کھوئی سی وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی کالونی سے باہر نکل گئی۔پست پشت لوگوں کا شور تھا جو اسے سنائی نہیں دے رہا تھا۔وہاں کھڑے فریقین نے اسکی پشت دیکھی۔اسے جاتے دیکھا اور پھر سب شانے جھاڑ کر گھروں میں چلے گئے۔
اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔جسم ٹھنڈا پڑ گیا رونے سے آنکھیں جل رہی تھیں۔وہ یقین ہی نہیں کر رہی تھی کہ احتشام شنواری اب دنیا میں نہیں رہے۔سر چھپانے کو چھت تو اب رہی نہیں تھی،باپ کا سایہ بھی چلا گیا وہ یقین ہی نہیں کرسکی...اس نے جھٹکے سے سر نفی میں ہلایا۔آنسوؤں پونچھے۔دل ڈوبے جارہا تھا۔سمجھ نہیں آرہا تھا جائے تو جائے کہاں؟اتنے عرصے کدھر تھی سب کو کیا جواب دے گی۔پہلے ہی اسکی غیر موجودگی پہ لوگوں نے اتنی باتیں گڑھ لی تھیں۔
وہ خالی سڑک پہ چلتی گئی۔بہار کا موسم تھا پر اسکی زندگی سے بہار جیسے رخصت ہی ہوگئی تھی۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ہڈیوں میں گھسنے لگی۔
وہ چلتے چلتے کدھر پہنچ گئی تھی اسے خود بھی علم نہیں ہوا۔شام سے رات ہوگئی۔سڑکوں پہ اسٹریٹس لائٹس جل رہی تھیں۔
خیالوں میں گم سی وہ آگے بڑھ رہی تھی۔بھوک کا احساس بھی ہوا تھا۔درد سے سر پھٹنے کو تھا۔آنکھیں بند ہورہی تھیں۔بے بسی ہی بے بسی تھی۔کدھر جاتی۔
قدم جب بے جان ہوگئے تو وہ کنارے پہ بیٹھ گئی۔یہ پل تھا جدھر وہ موجود تھی۔
دوپٹے کو اس نے اچھے سے پھیلایا ہوا تھا سمٹ  کر بیٹھ گئی۔پورا جسم دکھنے لگا تھا۔چل چل کر پیر الگ شل ہوگئے۔گرم سیال اشکوں سے بہہ نکلے۔تر چہرہ اس نے اٹھایا سامنے گاڑیاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔دھول اسکی سانسوں میں جب شامل ہوئی تو اسکا سانس اکھڑا وہ بری طرح سینے پہ ہاتھ رکھ کے کھانستی گئی۔
اسے کچھ ہوش نہیں تھا پھر پھندا رکا تو اٹھ کھڑی ہوئی چلنے لگی۔وہ پل کے کنارے پہ چل رہی تھی۔باؤنڈری پہ اٹھی دیوار کچھ جگہوں سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ناک کی سیدھ میں ہاتھ بازو پہ لپیٹے سر جھکائے چلے جا رہی تھی کہ چپل پتھر سے ٹکرانے پہ اسکا توازن بگڑا سہارے کے لیے جب دیوار پہ ہاتھ رکھنے کی کوشش کی ادھر کچھ نہیں تھا۔وہ بلندی پہ کھڑی تھی۔
نیچے گرتا ہوا وجود تھا،دل خراش چیخ بر آمد ہوئی۔
پر کوئی جیسے اس پہ نظر رکھے ہوئے تھا جب اسے گرتے دیکھا تو فوراً گاڑی کے پاس سے ہٹ کے اسکی مدد کے لیے بڑھا۔اور اسکا ہاتھ تھام لیا۔وہ ہوا میں جھول رہی تھی۔اسکا ہاتھ اس اجنبی کے ہاتھ میں تھا۔آنکھوں میں بے یقینی اتر آئی۔وہ تو کلمہ پڑھ چکی تھی۔گہری گہری سانسیں لینے لگی۔گردن موڑ کے نیچے دیکھا۔نیچے چلتا ہوا روڈ تھا۔اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔
                جاری ہے.....
Ehmmm...guess krein agy kia hoga!
Comments mai raye ka izhar lazmi krna hai..or vote krna mat bholein..
Meeran ny waqi bht bura kia romaiza k sath:(//
   

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now